• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ تعاون کرنا چاھیے؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
مسجد الحرام کے امام نے ایران کو سخت وارننگ دے دی:


04 اپریل 2015 (11:50)

مکہ المکرمہ(مانیٹرنگ ڈیسک) مسجد الحرم کے پیش امام اور خطیب الشیخ صالح آل طالب نے ایرانی توسیع پسندانہ عزائم سے متعلق خبردار کرتے ہوئے انہیں ہر جگہ نشانہ بنانے کا مطالبہ کردیا۔

حرم مکہ میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے الشیخ صالح آل طالب کا کہنا تھا کہ یمن میں مسلکی بنیاد پر توسیع بالکل ویسی ہی ہے جیسے عراق اور شام میں مجرم عناصر نے اپنے پنجے گاڑنے کے لئے اختیار کی۔ ملت اسلامیہ میں مسلک کی بنا پر پیش قدمی کی روش سے مسلح کارروائیوں کا آغاز ہوتا ہے، جس کا انجام افراتفری اور قتل و غارت گری کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عراق اور شام میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو کیسے جنگ کا ایندھن بنایا گیاجبکہ اس جنگ میں بچے، بزرگ، مرد و خواتین بلا تفریق تہ تیغ کر دیئے گئے۔

امام مسجد الحرم کا مزید کہنا تھا کہ استطاعت رکھنے والوں پر یمن میں فرقہ وارانہ بنیاد پر پیش قدمی روکنا لازم ہے۔ یہ پیش قدمی دین دشمنی ہے اور اس کا شکار یمن اور اس کے شہری ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مٹھی بھر افراد کی فرقہ وارانہ سوچ سے ہمسائے متاثر ہو رہے ہیں۔ پورے ملک کو ایک اقلیت کے خود ساختہ عقیدے کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ یمن کو فرقہ واریت کے شکنجے سے آزاد کرانا دینی فریضہ ہے۔ اس کے خلاف لڑائی، عین اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ یمن کا دفاع، رکن یمانی کے تحفظ کے مترادف ہے۔

http://dailypakistan.com.pk/international/04-Apr-2015/210023
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
بتایہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے لڑاکا طیاروں نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے حکم کے بعد یمن میں حوثی شیعوں کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کردی ہے۔العربیہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق سعودی طیاروں کی بمباری سے دارالحکومت صنعا میں حوثی ملیشیا کے زیر قبضہ ایک ائیربیس تباہ ہوگیا ہے اوراس کی فضائی دفاعی صلاحیت پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے الریاض کے معیاری وقت کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات بارہ بجے ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا پر فضائی حملوں کا حکم دیا تھا۔العربیہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سعودی عرب کی شاہی فضائیہ کا یمن کی فضائی حدود پر مکمل کنٹرول ہے۔
یہ ساری اطلاعات ہماری نہیں ہیں خود سعودی اور اسکے زیر اثر میڈیا کی ہیں۔
چلو مخالفوں کی تصدیق نے ہم سنیوں کے دل ٹھنڈے کر دئے کہ یمن کی فضائی حدود مکمل طور پر سعودی عرب کے کنٹرول میں ہے اور شیطان ایران کے چیلوں کو اب پتا چلا ہے کہ ہم کیا کر بیٹھے کہ سنی شیروں کو چھیڑ بیٹھے مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت- اب ان کی چالبازیوں کا کوئی فائدہ نہیں کہ جو وہ سنیوں کو متحد کرنے سے روکنے کے لئے کر رہے ہیں کیونکہ انکو تو گھٹی بھی تقیہ کی ہی ملی ہوتی ہے
اسی تقیہ کی وجہ سے ایک طرف وہ پاکستانی، ایرانی اور عالمی میڈیا (جسکی اکثریت شیعہ ہے) م اس یمنی جنگ کو شیعہ سنی جنگ اور امریکی اسرائیلی سازش کہ کر سنیوں کو اس میں فریق بنے سے روکنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف انکے ایرانی، حوثی اور حزب اللہ کے ملعونوں کے کھلے عام حرمین پر شیعہ قبضے کی خواہشات کے موجود ہیں اور خمینی کے اپنے بھی کئی ایسے بیان موجود ہیں مثلا وہ فرانس میں بیٹھ کر انقلاب کو کامیاب ہوتا دیکھ کرکہتا تھا کہ ہمارا اصل ہدف تو حرمین ہے اسی طرح حزب اللہ والے بھی یہی کہتے ہیں اور پورے ایران میں سنیوں پر جو ظلم ڈھائے جاتے ہیں اس پر کوئی بات نہیں کرتا وہ جو مرضی کرتا رہے اسی طرح عراق اور شام میں اپنی شیعہ حکومتوں کو بچانے کے لئے ایران اور حزب اللہ جو مرضی کرتی رہے وہاں شیعہ سنی مسئلہ نہیں اٹھے گا
یہ یہودی نسل عبداللہ بن سباء کی اولاد کا کام ہی یہی ہے کہ جب یہودیوں نے دیکھا کہ ہم خیبر کا بدلہ اب لڑ کر نہیں لے سکتے تو تقیہ کرتے ہوئے مسلمان ہو گیا اور وہی تقیہ کا بیج ان ملعونوں میں بھی بو دیا جس وجہ سے آج امت مسلمہ ان سے دھوکا کھا رہی ہے
میں سمجھتا ہوں کہ عراق اور شام کی جنگ نے ان شیعوں کی خباثتوں کو ہم مسلمانوں پر اتنے ظاہر نہیں کیے تھے جتنے یہ یمن کی جنگ کر رہی ہے اور الحمد للہ کرے گی کیونکہ اس میں حکمران بھی ساتھ شامل ہیں اور اسی پر یہ معلون اب سوچ رہے ہیں کہ یہ کیا ہم نے اپنے پاوں پر کلہاڑی مار دی ہے

