• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عقائد ِدین بھی ارتقائی ہیں

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
توضیح مفہومات۔ آیاتِ قرآنی

کیا عقائد ِدین بھی ارتقائی ہیں
تحریر: ڈاکٹر علی محمد الصلابی

اُردو استفادہ: عائشہ جاوید

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَاللّهُ يَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (البقرہ: 213)
ابتداءمیں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے۔ (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے، جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روئی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہو گئے تھے، ان کا فیصلہ کرے۔ اختلاف ان لوگوں نے کیا جنہیں حق کا علم دیا جا چکا تھا۔ انہوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس لئے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے۔ پس جو لوگ انبیاءپر ایمان لائے۔ انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھایا، جس میں ان لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے“۔
ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا، ”کیا آدم علیہ السلام نبی تھے؟“
آپ نے فرمایا: ”بے شک“۔
کہنے لگا، ”ان کے اور نوح علیہ اسلام کے مابین کتنا عرصہ گزرا؟“
فرمایا: ”دس قرن“ (یعنی دور) [SUP](1)[/SUP]
علم بشریات کے بڑے سے بڑے ماہرین، فلسفہ علم الانسان جیسے موضوع پر عمر بھر عرق ریزی کرنے کے باوجود اس انداز سے دریا کو کوزے میں بند نہیں کر سکتے، جیسا کہ مذکورہ بالا آیات مبینات میں اس ذات بابرکت نے کردیا، جو علیم بھی ہے اور خبیر بھی۔ بلاشبہ یہ صرف اسی کلام کا خاصہ ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام ادوار اور تمام انسانوں کیلئے سید المرسلین خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا تاکہ روز محشر حق کی طرف رجوع کرنے والوں کیلئے بینائی ودانائی کا منبع قرار پائے۔ خیر البشر کے قول سے بھی اس کی توثیق کرا دی گئی اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لبوں سے حق و صواب کے سوا کوئی بات نہیں نکلتی۔
تاہم اپنی روایتی ہٹ دھرمی کے پیش نظر مغربی محققین کی ایک بڑی تعداد یہ موقف رکھتی ہے کہ بنی نوع انسان کو یکبارگی ہی ان تمام دینی عقائد سے آگہی حاصل نہ ہوئی تھی جنہیں وہ آج ضابطہ حیات کا نام دیتی ہے، بلکہ یہ کئی صدیوں پر محیط ایک طویل ارتقائی عمل سے بتدریج گزر کر ان تک پہنچے ہیں۔
یہ امر قطعاً باعث استعجاب نہیں کہ ایسے مضحکہ خیز حقائق ان ’اصحاب علم‘ کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں جو وحی کے اس نور سے بے بہرہ ہیں جو نہایت صراحت کے ساتھ دلنشین پیرایہ بیان میں واضح طور پر انسانی تاریخ اور فکر کی ابتدا کے اسلامی نقطہء نظر کو روز روشن کی طرح عیاں کر دیتا ہے، البتہ جو بات ہمیں ورطہءحیرت میں ڈالے ہوئے ہے، وہ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ان دلائل عظمی کا پرچار کرنے میں خود ہمارے بعض ارباب فکر ودانش ان نام نہاد محققین کی مکمل تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ اس پر مزید ستم یہ کہ ہمارے ان بھائیوں میں سے چند ہونہار نکتہ دان ایسے بھی ہیں جو وحی الٰہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہو کر موتی چننے کی بجائے اپنے تئیں یہ کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ آخر عقیدہء اسلامی کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟؟؟
