• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا غیر محرم عورت کو بہن نہیں کہہ سکتے؟

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
2212- حَدَّثَنَا( مُحَمَّدُ) بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ إِبْرَاهِيمَ ﷺ لَمْ يَكْذِبْ قَطُّ إِلا ثَلاثًا: ثِنْتَانِ فِي ذَاتِ اللَّهِ تَعَالَى: قَوْلُهُ: {إِنِّي سَقِيمٌ}، وَقَوْلُهُ: {بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا}، وَبَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ فِي أَرْضِ جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ إِذْ نَزَلَ مَنْزِلاً، فَأُتِيَ الْجَبَّارُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ نَزَلَ هَاهُنَا رَجُلٌ مَعَهُ امْرَأَةٌ هِيَ أَحْسَنُ النَّاسِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنْهَا فَقَالَ: إِنَّهَا أُخْتِي، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَيْهَا قَالَ: إِنَّ هَذَا سَأَلَنِي عَنْكِ فَأَنْبَأْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي، وَإِنَّهُ لَيْسَ الْيَوْمَ مُسْلِمٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ، وَإِنَّكِ أُخْتِي فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَلا تُكَذِّبِينِي عِنْدَهُ ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى هَذَا الْخَبَرَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، نَحْوَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۳۹)، وقد أخرجہ: خ/أحادیث الأنبیاء ۸ (۳۳۵۷)، والنکاح ۱۲(۵۰۱۲)، م/الفضائل ۴۱ (۲۳۷۱)، ت/تفسیر سورۃ الأنبیاء (۳۱۶۵)، حم (۲/۴۰۳) (صحیح)

۲۲۱۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' ابرا ہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے ۱؎ جن میں سے دو اللہ تعالی کی ذات کے لئے تھے ،پہلا جب انہوں نے کہا کہ میں بیمارہوں ۲؎ ، دوسرا جب انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا : بلکہ یہ تو ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے ، تیسرا اس موقعہ پر جب کہ وہ ایک سرکش بادشاہ کے ملک سے گزر رہے تھے ایک مقام پرانہوں نے قیام فرمایا تواس سرکش تک یہ بات پہنچی ،اور اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص ٹھہرا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس نے ابرا ہیم علیہ السلام کو بلوایا اورعورت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: ''یہ تو میری بہن ہے''، جب وہ لوٹ کر بیوی کے پاس آئے تو انہوں نے بتایا کہ اس نے مجھ سے تمہارے بارے میں دریافت کیا تو میں نے اسے یہ بتایا ہے کہ تم میری بہن ہو کیونکہ آج میرے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہیں ہے لہٰذا تم میری دینی بہن ہو، تو تم اس کے پاس جا کر مجھے جھٹلا نہ دینا'' ،اور پھر پوری حدیث بیان کی۔
ابو داود کہتے ہیں: شعیب بن ابی حمزہ نے ابو الزناد سے ابوالزناد نے اعرج سے، اعرج نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے، ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : انہیں جھوٹ اس لئے کہا گیا ہے کہ ظاہر میں تینوں باتیں جھوٹ تھیں، لیکن حقیقت میں ابراہیم علیہ السلام نے یہ تینوں باتیں بطور تعریض و توریہ کہی تھیں، توریہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ذومعنی گفتگو کرے، جس کا ایک ظاہری مفہوم ہو اور ایک باطنی، وہ اپنی گفتگو سے صحیح مقصود کی نیت کرے اور اس کی طرف نسبت کرنے میں جھوٹا نہ ہو، اگرچہ ظاہری الفاظ میں اور اس کی چیز کی طرف نسبت کرنے میں جسے مخاطب سمجھ رہا ہو جھوٹا ہو۔
وضاحت ۲؎ : یہ بات ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہی تھی جب ان کے شہر کے لوگ باہر میلے کے لئے جارہے تھے، ان سے بھی لوگوں نے چلنے کے لئے کہا، تو انہوں نے بہانہ کیا کہ میں بیمار ہوں، یہ بہانہ بتوں کو توڑنے کے لئے کیا تھا، پھر جب لوگ میلہ سے واپس آئے تو پوچھا بتوں کو کس نے توڑا؟ ابراہیم وضاحت نے جواب دیا: ''بڑے بت نے توڑا''، اگرچہ یہ دونوں قول خلاف واقعہ تھے لیکن حکمت سے خالی نہ تھے، اللہ کی رضامندی کے واسطے تھے۔
سنن ابوداؤد
نشان زدہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اُس وقت اور کوئی مرد یا عورت محرم و غیر محرم مسلمان ہوتے تو ابراھیم علیہ السلام کے دینی بھائی یا دینی بہن ہوتے۔ واللہ اعلم
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,092
پوائنٹ
1,155
2212- حَدَّثَنَا( مُحَمَّدُ) بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ إِبْرَاهِيمَ ﷺ لَمْ يَكْذِبْ قَطُّ إِلا ثَلاثًا: ثِنْتَانِ فِي ذَاتِ اللَّهِ تَعَالَى: قَوْلُهُ: {إِنِّي سَقِيمٌ}، وَقَوْلُهُ: {بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا}، وَبَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ فِي أَرْضِ جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ إِذْ نَزَلَ مَنْزِلاً، فَأُتِيَ الْجَبَّارُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ نَزَلَ هَاهُنَا رَجُلٌ مَعَهُ امْرَأَةٌ هِيَ أَحْسَنُ النَّاسِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنْهَا فَقَالَ: إِنَّهَا أُخْتِي، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَيْهَا قَالَ: إِنَّ هَذَا سَأَلَنِي عَنْكِ فَأَنْبَأْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي، وَإِنَّهُ لَيْسَ الْيَوْمَ مُسْلِمٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ، وَإِنَّكِ أُخْتِي فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَلا تُكَذِّبِينِي عِنْدَهُ ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى هَذَا الْخَبَرَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، نَحْوَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۳۹)، وقد أخرجہ: خ/أحادیث الأنبیاء ۸ (۳۳۵۷)، والنکاح ۱۲(۵۰۱۲)، م/الفضائل ۴۱ (۲۳۷۱)، ت/تفسیر سورۃ الأنبیاء (۳۱۶۵)، حم (۲/۴۰۳) (صحیح)

