• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا فجر کی نماز کی دو سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیر لیٹنا سنت سے ثابت ہے؟

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
فجر کی دو سنت کے بعد لیٹنا اس شخص کے لیے مشروع ہے جو رات کے ایک حصہ میں تہجد کی نماز پڑھنے کی وجہ سے تھکاوٹ کا شکار ہو اور فجر کے فرائض سے پہلے اس آرام کے ذریعہ اپنے جسم میں نشاط پیدا کرنا چاہتا ہو۔پس یہ لیٹنا ایک خاص حکمت کے تحت سنت عمل ہے نہ کہ محض لیٹنا کوئی سنت عمل ہے۔
شیخ صالح المنجد سے جب اس بارے سوال ہوا تو انہوں نے اس کا یوں جواب دیا:
فجر كى نماز سے قبل بعض نمازى كچھ اذكار كرتے ہيں اور اس كے بعد اپنى دائيں جانب ايك منٹ سے بھى كم مدت ليٹتے ہيں، اس كا حكم كيا ہے ؟
الحمد للہ:
فجر كى سنتوں كے بعد ليٹنا سنت ہے، امام بخارى رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ:
" جب نماز فجر كى اذان سے مؤذن خاموش ہو جاتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز فجر سے قبل اور فجر ظاہر ہو جانے كے بعد اٹھ كر ہلكى سى دو ركعت ادا كرتے اور پھر اپنى دائيں جانب ليٹ جاتے حتى كہ مؤذن اقامت كے ليے آتا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 626 )۔
اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے اس بھى مكمل روايت بيان كى ہے جس كے الفاظ يہ ہے:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز عشاء جسے لوگ عتمہ كہتے ہيں سے ليكر فجر تك گيارہ ركعت ادا كرتے تھے، ہر دو ركعت كے بعد سلام پھيرتے اور ايك ركعت كے ساتھ وتر پڑھتے، اور جب نماز فجر كى اذان سے مؤذن خاموش ہو جاتا اور فجر ظاہر ہو جاتى اور مؤذن آجاتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہلكى سى دو ركعت ادا كرتے اور اپنى دائيں كروٹ پر ليٹ جاتے حتى كہ مؤذن اقامت كے ليے آتا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 736 )۔
اور بعض روايات ميں فجر كى اذان سے قبل ليٹنا وارد ہے، امام نووى رحمہ اللہ تعالى مسلم كى شرح ميں كہتے ہيں:
" صحيح اور صواب يہى ہے كہ فجر كى سنتوں كے بعد ليٹنا جائے، كيونكہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں كوئى فجر كى دو ركعت ادا كرے تو وہ اپنى دائيں كروٹ پر ليٹے "
اسے ابو داود اور ترمذى نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے، جو كہ بخارى اور مسلم كى شرط پر ہے۔
امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: يہ حديث حسن صحيح ہے. لہذا يہ حديث صحيح اور ليٹنے كے معاملہ ميں بالكل صريح اور واضح ہے۔

اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى پہلے اور بعد ميں ليٹنے والى حديث اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى پہلے ليٹنے والى حديث اس كى مخالف نہيں، كيونكہ پہلے ليٹنے سے يہ لازم نہيں آتا كہ بعد نہ ليٹا جائے، اور ہو سكتا ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بعض اوقات بعد ميں ليٹنا ترك اس ليے كيا ہو كہ نہ ليٹنا بھى جائز ہے، ليكن يہ اس وقت ہے جب ترك ثابت ہو، اور يہ ثابت نہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پہلے اور بعد ميں ليٹا كرتے تھے۔
اور جب بعد ميں ليٹنے كے حكم والى حديث صحيح ہو اور اس كے ساتھ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عمل والى روايات اس امر كے موافق ہيں تو پھر يہ متعين ہو جاتا ہے كہ بعد ميں ليٹا جائے، اور جب احاديث كے مابين جمع كرنا ممكن ہو تو پھر كسى ايك حديث كو رد كرنا جائز نہيں، اور دونوں ميں سے كسى ايك طريقہ سے ممكن ہے جن كى طرف ہم نے اشارہ كيا ہے، ايك طريقہ تو يہ ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پہلے اور بعد ميں ليٹے ہيں۔
اور دوسرا يہ ہے: بعض اوقات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بعد ميں ليٹنا ترك كيا ہے تا كہ اس كا جواز ثابت ہو جائے. واللہ اعلم۔انتہى
حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
بعض سلف رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں كہ گھر ميں ليٹنا جائز ہے، مسجد ميں نہيں، يہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا گيا ہے، اور ہمارے بعض مشائخ نے اسے اس طرح تقويت دى ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے منقول نہيں كہ انہوں نے يہ فعل مسجد ميں كيا ہو، اور مسجد ميں جو شخص ايسا كرتا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما اسے كنكرى مارتے تھے۔
اسے ابن ابى شيبہ نے روايت كيا ہے. اھـ
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے ليٹنے كے حكم كے متعلق علماء كرام كا اختلاف ذكر كرنے كے بعد كہا ہے:
صحيح وہ ہے جو شيخ الاسلام نے كہا ہے كہ جب انسان تھجد كى بنا پر تھكا ہوا ہو تو وہ اپنى دائيں كروٹ پر ليٹ كر كچھ دير آرام كر لے، يہ اس شرط پر ہے كہ اگر اس پر نيند كے غالب ہونے كا خدشہ نہ ہو، تا كہ نماز نہ رہ جائے، اور اگر يہ خدشہ ہو تو پھر وہ نہ سوئے. اھـ
ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 3 / 287 )۔
اس ليٹنے ميں حكمت يہ ہے كہ رات كے قيام كى تھكاوٹ سے آرام كيا جا سكے، تا كہ وہ نماز فجر كے ليے نشيط ہو جائے، اور اس بنا پر بعض لوگ جو ايك منٹ سے بھى كم وقت ليٹتے ہيں جيسا كہ سوال ميں وارد ہے ايسا كرنے سے مقصد حاصل نہيں ہوتا، پھر يہ تو خلاف سنت ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو نماز كى اقامت كے ليے مؤذن كے آنے تك ليٹے رہتے تھے۔
واللہ اعلم ۔
الاسلام سوال وجواب
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
فجر کی دو سنت کے بعد لیٹنا اس شخص کے لیے مشروع ہے جو رات کے ایک حصہ میں تہجد کی نماز پڑھنے کی وجہ سے تھکاوٹ کا شکار ہو اور فجر کے فرائض سے پہلے اس آرام کے ذریعہ اپنے جسم میں نشاط پیدا کرنا چاہتا ہو۔پس یہ لیٹنا ایک خاص حکمت کے تحت سن عمل ہے نہ کہ محض لیٹنا کوئی سنت عمل ہے۔
آپ نے یہ کہا جبکہ شیخ نے یہ کہا۔
شیخ صالح المنجد سے جب اس بارے سوال ہوا تو انہوں نے اس کا یوں جواب دیا:
فجر كى نماز سے قبل بعض نمازى كچھ اذكار كرتے ہيں اور اس كے بعد اپنى دائيں جانب ايك منٹ سے بھى كم مدت ليٹتے ہيں، اس كا حكم كيا ہے ؟
الحمد للہ:
فجر كى سنتوں كے بعد ليٹنا سنت ہے،
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
آپ نے شیخ کے ایک جملہ کی طرف اشارہ کیا ہے حالانکہ شیخ کا پورا فتوی اسی موقف کی طرف رہنمائی کر رہا ہے کہ جس کا ہم نے شروع میں تذکرہ کیا ہے۔ پس اس جملہ کو اس مکمل فتوی کے تناظر میں دیکھیں۔ مثلا آپ شیخ کے اس آخری جملہ پر غور کریں:
اس ليٹنے ميں حكمت يہ ہے كہ رات كے قيام كى تھكاوٹ سے آرام كيا جا سكے، تا كہ وہ نماز فجر كے ليے نشيط ہو جائے، اور اس بنا پر بعض لوگ جو ايك منٹ سے بھى كم وقت ليٹتے ہيں جيسا كہ سوال ميں وارد ہے ايسا كرنے سے مقصد حاصل نہيں ہوتا، پھر يہ تو خلاف سنت ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو نماز كى اقامت كے ليے مؤذن كے آنے تك ليٹے رہتے تھے۔
اسی طرح شیخ المنجد نے شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ کا یہ قول نقل بھی نقل کیا ہے:
صحيح وہ ہے جو شيخ الاسلام نے كہا ہے كہ جب انسان تھجد كى بنا پر تھكا ہوا ہو تو وہ اپنى دائيں كروٹ پر ليٹ كر كچھ دير آرام كر لے، يہ اس شرط پر ہے كہ اگر اس پر نيند كے غالب ہونے كا خدشہ نہ ہو، تا كہ نماز نہ رہ جائے، اور اگر يہ خدشہ ہو تو پھر وہ نہ سوئے. اھـ
میرے خیال میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ باقی یہ ممکن ہے کہ آپ کسی اور پہلو سے اس پر غور کر رہے ہوں اور آپ کو دونوں رایوں میں کوئی اختلاف نظر آ رہا ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
١۔بھائی!اس میں گناہ والی بات سمجھ نہیں آئی کیونکہ آپ کے فعل سے لازما کوئی وجوب ہی ثابت نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات آپ کے فعل سے ایک امر کا استحباب یا اباحت بھی ثابت ہوتی ہے۔گناہ کا پہلو تو اس وقت ہوتا ہے جبکہ کوئی فعل واجب یا فرض ہو اور اسے نہ کیا جائے وغیرذلک ۔
٢۔ میرے ناقص مطالعہ میں ابھی تک تو کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ کسی نے اس فعل کو واجب قرار دیا ہو اور نہ لیٹنے کو گناہ کہا ہو۔
 
Top