• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا مختلف فیہ رفع الیدین منسوخ ہے۔؟

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
Post#43 ans_18jan2012​
[FONT=Arial نے کہا ہے:
گڈمسلم;68882]السلام علیکم ................محترم المقام فضیلت مآب مولانا سہج صاحب دامت برکاتہم العالیہ[/FONT]
[FONT=Arial نے کہا ہے:
پہلی بات تاخیر سے جوابی پوسٹ لکھنے پر سوری۔
السلام علیکم مسٹر گڈ مسلم
سوری کی ضرورت نہیں مسٹر گڈ مسلم ، ضرورت ہے دلیل پیش کرنے کی جوکہ آپ گول ہی کرگئے ہیں ۔ جی دلیل دس جگہ رفع یدین کرنے کی اور اٹھارہ جگہ نہ کرنے کی ۔
ویسے مسٹر آپ وقت کی کمی کا اظہار کرنے لگے ہیں اور خواہ مخواہ لمبی لمبی پوسٹیں لکھ رہے ہیں اس سے آپ کا قیمتی وقت صرف ہورہا ہے اور دلیل پھر بھی پیش نہیں کرسکرہے۔
[FONT=Arial نے کہا ہے:
گڈمسلم;68882]دوسری بات فی الحال اس بات کی بھی سوری کہ پہلے کی طرح آپ کی فضولیات کا پردہ چاک کروں، کیونکہ ٹائم اتنا نہیں ملتا۔ ہاں جب فرصت میسر ہوگی تو آپ کی جن باتوں پہ لکھنا مناسب ہوگا۔ لکھ دیا جائے گا۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔[/FONT]
[FONT=Arial نے کہا ہے:
آپ اگر دلیل پیش کردیں دس جگہ رفع یدین کرنے کی اور اٹھارہ جگہ نہ کرنے کی تو مہربانی ہوگی خود آپ کی آپکے ہی اوپر ۔ وقت بچائیے اور دلیل پیش کریں یا پھر صاف اقرار کیجئے کہ آپ قیاس کرتے ہیں گنتی پوری کرنے کے لئے ۔
[FONT=Arial نے کہا ہے:
گڈمسلم;68882] تیسری بات شروع تھریڈ میں جو آپ سے مطالبہ کیا گیا تھا وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا اور یقیناً آپ پورا کر بھی نہیں سکیں گے۔ ان شاء اللہ... اب یہ مت پوچھنے بیٹھ جانا کہ کیا مطالبہ کیا گیا تھا ....؟؟؟[/FONT]
[FONT=Arial نے کہا ہے:
دیکھئیے مسٹر گڈ مسلم پہیلیاں نہیں بجھواتے ایک تو آپ دسیوں دنوں کے بعد پوسٹنگ کرتے ہیں اور سوری بھی بولتے ہیں اور پھر پہیلیاں بھی بجھواتے ہیں ؟ یہ ٹھیک بات نہیں آپ اپنا مطالبہ پھر پھر بھی پیش کرسکتے ہیں جیسے میں آپ کو مسلسل یاد کروارہاں ہوں میرا مطالبہ یعنی دس جگہ رفع یدین کرنے کی دلیل اور اٹھارہ جگہ چھوڑنے کی دلیل گنتی کے ساتھ ۔ ایسے ہی آپ سے گزارش عرض ہے کہ اپنا مطالبہ جو کہ بقول آپ کے ابھی تک پورا نہیں ہوا اسے پیش کیجئے ۔
[FONT=Arial نے کہا ہے:
گڈمسلم;68882]چوتھی بات جنابِ مَن آپ اپنے تائیں ایز اے دعویٰ جو الفاظ بنا کر میری طرف منسوب کیے جارہے ہیں ۔ اور بڑے زور وشور ودھوم دھام سے انہیں الفاظ کے عین مطابق جواب طلب کررہے ہیں[/FONT] آپ کی اطلاع کےلیے عرض ہے کہ وہ میرے الفاظ نہیں ہیں ۔آپ کو جان لینا چاہیے اور اچھی طرح جان لینا چاہیے اورپھر اس بات کا علم بھی آپ کو دیتا چلوں کہ نہ کسی جگہ میں نے ان الفاظ جیسا مفہوم بیان کیا ہے۔ ہاں آپ کی لفاظی ضد کو پورا کرنے کےلیے وضاحت پیش کردی تھی۔ کہ آپ کے ضدی الفاظ کو یوں پورا کردیا گیا ہے اور وہ بھی واضح ، صریح دلیل کے ساتھ۔ اور ایسی دلیل جس کے بارے میں آپ کو اقرار کرنا پڑا کہ میں اس کا انکاری نہیں۔ لیکن آپ کا حال یہ ہے کہ تسلیم کرتے ہوئے بھی انکاری ہیں۔
[FONT=Arial نے کہا ہے:
الحمدللہ ثم الحمدللہ میں اب پھر اقرار کرتا ہوں کہ آپ کی پیش کردہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کا میں انکاری نہیں ،ہاں زمانے زمانے کی بات الگ ہے مسٹر گڈ مسلم ہم پہلے زمانے کی روایات کے مقابلہ میں بعد کے زمانے کی روایات سے عمل لیتے ہیں ۔ جبکہ آپ انکاری ہیں میری پیش کردہ روایات کے بلکہ انہیں مردود کہتے ہیں اور زمانے کے فرق کے بھی منکر ہیں ۔ یہ ہے فرق اہل سنت والجماعت حنفی کا اور آپ غیر مقلدوں کا جو کہ دعوے دار ہیں اہل حدیث ہونے کے ۔
اور مسٹر اگر آپ یہ بھی بتادیں کہ کون سے الفاظ آپ کے نہیں ہیں تو بہتر تھا ، پہیلیاں بجھوانے کی بجائے عام فہم بات کیجئے ۔
[FONT=Arial نے کہا ہے:
گڈمسلم;68882]اور پھر جناب مَن میں اس بات کا پابند نہیں کہ آپ کے گھڑے بلکہ چورے کیے گئے الفاظ جو آپ مجھ پہ ٹھونس دیں ، کے مطابق جواب دوں۔ محترم جناب میرا جودعویٰ یا الفاظ تھے( جو کہ ابھی تک آپ نے پوچھا ہی نہیں۔کہ گڈمسلم صاحب اس مسئلہ پر آپ کا دعویٰ کیا ہے ؟ لیکن میں آپ سے شروع پوسٹ سے اب تک کئی بار پوچھ چکا ہوں۔آپ ہیں جو بتانے سے شرما رہے ہیں) اسی کے مطابق میں نے جواب دے دیا ہے ۔ الحمد للہ ۔ مانیں یا نا مانیں آپ کی مرضی کیونکہ ہدایت اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے۔میں نا مانوں کا کوئی علاج نہیں۔[/FONT]
[FONT=Arial نے کہا ہے:
پھر پہیلی ؟ مسٹر گڈ مسلم کون سے الفاظ میں نے چوری کئے ہیں آپ کے ؟ پیش کیجئے ۔
[FONT=Arial نے کہا ہے:
گڈمسلم;68882] پانچویں بات آپ نے واضح انداز میں دعویٰ پیش کیے بنا اپنے تائیں دعویٰ پر دلائل ذکر کرکے اپنے چھپے دعویٰ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔[/FONT]لیکن جناب من اب تک آپ کی طرف سے جو دلائل پیش کیے گئے ، وہ تما م دلائل کیا تھے؟ اور پھر ان دلائل کی نوعیت و حقیقت کیا ہے ؟ کیا آپ اپنے دعویٰ پر وہ دلائل پیش کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ اس کی تفصیلی وضاحت پیش ہے۔
[FONT=Arial نے کہا ہے:
دیکھتے ہیں جناب کہ آپ نے کون سے وضاحت فرمائی ہے اور اس وضاحت میں کہاں سے دلیل لی ہے قرآن سے یا حدیث سے یا پھر امتیوں کو قرآن و حدیث کا درجہ دیا ہے ؟
[FONT=Arial نے کہا ہے:
گڈمسلم;68882] جناب سہج صاحب آپ کا شروع سے اب تک ایک ہی اعتراض چلا آرہا ہے کہ مجھے دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی دکھائیں۔اور وہ بھی گنتی کے ساتھ۔ اس کا جواب ایک ہی حدیث پیش کرکے آپ کو دے دیا گیا ہے ، جس کا آپ نے اقرار بھی کرلیا ہے۔ لیکن آپ نے اس پر یہ اعتراض کر دیا کہ یہ پہلے کاعمل ہے اور بعد کاعمل رفع الیدین نہ کرنے کا ہے۔[/FONT] حالانکہ علمی نقطہ نظر سے آپ کا یہ اعتراض بلا دلیل ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ہے۔ کیونکہ آپ کے پاس اس پر کوئی واضح صریح دلیل نہیں ہے۔ اور جو دلائل پیش بھی کیے ہیں ان کی حقیقت بھی ذیل میں بیان کی جاتی ہے۔ کہ وہ دلائل آپ کے اس بیان کو تقویت دیتے بھی ہیں کہ نہیں ؟
[FONT=Arial نے کہا ہے:
الحمدللہ میں آپ کی پیش کردہ روایت پر عمل نہ کرکے بھی اس روایت کا انکاری نہیں اور آپ اس پر عامل ہونے کا دعوٰی کرکے بھی اپنا عمل مکمل ثابت کرنے میں ناکام ہیں ۔ یعنی دس جگہ کا اثبات اور اٹھارہ جگہ کی نفی ۔
[FONT=Arial نے کہا ہے:
گڈمسلم;68882[/FONT]]
[FONT=Arial نے کہا ہے:
مولانا سہج صاحب میری پیش کردہ دلیل پر آپ کا یہ کہنا کہ یہ پہلے کاعمل ہے اور بعد کا عمل رفع الیدین نہ کرنے کا ہے ؟ مجھے آپ سے اس کی دلیل مطلوب ہے، آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ گڈمسلم کی پیش کردہ دلیل پہلے کی ہے ۔اور وہ بھی بادلیل۔ بے دلیل نہیں محترم سہج صاحب۔
ماشاء اللہ ، سبحان اللہ مسٹر گڈ مسلم کو پوسٹ نمبر تینتیس میں عام فہم انداز میں سمجھایا تھا ،اسکے باوجود ایسے گھماؤ پھراؤ قسم کے ابہام پیدہ کرتے ہیں ؟ مسٹر گڈ مسلم سجدوں کی رفع یدین اور رکوع کی رفع یدین میں آپ فرق کرتے ہیں یا نہیں ؟ جو جواب آپ کا وہاں سجدوں کے بارے میں ہے ، اسی سے سمجھ لینا چاھئیے تھا آپ کو ۔ لیکن اس کے باوجود آپ کو میں نے زمانے کا فرق سمجھایا اور پھر بھی آپ ایسی باتیں بنارہے ہیں ؟
[FONT=Arial نے کہا ہے:
گڈمسلم;68882[/FONT]]
[FONT=Arial نے کہا ہے:
اور پھر جب میں نے اُس عمل کے عین مطابق جو ہم عمل کرتے ہیں (چار مقامات پر فع الیدین کرنا) رفع الیدین ثابت کردیا ہے ایسی دلیل سے جس کے بارے میں آپ کو بول کر کہنا پڑا کہ میں اس کا انکاری نہیں۔ اور پھر آپ کو ساتھ یہ بھی بتلا دیا کہ جناب اگر آپ کو اپنے گھڑے بلکہ چورے کیے الفاظ ( دس کا اثبات اٹھارہ کی نفی گنتی کےساتھ) کا ہی جواب مطلوب ہے تو اُس کا جواب بھی اسی دلیل میں موجود ہے۔کیسے موجود ہے؟ تفصیلاً عرض کردیا تھا۔ اس تفصیل کو پڑھنے کے بعد جواب میں آپ نے کہا کہ چار رفعوں کی گنتی کے علاوہ باقی چھ رفعوں کو قیاس سے ثابت کیا ہے اور گڈمسلم آپ قیاس کو مانتے ہی نہیں ۔اس لیے باقی چھ رفعوں کوبھی ان چار رفعوں کی گنتی کی طرح ثابت کرنا ہوگا۔آپ کے اس جواب پر آپ سے پوچھا گیا تھا کہ آپ باقی چھ رفعوں کو کیسے قیاس سے ثابت کرنا کہہ رہے ہیں؟ اس پر آپ نے لب ہلانے کی زحمت نہیں کی اور نہ کرسکتے تھے۔ کیونکہ قیاس قیاس کے نام سے تو آپ واقف ہیں لیکن قیاس کس بَلا کا نام ہے ؟ آپ کو معلوم نہیں ۔
گڈ مسلم صاحب دو جمع دو چار کو دلیل سمجھتے ہیں ؟ اور قیاس کس بلا کا نام ہے یہ آپ ایک بار بتائیں تو سہی ، اور اپنا عقیدہ بھی بتائیے قیاس کے بارے میں کہ وہ آپ کے نزدیک حجت ہے یا نہیں ؟
[FONT=Arial نے کہا ہے:
گڈمسلم;68882[/FONT]]
[FONT=Arial نے کہا ہے:
اور پھر جب آپ نے مجھ پہ اجماع اور قیاس کے نا ماننے کا الزام جڑا تو جواب میں پورے تھریڈ کا لنک دیا جس سے آپ کا یہ الزام الزام ہی ثابت ہوا۔ حقیقت میں نہیں بدل سکا۔
اسی میں ایک نقطہ جو آپ کو سمجھ نہیں آیا، میں نے بھی اس وجہ سے بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ شاید آپ کو سمجھ آجائے، لیکن اب محسوس ہورہا ہے کہ آخر بحث تک آپ اس نقطہ کو نہیں سمجھ پائیں گے۔ اس لیے بیان کرنا مناسب سمجھ رہا ہوں۔
تھریڈ کا لنک آپ کی دلیل ہے ؟ اور قیاس کو حجت مانتے ہیں اگر آپ تو یہ کہتے کیا مشکل ہے کہ "میں گڈ مسلم جماعت اہلحدیث کا مزھب رکھتا ہوں جس میں قیاس کو حجت مانا جاتا ہے " اور اس پر جو بھی دلیل آپ رکھتے ہیں وہ بھی پیش کردیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ وہ دلیل آپ نے اپنائی ہے اور قیاس کو برا کہنے والوں کو بھی معلوم ہوسکے کہ جناب گڈ صاحب کی بھی چوتھی دلیل قیاس ہے ، پھر شاید آپ کو اہل حدیث کے دو اصول ۔۔۔۔ کا نعرہ لگانے کا حق بھی چھوڑنا پڑے گا ۔کیونکہ آپ دو دلیلوں سے آگے جو نکل گئے۔
[FONT=Arial نے کہا ہے:
گڈمسلم;68882[/FONT]]
[FONT=Arial نے کہا ہے:
وہ نقطہ یہ ہے کہ بقول آپ کے میں نے چار رفعوں کو دلیلِ صریح سے ثابت کردیا ہے۔ اب باقی چھ رفعوں کو دلیل سے ثابت کرنا ہے۔ اور جب میں نے آپ کے لفاظی بیان کو دلیل ذکر کرکے وضاحتی بیان سے پورا کیا تو آپ نے کہا کہ گڈمسلم صاحب آپ نے چار رفعوں پر تو دلیل دی ہے لیکن چھ رفعوں کو کو قیاس سے ثابت کیا ہے۔ آپ قیاس کو نہیں مانتے اس لیے ان چھ رفعوں پر بھی آپ کو دلیل دینا ہوگی۔ قیاس نہ ماننے کے الزام کو جب میں نے پورا کردیا کہ میں قیاس کا انکاری نہیں۔ تو پھر آپ کو دس رفعوں کااثبات تسلیم کرلینا چاہیے تھا۔ لیکن یہ جان لینے کے بعد کہ گڈمسلم قیاس کا انکاری نہیں اور ساتھ یہ بھی مان لینے کے بعد کہ باقی چھ رفعوں کو قیاس سے ثابت کیا گیا ہے۔ پھر بھی اس بات کا کہتے جانا کہ دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی گنتی کے ساتھ مجھے تو ضدی کے ساتھ لاعلم شخص کا عمل لگتا ہے۔
مسٹر گڈ مسلم ، قیاس آپ کے ہاں حجت ہے یا نہیں پہلے یہ ثابت کیجئے ۔ یہ کہہ دینا کہ لنک دیا اور یہاں ثابت کیا اور وہاں ثابت کیا وغیرہ قسم کی باتیں کر کے آپ دوجمع دو چار کو دلیل نہیں بناسکتے ۔ اہل حدیث بننا ہے تو پھر اہل حدیثوں کے اصولوں کے مطابق بات کیجئے اور ان اصولوں میں کمی یا زیادتی کرنی ہے تو پھر اسکے لئے آپ کو اپنے مزھب کے اصول بھی بتانے ہوں گے ۔ میں جو اہل حدیثوں کے بارے میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ اہل حدیث کے دو ہی اصول ہیں اک قرآن اور دوسرا حدیث ۔ اگر آپ اجماع کے منکر نہیں تو پھر
تین طلاق ،بیس تراوی وغیرہ جیسے مسئلوں میں کیوں اجماع کے منکر ہو؟
قیاس کے بھی منکر نہیں تو پھر چاروں مزاہب یعنی حنفی مالکی شافعی اور حنبلی کو برے القابات سے کیوں پکارتے ہو؟
اور پھر اگر آپ مسٹر گڈ مسلم اگر چار دلائل مانے تو پھر بھی کہلائے اہل حدیث ؟
اور اہل سنت والجماعت حنفی وغیرہ چار دلائل مانیں تو بنیں مشرک ؟
یہ عجیب منطق ہے آپ کی ؟
اسلئے وضاحت فرمائیے گڈ مسلم صاحب ،
کہ آپ قیاس کو حجت سمجھتے ہیں یا قیاس کی بھی کئی قسمیں ہیں اور کون سی قسم کو آپ حجت مانتے ہیں ؟
اور اجماع کی کتنی قسمیں ہیں؟
اور کون سی قسم کو آپ حجت مانتے ہیں ؟
اگلی پوسٹ میں ضرور یہ وضاحت کردیجئے گا پھر دیکھیں گے کہ آپ دودلیلوں سے آگے جاکر کیا بنے ۔
[FONT=Arial نے کہا ہے:
گڈمسلم;68882[/FONT]]
[FONT=Arial نے کہا ہے:
قارئین جب ان باتوں کو
1۔ سہج صاحب چار رفعوں کے اثبات کا اقرار کرچکے ہیں۔
2۔ سہج صاحب باقی چھ رفعوں کو قیاس سے ثابت ہوجانے کا اقرار کرچکے ہیں۔
3۔ گڈ مسلم صاحب یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ قیاس کےانکاری نہیں۔
جان لینے کے بعد سہج صاحب پھر آپ کے بنائے گئے، گھڑے گئے بلکہ چورے کیے گئے الفاظ کے عین مطابق مجھ سے جواب طلب کرنے کی ضد کو دیکھیں گے تو خود سمجھ جائیں گے۔کہ دماغی علاج کس کے کروانے والا ہے ؟ ان شاء اللہ ..... کسی کو سمجھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
الحمد للہ ایک بار پھر ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کا اقرار ہے زمانے کے فرق کے ساتھ ۔

آپ قیاس کو اپنے لئے حجت ثابت کردیں پھر دو جمع دو چار آپ کو بھی فائدہ دے گا ۔
گڈ مسلم صاحب قیاس کرتے ہیں اسلئے آپ سے قیاس کو حجت ماننے کی دلیل کا سوال ہے ۔
اہل حدیث کے دو اصول اطیعو اللہ و اطیعوالرسول کا دعوے دار مسٹر گڈ مسلم آج قیاس کو حجت مان رہا ہے !! ماشاء اللہ ۔ اور رہے گا پھر بھی اہل حدیث ؟ نعرہ پھر بھی یہی رہے گا اہل حدیث کے دو اصول اطیعو اللہ و اطیعوالرسول۔
کیا عجیب تماشہ ہے ضرورت پڑے تو قیاس بھی حلال اور اجماع بھی حلال ؟ دو جمع دو چار کو دلیل ثابت کرنے کا اچھا ڈھنگ ہے بھئی ۔
آگے دیکھتے ہیں اپنی اس کاوش کہ قیاس بھی حلال اور اجماع بھی حلال کے فارمولہ سے کون کون سے فائدے حاصل کرنے کا ارادہ ہے ۔
ان شاء اللہ گڈ مسلم صاحب کو ان کی دلیلوں سے باہر نہیں نکلنے دیا جائے گا ، یعنی قرآن اور حدیث سے۔
حنفی مقلد امام کا قول پیش کرے تو مشرک ٹھہرے، گڈ مسلم صاحب اپنا قول دلیل بنالیں یعنی دو جمع دو چار تو اہل حدیث بنیں؟ ایسا تضاد کم از کم میں نہیں چلنے دوں گا ، مسٹر گڈ مسلم کو چاھئیے کہ یہ قیاس اور اجماع کو حجت ثابت کریں اپنی دلیلوں سے یعنی قرآن اور حدیث سے اور پھر اپنے مزھب اہل حدیث کے اکابرین سے ثابت کریں کہ انہوں نے بھی قیاس اور اجماع کو حجت تسلیم کیا ہو ۔ایسا کئے بغیر کسی امتی کے قول پیش کرنے کی اجازت نہیں ، کم از کم اہل حدیث ہونے کے دعوے دار کو یہ حق بلکل نہیں کہ وہ امتیوں کی رائے کسی حدیث کے بارے میں پیش کرے ۔ لیکن مجبوری تو یہی ھے کہ کوئی غیر مقلد مر تو سکتا ہے لیکن کسی ایک روایت کو بھی بغیر امتی کی رائے کے صحیح یا ضعیف نہیں کہہ سکتا ۔ اور دعوٰی ہے کہ صرف قرآن اور حدیث ہر عمل کرنے والے ہیں ۔
شکریہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
گڈ مسلم کی پوسٹ نمبر44 کا جواب
[FONT=Arial نے کہا ہے:
گڈمسلم;68884[/FONT]]نوٹ:
[FONT=Arial نے کہا ہے:
مولانا سہج صاحب آپ کادعویٰ رفع کی منسوخیت کا ہے ۔جس کو دبے الفاظ میں پیش بھی فرما چکے ہیں۔ آپ کو ایک بات سے متنبہ کرتا چلوں کہ آپ نے اپنے دعویٰ پر جو دلائل دینے ہیں۔ ان تین احادیث کو سامنے رکھ کر دینے ہیں۔
مسٹر گڈ مسلم بہتر تو یہی تھا کہ آپ میری پوسٹوں کے جواب میں ہی یہ معلومات پیش فرماتے ۔ لیکن آپ شاید باتوں کو طول دینا چاھتے ہیں اسی لئے غیر ضروری پوسٹوں میں جواب دئیے بغیر نئے سوالات پیدہ کررہے ہیں یعنی باتوں کو گھما پھرا کر اور مختلف پوسٹوں میں تقسیم کرکے ایسے انداز میں پوسٹنگ فرمارہے ہیں کہ جس سے اصل بات یعنی میری پوسٹ کا جواب عین پوسٹ کے مطابق نہیں آرہا ۔ بحرحال دیکھتے ہیں
پہلی روایت :
عن ابن عمر رضي الله تعاليٰ عنه ان رسول الله صلي الله عليه وسلم كان اذا افتتح الصلاة رفع يديه واذا ركع واذا رفع رأسه من الركوع وكان لايفعل ذلك في السجود . فما زالت تلك صلاته حتيٰ لقي الله تعاليٰ
’’ ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب رکوع کرتے اورجب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے ( تو بھی رفع یدین کرتے) اوردونوں سجدوں کے درمیان نہ کرتے۔ تادمِ زیست آپ کی نماز اسی طرح رہی‘‘​
اس حدیث سے محمد عربی کا آخری وقت تک رفع الیدین کرنا ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ اثر میں پہلے بھی پیش کرچکا ہوں۔
آپ سے اسی روایت کے بارے میں سوال کیا تھا پوسٹ نمبر اکتالیس میں ۔دیکھئے
پہلی بات:فما زالت تلك صلاته، حتى لقي اللّه تعالى
یہ قول کس کا ہے ؟ بتانا پسند فرمائیں گے ؟
دوسری بات : اور یہ عمل کس کا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ؟
تیسری بات: دس جگہ کی گنتی اور اٹھارہ جگہ کی گنتی تو یہاں بھی نہیں دکھائی آپ نے ۔
اسی بات کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے کہ جب آپ جیسا گڈ مسلم ایسی فضول انداز اختیار کرتا ہے کہ جس سے معلوم ہو کہ گڈ مسلم چاھتے ہیں کہ بات گول مول کردی جائے ۔ کیونکہ جو محنت آپ نے فرمائی ہے کم وقت ہونے کے باوجود اس کی بجائے یہی محنت آپ براہ راست پوسٹوں کے جواب دینے میں کرتے تو بہت بہتر ہوتا ۔ اب اسی بات کو دیکھ لیں کہ آپ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کو پیش کیا اور بعد میں اس میں فما زالت تلك صلاته، حتى لقي اللّه تعالى کا اضافہ بھی دکھایا اور میں نے اکتالیس نمبر پوسٹ میں جناب سے سوال بھی کرلیا ،لیکن آپ نے اس کا جواب ہی گول کرلیا اور اسی روایت کو ایسے انداز میں پیش کیا جیسے آپ نے اپنے موقف پر بہت بڑی دلیل پیش کردی ہو اور میدان بھی مار لیا ہو ۔ جناب گڈ مسلم پہلے تو آپ میرے اٹھائے گئے سوالات کا جواب عنایت کیجئے پھر مجھ سے سوالات کیجئے ۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ آپ نے ابھی تک رفع یدین کا دس جگہ کا اثبات بھی نہیں دکھایا اسکے بعد آپ نے اٹھارہ جگہ رفع الیدین کی نفی اور پھر رفع الیدین کا حکم بتانا ہے کہ وہ سنت ہے یا کون ساحکم رکھتی ہے ؟

