• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا لفظ ’‘ حضرت ’‘ بولنا جائز نہیں؟؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
ایک بھائی نے ذاتی پیغام کے ذریعے ایک سوال اٹھایا ہے ۔جو مندج ذیل ہے ۔ ہم نے جواب میں ’’محدث ‘‘ کا ایک فتوی درج کر کے ابتدا ء کر دی ہے ۔
اور ساتھ ہی صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کےلئے ۔

السلام علیکم!
آج ایک دوست نے اچانک ایک سوال کردیا کہ لفظ حضرت بولنا جائز نہیں کیوں کہ اس کا مطلب حاضر ناظر ہونا ہے لہذٰ ا حضرت لفظ نہ بولا کریں۔ اگر کوئی بھائی جواب دے گا تو نوازش ھوگی
شکریہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’‘ محدث ’‘ کا جواب
لفظ صاحب مولیٰ اور حضرت کامعنی اور مفہوم


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جناب مولانا صاحب درج ذیل چارسوالوں کے جوابات مطلوب ہیں: 1۔ لفظ صاحب کالغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہے؟2۔ لفاظ مولانا کا لغوی معنی اور اصطلاحی معنی کیا ہے؟ 3۔ لفظ حضرت کا لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہے؟4۔ بوقت ذبح حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمرکتنی تھی؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال نمبر(1) لفظ صاحب اسم فاعل باب صحب یصحب سے ہے۔ اس کا معنی ساتھی، ساتھ زندگی گزارنے والا، مالک، گورنر، وزیر ہے۔اس کی جمع صحب ہے اور اصحاب۔ توگویا صاحب کا معنی جناب اور محترم ،آقا اور مالک کے معنی میں آتا ہے۔ جس طرح لفظ محترم اور آقا کا شرعاً استعمال جائز ہے اوراسی طرح لفظ صاحب کا استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بطور لاحقہ اور سابقہ دونوں طرح استعمال میں متعارف ہے ۔ جیسے بطور سابقہ صاحب المعالی۔ صاحب السمو۔ آج کل اس کا استعمال عام عروج ہے اور بطور لاحقہ الشیخ صاحب ، استاد صاحب وغیرہ عام متعارف ہے۔
اس کا استعمال بطور آقا اور بااختیار شخصیت کےمعنی میں صحیح البخاری میں دو مقام پر موجود ہے۔1۔ قال رسول اللہﷺ صلو ا علی صاحبکم۔ یہاں ساتھی اور دوست اور دینی بھائی کے معنی ہیں۔
2۔ جب عمرۃ القضا میں مکہ مکرمہ میں مدت اقامت تین دن پوری ہوگئی تو مشرکین مکہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا: قل لصاحبک اخرج عنا الحدیث۔ اس مقام پر لفظ صاحب آقا اور بااختیار شخصیت، گورنر، قائد اور سالار کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
لفاظ مولانا میں لفظ مولیٰ مضاف اور ناضمیر متکلم جمع مع الغیر مضاف الیہ۔ بمعنی مرکب اضافی ہے اور مولیٰ کا لفظ متعدد معانی کا حامل ہے ۔ جیسے مولیٰ یعنی مالک، آقا، سردار، آزادکرنے والا، آزاد شدہ، انعام دینے والا، وہ جس کو انعام دیا جائے ، محبت کرنے والا، ساتھی، حلیف، پڑوسی، مہمان، شریک،بیٹا، چچا کا بیٹا، بھانجا، داماد، رشتہ دار، ولی اور تابع۔ملاحظہ ہو کبت لغات قاموس، تحفۃ الاحوذی اور تنقیح الروات، مشکوۃ وغیرہ اور اس کا استعمال بلاشبہ درست اور صحیح ہے۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے حضرت زیدبن حارثہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: انت اخونا ومولنا
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارہ میں حدیث: من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ زبان زد عام ہے۔ لہذا مشکوۃ ملاحظہ فرمائیں نیز جامع ترمذی۔ پس اس کا اطلاق صاحب علم و فضل ، ذی وقار شخصیت پر بلاشبہ جائز ہے۔