اس حکم کے بعد واشنگٹن میں متعیّن سعودی سفیر عادل الجبیر نے یمن میں حوثیوں کے خلاف فوجی کارروائی کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔انھوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کہ اس کارروائی کے تحت حوثیوں کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کردی گئی ہے اور اس فوجی مہم کے لیے تشکیل پانے والے اتحاد میں دس ممالک شامل ہوگئے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ ''اس کارروائی کا مقصد یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی کی جائز اور قانونی حکومت کا تحفظ اور دفاع ہے۔ہم یمن میں اس جائز حکومت کو بچانے کے لیے جو بھی بن پڑا،کریں گے''۔انھوں نے کہا کہ امریکا اس مہم میں شریک نہیں ہے لیکن امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکا یمن میں فوجی کارروائیوں کے لیے سعودی عرب کی معاونت کررہا ہے
امریکہ خالی باتوں کی حد تک شامل ہے ورنہ عملی طور پر وہ بالکل شامل نہیں ہو گا کیونکہ دوسری طرف اسکی اپنی اولاد اسرائیل اور ایران ہے اگر امریکہ کو اپنی اولاد شیعوں کا دکھ ہوا تو اسنے داعش پر بمباری کی اور اگر یہاں دکھ ہوتا تو لازمی وہ بھی بمباری کرتا یہ تو اسکے دکھانے کے دانت ہیں کھانے کے اور ہیں سعودی عرب کو بھی اس بات کا علم ہے اور وہ حقیقت میں امریکہ کو دوست بالکل نہیں سمجھتا تبھی تو پاکستان سے زیادہ قریبی ہونے کے باوجود اسنے امریکہ کو مدد کے لئے نہیں کہا
یہی سب سے بڑی گواہی ہے کہ قرینی ہی قریبی کو جانتا ہے کہ اس کے دل میں کیا ہے پس سعودی عرب ہی جانتا ہے کہ امریکہ کے دل میں اپنے ایرانی بچوں کو لئے کیا کچھ چھپا ہے