دوسری روایت:
عن وائل بن حجر قال: قلت لانظرن الي صلاة رسول الله كيف يصلي فقام رسول الله فاستقبل القبلة فكبر فرفع يديه حتي حاذتا اذنيه ثم اخذ شماله بيمينه فلما أراد أن يركع رفعهما مثل ذلك ثم وضع يده علي ركبتيه فلما رفع رأسه من الركوع رفعهما مثل ذلك۔ (ابوداؤد مع عون المعبود ج 1 ص264، سنن کبریٰ للبیہقی ج2 ص71)​
’’ وائل بن حجر نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ کی نماز دیکھنے کاحتمی فیصلہ کیا کہ دیکھوں آپ نماز کس طرح پڑھتے ہیں۔ آپ رو بقبلہ کھڑے ہوگئے ۔ تکبیر ( تحریمہ) کہی اور کانوں تک اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ، پھر دونوں ہاتھ باندھے۔ جب رکوع کاارادہ کیا تو ہاتھ اٹھائے۔ پھر انہیں گھٹنوں پر رکھا ۔ پھر رکوع سے سر اٹھایا تو اسی طرح ہاتھ اٹھائے ( رفع یدین کیا) ‘‘​
مولانا سہج صاحب اس حدیث کے راوی وائل بن حجرہیں، راوی جان لینے کے بعد راوی نے جو بیان کیا ذرا اس کو بھی ذہن نشین کرلیں، پھر تیسری حدیث پیش کرتا ہوں۔
تیسری حدیث:
عن وائل بن حجر قال أتيت النبي صلي الله عليه وسلم في الشتاء فرأيت أصحابه يرفعون أيديهم في ثيابهم في الصلاة ۔(ابوداؤد جلد1ص 265، جمع الفوائد جلد1 ص91)​
’’ وائل بن حجر بیان کرتے ہیں کہ میں سردیوں میں آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے صحابہ کو دیکھا وہ کپڑوں کے نیچے سے رفع الیدین کیا کرتے تھے‘‘۔
ابو داؤد کی روایت میں ہے ۔
ثم جئت بعد ذلك في زمان فيه برد شديد فرأيت الناس عليهم جل الثياب تحركت أيديهم تحت الثياب۔ ( سنن ابوداؤد مع عون المعبود ج1 ص265)
’’ وائل بن حجر کہتے ہیں کہ میں دوبارہ سخت سردی کے موسم میں آیا۔ لوگوں پر بھاری کپڑے تھے تو وہ ان کے نیچے سے رفع الیدین کرتے تھے‘‘۔
تیسرے نمبر کی دونوں روایتوں میں رکوع جانے اور اٹھنے اور تیسری رکعت کی رفع الیدین کا بلکل بھی زکر نہیں ۔ ان روایات کو پیش کرنے کا مقصد کیا تھا آپ کا ؟ روشنی ڈالئے گا ۔اور اگر میں یہ کہوں کہ یہ دونوں روایات شروع نماز کی رفع یدین کو ثابت کرنے والی ہیں تو غلط نہیں ہوگا ۔ مسٹر گڈ مسلم آپ نے خود ہی ایسی روایات پیش کرنا شروع کردیا جس سے ایک ہی رفع یدین یعنی شروع نماز کا ثبوت مل رہا ہے ۔ الحمدللہ
دوسرے نمبر کی روایت میں رفع الیدین کرنے کا زکر ضرور موجود ہے لیکن دس جگہ کا اثبات اور اٹھارہ جگہ کی نفی اس میں بھی نہیں جناب گڈ مسلم صاحب ۔اور آپ نے روایت پیش کرنی ہی ایسی ہے جس سے آپ گنتی کئے بغیر دس جگہ رفع یدین کا اثبات اور اٹھارہ جگہ رفع الیدین کی نفی دکھاسکیں ۔ بغیر دو جمع دو چار کئے ۔
دوسری نمبر کی روایت کی کے جواب میں روایت ہی پیش کرتا ہوں جس میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبدالجبار بن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سجدوں کی رفع الیدین بھی بیان کرتے ہیں ۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟ زمانے کا فرق ہے یا پھر حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ سجدوں میں رفع الیدین فرمایا ؟ اگر چھوڑ دیا تھا تو کم از کم آپ کی پیش کردہ دوسرے نمبر کی روایت میں سجدوں کی رفع یدین نہ کرنے کا زکر تو ہونا ہی چاھئے تھا ناں ؟وہاں آپ عدم زکر سے منع ثابت کررہے ہیں کہ نہیں ؟
حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة الجشمي،‏‏‏‏ حدثنا عبد الوارث بن سعيد،‏‏‏‏ قال حدثنا محمد بن جحادة،‏‏‏‏ حدثني عبد الجبار بن وائل بن حجر،‏‏‏‏ قال كنت غلاما لا اعقل صلاة ابي قال فحدثني وائل بن علقمة عن ابي وائل بن حجر قال صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان إذا كبر رفع يديه - قال - ثم التحف ثم اخذ شماله بيمينه وادخل يديه في ثوبه قال فإذا اراد ان يركع اخرج يديه ثم رفعهما وإذا اراد ان يرفع راسه من الركوع رفع يديه ثم سجد ووضع وجهه بين كفيه وإذا رفع راسه من السجود ايضا رفع يديه حتى فرغ من صلاته

سنن ابوداود،نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل،باب رفع اليدين في الصلاة
ترجمہ
جناب عبدالجبار بن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ "میں نوعمر لڑکا تھا، اپنے والد کی نماز کو نہ سمجھتا تھا، تو مجھے وائل بن علقمہ نے میرے والد وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے بتایا کہ پھر آپ نے اپنا کپڑا لپیٹ لیا، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو اپنے دائیں سے پکڑا اور اپنے ہاتھوں کو اپنے کپڑے میں کر لیا، کہا کہ جب رکوع کرنا چاہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو نکالتے پھر انہیں اوپر اٹھاتے ۔ اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھانا چاہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اسی طرح اٹھاتے ۔ پھر آپ نے سجدہ کیا اور اپنے چہرے کو اپنی ہتھیلیوں کے درمیان میں رکھا۔ اور جب سجدوں سے سر اٹھاتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، حتیٰ کہ آپ اپنی نماز سے فارغ ہو گئے۔
آگے لکھا ہواہے اسی روایت کے کہ ،۔ محمد کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث حسن بن اب الحسن سے ذکر کی تو انھوں نے فرمایا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز ہے جس نے چاہا اس نے نہیں کیا ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو ہمام نے ابن حجارہ سے روایت کیا ہے مگر اس میں سجدہ سے اٹھتے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں۔ اور مسٹر گڈ مسلم اس قول پر خوش ہونے کی بلکل ضرورت نہیں کیونکہ اس قول سے آپ کی گنتی بھی بلکل بھی پوری نہیں ہوسکتی یعنی دس جگہوں کی رفع یدین کا اثبات ۔ کوشش کرکے دیکھ لیجئے۔
اب آتے ہیں آپ کے تجزئے کی جانب ۔
[FONT=Arial نے کہا ہے:
گڈمسلم;68884[/FONT]]
[FONT=Arial نے کہا ہے:
مولانا سہج صاحب ان تین احادیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت وائل بن حجر کی حدیثوں سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضور آخر عمر تک رفع الیدین کرتے رہے ہیں۔ اور آپ کے علم میں یہ بھی لاتا چلوں کہ حضرت وائل بن حجر غزوۂ تبوک کے بعد 9 ھ میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔(البدایۃ والنہایۃ ج5، ص75) ، شرح العینی علی صحیح البخاری ج9 ص43) امید ہے کہ آپ اس تاریخ سے متفق ہونگے، اگر اختلاف کیا بھی تو علمائے مقلدین کے حوالہ جات سے ثابت کردونگا۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
اور مولانا سہج صاحب آئندہ سال جب حضرت وائل بن حجر رسالت مآب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ سخت سردی کا موسم تھا ۔ انہوں نے صحابہ کرام کو کپڑے کے نیچے رفع الیدین کرتے دیکھا۔ اور یہ 10 ھ کے آخری مہینے تھے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ 10 ھ کے آخر تک رفع الیدین نہ منسوخ ہوا اور نہ اس پر عمل متروک ہوا۔ اس کے بعد 11ھ میں سرورِ دو عالم اس دنیا سے رخصت فرماگئے۔تو جناب کہنے کا مقصد اب پیش ہے کہ نسخ کےلیے ضروری ہے کہ ناسخ حضرت وائل بن حجر کی دوسری مرتبہ آمد کے بعد ثابت ہو۔ اس لیے جناب آپ نے جو دلیل دینی ہے وہ 10ھ کے آخری مہینوں میں سے لے کر 11ھ ہجری آپ کے وفات والے مہینے کے بیچ بیچ کسی مہینے میں بیان ہوئی ہو۔ .....اس بات کو اب اچھی طرح ذہن میں جگہ دے دیجیے گا۔۔ اللہ بھلا کرے۔
اگر آپ کو ان بتائی گئی تاریخ میں سے کسی سے اختلاف ہے تو بادلیل پیش کریں ۔ ان شاء اللہ آپ کے اختلاف کو بادلائل پورا کیا جائے گا۔ ورنہ آپ جو بھی دلیل پیش کریں گے میرا آپ سے مطالبہ ہوگا (ہاں کسی دلیل پر مطالبہ نہ کروں وہ میری مرضی ہے) کہ آپ کی دلیل کا 10ھ کے آخری مہینوں سے لے کر 11ھ آپ کی وفات تک بیچ کے کسی مہینے میں ہونا ضروری ہے۔ اور آپ کو اس پیش دلیل کو ان بیچ کے مہینوں میں ثابت کرنا ہوگا۔ اگر آپ ثابت نہ کرسکے تو آپ کی دلیل قبول نہیں کی جائے گی۔ ... اچھی طرح ان باتوں کو ذہن نشین کرلیں۔ بعد میں یاد کروانے کی تکلیف نہ دیجیے گا ۔ محترم صاحب۔
مولانا سہج صاحب ان تین احادیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت وائل بن حجر کی حدیثوں سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضور آخر عمر تک رفع الیدین کرتے رہے ہیں۔ اور آپ کے علم میں یہ بھی لاتا چلوں کہ حضرت وائل بن حجر غزوۂ تبوک کے بعد 9 ھ میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔(البدایۃ والنہایۃ ج5، ص75) ، شرح العینی علی صحیح البخاری ج9 ص43) امید ہے کہ آپ اس تاریخ سے متفق ہونگے، اگر اختلاف کیا بھی تو علمائے مقلدین کے حوالہ جات سے ثابت کردونگا۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
آخر عمر تک آپ نے کس کا عمل پیش کیا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ؟؟؟؟؟ مسٹر گڈ مسلم ماشاء اللہ جھوٹ بھی بولیں گے تو کم از کم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زات پر ؟ جناب آپ نے صرف لکھا ہے کہ آنحضور آخر عمر تک رفع الیدین کرتے رہے ہیں اگر آپ یہ اس عبارت فما زالت تلك صلاته حتيٰ لقي الله تعاليٰ کی رو سے فرمارہے ہیں تو جناب پہلے یہ تو ثابت کیجئے کہ
یہ قول ہے کس کا؟

اور اس قول میں اشارہ کس کی نماز کی جانب ہے ؟
اور یہ بھی بتادیجئے گا کہ یہ قول آپ کی دلیل کیسے بن گیا ؟
اور مولانا سہج صاحب آئندہ سال جب حضرت وائل بن حجر رسالت مآب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ سخت سردی کا موسم تھا ۔ انہوں نے صحابہ کرام کو کپڑے کے نیچے رفع الیدین کرتے دیکھا۔ اور یہ 10 ھ کے آخری مہینے تھے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ 10 ھ کے آخر تک رفع الیدین نہ منسوخ ہوا اور نہ اس پر عمل متروک ہوا۔ اس کے بعد 11ھ میں سرورِ دو عالم اس دنیا سے رخصت فرماگئے۔تو جناب کہنے کا مقصد اب پیش ہے کہ نسخ کےلیے ضروری ہے کہ ناسخ حضرت وائل بن حجر کی دوسری مرتبہ آمد کے بعد ثابت ہو۔ اس لیے جناب آپ نے جو دلیل دینی ہے وہ 10ھ کے آخری مہینوں میں سے لے کر 11ھ ہجری آپ کے وفات والے مہینے کے بیچ بیچ کسی مہینے میں بیان ہوئی ہو۔ .....اس بات کو اب اچھی طرح ذہن میں جگہ دے دیجیے گا۔۔ اللہ بھلا کرے۔
مسٹر گڈ مسلم یہ آپ کا ڈھکوسلہ ہی ہے کہ آپ نے دس ھجری کے آخری مہینہ تک رکوع جاتے اور اٹھتے اور تیسری رکعت کی رفع الیدین بشمول دس جگہ کے اثبات کی دلیل وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کرکے اپنا مقصد پورا کرلیا ہے ۔ مسٹر گڈ مسلم کیا آپ بتائیں گے کہ ان روایتوں میں کس کس جگہ کی رفع الیدین کی صراحت ہے ؟ برائے مہربانی نشان زد کردیجئے تاکہ مجھ جاھل کو صاف نظر آسکے اور آپ کا مقصد پورا ہوسکے۔
اور ہاں یہ جو تاریخیں آپ نے بتائی ہیں
اور یہ 10 ھ کے آخری مہینے تھے۔
اسکی دلیل پیش نہیں فرمائی آپ نے ؟؟ قرآن میں ہے یا حدیث میں ؟ برائے مہربانی دلیل پیش کیجئے دلیل۔ وہ دلیل جسے آپ حجت مانتے ہوں ۔
عن وائل بن حجر قال أتيت النبي صلي الله عليه وسلم في الشتاء فرأيت أصحابه يرفعون أيديهم في ثيابهم في الصلاة ۔(ابوداؤد جلد1ص 265، جمع الفوائد جلد1 ص91)
ثم جئت بعد ذلك في زمان فيه برد شديد فرأيت الناس عليهم جل الثياب تحركت أيديهم تحت الثياب۔ ( سنن ابوداؤد مع عون المعبود ج1 ص265)​
نشان آپ لگادیجئے جس سے ثابت ہوسکے آپ کا مقصد کہ ان دس جگہوں پر رفع الیدین کیا تاکہ ایک سوال کا جواب تو پورا ہو پھر ہم اگلے سوالوں کی طرف رخ کرسکیں۔
اگر آپ کو ان بتائی گئی تاریخ میں سے کسی سے اختلاف ہے تو بادلیل پیش کریں ۔ ان شاء اللہ آپ کے اختلاف کو بادلائل پورا کیا جائے گا۔ ورنہ آپ جو بھی دلیل پیش کریں گے میرا آپ سے مطالبہ ہوگا (ہاں کسی دلیل پر مطالبہ نہ کروں وہ میری مرضی ہے) کہ آپ کی دلیل کا 10ھ کے آخری مہینوں سے لے کر 11ھ آپ کی وفات تک بیچ کے کسی مہینے میں ہونا ضروری ہے۔ اور آپ کو اس پیش دلیل کو ان بیچ کے مہینوں میں ثابت کرنا ہوگا۔ اگر آپ ثابت نہ کرسکے تو آپ کی دلیل قبول نہیں کی جائے گی۔ ... اچھی طرح ان باتوں کو ذہن نشین کرلیں۔ بعد میں یاد کروانے کی تکلیف نہ دیجیے گا ۔ محترم صاحب۔
مسٹر گڈ مسلم ، تاریخوں کے بارے میں زیادہ فکر مندی نہ فرمائیں ۔ آپ نے صرف یہ دکھانا ہے کہ دس جگہ رفع الیدین کا اثبات یہ رہا ۔بس ۔ اور آپ پہلے بادلیل تاریخوں کا ثبوت پیش کریں وہ دلیل جو آپ حجت مانتے ہوں ۔
مشکل تو یہی ہے آپ کے لئے کہ آپ اپنا عمل رفع الیدین کے بارے میں ابھی تک دکھانے سے قاسر ہیں بلکل ۔ اور اک نیا راستہ تاریخ کے بارے میں ڈھونڈ لیا ہے ۔ جناب گڈ مسلم صاحب میں نے آپ سے آخری عمر تک رفع الیدین کرنے کا سوال ابھی تک نہیں پوچھا تھا جو آپ تاریخیں دکھا رہے ہیں ہاں پہلے زمانے اور بعد کے زمانے کی بات ضرور کی تھی(لیکن اب آپ کو رفع یدین کا اثبات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نماز تک ثابت کرنا پڑے گی کیوں کہ اس جانب آپ نے خود ہی قدم بڑھایا ہے) ۔ اسے آپ تاریخ دکھائے بغیر بھی ثابت کرسکتے ہیں جیسے میں نے اسی پوسٹ میں ابن وائل کی روایت پیش کی ہے۔اور یہ بھی دیکھ لیجئے
عن عبد اﷲ قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم ومع ابی بکر ومع عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فلم یرفعوا ایدیھم الا عند التکبیرة الاولی فی افتتاح الصلوة، قال اسحق بہ ناخذ فی الصلوة کلھا۔
(دار قطنی ج1ص295 ،بیہقی ج2 ص79 )​
ترجمہ: حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ،حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہم اجمعین کے ساتھ نماز پڑھی۔ان سب نے رفع یدین نہیں کیا مگر پہلی تکبیر کے وقت نماز کے شروع میں ،محدث اسحق بن ابی اسرائیل رحمہ للہ کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی کو اپناتے ہیں پوری نماز میں۔
اس روایت سے ثابت ہوا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ جنہوں نے وصال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفہ راشدین کے ساتھ نمازیں پڑھنے کا زکر کیا ، یہ آپ کی مطالبہ کردہ تاریخوں کے بہت بعد کا عمل ہے ۔ الحمدللہ ۔میری اس بات سے یہ نہ سمجھئے گا کہ آپ کی پیش کردہ تاریخوں کو بے دلیل ہی مان لیا ہے ، آپ سے تاریخوں کی دلیل کا مطالبہ ختم نہیں ہوا ۔تاریخ کی دلیل پیش کرنا باقی ہے آپ کی جانب سے۔
نوٹ
اس پوسٹ سے متعلق سوالات جن کے جواب دینا ضروری ہیں
ایک
فما زالت تلك صلاته، حتى لقي اللّه تعالى
یہ قول کس کا ہے ؟
دو
اور یہ عمل کس کا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ؟
تین
آپ نے جو تیسری حدیث کے عنوان کے تحت دو روایات پیش فرمائی ہیں انہیں پیش کرنے کا مقصد بتائیے ، کیونکہ اس میں ناہی رکوع والی رفع یدین کا زکر ہے اور ناہی تیسری رکعت شروع کا ۔ باقی جگہوں کا بھی بلکل زکر نہیں ۔
چار
دوسری حدیث کے عنوان کے تحت پیش کردہ روایت میں تیسری رکعت شروع کا زکر موجود نہیں ، اب آپ یہ بتادیں کہ آپ اس روایت سے دو جمع دو چار کرنا بھی چاہیں تو کیسے کریں گے ؟؟
پانچ
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں وہاں وہاں جہاں جہاں آپ رفع یدین کرتے اور چھوڑتے ہیں کا ثبوت دکھائیے دنیا سے پردہ فرمانے تک۔ کسی صحیح روایت سے

شکریہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
گڈ مسلم کی پوسٹ نمبر45 کا جواب
سہج صاحب یہ تو تھیں تمہیدی باتیں، جن کا ذکر ضروری سمجھتے ہوئے پیش کردیا ہے۔ اب اس تھریڈ کے شروع سےآپ نے جو اپنے دبے، چھپے دعویٰ پر دلائل پیش کیے ہیں وہ دلائل اور ان کا تحقیقی جائزہ پیش ہے۔ لیکن تحقیقی جائزہ پیش کرنے سے پہلے آپ نے جو رفع الیدین کے نسخ کا بےبنیاد دعویٰ کیا ۔ اس کی حقیقت واضح کرتا چلوں کہ یہ دعویٰ کئی لحاظ سے مردود ہے۔ اور میرے لیے حیرانگی وتعجب کی بات یہ ہے کہ آپ اپنے دامن میں مردود دعویٰ لیے بحث میں شریک ہیں۔ سبحان اللہ
گڈ مسلم صاحب آپ ابھی تک اپنے عمل کے عین مطابق دلیل پیش کرنے میں بلکل ناکام ہیں اور الحمد للہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت سے میں نے اہل سنت والجماعت احناف کی نماز میں شروع نماز کی رفع یدین بھی دکھا دی اور بعد کی تمام کی تمام رفع الیدین یعنی ستائس کی نفی بھی دکھادی ۔ اور آپ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کو معاذ اللہ مردود قرار دے رہے ہیں اور یہ میرے لئے بلکل بھی حیرانگی اور تعجب کی بات نہیں کیوں کہ وہ غیر مقلد ہی نہیں جو احادیث پر الٹی چھری نہ پھیرے ۔ اور آپ نے بھی وہی کام کیا ہے کہ حدیث کو مردود قرار دیا ہے ۔ اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آپ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو مردود کیسے قرار دیا تو آپ اسکے جواب میں ناہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث پیش کرسکتے ہو اور ناں ہی کتاب اللہ سے کوئی آیت پیش کرسکتے ہو کہ جس میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو مردود کہا گیا ہو ۔ یہ آپ کی دورنگی ہے مسٹر گڈ مسلم ۔ ڈھنڈورا پیٹنا اس بات کا کہ ، اہل حدیث کے دو اصول فرمان خدا اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حقیقت میں آپ نا ہی اللہ کی مانتے ہو اور نا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ، بلکہ آپ مانتے ہو امتیوں کی زاتی رائے کو ۔ اور اسی بناء پر آپ احادیث کو مردود قرار دیتے ہو اور اپنی من چاھی روایت کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہو اور یہ بھی بھول جاتے ہو کہ کسی حدیث پر عمل نہیں کرنے میں اور کسی بھی حدیث کا انکار کرکے اسے مردود کہنے میں کیا فرق ہے ۔
نمبر1:
صریح، صحیح ناسخ موجود نہیں۔ اگر ہے تو پیش کریں۔
نمبر2:​
صحابہ وتابعین کے مبارک دور میں رفع الیدین پر عمل ہوتا رہا ہے اور رفع الیدین کا ترک کسی ایک صحابی سے بھی باسند صحیح ثابت نہیں ہے، ( دلائل کی حاجت ہو تو پوچھ لینا)​
نمبر3:​
ترک رفع الیدین ہی ثابت نہیں ہے، لہٰذا دعویٰ نسخ کیسا ؟
نمبر4:​
ناسخ ومنسوخ پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں، مثلاً کتاب الحازمی، کتاب ابن شاہین، کتاب ابن الجوزی وغیرہ۔ ان کتابوں کے مصنفین نے اس مسئلہ کو اپنی کتابوں میں ذکر تک نہیں کیا، ہےےے ہمت آپ میں مولانا سہج صاحب ! کہ اس موضوع (ناسخ ومنسوخ) کی کسی ایک کتاب سے یہ مسئلہ نکال کر دکھائیں؟
نمبر5:​
حضرت وائل بن حجر سے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم 9ھ اور 10ھ میں رفع الیدین کرتے رہے ہیں۔ اب ہمیں صحیح حدیث کے ساتھ بتایا جائے کہ کس سن ہجری میں رفع الیدین منسوخ یا ترک کردیا گیا تھا۔؟؟؟
نمبر6:​
اگر معاذ اللہ ! رفع الیدین منسوخ ہوگیا تھا تو پھر تکبیر تحریمہ، قنوت اور عیدین والا کس طرح اس نسخ سے بچ گیا ؟
نمبر7:​
نبی کی ساری زندگی میں صرف ایک نماز کا بھی ثبوت نہیں ہے کہ آپ نے رفع الیدین نہ کیا ہو۔ جب ترک ہی ثابت نہیں تونسخ کس طرح ثابت ہوگا ؟
نمبر8:​
عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما رفع الیدین نہ کرنے والوں کوکنکریوں سے مارتے تھے۔( جزء رفع الیدین)۔ کسی صحابی نے کسی کو بھی رفع الیدین کرنے پر نہیں مارا لہٰذا دعویٰ نسخ باطل ہے۔
نمبر9:​
رفع الیدین کی احادیث میں ’’ کان ‘‘ کا لفظ آیا ہے۔
حافظ زیلعی حنفی نے کہا :​
’’ فانہ بلفظ ’’ کان ‘‘ المقتضیۃ للدوام ‘‘ یعنی ’’ کان‘‘ کا لفظ دوام کا مقتضی ہے۔ ( نصب الرایہ ج1 ص31)​
اور یہاں پر کوئی قرینہ صارفہ بھی نہیں ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ حنفیوں کےنزدیک نبی کریم ہمیشہ ( علی الدوام) رفع الیدین کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا دعویٰ نسخ مردود ہے۔
نمبر10:​
حافظ ابن قیم نے کہا:​
’’ ومن ذلك أحاديث المنع من رفع اليدين في الصلوة عند الركوع والرفع منه كلها باطلة علي رسول الله صلي الله عليه وسلم لا يصح منها شيئ كحديث عبد الله بن مسعود رضي الله عنه : انما أصلي بكم صلوة رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: فصليٰ فلم يرفع يديه الا في أول مرة ‘‘ ( المنار المنیف ص137)​
’’ ( موضوع احادیث میں سے) نماز میں رکوع سے پہلے اور بعد میں رفع الیدین کرنے کی ممانعت کی ساری احادیث باطل ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔ مثلاً سیدناابن مسعود کی ( سند سے منسوب) حدیث کہ انہوں نے صرف پہلی مرتبہ رفع الیدین کیا( باطل ہے۔)​
مسٹر گڈ مسلم دس جگہ رفع الیدین کا اثبات تو نہ ہی ثابت کرسکے اور نہ ہی دکھا سکے ۔ مگر امتیوں کے اقوال نمبر لگا لگا کر دکھا رہے ہیں اور اپنا اور دوسروں کا قیمتی وقت بلاوجہ ضایع کرروا رہے ہیں ۔ امتیوں کے اقوال پر اقوال پیش کئے جارہے ہیں جو کہ آپ کی دلیل ہیں ہی نہیں ، پھر انہیں پیش کرنا آپ کی کم فہمی ہے کہ نہیں ؟ یا پھر چکر بازی کہہ لیں ؟ مسٹر گڈ مسلم آپ دس جگہ رفع الیدین کا اثبات ابھی تک پیش نہیں کرسکے اور مجھے لگتا ہے پیش کربھی نہیں سکتے کیونکہ اگر کچھ آپ کے پلے ہوتا تو پیش کرچکے ہوتے ادھر ادھر سے امتیوں کے اقوال جمع کرنے کے لئے بھاگے نہ پھرتے ۔ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ امتیوں کے اقوال میں دیکھیں گے تو آپ کو اپنے ہی بڑے بڑے علامہ حضرات یعنی غیر مقلدوں کے اکابرین نظر آئیں گے جو کہتے ہیں کہ
نواب صدیق حسن خاں شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔
۔"رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔۔۔
(روضہ الندیہ, صفحہ 148)​
ور اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہید کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (روضہ الندیہ صفحہ150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔
علامہ ابن تیمیہ فتاوی ابن تیمیہ جلد 22ص 253 پرلکھتے ہیں
سوائ رفع او لم یرفع یدیہ لا یقدح ذلک فی صلاتہم ولا یبطلہا ، لا عند ابی حنیفۃ ولا الشافئی ، ولا مالک ولا احمد ، ولو رفع الامام دون الماموم او الماموم دون الامام لم یقدح ذلک فی صلاۃ واحد منہما ۔
یعنی اگر کسی رفع یدین کیا یا نہ کیا تو اس کی نماز میں کوئی نقص نہیں ، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی امام احمد اور امام مالک کسی کے یہاں بھی نہیں ۔اسی طرح امام اور مقتدی مین سے کسی ایک نے کیا تب بھی کوئی نقص نہیں
یہ صرف اک چھوٹا سا نمونہ دکھایا ہے آپ کو ان لوگوں کی جانب سے جنہیں آپ اپنا مانتے ہیں ۔ گڈ مسلم صاحب اگر تو آپ نے امتیوں کی اقوال کو ہی ماننا ہے اور اسی پر عمل کرنا ہے تو پھر ان کی ہی مان کر مجھے بتادیں کہ آپ رفع یدین کرنے اور نہ کرنے ،دونوں کو سنت مانتے ہیں ۔ تاکہ بحث ختم کیجاسکے کم از کم رفع یدین کرنے کے معاملہ میں ۔تاکہ باقی سوالوں پر توجہ کی جاسکے۔ اگر آپ امتیوں کی باتوں کو خاطر میں نہیں لاسکتے تو پھر امتیوں کے اقوال کے بغیر مجھ سے بات کیجئے ۔ تاکہ معلوم ہوسکے کہ اہل حدیث ہونے کے دعوے داروں کے پاس کوئی حدیث ہے بھی ،اپنے عمل پر یعنی دس جگہ کے اثبات پر ۔
محترم جناب سہج صاحب آپ بھی نسخ کے دعویداروں میں سے ہیں اور آپ کا فرض ہے کہ پہلے ترک تو ثابت کریں۔ اور پھر مزے کی بات تو یہ ہے کہ آپ کے بڑے اس بات کو مان گئے، اور کتب میں لکھ گئے کہ جو لوگ رفع الیدین کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں ان کا قول بے دلیل ہے۔ مثال کے طور پر
مولانا عبد الحئی فرماتے ہیں۔
’’ یعنی حضور سے رفع الیدین کرنے کا بہت کافی اور نہایت عمدہ ثبوت ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ ہے ان کا قول بے دلیل ہے۔(التعلیق الممجدص91)​
اور آپ پتہ نہیں کس چیز پر دلائل پیش کیے جارہے ہیں؟ آپ کے بڑے کہتے ہیں ان کا قول بے دلیل ہے۔ اور آپ ہیں جو شروع تھریڈ سے ایک ہی روایت کو کئی جگہ کاپی پیسٹ کرکے قارئین کو یہ تاثر دیتے جارہے ہیں کہ میرے پاس دلائل کے انبار ہیں۔ واہ سبحان اللہ
ہم م م م م اب سمجھ آیا کہ آپ واضح اور صریح الفاظ وانداز میں دعویٰ کیوں نہیں لکھ رہے تھے۔؟ سہج صاحب کیونکہ آپ کے بڑے اس بات کو مانتے ہیں کہ منسوخیت والا قول بے دلیل ہے تو آپ کس باغ کی مولی ہیں؟ کہ اس کی منسوخیت ثابت کرپائیں۔ کیا آپ مولانا عبدالحئی سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں ؟ کیا یہ مولانا علم سے کورے تھے ؟ .........الخ
پھر وہی امتی کی رائے کو اپنے عمل کی صداقت کے لئے پیش کررہے ہیں ۔ جناب اسی تعلیق الممجد میں یہ بھی لکھا ہوا ہے ۔ دیکھئے
چنانچہ امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کے استاذ محمد بن نصر مرزوی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم کوئی ایسا شہر نہیں جانتے کہ جس کے سب باشندوں نے جھکتے اٹھتے وقت رفع یدین چھوڑ دی ہو، سوائے ”کوفہ“کے (التعلیق الممجد)۔
معلوم ہوا کہ کوفہ میں اتنے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی موجودگی میں کوئی ايک بھی رفع یدین کرنے والا نہیں تھا۔
اسی طرح ابن زبیر رضی اﷲ عنہ کی رفع یدین ديکھ کر ممنون مکی نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے شکایت کی کہ میں نے ان کو ایسی نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ کبھی کسی کو ایسی نماز پڑھتے نہیں دےکھا۔
حدثنا قتيبة بن سعيد،‏‏‏‏ حدثنا ابن لهيعة،‏‏‏‏ عن ابي هبيرة،‏‏‏‏ عن ميمون المكي،‏‏‏‏ انه راى عبد الله بن الزبير وصلى بهم يشير بكفيه حين يقوم وحين يركع وحين يسجد وحين ينهض للقيام فيقوم فيشير بيديه فانطلقت إلى ابن عباس فقلت إني رايت ابن الزبير صلى صلاة لم ار احدا يصليها فوصفت له هذه الإشارة فقال إن احببت ان تنظر إلى صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقتد بصلاة عبد الله بن الزبير ‏.
(ابو داؤد)​
قَالَ : وَقَالَ مَالِكٌ : لَا أَعْرِفُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي شَيْءٍ مِنْ تَكْبِيرِ الصَّلَاةِ لَا فِي خَفْضٍ وَلَا فِي رَفْعٍ إِلَّا فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ شَيْئًا خَفِيفًا ، وَالْمَرْأَةُ فِي ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ , قَالَ ابْنُ الْقَاسِمِ : وَكَانَ رَفْعُ الْيَدَيْنِ عندَ مَالِكٍ ضَعِيفًا إِلَّا فِي تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ.
المدونة الكبرى لمالك بن أنس
اسی طرح مدینہ کے امام مالک رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں رفع یدین کرنے والا کوئی شخص نہیں جانتا۔
امام مالک95 ھ میں پیدا ہوئے اور179ھ میں فوت ہوئے ہیں، تو معلوم ہوا کہ رفع یدین مدینہ میں بھی متروک تھی۔
حضور صلی اﷲعلیہ وسلم نے 23سالہ دور نبوت میں کسی ايک شخص کو بھی رفع یدین کرنے کا حکم نہیں دیا۔
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم اورحضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے پيچھے نماز یں پڑھی ہیں ان میں سے کوئی بھی رفع یدین نہیں کرتا تھا۔
اب مسٹر گڈ مسلم کیا کہتے ہیں کہ رفع یدین چھوڑنے کی تمام روایات مردود ہیں ؟؟؟؟؟؟؟ تو مردود روایات کی بنیاد پر
اہل کوفہ کی تمام آبادی میں اور بقول علامہ العجلی 1500 صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم يہاں کے مستقل رہائشی تھے جن میں 70بدری صحابہ تھے ۔مگر يہاں کوئی رفع یدین کرنے والا نہیں تھا ۔ تو وہ صحابہ کیا کہائیں گے “مردود“ روایات پر عمل کرنے کے بعد؟