سوال نمبر2: حضرت کا معنی:موجودگی ، نزدیکی اور حضرت کا لفظ اس ذی مرتبہ آدمی کے لیے مستعمل ہوتا ہے جو مربع خلائق ہو۔ مثلاً کہتے ہیں: الحضرۃ العالی تامر بکذا۔ حضرت عالی ایسا حکم دیتے ہیں۔ (المنجد ص217) اور مصباح اللغات میں ہے کہ لفظ حضرت کا اطلاق ایسے بڑے آدمی پر ہوتا ہے جس کے پاس لوگ جمع ہوتے ہیں، جیسے الحضرۃ العالية تامر بكذا۔ کہ جناب عالی فلاں فلاں کام کا حکم دیتےہیں۔ ان دونوں لغوی حوالہ جات سے متبادرالی الذہن مفہوم یہ ہے کہ حضرت عالی اور جناب عالی مترادف المعنی ہیں ، لہذا ادب و احترام کے اظہار کے لیے اس کا استعمال روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ لہذا اس اعتبار سے اس کے استعمال میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اس کا معنی حاضر ناظ کا لیا جائے یا اس اعتقادی معنی کا استدلال کیا جائے جیسا کہ قبوریین کا عقیدہ ہے تو پھر ہرگز جائز نہیں۔
سوال نمبر:3۔ قرآن میں ہے ، فلما بلغ معه السعى...... الاية
اس کی تفسیر میں مفسر جلال الدین المحلی، الشیخ ابوبکر الجزائری جیسے نامور مفسر دونوں بیک زبان لکھتے ہیں کہ بوقت ذبح حضرت اسماعیل علیه وعليه نبينا الصلوة والسلام کی عمر سات برس یا زیادہ 13 برس تھی۔ ملاحظہ ہو اصل عبارت:
اى ان يسعى معه اى يعينه قيل بلغ سبع سنين وقيل ثلاثة عشرسنة (ص377)
سوال نمبر4: سورۃ الصافات اوربیت اللہ شریف کی تعمیر یا تجدید کےوقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر شریف20برس کے لگ بھگ تھی۔ملاحظہ ہوکتاب تاریخ بیت اللہ ص88، بحوالہ اخبارِ مکہ ۔ تفسیر روح المعانی میں بالجزم بوقت ذبح حضرت اسماعیل ذبیح اللہ کی قربانی تعمیر کعبہ سے سات برس، مگر جلال محلی اور محمود آلوسی ک مطابق 13برس پہلے وقوف پذیر ہوچکی تھی۔ بالفاظ دیگر تعمیر کعبۃ اللہ سے قبل حضرت اسماعیل ذبیح اللہ کے شرف سے متشرف ہوچکے تھے۔ اس مختصر سے جواب ہی کو سردست کافی سمجھیں کیونکہ سیرۃ انبیاء علیہم السلام پرلکھنےوالوں نے ان غیر ضروری سوالات پر اپنی عمروں کے قیمتی لمحات کو ضائع کرنا زیادہ مناسب خیال نہیں کیا یا پھر راقم الحروف اپنی علمی فرومائیگی اور مطالعہ و تحقیق کےمیدان میں کم نظری کی وجہ سے تلاش وبسیار کے باوصف ایسی کتاب تک رسائی حاصل نہ کرسکا ، جس میں اس موضوع پر مفصل اور مدلل قطعی داد تحقیق دی گئی ہو۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتویٰ​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حضرت مفتی عبیداللہ عفیف صاحب (حفظہ اللہ و متعنا بطول حیاتہ ) کے
سوال نمبر2: حضرت کا معنی:موجودگی ، نزدیکی اور حضرت کا لفظ اس ذی مرتبہ آدمی کے لیے مستعمل ہوتا ہے جو مربع خلائق ہو۔ مثلاً کہتے ہیں: الحضرۃ العالی تامر بکذا۔ حضرت عالی ایسا حکم دیتے ہیں۔ (المنجد ص217) اور مصباح اللغات میں ہے کہ لفظ حضرت کا اطلاق ایسے بڑے آدمی پر ہوتا ہے جس کے پاس لوگ جمع ہوتے ہیں، جیسے الحضرۃ العالية تامر بكذا۔ کہ جناب عالی فلاں فلاں کام کا حکم دیتےہیں۔ ان دونوں لغوی حوالہ جات سے متبادرالی الذہن مفہوم یہ ہے کہ حضرت عالی اور جناب عالی مترادف المعنی ہیں ، لہذا ادب و احترام کے اظہار کے لیے اس کا استعمال روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ لہذا اس اعتبار سے اس کے استعمال میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اس کا معنی حاضر ناظ کا لیا جائے یا اس اعتقادی معنی کا استدلال کیا جائے جیسا کہ قبوریین کا عقیدہ ہے تو پھر ہرگز جائز نہیں۔
سے یہ محسوس ہورہا ہے کہ لفظ ’’ حضرت ‘‘ کے استعمال کا تعلق ’’ عقیدہ حاضر و ناظر ‘‘ سے شاید نہیں ہے ، بلکہ اس کا اطلاق ’’ بڑی شخصیات ‘‘ سے شروع ہوکر ، کیونکہ لوگ ان کے پاس حاضر ہوتے تھے ، مطلقا ’’ عزت و احترام ‘‘ کے معنی میں ہونے لگا ہے ۔
