• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا قیامت سے پہلے بچے بوڑھے پیدا ہوں گے ؟

شمولیت
جنوری 13، 2013
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
64
12380261_1705507286358287_2055055753_n.jpg
کیا قیامت سے پہلے بچے بوڑھے پیدا ہوں گے ؟

از قلم: الطاف الرحمن ابوالکلام سلفی

قیامت کی نشانیوں میں سے یہ نہیں ہے کہ قرب قیامت کے وقت بچے بوڑھے یا بوڑھوں کی شکل کے پیدا ہوں گے ، اور جو سورہ مزمل آیت نمبر :17 کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ وہ آیت اس طرح ہے۔ (( فكيف تتقون إن كفرتم يوما يجعل الولدان شيبا ( 17 ) ) ترجمہ: تم اگر کافر رہے تو اس (قیامت کے) دن کیسے پناہ پاو گے جو دن بچوں کو بوڑھا کردے گا۔
اس آیت کے بعد والی آیت بھی صاف اشارہ کرتی ہے کہ یہ معاملہ قیامت کے دن ہوگا نہ کی قیامت سے پہلے ۔ اس کے بعد والی آیت اس طرح ہے: ((السماء منفطر به كان وعده مفعولا ( 18 )) ترجمہ : (یعنی بچوں کا بوڑھا کردینے والا دن وہ ہوگا ) جس دن یہ آسمان پھٹ جائے گا اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہوکر ہی رہے گا۔
آیت کا صاف مفہوم ہی ہے کہ یہ قیامت کے دن کی شدید ہولناکی کا عالم ہوگا کہ بچے بوڑھے ہوجائیں گے۔ یا تو حقیقت میں بوڑھے ہو جائیں گے ڈر کے مارے یا یہ قیامت کی بھیانک ہولناکی کو بطور مثال بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت میں اللہ پر ایمان نہ لانے والوں کے لئے قیامت کے روز کی شدید دھمکی اور وعید ہے۔
یہ مفہوم تو نرا جاہل ہی نکال سکتا ہے جسے عربی کا الف با بھی معلوم نہ ہو کہ بچوں کا بوڑھا ہونا قیامت کے دن سے پہلےہوگا ، اور مزید جہالت اس وقت سامنے آتی ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ قیامت سے پہلے عورتیں بوڑھے پچے کو نجیں گے ۔ نعوذ باللہ من ذلک ۔ یہ مفہوم قرآن کریم میں تحریف کرنے کے مترادف ہے۔ اعاذںا اللہ منہ
کسی بھی مفسر نے اسے قیامت سے پہلے واقع ہونے والی نشانیوں میں اسے ہرگز شمار نہیں کیا ہے۔ لہذا اس افواہ کو قرآن کریم کی طرف نسبت کرکے غلط پیغام دیتے ہوئے اللہ سے ڈرنا چاہئے۔ اللہ ہدایت دے۔
صحابی رسول عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں ( یاد رہے کہ یہی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا بھی روایت کی گئی ہے:) کہ : بروز قیامت ہمارا رب آدم علیہ السلام کو بلائے گا ، اور کہے گا : اے آدم ! اٹھو اور جہنمیوں کو دوسروں سے الگ کردو، آدم حکم الٰہی کی تعمیل کرنا چاہیں گے ، مگر انہیں جہنمیوں کے بارے میں علم نہ ہوگا کہ وہ کون ہیں تو اللہ سے گویا ہوں گے : اللہ مجھے تو بس وہی معلوم ہے جو تونے مجھے بتایا ہے۔ اللہ کہے گا: ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے (999) جہنمی کو الگ کردو ۔ (یعنی ایک ہزار میں 999 جہنم اور صرف ایک جنت میں )۔ تو اسی وقت کی ہولناکی کی وجہ سے چھوٹا بوڑھا ہوجائے گا ، اور ہر حمل والی عورت اپنا حمل ضائع کردے گی ( گرادے گی)۔ اور لوگوں کو مدھوش نشہ میں خیال کیا جائے گا جب کہ در حقیقت وہ نشہ میں نہ ہوں گے ،بلکہ ایسا تو اللہ تعالیٰ کے تیار کردہ شدید عذاب کو دیکھ کر ہوگا ۔ (صحيح مسلم: 222 تفسیر طبری)
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تفسیر صحابہ کے بعد کسی کے قول کی طرف دھیان دینے کی کوئی کنجائش باقی نہیں رہ جاتی اور جب کہ کسی نے بھی اسے قیامت کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہی نہیں ہے ۔ کیونکہ آیت کا مفہوم صاف قیامت کے روز کی حالت کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے۔
اس طرح کا پوسٹ کرنے سے پہلے ہزار بار اللہ سے ڈریں کہ کہیں قرآن کریم کی تحریف کرکے بڑے عذاب کو اپنے دامن گناہ میں جمع تو نہیں کرہے ۔ اور دوسروں کو گمراہ کرکے ان کا گناہ بھی اپنے سر لادنے کا قبیح عمل مفت میں تو نہیں کر رہے۔ اللہ ہماری اصلاح فرمائے۔
 
Top