امام مالک رحمہ اللہ کی رائے باطل ہوئی کہ نہیں؟

مسٹر گڈ مسلم اسی لئے میں آپ کو درجنوں بار یاد دہانی کروا چکا ہوں کہ اپنی دلیلوں میں سے ہی دلیل پیش کرو یعنی قرآن اور حدیث پیش کرو ، لیکن آپ ہو کہ امتیوں کے پیچھے دوڑ کر اپنا اور میرا وقت بڑھا رہے ہو ۔ بھئی دلیل پیش کرو دلیل جس میں دس جگہ رفع الیدین کا اثبات ہو۔بس۔
احساس دلانے کےلیے کچھ پیش پوش کردیا ہے۔ اب پیش پوش ہیں آپ کے دلائل اور ان کا تحقیقی جائزہ......تاکہ قارئین کو معلوم ہوجائے کہ جو بندہ شروع سے اب تک دلائل ہی دلائل پیش کیے جا رہا ہے اور تقریباً ہر پوسٹ میں ماقبل پیش روایت کو مصالحہ لگا کر دوبارہ پیش کیے دیتا ہے اس کے ان دلائل کی کیا حقیقت ہے؟ کیا وہ اپنے موقف پر اور موقف کے مطابق دلائل پیش کررہا ہے یا کہیں کا روڑا کہیں کی اینٹ پھینکے جار ہا ہے۔؟ یا عارضی سہارا لیے گھوم رہا ہے۔ ؟
جی آپ نے احساس دلایا ہے مسٹر گڈ مسلم ، بلکہ اپنا اصلی چہرا دکھایا ہے یہ کہہ کر ““ کہیں کا روڑا کہیں کی اینٹ پھینکے جار ہا ہے۔؟““​
یعنی احادیث یا روایات آپ کے عقیدے کے مطابق اینٹ اور روڑے ہیں کہیں کے؟؟؟؟(معاذاللہ)
شرم تو بلکل نہیں آتی ہوگی ایسے الفاظ استعمال کرتے ؟ کیونکہ آپ ٹھہرے موحد اہلحدیث ، اور آپ کو اختیار ہے کہ آپ روایات کو مردود کہو ، باطل کہو، جھوٹا کہو وغیرہ ۔ صرف اس بنیاد پر کہ فلاں امتی نے اسے مردود کہا ہے ۔ جبکہ اسی روایت کو جسے آپ امتی کے کہنے پر مردود کہہ رہے ہو اسی روایات کو کئی دوسرے امتی صحیح کہتے ہیں ۔ خود ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کو ایک امتی الباني نے صحيح بھی قرار دیا (مزید امتیوں نے بھی کہا لیکن ابھی صرف یہی پیش خدمت ہے)۔ اب اس البانی صاحب کو آپ مردود روایت کو صحیح کہنے کے جرم میں کیا سزا سنائیں گے ؟ نہ سنائیں سزا کیونکہ آپ کی کوئی اوقات نہیں کہ آپ کسی اہل علم شخصیت کو سزا سنائیں ۔ بس پرہیز کیجئے امتیوں کے اقوال سے ۔
اور صرف حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیجئے اور رفع الیدین کا دس جگہ کا اثبات دکھائیے ۔ اگر نہیں پیش کرسکتے تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہی پیش کریں رفع الیدین کے اثبات میں ۔ اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو کوئی قولی حدیث ہی پیش کردیں جس میں رفع الیدین کے اثبات کا زکر ہو ۔اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو پھر یہ تو کہہ ہی سکتے ہو کہ ہم فرقہ اہل حدیث یعنی غیر مقلدین امتیوں کی رائے کے مطابق دس جگہ رفع الیدین کرنے کا اثبات مانتے ہیں اور امتیوں کی رائے کے عین مطابق عامل ہیں رفع الیدین پر رکوع جاتے اٹھتے اور تیسری رکعت کے شروع میں۔
(اک مشورہ ہے یہاں آپ کے لئے کہ آپ امتیوں کی رائے پر عامل تو ہو ہی تو افصل امتیوں یعنی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتووں کو بھی مان لو یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایات اور درایت دونوں کو مان لو ۔ یقینا یہ عمل آپ کو فائدہ دے گا)
شکریہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
Post nmbr46 ans27jan2013​
گڈ مسلم کی پوسٹ نمبر 46 کا جواب
آپ کی پیش پہلی دلیل
آپ کی طرف سے دلیل دو دلیل دو کا جب شور بڑھا تو سب سے پہلے میں نے بخاری سے ابن عمرکی حدیث پیش کی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ
" كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739)
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘​
اس حدیث کا انکار نہ کرنے کا اقرار کرتے ہوئے محترم المقام آپ نے جوابی طور پر ابن عمرکی طرف منسوب بات کو مختلف کتب سے چار دلیلوں کے طور پر پیش کیا ۔ جن میں پہلی ، دوسری اور چوتھی یہ روایات تھیں۔
دلیل نمبر1:الف:
عن مجاھد قال صلیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیہ الا فی التکبیر الاولٰی من الصلوٰۃ ۔( شرح معانی الآثار للطحاوی جلد،صفحہ ایک سو پچپن)​
ترجمہ :- حضرت مجاھد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے رفع یدین نہیں کیا مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔
دلیل نمبر1 :ب:
عن مجاھد قال مارائیت ابن عمر یرفع یدیہ الافی اول مایفتتح-مصنف ابن ابی شیبۃ جلد ایک،صفحہ دوسوسینتیس
ترجمہ: حضرت مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو ابتداء نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
دلیل نمبر1:ج:
عن مجاھد قال مارائیت ابن عمر یرفع یدیہ الا فی اول ما یفتتح الصلوٰۃ۔معرفۃ السنن و الآثار، جلد دو، صفحہ چارسواٹھائیس
ترجمہ: حضرت مجاھد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ابتداء نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
جواب
مولانا سہج صاحب آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ
٭ پہلی بات یہ اثر آپ نے عمل رسول کے مقابلے میں پیش کیا ہے۔ کیا آپ کو آپ کا ضمیر اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آپ رسول کے عمل کے مقابلے میں کسی امتی کا عمل پیش کریں۔؟ آپ نے ایسا فعل کیا ہے جو کہ توہین کے ذمرے میں بھی شمار ہوسکتا ہے۔ اللہ معاف کرے۔
٭ دوسری بات جب آپ سے بار بار اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ اس اثر کی سند ذکر کریں، آپ نے اس مطالبے کو پورا کرنے کا سوچا ؟ نہیں ناں؟ تو کیوں ؟
٭ تیسری بات چلیں اب میں بتا دیتا ہوں کہ اس پیش اثر کی سند میں دو راوی (ابوبکر بن عیاش اور حصین بن عبد الرحمان) مجروح ہیں۔ اس لیےآپ اس اثر کو پیش نہیں کرسکتے کیونکہ مسائل صحیح دلائل سے ثابت ہوا کرتے ہیں۔ ضعیف وکمزور دلائل سے نہیں۔خوب سمجھ لیں۔
جناب مَن آپ نے ابن عمرسے جوترک رفع یدین والی روایت نقل کی ہے۔ وہ صحیح نہیں ہے۔اور پھر دوسری طرف اُس صحیح روایت کے بھی خلاف ہے۔ جس میں سالم بن عبداللہ اپنے باپ عبد اللہ بن عمررض سے اور عبد اللہ بن عمررض رسول اللہ سےرفع الیدین کرنا نقل کرتے ہیں۔
’’ سلیمان الشیبانی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سالم بن عبد اللہ ( بن عمررض) کودیکھا، جب وہ نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے تھے پھر جب رکوع کرتے تو رفع یدین کرتے تھے پھر جب (رکوع سے) سر اٹھاتے تو تو رفع یدین کرتے تھے، میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے اپنے ابا( عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما) کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور انہوں نے( سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما) نے فرمایا: کہ میں نے رسول اللہ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (حدیث السراج ج2 ص34، 35 ح115)‘‘
آپ نے ابن عمرکا عمل پیش کیا تھا۔ یہاں تو قول وعمل دونوں یہ بتلا رہے ہیں کہ سالم بن عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما رفع الیدین کرتے تھے۔ اور پھر ذرا اس اثر پر بھی نظر کرلیں
حضرت عبد اللہ بن عمر رفع الیدین نہ کرنے والوں کوکنکریاں مارتے تھے ‘‘۔( تلخیص الحبیر ، الجزء الاول ، ص220، باب صفۃ الصلاۃ)
اب آپ بتائیں کہ ہم کہاں جائیں ؟ آپ کے سامنے تین باتیں ہیں۔
1۔ اپنا پیش اثر مانیں اور میرے پیش اثر کو بادلائل رد کریں۔
2۔ اپنا اثر چھوڑیں اور تسلیم کریں کہ میں نے ضعیف اثر پیش کیا تھا ۔گڈمسلم کی طرف سے پیش یہ اثر درست ہے اور میں مانتا ہوں۔
3۔ اگر آپ نہ اپنا بیان اثر چھوڑتے ہیں، نہ میرے اثر کو باطل کہتے ہیں۔ تو پھر حنفی اصول (اذا تعارضا تساقطا) کی روشنی میں دونوں سے ہاتھ دھو لیں۔ کیونکہ تضاد آگیا ہے۔ماشاء اللہ پہلے بھی نماز کے کئی اعمال سے ہاتھ دھوئے بیٹھے ہیں۔ اگر ساتھ یہ مل جائے گا۔ تو کونسا طوفان آجائے گا۔ کیا خیال ہے ؟
اب آپ کی مرضی کیا چنتے ہیں ۔ جو چنیں گے۔ اس کی اطلاع ذرا ہمیں بھی دے دینا۔ اللہ بھلا کرے۔
گڈ مسلم صاحب آپ جو چن چکے وہ ہمیں معلوم ہوچکا یعنی آپ نے روایات کا انکار چن لیا ہے ۔ اور دیکھنے والے بھی دیکھتے ہوں گے کہ مسٹر گڈ مسلم ہر روایت کو مردود قرار دیتے جارہے ہیں وہ بھی امتیوں کے اقوال کی روشنی میں ۔
گڈ مسلم صاحب نے جو ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی اور اسکے بارے میں دعوے کئے کہ یہ روایت “مرفوع“ ہے اور اس سے ہمارا یعنی غیر مقلدین کی چار رکعت نماز میں دس جگہ کی رفع الیدین ثابت ہے ،یہ الگ بات ہے کہ اسے دس تک پہنچایا مسٹر گڈ مسلم نے دو جمع دو چار کرکے۔ اسی روایت کے بارے میں جناب سے پچھلی پوسٹوں میں بھی سوال کیا تھا کہ جناب نے اسی روایت میں اضافہ دکھایا حتٰی لقی اللہ کا ، تو یہ قول کس کا ہے ؟ اس کا جواب آنا باقی ہے یہاں اک اور سوال اور مزکورہ روایت کے مرفوع نہ ہونے بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہونے کا ثبوت بھی پیش خدمت ہے ۔
قال ابو داود الصحيح قول ابن عمر وليس بمرفوع ‏.۔۔سنن ابوداود،أبواب تفريع استفتاح الصلاة
امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کہا: صحیح یہ ہے کہ یہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے، مرفوع حدیث نہیں
دیکھا جناب گڈ مسلم جس روایت کو آپ مرفوع کہہ رہے تھے (وہ بھی کسی کی نقل ہی ہوگی) اسی روایت کو امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے غیر مرفوع قرار دیا ۔ اور باقی کی تفصیل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مزکورہ روایت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل ہے ۔ یعنی موقوف ،مرفوع نہیں۔دیکھئے
قال ابو داود روى بقية اوله عن عبيد الله واسنده ورواه الثقفي عن عبيد الله اوقفه على ابن عمر وقال فيه وإذا قام من الركعتين يرفعهما إلى ثدييه وهذا هو الصحيح ‏.‏ قال ابو داود ورواه الليث بن سعد ومالك وايوب وابن جريج موقوفا واسنده حماد بن سلمة وحده عن ايوب ولم يذكر ايوب ومالك الرفع إذا قام من السجدتين وذكره الليث في حديثه قال ابن جريج فيه قلت لنافع اكان ابن عمر يجعل الاولى ارفعهن قال لا سواء ‏.‏ قلت اشر لي ‏.‏ فاشار إلى الثديين او اسفل من ذلك ‏.
امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کہا: اور بقیہ نے اس حدیث کا پہلا حصہ عبیداللہ سے بیان کیا تو اسے مرفوع ذکر کیا (بغیر اس کے کہ آپ نے دو رکعتوں سے اٹھ کر رفع یدین کیا) مگر عبدالوہاب ثقفی نے عبیداللہ سے روایت کیا تو اسے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف کیا اور اس میں کہا: جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تو اپنے ہاتھوں کو اپنی چھاتیوں تک اٹھاتے۔ اور یہی صحیح ہے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کہا کہ اسے لیث بن سعد، مالک، ایوب اور ابن جریج نے موقوف ہی روایت کیا ہے۔ صرف حماد بن سلمہ نے بواسطہ ایوب مرفوع بیان کیا۔ ایوب اور مالک نے دو سجدوں (یعنی رکعتوں)سے اٹھ کر رفع یدین کا ذکر نہیں کیا، صرف لیث نے ذکر کیا ہے۔ ابن جریج نے اس میں کہا کہ میں نے نافع سے پوچھا: کیا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پہلی بار رفع یدین میں اپنے ہاتھ زیادہ اونچے اٹھاتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، سب میں برابر ہی اٹھاتے تھے۔ میں نے کہا: مجھے کر کے دکھاؤ، تو انہوں نے چھاتیوں تک اٹھائے یا اس سے ذرا کم ہی۔
مسٹر گڈ مسلم ،اب بتائیں جس روایت کو مرفوع فرمارہے تھے اسی کے بارے میں امام ابوداؤد رحمہ اللہ کی رائے پڑھ لیں اور اسے بھی ماننے کا اعلان کریں جیسے دوسرے امتیوں کی رائے کو مانتے ہیں ترک رفع الیدین کی روایات کو مردود کہنے میں ۔
اک اور مرفوع روایت دیکھ لیجئے جس میں حضرت سالم ہی اپنے والد سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بیان فرمارہے ہیں۔
حدثنا عبداللہ بن ایوب المخرمی وسعد ان بن نصر و شعیب بن عمرو فی آخرین قالوا ثنا سفیان بن عیینة عن الزھری عن سالم عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلاة رفع یدیہ حتی یحاذی بھما وقال بعضھم حذو منکبیہ واذا ارادان یرکع وبعد ما یرفع راسہ من الرکوع لا یرفعھما وقال بعضھم ولا یرفع بین السجتیدنوالمعنی واحد