اگر یہ ایسا ہی ہے تو پھر یہ لفظ ’’ اردو ‘‘ کی بجائے ’’ عربی ‘‘ کی ایجاد ہونا چاہیے ۔ واللہ اعلم ۔
بہر صورت ایک عام آدمی کے لیے اتنی معلومات کافی ہیں ، لیکن اصحاب ذوق کی تسلی کے لیے مزید عربی ، اردو لغت کے حوالوں کی ضرورت ہے ، تاکہ علی وجہ البصیرۃ کوئی رائے قائم کی جاسکے ۔
اسحاق سلفی صاحب تو موجود ہیں لیکن مزید اہل علم کو زحمت دینا پڑے گی ۔
@یوسف ثانی
@حیدرآبادی
@قاھر الارجاء و الخوارج
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
بھائی اردو تو مسکینوں کی زبان ہے ادھر ادھر سے مانگ تانگ کے گزارا ہوتا ہے
حضرۃ لفظ عربی کا ہی ہے جسے اردو میں استعمال کیا جاتا ہے اور فیروز اللغات میں بھی حضرت کا ایک معنی لکھا ہے جناب ، حضور ، تعظیم کا لقب
دیکھئے مادہ( ح ض )
تاج العروس میں لکھا ہے
قال الجوھری: حضرۃ الرجل :قربہ و فناؤہ و فی حدیث عمرو بن سلمۃ الجرمی کنا بحضرۃ ماء ،ای عندہ ۔ و کلمتہ بحضرۃ فلان و بمحضر منہ ای بمشھد منہ ۔ قال شیخنا: و اصل الحضرۃ مصدر بمعنی الحضور کما صرحوا بہ ثم تجوزوا بہ تجوزا مشھورا عن مکان الحضور نفسہ و یطلق علی کل کبیر یحضر عندہ الناس کقول الکتّاب اھل الترسل و الانشاء : الحضرۃ العالیۃ تامر بکذا و المقام و نحوہ ۔ و ھو اصطلاح اھل الترسل کما اشار الیہ الشھاب فی مواضع من شرح الشفاء
ایسے ہی المعجم الوسیط میں بھی لکھا ہے
حضرۃ الرجل : فناؤہ و یعبر بھا عن ذی المکانۃ تجوزا فیقال اذن حضرتہ بکذا
ایسے ہی معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ میں بھی لکھا ہے
حضرۃ (مفرد) ج= حضرات : لقب احترام و تشریف بمعنی :سید و نحوہ و یعبر بہ عن ذی المکانۃ فی المراسلات و المخاطبات "حضرۃ الاستاذِ - الدکتور ،حضرات السادۃ و السیدات " حضرۃ المحامی - حضرۃ المحترم ۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
ایسے ہی القاموس الوحید میں بھی لکھا ہے
حضرۃ فلان
(مضاف الیہ کی تبدیلی کے ساتھ) بطور مجاز اعزاز کیلئے بولا جاتا ہے۔ بمعنی آپ ،جناب ،موصوف
قال حضرۃ فلان :اذن حضرۃ فلان ، ھل تاذن حضرتکم
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
جناب مفتی عبیداللہ عفیف صاحب (حفظہ اللہ تعالی ) کی بات درست ہے ،کہ یہ
’‘ حضرت کا لفظ اس ذی مرتبہ آدمی کے لیے مستعمل ہوتا ہے جو مربع خلائق ہو۔ مثلاً کہتے ہیں: الحضرۃ العالی تامر بکذا۔ حضرت عالی ایسا حکم دیتے ہیں۔ (المنجد ص217) اور مصباح اللغات میں ہے کہ لفظ حضرت کا اطلاق ایسے بڑے آدمی پر ہوتا ہے جس کے پاس لوگ جمع ہوتے ہیں، جیسے الحضرۃ العالية تامر بكذا۔ کہ جناب عالی فلاں فلاں کام کا حکم دیتےہیں۔ ان دونوں لغوی حوالہ جات سے متبادرالی الذہن مفہوم یہ ہے کہ حضرت عالی اور جناب عالی مترادف المعنی ہیں ’‘
اب ذیل میں ۔المنجد ۔اور ۔اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ ۔۔کا سکین دیکھ لیں :
حضرت ۴.jpg
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
ذیل کی سطور بھی دیکھ لیجئے ۔
  1. حَضرة: ( اسم )
    الحَضْرَةُ : الحضور
    الحَضْرَةُ : قُرْبُ الشيء
    حضرةُ الرجل : فِناؤه ، وهو مكان حضوره ، ويعبَّر بها عن ذي المكانة تجوّزًا ، ف أذِن حضرتُه بكذا
    الحَضْرَةُ : المدينة
    الحَضْرَةُ : عُدّة البناء من الآجُرّ والجِصّ وغيرهما
    حضرةُ : لقب احترام وتشريف بمعنى : سيِّد ونحوه يُعَبَّر به عن ذي المكانة في المراسلات والمخاطبات حضرة الأستاذ / الدُّكتور ، جمع حَضَرات
    شَاهَدَ الحَضْرَةَ بِالزَّاوِيَةِ : الجَذْبَةَ

