عثمان غنی کا ہزار اونٹ صدقہ کرنے پر عبداللہ بن عباس نے خواب میں نبی کریم ﷺ کو عثمان غنی کے نکاح میں گھوڑے پر جاتے دیکھنے والی روایت کی تحقیق درکار ہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
یہ بات علامہ محب الدین الطبریؒ (المتوفی694 ھ ) نے اپنی کتاب "الرياض النضرة في مناقب العشرة " میں بغیر کسی اسناد نقل کی ہے ،لکھتے ہیں :
قال عبد الله: فبت ليلتي فإذا أنا برسول الله -صلى الله عليه وسلم- في منامي وهو على برذون أشهب يستعجل وعليه حلة من نور وبيده قضيب من نور وعليه نعلان شراكهما من نور، فقلت له: بأبي أنت وأمي يا رسول الله لقد طال شوقي إليك، فقال صلى الله عليه وسلم: "إني مبادر؛ لأن عثمان تصدق بألف راحلة، وإن الله تعالى قد قبلها منه وزوجه بها عروسا في الجنة، وأنا ذاهب إلى عرس عثمان" خرجه الملاء في سيرته.
(الرياض النضرة ج3 ص44 )
سیدنا عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں : میں رات کو سویا تو خواب میں رسولِ اکرم صلى الله علیہ وسلم کی زیارت کی،آپ ایک سفید چمکدار گھوڑے پر سوار تھے ،اور بڑی جلدی میں نظر آرہے تھے ، آپ نے نور کی چادر پہن رکھی تھی ،مبارک ہاتھوں میں نور کی چھڑی اور پاؤں مبارک میں جو نعلین تھے، ان کے تسمے بھی نورانی تھے۔میں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ صلى الله علیہ وسلم پر قربان یارسول اللہ ! آپ کی طرف میرا شوق بڑھتا جاتا ہے۔نبیِّ اکرم صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا:میں جلدی میں ہوں،عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار(1000) اونٹ کا (اناج وغیرہ سے لدے ) صدقہ کیا ہے۔اللہ کریم نے عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ عمل قبول فرماکر جنّتی حُور سے ان کا نکاح فرمایا ہے۔اور میں اس شادی میں جا رہا ہوں ۔))
اس روایت کو " الملا " نے اپنی کتاب " سیرۃ " میں نقل کیا ہے ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
علامہ محب الطبریؒ نے اس روایت کیلئے " الملا " کی سیرت کی کتاب کا حوالہ دیا ہے
اور "الملا " سے مراد :
ابو حفص عمر بن محمد الموصلی "الملائی " ہے
یہ سلطان نور الدین زنگی شہید (569 ھ) کے دور کا عالم تھا ، جس نے سیرت پر کتاب لکھی ،
اور حاجی خلیفہ "کشف الظنون " میں لکھتے ہیں :
" وسيلة المتعبدين "للشيخ، الصالح: عمر بن محمد خضر الإربلي، الملاوي.
المتوفى: سنة ...وهو الذي كان يعتقده: نور الدين الشهيد.
یعنی ۔۔وسیلۃ المتعبدین ۔۔ نامی کتاب شیخ عمر بن محمد موصلی اربلی نے لکھی ہے ،
اور سلطان نورالدین زنگیؒ اس عالم کا بڑا احترام کرتے تھے "
اور امام ابن تیمیہؒ اس کے متعلق فرماتے ہیں :
ولم نذكر من لا يروي بإسناد - مثل كتاب (وسيلة المتعبدين لعمر الملا الموصلي وكتاب (الفردوس لشهريار الديلمي وأمثال ذلك - فإن هؤلاء دون هؤلاء الطبقات؛ وفيما يذكرونه من الأكاذيب أمر كبير.
مجموع فتاوى شيخ الاسلام (261-1)
یعنی ہم ان کتابوں کا حوالہ اور ذکر نہیں کرتے ،جن میں اسناد کے بغیر روایات بیان کی گئی ہیں ، جیسے ملا عمر موصلی کی کتاب وسیلۃ المتعبدین " اور علامہ دیلمی کی کتاب " مسندالفردوس " اور ان جیسی دیگر کتب جن میں منقول جھوٹی روایات بہت بڑا معاملہ ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاصہ یہ کہ :
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب یہ روایت بالکل قابل اعتبار نہیں ، یہ چھٹی صدی کے ایک عالم نے بغیر سند و حوالہ لکھ دی ہے ۔