محدث ابو عوانہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن ایوب مخزومی اور سعدان بن نصر اور شعیب بن عمرو تینوں نے حدیث بیان کی اور انہوں نے فرمایا کہ ہم سے سفیان بن عینة نے حدیث بیان کی انہوں نے زہری سے اور انہوں نے سالم سے اور وہ اپنے باپ ابن عمر سے روایت کی اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ کو دیکھا آپ جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے کندھوں کے برابر اور جب ارادہ کرتے کہ رکوع کریں اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد تو آپ رفع الیدین نہ کرتے اور بعض راویوں نے کہا ہے کہ آپ سجدتین میں بھی رفع یدین نہ کرتے مطلب سب راویوں کی روایت کا ایک ہی ہے ۔
(صحیح ابوعوانہ جلد دوئم صفحہ نوے)​
آپ نے جو اثر پیش کیا۔ اس کی تحقیقی حیثیت کیا ہے؟ ذرا وہ بھی سماعت فرمالیں۔
جی دیکھتے ہیں ،جناب نے کون سی آیت اور حدیث پیش فرمائی ہے ۔
نمبر1:
امام یحیٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا:​
" حديث أبي بكر عن حصين انما هو توهم منه لا أصل له " (جزء رفع الیدین:16، نصب الرایہ ج1 ص392)
’’ ابوبکر کی حصین سے روایت اس کا وہم ہے، اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے۔
محترم جناب سہج صاحب اس روایت پر امام ابن معین رحمہ اللہ کی جرح خاص اور مفسر ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ لاکھ جتن کریں، یہ حدیث بہرحال باطل ومردود ہی ہے۔ ابن معین کا نقاد حدیث میں جو مقام ہے وہ حدیث کے ابتدائی طالب علموں پر بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن شاید آپ کو اس بات کا بھی علم نہ ہو۔
امتی کا قول ہے جناب گڈ صاحب ، پہلے آپ دلیل پیش کیجئے کہ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا قول آپ کی دلیل ہے اور حجت ہے ۔ کیونکہ آپ کے ہاں تو قول صحابی حجت نیست یعنی صحابی کی رائے بھی حجت نہیں ۔تو پھر امتیوں کے اقوال احادیث کے جواب میں ؟ صرف انہیں مردود کہنے کے شوق میں ؟ آفرین ہے تم پر مسٹر گڈ مسلم ۔
مزید اس روایت کے بارے میں امام احمد بن حنبلنے فرمایا:
" رواه أبو بكر بن عياش عن حصين عن مجاهد عن ابن عمر وهو باطل" (مسائل احمد روایت ابن ہانی ج1 ص50)
’’اسے ابوبکر بن عیاش نےحصین عن مجاہد عن ابن عمر کی سند سے روایت کیا ہے اور یہ باطل ہے۔
یہ بھی امتی کا قول ہے حضور گڈ مسلم ، پہلے اسے اپنے لئے حجت تسلیم کیجئے ،دلیل کے ساتھ اور پھر اسے پیش کیجئے گا ۔
دیکھ لیا مولانا سہج صاحب آئمہ حدیث نے ابوبکر بن عیاش کی اس روایت کو وہم وخطا بھی قرار دیا ہے، لہٰذا ان کی یہ روایت باطل وبے اصل ہے۔ مولانا سہج صاحب معلوم کرلیں۔اور مان بھی لیں، کیونکہ سنت رسول کا معاملہ ہے۔ میری ذاتی بات نہیں۔
آپ کی زاتی بات نہیں لیکن کسی اور امتی کی تو زاتی بات ہے ناں ؟ حجت ثابت کیجئے سرجی اس زاتی رائے کو فرقہ جماعت اہل حدیث کے لئے ۔
ہاں مولانا سہج صاحب اس بات کو میں بھی مانتا ہوں کہ ابوبکر بن عیاش جمہور محدثین کے نزدیک صدوق ومُوثَّق راوی ہیں۔ ابوبکر بن عیاش کی توثیق وتقویت محدثین کرام سے ثابت ہے۔ لیکن جن روایات میں ابوبکر بن عیاش کو غلطیاں لگی ہیں۔اخطاء واوہام ہوئے ہیں۔ محدثین کرام کی صراحت کے مطابق جن روایات میں ابوبکر بن عیاش کو اخطاء واوہام ہوئے ہیں ان کو چھوڑ کر باقی تمام روایات قابل قبول ہیں۔ فتدبر
ابوبکر بن عیاش کی روایت ترک رفع الیدین کو یحیٰ بن معین اور احمد بن حنبل وغیرہما نے بے اصل اور باطل وغیرہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا یہ روایت ضعیف ومردود ہی ہے۔
جمہور محدثین کے نزدیک صدوق راوی کی روایت کو مردود بھی کہتے ہیں ،یہ آپ سے معلوم ہوا وہ بھی بلادلیل ۔ ماشاء اللہ ۔ جب تک آپ امتیوں کی رائے کے حجت ہونے کی دلیل پیش نہیں کرتے اس وقت تک آپ کو امتیوں کی رائے پیش کرنے پر ایسے ہی جواب ملیں گے مسٹر گڈ صاحب۔ حدیث پیش کیجئے جناب جس میں دس جگہ رفع الیدین کرنے کا اثبات ہو ۔ امتیوں کے اقوال جب آپ کے ہاں حجت ہی نہیں تو انہیں پیش ہی نہ کریں ۔اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ تو مقلدین احمد بن حنبل کے امام ہیں ۔ہیں کہ نہیں ؟ اور آپ کے یعنی فرقہ جماعت اہل حدیث عقائد میں تو مقلد کو اور اس کے امام کو لعن تعن کرنا ہی اچھا سمجھا جاتا ہے ،مقلدوں کے امام کی رائے کو حجت نہیں بناتے۔ ایسا اسی وقت کرتے ہیں جماعت اہل حدیث والے جب کوئی حدیث پلے نہ ہو تو پھر اپنے عمل کو ثابت کرنے کے لئے ان ہی امتیوں کے اقوال کا سہارہ لیتے ہیں جنہیں مشرک مانتے ہیں ۔ اور تقلید سے دور بھاگنے کا درس دیتے ہیں تقلید سے دور بھاگو کیونکہ یہ گمراہی ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ مقلد ہلاکت کی راہ پر گامزن ہے۔ ۔اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی تقلید ایک کثیر جماعت اہل سنت کرتے ہیں ۔ کیوں مسٹر گڈ مسلم ؟ مقلدوں اور مقلدوں کے اماموں کی باطل تقلید چھوڑیں اور قرآن یا حدیث پیش کریں اپنے عمل پر ۔
نمبر 2:
ابوبکر بن عیاش آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے۔ ( الکواکب المنیرات فی معرفۃ من اختلط من الرواۃ الثقات لابن الکیال ص439، ونصب الرایۃ ج1 ص409، الاغتباط بمعرفۃ من رمی بالاختلاط ص26)
حافظ ابن حبان نے بھی کتاب الثقات میں اس کی تصریح کی ہے کہ ابن عیاش جب بڑی عمر کےہوئے توان کاحافظہ خراب ہوگیا تھا۔ جب وہ روایت کرتے تو ان کووہم ہوجاتا تھا۔ صحیح بات یہ ہے کہ جس بات میں انہیں وہم ہوا ہے اسے چھوڑ دیا جائے اور غیر وہم والی روایت میں اس سے حجت پکڑی جائے۔ ( التہذیب ج12 ص39)​
امام بخارینے تفصیل سے بتایا ہے کہ
قدیم زمانے میں ابوبکر بن عیاش اس روایت کو عن حصین عن ابراہیم عن ابن مسعود مرسل( منقطع) موقوف بیان کرتے تھے اور یہ بات محفوظ ہے۔ پہلی بات ( یہ متنازعہ حدیث) خطاء فاحش ہے کیونکہ اس نے اس میں ابن عمر کے اصحاب کی مخالفت کی ہے۔ ( نصب الرایۃ ج1 ص409)
امام بخاریکا یہ قول جرح مفسر ہے جو مندمل نہیں ہوسکتی مولانا۔
مزید امتیوں کے اقوال پیش کیئے ہیں آپ نے ، ان کے بارے میں پہلے ہی تبصرہ کرچکا ہوں کہ ایسے اقوال کو حجت بنانا ہے تو پھر پہلے اس بارے میں دلیل پیش پوش کیجئے ۔
سہج صاحب اب آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ ابو بکر بن عیاش نے آخری عمر میں حافظہ خراب ہونے کے بعد جو روایت بیان کی ہے اس میں انہوں نے بہت سے ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے، لہٰذا ان کی روایت شاذ ہوئی اور شاذ مردود کی ایک قسم ہے۔ اس وجہ سے ان کی اس روایت کو امام یحیٰ بن معین اور امام احمد رحمہم اللہ وغیرہما نے ضعیف قراردیا ہے۔ اس تفصیل کے باوجود بھی اگرآپ اس حدیث کی صحت پر اصرار کرتے ہیں تو پھر آپ کا علاج کسی دماغی ہسپتال میں کرانا چاہیے۔
جی جی مسٹر گڈ مسلم صاحب ،دماغی امراض کے ہسپتال جانا پڑے گا یہ پوچھنے کے لئے کہ جب کوئی بندہ اپنی دلیلیں چھوڑ کر غیر حجت رائے زنی کو دلیل کی بجائے پیش پوش کرنے لگ پڑے تو پھر وہ کون سی بیماری کہلاتی ہے ۔ میری نظر میں تو اسے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کہتے ہیں۔ کیونکہ آپ دس جگہ رفع الیدین کے اثبات کو ثابت کرنے کی بجائے امتیوں کےاقوال پیش کررہے ہیں ۔ پہلے خود دوجمع دو چار کرتے رہے اور اب دوسرے امتیوں کی تقلید کرتے نظر آتے ہیں ۔ یعنی امتی آپ کی پیش کردہ روایت کو درست کہہ دے تو اسی کی تقلید اور امتی مخالف کی پیش کردہ روایت کو مردود کہہ دے تو بھی اسی کی تقلید ،بغیر دلیل کے ۔ اور دعوت دیتے ہیں تقلید سے دور بھاگنے کی !​
دلیل نمبر1:جزء ھ:
عن عبدالعزیز بن حکیم قال رائیت ابن عمر یرفع یدیہ حزار اذنیہ فی اول تکبیرۃ افتتاح الصلوٰۃ ولم یرفعھا فیما سوٰی ذالک-موطاء امام محمد رحمۃ اللہ علیہ صفحہ نوے
ترجمہ : عبدالعزیز بن حکیم رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ ابتداء نماز میں پہلی تکبیر کے وقت رفع یدین کرتے تھے کانوں کے برابر اسکے علاوہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
جواب:
مولانا سہج صاحب آپ کے کشکول میں کوئی صحیح روایت بھی ہے کہ نہیں ؟ یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے۔
نمبر1:
محمد بن الحسن الشیبانی تلمیذ امام ابی حنیفہ سخت ضعیف ہے۔
جمہور محدثین نے اس پر جرح کی ہے۔ امام یحیٰ بن معین نے فرمایا:​
’’ جهمي كذاب ‘‘ ( جزء فی آخر کتاب الضعفاء والمتروکین ج4 ص52)​
( محمد بن الحسن الشیبانی ) جہمی کذاب ہے۔
امام نسائینے کہا :​
" ضعيف" ( جزء فی آخر کتاب الضعفاء والمتروکین ص266)​
ابن عدی نے کہا:​
اہل حدیث ( محدثین کرام اور متبعین حدیث) اس کی بیان کردہ حدیثوں سے بے نیاز ہیں۔ ( الکامل ج6ص218)​
ابوزرعہ الرازی نے کہا :​
محمد بن الحسن جہمی تھا۔ ( کتاب الضعفاء لابی زرعۃ ص570)​
عمرو بن علی الفلاس نے کہا:​
" ضعيف" (تاریخ بغداد ج2 ص181)​
محمد بن الحسن الشیبانی پر تفصیلی جرح کےلیے مولانا صاحب آپ پوسٹ کیے گئے اس تھریڈ کا مطالعہ کریں، امید ہے بہت افاقہ ہوگا۔
النصر الربانی فی ترجمہ محمد بن الحسن الشیبانی
نمبر2:
محمد بن ابان بن صالح الجعفی ضعیف راوی ہے۔ جمہور محدثین نے اس پر جرح کی ہے۔( لسان المیزان ج5 ص122)​
امتیوں کے اقوال سے ضعیف ثابت کرتے ہیں آپ ، یہی میں کہتا آیا ہوں کہ فرقہ جماعت اہل حدیث کے پاس امتیوں کے اقوال کے سوا کچھ نہیں ۔ گڈ مسلم صاحب اپنی توانائی صرف کیجئے دس جگہ رفع الیدین کا اثبات دکھانے میں ناکہ روایات کو مردود قرار دینے میں ۔ آپ کو اگر روایات کو مردود کہنے کا ہی شوق ہے تو صریح الفاظ میں روایت پیش کیوں نہیں کردیتے ؟ اگر کسی روایت سے صراحت پیش نہیں کرسکتے تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ پیش کیجئے ۔ کیونکہ امتیوں کی باتوں اور رائئے میں تو اختلاف ہوتا ہی ہے کیونکہ جیسے آپ فرقہ جماعت اہل حدیث سے تعلق رکھتے ہو ویسے ہی ائمہ کرام کا بھی چاروں مزاھب میں سے کسی نا کسی سے تعلق رہا ۔ اسی لئے شافعی اور حنبلی مزھب کے ائمہ احناف و مالکیا کے برخلاف رائے زنی کرتے رہے اور حنفی اور مالکی شافعیوں اور حنبلیوں کے خلاف۔ جبکہ حدیث کے فیصلہ کے بعد یہ صورت حال نہیں رہتی۔ ویسے بھی آپ کے ہاں چاروں مزاھب کے راہی گمراہ قرار پاتے ہیں کیوں کہ وہ تقلید کے مجرم جو ہیں۔ اور آپ کو بھی خیال کرنا چاھئیے ایسے مجرمین کے اقوال کا فائدہ اٹھاتے ۔ اور ویسے بھی آپ کا دعوٰی مزھب ہے کہ آپ صرف قرآن اور حدیث کے حکم کو مانتے ہیں امتیوں کی رائے کو نہیں ۔
امام نسائی رحمہ اللہ
فقہی اعتبار سے آپ شافعی المذہب تھے (بستان المحدثین:۱۲۳)​
جماعت اہلِ حدیث کے نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھی آپ کوشافعی قرار دیا ہے (ابجد العلوم:۸۱۰)​
البتہ مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے آپ کوحنبلی لکھا ہے
ابن عدی
ان کی الکامل سے آپ نے اقتباس پیش کیا جو کہ آپ کے ہاں شاید قرآن یا حدیث کا درجہ رکھتا ہو لیکن میرے نزدیک وہ ان کی زاتی رائے ہے اور اسی الکامل کے بارے میں دوسرے امتی کی رائے دیکھ لیں۔
زین الدین عراقی نے "شرح الفیہ" میں لکھا ہے: "ولکنه رای ابن عدی ذکر فی کتابه الکامل من تکلم فیه وان کان ثقه"
‏"لیکن ابن عدی نے اپنی کتاب "کامل" میں ہر متکلم فیہ کا تذکرہ کیا ہےاگرچہ وہ ثقہ ہو"
دیکھا مسٹر گڈ مسلم "کامل" پر بھی امتیوں نے ہی اعتراض کررکھا ہے ۔
اب اس بات کا آپ کو ہی خیال رکھنا چاھئے کہ آپ اپنی دلیل ہی بیان کریں امتیوں کے اقوال پیش نہ کریں کیونکہ امتیوں کے اقوال آپ کے ہاں حجت نہیں ، خصوصا مقلد امتی اور مقلدوں کے امام امتی۔
شکریہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
گڈ مسلم کی پوسٹ نمبر47 کا جواب

۔۔۔۔۔

[FONT=Arial نے کہا ہے:
گڈمسلم;68887[/FONT]]
آپ کی پیش دوسری دلیل
[FONT=Arial نے کہا ہے:
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔ صحیح مسلم جلد ایک۔
جواب
پہلی بات مولانا سہج صاحب آپ کو امام نووی نے باب باندھ کر ہی جواب دے دیا ہے کہ یہ تشہد کے متعلق ہے۔ لیکن آپ ہیں کہ پھر بھی نہیں مان رہے۔
دوسرا خود امام مسلم نے ہی مفصل حدیث لا کر فیصلہ کردیا ہے کہ یہ حدیث سلام سے متعلق ہے۔ کیونکہ مولانا جس طرح قرآن مجید اپنی تشریح خود کرتا ہے اسی طرح حدیث، حدیث کی تشریح بھی کرتی ہے۔
نمبر1:
سیدنا جابر بن سمرہفرماتے ہیں:​
’’ ہم رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھتے تو ( نماز کے آخر میں ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا: تمھیں یہ کیا ہوگیا ہے ؟ تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہوتی ہیں۔ تم میں سے جب کوئی ( نماز کے آخر میں ) سلام پھیرے تو اپنے بھائی کی طرف منہ کرکے صرف زبان سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہے اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرے۔‘‘ (صحیح مسلم ج1 ص181، ح430، وترقیم دارالسلام:971)
سیدنا جابر بن سمرہ کی دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ کے ساتھ جب ہم نماز پڑھتے تو ( نماز کے آخر میں ) دائیں بائیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے۔ رسول اللہ نے فرمایا: تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تمہیں یہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں بائیں منہ موڑ کر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا کرو۔( صحیح مسلم، خ430، وترقیم دار السلام: 970)​
لفظ ’’ اذناب خيل شمس ‘‘ تینوں احادیث میں موجوود ہے جو اتحاد واقعہ کی واضح دلیل ہے سہج صاحب.... لہٰذا اس حدیث کے ساتھ استدلال بالکلیہ مردود ہے۔
یاد آیا آپ نے اس بات کا بھی ذکر کیا تھا کہ یہ حدیث الگ الگ واقعہ پر دلالت کرتی ہے تو مولانا آپ کے پاس اپنی اس بات کی کیا دلیل ہے۔؟ اگر ہے تو پیش کریں ورنہ اس بات کو تسلیم کرلیں کہ یہ احادیث ایک ہی واقعہ کے متعلق ہیں۔ اگر آپ مجھے دلیل پر مجبور کریں کہ گڈمسلم صاحب آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ احادیث اتحاد واقعہ پر دلالت کرتی ہیں تو جناب ذرا ان احادیث کا غور سے مطالعہ کرنا اسی حدیث میں ہی الفاظ کا اشارہ اس بات پر دلالت کررہا ہے۔کہ یہ تمام احادیث ایک ہی واقعہ سے متعلق ہیں۔ اور دوسری بات ایک حدیث اختصار اور دوسری تفصیل پر مبنی ہے۔ اور ایسا کئی امور میں ہونا شریعت اسلامیہ سے ثابت ہے۔ اس لیے مولانا اس بات (تمام احادیث ایک ہی واقعہ کے متعلق ہیں) کو تسلیم کیے بنا آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ خوب سمجھ لیں۔
نمبر2:
تمام محدثین کا اس پر اجماع ہے کہ اس حدیث کا تعلق تشہد کےساتھ ہے۔ خیرالقرون میں کسی نے بھی اس حدیث کے ساتھ رفع الیدین کی ممانعت پر استدلال نہیں کیا ہے۔ (مولانا سہج صاحب اگر کیا ہے تو پیش کیجیے۔ تاکہ آپ کی صداقت کا پتہ چلے۔) مثلاً درج ذیل محدثین نے اس حدیث پر ’’ سلام ‘‘ کے ابواب باندھے ہیں:​
1۔ علامہ نووی
’’باب الامر بالسكون في الصلوة والنهي عن الإشارة باليد ورفعها عند السلام ‘‘ ( صحیح مسلم مع شرح النووی ج4 ص152)​
2۔ ابوداؤد
’’باب في السلام ‘‘ ( سنن ابی داؤود:998، 999)​
3۔ الشافعی
’’ باب السلام في لاصلوة ‘‘ ( کتاب الام ج1 ص122)​
4۔ النسائی
’’ باب السلام بالأيدي في الصلوة وباب موضع اليدين عندالسلام ‘‘ ( المجتبیٰ فبل ح:1185، الکبریٰ قبل ح:1107)​
5۔ طحاوی
’’ باب السلام في الصلوة كيف هو؟ ‘‘ ( شرح معانی الآثار ج1 ص268، 269)​
5۔ بیہقی
’’ باب كراهة الايماء ياليد عند التسليم من الصلوة ‘‘ ( السنن الکبریٰ ج2 ص181)​
کسی بھی محدث نے اس پر منع رفع الیدین کا باب نہیں باندھا ، محدثین کی اس اجماعی تبویب سے معلوم ہوا کہ اس حدیث کا تعلق صرف تشہد والے رفع الیدین کے ساتھ ہے۔ اختلافی رفع الیدین کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
حافظ ابن حجرنے کہا :​
’’ (سیدنا جابر بن سمرہ کی پہلی حدیث )سے رکوع کے وقت رفع الیدین کے منع پر دلیل لانا درست نہیں ہے کیوں کہ پہلی حدیث دوسری طویل حدیث کا اختصار ہے۔ ( التلخیص الحبیر ج1 ص 221 )
امام بخاری نے فرمایا:​
یہ بات مشہور ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس حدیث کا تعلق تشہد کے ساتھ ہے۔ ( التلخیص الحبیر ج1 ص221، جزء رفع الیدین: 37)
اور یہی وجہ ہے کہ امام بخاریفرماتے ہیں۔
" من احتج بحديث جابر بن سمرة علي منع الرفع عند الركوع فليس له حظ من العلم"۔
’’ جو شخص جابر بن سمرۃ کی حدیث سے رفع الیدین عند الرکوع منع سمجھتا ہے۔وہ جاہل اور علم سے ناواقف ہے۔ کیونکہ "اسكنوا في الصلوة فانما كان في التشهد في في القيام" نبی کریم نے اسکنوا تشہد میں اشارہ کرتے دیکھ کر فرمایا تھا نہ کہ قیام کی حالت میں۔ (بخاری ص16، تلخیص ص83، تحفہ ص223)​
نووی شارح صحیح مسلم نے کہا :​
اس حدیث سے رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے نہ کرنے پر استدلال کرنے والا جہالت قبیحہ کا مرتکب ہے اور بات یہ ہے کہ عند الرکوع رفع الیدین کرنا صحیح وثابت ہے جس کا رد نہیں ہوسکتا۔ پس نہیں خاص اپنے مورد خاص پر محمول ہوگی تاکہ دونوں میں توفیق وموافقت ہو اور ( مزعومہ) تعارض رفع ہوجائے۔ ( المجموع شرح المہذب ج3 ص403، وحاشیۃ السندی علی النسائی ص176)
حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ نے فرمایا :​
’’ اس حدیث سے استدلال انتہائی بری جہالت ہے جسے سیدنا رسو ل اللہ کی سنت کے ساتھ روا رکھا گیا ہے۔ کیونکہ یہ حدیث رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کے بارے میں وارد نہیں ہوئی۔ وہ تو نماز کی حالت سلام میں ہاتھوں سے اشارہ کرتے تھے... اس میں اہل حدیث ( محدثین ) کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور جس شخص کو حدیث کے ساتھ ذرہ برابر تعلق ہے وہ بھی تسلیم کرتا ہے ( کہ رفع یدین قبل الرکوع وبعدہ کے خلاف پیش کرناغلط ہے۔) ( البدر المنیر ج3 ص485)
نمبر3:
مولانا اگر یہ حدیث رفع الیدین کی ممانعت پر دلیل ہے تو پھر تکبیر تحریمہ، وتر اور عیدین کی نماز میں آپ رفع الیدین کیوں کرتے ہیں۔؟ اگر رکوع والا رفع الیدین اس حدیث کے ساتھ ممنوع ہے تو پھر یہ تینوں رفع الیدین بطریق اولیٰ ممنوع ہونے چاہئیں۔کیا خیال ہے مولانا صاحب؟
جو آپ کا خیال وجواب وہی میرا خیال و جواب ہے۔ اگر ان ( تکبیر تحریمہ، وتر، عیدین) کی تخصیص دوسری احادیث کے ساتھ ہے تو اہل حدیث جن مقامات پہ رفع الیدین کرتے ہیں ان کی بھی تخصیص دوسری احادیث کے ساتھ ہے۔
نمبر4:
آپ کی طرف سے پیش کردہ اس حدیث میں رفع الیدین کا ذکر اور صراحت نہیں۔ لیکن میری طرف سے پیش کردہ حدیث رفع الیدین کا ذکر اور صراحت ہے۔ لہذا مفسر کو مجمل پر مقدم کیا جائے گا۔ جیسا کہ حافظ ابن حجرلکھتے ہیں:​
" وهذا المفسر مقدم علي المبهم " ( فتح الباری ج10ص283 تحت ح 5827)
اور یہ مفسر مبہم پر مقدم ہے۔
نمبر5:
مولانا صاحب اگر اس حدیث کے الفاظ کو رفع الیدین پر محمول کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رفع الیدین کرنا ایک قبیح فعل ہے۔ چونکہ مختلف فیہ رفع الیدین نبی کریم سے باسند صحیح تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔(جس کو آپ بھی تسلیم کرچکے ہیں) اور نبی کبھی بھی فعل قبیح کا مرتکب نہیں ہوا کرتا(نعوذباللہ اگر ہوتا ہے تو بتائیں) تو معلوم ہوا کہ اس حدیث کا اختلافی رفع الیدین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، ورنہ نعوذ باللہ نبی کے فعل کو قبیح تسلیم کرنا پڑے گا۔ جس کے تصور سے ہی ہم پناہ مانگتے ہیں۔ لیکن آپ ہیں کہ بلا خوف وخطر اپنے کمزور وبے دلیل مؤقف کو ثابت کرنے کےلیے قیل وقال سے سہارا لیے ساتھ ساتھ سنت نبوی کو غلط تشبیہات بھی دیئے جارہے ہیں۔ اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ ایک ایسا فعل جس پر نبی کریم خود عامل رہے ہیں بری تشبیہ دیئے جارہا ہوں۔اللہ ہی سے ہدایت کا سوال ہے۔
تنبیہ:
مولانا آپ جیسے بعض لوگوں نے پہلے جواب کاجواب دینے کی کوشش کی ہے کہ ’’ یہ حدیث تعدد واقعہ پر مشتمل ہے ‘‘ ان لوگوں کا یہ دعویٰ غلط ہے۔
حافظ عبدالمنان صاحب نورپورینے عبدالرشید کشمیری ( دیوبندی) کے نام اپنے غیر مطبوع خط میں لکھا :​
’’ جابر بن سمرۃ والی روایت میں تو رکوع والےر فع الیدین سے منع کا سرے سے نام ونشان ہی نہیں۔ واقعات خواہ دو ہی بنالیے جائیں کیونکہ ایک واقعہ میں سلام والے رفع الیدین کے مراد نہ ہونے سے رکوع والے رفع الیدین کا مراد ہونا لازم نہیں آتا لہذا اس روایت کو رکوع والے رفع الیدین کےمنع ہونے کی دلیل بنانا محض تحکم اور نری سینہ زوری ہے۔‘‘
او رپھر مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ حدیث مسند احمد( ج5 ص93 ح21166) میں ’’ وهم قعود ‘‘ ( اور ہم بیٹھے ہوئے تھے) کے الفاظ کے ساتھ مختصراً موجود ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت قیام والے رفع یدین کے خلاف نہیں ہے۔ بلکہ اس میں قعدے (تشہد) والی حالت بیٹھنے میں ہاتھ اٹھانے سے منع کیا گیا ہے۔ جیسا کہ شیعہ حضرات کرتے ہیں۔ جس کا مشاہدہ آج بھی کیا جاسکتا ہے۔ شیعہ کے رد والی حدیث کو اہل حدیث کے رفع یدین کے خلاف پیش کرنا سہج صاحب کیا ظلم عظیم نہیں ہے۔؟ اسی لیئے تو امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کرنے والے کو ’’ لايعلم ‘‘ (بےعلم) قرار دیا ہے۔ ( جزء رفع الیدین 37)​
محمود حسن دیوبندی ’’ اسیر مالٹا ‘‘ فرماتے ہیں کہ
’’ باقی اذناب الخیل کی روایت سے جواب دینا ازروئے انصاف درست نہیں کیونکہ وہ سلام کے بارہ میں ہے۔ صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم بوقت سلام نماز میں اشارہ بالید بھی کرتے تھے۔ آپ نے اس کو منع فرمادیا‘‘۔(الورد الشذی علی جامع الترمذی ص63، تقاریر شیخ الہند ص65)
محمد تقی عثمانی دیوبندی فرماتے ہیں کہ
’’ لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اور کمزور ہے‘‘۔(درس ترمذی ج2 ص 36)
اب مولانا سہج آپ میں اگر انصاف ہے تو کسی کی بھی بات مان لیں۔ میری نہیں مانتے تو نا مانیں کیونکہ شاید آپ کی شان میں کمی آجائے کم از کم اپنے بڑوں کی تو مان لیں۔
سب سے پہلے مسٹر گڈ مسلم کو مبارک باد کہ وہ نیم مقلد ہوچکے ہیں ،جس کا دل چاھے مان لے جس کا جی چاہے نہ مانے ،لیکن حقیقت یہی ہے کہ مسٹر گڈ مسلم اپنا دعوٰی بھول بھی چکے کہ اہل حدیث کے دو اصول اطیعو اللہ اور اطیعوالرسول۔ اب جناب کا یہ حال ہے کہ تمام احادیث بھول کر صرف امتیوں کے اقوال پیش فرمارہے ہیں اسی لئے میں بھی اب صرف حدیث ہی جواب میں پیش کر رہا ہوں اور امتیوں کے اقوال پر بلکل وقت ضایع نہیں کروں گا ۔
جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث جس کو مسٹر گڈ مسلم سلام کے وقت اشاروں سے منع کی فرمارہے ہیں اور الفاظ ایسے استعمال کر رہے ہیں ۔دیکھئے
نمبر5:
مولانا صاحب اگر اس حدیث کے الفاظ کو رفع الیدین پر محمول کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رفع الیدین کرنا ایک قبیح فعل ہے۔ چونکہ مختلف فیہ رفع الیدین نبی کریم سے باسند صحیح تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔(جس کو آپ بھی تسلیم کرچکے ہیں) اور نبی کبھی بھی فعل قبیح کا مرتکب نہیں ہوا کرتا(نعوذباللہ اگر ہوتا ہے تو بتائیں) تو معلوم ہوا کہ اس حدیث کا اختلافی رفع الیدین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، ورنہ نعوذ باللہ نبی کے فعل کو قبیح تسلیم کرنا پڑے گا۔ جس کے تصور سے ہی ہم پناہ مانگتے ہیں۔ لیکن آپ ہیں کہ بلا خوف وخطر اپنے کمزور وبے دلیل مؤقف کو ثابت کرنے کےلیے قیل وقال سے سہارا لیے ساتھ ساتھ سنت نبوی کو غلط تشبیہات بھی دیئے جارہے ہیں۔ اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ ایک ایسا فعل جس پر نبی کریم خود عامل رہے ہیں بری تشبیہ دیئے جارہا ہوں۔اللہ ہی سے ہدایت کا سوال ہے۔
اب اس حدیث کا ترجمہ دیکھئے جو گڈ مسلم نے پیش فرمائی
’’ ہم رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھتے تو ( نماز کے آخر میں ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا: تمھیں یہ کیا ہوگیا ہے ؟ تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہوتی ہیں۔ تم میں سے جب کوئی ( نماز کے آخر میں ) سلام پھیرے تو اپنے بھائی کی طرف منہ کرکے صرف زبان سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہے اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرے۔‘‘ (صحیح مسلم ج1 ص181، ح430، وترقیم دارالسلام:971)