    حَضْرَةُ الدَّارِ : فِنَاؤُهَا ، سَاحَتُهَا
    حضرة : وليمة ، طعام المأدبة
  2. حَضَرةٌ: ( اسم )
    حَضَرةٌ : جمع حاضِرُ
  3. حَضَر: ( اسم )
    الحَضَر : المدن والقرى والرَّيف
    الحَضَر من الناس : ساكن الحَضَر
    الحَضَر : من لا يصلح للسفر
    أهل الحضر : سكان المدينة والرِّيف
    سُكَّانُ الحَضَرِ : سُكَّانُ الْمُدُن وَالقُرَى


    ترجمة و معنى حضرة في قاموس المعاني. قاموس عربي عربي
    1. حَضْرَةٌ :

    جمع : حَضَرَاتٌ . [ ح ض ر ].
    1 . :- حَضْرَةُ الْمُدِيرِ :-: سِيَادَةُ الْمُدِيرِ ، أَيْ تَعْبِيراً عَنْ مَكَانَتِهِ .
    2 . تَحَدَّثَ إلَيْهِ بِحَضْرةِ أَخِيهِ :- : بِوُجُودِهِ ، بِحُضُورِهِ .
    3 . :- شَاهَدَ الحَضْرَةَ بِالزَّاوِيَةِ :- : الجَذْبَةَ .
    4 . :- حَضَرَاتُ السَّادَةِ وَالسَيِّدَاتِ :- : عِبَارَةٌ تُرَدَّدُ عِنْدَمَا يُرَادُ التَّوجُّهُ بِالخِطَابِ لِلْحَاضِرِينَ ، الحُضُور .
    5 . :- نَزَلَ الحَضْرَةَ :- : الْمَدِينَةَ .
    6 . :- حَضْرَةُ الدَّارِ :- : فِنَاؤُهَا ، سَاحَتُهَا .

    المعجم: الغني

    2. حَضْرَة 1:

    حَضْرَة 1 :-
    1 - وجودٌ وحضورٌ خلاف غَيْبة :- تسلّم الجائزة في حَضْرَة الملِك .
    2 - قُرْبٌ :- كنتُ بحَضْرَة الدَّار / فلان :-
    • حَضْرة الرَّجل : فناؤه .
    3 - مكان الحضور :- جلست بحضرة شيخي / أستاذي : بالمكان الذي هو حاضر فيه .
    4 - وليمة ، طعام المأدبة :- صنع حضرةً بمناسبة شفاء ابنه .
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

آج سے تقریباً کوئی ١٨- ٢٠ سال پہلے ایک ٹی وی ایکٹر کے والد جن کا نام غالباً (عاشق حسین بھٹی) تھا - ایک اخبار میں ایک ادرایہ میں لکھا تھا -

