محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,861
- ری ایکشن اسکور
- 41,093
- پوائنٹ
- 1,155
السلام علیکم
کیا فجر کی نماز کی دو سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیر لیٹنا سنت سے ثابت ہے؟
کیا فجر کی نماز کی دو سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیر لیٹنا سنت سے ثابت ہے؟
صحيح بخارى حديث نمبر ( 626 )۔" جب نماز فجر كى اذان سے مؤذن خاموش ہو جاتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز فجر سے قبل اور فجر ظاہر ہو جانے كے بعد اٹھ كر ہلكى سى دو ركعت ادا كرتے اور پھر اپنى دائيں جانب ليٹ جاتے حتى كہ مؤذن اقامت كے ليے آتا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 736 )۔" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز عشاء جسے لوگ عتمہ كہتے ہيں سے ليكر فجر تك گيارہ ركعت ادا كرتے تھے، ہر دو ركعت كے بعد سلام پھيرتے اور ايك ركعت كے ساتھ وتر پڑھتے، اور جب نماز فجر كى اذان سے مؤذن خاموش ہو جاتا اور فجر ظاہر ہو جاتى اور مؤذن آجاتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہلكى سى دو ركعت ادا كرتے اور اپنى دائيں كروٹ پر ليٹ جاتے حتى كہ مؤذن اقامت كے ليے آتا "
اسے ابو داود اور ترمذى نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے، جو كہ بخارى اور مسلم كى شرط پر ہے۔" جب تم ميں كوئى فجر كى دو ركعت ادا كرے تو وہ اپنى دائيں كروٹ پر ليٹے "
آپ نے یہ کہا جبکہ شیخ نے یہ کہا۔فجر کی دو سنت کے بعد لیٹنا اس شخص کے لیے مشروع ہے جو رات کے ایک حصہ میں تہجد کی نماز پڑھنے کی وجہ سے تھکاوٹ کا شکار ہو اور فجر کے فرائض سے پہلے اس آرام کے ذریعہ اپنے جسم میں نشاط پیدا کرنا چاہتا ہو۔پس یہ لیٹنا ایک خاص حکمت کے تحت سن عمل ہے نہ کہ محض لیٹنا کوئی سنت عمل ہے۔
شیخ صالح المنجد سے جب اس بارے سوال ہوا تو انہوں نے اس کا یوں جواب دیا:
فجر كى نماز سے قبل بعض نمازى كچھ اذكار كرتے ہيں اور اس كے بعد اپنى دائيں جانب ايك منٹ سے بھى كم مدت ليٹتے ہيں، اس كا حكم كيا ہے ؟
الحمد للہ:
فجر كى سنتوں كے بعد ليٹنا سنت ہے،
اسی طرح شیخ المنجد نے شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ کا یہ قول نقل بھی نقل کیا ہے:اس ليٹنے ميں حكمت يہ ہے كہ رات كے قيام كى تھكاوٹ سے آرام كيا جا سكے، تا كہ وہ نماز فجر كے ليے نشيط ہو جائے، اور اس بنا پر بعض لوگ جو ايك منٹ سے بھى كم وقت ليٹتے ہيں جيسا كہ سوال ميں وارد ہے ايسا كرنے سے مقصد حاصل نہيں ہوتا، پھر يہ تو خلاف سنت ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو نماز كى اقامت كے ليے مؤذن كے آنے تك ليٹے رہتے تھے۔
میرے خیال میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ باقی یہ ممکن ہے کہ آپ کسی اور پہلو سے اس پر غور کر رہے ہوں اور آپ کو دونوں رایوں میں کوئی اختلاف نظر آ رہا ہو۔صحيح وہ ہے جو شيخ الاسلام نے كہا ہے كہ جب انسان تھجد كى بنا پر تھكا ہوا ہو تو وہ اپنى دائيں كروٹ پر ليٹ كر كچھ دير آرام كر لے، يہ اس شرط پر ہے كہ اگر اس پر نيند كے غالب ہونے كا خدشہ نہ ہو، تا كہ نماز نہ رہ جائے، اور اگر يہ خدشہ ہو تو پھر وہ نہ سوئے. اھـ