اس حدیث کے ترجمہ کی عربی عبارت بھی میں پیش کردیتا ہوں
جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ : كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا : السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ، وَأَشَارَ بِيَدَيْهِ إِلَى الْجَانِبَيْنِ ، فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَا تُؤَمِّنُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ ، إِنَّمَا يَكْفِي أَحَدُكُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ ثُمَّ يُسَلِّمَ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَمِنْ عَنْ شِمَالِهِ
اس حدیث سے یہ تو صاف معلوم ہورہا ہے کہ مزکورہ حدیث میں السلام علیکم کہنے اور اشارے کا معاملہ ہے۔ اور الفاظ بھی دیکھئے جن الفاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کیا علٰی مَا تُؤَمِّنُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ تمھیں یہ کیا ہوگیا ہے ؟ تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہوتی ہیں
اور میں نے جو حدیث پیش کی تھی اس میں الفاظ ہیں فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو
اولعلٰی مَا تُؤَمِّنُونَ بِأَيْدِيكُمْ ہاتھ سے اشارہ
دومرفعی يديکم ہاتھ اٹھا نا
اشارے کے لئے ہاتھ اٹھایا نہیں جاتا جبکہ رفع الیدین کے لئے اٹھایا جاتا ہے ۔ہاتھ سے اشارہ کرنے اور ہاتھ اٹھانے کا فرق ہے۔
اسکے علاوہ دونوں احادیث کے الگ الگ واقعات ہونا بھی اس بات سے ثابت ہے ۔دیکھئے
اولعن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا
دوم جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ : كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا : ہم رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھتے تو
اول حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کا زکر ہے
دوم حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھنے کا زکر ہے
یعنی اشارے سے منع کی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی نماز سے فارغ ہوئے اور ارشاد فرمایا۔
اور رفع الیدین سے منع کی روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور صرف صحابہ رضی اللہ عنہ(نفل) نماز پڑھ رہے تھے۔
ان واقعات کو الگ الگ تسلیم نہ کرنا گڈ مسلم کی اور ان کے فرقہ کی منتق ہے ۔اور کہنا یہ کہ
لفظ ’’ اذناب خيل شمس ‘‘ تینوں احادیث میں موجوود ہے جو اتحاد واقعہ کی واضح دلیل ہے سہج صاحب.... لہٰذا اس حدیث کے ساتھ استدلال بالکلیہ مردود ہے۔
نبی کبھی بھی فعل قبیح کا مرتکب نہیں ہوا کرتا(نعوذباللہ اگر ہوتا ہے تو بتائیں)
پہلی بات
مسٹر گڈ مسلم ، کوئی بھی نبی کسی بھی قبیع فعل کا مرتکب نہیں ہوتا ایسا سوچنے والا ہی دائرہ اسلام سے باہر ہے ۔ اور اک بات اچھی طرح زہن نشین کرلیجئے آپ بار بار ان کنٹرولڈ الفاظ استعمال کررہے ہیں یعنی اس حدیث کا اختلافی رفع الیدین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، ورنہ نعوذ باللہ نبی کے فعل کو قبیح تسلیم کرنا پڑے گا۔ اب غور سے پڑھئے گا جناب گڈ صاحب۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اشارہ کرنے سے بھی اور ہاتھ اٹھانے سے بھی ۔ ٹھیک
آپ کہتے ہیں دونوں کا مطلب ایک ہی ہے یعنی صرف اشارے سے منع کیا ۔ ٹھیک
اب اگر مان لیا جائے کہ دونوں طرح کی احادیث ایک ہی عمل کو منع کرنے کے لئے ہیں ۔
تو پھر بھی صحابہ کا عمل سنت کے مطابق ہی تھا ،کیونکہ صحابی جو دیکھتا تھا وہی کرتا تھا۔
اگر اس منع شدہ حرکت جو کہ ہاتھ کا اشارہ ہو یا رفع الیدین وہ منع کرنے سے پہلے سنت تھا اور منع کے بعد گھوڑے کی دم جیسا ۔
منع سے پہلے کے عمل کو گھوڑے کی دم جیسا سمجھنا جہالت اور منع کے بعد گھوڑے کی دم جیسا نہ سمجھنا بھی جہالت۔
اب آپ سے سوال ہے مسٹر گڈ مسلم کہ آپ کا ماننا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور اسے گھوڑے کی دم جیسا کہا ۔ کیوں مانتے ہیں کہ نہیں؟اب آپ یہ بتادیجئے کہ جب ہاتھ سے اشارہ منع نہیں ہوا تھا تو اس وقت اس کی حیثیت کیا تھی؟ سنت تھی یا بدعت ؟ یاد رکھنا کہ آپ الفاظ استعمال کرتے رہے ہو "قبیع فعل" ۔ اگر بدعت کہتے ہو تو صحابہ کی گستاخی کا ثبوت اور اگر سنت کہو گے تو بھی گستاخی کا ثبوت ۔ کیوں کے آپ گھوڑے کی دم والے عمل کو قبیع قرار دیتے ہو۔اور سب سے اہم بات یہ کہ آپ کو یہ یاد رکھنا چاھئے تھا کہ الفاظ "گھوڑے کی دم " استعمال کرنے والی ہستی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کے بعد مزکورہ فعل کو گھوڑے کی دم جیسا کہنا بلکل برحق ہے ۔ اور میرا اس پر ایمان ہے،کیونکہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک جو ہے
دوسری بات
تشبیہ ایک جیسے الفاظ سے دینا
یہ کبوتر دودھ کی طرح سفید ہے
وہ دیوار دودھ کی طرح سفید ہے
بلب دودھ کی طرح سفید ہے
دانت دودھ جیسے سفید ہیں
چونا دودھ جیسا سفید ہے
تمام مثالوں میں دودھ سے تشبیع دی گئی ہے تو کیا تمام اشیاء پر دودھ کا ہی حکم لگے گا ؟یا ہر دو چیزیں جن کی مثال دی گئی وہ ایک ہی ہیں ؟یعنی
کبوتر الگ شئے ہے اور دودھ الگ
دیوار کا سفید رنک الگ اور دودھ الگ
بلب کی سفید روشنی الگ شئے ہے اور دودھ الگ
دانت بھی الگ چیز ہیں اور دودھ بھی الگ
چونا کی سفیدی اور دودھ بھی الگ الگ ہی ہیں
غرض کسی چیز یا کئی چیزوں کو ایک ہی چیز سے تشبیہ دینے سے ہر دوچیزیں ایک ہی قرار نہیں پاتیں ۔
جیسے سلام کے وقت کے اشارے کو گھوڑے کی دم سے تشبیہ دی گئے اور رفع الیدین کو بھی ۔ دونوں الگ الگ موقع اور چیزیں ہیں ۔ انہیں ایک ہی ثابت کرنے کی کوشش درست نہیں۔
کسی بھی محدث نے اس پر منع رفع الیدین کا باب نہیں باندھا ، محدثین کی اس اجماعی تبویب سے معلوم ہوا کہ اس حدیث کا تعلق صرف تشہد والے رفع الیدین کے ساتھ ہے۔ اختلافی رفع الیدین کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ فوٹو ہے صحیح مسلم جلد دو صفحہ نمبر پچپن کا
باب الامر بالسکون فی الصلاۃ و النھی عن الاشارۃ بالید و رفعھا عند السلام و اتمام الصفوف الاول والتراص و الامر بالاجتماع
باب:نماز میں بے جا حرکت ، سلام کے لئے ہاتھ اٹھانے کی ممانعت نیز اگلی صف پوری کرنے اور باہم مل کر کھڑے ہونے کے احکام
واؤ پر توجہ کی ضرورت ہے مسٹر گڈ مسلم ۔توجہ کیجئے
پہلی حدیث:نماز میں بے جا حرکت اور اگلی صف پوری کرنےاور باہم مل کر کھڑے ہونے کے احکام کے بارے میں
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ ، كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ ، اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ " ، قَالَ : ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا ، فَرَآنَا حَلَقًا ، فَقَالَ : " مَالِي أَرَاكُمْ عِزِينَ " ، قَالَ : ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا ، فَقَالَ : " أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا ؟ " ، فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا ؟ قَالَ : " يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ " ، وحَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، قَالَا جَمِيعًا ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ .
دوسری حدیث اور تیسری حدیثسلام کے لئے ہاتھ اٹھانے کی ممانعت
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لَهُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْقِبْطِيَّةِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ : " كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قُلْنَا : السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْجَانِبَيْنِ ، فَقَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ ، كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ ، إِنَّمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مَنْ عَلَى يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ " .
(حديث مرفوع) وحَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ فُرَاتٍ يَعْنِي الْقَزَّازَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ : " صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَكُنَّا إِذَا سَلَّمْنَا ، قُلْنَا بِأَيْدِينَا : السَّلَامُ عَلَيْكُمْ ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ ، فَنَظَرَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَا شَأْنُكُمْ تُشِيرُونَ بِأَيْدِيكُمْ ، كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ ، إِذَا سَلَّمَ أَحَدُكُمْ ، فَلْيَلْتَفِتْ إِلَى صَاحِبِهِ ، وَلَا يُومِئْ بِيَدِهِ " .
ان احادیث پر جو باب بندھا ہوا ہے اس میں ہی کاما (،) نیز اور (اور) تینوں درجوں کو الگ الگ کر رہے ہیں اور عربی عبارت میں واؤ (و) تینوں حکموں کو الگ کر رہا ہے ۔امید ہے کہ آپ نے مسلم شریف کے ہی باب میں دیکھ لیا ہوگا کہ "ہاتھ اٹھانے" سے نماز کے اندر منع کردیا گیا ۔الحمدللہ
اب مولانا سہج آپ میں اگر انصاف ہے تو کسی کی بھی بات مان لیں۔ میری نہیں مانتے تو نا مانیں کیونکہ شاید آپ کی شان میں کمی آجائے کم از کم اپنے بڑوں کی تو مان لیں۔
مسٹر گڈ مسلم میں اپنے بڑوں کی بات مانوں اور ان بڑوں کی جنہیں آپ نے پیش کیا ،تو بھئی میں اپنے بڑوں کو الحمدللہ مانتا ہوں مگر آپ نہیں مانتے اپنے بڑوں کو ۔اگر مانتے تو آج آپ غیر مقلد نہ ہوتے بلکہ اہل سنت والجماعت حنفی ہوتے۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس پر پھر کبھی بات کریں گے ۔ یہاں تو صرف یہ دیکھ رہا ہوں کہ اہل حدیث ہونے کے دعوے دار گڈ مسلم صاحب کے پلے ایسی کوئی حدیث نہیں کہ جس میں دس جگہ رفع الیدین کا اثبات ہو بغیر دو جمع دو چار کئے۔​
شکریہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
گڈ مسلم کی پوسٹ نمبر 48 کا جواب
آپ کی پیش تیسری دلیل
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ۔ سنن النسائي
ترجمہ:ابن مسعود رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی اور تمام صحابہ سے فقہی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔
جواب
محترم المقام عزت مآب سہج صاحب دامت برکاتہم العالیہ عبد اللہ بن مسعودکی یہ پیش کردہ روایت کی سند میں ایک راوی سفیان ثوری رحمہ اللہ ہے۔ جو کہ مدلس ہیں اور روایت عن سے کررہے ہیں۔لہٰذا اصول حدیث کی رو سے یہ سند ضعیف ہے۔
سفیان ثوری کے شاگرد ابو عاصم ( الضحاک بن مخلد النبیل) ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
حافظ ابن حبان فرماتے ہیں۔
قسطلانی، عینی اور کرمانی فرماتے ہیں۔
تنبیہ1:
سفیان ثوری کی اس معنعن روایت کی نہ کوئی متابعت ثابت ہے اور نہ کوئی شاہد، العلل للدارقطنی میں متابعت والا حوالہ بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ اس کے علاوہ مولانا صاحب اگر آپ کے پاس کوئی حوالہ ہے تو پیش پوش فرماکر مجھ سمیت باقی قارئین پر احسان عظیم کریں۔
تنبیہ2:
امام ابن المبارک، الشافعی، ابوداؤد اور دار قطنی وغیرہم /جمہور محدثین نے اس روایت کو غیر ثابت شدہ اور ضعیف قرار دیا ہے۔
میں پہلے بھی بارہا بتاچکا کہ گڈ مسلم صاحب آپ کی دوہی دلیلیں ہیں ایک کتاب اللہ اور دوسری حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، پھر بھی آپ ناجانے کیوں اپنا عمل یعنی چار رکعات نماز میں دس جگہ رفع الیدین کا اثبات دکھانے میں کامیاب نہیں ہورہے ۔ جبکہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے شروع نماز کی رفع الیدین کا اثبات اور باقی تمام رفعوں کی نفی دکھا چکا اور الحمدللہ اسی کی طرح ہمارا عمل ہے ۔ جبکہ آپ ابھی تلک ناہی دس جگہ کی جانے والی رفع الیدین کا مکمل اثبات دکھا سکے (ہاں دو جمع دو چار کرکے گنتی دس تک پہنچانے کی کوشش ضرور کی ہے) اور ابھی اٹھارہ جگہ رفع الیدین کی نفی دکھانا باقی بھی ہے۔
برعکس اسکے کہ آپ دلیل دکھا کر بحث کو ختم کرنے کی کوشش کریں ۔آپ کا عمل یہ بتلارہا ہے کہ آپ بات کو گھما پھرا کر اور توڑ مروڑ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ اب یہی پوسٹ دیکھ لیں اسمیں آپ نے پھر سے امتیوں کی رائے کو اپنی دلیل بنانے کی ناکام کوشش کی ہے جبکہ وہ آپ کی دلیل ہیں ہی نہیں اگر ہیں تو بتلائیے ؟اور دلیل بھی دکھلائیے کہ اس دلیل کی رو سے آپ امتیوں کی رائے کی تقلید کررہے ہیں اور اس عمل کے بعد بھی آپ کے دعوے اطیعواللہ و اطیعوالرسول پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور آپ پھر بھی اہلحدیث ہی رہیں گے مشرک نہیں بنیں گے۔
اس بار آپ نے نشانہ بنایا ہے مردود کہنے کے لئے حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کو۔اور پیش کئے ہیں امتیوں کے ہی اقوال
سفیان ثوری کے شاگرد ابو عاصم ( الضحاک بن مخلد النبیل) ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
"نري أن سفيان الثوري انما دلسه عن ابي حنيفة" (سنن الدار قطنی ج3ص201)​
’’ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بے شک سفیان ثوری نے اس روایت میں ابوحنیفہ سے تدلیس کی ہے۔
حافظ ابن حبان فرماتے ہیں۔
’’وأما المدلسون اللذين هم ثقات وعدول فانا لا نحتج بأخبارهم الا ما بينوا لسماع فيما رووا مثل الثوري والأعمش وأبي اسحاق وأضرابهم ‘‘ ( الاحسان ، طبع مؤسسۃ الرسالۃ ج1 ص161)​
اور مدلس جو ثقہ وعادل ہیں جیسے (سفیان ) ثوری ، واعمش اور ابو اسحاق وغیرہم تو ہم ان کی (بیان کردہ) احادیث سے حجت نہیں پکڑتے الا یہ کہ انہوں نے سماع کی تصریح کی ہو۔
قسطلانی، عینی اور کرمانی فرماتے ہیں۔
’’ سفیان ثوری مدلس ہیں اور مدلس کی عن والی روایت حجت نہیں ہوتی، الا یہ کہ دوسری سند سے ( اس روایت میں ) سماع کی تصریح ثابت ہوجائے۔ ‘‘۔(ارشاد الساری شرح صحیح البخاری، للقسطلانی ج1 ص286، عمدۃ القاری للعینی ج3 ص112، شرح الکرمانی ج3 ص62)​
جواب میں میں آپ کو وہ احادیث دکھاتا ہوں جو کہ بقول آپ کے اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے اسی میں تحریر ہیں معنعن۔
حدثنا محمد بن كثير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا منصور،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والأعمش،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي الضحى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن مسروق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أتيت ابن مسعود فقال إن قريشا أبطئوا عن الإسلام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فدعا عليهم النبي صلى الله عليه وسلم فأخذتهم سنة حتى هلكوا فيها وأكلوا الميتة والعظام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فجاءه أبو سفيان فقال يا محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ جئت تأمر بصلة الرحم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإن قومك هلكوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فادع الله‏.‏ فقرأ ‏ {‏ فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين‏}‏ ثم عادوا إلى كفرهم فذلك قوله تعالى ‏ {‏ يوم نبطش البطشة الكبرى‏}‏ يوم بدر‏.‏ قال وزاد أسباط عن منصور فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فسقوا الغيث،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأطبقت عليهم سبعا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وشكا الناس كثرة المطر فقال ‏"‏ اللهم حوالينا ولا علينا ‏"‏‏.‏ فانحدرت السحابة عن رأسه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فسقوا الناس حولهم‏.‏
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، ان سے سفیان ثوری نے ، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے منصور اور اعمش نے بیان کیا ، ان سے ابوالضحی ٰ نے ، ان سے مسروق نے ، آپ نے کہا کہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ قریش کا اسلام سے اعراض بڑھتا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعا کی۔ اس بددعا کے نتیجے میں ایسا قحط پڑا کہ کفار مرنے لگے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے۔ آخر ابوسفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم مر رہی ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا کیجئے۔ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی (ترجمہ) اس دن کا انتظار کر جب آسمان پر صاف کھلا ہوا دھواں نمودار ہو گا الآیہ (خیر آپ نے دعا کی بارش ہوئی قحط جاتا رہا) لیکن وہ پھر کفر کرنے لگے اس پر اللہ پاک کا یہ فرمان نازل ہوا (ترجمہ) جس دن ہم انہیں سختی کے ساتھ پکڑ کریں گے اور یہ پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی اور اسباط بن محمد نے منصور سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائے استسقاء کی (مدینہ میں) جس کے نتیجہ میں خوب بارش ہوئی کہ سات دن تک وہ برابر جاری رہی۔ آخر لوگوں نے بارش کی زیادتی کی شکایت کی تو حضور اکرم نے دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے اطراف و جوانب میں بارش برسا، مدینہ میں بارش کا سلسلہ ختم کر۔ چنانچہ بادل آسمان سے چھٹ گیا اور مدینہ کے اردگرد خوب بارش ہوئی۔
صحیح بخاری،کتاب استسقاء ،باب: اس بارے میں کہ اگر قحط میں مشرکین مسلمانوں سے دعا کی درخواست کریں؟
حدثنا يحيى،‏‏‏‏ أخبرنا وكيع،‏‏‏‏ عن سفيان،‏‏‏‏ عن أبي حازم،‏‏‏‏ عن سهل بن سعد ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ التسبيح للرجال والتصفيح للنساء ‏"‏‏.
ہم سے یحییٰ بلخی نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو وکیع نے خبر دی ، انہیں سفیان ثوری نے ، انہیں ابوحازم سلمہ بن دینار نے اور انہیں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے ہے اور عورتوں کے لیے تالی بجانا۔
صحیح بخاری،کتاب العمل فی الصلوۃ،باب: تالی بجانا یعنی ہاتھ پر ہاتھ مارنا صرف عورتوں کے لیے ہے
حدثني عبد الله بن أبي شيبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا يحيى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الأعمش،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن مسلم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن مسروق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم يعوذ بعضهم يمسحه بيمينه ‏"‏ أذهب الباس رب الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ واشف أنت الشافي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لا شفاء إلا شفاؤك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ شفاء لا يغادر سقما ‏"‏‏.‏ فذكرته لمنصور فحدثني عن إبراهيم عن مسروق عن عائشة بنحوه‏.‏
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ، ان سے سفیان ثوری نے ، ان سے اعمش نے ، ان سے مسلم بن ابو الصبیح نے ، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے گھر کے) بعض لوگوں پر دم کرتے وقت اپنا داہنا ہاتھ پھیر تے (اور یہ دعا پڑھتے تھے) ”تکلیف کو دور کر دے اے لوگوںکے رب! اور شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے شفاء وہی ہے جو تیری طرف سے ہو ایسی شفاء کہ بیماری ذرا بھی باقی نہ رہ جائے،۔“(سفیان نے کہا کہ پھر میں نے یہ منصور سے بیان کیا تو انہوں نے مجھ سے ابراہیم نخعی سے بیان کیا، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس ہی کی طرح بیان کیا۔
صحیح بخاری،کتاب الطب،باب: بیمار پر دم کرتے وقت درد کی جگہ پر داہنا ہاتھ پھیرنا
حدثنا يوسف بن راشد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا أبو أسامة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا أيوب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وخالد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي قلابة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أنس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال من السنة إذا تزوج الرجل البكر على الثيب أقام عندها سبعا وقسم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا تزوج الثيب على البكر أقام عندها ثلاثا ثم قسم‏.‏ قال أبو قلابة ولو شئت لقلت إن أنسا رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال عبد الرزاق أخبرنا سفيان عن أيوب وخالد قال خالد ولو شئت قلت رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے یوسف بن راشد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے سفیان ثوری نے ، کہا ہم سے ایوب اور خالد نے دونوں نے بیان کیا ، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ دستور یہ کہ جب کوئی شخص پہلے سے شادی شدہ بیوی کی موجودگی میں کسی کنواری عورت سے شادی کرے تو اس کے ساتھ سات دن تک قیام کرے اور پھر باری مقرر کرے اور جب کسی کنواری بیوی کی موجودگی میں پہلے سے شادی شدہ عورت سے نکاح کرے تو اس کے ساتھ تین دن تک قیام کرے اور پھر باری مقرر کرے۔ ابوقلابہ نے بیان کیا کہ اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً بیان کی ہے۔ اور عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں ایوب اور خالد نے کہا کہ اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً بیان کی ہے۔
صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب: کنواری بیوی کے ہوتے ہوئے جب کسی نے بیوہ عورت سے شادی کی تو کوئی گناہ نہیں ہے۔
حدثنا مسدد،‏‏‏‏ قال حدثنا يحيى،‏‏‏‏ عن سفيان،‏‏‏‏ قال حدثني منصور،‏‏‏‏ عن مسلم،‏‏‏‏ عن مسروق،‏‏‏‏ عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أنها قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم يكثر أن يقول في ركوعه وسجوده ‏"‏ سبحانك اللهم ربنا وبحمدك،‏‏‏‏ اللهم اغفر لي ‏"‏ يتأول القرآن‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ، سفیان ثوری سے ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے منصور بن معتمر نے مسلم بن صبیح سے بیان کیا ، انہوں نے مسروق سے ، ان سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ اور رکوع میں اکثر یہ پڑھا کرتے تھے۔ سبحانک اللّٰھمّ ربّنا وبحمدک اللّٰھمّ اغفرلی (اس دعا کو پڑھ کر) آپ قرآن کے حکم پر عمل کرتے تھے۔
صحیح بخاری،صفۃ الصلوٰۃ،باب: سجدہ میں تسبیح اور دعا کا بیان
حدثنا محمد بن كثير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبد الله بن أبي بكر بن عمرو بن حزم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثني حميد بن نافع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن زينب ابنة أم سلمة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أم حبيبة ابنة أبي سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لما جاءها نعي أبيها دعت بطيب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فمسحت ذراعيها وقالت ما لي بالطيب من حاجة‏.‏ لولا أني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر تحد على ميت فوق ثلاث،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا ‏"‏‏.‏
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا ، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حزم نے بیان کیا ، ان سے حمید بن نافع نے بیان ، ان سے زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا اور ان سے ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ان کے والد کی وفات کی خبر پہنچی تو انہوں نے خوشبو منگوائی اور اپنے دونوں بازؤں پر لگائی پھر کہا کہ مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو وہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے سوا شوہر کے کہ اس کے لیے چار مہینے دس دن ہیں۔
صحیح بخاری،کتاب الطلاق،باب: اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں“ اللہ تعالیٰ کے فرمان (اور سورۃ البقرہ) ”بما تعملون خبیر“ تک۔ یعنی وفات کی عدت کا بیان۔
حدثنا مسدد،‏‏‏‏ حدثنا يحيى،‏‏‏‏ عن سفيان،‏‏‏‏ قال حدثني منصور،‏‏‏‏ وسليمان،‏‏‏‏ عن أبي وائل،‏‏‏‏ عن أبي ميسرة،‏‏‏‏ عن عبد الله،‏‏‏‏ ‏.‏ قال وحدثني واصل،‏‏‏‏ عن أبي وائل،‏‏‏‏ عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال سألت ـ أو سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم ـ أى الذنب عند الله أكبر قال ‏"‏ أن تجعل لله ندا وهو خلقك ‏"‏‏.‏ قلت ثم أى قال ‏"‏ ثم أن تقتل ولدك خشية أن يطعم معك‏"‏‏.‏ قلت ثم أى قال ‏"‏ أن تزاني بحليلة جارك ‏"‏‏.‏ قال ونزلت هذه الآية تصديقا لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏ {‏ والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق‏}‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا کہ مجھ سے منصور اور سلیمان نے بیان کیا ، ان سے ابووائل نے ، ان سے ابو میسرہ نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے (سفیان ثوری نے کہا کہ) اور مجھ سے واصل نے بیان کیا اور ان سے ابووائل نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا، یا (آپ نے یہ فرمایا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ تم اللہ کا کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا؟ فرمایا کہ اس کے بعد سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہاری روزی میں شریک ہو گی۔ میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا؟ فرمایا، اس کے بعد یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ آیت آنحضرت کے فرمان کی تصدیق کے لئے نازل ہوئی کہ ”اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جس (انسان) کی جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے قتل نہیں کرتے مگر ہاں حق پر اور نہ وہ زنا کرتے ہیں۔“​
صحیح بخاری،کتاب التفسیر،باب: آیت ((والذین لا ید عون مع اللہ الایۃ)) کی تفسیر
حدثنا مسدد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا يحيى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثني أبو حازم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سهل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال كان رجال يصلون مع النبي صلى الله عليه وسلم عاقدي أزرهم على أعناقهم كهيئة الصبيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقال للنساء لا ترفعن رءوسكن حتى يستوي الرجال جلوسا‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ، انھوں نے سفیان ثوری سے ، انھوں نے کہا مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا سہل بن سعد ساعدی سے ، انھوں نے کہا کہ کئی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچوں کی طرح اپنی گردنوں پر ازاریں باندھے ہوئے نماز پڑھتے تھے اور عورتوں کو (آپ کے زمانے میں) حکم تھا کہ اپنے سروں کو (سجدے سے) اس وقت تک نہ اٹھائیں جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں۔
صحیح بخاری،کتاب الصلوٰۃ،باب: جب کپڑا تنگ ہو تو کیا کیا جائے؟
گڈ مسلم صاحب یہاں صرف آٹھ عدد معنعن روایات پیش حدمت کی ہیں ۔ بخاری میں ہی "عن سفیان ثوری " کے ساتھ کئی روایات موجود ہیں اور آپ مانتے ہیں کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کی عن کے ساتھ روایت کی گئی حدیث قابل قبول نہیں ۔مانتے ہیں کہ نہیں ؟
کچھ اقوال بھی پیش کردیتا ہوں سفیان ثوری رحمہ اللہ کی شان میں ۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور بعض دوسرے اہلِ علم کا اعتراف
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ان کے فضل وکمال کے حددرجہ معترف تھے، ایک بار فرمایا کہ اگروہ تابعین کے عہد میں بھی ہوتے توبھی ان کا ایک خاص مقام ہوتا، ایک دفعہ امام کے پاس ایک شخص آیا اور بولا کہ آپ نے سنا نہیں کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ نے کیا روایت کی ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ للہ نے فرمایا کیا تم چاہتے ہوکہ میں یہ کہوں کہ سفیان حدیث کی روایت میں غلطی کرتے ہیں؛ اگرسفیان، ابراہیم نخعی (امام ابوحنیفہ کے استاذالاساتذہ ہیں) کے زمانہ میں ہوتے توبھی لوگ حدیث میں ان کے محتاج ہوتے، ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگرابراہیم کے زمانہ میں بھی سفیان کی موت ہوتی تولوگوں کوان کی عدم موجودگی محسوس ہوتی۔
(تاریخ بغداد:۹/۱۶۹)​
اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان کے علم وفضل کا بڑی وسعت قلب کے ساتھ اعتراف کیا ہے، کسی نے پوچھا کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ احفظ تھے، یاسفیان بن عیینہ رحمہ اللہ؟ بولے سفیان ثوری رحمہ اللہ احفظ تھےاور بہت کم غلطی کرتے تھے اور سفیان بن عیینہ حافظ تھے۔
(تاریخ بغداد:۹/۱۷۰)​
ابن مہدی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ میں نے امام مالک سے عاقل، عبداللہ بن مبارک سے زیادہ اُمت کا خیرخواہ، امام شعبہ سے زیادہ متقشف اور امام سفیان ثوری سے زیادہ حدیث کا جاننے والا نہیں دیکھا۔
(تاریخ بغداد:۹/۱۷۰)​
امام نسائی کہا کرتے تھے کہ وہ اس سے زیادہ بلند تھے کہ ان کی توثقی کی جائے، امام مالک رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ عراق ہم پردرہم ودینار کی بارش کرتا تھا، اس نے سفیان کے بعد علم کی بارش شروع کردی۔
(تاریخ بغداد:۹/۱۷۰)​
ابنِ خلکان نے لکھا ہے کہ یہ بات زبانوں پرہے کہ امیرالمؤمنین عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ میں راس الناس تھے اور ان کے بعد ابن عباسؓ راس الناس ہوئے اور ان کے بعد امام شعبی (تابعین میں) اور امام سفیان (تبع تابعین) میں راس الناس قرار پائے۔
عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ جوخود امامِ حدیث ہیں، فرماتے تھے:
مارأيت صاحب حديث احفظ من سفيان الثوري۔
(تاريخ بغداد:۹/۱۶۸، شاملہ، المؤلف:أحمدبن علي أبوبكرالخطيب البغدادي، الناشر:دارالكتب العلمية،بيروت)​
ترجمہ:میں نے سفیان ثوری سے زیادہ حدیثیں یاد رکھنے والا نہیں دیکھا۔
یہ کہنے کے بعد انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک بار انہوں نے حماد بن ابی سلیمان عن عمروبن عطیہ عن سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے ایک روایت بیان کی میں نے اُن سے عرض کیا کہ ابوعبداللہ! اس میں آپ سے غلطی ہوئی ہے؟ پوچھا کیسے؟ کسی اور واسطہ سے روایت منقول ہے، میں نے کہا ہاں! حماد سے ربعی نے، ربعی نے سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، فرمایا کس نے اس واسطہ سے روایت بیان کی ہے میں نے، امام شعبہ نے فرمایا: امام شعبہ سے غلطی ہوئی ہے؛ پھرکچھ دیر خاموش ہوکر سوچتے رہے؛ پھرپوچھا کہ اچھا اس روایت میں امام شعبہ کی کسی اور نے بھی تائید کی ہے، میں نے ہشام الدستواثی، سعید بن عروبہ اور حماد بن زید کا نام لیا، فرمایا کہ حماد سے غلطی ہوئی ہے، ان ہی نے مجھ سے عروبہ اور حماد بن زید کا نام لیا، فرمایا کہ حماد سے غلطی ہوئی ہے، ان ہی نے مجھ سے عروبہ بن عطیہ کے واسطہ سے یہ روایت بیان کی ہے، ابن مہدی کہتے ہیں کہ میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جب چار آدمی ایک بات پرمتفق ہیں تووہی صحیح ہوگی؛ لیکن ایک سال بعد یعنی سنہ۱۸۱ھ میں شیخ غندر کے پاس گیا توانہوں نے امام شعبہ کا مرتب کردہ صحیفہ حدیث مجھ کودکھایا، اس میں یہ روایت عن عماد عن ربعی کے الفاظ میں موجود تھی، امام شعبہ نے یہ بھی لکھا تھا کہ حماد کبھی اسے عمروبن عطیہ سے بھی روایت کرتے تھے اور کبھی ربعی سے، یہ دیکھ کرابن مہدی کی زبان سے بے اختیار نکلا ابوعبداللہ! آپ پرخدا رحم کرے، آپ جب کوئی حدیث یاد کرلیتے ہیں توپھریہ پروا نہیں کرتے کہ کون آپ کی مخالفت کرتا ہے۔
(تاریخ بغداد:۹/۱۶۸)​
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
روى عنه خلق لايحصون۔
(تہذیب التہذیب:۴/۱۰۰، شاملہ، المؤلف: ابن حجر العسقلاني،مصدر الكتاب: موقع يعسوب)​
ترجمہ:ان سے اتنے بیشمار لوگوں نے روایت کی ہے کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔
وقال : شعبة , وسفيان بْن عيينة , وأَبُو عاصم النبيل , ويحيى بْن معين , وغَيْرُ واحِدٍ من العلماء :سفيان أمير المؤمنين فِي الحديث .
اب مسٹر گڈ مسلم آپ مندرجہ ذیل حدیث کے راویوں پر کلک کیجئے اور راویوں کے بارے میں پڑھ لیجئے ۔سب کے سب الحمدللہ ثقہ ہیں ۔
(حديث مرفوع)
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ ، قال : أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قال : " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ، ثُمَّ لَمْ يُعِدْ "