ان حضرات کے مطابق ابتدائی آفرینش سے ہی نسل انسانی کے طرز حیات کا عقائد اور مادی ترقی سے گہرا ربط وتعلق رہا ہے۔ عقائد اور مادیت کی باہمی مطابقت پر زور دینے کے باوجود وہ یہ بیان کرنا بہرحال ضروری خیال کرتے ہیں کہ اس واشگاف حقیقت سے فرار ممکن نہیں کہ سائنسی علوم کی نسبت مذہب کی حقیقت کا سراغ پانے کیلئے کی جانے والی بشری کاوشیں بہرحال زیادہ محنت طلب اور طویل المیعاد ہی ہیں۔ توجیہاً، وہ یہ استدلال وضع کرتے ہیں کہ مطلقاً کسی لافانی ہستی کے ازلاً وابداً موجود ہونے کا تصور مادی دُنیا کی چند مخصوص پیچیدگیوں سے کہیں وسیع تر، وضاحب طلب اور دقیق موضوع ہے۔
چنانچہ سالہا سال تک سر کھپائی کر کے یہ اس نتیجے پر پہنچ پائے ہیں کہ کفر والحاد اور شرک کو لادینیت سے منسوب کر دینا سراسر کم علمی بلکہ زیادتی ہے!! اب اس میں بیچارے ملحدین کا کیا قصور کہ وہ جس راز کو پا نہیں سکے، وہ دراصل کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور جس کو احاطہء خیال میں لانے کیلئے طویل مہلت درکار ہونا بہرحال ایک ”فطری“ امر ہے!! اپنی ابحاث کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے وہ اوائل زمانہ میں ادیان وعقائد کی ابتداءپر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف آراءکا اظہار کرتے ہیں۔ کہیں شجر وحجر کو تقدس کی علامت گردانا جاتا ہے، تو کہیں تناسخ ارواح کا گمراہ کن عقیدہ غالب نظر آتا ہے اور کچھ دوسرے محققین قوانین فطرت کے آگے انسانی بے بسی کو عقائد کے معرض وجود میں آنے کا سبب بتاتے ہیں۔
بدقسمتی سے مذکورہ بالا خرافات اور ان کے ساتھ ساتھ مغرب سے مستعار لئے گئے مجوزہ نظریات کی اسلامی دُنیا میں نشر واشاعت کے سلسلے میں ہر اول دستے کا کردار بڑی حد تک ہمارے بعض مسلم مولفین نے ادا کیا ہے۔ ہمارے خیال میں ضلالت کی اس دلدل میں گرجانے کا موجب غالباً ان کی یہ غلط فہمی ہے کہ عامۃ الناس نے بغیر کسی رشد وہدایت کے انفرادی تگ ودو سے دین کی روح تک رسائی حاصل کی ہے۔ لہٰذا اس باطل نظریے کے پس منظر میں وہ خود کو یہ سوچنے پر مجبور پاتے ہیں کہ یہ سعی اسی نوعیت کی ہونی چاہیے جیسی کہ سائنسی میدان میں ہوئی جس کی بدولت بتدریج نئے افق تلاش کئے گئے۔
مزید برآں ان کی تحقیقات کا مطالعہ کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابتدائی ادیان کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی ’چشم بصیرت‘ مسخ شدہ ادیان سے تجاوز نہ کر سکی، چنانچہ ہمارے نزدیک حق وباطل کے درمیان واضح فرق کو وحی کی نصوص پر نہ پرکھنے کا سہرا ان کی اس ’وسعت نظری‘ کے سر جاتا ہے۔
مورخین آج تک یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکے کہ وہ تاریخ انسانی پر کامل دسترس رکھتے ہیں، حتی کہ اگر ہم آج بھی دور حاضر کی کسی معروف شخصیت کے حالاتِ زندگی کو ضبط تحریر میں لانا چاہیں، تو اصل حقائق تک پہنچنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا تو پھر انسانی تاریخ کے دور اول کے بارے میں تحقیق وابحاث تو بالفعل ان کی جان ناتواں پر گراں تر ہے!!! یہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر دستیاب مواد نہ صرف انتہائی بودا اور ناقص ہے بلکہ قاری کی خاطر خواہ تسلی کرنے میں بھی کلی طور پر ناکام رہتا ہے۔
ان تمام معارضات اور مجادلات کے مقابل اللہ جل جلالہ نے نہایت بلیغ انداز میں فلسفہ