سعودی عرب کی پراکسی وار کی تاریخ کوئی نئی بات نہیں وہ پاکستان میں بھی شیعہ کشی میں کئی سال سے شامل ہے اور اب یمن میں پاکستان کو بھی اسی کام کے لیئے استعمال کرنا چاہتا ہے
نواز شریف جلا وطنی کے زمانے کے احسان کا بدلہ چکانا چاہتے ہیں اور پھر انکی سیاسی تربیت آمر مطلق ضیا الحق کی گود میں ہوئی ہے جس نے اردن میں فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی۔
اس فریب کو میں ایک مثال سے سمجھاتا چلو تاکہ لوگوں پر حقیقت کھل جائے
دیکھیں پاکستان میں فوجی بھی مسلمان ہیں اور طالبان بھی مسلمان ہیں اب فوج اور طالبان آپس میں لڑ رہے ہیں اب تمام علماء یہ احادیث پیش کرتے ہیں کہ جو خارجی وہ ہوتا ہے جو مسلمان کو مارے اور اھل الاوثان یعنی مشرکوں کافروں کو چھوڑ دے اب جب فوج طالبان پر اسی کے تحت خارجی ہونے کا الزام لگاتے ہیں تو وہ بھی جوابا اسی کے تحت فوج پر یہ الزام لگاتے ہیں لیکن ہم کو اللہ تعالی نے عقل دی ہے اور ہم انکی بات کو فراڈ اور دھوکہ بازی ہی سمجھتے ہیں پس بچہ بچہ جانتا ہے کہ اصل خارجی کون ہے
اسی طرح ایران نے پوری دنیا میں شیعہ سنی وار شروع کی ویسے بھی وہ اقلیت میں ہیں اسکے جواب میں سنی ان سے لڑتے ہیں تو جوابا جب سعودی عرب یا دوسرے مسلم ممالک انکو بچانے یا دفاع کا کام کرتے ہیں تو یہ تقیہ کرتے ہوئے دوسروں کو متحد نہیں ہونے دیتے اور کہتے ہیں کہ تم شیعہ سنی وار میں نہ پڑو اور خود سارے اثنا عشریہ شیعہ پوری دنیا میں سنیوں کے خلاف متحد ہیں

ایران اس صورت حال میں اگر حوثیوں کی مدد کر رہا ہے تو اصولی طور پر کیا غلط کر رہا ہے جب سعودی عرب خود اور اسکے حواری حوثیوں کے قتل عام میں شامل ہیں۔ میں نہ ایران کی مداخلت کے حق میں ہوں اور نہ ہی سعودیہ کی مداخلت کے حق میں
کہا گیا ہے کہ ایران کی مداخلت درست نہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ایران مداخلت کر رہا ہے ایران اگر انکار کرتا ہے تو وہ تقیہ کی وجہ سے ہو گا اسکی مثال ایسے ہی ہے جیسے شیعہ کی اکثر کتابوں میں جب ہم شیخین (ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما) کی فضیلت دکھاتے ہیں تو یہ ملعون کہتے ہیں کہ ہمارے معصوم اماموں نے یہ سب کچھ تقیہ کے تحت کہا تھا اصل قول انکا دوسرا ہے پس جب ہم ملعون خمینی کے ارشادات دیکھتے ہیں کہ ہمرا اصل انقلاب حرمین کی فتح ہے اور حزب اللہ کی ویڈیو دیکھتے ہیں جو یہا فورم پر بھی ہے جس میں حرمین پر قبضہ کا ذکر ہے اور بہت سی جگہوں پر انہیں لوگوں کا یہ بھی قول ذکر ہے کہ ہم مدینہ پر قبضہ کر کے اس میں دو بت (یعنی شیخین) کو نعوذ باللہ نکال دیں گے تو ایک صاحب عقل سنی پر یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ایران کا تقیہ کیا ہے اور اسکے دل میں کیا ہے

۔ یہ یمن کا مسلہ ہے اور انکو خود حل کرنا چاہیئے۔ یمن ایک آزاد ملک ہے اور اسکی اپنی فوج ہے اور پھر کسی بھی ملک کو دوسرے ملک کے معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم میں سے کچھ لوگ یہود و نصاری کی پیروی کریں گے پس آج ان میں سب سے بڑھ کر آج عبداللہ بن سبا یہودی کی اولاد ہی یہ کر رہی ہے چنانچہ جب ہم اللہ کے حکم اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم کو دیکھتے ہیں جو یہودیوں کو کہا گیا کہ تم لوگوں کو تو کہتے ہو کہ فلاں غلط کام ہے نہ کرو مگر خود سارے غلط کام ہی کرتے ہو پس یہ یہودیوں کی نسلا و مذہبا اولاد بھی یہی کر رہی ہے کہ یمن میں کہتی ہے کہ وہ یمن کا اپنا معاملہ ہے اور عراق اور شام میں جب اسکے معلون شیعوں کو سنی مجاہد مزا چکھاتے ہیں تو پھر انکی حالت وہی ہوتی ہے کہ دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت
ذرا یہ تو بتائیں کہ شام اور عراق میں بھی تو حکومتوں کے خلاف بغاوت ہجاری ہے جس میں ایرانی لڑ رہے ہیں اور پوری طاقت صرف کر رہے ہیں بھلا وہاں کہیں اتامرون الناس والی آیت کی پیروی کر کے اپنے یہودی النسل ہونے کا ثبوت تو نہیں دیا جا رہا