1 لم يرفع يديه إلا مرة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنف ابن أبي شيبة
2 لم يرفعوا أيديهم إلا عند افتتاح الصلاة ۔۔۔۔۔ اللآلئ المصنوعة فِي الأحاديث الموضوعة للسيوطي
3 صليت مع النبي صلى الله عليه وآله وسلم ومع أبي بكر وعمر فلم يكونوا يرفعون أيديهم إلا عند افتتاح الصلاة ۔۔ عبد الله بن مسعود۔۔۔الفوائد المجموعة للشوكاني۔۔۔الشوكاني
4 لم يرفع يديه إلا في أول مرة ۔۔۔۔۔۔۔۔ الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الملا علي القاري
5 صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر فلم يرفعوا إلا عند افتتاح الصلاة ۔۔۔۔۔۔۔ الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ۔۔۔الملا علي القاري
6 إذا افتتح الصلاة رفع يديه إلى قريب من أذنيه ثم لا يعود ۔۔۔۔۔ براء بن عازب۔۔۔۔۔۔ الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة --- الملا علي القاري
7 لم يرفع يديه إلا مرة۔۔۔۔۔ عبد الله بن مسعود ۔۔۔۔الجامع في العلل ومعرفة الرجال لأحمد بن حنبل۔۔۔أحمد بن حنبل
8 يرفع يديه ثم لا يعود عبد الله بن عمر الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ۔۔--- الملا علي القاري
9 يرفع يديه في أول الصلاة ثم لم يرفعهما۔۔۔ موضع إرسال الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ۔۔۔الملا علي القاري
امید ہے کہ اب آپ کبھی بھی سفیان ثوری رحمہ اللہ کو تدلیس کرنے والا کہہ کر مردود نہیں کہیں گے ۔ اور برائے مہربانی اب آپ جناب مسٹر گڈ مسلم صاحب اپنی دلیل سے دس جگہ رفع الیدین کا اثبات صراحت کے ساتھ دکھادیں گے بغیر دوجمع دو چار کئے ۔

شکریہ

(((((((((جاری ہے)))))))))
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
گڈ مسلم کی پوسٹ 49 کا جواب

آپ کی پیش چوتھی دلیل

[/HL]


قَدْاَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَ۔ (سورۃ مومنون:1،2)​
ترجمہ: پکی بات ہے کہ وہ مومن کامیاب ہوگئے جو نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔
تفسیر: قَالَ اِبْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا مُخْبِتُوْنَ مُتَوَاضِعُوْنَ لَایَلْتَفِتُوْنَ یَمِیْناً وَّلَا شِمَالاً وَّ لَا یَرْفَعُوْنَ اَیْدِیَھُمْ فِی الصَّلٰوۃِ…الخ (تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہما :ص212)​
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’خشوع کرنے والے سے مراد وہ لوگ ہیں جونماز میں تواضع اورعاجزی اختیار کرتے ہیں اوروہ دائیں بائیں توجہ نہیں کرتے ہیں اورنہ ہی نماز میں رفع یدین کرتے ہیں۔‘‘​
جواب
نمبر1:
یہ قول ص 212 کے بجائے ص 359 پہ ہے۔ اس لیے نقل کرتے ہوئے دھیان رکھا کریں۔ شکریہ
نمبر2:
آپ نے اس قول کو پیش کرتے ہوئے سند کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔ شاید اس وجہ سے کہ قارئین کے سامنے پول ہی نہ کھل جائے۔ چلیں خیر۔ جس بات کو آپ نے چھپانے کی کوشش کی اسی کو ہم بیان کیے دیتے ہیں۔
اس کی سند میں تین راوی پائے جاتے ہیں ۔ محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس طویل سند میں یہ تینوں نام ایک ہی سلسلہ میں نظر آئیں گے ۔(تنوير المقياس تفسير ابن عباس ص2 مطبوعہ قديمی كتب خانہ كراچی)​
یہ وہ سلسلہ ہے جسے اہل علم ’’ سلسلۃ الکذب ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں یعنی جھوٹ کا سلسلہ ۔لیکن آپ مقلدین نے اس کو سینے سے لگایا ہوا ہے۔ اس کا پہلا راوی
نمبر1:
محمد بن مروان السدی الکوفی ہے، السدی الصغیر یا السدی الاصغر کے لقب سے معروف ہے۔ حافظ ذہبیاس کے احوال میں لکھتے ہیں
’’ ترکوہ واتہمہ بعضم بالکذب، وہو صاحب الکلبی ‘‘ (میزان الاعتدال ج4، ص 32)
اس (محدثین ) نے ترک کردیا تھا اور بعض نے اسے جھوٹ کے ساتھ متہم کیا، یہ الکلبی کا شاگرد تھا۔
آپ کے حلقہ کے نزدیک موجودہ دور کے امام سرفراز خاں صفدر صاحب لکھتے ہیں :​
’’ اور محمد بن مروان السدی الصغیر کا حال بھی سن لیجیے:​
امام بخاری فرماتے ہیں کہ اس کی روایت ہرگز نہیں لکھی جاسکتی۔ ( ضعفاء صغیر امام بخاری ص29)
اور امام نسائی فرماتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے۔ ( ضعفاء امام نسائی ص52)​
علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ حضرات محدثین کرام نے اس کو ترک کردیا ہے اور بعض نے اس پر جھوٹ بولنے کا الزام بھی لگایا ہے۔
امام بن معین کہتے ہیں کہ وہ ثقہ نہیں ہے۔
امام احمد فرماتے ہیں کہ میں نے ان کو چھوڑ دیا تھا۔
ابن عدی کا بیان ہے کہ جھوٹ کی اس روایت پر بالکل بین ہے۔( میزان الاعتدال ج3 ص132)​
امام بیہقی فرماتے ہیں کہ وہ متروک ہے۔( کتاب الاسماء والصفات ص394)​
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ وہ بالکل متروک ہے۔ ( تفسیر ابن کثیر ج3 ص515)​
علامہ سبکی لکھتے ہیں کہ وہ ضعیف ہے۔( شفاء السقام ص 37)​
علامہ محمد طاہر لکھتے ہیں کہ وہ کذاب ہے۔ ( تذکرۃ الموضوعات ص 90)​
جریر بن عبد الحمید فرماتے ہیں کہ وہ کذاب ہے،
ابن نمیر کہتے ہیں کہ وہ محض ہیچ ہے۔
یعقوب بن سفیان کہتے ہیں کہ وہ ضعیف ہے۔
صالح بن محمد فرماتے ہیں کہ وہ ضعیف تھا۔’’ وکان یضع ‘‘ ( خود جعلی حدیثیں بنایا کرتا تھا)​
ابوحاتم کہتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے اس کی حدیث ہر گز نہیں لکھی جاسکتی ۔‘‘ ( ازالۃ الریب ص316)​
نمبر2:
یہی موصوف ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :​
’’ سدی فن روایت میں ہیچ ہے۔ امام ابن معین فرماتے ہیں کہ ان کی روایت میں ضعف ہوتا ہے امام جوزجانی فرماتے ہیں ’’ ہو کذاب شتام ‘‘ وہ بہت بڑا جھوٹا اور تبرائی تھا.... امام طبری فرماتے ہیں کہ اس کی روایت سے احتجاد درست نہیں....اس روایت کی مزید بحث ازالۃ الریب میں دیکھئے ۔ ان بے جان اور ضعیف روایتوں سے کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہوسکتا۔‘‘ ( تفریح الحواطر فی رد تنویر الخواطر ص77 تا 78)
نمبر3:
سرفراز صاحب اپنی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں :​
’’ سدی کا نام محمد بن مروان ہے..... امام احمد فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو بالکل ترک کردیا ہے( حیرت ہےکہ امام احمد بن حنبل جیسی نقاد حدیث شخصیت تو اس کی روایت کو ترک کرتی ہے مگر مولانا سہج صاحب اور ان کے ہم نوا نام نہاد اہل سنت والجماعت اس کی روایت سے .......)‘ماشاءا للہ .........( تنقید متین ص 186)
نمبر4:
موصوف اپنی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں:​
’’ سدی کذاب اور وضاع ہے‘ ( امام البرہان ص455) ’’ صغیر کا نام محمد بن مروان ‘‘ ہے امام جریر بن عبد الحمید فرماتے ہیں کہ وہ کذاب ہے اور صالح بن محمد فرماتے ہیں کہ وہ جعلی حدیثیں بنایا کرتا تھا بقیہ محدثین بھی اس پر سخت جرح کرتے ہیں۔ انصاف سے فرمائیں کہ ایسے کذاب راوی کی روایت سےدینی کونسا مسئلہ ثابت ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے ؟‘‘ ( اتمام البرہان ص 458)
سرفراز خاں صفدر دیوبندی لکھتے ہیں
: ’’ آپ لوگ سدی کیدم ‘‘ تھامے رکھیں اور یہی آپ کومبارک ہو۔‘‘ ( اتمام البرہان ص 457)
سرفراز خاں صفدر مزید فرماتے ہیں
’’ آپ نے خازن کے حوالے سےسدی کذاب ‘‘ کے گھر میں پناہ لی ہے جو آپ کی ’’ علمی رسوائی ‘‘ کےلیے بالکل کافی ہے اور یہ ’’ داغ ‘‘ ہمیشہ آپ کی پیشانی پر چمکتا رہے گا۔‘‘ (اتمام البرہان ص 458)
تنبیہ:
موجودہ دور میں سہج جیسوں رفع یدین کے خلاف ’’ تفسیر ابن عباس ‘‘ نامی کتاب سے استدلال کرنے والوں نے بقول سرفراز خاں صفدر سدی کی دم تھام رکھی ہے اور ان لوگوں کی پیشانی پر رُسوائی کا یہ داغ ہمیشہ چمک رہا ہے ۔
مولانا سہج صاحب آپ نے بڑی دلیری سے یہ تفسیر تو پیش کردی، جس کی حقیقت کھول کر آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔ لیکن شاید آپ کو معلوم نہیں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تکبیر تحریمہ، رکوع جاتے اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔
ابوحمزۃ تابعی فرماتے ہیں ۔
’’ رأيت ابن عباس يرفع يديه حيث كبر واذا رفع رأسه في الركوع......‘‘ (جزء رفع یدین ص49)
میں نے ابن عباس کو رفع یدین کرتے دیکھا ہے جب آپ نے تکبیر تحریمہ کہی اور جب رکوع سے سر اٹھایا۔
آپ کے دلائل کی حقیقت پیش پوش ہو رہی ہے۔ آپ نے موضوع تفسیر کا تو سہارا لینا گوارہ کرلیا لیکن سنت کو نہ مانا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

ماشاء اللہ ، یہاں بھی عادت فرقہ غیر مقلد کے عین مطابق اعتراضات کا سہارا لیا گیا ہے ، وہ بھی امتیوں کی تقلید کرتے ہوئے اور ان کی بھی جن کو جناب گمراہ کہتے ہیں یعنی مقلدین ۔
سب سے پہلے تو ایک عرض گوش گزار کردوں کہ فن تفسیر اور فن حدیث الگ الگ مقام رکھتے ہیں ۔
اوپر جو تنقید پیش کی گئی ہے تفسیر ابن عباس کے راویوں پر وہ فن حدیث سے تعلق رکھتی ہے اور جن پر تنقید کی گئی ہے وہ دوسرے فن یعنی تفسیر کے ماہر ہیں ۔حدیث بیان کریں تو کوئی مقام نہیں اور اگر تفسیر کے میدان میں قدم رکھیں تو
محمد بن مروان السدی کو ”صاحب التفسیر“ اور ”المفسر“ کہاگیاہے۔
(مغانی الاخیار جلد پانچ صفحہ چارسوانتیس، شذرات الذہب جلد ایک صفحہ تین سواٹھارہ)​
دوسرے رواۃ
الکلبی اور ابوصالح کو ائمہ نے مفسر کے طور پر ذکرکیاہے
(الکامللابن عدی ج6ص2132،میزان الاعتدال ج3ص556،معرفۃ الثقات للعجلی ج1ص242)​
کلبی سے تفسیر لینے کو امام یحییٰ القطان نے جائزقراردیا
(دلائل النبوۃ ج1ص33وغیرہ)​
اور ابوصالح کو ثقہ قراردیاگیاہے۔
(معرفۃ الثقات للعجلی ج1ص292)​
جید محدثین مثلاً امام بیہقی،امام ذہبی،حافظ ابن حجر عسقلانی نے امام الجرح والتعدیل امام یحیٰ بن سعید القطان کے حوالے سے یہ اصول نقل کیاہے:
تساھلوا فی التفسیر عن قوم لایوثقونھم فی الحدیث ثم ذکر لیث بن ابی سلیم و جُوَيْبِرِ بن سعید والضحاک ومحمد بن السائب یعنی الکلبی وقال ھولاء لایحمد حدیثھم ویکتب التفسیر عنھم ،
(دلائل النبوۃ للبیہقی ج1ص33،میزانالاعتدال للذہبی ج1ص391 فی ترجمۃ جويبر بن سعيد ، تہذیب التہذیب لابن حجر ج1ص594رقم1164 فی ترجمۃ جويبر بن سعيد)​
ترجمہ:ائمہ نے فنِ تفسیر میں ایسے لوگوں (کی مرویات کے بارے میں )نرمی اختیار کی ہے جن کو حدیث میں معتبر قرارنہیں دیتے۔پھر(یحییٰ بن سعید القطان)نے لیث بن ابی سلیم،جویبر بن سعید اور محمد بن السائب الکلبی کا نام لیا اور فرمایا کہ ان( جیسے) حضرات کی نقل کردہ حدیث تو قابلِ مدح نہیں البتہ ان کی تفسیر لکھی جائے گی۔
لہذا ان گواہیوں کی رو سے ان کی تفسیر لینا درست ہے۔
مسٹر گڈ مسلم سے گزارش:- کہ آپ ایسی تنقید پیش کریں جس میں ہو کہ مزکورہ راوی فن حدیث کے ساتھ ساتھ فن تفسیر میں بھی کذاب ہیں
مزید وضاحت
مزکورہ آیت میں کامیاب مومنین کے اوصاف بیان ہوئے ہیں جن میں ایک وصفھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَہےکہ وہ نماز میں خشوع (تواضع و عاجزی اور سکون)اختیار کرتے ہیں۔
خشوع کا حاصل یہ ہے کہ حرکات محضہ سے اجتناب کیا جائے (جیسا کہ مفسرین نے”خشوع“ کا معنی کرتے ہوئے لکھا:تظهر آثارها على الجوارح فتجعلها ساكنة مستشعرة أنها واقفة بين يدي اللّه“(التفسیر الوسیط: ج10، ص12)خشوع و خضوع کے آ ثار اعضاء پر ظاہر ہوتے ہیں اور اسے سکون والا بنا دیتے ہیں۔ وہ یہ بات جانتاہے کہ اللہ کے سامنے کھڑا ہےاور امام بیہقی رحمہ اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کے بارےمیں روایت نقل کی کہ یہ حضرات نماز میں ایسےکھڑے ہوتے تھے گویا کہ لکڑی زمین میں نصب ہے
[السنن الکبریٰ :ج2ص358]​
ان جیسی روایات کا حاصل یہ ہے کہ خشوع کا تقاضا اس وقت پورا ہو گا جب حرکاتِ محضہ سے اجتناب کر کے سکون کیا جائے۔
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: أَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي [طہ ٰ:14]ترجمہ: میرے ذکر کے لیے نماز قائم کرو۔یعنی
رکوع کو جاتے ،رکوع سے اٹھتے اورتیسری رکعت کےشروع میں جو رفع یدین کیا جاتاہےوہ چونکہ ذکر سے خالی ہوتا ہے اس لیے حرکت ِمحضہ ہے اور خشوع وسکون کے خلاف ہے۔
تو آیت میں لفظخَاشِعُوْنَ بھی اس رفع یدین کےترک کا تقاضا کرتاہے۔جس کے ساتھ زکر نہیں ۔پس درایۃً منع ثابت ہوا۔و اللہ اعلم بالصواب
اول
اس تفسیر کی تائید مشہور ثقہ تابعی حضرت حسن بصریرحمہ اللہ م110ھ سے مروی تفسیر سے بھی ہوتی ہے۔ آپ رحمہ اللہالَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:​
”. وقال الحسن البصری:ائ خائفون وروی عنہ انہ قال خاشعون الذین لایرفعون ایدیہم فی الصلوۃ الا فی التکبیرۃ الاولیٰ
،(تفسیر السمرقندی المسمٰی بحرالعلومجلد دوم صفحہ408طبع بیروت۔لبنان)​
ترجمہ:خَاشِعُوْنَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو صرف تکبیرِ اولیٰ کےوقت رفع الیدین کرتے ہیں۔
دوم
تفسیر بغوی(5/405)
وقال الحسن وقتادة : خائفون
وقال الذهبي : وللكلبي غير ما ذكرت أحاديث صالحة خاصة عن أبي صالح ، وهو معروف بالتفسير،( حاشية الكاشف ـ مخطوط. )
وقال ابن قتيبة : الكلبي صاحب التفسير ،( المعارف ٥٣٥ ـ ٥٣٦.)​
وقال علاء الدين عبد العزيز بن أحمد البخاري في (شرح كلام البزدوي) قوله : مثل الكلبي. هو أبو سعيد محمد بن السائب الكلبي صاحب التفسير ،
سوئم
رہی بات اکابرین دیوبند کی جانب سے مزکورہ راویوں سے منسوب روایات حدیث کو کذاب کہنا یا دم پکڑنے کی بات تو وہ الحمدللہ ٹھیک ہیں کیونکہ حدیث کے بارے میں ان سے منسوب کوئی روایت نہیں لی جاتی ، تو جو بھی روایت حدیث مزکورہ راویوں سے زکر کر کے ان پر عقیدہ بنائے گا اسے غلط ہی کہا جائے گا ۔
چہارم
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی نما ز میں رفع الیدین سے منع اور سکون کرنے کا حکم ہے،جو مزید تائید ہے کہ مذکورہ رفع الیدین مومنین کے وصفخَاشِعُوْنَکے خلاف ہے۔
آخری بات
ایک روایت پیش کی ہے آپ نے​
’’ رأيت ابن عباس يرفع يديه حيث كبر واذا رفع رأسه في الركوع......‘‘ (جزء رفع یدین ص49)
میں نے ابن عباس کو رفع یدین کرتے دیکھا ہے جب آپ نے تکبیر تحریمہ کہی اور جب رکوع سے سر اٹھایا۔
مسٹر گڈ مسلم اس میں بھی آپ کا عمل ثابت نہیں ، کیوں کہ اس روایت میں صرف دو ہی جگہوں کا اثبات ہے اور نفی کسی بھی جگہہ کی نہیں، یعنی شروع نماز اور رکوع سے اٹھتے ہوئے ہی رفع الیدین کرنا ہے ۔ جبکہ آپ کا عمل اس کے برعکس دس جگہوں پر رفع الیدین کرنا اور اٹھارہ جگہوں پر نہیں کرنا ہے
اسلئے مسٹر گڈ مسلم سے گزارش عرض کرتا ہوں کہ آپ کا جو مکمل عمل ہے ناں اس کے عین مطابق حدیث پیش کیجئے ادھر ادھر کی دوڑ نہ لگائیں اور نا ہی صرف رفع الیدین کا لفظ دیکھتے ہی اسے پوسٹ کردیں، پہلے دیکھ تو لیا کریں کہ جو روایت پیش کررہے ہیں وہ آپ کے عمل کے مطابق ہے بھی کہ نہیں ۔

شکریہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
مسٹر گڈ مسلم کی پوسٹ نمبر 50 کا جواب
آپ کی پیش پانچویں دلیل
کے جواب میں آپ نے فرمایا
سہج صاحب جس مسئلہ کے بیان کےلیے یہ حدیث ہے ہم اس کو مانتے ہیں۔ الحمد للہ۔ یہ بھی مانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔۔ ہم اس حدیث پر عمل بھی کرتے ہیں۔۔کوئی تاویل وغیرہ نہیں کرتے۔۔ الحمد للہ ۔۔ کیونکہ ہم متبع قرآن وحدیث ہیں۔ متبع قیل وقال ومن مان نہیں۔
اور پھر اگلے پیرا گراف میں فرمایا بلکہ تاویل فرمائی
دوسری بات مولانا سہج صاحب کسی حدیث میں کسی چیز کا بیان نہ ہونا اس کے عدم پر دال نہیں ہوا کرتا۔ اگر اس حدیث میں رفع یدین کا کوئی ذکر نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ رفع یدین منسوخ تھا اس لیے بیان نہیں کیا گیا۔ اگر عدم ذکر کو ہی آپ اپنے موقف کی دلیل بنا رہے ہیں تو پھر اس حدیث میں نماز سے ہی متعلق کتنی چیزوں کا ذکر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر
1۔ وضوء کا ذکر نہیں ۔
2۔ قبلہ کے تعین کا ذکر نہیں ۔
3۔کتنی رکعات پڑھی گئیں، اس کا ذکر نہیں کی۔ اگر میں کہوں کہ آپ نے ایک رکعت پڑھی تھی اور آپ صرف اور صرف اس حدیث کی ہی روشنی میں میرا موقف غلط ثابت کریں تو کر پائیں گے ؟ ۔
4۔ نہ کسی تکبیر کا ذکر ہے اور نہ قراءت کا ۔ اور نہ تسبیحات کا ۔
5۔ سجود کا ذکر نہیں ۔
6۔ تشہد کا ذکر نہیں ۔
7۔ سلام پھیرنے کا ذکر نہیں۔
اس تاویل کے جواب میں آپ سے سوال عرض کیا ہے کہ آپ نے جو روایت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پیش کی اور اسے "مرفوع" قرار دیا تھا اس پر بھی آپ کا خود کا بیان کردہ قانون لاگوں ہوتا ہے یا نہیں ؟
" كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739)
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘​
اس روایت میں بھی آپ کے اعتراض کے عین مطابق
1۔ وضوء کا ذکر نہیں ۔
2۔ قبلہ کے تعین کا ذکر نہیں ۔
3۔کتنی رکعات پڑھی گئیں، اس کا ذکر نہیں کی۔ اگر میں کہوں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تین ہی رکعت پڑھی تھیں ۔
4۔پہلی تکبر کے علاوہ نہ کسی اور تکبیر کا ذکر ہے اور نہ قراءت کا ۔ اور نہ تسبیحات کا ۔
5۔ سجود کا ذکر نہیں ۔
6۔ تشہد کا ذکر نہیں ۔
7۔ سلام پھیرنے کا ذکر نہیں۔
اس صورت حال میں آپ کا کیا کہنا ہے مسٹر گڈ مسلم ؟ کیونکہ آپ کی پیش کردہ پہلی دلیل جو کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل ہے ، اس میں جس جس عمل کا زکر نہیں اس کے بارے میں اپنی رائے سے آگا ہ کیجئے۔ اور میں نے مزکورہ حدیث پیش کرکے آپ کو یہ دکھایا تھا کہ آپ اہل حدیث ہیں ، کیوں ہیں کہ نہیں مسٹر گڈ مسلم ؟ دعوے آپ جتنا مرضی کرتے رہیں لیکن یہ بات درست ہے کہ آپ من مرضی کی حدیث یا کسی علامہ صاحب کی تقلید میں ہی کسی بھی حدیث پر عامل ہوتے ہیں اور من مرضی یا پھر کسی علامہ صاحب کی تقلید میں ہی حدیث کو رد اور مردود کردیتے ہیں ۔ جیسے مزکورہ حدیث میں ہے
"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا ركع فاركعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا رفع فارفعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا ولك الحمد‏.‏ وإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون ‏"
امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو
اب اس حدیث کو آپ یہ کہہ کر رد فرمارہے ہیں کہ اس میں فلاں فلاں عمل کا زکر نہیں۔۔۔ وغیرہ۔ تو آپ ہی بتادیجئے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی رکوع کی تسبیح ،سورۃ فاتحہ و دوسری سورۃ ،تشہد سمیت سلام کا بھی اور سجدوں کا بھی زکر نہیں ۔ یہ تک زکر نہیں کہ وہ کتنی رکعات والی نماز پڑھ رہے تھے ؟تین یا چار؟ ۔ جبکہ آپ نے چار رکعت والی نماز میں کی جانے والی دس جگہ رفع الیدین کا اثبات دکھانا تھا ۔ روایت میں صرف تیسری رکعت شروع کرنے تک کا زکر ہے چوتھی کا زکر موجود ہے ہی نہیں اور آپ اسے چار رکعت مانتے ہیں ۔
جھوٹے منہ بھی آپ یہ کبھی نہیں کہو گے کہ ہاں ہم اس مکمل حدیث پر عمل کرتے ہیں ویسے ہی جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان ہوئی۔ اور آپ کا یہ کہنا کہ سہج صاحب جس مسئلہ کے بیان کےلیے یہ حدیث ہے ہم اس کو مانتے ہیں وہ مسئلہ آپ نے کیسے نکالا ؟ کسی علامہ صاحب کی تقلید فرمائی ہو شاید ؟
آپ کی پیش چھٹی دلیل
کے جواب میں آپ نے فرمایا
دوسری بات مولانا کسی مسئلہ کی تشریح پر مشتمل بیان میں اسی مسئلہ سے متعلق کسی بات کا بیان نہ ہونا اس مسئلہ کے منسوخ اور ترک پر دال نہیں ہوا کرتا۔ مولانا سہج صاحب کم از اکم اس بات کی تو تعلیم حاصل کرلیں۔
آپ کا یہ تبصرہ صاف طاہر کر رہا ہے کہ آپ مزکورہ حدیث پر بھی عامل نہیں ۔ جبکہ میں نے اس حدیث کے عین نیچے یہ سوال کیا تھا ۔
امید ہے آپ کو بھی سمجھ آگئی ہوگی کیونکہ اوپر پیش کردہ روایت میں رکوع تو ہے لیکن رفع یدین کا زکر نہیں ، اور یہ روایت بھی بخاری کی ہی ہے ۔کیا آپ اس پر عامل ہیں ؟
ہونا تو یہ چاھئیے تھا کہ آپ کہتے کہ "ہم اہل حدیث ہیں اور تمام احادیث پر عامل ہیں اور ہم اس حدیث پر بھی عامل ہیں یعنی بغیر رفع الیدین کے بھی تمام نماز ادا کرلیتے ہیں " لیکن آپ نے پھر صحیح جواب دینے کی بجائے قیل و قال شروع کردیا ۔ بحرحال ۔ اگر آپ بضد ہیں تو میں کیا کرسکتا ہوں ؟
آپ کی پیش آٹھویں دلیل
مولانا سہج صاحب ترک رفع الیدین کے استدلال کی بھرتی میں آپ ان روایات کو بھی درج کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں جن میں رفع الیدین کرنے یا نہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ آپ کی جہالت کی مکمل اور واضح دلیل ہے۔ اگر یہی بات ہے تو بہت ساری صحیح احادیث میں تکبیر تحریمہ کے وقت کیا جانے والا رفع الیدین کا ذکر نہیں۔ جیسا کہ آپ کی پیش اس حدیث میں بھی تکبیر تحریمہ والی رفع کا ذکر نہیں ۔ تو کیا خیال ہے پھر آپ اس حدیث پر عمل کرتے ہیں ؟ جیسا کہ آپ مجھے تو دعوت فکر دے رہے ہیں۔ کیا آپ نے بھی کبھی اس دعوت کو اپنے لیے رکھا ہے ؟ یا قرآنی آیت ’’ لم تقولون مالا تفعلون ‘‘ کے مصداق ہیں ۔
گڈ مسلم صاحب مزکورہ حدیث کو زمانے کا فرق بتانے کی نیت سے پیش کیا تھا ۔ اور آپ نے اسے بھی وہیں فٹ کردیا جس کی گنتی آپ دکھانے سے معزور ہیں ۔
زمانے کا فرق آپ کو یقینا سمجھ آگیا ھوگا ۔ اسلئے الحمد للہ ہم اہل سنت والجماعت حنفی طریقہ نبوت کے عین مطابق نماز ادا کرتے ہیں جن پر آثار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمہ اللہ کی گواہی موجود ہے ۔ اوپر والی بخاری کی ہی روایت ہے اور آپ کے ہاں اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا درجہ رکھتی ہے تو کم از کم پہلے زمانے اور بعد کے زمانے کے فرق کو تو تسلیم کرنے کا اعلان کرہی دیجئے ۔
آپ کی پیش دسویں دلیل
جناب سے مزکورہ حدیث پیش کر کے سوال کیا تھا کہ گڈ مسلم صاحب مجھے بتائیے گا ضرور کہ اس روایت کو بھی آپ تسلیم نہیں کرتے ؟ لیکن آپ نے کچھ بھی نہیں بتایا ۔
چلیں میں آسان کر کے سوال کرتا ہوں
مزکورہ حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شخص کو نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دینا جس نے رکوع پوری طرح نہیں کیا تھا[/HL ] اور سوال آپ سے صرف یہ ہے کہ کیا رفع الیدین کے بغیر رکوع مکمل ہوجاتا ہے ؟ بس اسکا جواب عنایت کردیجئے ۔

کیا آپ عدم ذکرکو نفی پر دال مانتے ہیں ؟ جواب ہاں یا ناں میں لکھ کر دے دیں،
کہ کسی چیز کا عدم بیان اس کی نفی پر دلالت نہیں کرتا ہوتا۔
بھائی صاحب ،جناب، مسٹر گڈ مسلم اگر اوپر پیش کردہ ساری حدیثیں رفع الیدین کے عدم زکر کی وجہ سے اس معاملہ میں دال نہیں تو پھر دو جمع دو چار کرنا بھی کسی طرح دلیل نہیں ۔ اور پھر آپ کو صراحت سے ہی دس جگہ کا اثبات اور اٹھارہ جگہ کی نفی اور رفع الیدین سنت ہے یا حدیث اور فجر جیسی یا عصر جیسی ،کی دلیل بھی صراحت سے ہی دکھانا پڑے گی ،جس میں آپ ابھی تک ناکام ہیں ۔
عدم زکر سے نفی مراد لینا اگر غلط ہے تو پھر عدم زکر سے اثبات کا مطلب لینا یا پوری حدیث کو امتی کی رائے پر رد کردینا(اہل حدیث کے مدعی کے لئے) اس سے بھی بڑا غلط فعل ہے کیونکہ آپ کے ہاں تقلید اندھی ہو یا بینا دونوں طرح سے گمراہی ہے ۔
شکریہ

((((((((((جاری ہے))))))))))))))
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
آپ کی پیش ساتویں دلیل
عن علقمہ عن عبد اﷲ انہ قال الا اصلی بکم صلٰوة رسول اﷲ فصلی فلم یرفع یدیہ الا مرة واحدة۔(نسائی )
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کیا میں تم لوگوں کورسول اﷲ کی نماز پڑھ کہ نہ دکھاؤں پھر انہوں نے نماز پڑھی اور صرف (شروع نماز میں) ایک مرتبہ رفع یدین کیا۔
پوسٹ نمبر32 میں یہ حدیث آپ نے پیش کی ہے۔
جواب
مولانا سہج صاحب یہ حدیث علت قادحہ کےساتھ معلول ہے اور سنداً ومتناَ دونوں طرح سے ضعیف ہے۔ درج ذیل آئمہ نے اسے ضعیف ومعلول قرار دیا ہے۔اس سے پہلے حدیث مع سند پیش کیے دیتا ہوں۔
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً۔ ( سنن نسائی جزء2 ص540)
نمبر1:
محدثین کی اکثریت نے اس روایت کو ضعیف ومعلول قراردیا ہے:​
1۔ شیخ الاسلام المجاہد الثقہ عبداللہ بن المبارک نے کہا :​
" لم يثبت حديث .... ابن مسعود " ( سنن ترمذی ج1 ص59، ح256 )
’’ ابن مسعود کی( طرف مسنوب یہ ) حدیث ثابت نہیں ہے۔
مولانا سہج صاحب بعض لوگوں نے ابن المبارک رحمۃ اللہ کی جرح کو عصر جدید میں اس حدیث سے ہٹانے کی کوشش کی ہے مگر درج ذیل آئمہ حدیث وعلمائے کرام نے ابن المبارک کی جرح کو ابن مسعود سے منسوب اس متنازعہ روایت کے متعلق قرار دیا ہے۔
1۔ ترمذی ﷫ ... ( سنن ج1 ص59 ح256)
2۔ ابن الجوزی ﷫ ... ’’ وقال فيه عبدالله بن المبارك : لايثبت هذا لحديث ‘‘ ( التحقیق ج1 صب278)​
3۔ ابن عبد الہادی ... ( التنقیح ج1 ص278)​
4۔ نووی ... ( المجموع شرح المہذب ج3 ص403)​
5۔ ابن قدامہ ... – المغنی ج1 ص 295)​
6۔ ابن حجر ... ( التلخیص ج1 ص 222)​
7۔ الشوکانی ... ( نیل الاوطار ج2 ص180)​
8۔ البغوی ... ( شرح السنۃ ج3 ص25)​
9۔ بیہقی ﷫ ... ( السنن الکبریٰ ج2 ص79)​
الغرض حدیث کے کسی امام نے یہ نہیں کہا کہ ابن المبارک کی جرح حدیث ابن مسعود سے متعلق نہیں ہے۔
گڈ مسلم صاحب لمبی چوڑی باتیں کرنے کی بجائے آپ سے اک سوال ہے کہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے کون سی حدیث کو لم یثبت فرمایا ؟ اسے جو میں نے پیش کی یا کوئی اور ؟
پوسٹ نمبر تئیس میں یہ حدیث پیش کی تھی

سنن النسائي
ترجمہ:ابن مسعود رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی اور تمام صحابہ سے فقہی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔
اور اس حدیث میں تو خود ابن مبارک راوی کی حیثیت سے موجود ہیں وہ خود اپنی روایت کردہ حدیث کو لم یثبت کہہ رہے ہیں ؟ یعنی اپنے آپ کو ہی غیر ثابت کہہ رہے ہیں ؟

( 1 ) حدثنا أبو بكر قال نا وكيع عن ابن أبي ليلى عن الحكم وعيسى عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن البراء بن عازب أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه ثم لا يرفعهما حتى يفرغ .​
( 2 ) حدثنا وكيع عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الله بن الأسود عن علقمة عن عبد الله قال ألا أريكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يرفع يديه إلا مرة .

( 3 ) حدثنا وكيع عن أبي بكر بن عبد الله بن قطاف النهشلي عن عاصم بن كليب عن أبيه أن عليا كان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ثم لا يعود .​
( 4 ) حدثنا وكيع عن مسعر عن أبي معشر عن إبراهيم عن عبد الله أنه كان يرفع يديه في أول ما يستفتح ثم لا يرفعهما .

( 5 ) حدثنا ابن مبارك عن أشعث عن الشعبي أنه كان يرفع يديه في أول التكبير ثم لا يرفعهما .​
( 6 ) حدثنا هشيم قال أخبرنا حصين ومغيرة عن إبراهيم أنه كان يقول إذا كبرت في فاتحة الصلاة فارفع يديك ثم لا ترفعهما فيما بقي .​
( 7 ) حدثنا وكيع وأبو أسامة عن شعبة عن أبي إسحاق قال كان أصحاب عبد الله وأصحاب علي لا يرفعون أيديهم إلا في افتتاح الصلاة قال وكيع ثم لا يعودون .

( 8 ) حدثنا أبو بكر بن عياش عن حصين ومغيرة عن إبراهيم قال لا ترفع يديك في شيء من الصلاة إلا في الافتتاحة الأولى .

( 9 ) حدثنا أبو بكر عن الحجاج عن طلحة عن خيثمة وإبراهيم قال كانا لا يرفعان أيديهما إلا في بدء الصلاة .
( 10 ) حدثنا يحيى بن سعيد عن إسماعيل قال كان قيس يرفع يديه أول ما يدخل في الصلاة ثم لا يرفعهما .​
( 11 ) حدثنا ابن فضيل عن عطاء عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال لا ترفع ۔۔الأيدي إلا في سبعة مواطن إذا قام إلى الصلاة وإذا رأى البيت وعلى الصفا والمروة وفي عرفات وفي جمع وعند الجمار .​
( 12 ) حدثنا معاوية بن هشيم عن سفيان بن مسلم الجهني قال كان ابن أبي ليلى يرفع يديه أول شيء إذا كبر .​
( 13 ) حدثنا أبو بكر بن عياش عن حصين عن مجاهد قال ما رأيت ابن عمر يرفع يديه إلا في أول ما يفتتح .​
( 14 ) حدثنا وكيع عن شريك عن جابر عن الأسود وعلقمة أنهما كانا يرفعان أيديهما إذا افتتحا ثم لا يعودان .​
( 15 ) حدثنا يحيى بن آدم عن حسن بن عياش عن عبد الملك بن أبجر عن الزبير بن عدي عن إبراهيم عن الأسود قال صليت مع عمر فلم يرفع يديه في شيء من صلاته إلا حين افتتح الصلاة قال عبد الملك ورأيت الشعبي وإبراهيم وأبا إسحاق لا يرفعون أيديهم إلا حين يفتتحون الصلاة .​
یہ تمام روایات مصنف ابن أبي شيبة،كتاب الصلاة،باب:من كان يرفع يديه في أول تكبيرة ثم لا يعود میں موجود ہیں ۔
مزید یہ کہ آپ نے امام ترمذی رحمۃ اللہ کے نام کو بھی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کا انکار کرنے والوں کی لسٹ میں لکھا ہے جبکہ خود ترمذی شریف میں ان کا فرمان مبارک ہے
حدثنا هناد حدثنا وكيع عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة قال قال عبد الله بن مسعود ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فلم يرفع يديه إلا في أول مرة قال وفي الباب عن البراء بن عازب ۔۔قال أبو عيسى حديث ابن مسعود حديث حسن ۔۔وبه يقول غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ۔۔وهو قول سفيان الثوري وأهل الكوفة
ترجمہ
ہناد ،وکیع،سفیان،عاصم ابن کلیب،عبدالرحمٰن بن اسود،علقمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھلاؤں پھر آپ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی اور تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین نہیں کیا اس باب میں براء بن عازب سے بھی روایت ہے امام ابو عیسٰی ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حدیث ابن مسعود حسن ہے اور یہی قول ہے صحابہ و تابعین میں سے اہل علم کا اور سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے ۔
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى ، عَنِ الْحَكَمِ ، وَعِيسَى ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنِ الْبَرَاءِ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ ، ثُمَّ لا يَرْفَعُ حَتَّى يَنْصَرِفَ " .
مسند أبي يعلى الموصلي ، مُسْنَدُ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أَخِيهِ عِيسَى ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ ثُمَّ لَمْ يَرْفَعْهُمَا حَتَّى انْصَرَفَ "
سنن أبي داود۔ كِتَاب الصَّلَاة، أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ، بَاب مَنْ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ ...​
حدثنا محمد بن الصباح البزاز،‏‏‏‏ حدثنا شريك،‏‏‏‏ عن يزيد بن ابي زياد،‏‏‏‏ عن عبد الرحمن بن ابي ليلى،‏‏‏‏ عن البراء،‏‏‏‏ ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه إلى قريب من اذنيه ثم لا يعود ‏.‏
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں تک اٹھاتے، پھر دوبارہ نہ اٹھاتے۔
سنن ابوداود،ابواب تفريع استفتاح الصلاة
مسٹر گڈ مسلم بجائے اس کے کہ
آپ دس جگہ رفع الیدین کا اثبات دکھاتے جو آپ نے ابھی تک صراحت کے ساتھ نہیں دکھایا۔
آپ اگر دس جگہ رفع الیدین نہیں دکھاسکتے صراحت عملی کے ساتھ اور نہیں دکھا سکیں گے ، تو پھر آپ کو کوئی قولی حدیث ہی دکھادینی چاھئیے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہو ۔
آپ نا ہی حدیث سے اور ناہی صحابی کی روایت سے دکھاسکے کہ یہ ہے دس جگہ رفع الیدین کا اثبات ، اب لے دے کر آپ کے پاس امام شافعی اور حنبلی رحمہ اللہ کے قول بچے ہیں اور دوسرے ائمہ کرام کے تو اب ان پر زور ہے جناب کا پیش پوش کئے جارہے ہیں کہ فلاں نے فلاں روایت کو اور حدیث کو اور راوی کو فلاں فلاں کہا ہے ۔ افسوس کا مقام ہے مسٹر گڈ مسلم کہ آپ اطیعو اللہ و اطیعوالرسول اور اہل حدیثیت کے نعرے لگاتے ہیں دعوے کرتے ہیں ۔ لیکن ایک حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیش کرنے سے قاصر ہیں اپنے عمل کے مطابق اور اپنے دعوے کے مطابق ۔
عمل ہے آپ کا کہ آپ چار رکعت نماز میں دس جگہ رفع الیدین کرتے ہیں ، اٹھارہ جگہ رفع الیدین چھوڑتے ہیں ۔
دعوٰی ہے آپ کا کہ میں اختلافی رفع الیدین کی منسوخیت کا قائل نہیں(پوسٹ اٹھائیس) تو اس حوالے سے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آخری عمر تک رفع الیدین آپ کے عمل کے مطابق دکھانا ضروری ہے اپنے دعوٰی کو ثابت کرنے کے لئے
اسلئے جناب مسٹر گڈ مسلم سے گزارش عرض ہے کہ آپ صرف دس جگہ رفع الیدین کے اثبات کی حدیث دکھانے پر توجہ دیجئے امتیوں کے اقوال دکھانے اور امتیوں کو اپنی یعنی فرقہ جماعت اہل حدیث کی دلیل بعد میں بنائیے گا اس وقت فرقہ جماعت اہل حدیث سے منسلک رہتے ہوئے صرف قرآن یا حدیث دکھائیے ۔امتیوں کے اقوال دکھا رہے ہیں اور امتی بھی وہ جو امام ہیں مقلدوں کے ،یعنی امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور باقی جن امتیوں کا قول پیش کیا ہے وہ بھی کسی نا کسی امام کے مقلد ہیں اور اگر کوئی آپ جیسا تقلید کا منکر ہے بھی تو اس کا قول بھی دلیل یا حجت نہیں آپ کے مزھب میں ۔ تو پھر اپنا اور میرے سمیت دیکھنے پڑھنے والے دیگر احباب کا وقت کیوں برباد فرمارہے ہیں ؟ بھئی دس جگہ رفع الیدین کا اثبات دکھائیے اور پھر آگے بڑھئے ناکہ آپ امتیوں کے اقوالات کے ڈھیر لگادیں ۔ اور سارا وقت اسی میں گزر جائے ۔ اسلئے مہربانی فرمائیے ایسے اقوال اگر پیش ہی کرنے ہیں تو پھر پہلے دلیل سے یہ ضرور ثابت کردیں کہ امتیوں کے اقوال آپ کے ہاں حجت اور دلیل ہیں پھر ان شاء اللہ تعالٰی میں بھی شروع کروں آپ کی تیسری دلیل (یعنی امتی کے اقوال) پیش پوش کرنے۔
نمبر2:
امام شافعی نے ترک رفع الیدین کی احادیث کو رد کردیا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہیں ۔ ( کتاب الام ج7 ص201)​
امام شافعی رحمہ اللہ آپ کے ہاں گمراہ ہیں یا نہیں ؟ ان کا قول پیش کرنے سے پہلے اس بات کی وضاحت کردیتے ۔
نمبر3:
امام احمدبن حنبلنے اس روایت پر کلام کیا ہے۔ ( جزء رفع الیدین 32، ومسائل احمد روایۃ عبداللہ بن احمد ج1 ص240)​
امام احمد بن حنبل بھی آپ کے ہاں گمراہ قرار پاتے ہیں کہ نہیں ؟ بھئی مقلدین کے امام جو ہیں ۔
نمبر4:
امام ابوحاتم الرازینے کہا :​
’’ یہ حدیث خطا ہےے، کہا جاتا ہے کہ ( سفیان) ثوری کو اس ( کے اختصار) میں وہم ہوا ہے ۔ کیونکہ ایک جماعت نے اس کو عاصم بن کلیب سے ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے کہ نبی کریم نے نماز شروع کی، پس ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع کیا اور تطبیق کی اور اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں کے درمیان رکھا۔ کسی دوسرے نے ثوری والی بات بیان نہیں کی ہے۔ ( علل الحدیث ج1 ص96 )​
نمبر5:
امام الدار قطنینے اسے غیر محفوظ قرار دیا ۔ ( العلل للدار قطنی ج5 ص173)​
امام دار قطنی رحمہ اللہ بھی شافعی المزھب ہیں ۔ گمراہ ہیں کہ نہیں؟
نمبر6:
حافظ ابن حبان نے الصلوۃ میں کہا :​
’’ یہ روایت حقیقت میں سب سے زیادہ ضعیف ہے، کیونکہ اس کی علتیں ہیں جو اسے باطل قراردیتی ہیں۔ ( البدر المنیر ج3 ص494)​
ابن حبان کے بارے میں یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کس کے مقلد تھے ،لیکن یہ پکی بات ہے کہ وہ بھی امتی ہی تھے نبی نہیں۔
نمبر7:
امام ابوداؤود السجستانینے کہا
" هذا حديث مختصر من حديث طويل وليس هو بصحيح علي هذا اللفظ " ( سنن ابی داؤود ج1 ص478)​
امام ابوداؤد رحمہ اللہ بھی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مقلد تھے ، گمراہ تھے یا نہیں ؟ یہ آپ بتائیے۔