کہ لفظ "مولانا" یا مولا جن معنی میں الله کی ذات پاک کے لئے استمعال ہوا ہے ان معنی میں کسی بھی انسان کے لئے استمعال کرنا جائز نہیں- اس وقت تو یہ بات بڑی عجیب سی لگی تھی - کیوں کہ ہمارے سامنے ہر کوئی کسی عالم دین کو "مولانا" ہی کہتا تھا اوراب بھی کہتا ہے- اور اس وقت مجھے بھی دینی علوم سے کوئی خاص شغف نہ تھا جیسے آج کل کے مسلمانوں کی اکثریت کا حال ہے کہ بغیر سوچے سمجھے اور ترجمہ کیے بغیر قرآن کریم پڑھتے نظر آتے ہیں -وہی حال میرا تھا- رمضان میں اکثر دو دو تین تین مرتبہ قرآن کریم ختم کیا لیکن کچھ پتا نہیں ہوتا تھا کہ کیا پڑھا- یہی حال حدیث نبوی کے بارے میں تھا -یہ تک نہیں پتا تھا کہ احادیث کی مشہور کتابیں کون سی ہیں وغیرہ-

دوسرے یہ کہ جن صاحب نے یہ بات بیان کی تھی وہ خود بظاہر دین سے بے بہرہ اور بھانڈ فیملی سے تعلق رکھتے تھے- بہرحال اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی بات میں کچھ وزن تھا-

آپ احباب اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بہت خوب ، ماشاءاللہ ، کم از کم میری تو تسلی ہوگئی ہے کہ اس لفظ کے استعمال میں ’’ عقیدہ حاضر و ناظر ‘‘ کا کوئی چکر نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
السلام و علیکم و رحمت الله -

آج سے تقریباً کوئی ١٨- ٢٠ سال پہلے ایک ٹی وی ایکٹر کے والد جن کا نام غالباً (عاشق حسین بھٹی) تھا - ایک اخبار میں ایک ادرایہ میں لکھا تھا -

کہ لفظ "مولانا" یا مولا جن معنی میں الله کی ذات پاک کے لئے استمعال ہوا ہے ان معنی میں کسی بھی انسان کے لئے استمعال کرنا جائز نہیں- اس وقت تو یہ بات بڑی عجیب سی لگی تھی - کیوں کہ ہمارے سامنے ہر کوئی کسی عالم دین کو "مولانا" ہی کہتا تھا اوراب بھی کہتا ہے- اور اس وقت مجھے بھی دینی علوم سے کوئی خاص شغف نہ تھا جیسے آج کل کے مسلمانوں کی اکثریت کا حال ہے کہ بغیر سوچے سمجھے اور ترجمہ کیے بغیر قرآن کریم پڑھتے نظر آتے ہیں -وہی حال میرا تھا- رمضان میں اکثر دو دو تین تین مرتبہ قرآن کریم ختم کیا لیکن کچھ پتا نہیں ہوتا تھا کہ کیا پڑھا- یہی حال حدیث نبوی کے بارے میں تھا -یہ تک نہیں پتا تھا کہ احادیث کی مشہور کتابیں کون سی ہیں وغیرہ-

دوسرے یہ کہ جن صاحب نے یہ بات بیان کی تھی وہ خود بظاہر دین سے بے بہرہ اور بھانڈ فیملی سے تعلق رکھتے تھے- بہرحال اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی بات میں کچھ وزن تھا-

آپ احباب اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معنى كلمة "مولانا"
كلمة مولى من الأضداد ، أي تطلق على الشئ وضده ..
بمعنى أنها تطلق على "السيّد" وتطلق أيضاً على "العبد" ..