مغربی ، پاکستانی اور سعودی نواز میڈیا حوثیوں کو برابر باغی لکھ رہا اور کہہ رہا ہے۔ اسی کو دوہرا معیار کہتے ہیں، یمن میں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے حوثی اگر باغی ہیں تو معاف کیجئے پھر امن کے اور انسانی حقوق کے عالمی ٹھیکیداروں کو حق کی تشریح اور تعریف بدلنی ہو گی
ایک عقل کے اندھے سے بھی کوئی پوچھے کہ یہ ملعون حوثی اپنے حقوق تلاش کرنے عدن کیوں گئے تھے جہاں انہوں نے پرانے صدر منصور ھادی کا پیچھا کیا اور ان ملعونوں کا کون سا حق مارا گیا ہے کوئی اسکی بھی وضاحت کر دے
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کہ حقوق تو پورے ایران میں سنیوں کے چھینے جا رہے ہیں اس دفعہ کا جرار میں امیر حمزہ کا کالم دیکھیں اس میں انہوں نے ایران کی اصلیت واضح کی ہوئی ہے اس میں یہ بھی بتایا ہے کہ ایک دفعہ ایران جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ہر طرف حرمین کے خلاف نعرے لکھے ہوئے تھے اور انکو کافر کہا ہوا تھا اور جب سعودی عرب گیا تو وہاں ایران کے خلاف کچھ لکھا ہوا نہیں دیکھا
اسکے علاوہ حقوق کی آواز نیوٹرل ہو کر اٹھانی ہے تو کبھی افغانستان میں طالبان کے حق کو جو چھینا گیا ہے اسکی بھی آواز اٹھا لیتے
میں ان شیعوں کو ہی چیلنج دیتا ہوں کہ وہ ہی حق کی تعریف کر دیں جس میں فرقہ وارایت نہ ہو اور وہ یہ بغیر تقیہ کیے ہر جگہ اپلائی کرنے پر تیار ہوں تو پھر اس پر بات کر لیتے ہیں کہ یمن اور ایران اور عراق اور شام اور افغانستان میں اس تعریف کے مطابق ہمیں کیا کرنا چاہئے ہم سب آپ کے ساتھ متفق ہوں گے اگر آپ بھی اس تعریف پر عمل کریں گے اور اتامرون الناس والی خصلت ترک کر دیں گے

یاد رکھیں اکثریت کو کچھ عرصہ تو محکوم رکھا جا سکتا ہے لیکن ہمیشہ کے لیئے اقلیت اکثریت پر حکمرانی نہیں کر سکتی اور یہ ہم عراق کے معاملے میں دیکھ چکے ہیں۔ جمہوریت جمہوریت کا شور مچانے والے اکثریت کے اس حق کو یمن میں کیوں نہین تسلیم کرتے
اسکو کہتے ہیں چٹ بھی اپنی پٹ بھی اپنی- میرا خیال ہے کہ اب تو استاد یہودی بھی اپنے شاگردوں کی استادی پر رشک کر رہے ہوں گے
یعنی عراق میں اکثریت کے حقوق ان ملعون اقلیت نے غضب کیے ہوئے ہیں اور ادھر مکمل یمن میں بھی اقلیت میں ہونے کے باوجود یہ حقوق غضب کرنا چاہتی ہے اور دعوی کر رہی ہے پورے یمن میں اپنی اکثریت کا-
یہ کہ رہی ہے کہ تم اگر عراق میں ہمارے خلاف اکثریت سنیوں کے حقوق غضب کرنے پر شور مچا رہے ہو تو تم پھر یہاں یمن میں ہمارے اکثریت شیعوں (جو کہ اقلیت میں ہیں) کے حقوق کیوں نہیں دلوانے دیتے
اور پاکستانی شیعوں کو تو اس کی فکر کرنی چاہئے اور آواز اٹھانی چاہئے جو ایران اکثریتی سنی صوبوں میں سنیوں کے ساتھ کر رہا ہے پاکستان کے کسی بھی اکثریتی شیعہ محلہ ہی چلے جائیں تو آپ کو وہاں کھلے عام واہیات کی بھرمار نظر آئے گی مگر ایران میں سنیوں کے اکثریتی صوبوں میں بھی کس طرح سختی ہے اور انکو تبلیغ میں کس طرح رکاوٹیں ہیں اس پر بھی بات کر سکتے ہیں یا یہ حقوق کھٹے ہیں انگوروں کی طرح