۲۲۱۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' ابرا ہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے ۱؎ جن میں سے دو اللہ تعالی کی ذات کے لئے تھے ،پہلا جب انہوں نے کہا کہ میں بیمارہوں ۲؎ ، دوسرا جب انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا : بلکہ یہ تو ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے ، تیسرا اس موقعہ پر جب کہ وہ ایک سرکش بادشاہ کے ملک سے گزر رہے تھے ایک مقام پرانہوں نے قیام فرمایا تواس سرکش تک یہ بات پہنچی ،اور اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص ٹھہرا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس نے ابرا ہیم علیہ السلام کو بلوایا اورعورت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: ''یہ تو میری بہن ہے''، جب وہ لوٹ کر بیوی کے پاس آئے تو انہوں نے بتایا کہ اس نے مجھ سے تمہارے بارے میں دریافت کیا تو میں نے اسے یہ بتایا ہے کہ تم میری بہن ہو کیونکہ آج میرے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہیں ہے لہٰذا تم میری دینی بہن ہو، تو تم اس کے پاس جا کر مجھے جھٹلا نہ دینا'' ،اور پھر پوری حدیث بیان کی۔
ابو داود کہتے ہیں: شعیب بن ابی حمزہ نے ابو الزناد سے ابوالزناد نے اعرج سے، اعرج نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے، ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : انہیں جھوٹ اس لئے کہا گیا ہے کہ ظاہر میں تینوں باتیں جھوٹ تھیں، لیکن حقیقت میں ابراہیم علیہ السلام نے یہ تینوں باتیں بطور تعریض و توریہ کہی تھیں، توریہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ذومعنی گفتگو کرے، جس کا ایک ظاہری مفہوم ہو اور ایک باطنی، وہ اپنی گفتگو سے صحیح مقصود کی نیت کرے اور اس کی طرف نسبت کرنے میں جھوٹا نہ ہو، اگرچہ ظاہری الفاظ میں اور اس کی چیز کی طرف نسبت کرنے میں جسے مخاطب سمجھ رہا ہو جھوٹا ہو۔
وضاحت ۲؎ : یہ بات ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہی تھی جب ان کے شہر کے لوگ باہر میلے کے لئے جارہے تھے، ان سے بھی لوگوں نے چلنے کے لئے کہا، تو انہوں نے بہانہ کیا کہ میں بیمار ہوں، یہ بہانہ بتوں کو توڑنے کے لئے کیا تھا، پھر جب لوگ میلہ سے واپس آئے تو پوچھا بتوں کو کس نے توڑا؟ ابراہیم وضاحت نے جواب دیا: ''بڑے بت نے توڑا''، اگرچہ یہ دونوں قول خلاف واقعہ تھے لیکن حکمت سے خالی نہ تھے، اللہ کی رضامندی کے واسطے تھے۔
سنن ابوداؤد
نشان زدہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اُس وقت اور کوئی مرد یا عورت محرم و غیر محرم مسلمان ہوتے تو ابراھیم علیہ السلام کے دینی بھائی یا دینی بہن ہوتے۔ واللہ اعلم
بہت زبردست انکل جی، بہت علمی جواب ہے یہ، جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
بہت زبردست انکل جی، بہت علمی جواب ہے یہ، جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء
اہل علم کی رائے کا انتظار کریں۔
انڈر لائن عبارت میری ہے۔
جزاک اللہ خیرا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,092
پوائنٹ
1,155

