اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ
قرآن مجیدفرقان حمید دنیا میں واحد کتاب ہے جس کو مسلسل 1400سال سے شائع کیاجارہا ہے اور کسی زمانے میں اس کی اشاعت کے وقت اس کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہ کی جاسکی یہاں تک کہ زیرزبر پیش میں بھی کبھی مسلمانوں میں (معاذاللہ) تنازعہ نہ ہوسکا اور نہ ہوسکے گا کیو نکہ جب سے یہ نازل ہوئی ہے اس کو عربی زبان میں حفظ کرنے کا سلسلہ جاری ہے اسی لئے اس میں کبھی بھی کسی قسم کی تبدیلی ناممکن ہے یہاں راقم صرف ایک حوالہ انسائیکلو پیڈیا سے دینا چاہے گا جس سے دنیا کے سامنے یہ بتایاجا سکے کہ مسلمان ایک ایسی کتاب کے پیروکار ہیں جس پر تمام مسلمان ١٤٠٠ سال سے متفق ہیں اور تاقیامت متفق رہیں گے۔ اور یہ گواہی بھی ایک عیسائی مصنف کی ہے۔
Yet There is no doubt that the Koran of today is substantially same as it came from Prophet (Muhammad Sallallaho Aalaihe Wasallam) (The Webster Family Encyclopedia V.10 p. 237, 1984(
قرآن کریم کا نزول مکہ کی وادی سے شروع ہوا جہاں تمام مقامی لوگ عرب تھے اور عربی زبان بولتے تھے اور قرآن کریم کے نزول کا اختتام مدینہ پاک کی وادی میں ہوا جہاں انصار بھی عربی ہی بولتے تھے۔ اللہ پاک نے اپنے کلام کو عربی زبان میں اس لئے نازل کیا تاکہ پہلے پہل عمل کرنے والے اس کو اچھی طرح سمجھ کر عمل کرسکیں تاکہ وہ رہتی دنیا تک کے لئے ماڈل بن جائیں اور پھر عجمی لوگ عملی قرآن ان صحابہ کرام کے عمل سے سیکھ سکیں اور یوں یہ سلسلہ جاری رہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اِنَّآ اَنزَلْنٰہُ قُرئٰنًا عَرَ بِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ O (الیوسف:10)
بے شک ہم نے اسے عربی قرآن اتارا کہ تم سمجھو ۔
ابتداً اہلِ عرب بالخصوص اہلِ مکہ کو ان کی مادری زبان میں کلام اللہ سنایا جارہا ہے تاکہ سب سے پہلے وہ اہلِ زبان ہونے کے باعث اس پر ایمان لائیں اور اس کو آسانی سے سمجھ سکیں اس کے بعد یہی لوگ اپنی آنے والی نسلوں کو اس کے مفاہیم پہنچائیں تاکہ قرآن کریم کی آیاتِ کریمہ کی صحیح مراد کا ابلاغ ان تک ہو اور انہیں عربی زبان میں نازل شدہ وحی الٰہی کے معانی و مطالب واضح ہوسکیں۔ چنانچہ ارشادباری تعالیٰ ہے :وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ قُراٰناً عَرَبِیًّا لِّتُنْذِ رَ اُمُّ القُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا۔۔۔۔ (الشوریٰ : 7)
''اور یونہی ہم نے تمہاری طرف عربی قرآن بھیجا کہ تم ڈر اؤ سب شہروں کی اصل (مکہ) والوں کو اور جتنے اس کے گرد ہیں۔۔۔۔۔۔''