جب سعودی فرمانروا نواز شریف کے استقبال کو خود ہوائی اڈے پر ائے تھے تو سیاسیات اور صحافت کے مجھ جیسے طالب علم نے بھی اسوقت یہ لکھا تھا کہ سعودی عرب کو پاکستان سے کوئی بہت بڑا غیر قانونی کام لینا ہے اور اب یہ عقدہ کھل گیا ہے
تھوڑے سے پٹرول اور خیرات کے ریالوں کے عوض ملکی غیرت اور حمیت کو سعودیہ کے ہاتھ رہن رکھنے والے ظالم حکمران تاریخ میں کس نام سے یاد رکھے جائیں گے۔ یہ فیصلہ آپ کیجئے۔
یہاں پر پاکستانی ملعونوں کی ایک اور منافقت واضح کرتا چلوں پھر تاریخ پر بھی بات کر لیتے ہیں
اگر ان شیعوں کو واقعی لگ رہا ہے کہ پاکستان سعودیہ کا ساتھ ریال کے لئے دے رہا ہے تو ذرا اس سے پہلے امریکہ کا ساتھ بھی تو افغانستان کے خلاف مشرف نے دیا تھا جسکو تمام سنی دینی جماعتوں نے غلط کہا تھا مگر شیعوں نے اسکو درست کہا تھا تو کیا وہاں بھی آپ کہتے ہیں کہ پاکستان نے امریکہ کا ساتھ ڈالر کے لئے دیا کیونکہ وہاں یہ شبہ زیادہ ہے کیونکہ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ ڈالر کے علاوہ کوئی مفاد ہی نہیں مگر سعودی عرب کے ساتھ ریال کے علاوہ ایک اور بہت بڑا مفاد ہے جو مکہ اور مدینہ کی صورت میں ہے جس پر یہ پاکستانی حکمران بھی اپنے ظلموں کے باوجود شاید کمرومائیز نہیں کرتے
پس یہ واضح ہے کہ ان کو پاکستان کی حکومت کا ریال یا ڈالر لے کر کچھ کرنے پر اعتراض نہیں بلکہ اس وقت شیعہ حمایت تنگ نہیں کر رہی ہے پس یہ بات ثابت کرتی ہے کہ یہ منہ سے تو فرقہ واریت کی نفی کرتے ہیں کیونکہ اقلیت میں ہونے کی وجہ سے انکے مفاد کے خلاف ہے مگر اصل میں اعمال فرقہ واریت والے ہی کر رہے ہیں اور ان اعمال پر ہمیں حیرت ہو رہی ہے مگر اللہ نے کہا کہ وما تخفی صدورھم اکبر کہ جو انکے دلوں میں ہے وہ بہت بڑا فساد ہے