لفظ۔ مولی ۔ جس کی جمع ’’ مولانا ‘‘ آتی ہے یہ لفظ ،اضداد میں سے ہے ،یعنی ایسا لفظ ہے جس کے اندر باہم متضاد معنی پائے جاتے ہیں ۔مثلاً ۔مولی ۔مالک کوبھی کہتے ہیں اور غلام کو بھی ۔مولی ۔کہتے ہیں
صحیح البخاری ،باب كراهية التطاول على الرقيق وقوله عبدي أو أمتي:
باب: غلام پر دست درازی کرنا اور یوں کہنا کہ یہ میرا غلام ہے یا لونڈی مکروہ ہے​
حدیث نمبر: 2552
حدثنا محمد حدثنا عبد الرزاق اخبرنا معمر عن همام بن منبه انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال:‏‏‏‏ " لا يقل احدكم اطعم ربك وضئ ربك اسق ربك وليقل سيدي مولاي ولا يقل احدكم عبدي امتي وليقل فتاي وفتاتي وغلامي ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کوئی شخص (کسی غلام یا کسی بھی شخص سے) یہ نہ کہے۔ اپنے رب (مراد آقا) کو کھانا کھلا، اپنے رب کو وضو کرا، اپنے رب کو پانی پلا“۔ بلکہ صرف میرے سردار، میرے آقا (میرے مولا ) کے الفاظ کہنا چاہئے۔ اسی طرح کوئی شخص یہ نہ کہے۔ ”میرا بندہ، میری بندی، بلکہ یوں کہنا چاہئے میرا چھوکرا، میری چھوکری، میرا غلام۔“
اور اس کی شرح میں حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں :
وَفِي الْحَدِيثِ جَوَازُ إِطْلَاقِ مَوْلَايَ۔۔اس حدیث میں انسان کےلئے لفظ ’’مولی ‘‘ کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے صحابی کےلئے ’’ مولانا ‘‘ استعمال کیا ہے ؛
دیکھئے صحیح البخاری حدیث :2699
فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا، وَقَالَ:‏‏‏‏ الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ، وَقَالَ لِعَلِيٍّ:‏‏‏‏ أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ:‏‏‏‏ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي، وَقَالَ لِزَيْدٍ:‏‏‏‏ أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچی کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا کہ خالہ ماں کی جگہ ہوتی ہے، پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو۔ زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی۔
.......................................................
اورصحیح البخاری حدیث ۳۰۳۹
میں بدر والے دن کفار کے جواب رسول اللہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دیا:
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَلَا تُجِيبُوا لَهُ، قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَقُولُ، قَالَ:‏‏‏‏ قُولُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ، قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ لَنَا الْعُزَّى وَلَا عُزَّى لَكُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَلَا تُجِيبُوا لَهُ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَقُولُ، قَالَ:‏‏‏‏ قُولُوا اللَّهُ مَوْلَانَا، وَلَا مَوْلَى لَكُمْ".
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ہم اس کے جواب میں کیا کہیں یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو کہ اللہ سب سے بلند اور سب سے بڑا بزرگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا ہمارا مددگار عزیٰ (بت) ہے اور تمہارا کوئی بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جواب کیوں نہیں دیتے، صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اس کا جواب کیا دیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہو کہ اللہ ہمارا حامی ہے اور تمہارا حامی کوئی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے اس کا استعمال انسانوں کیلئے بھی جائز ہے ، جیسا کہ اوپر کی پوسٹ میں مفتی عبید اللہ عفیف صاحب کے فتوی میں بتایا گیا ہے
انہوں نے لکھا ہے :
اور مولیٰ کا لفظ متعدد معانی کا حامل ہے ۔ جیسے مولیٰ یعنی مالک، آقا، سردار، آزادکرنے والا، آزاد شدہ، انعام دینے والا، وہ جس کو انعام دیا جائے ، محبت کرنے والا، ساتھی، حلیف، پڑوسی، مہمان، شریک،بیٹا، چچا کا بیٹا، بھانجا، داماد، رشتہ دار، ولی اور تابع۔ملاحظہ ہو کتب لغات قاموس، تحفۃ الاحوذی اور تنقیح الروات، مشکوۃ وغیرہ اور اس کا استعمال بلاشبہ درست اور صحیح ہے۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے حضرت زیدبن حارثہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: انت اخونا ومولنا ؛؛
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معنى كلمة "مولانا"
كلمة مولى من الأضداد ، أي تطلق على الشئ وضده ..
بمعنى أنها تطلق على "السيّد" وتطلق أيضاً على "العبد" ..