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری صرف قرآن کریم کے متن(کلمات) کو پہنچا نا نہیں تھی اگر چہ اول اول مخاطبین اہل عرب ہی تھے مگر اہل عرب عربی زبان جاننے کے باوجود اس کلام اللہ کی منشاء کو سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے اسی لئے نبی کے ذریعہ اللہ بندوں سے خطاب فرمارہا ہے چنانچہ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بحیثیت نبی ورسول ذمہ داریوں کا ذکر فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ ان آیات کے معانی ومطالب جو حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہیں، وہ لوگوں تک پہنچائیں چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْبَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلْیْھِمْ اٰیٰتِہ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ج وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ O (اٰل عمران: 164)
''بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجاجو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتاہے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔''
نبی کریم کی ظاہری حیات طیبہ میں ہی اسلام عرب سے نکل کر عجم تک پہنچ گیا تھا اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں متعدد عجمی لوگ، ہندو ایران کے باشندے، دائرے اسلام میں داخل ہوچکے تھے اور پھر خلفائے راشدین کے 30 سالہ دور میں انتہای کثیر تعداد میں عجمی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ پہلی صدی ہجری کا دور صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کا دور تھا جو قرآن کریم کے ساتھ ساتھ سنت نبوی پر عمل درآمد کا مکمل آئینہ تھا اس لئے قرآن فہمی عجمی لوگوں کے لئے زیادہ دشوار نہ تھی کیونکہ ان کے سامنے عملی نمونے موجود تھے۔ لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا گیا اور عملی قرآن کے نمونے کم ہونا شروع ہوگئے تو عجم سمیت عرب لوگوں نے بھی آیات کی منشائے الٰہی کو سمجھنے کی خاطر قرآن کریم کی طرف( اصل نمونے کی خاطر) رجوع کرنا شروع کردیا۔ عام عربوں کو عربی زبان کے باعث بہت زیادہ مشکلات نہ تھیں مگر عجمیوں کے لئے قرآن کریم کو عربی میں سمجھنا آسان نہ تھا اس لئے جلدہی عجمی زبانوں میں ترجمہ قرآن کی شدید ضرورت محسوس کی گئی ۔ ابتدائی دور میں ترجمہ قرآن کی سخت مخالفت بھی کی گئی مگر ضرورت کے پیش نظر قرآن پر ترجمہ کی پابندی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی اور سلسلہ تراجم دوسری صدی ہجری میں باقاعدہ شروع ہوگیا۔ یہ کام اس لئے بھی ضروری تھا کہ قرآن کا پیغام امر بالمعروف ونہی عن المنکر جب تک لوگوں کی مادری زبانوں میں نہیں پہنچایا جاتا اس وقت تک اس پر عمل درآمدمیں مطلوبہ تیزی اور اثرپذیری کا حصول ناممکن تھا۔
تمام آئمہ کرام اس بات پر متفق رہے کہ ترجمہ قرآن کسی بھی زبان میں کیا جاسکتا ہے مگر ترجمۂ قرآن کے الفاظ دلیل قطعی نہ ہوں گے یعنی شرعی معاملات میں اس ترجمہ پر انحصار نہیں کیا جائے گا بلکہ اصل متن ہی سے استنباط کیاجائے گا کیونکہ قرآن پاک کے ہر ہر لفظ میں جو معنوی گہرائی اور گیرائی ہے اس کو کسی بھی زبان کے ترجمہ میں نہیں ڈھالا جاسکتا جب عام کتاب کا ترجمہ اس پہلی زبان کی تمام مراد کوبعینہ نہیں ڈھال سکتا تو پھر قرآن تو کلام اللہ ہے اس کا ترجمہ آسانی سے کسی بھی زبان میں کیونکر اللہ اور اس کے رسول کی بعینہ مراد کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترجمہ قرآن کی بہت سخت اور بہت زیادہ شرائط ہیں۔ یہاں انتہائی اختصار سے ان دشواریوں کی نشاندہی کررہا ہوں تاکہ اردو ترجمۂ قرآن کا مطالعہ کرتے وقت قاری اس بات سے آگاہ رہے کہ مترجم قرآن ترجمۂ قرآن کی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر اہلیت رکھتا ہے تو اس ترجمۂ قرآن کو مطالعہ میں رکھنا چاہئے اور اگر مترجمِ قرآن، ترجمہ قرآن کا اہل ہی نہیں تو اس ترجمہ کے مطالعے سے اس کو مکمل پرہیز کرنا چاہئے اب ملاحظہ کریں چند بنیادی شرائط:
فن ترجمہ اور اس کے بنیادی اصول:
قرآن مجید کے ترجمہ کی شرائط سے قبل فنِ ترجمہ کے چند بہت ہی اہم اور بنیادی اصول یہاں پیش کررہا ہوں جو راقم نے مندرجہ ذیل اہل فن کی کتابوں سے اخذ کئے ہیں مثلا شان الحق حقّی ، پروفیسر رشید امجد، ڈاکٹر سہیل احمدخاں ، مظفر علی سید، احمد فخری ، ڈاکٹر سید عابد حسین، ڈاکٹر جمیل جالبی ، صلاح الدین احمد صاحب ، نیاز فتحپوری وغیرہ۔
1۔ دونوں زبانوں اور ان کے ادب پر کامل دسترس۔
2۔ ترجمہ نگار کا اس زبان سے جن میں ترجمہ کیا جارہا ہے جذباتی اور علمی واقفیت اور ہم آہنگی۔
3۔ زبان کے ساتھ ساتھ جس موضوع پر کتاب لکھی گئی ہے مترجم کا اس علمِ اور فن پر بھی کامل دسترس ہونا ۔
4۔ دونوں زبانوں کے ساتھ ادبی مساوات اور ادبی رنگ برقرار رکھنا۔
5۔ اہل کتاب کے مصنف کے لب ولہجہ کی کھنک کا باقی رکھنا جو کہ بہت ضروری ہے۔
6۔ مترجم کی تحریر میں انشاپردازی بھی بنیادی ضرورت میں شامل ہے۔
یہاں تفصیل میں جائے بغیر احقر قارئین کرام کی توجہ ترجمہ کے حوالے سے شق نمبر 3 کی طرف دلانا ضروری سمجھتا ہے کہ مترجمِ کتاب کو زبان کے ساتھ ساتھ اس علم وفن پر بھی مہارت رکھنا نہایت ضروری ہے جس فن کی کتاب کا ترجمہ کیا جارہا ہے مثلاً ایک انجینئر جو انگریزی زبان کا بھی ماہرہے کیا ایک Advance Medical Science پر لکھی گئی کتاب کا اردو زبان میں ترجمہ کرسکے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ دور حاضر میں کوئی انجینئر بھی اس کام کے لئے تیار نہ ہوگا کیونکہ وہ جانتاہے کہ وہ میڈیکل سائنس کی اصطلاحات سے بہت زیادہ واقف نہیں اس لئے وہ منع کردے گا اور کہے گا کہ یہ کام کسی اچھے میڈیکل سائنس کے استاد سے کروایئے جو میڈیکل سائنس کی اصطلاحات کو اچھی طرح جانتاہے ۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھ سکتاہے کہ ایک انجینئر اس کام کو کیوں منع کررہاہے کیا وہ لغت کی مدد سے اس میڈیکل سائنس کی کتاب کا ترجمہ نہیں کرسکتا تو وہ انجینئر مخلصانہ جواب دے گاکہ بے شک لغت (Dictionary) کی مدد سے میں ترجمہ تو کرلوں گا مگر میرے لئے انتہائی مشکل ہوگا کہ جب ایک لفظ کے ایک سے زیادہ معنی لغت میں مل رہے ہوں گے تو میں کون سالفظ ترجمہ کے لئے استعمال کروں کیونکہ اس لفظ کا صحیح چناؤ وہی کرسکے گا جو اس فن پر مکمل دسترس رکھتاہوگا۔
