عورت پر حج کس صورت میں فرض ہوتا ہے؟ جب اسکے پاس اپنے اور محرم دونوں کیلئے اخراجات کے پیسے ہوں؟
الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیۃ میں درج ہے کہ :
يشترط لوجوب الحج على المرأة أن تكون قادرة على نفقة نفسها ونفقة المحرم إن طلب منها النفقة، لأنه يستحقها عليها عند الحنفية.
وكذلك عبر بالنفقة ابن قدامة من الحنابلة. وعبر المالكية والشافعية وابن مفلح من الحنابلة بالأجرة. والمراد أجرة المثل
یعنی عورت پر وجوب حج کیلئے یہ بھی شرط ہے کہ وہ اپنے اور اپنے محرم کے خرچ پر قادر ہو اگر محرم اس سے خرچہ طلب کرے ، کیونکہ محرم مرد اس عورت سے زاد راہ لینے کا حق رکھتا ہے ،
اسی طرح حنابلہ میں سے امام ابن قدامہ ؒ نے ( نفقہ )سے (محرم کا خرچ ) تعبیر کیا ہے ،اور مالکیہ اور شافعیہ اور ابن مفلح ؒ نے اس کو اجرت سے تعبیر کیا ہے ،انتہی
اور مشہور حنبلی فقیہ اور محدث امام ابن قدامۃ (أبو محمد موفق الدين عبد الله بن أحمد الشهير بابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620 ھ)
اپنی مشہور عالم مستند تصنیف ۔۔ المغنی ۔۔ میں لکھتے ہیں :
ونفقة المحرم في الحج عليها نص عليه أحمد لأنه من سبيلها فكان عليها نفقته كالراحلة فعلى هذا يعتبر في استطاعتها أن تملك زادا وراحلة لها ولمحرمها فإن امتنع محرمها من الحج معها, مع بذلها له نفقته فهي كمن لا محرم لها لأنها لا يمكنها الحج بغير محرم ۔۔۔
یعنی حج کرنے والی عورت پر محرم کا خرچ بھی لازم ہے ،امام احمد رحمہ اللہ نے اس کی تصریح کی ہے کیونکہ وہ بھی اس کے زاد راہ میں شامل ہے
لہذا اس عورت پر اپنے محرم کا خرچ اسی طرح لازم ہے جس طرح سواری کا وجود لازم ہے ، یعنی ( حج کی استطاعت ) میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے لئے زاد راہ اور سواری ، اپنے محرم کا خرچ برداشت کرسکے ‘‘(المغنی ، کتاب الحج )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا (سورۃ آل عمران )
ترجمہ : جو لوگ اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہیں ان پر اللہ کے لئے اس گھر کا حج فرض ہے ،
راہ پاسکتے ہوں کا مطلب
زاد راہ کی استطاعت اور فراہمی ہے۔ یعنی اتنا خرچ کہ سفر کے اخراجات پورے ہوجائیں۔ علاوہ ازیں استطاعت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ راستہ پر امن ہو اور جان و مال محفوظ رہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ صحت اور تندرستی کے لحاظ سے سفر کے قابل ہو نیز عورت کے لئے محرم بھی ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