ابوبکر الصیرفی اور ابن حجر رحمہ اللہ بھی دو نوں کے دونوں شافعی مقلد تھے ۔ تھے کے نہیں ؟ تو آپ کی جماعت اہل حدیث کے ہاں گمراہ ہوئے کہ نہیں ؟
نمبر2:
مولانا صاحب اس روایت کا دارومدار امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ پر ہے جیسا کہ اس کی تخریج سے ظاہر ہے۔ سفیان ثوری ثقہ، حافظ، عابد ہونے کےساتھ مدلس بھی تھے۔ ( تقریب التہذیل 2445)
ان کو یحیٰ بن سعید القطان (کتاب العلل ومعرفۃ الرجال لاحمد ج1 ص207) ، بخاری ( العلل الکبیر للترمذی ج2 ص966) ، یحیٰ بن معین ( الجرح والتعدیل ج4 ص225) ، ابن الترکمانی حنفی ( الجوہر النقی ج8 ص262)، ابن حجر العسقلانی ( طبقات المدلسین ص32) وغیرہ نے نے مدلس قرار دیا ہے۔ اور ابوبکر الصیرفی نے کتاب الدلائل میں کہا :​
’’ كل من ظهر تدليسه عن غير الثقات لم يقبل خبره حتي يقول حدتني أو سمعت ‘‘
ہر راوی جس کی غیر ثقہ رایوں سےتدلیس ظاہر ہوجائے تو اس کی روایت اس وقت تک مقبول نہیں جب تک وہ ’’ حدثنی ‘‘ یا ’’ سمعت‘‘ نہ کہے یعنی اس کے سماع کی تصریح کے بعد ہی اس کی روایت مقبول ہوتی ہے۔ دیکھئیے النکت للزرکشی ص184، شرح الفیۃ العراقی بالتبصرۃ والتذکرۃ ج1 ص183، 184)
خلاصہ یہ ہے کہ سفیان ثوری مدلس تھے لہذا ان کی معنعن روایت متابعت کی غیر موجودگی میں ضعیف ہوتی ہے۔ اب مولانا سہج صاحب آپ سے گزارش ہے کہ یا تو اس حدیث کا متابعت لائیں یا پھر آئندہ اپنے موقف کی تقویت میں کبھی بھی اس کو پیش نہ کریں، کیونکہ اس دلیل کی حقیقت بیان تفصیل سے جان چکے ہیں۔
مسٹر گڈ مسلم آپ اہل حدیث ہونے کے دعوی دار ہیں اور آپ کی صرف دوہی دلیلیں ہیں​
1قرآن​
2حدیث​
اب آپ یہ تو بتادیں کہ اوپر پیش کردہ " تحقیق" کا درجہ کیا ہے ؟​
1قرآن مانتے ہیں؟​
2حدیث مانتے ہیں؟​
اگر ان دونوں میں سے کچھ نہیں تو پھر پیش کیوں کیا ؟​
مسٹر گڈ مسلم اپنا اور ہمارا اور دیکھنے پڑھنے والوں کا وقت برباد نہ کریں بلکہ کچھ پیش کرنا ہے تو صرف صریح حدیث پیش کریں جس سے آپ کا عمل ظاھر ہوجائے ۔​
نمبر3:
سفیان ثوری کی اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد کے رفع الدین کا ذکر نہیں ہے۔ لہذا یہ روایت مجمل ہے۔ اگر اس کو عام تصور کیاجائےتو پھر مولانا آپ کا خود اس روایت پر عمل نہیں ہے۔
1۔ آپ وتر میں تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع سے پہلے رفع الیدین کرتے ہیں۔
2۔ آپ عیدین میں تکبیر تحریمہ کے بعد رفع الیدین کرتے ہیں۔
مولانا اگر وتر اور عیدین کی تخصیص دیگر روایات سے ثابت ہے تو رکوع سے پہلے اور بعد کی تخصیص بھی صحیحین کی روایات سے ثابت ہے۔ اگر آپ اس حدیث سے استدلال کررہے ہیں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ اس حدیث کے عموم سے وتر اور عیدین کے رفع الیدین کو بچانے کی کوشش کریں۔
مسٹر گڈ مسلم ہماری بات چل رہی ہے چار رکعات نماز میں آپ کی دس جگہ رفع الیدین کرنے اور اٹھارہ جگہ رفع الیدین چھوڑنے پر۔ کیوں بھول گئے آپ ؟ مسٹر گڈ مسلم صاحب وتر چار رکعات میں نہیں ہوتا اور ناں ہی عیدین کی نمازیں ۔ پھر آپ کو کیا ضرورت ہے غیر مقضوع آثار میں جدوجہد کرنے کی ؟ یہ صرف بات کو طول دینے کی کوشش ہے اور کچھ نہیں ۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اگر آپ مجمل مانتے ہیں رکوع جانے اور اٹھنے کا زکر نہ ہونے کی وجہ سے تو معاف کیجئے گا آپ نے جتنی بھی دلیلیں دی ہیں ان میں ایک بھی اجمال سے خالی نہیں کیونکہ کسی میں تیسری رکعت کا زکر نہیں اور مکمل گنتی یعنی دس جگہ رفع الیدین کا اثبات کسی میں بھی نہیں اسی لئے آپ کو دو جمع دو چار کرنا پڑا تھا ۔
نمبر4:
جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد کے رفع الیدین کا ذکر نہیں ہے۔ امام فقیہ محدث ابوداؤود رحمہ اللہ نے اس ضعیف حدیث پر یہ باب باندھا ہے۔
" باب من لم يذكر الرفع عند الركوع" یعنی باب اس کا جس نے رکوع سے پہلے رفع الیدین کا ذکر نہیں کیا۔ ( سنن ابی داؤود ج1 ص477)​
اور یہ بات عام طلباء کو بھی معلوم ہے کہ ( ثبوت ذکر کے بعد ) عدم ذکر سے نفی ذکر لازم نہیں ہے
ابن الترکمانی حنفی نے فرمایا:​
" ومن لم يذكر الشيئ ليس بحجة علي من ذكرة " ( الجوہر النقی ج4 ص317)
جو کسی چیز کو ذکر نہ کرے وہ اس پر حجت نہیں ہے جو کسی چیز کو ذکر کرے۔
مشہور محدث حافظ ابن حجرنے فرمایا
" ولا يلزم من عدم ذكر الشيئ عدم وقوعه " ( الدرایۃ ج1 ص225)​
لہٰذا امام سفیان ثوری کی عدم ذکر والی اس ضعیف حدیث سے بھی ترک رفع ثابت نہیں ہوسکتا۔
آپ کو یاد کروادوں کہ نسائی کی شرح السيوطي لسنن النسائي، كتاب التطبيق ،الرخصة في ترك ذلك میں یہی حدیث موجود ہے
أخبرنا محمود بن غيلان المروزي قال حدثنا وكيع قال حدثنا سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة عن عبد الله أنه قال ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فلم يرفع يديه إلا مرة واحدة
اس حدیث پر جو باب باندھا گیا ہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے مسٹر گڈ مسلم ؟ترک ذلک۔۔۔۔ باب سے فیصلہ نہیں کرنا مسٹر گڈ ! فیصلہ پیش کریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تاکہ بات کو اس پوائنٹ سے آگے بڑھایا جاسکے ۔ویسے بھی باب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ترک ذلک اسی وقت کہا جاسکتا ہے جب رفع الیدین فی الصلوۃ کو ترک کیا گیا ہو اور یہاں زکر عدم زکر والی بات ہی نہیں ھے بلکہ صاف الفاظ میں ترک کے الفاظ ہیں ۔امید ہے سمجھ گئے ھوں گے؟
نمبر5:
سفیان کی حدیث میں نفی ہے اور صحیحین وغیرہما کی متواتر احادیث میں اثبات ہے۔ یہ بات عام طلباء کو بھی معلوم ہے کہ اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے۔ اور مولانا شاید آپ کو بھی معلوم ہو۔
علامہ نووی نے کہا :​
" ان احاديث الرفع أولي لأنها اثبات وهذا نفي فيقدم لاثبات لزيادة العلم " ( المجموع شرح المہذب ج3 ص403)
رفع الیدین کی ( صحیح ) احادیث پر عمل کرنا اولیٰ ہے کیونکہ وہ اثبات ہیں اور یہ ( سفیان ثوری کی ضعیف حدیث) نفی ہے۔ پس اثبات کو زیادت علم کی وجہ سے نفی پر مقدم کیا جائے گا۔
کرخی حنفی نے بھی مثبت کو نفی پر اولیٰ بالعمل قرار دیا ہے۔ ( نور الانوار ص197)​
اگر ایسی بات ہے تو پھر اٹھارہ جگہ کی نفی آپ کبھی بھی ثابت نہیں کرسکتے اور سجدوں کی مثبت حدیثوں اور روایتوں کو ماننے کا ثبوت دیجئے اور رفع یدین شروع کیجئے سجدوں میں ۔ اور یہ دیکھئے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثبوت۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہ مرفوعاً کان يرفع يديہ فی کل خفض ورفع ورکوع وسجود وقیام وقعود بين السجدتين .... الخ
(شرح مشکل الاثار لطحاوی ج ۲ص ۰۲رقم الحديث ۴۲، وسندہ صحيح علی شرط البخاری و مسلم، بیان الوہم لابن القطان ج۵ص ۳۱۶وقال صحيح، طرح التثريب للعراقی ج۱ص۱۶۲)
حضرت سىدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ آپ ہر اونچ نىچ اور رکوع و سجود، قیام وقعود بىن السجدتىن رفع الىدىن کرتے تھے۔
کیا وجہ ہے کہ آپ زمانے کے فرق کو بھی نہیں مانتے ؟ مثبت کو نفی پر ترجیع دینا مانتے ہیں اور پھر سجدوں کی رفع کو منسوخ بھی مانتے ہیں ؟ مسٹر گڈ مسلم ادھر ادھر دوڑنے بھاگنے کی بجائے صرف حدیث رسول پیش کیجئے جس سے آپ کا عمل ثابت ہوسکے یعنی دس جگہ رفع یدین کا اثبات ۔اور اٹھارہ جگہ کی نفی کی دلیل بھی ڈھونڈ کر رکھیں ۔
نمبر6:
بعض علماء نے کہا ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ تکبیر تحریمہ کے ساتھ ایک دفع رفع یدین کیابار بار نہیں کیا۔ ( مشکوۃ المصابیح ص77، ح809)​
امام نووی فرماتے ہیں۔
" ذكره اصحابنا قالوا: لوصح وجب تأويله عليٰ أن معناه لايعود الي الرفع في ابتداء استفتاحه ولا في أوائل باقي ركعات الصلوة الواحدة ويتعين تأويله جمعاً بين الأحاديث " ( المجموع ج3 ص403)
’’ہمارے ساتھیوں نے ذکر کیا ہے کہ اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو اس کا مفہوم یہ ہوتا کہ شروع نماز میں اور باقی رکعات کے شروع میں دوبارہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔( اس کا رکوع والےر فع الیدین سے کوئی تعلق نہیں) اس تاویل کے ساتھ تمام احادیث ( بلحاظ جمع وتطبیق) پر عمل ہوجاتا ہے۔
سن لیا مولانا سہج صاحب۔ مزید آگے چلتے ہیں۔
مسٹر گڈ مسلم آپ تاویل کئے اور پیش کئے بغیر نہیں رہ سکتے یہ میں شروع سے کہہ رہا ہو کہ تاویل کے بغیر صریح حدیث دلیل کے طور پر پیش کیجئے دس جگہ کے اثبات کے لئے ۔ امتیوں کی رائے آپ کے ہاں دلیل نہیں ہیں ۔
نمبر7:
یہ حدیث اگر بفرض محال صحیح ہوتی تو بھی منسوخ ہوتی۔امام احمد بن الحسین البیہقی فرماتے ہیں۔
" وقد يكون ذلك في الابتداء قبل أن يشرع رفع اليدين في الركوع ثم صار التطبيق منسوخاًوصار الأمر في السنة الي رفع اليدين عند الركوع ورفع الرأس منه وخفياًجميعاً عليٰ عبد الله بن مسعود " (معرفۃ السنن والآثارج1 ص220، التحقیق الراسخ فی ان احادیث رفع الیدین لیس لہا ناسخ ص118)
’’ ہوسکتا ہے کہ ابتداء میں ترک رفع یدین رہا ہو جس وقت رفع یدین کی مشروعیت نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد (ابن مسعود کی) تطبیق منسوخ ہوگئی اور سنت میں رفع الیدین رکوع سے پہلے اور بعد کا شروع ہوگیا۔ اور یہ دونوں باتیں ( تطبیق اور بعد کا شروع ہونے والا رفع یدین) سیدنا ابن مسعود پر مخفی رہ گئے
۔
امتیوں کے اقوالات پر نظر رکھو گے تو خود بھی ڈوبوگے اور اپنی جماعت اہل حدیث کو بھی لے کر ڈوبو گے مسٹر گڈ مسلم ۔
اگر اس تاویل کو آپ مانتے ہو تو بتاؤ اور پھر ،ثابت بھی کرو کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے منسوخ تھا پھر جاری ہوا رفع یدین کا عمل۔ یعنی
پہلے صرف شروع نماز کا رفع یدین تھا
پھر رکوع جانے اٹھنے کا آیا
پھر سجدوں والا آیا
استغفر الله العظيم
مسٹر گڈ مسلم افسوس کا مقام ہے کہ آپ ایسے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی رائے مانتے ہیں جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’وما حدثکم ابن مسعود فصدقوہ‘‘(جامع الترمذی ج۲ص۲۲۰ )
کہ عبداللہ بن مسعود تمھیں جو بیان کریں اس کی تصدیق کرو۔
لوکنت مؤمرا احدا من غیرمشورۃ لامرت ابن ام عبد۔
(جامع الترمذی ج۲ص۷۰۱)​
اگر میں کسی کو بغیر مشورہ کے امیر بناتا تو عبداللہ بن مسعود کو بناتا
فتدبر مسٹر گڈ مسلم !! اور اپنی توجہ رکھیں صرف ،دس جگہ رفع الیدین ثابت کرنے میں ۔
تنبیہ:
مولانا سہج صاحب یہ الزامی جواب ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت ابن مسعودسے ثابت ہی نہیں ہے۔ فتدبر
مسٹر گڈ مسلم کون سی حدیث ثابت نہیں ہے ؟
نسائی ،ترمزی،ابوداؤ،مسند احمد،مصنف ابن ابی شیبہ،شرح معانی الآثار،سنن القبرٰی بہقی،المحلی ابن حزم،مسند ابی یعلی،المدونۃ الکبری،سنن کبری للنسائی،التمھید،مسند البزارج،سنن الدارمی،مسند ابی حنیفۃ،مسند امام اعظم،مصنف ابن ابی شیبہ۔
برائے مہربانی نشان لگا کر بتائیے تاکہ یہ تو معلوم ہوسکے کہ آپ کون سی کتاب کی کون سی حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو غیر ثابت مانتے ہو ؟
شکریہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
گڈ مسلم کی پوسٹ 52 کا جواب
آپ کی پیش نویں دلیل
رأى مالك بن الحويرث إذا صلى كبر ورفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا أراد أن يركع رفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا رفع رأسه من الركوع رفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع هكذا‏.‏
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا خالد حذاء سے ، انہوں نے ابوقلابہ سے کہ انہوں نے مالک بن حویرث صحابی کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع یدین کرتے، پھر جب رکوع میں جاتے اس وقت بھی رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی کرتے اور انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
صحیح بخاری،صفۃ الصلوٰۃ،باب: رفع یدین تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت کرنا (سنت ہے)​
پوسٹ نمبر33 میں آپ نے یہ حدیث پوسٹ کی ہے۔
جواب
پہلی بات مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ یہ حدیث آپ کے موقف پر کیسے دلیل بن سکتی ہے؟ اس میں تو رفع یدین کا ذکر ہے۔ ہاں تیسری رکعت کی رفع کا ذکر نہیں۔ اگر آپ اس حدیث سے یہ اخذ کررہے ہیں کہ رسول اللہ پہلے تیسری رکعت کی رفع کرتے تھے۔ پھر اس سے رک گئے تو یہ آپ کی جہالت اور لاعلمی ہے۔ کیا آپ اس بات کے قائل ہیں کہ رفع کی منسوخیت تدریجاً ہوئی ہے ؟ پہلے تیسری رکعت کی رفع منسوخ ہوئی، پھر باقی رفعیں ؟
کچھ تو ا نسان میں عقل ہوتی ہے اور وہ کام کی بات کرتا ہے۔ اگر اس حدیث میں تیسری رکعت کی رفع کا ذکر نہیں تو پھر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے زمانے میں کی جاتی تھی، پھر منسوخ ہوگئی اس لیے اس حدیث میں صحابینے اس کا ذکر نہیں کیا ؟ اگر صحابیکا تیسری رکعت کے رفع کا ذکر نہ کرنا آپ کو پہلے زمانے اور دوسری زمانے کی بات یاد دلاتا ہے تو پھر اس حدیث میں نماز سے ہی متعلق کتنے سارے اعمال ہیں جو بیان نہیں ہیں ان کے بارے میں بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ پہلے زمانے میں کیے جاتے رہے اس حدیث کے آجانے سے وہ بھی منسوخ ہوگئے ۔؟
مولانا یہ حدیث بھی میرے موقف کی تائید میں ہے۔ اور الحمد للہ آپ نے ہی پیش کرکے اپنے موقف کو کمزور اور میرے موقف کو مضبوط کردیا ہے۔ اور پھر آپ نے اس حدیث کو پیش کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ آپ تین رفعوں کو مانتے ہیں۔ لیکن آپ نے جو پہلے زمانے اور دوسرے زمانے کی چالاکی کھیلی ہے۔ وہ بے دلیل وبے بنیاد ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ٹھہرتی ہے۔
جاری ہے......​
پہلی بات مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ یہ حدیث آپ کے موقف پر کیسے دلیل بن سکتی ہے؟ اس میں تو رفع یدین کا ذکر ہے۔ ہاں تیسری رکعت کی رفع کا ذکر نہیں۔ اگر آپ اس حدیث سے یہ اخذ کررہے ہیں کہ رسول اللہ پہلے تیسری رکعت کی رفع کرتے تھے۔ پھر اس سے رک گئے تو یہ آپ کی جہالت اور لاعلمی ہے۔ کیا آپ اس بات کے قائل ہیں کہ رفع کی منسوخیت تدریجاً ہوئی ہے ؟ پہلے تیسری رکعت کی رفع منسوخ ہوئی، پھر باقی رفعیں ؟
مسٹر گڈ مسلم آپ کو کچھ بھی سمجھ نہیں آیا کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں اور کیا کیا اعتراضات کر رہے ہیں ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ جناب کو اقرار ہے کہ اس حدیث میں تیسری رکعت کے شروع والی رفع یدین موجود نہیں اور یہا اعتراض یہ ہے کہ رفع کی منسوخیت تدریجاً ہوئی ہے ؟ ۔ حیرت ہے کہ کیسی عقل رکھتے ہیں آپ ؟ مسٹر گڈ صاحب ،
پہلی بات :تیسری رکعت کی رفع یدین ہو تب بھی اور نہ ہو تب بھی آپ کی دلیل بن ہی نہیں سکتی کیونکہ آپ چار رکعت نماز میں دس جگہ پر رفع یدین کرتے ہیں ۔ کیوں ٹھیک ہے ناں؟
دوسری بات: تدریجا منسوخ ہونے کا انکار آپ کرہی نہیں سکتے ۔ اگر کرتے ہیں تو پھر ایسی دلیل فراہم کیجئے جس سے ایک ہی بار اٹھارہ جگہ کی رفع یدین کا انکار ثابت ہو ،جیسا کہ آپ کا عمل ہے۔
تیسری بات : نماز کی ہر ہر تکبیر پر اور اونچ نیچ پر رفع یدین کرنے کا ثبوت صحیح روایات سے موجود ہے ۔
چوتھی بات : اگر آپ دوسری اور چوتھی رکعت کے شروع اور آٹھ سجدوں کے وقت کی جانے والی رفعوں کو منسوخ وغیرہ مانتے ہو تو کس دلیل سے ؟ (پہلے اثبات تو ثابت کرلیں آپ۔پھر اس عمل پر عمل نہ کرنے کی دلیل پیش کردیجئے گا)​
پانچویں بات: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل پہلی رفع یدین یعنی شروع نماز کے بعد ترک رفع یدین باقی تمام نماز میں ، کا ثبوت حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پیش کرچکا (جسے آپ جھوٹی اور حدیث کہتے ہو ،امتیوں کی تقلید کرتے ہوئے)​
عن علقمہ عن عبد اﷲ انہ قال الا اصلی بکم صلٰوة رسول اﷲ فصلی فلم یرفع یدیہ الا مرة واحدة۔(نسائی )
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کیا میں تم لوگوں کورسول اﷲ کی نماز پڑھ کہ نہ دکھاؤں پھر انہوں نے نماز پڑھی اور صرف (شروع نماز میں) ایک مرتبہ رفع یدین کیا۔

مزید آگے آپ فرماتے ہیں

کچھ تو ا نسان میں عقل ہوتی ہے اور وہ کام کی بات کرتا ہے۔ اگر اس حدیث میں تیسری رکعت کی رفع کا ذکر نہیں تو پھر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے زمانے میں کی جاتی تھی، پھر منسوخ ہوگئی اس لیے اس حدیث میں صحابینے اس کا ذکر نہیں کیا ؟
اگر اس حدیث میں تیسری رکعت کا رفع یدین نہیں تو اس سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا؟ ماشاء اللہ ، میں یہ پوچھتا ہوں اگر تیسری رکعت کا رفع یدین ہوتا تو پھر آپ کو کوئی فرق پڑتا ؟۔ کیونکہ آپ کے عمل کی گنتی تو پھر بھی پوری نہیں ہو سکتی۔ یہ بات بھی سمجھ نہیں آئی؟ بتادیجئے گا تاکہ پھر مزید اچھی طرح سمجھانے کی کوشش کی جائے ۔
گڈ مسلم مزید فرماتے ہیں
اگر صحابیکا تیسری رکعت کے رفع کا ذکر نہ کرنا آپ کو پہلے زمانے اور دوسری زمانے کی بات یاد دلاتا ہے تو پھر اس حدیث میں نماز سے ہی متعلق کتنے سارے اعمال ہیں جو بیان نہیں ہیں ان کے بارے میں بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ پہلے زمانے میں کیے جاتے رہے اس حدیث کے آجانے سے وہ بھی منسوخ ہوگئے ۔؟
مسٹر گڈ مسلم آپ نے جو روایت پیش کی جس میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل پیش کیا یعنی
" كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739)
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘​
اس روایت ،جسے آپ نے اپنے عمل پر دلیل بناکر پیش کیا تھا ،میں بھی نماز سے ہی متعلق کتنے سارے اعمال ہیں جو بیان نہیں ہیں ان کے بارے میں بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ پہلے زمانے میں کیے جاتے رہے اس حدیث کے آجانے سے وہ بھی منسوخ ہوگئے ۔؟ یعنی سجدوں اور دوسری اور چوتھی رکعت کی رفع یدین ؟ باقی معاملات نماز کا زکر میں اسلئے نہیں کررہا کیونکہ وہ موضوع میں نہیں ۔ تو مسٹڑ گڈ مسلم ، کیا کہنا ہے اس بارے میں آپ کا ؟
اگر مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی روایت پر آپ کے اعتراض کو دیکھیں تو وہی اعتراض خود آپ کی پیش کردہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت پر آپ کی جانب سے بنتا ہے کہ نہیں ؟
لیکن کیا کیا جائے ایسی دورنگی کا کہ اپنے لئے باٹ الگ اور دوسروں کے لئے الگ۔
گڈ مسلم مزید بھی فرماتے ہیں
مولانا یہ حدیث بھی میرے موقف کی تائید میں ہے۔ اور الحمد للہ آپ نے ہی پیش کرکے اپنے موقف کو کمزور اور میرے موقف کو مضبوط کردیا ہے۔ اور پھر آپ نے اس حدیث کو پیش کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ آپ تین رفعوں کو مانتے ہیں۔ لیکن آپ نے جو پہلے زمانے اور دوسرے زمانے کی چالاکی کھیلی ہے۔ وہ بے دلیل وبے بنیاد ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ٹھہرتی ہے۔
پہلے زمانے اور بعد کے زمانے کی روایات ایک حقیقت ہیں مسٹر گڈ مسلم ۔ اگر آپ پہلے اور آخری زمانے کے منکر ہیں اور لگ رہا ہے کہ منکر ہیں ۔ تو پھر آپ ناہی سجدوں کی رفع یدین چھوڑ سکتے ہو اور ناں ہی دوسری اور چوتھی رکعت کے شروع کی رفع یدین کو چھوڑ سکتے ہو ۔ پھر آپ نماز میں باتیں بھی کرلیا کرو اور بچوں کو گود میں اٹھا کر ہی نماز پڑھا کرو اور جوتے اتارنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ کیوں مسٹر گڈ ؟ ان باتوں کا ثبوت بھی روایات میں ملتا ہے کہ نہیں ؟ جب آپ کے فرقہ جماعت اہل حدیث میں زمانے کا فرق کوئی حیثیت رکھتا ہی نہیں تو پھر تمام قسم کی روایات پر عامل ہونا چاھئے کہ نہیں آپ کو۔؟ اب دیکھتے ہیں آپ زمانے کے فرق کو سچی سچی مانتے ہو یا نہیں ،ہاں جھوٹ اور ضد کا علاج کسی کے پاس نہیں ۔
ایک مثال دیتا ہوں آپ کو مزید، جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت کو آپ سلام کے وقت اشارے سے منع کی کہتے ہیں اور یہ ثبوت ہے کہ آپ زمانے کے فرق کے قائل ہیں ۔ یعنی پہلے زمانے میں اشارہ جائز تھا بعد کے زمانے میں منع ہوگیا ۔لیکن یہی زمانے کا فرق آپ رفع یدین کے معاملہ میں ماننے سے انکاری ہیں ۔ آپ کی مرضی لیکن دیکھنے پڑھنے والے تو سمجھ ہی رہے ہوں گے ۔ ان شاء اللہ
آخر میں آپ کو سوال یاد کروادیتا ہوں جس کا جواب آپ نے دلیل سے ابھی تک نہیں دکھایا ۔
دس جگہ رفع الیدین کرنے کے اثبات کی دلیل دکھائیے۔ دوجمع دو چار کئے بغیر
شکریہ

((((((((((جاری ہے))))))))))
 
Top