[HR][/HR]¿ علم بشریات کا علم اپنے بندوں کو عطا فرما دیا کہ اس سے بڑھ کر نہ کسی کا علم ہے اور نہ کسی کا انداز بیان۔”زمین اور آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں“۔ (آل عمران)
رب جلیل نے بتایا کہ آدم علیہ السلام اول البشر تھے۔ ان کا خمیر خاک سے اٹھایا گیا، پھر اللہ نے اس پتلے میں اپنی روح پھونکی (نسبت تعظیمی)، اور ان کی پشت سے یوم آخرت تک آنے والی تمام نسلوں کو نکال کر ان سے اپنی وحدانیت کا اقرار وتصدیق کروائی تاکہ قیامت تک کیلئے حجت قائم ہو جائے اور وہ یہ جان لیں کہ ان پر اپنے پروردگار کے حقوق کیا ہیں۔ پھر جنت العلیٰ کو ان کا مسکن ٹھہرایا۔ ماسوا ایک درخت کے پھل کے، آدم اور ان کی زوجہ حوا علیھما السلام کو بہشت بریں کے تمام ثمرات سے متمتع ہونے کا پروانہ جاری کردیا گیا۔ آدم علیہ السلام کے ازلی دشمن ابلیس نے اپنے حریف پر عنایات واکرام کی یہ فراوانی دیکھ کر رہا نہ گیا، پس وہ موقع پاتے ہی ناصح کا روپ دھار کر ان کے پاس آیا اور اپنے دام فریب میں ان کو پھانس لیا۔ نفس امارہ، نفس لوامہ پر غالب آیا، عقل اشتہاءکے ہاتھوں زیر ہوئی۔ آدم اور حوا علیھما اسلام نے شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا اور اس طرح وہ اپنے رب کی نافرمانی کا ارتکاب کرکے اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے، بعد ازاں ان کی توبہ قبول ہوئی اور انہیں زمین کی نیابت ملی۔ اپنی خطا کا ادراک ہوتے ہی انہوں نے اس کے حضور گڑگڑا کر اعتراف گناہ کرتے ہوئے توبہ کی، جسے ان کے رب نے شرف قبولیت بخشا اور پھر انہیں زمین پر بھیج دیا گیا۔
اللہ چونکہ عادل اور اپنے بندوں پر بہت رحیم ہے، اس لئے اس نے اپنی پکار پر لبیک کہہ کر بندگی کی راہ پر چلنے والوں کو دنیاوی زندگی میں ہدایت پر کاربند رہنے کی توفیق اور آخرت میں کبھی نہ ختم ہونے والی آسائشات کی بشارت دی تو دوسری طرف اس نے کفر اور معصیت کی روش اختیار کرنے والوں کیلئے روئے زمین پر لعنت وگمراہی اور محشر میں ذلت ورسوائی کو مقدر ٹھہرانے کی وعید سنا ڈالی۔
”ہم نے کہا تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے انہیں کوئی خوف اور رنج نہ ہوگا اور جو اسے قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے“۔ (البقرہ)
اور فرمایا ”تم دونوں (فریق یعنی انسان اور شیطان) یہاں سے اتر جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ اب اگر میری طرف سے تمیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بدبختی میں مبتلا ہوگا۔ اور جو میرے ”ذکر“ (درس نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کیلئے دُنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔ وہ کہے گا: ”پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟ ”اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہاں اسی طرح تو ہماری آیات کو، جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں، تو نے بھلا دیا تھا۔ اسی طرح آج تو بھلایا جا رہا ہے“۔ (طہ)
کہاں انسان کا بنایا ہوا گورکھ دھندا اور کہاں وحی کا یہ سرچشمہء ہدایت جو آب رواں کی طرح دل ودماغ میں سرایت کرتا جاتا ہے اور بے شک اللہ جسے چاہے، اس نور ہدایت سے نواز دے۔ اللھم اجعلنا منھم۔

*********
(1)صحیح ابن حبان، مجمع الطبرانی الکبیر، مستدرک الحاکم، الحاکم اور نسخ اسد الدارانی نے اس کو مستند قرار دیا ہے

مضمون کا لنک
 
Top