• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ تعالی عنہ کےلیےخلاف کی وصیت فرمائی تھی ؟

ناصف

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
94
پوائنٹ
0
ان لوگوں کےبارہ میں کیا حکم ہے جن کا خیال ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے خلافت کی وصیت فرمائی تھی ، اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی ٰعنہم نے ان کے خلاف سازش کی تھی ؟
جواب
مسلمانوں میں سے کوئی بھی گروہ اس کا قائل نہیں صرف شیعہ ہی اس کے قائل ہیں ، حقیقتا یہ قول باطل ہے جس کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ احادیث میں کوئی اصل نہیں ملتی ۔
بلکہ دلائل اس پرتودلالت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گے ، اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب صحابہ کرام سے بھی یہی دلیل ملتی ہے ۔
لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےاس پر صریح نص نہیں ملتی اورنہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی قطعی وصیت فرمائی لیکن کچھ ایسے حکم دیے جس سے اس کا استدلال ملتا ہے کہ وہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہوں گے مثلا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں انہیں لوگوں کونماز پڑھانے کا حکم دیا ۔
اوراس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ نے اپنے بعد خلافت کے بارہ میں ان کے متعلق ہی ذکرکرتے ہوے فرمایا
( مومن اوراللہ تعالیٰ اس کا انکار کرتے ہیں سواے ابوبکر کے ) اسی لیے صحابہ کرام نے ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کرلی اوراس پراجماع کرلیا کہ ان میں سے سب سےافضل ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔
عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں یہ ثابت اورموجود ہےکہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ميں یہ کہا کرتے تھے :
( اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اوران کے بعد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اقرار کیا اورانہیں اس پرکچھ نہیں کہا ۔
اور اسی طرح علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی تواتر کے ساتھ آثار مروی ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے :
( اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل اوربہترشخص ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورپھر عمر ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ) ۔
اورعلی ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بھی کہا کرتے تھے :
( میرے پاس جوبھی اس لیے لایا گيا کہ اس نے مجھے ان دونوں پرفضیلت دی تومیں اسے افتراء کی حد لگاؤں گا )
تواس سے ثابت ہوا کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کا دعویٰ نہیں کرتے تھے کہ وہ اس امت میں سب سے افضل ہیں ، اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے خلافت کی وصیت ہی فرمائی ہے ، اور نہ انہوں نے کبھی یہ کہا کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ان پرظلم کرتے ہوئےان کا حق چھینا ہے ۔
اورجب فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات ہوئی توعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوسری دفعہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی جو کہ پہلی بیعت کی تاکید تھی اورلوگوں کے اس اظہارکے لیے کہ وہ جماعت کے ساتھ ہیں ، اوران کے دل میں ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کے متعلق کچھ نہیں ۔
اورجب عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کوخنجرکے وار سے زخمی کیا گيا توانہوں نے عشرہ مبشرہ میں سے چھ صحابہ کی ایک مجلس شوری قائم کی جن میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے ، توعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمررضی اللہ تعالی عنہ پراس کا انکار نہیں کیا نہ توان کی زندگي میں اور نہ ہی ان کی وفات کے بعد ۔
اورنہ ہی انہوں نے کبھی یہ کہا کہ وہ ان سب سے اس کا زیادہ حق رکھتے ہیں تواب لوگوں کے لیے یہ کس طرح جائز ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ جھوٹ لگاتے ہوئے یہ کہتے پھریں کہ انہوں نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے خلافت کی وصیت فرمائی تھی ۔ اورپھرعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کبھی بھی اس کا دعوی ٰنہیں کیا اورنہ ہی صحابہ کرام میں سے کسی نے ان کے لیے یہ دعوی ٰکیا ۔ بلکہ سب صحابہ کرام نے ابوبکر الصدیق ، عمربن الخطاب ، عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہم کی خلافت کے صحیح ہونے پراجماع کیا اوراس کا اعتراف علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کیا ہے ، اوریہی نہیں بلکہ ان سب کے ساتھ مل کرجھاد اورشوریٰ میں ان کا تعاون بھی کرتے رہے ۔
پھرصحابہ کرام کے بعد مسلمانوں نے بھی اسی چيزپراجماع کیا جس پرصحابہ کرام کا اجماع تھا ، تواب نہ تولوگوں میں سے کسی ایک اوریا پھر کسی گروہ اورفرقہ نہ توشیعہ اورنہ دوسروں کے لیے یہ جائز کہ وہ یہ دعویٰ کریں کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی وصیت کی گئی تھی ، اور ان سے پہلے جس کی بھی خلافت تھی وہ باطل ہے ۔
اوراسی طرح یہ بھی جائزنہیں کہ کوئی یہ کہتا پھرے کہ صحابہ کرام نے علی رضی اللہ تعالیٰ پرظلم کیا اوران کا حق چھینا ، بلکہ یہ ابطل الباطل ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بارہ میں سوء ظن ہے جو کہ جائزنہیں اور پھران صحابہ کرام میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل ہیں ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے امت محمدیہ کی تنزيہ اوراس کی حفاظت فرمائی ہے کہ یہ گمراہی پرجمع نہیں ہوسکتی ، اس کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی احادیث وارد اورثابت ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( میری امت میں سے ایک گروہ حق پرقائم رہے اوراس کی مدد کرتا رہے گا ) ۔
تواس طرح یہ مستحیل ہے کہ امت محمدیہ کسی باطل پراکٹھی ہوجائے اورپھر خاص کراس دورمیں جو کہ خیرالقرون ہے جو کہ ابوبکرالصدیق ، عمربن الخطاب ، عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کادور ہے اورپھرخاص کروہ لوگ جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل الناس ہیں ان میں اس کا وقوع ہو ۔
جوبھی اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول اوریوم آخرت پرایمان پر رکھتا ہے وہ کبھی بھی یہ قول نہیں کہہ سکتا اورنہ ہی وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے ، اورایسے ہی جواسلامی حکم کی تھوڑی سی بھی بصیرت رکھتا ہواس سے بھی اس کا وقوع محال ہے ۔ .
شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالیٰ کے فتاوی سے ۔ دیکھیں کتاب : فتاوی اسلامیۃ ( 1 / 46 )
ماخوذ:الاسلام و جواب
 
Top