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,568
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فیس بک پر "غیر محرم کا آپس میں بھائی بہن کہہ کر مخاطب کرنا" اور "غیر محرم عورت کو بہن کہہ کر گفتگو کرنے" سے متعلق بہت بحثیں ہوتی ہیں، میرا موقف ہے کہ غیر محرم عورت کو بہن کہہ کر مخاطب کیا جا سکتا ہے لیکن اس بہن کے رشتے کے پردے میں اس سے تعلق استوار کرنا اور کھلم کھلا باتیں کرنا درست نہیں، میرے ایک دوست نے کہا کہ آپ کا یہ موقف درست نہیں کہ غیر محرم عورت کو بہن کہہ کر مخاطب کیا جائے بلکہ اسے محترمہ کہہ کر مخاطب کیا جانا چاہئے اور کسی صحابی نے کسی صحابیہ کو بہن کہہ کر مخاطب نہیں کیا، اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے؟

لہذا مجھے اس موضوع پر شرعی رہنمائی چاہئے کہ آیا واقعتا کسی غیر محرم خاتون کو بہن کہہ کر مخاطب کرنا درست نہیں؟ اس موضوع پر میری کتاب و سنت کی روشنی میں رہنمائی کیجئے۔ جزاکم اللہ خیرا
@خضر حیات بھائی
@اسحاق سلفی بھائی
@محمد عامر یونس بھائی
@محمد نعیم یونس انکل
@قاھر الارجاء و الخوارج بھائی
>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>>

عنوان الفتوى
: قول الرجل للأجنبية يا أختي العزيزة

رقم الفتوى : 7457۷۔۔۔۔۔۔تاريخ الفتوى : الإثنين 23 ربيع الآخر 1427 22-5-2006

السؤال:
هل يجوز أن تخاطب الفتاة الرجل بأخي العزيز / أخي الغالي، والرجل للفتاة أختي العزيزة / أختي الغالية ؟
هذا الأسلوب أراه كثرا يستخدم في المنتديات.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الفتوى:

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فالمؤمنون كلهم إخوة رجالا ونساء : إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ { الحجرات :10 } فمن نادى أخاه المسلم أو أخته المسلمة أو العكس بيا أخي أو بيا أختي فلا حرج عليه في ذلك، وهو صادق لأن جميع المسلمين إخوة كما ذكرنا . ولكن إن كان قول تلك العبارة لغرض غير شرعي كمخاطبة المرأة للأجنبي عنها بذلك خضوعا له بالقول وتوددا إليه فلا يجوز لقوله تعالى : فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا {الأحزاب : 32 }، وسواء أكان ذلك عن طريق منتدى أو غيره، وقد بينا ضوابط جواز دخول المنتديات والمشاركة فيها للجنسين وما قد يترتب على ذلك في الفتاوى ذات الأرقام التالية : 7396 / 65753 / 65905 وما أحيل إليه من فتاوى خلالها .
والله أعلم .
المفتي: مركز الفتوى

www.islamweb.net
ترجمہ
کیا ایک نوجوان لڑکی کسی مرد کو پیارے بھائی ،،یا ،،کوئی مرد کسی لڑکی کو پیاری بہن یا معزز بہن کہہ سکتا ہے ؟
تخاطب کا یہ اسلوب ہم اکثر نیٹ فورمز پر دیکھتے ہیں ۔
جواب
حمد و ثنا کے بعد
تمام مسلمان آپس میں بہن بھائی ہیں مرد ہوں یا عورتیں ،،جیسا کہ ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ‘‘میں بتایا گیا ہے ۔
سو جس نے کسی مسلم کو بھائی کہہ کر ،،یا ،،کسی مسلمہ کو بہن کہہ کر مخاطب کیا ،تو اس میں کوئی حرج نہیں ،یعنی ایسا جائز ہے
ایسا کہنے والے نے سچ کہا کیونکہ تمام مومن آپس میں بھائی اور بہن ہی تو ہیں ۔
لیکن شرط یہ کہ ایسا کہنے والے کی کو فاسد غرض نہ ہو ،
جیسے کوئی مرد کسی اجنبی عورت سے میٹھے لہجے میں اپنی محبت و الفت کے اظہار کےلئے ان الفاظ کو استعمالکرے تو ہرگز جائز نہیں ۔
کیونکہ قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے
(اے ہمارے نبی ﷺ کی ازواج جب تمہیں کسی مرد سے بات کرنی ہو ،تو نرم ، ملائم لہجے میں بات نہ کرو ،
کہ مبادا کوئی بیمار دل غلط مطلب نہ لے ’‘
اور جواز و عدم جواز کی ان صورتوں کا یہ حکم ہر موقع مخاطبت کےلئے ہے،خواہ نیٹ فورم ہو یا کوئی دوسرا موقع ۔
تخضعن3.jpg

 
Top