لفظ۔ مولی ۔ جس کی جمع ’’ مولانا ‘‘ آتی ہے یہ لفظ ،اضداد میں سے ہے ،یعنی ایسا لفظ ہے جس کے اندر باہم متضاد معنی پائے جاتے ہیں ۔مثلاً ۔مولی ۔مالک کوبھی کہتے ہیں اور غلام کو بھی ۔مولی ۔کہتے ہیں
صحیح البخاری ،باب كراهية التطاول على الرقيق وقوله عبدي أو أمتي:
باب: غلام پر دست درازی کرنا اور یوں کہنا کہ یہ میرا غلام ہے یا لونڈی مکروہ ہے​
حدیث نمبر: 2552
حدثنا محمد حدثنا عبد الرزاق اخبرنا معمر عن همام بن منبه انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال:‏‏‏‏ " لا يقل احدكم اطعم ربك وضئ ربك اسق ربك وليقل سيدي مولاي ولا يقل احدكم عبدي امتي وليقل فتاي وفتاتي وغلامي ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کوئی شخص (کسی غلام یا کسی بھی شخص سے) یہ نہ کہے۔ اپنے رب (مراد آقا) کو کھانا کھلا، اپنے رب کو وضو کرا، اپنے رب کو پانی پلا“۔ بلکہ صرف میرے سردار، میرے آقا (میرے مولا ) کے الفاظ کہنا چاہئے۔ اسی طرح کوئی شخص یہ نہ کہے۔ ”میرا بندہ، میری بندی، بلکہ یوں کہنا چاہئے میرا چھوکرا، میری چھوکری، میرا غلام۔“
اور اس کی شرح میں حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں :
وَفِي الْحَدِيثِ جَوَازُ إِطْلَاقِ مَوْلَايَ۔۔اس حدیث میں انسان کےلئے لفظ ’’مولی ‘‘ کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے صحابی کےلئے ’’ مولانا ‘‘ استعمال کیا ہے ؛
دیکھئے صحیح البخاری حدیث :2699
فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا، وَقَالَ:‏‏‏‏ الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ، وَقَالَ لِعَلِيٍّ:‏‏‏‏ أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ:‏‏‏‏ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي، وَقَالَ لِزَيْدٍ:‏‏‏‏ أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچی کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا کہ خالہ ماں کی جگہ ہوتی ہے، پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو۔ زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی۔
.......................................................
اورصحیح البخاری حدیث ۳۰۳۹
میں بدر والے دن کفار کے جواب رسول اللہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دیا:
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَلَا تُجِيبُوا لَهُ، قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَقُولُ، قَالَ:‏‏‏‏ قُولُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ، قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ لَنَا الْعُزَّى وَلَا عُزَّى لَكُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَلَا تُجِيبُوا لَهُ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَقُولُ، قَالَ:‏‏‏‏ قُولُوا اللَّهُ مَوْلَانَا، وَلَا مَوْلَى لَكُمْ".
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ہم اس کے جواب میں کیا کہیں یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو کہ اللہ سب سے بلند اور سب سے بڑا بزرگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا ہمارا مددگار عزیٰ (بت) ہے اور تمہارا کوئی بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جواب کیوں نہیں دیتے، صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اس کا جواب کیا دیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہو کہ اللہ ہمارا حامی ہے اور تمہارا حامی کوئی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے اس کا استعمال انسانوں کیلئے بھی جائز ہے ، جیسا کہ اوپر کی پوسٹ میں مفتی عبید اللہ عفیف صاحب کے فتوی میں بتایا گیا ہے
انہوں نے لکھا ہے :
اور مولیٰ کا لفظ متعدد معانی کا حامل ہے ۔ جیسے مولیٰ یعنی مالک، آقا، سردار، آزادکرنے والا، آزاد شدہ، انعام دینے والا، وہ جس کو انعام دیا جائے ، محبت کرنے والا، ساتھی، حلیف، پڑوسی، مہمان، شریک،بیٹا، چچا کا بیٹا، بھانجا، داماد، رشتہ دار، ولی اور تابع۔ملاحظہ ہو کتب لغات قاموس، تحفۃ الاحوذی اور تنقیح الروات، مشکوۃ وغیرہ اور اس کا استعمال بلاشبہ درست اور صحیح ہے۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے حضرت زیدبن حارثہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: انت اخونا ومولنا ؛؛
السلام و علیکم -

جزاک الله - آپ کی بیان کرده احادیث سے میں یہی سمجھا ہوں کہ معامله نیت کا ہے- یعنی اگر مولا یا مولانا کا مطلب آقا ، سردار ، ساتھی ، یا غلام کے لیے جائیں تو کسی انسان کے لئے استمعال میں جائز ہیں ورنہ نہیں -

جیسے قران میں مومنوں کی دعا میں لفظ "مولانا" الله رب العزت کی ذات کے لئے ہی استمعال کیا گیا ہے -

رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ- سوره البقرہ ٢٨٦
اے رب ہمارے! اور ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جس کی ہمیں طاقت نہیں اور ہمیں معاف کر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا "کارساز" ہے- کافروں کے مقابلہ میں تو ہماری مدد فرما -
 
Top