قارئین کرام !اب آپ خودہی سوچیں کہ ترجمہ کتنا مشکل کام ہے اور جب یہ مشکلات ایک عام فن کی کتاب میں اتنی زیادہ ہیں تو قرآن تو جمیع علوم کا خزانہ ہے اس کے لئے تو وہ تمام علوم وفنون کا جاننا ضروری ہو گا جو اس کتاب میں بیان کئے گئے ہیں جن کی تعداد اللہ ہی بہتر جانتاہے ۔
ترجمہ قرآن اور تفسیر قرآن کے سلسلے میں علماء نے شرائط قائم کی ہیں کہ جب کوئی ان شرائط کو پورا کرسکے تب ہی وہ ترجمہ یا تفسیرقرآن کسی بھی زبان میں کرنے کے لئے سوچے اور پھر قلم اٹھائے۔
تفسیر وترجمہ قرآن کے لئے شرائط:
امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ (م٩١١ھ/١٥٠٥ئ) مفسر قرآن کے لئے مندرجہ ذیل شرائط ضروری قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ مفسر قرآن کم از کم درج ذیل علوم پر ضروری دسترس رکھتاہو:
''علم اللغۃ، علم نحو، علم صرف، علم اشتقاق، علم معانی، علم بیان، علم بدیع، علم قرأ ت، علم اصول دین، علم اصول فقہ، علم اسباب نزول، علم قصص القرآن، علم الحدیث، علم ناسخ ومنسوخ، علم محاورات عرب، علم التاریخ اور علم اللدنی''
(الا تقان فی علوم القرآن جلد 2 ص: 180 سہیل اکیڈمی 1980ء)
مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ ساتھ مفسر کو بہت زیادہ وسیع النظر ، صاحب بصیرت ہونا چاہیے کیونکہ ذراسی کوتاہی تفسیر کو تفسیر باالرائے بنادے گی جس کاٹھکانہ پھر جہنم ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
ومن قال فی القران برایئہِ فلیتبوأ مقعدہ من النار (جامع ترمذی جلد 2 حدیث 861)
اور جو قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔
قارئین حضرات! علامہ سیوطی کی قائم کردہ شرائط کی روشنی میں مترجم قرآن کی ذمہ داری مفسر قرآن سے بھی زیادہ سخت نظر آتی ہیں کیونکہ تفسیر میں مفسر ایک لفظ کی شرح میں ایک صفحہ بھی لکھ سکتا ہے مگر ترجمہ قرآن کرتے وقت عربی لفظ کا ترجمہ ایک ہی لفظ سے کرنا ہوتاہے اس لئے مترجم قرآن کا کسی بھی زبان میں ترجمہ منشاالٰہی کے مطابق یا منشائے الٰہی کے قریب قریب کرنا مشکل ترین کام ہے۔ البتہ تمام شرائط کے ساتھ ترجمہ قرآن اس وقت ممکن ہے کہ جب مترجم قرآن تمام عربی تفاسیر ، کتب احادیث ، تاریخ، فقہ اور دیگر علوم و فنون پر دسترس کے ساتھ ساتھ عربی زبان وادب پر مکمل عبور رکھتاہو اور وہ ایک عبقری شخصیت کا حامل ہو ساتھ ہی مترجم قرآن کتاب اللہ کو عربی زبان میں سمجھنے کی حددرجہ صلاحیت رکھتا ہو تب ہی ترجمہ قرآن منشائے الٰہی اور فرمان رسالت ماٰب صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تر ہوگا۔
مختصر تاریخ اردو ترجمہ قرآن:
بارہویں صدی ہجری میں اردو زبان برصغیر پاک وہند میں نہ صرف ادبی زبان بن کر اُبھر رہی تھی بلکہ کثیر تصنیفات و تالیفات اور تراجم کے باعث ایک عام فہم زبان بھی بنتی جارہی تھی ۔ اگرچہ دکن کی اسلامی ریاستوں میں عرصۂ دراز سے اردو زبان میں عقائد تصوف و اخلاقیات اور فقہی کتابوں کے تراجم ہورہے تھے مگر اردو ترجمۂ قرآن کا آغاز ابھی نہ ہوا تھا۔ شاید اردو کی نشوونما کی ابتداء میں چونکہ ذخیرہئ الفاظ محدود تھا اس لئے ترجمۂ قرآن کی طرف علماء نے قدم نہ اٹھایا۔ دوسری طرف بر صغیر سے عربی زبان کے بعد فارسی زبان بھی تیزی کے ساتھ رخصت ہونے لگی تو عوام تو عوام، خواص کے لئے بھی اب ترجمہ قرآن اردو زبان میںضروری سمجھا جانے لگا چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م1176ھ)جو خود فارسی ترجمہ قرآن کے برصغیرمیں اولین مترجم میں شمار ہوتے ہیں ان کے دو صاحبزادں کو اردو زبان کے ترجمہ قرآن کے اولین مترجم ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
شاہ محمد رفیع الدین دہلوی (م 1233ھ/1817ء) نے اردو زبان کا پہلا مکمل لفظی ترجمہ قرآن 1200ھ میں مکمل کیا جب کہ آپ کے چھوٹے بھائی شاہ محمد عبدالقادر دہلوی (م 1230ھ/1814ء) نے اردو زبان کی تاریخ کا پہلا مکمل بامحاورہ ترجمہ قرآن 1205 ھ /1790ء میں مکمل کیا ۔ یہ دونوں تراجم قرآن تیرھویں صدی ہجری ہی میں شائع ہونا شروع ہوگئے جس کے باعث ان کو اولیت کے ساتھ ساتھ پذیرائی بھی حاصل ہوئی اگرچہ تاریخ میں ان دونوں اردو تراجم قرآن سے قبل کے بھی تراجم پائے جاتے ہیں لیکن یاتو وہ مکمل ترجمہ قرآن نہیں تھے یا مخطوطہ ضائع ہوگئے اس لحاظ سے ان دونوں بھائیوں کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ایک لفظی ترجمہ قرآن کا بانی ہے تو دوسرا با محاورہ ترجمہ قرآن کا حامل ۔
شاہ برادران کے بعد فورٹ ولیم کالج ( قائم شدہ 1214ھ/ 1800ء) نے پہلے انجیل کا اردو زبان میں ترجمہ کرکے شائع کیا اور پھر 5 مولوی حضرات نے مل کر اردو میں ترجمہ قرآن (1219 ھ /1804ء) میں مکمل کیا ۔ تیرھویں صدی ہجری میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 25 ترجمہ قرآن اردو زبان میں کئے گئے مگر کسی کو بھی شاہ برادران کی طرح پذیرائی حاصل نہ ہو سکی البتہ سرسید احمدخاں کی تفسیر اور ترجمہ 15 پاروں تک شائع ہو ا تھا اور علی گڑھ کے ہم خیال لوگوں کے درمیان اس کو پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔ مگر سر سید احمدخاں کے ترجمہ قرآن سے جدید ترجمہ قرآن کا دور شروع ہوتاہے جس میں عام روایت سے ہٹ کر ترجمہ اور تفسیر کی گئی۔ اس جدید رجحان کو علی گڑھ سے فارغ التحصیل افراد نے سر سید کی فکر کو آگے بڑھا نے میں بہت مدد دی۔ سر سید احمد خان کے ہم خیال لوگوں نے اپنی دانست میں ترجمہ قرآن کو ایک عام کتاب سمجھ کر ترجمہ کرنا شروع کردیا جس کے باعث ایک بڑی تعدداد مترجمین کی سامنے آئی جن میں سے چند اردو مترجمین قرآن کے نام معروف ہیں مثلاً نذیر احمد دہلوی ، مولوی عاشق الٰہی میرٹھی ، مولوی فتح محمد جالندھری ، مرزا وحیدالزماں، مولوی عبداللہ چکڑالوی ، ابو الکلام آزاد ، چودھری غلام احمد ، عبدالماجد دریاآبادی۔ سرسید احمد خان کے رفقاءکار کے علاوہ ایک بڑی تعداد مترجمین قرآن کی دارالعلوم دیوبند (قائم شدہ 1283ھ) کے مترجمین کی بھی چودھویں صدی ہجری میں سامنے آتی ہے جن میں مندرجہ ذیل مترجمین کے نام قابل ذکر ہیں: مولوی فیروز الدین روحی، مولوی محمد میمن جونا گڑھی ، مرزا حیرت دہلوی ، مولوی عبدالحق، مولوی محمد نعیم دہلوی، مولوی اشرف علی تھانوی ، مولوی محمد الحسن دیوبندی وغیرہ۔