اب تاریخ کی بات کرتے ہیں کہ اگر انکو شیعہ کی لکھی ہوئی تاریخ کی فکر ہے کہ اس میں ہم پاکستانیوں کے لئے اچھا نہیں لکھا جائے گا تو پہلے ان سے ہمیں کون سی اچھائی کی امید ہے اللہ نے تو کہا ہے کہ ولن ترضی عنک الیھود ولن النصاری ------ پس یہ بھی انہیں کے پیروکار ہیں تو جب تک ہم شیعہ کی پیروی نہیں کریں گے ایران خوش نہیں ہو گا اسی وجہ سے ان ملعونوں نے اپنی تاریخ میں نصیر الدین طوسی معلون کو کیا کیا لکھا ہوا ہے جس نے تقیہ کر کے عباسی خلیفہ کی تعریفیں کر کے وزارت لی اور اسکے ساتھ مکار شیعہ وزیر موید الدین وزارت عظمی پر تھا طوسی نے پھر تاتاریوں میں شمولیت اختیار کر لی تاکہ شیعہ اسلام کا بہت بڑا فائدہ ہو اور خلافت عباسیہ ختم ہو لیکن ساتھ اسنے شیعہ وزیر موید الدین سے رابطہ رکھا اور اسی وجہ سے تاتاریوں نے عباسی خلیفہ اور سارے مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دی تھیں اس نصیر الدین طوسی کے کرتوت تو میں جلد یہاں لکھوں گا پہلے خمینی کا اسکے بارے قول لکھ دوں وہ کہتے ہیں
"خوجہ نصیر الدین طوسی اور ان جیسے ہستیاں جنہوں نے اسلام (شیعہ ) کی جلیل القدر خدمات انجام دیں انکی موت کو لوگ خسارہ محسوس کرتے ہیں"
اور جگہ لکھتے ہیں
"اگر محض ظاہری طور (ظالموں کی حکومت میں) شامل ہونے سے اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی خدمت ہو سکتی ہے تو ایسے موقع پر تقیہ درست ہے جیسا کہ علی رضی اللہ عنہ، بن بقطین اور نصیر الدین طوسی شامل ہوئے تھے"
حوالہ خمینی کی الحکومۃ الاسلامیۃ ص 142
اور اگر سنیوں کی لکھی تاریخ کی بات ہو رہی ہے تو اس میں ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ س میں ہم نے ان ملعون طوسیوں اور علقمیوں کو اچھی طرح پڑھ رکھا ہے
 

محمدجان

مبتدی
شمولیت
مارچ 11، 2015
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
11
غصہ کمزور آدمی کی آخری کوشش اور وہابیت کی تو علامت ہے اس تحریر پر غور کریں
۔
یمن کا حالیہ بحران اور اِس کا پس منظر (حصہ اول)



اسلام ٹائمز: انصار اللہ نے پہلے تعزّ اور پھر عدن کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور عملی طور پر یمن کی حکومت خود سنبھال لی۔ انصاراللہ کی پیش قدمی دیکھ کر منصور ہادی اپنے پیشرو کی طرح سعودی عرب کے شہر ریاض فرار ہو گیا۔ اگلے ہی روز سعودی عرب کی قیادت میں GCC کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ منصور ہادی کی درخواست پر ہم یمن پر فضائی حملے شروع کرتے ہیں۔ اس فیصلے کی تائید کے لئے امریکہ سے رابطہ کیا گیا اور تائید ملنے کے بعد واشنگٹن میں مقیم سعودی سفیر نے اپنی پریس کانفرنس بھی اس شہر یعنی اپنے سیاسی قبلہ واشنگٹن میں کی اور حملوں کا اعلان کر دیا۔
یمن کا جغرافیہ اور جیو اسٹریٹیجک اہمیت سرزمین یمن دنیا کے نقشے پر براعظم ایشیا کے جنوب مغرب اور جزیرۃ العرب و مشرق وسطی کے جنوب میں واقع ہے۔ اس کی آبادی مسلمان اور تعداد میں لگ بھگ 2 کروڑ 40 لاکھ ہے۔ اس کا رقبہ 527229 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ یمن کے مغربی کنارے پر بحر احمر اور جنوبی کنارے پر بحر عرب واقع ہے۔ یمن کے مغربی کنارے پر واقع تنگ بحری راستہ باب المندب جیو اسٹراٹیجی کے اعتبار سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے، اور مشرق وسطٰی سے نکلنے والا تیل اپنی منزل یورپ کے لئے پہلے آبنائے ہرمز (جو ایران اور عمان کے درمیان واقع ہے) سے ہوتا ہوا، اسی تنگ بحری راستے پر پہنچتا ہے اور پھر اگلے مرحلے پر نہر سویز سے نکل کر یورپ کی طرف جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس تنگ بحری راستے سے سالانہ 20,000 بحری جہاز گزرتے ہیں۔ یمن کے شمال میں اس کی 1800 کلو میٹر طویل سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے جبکہ اس کی مشرقی سرحد پر عمان واقع ہے۔ یہاں کی آبادی میں تقریباً 30 فیصد آبادی زیدیہ شیعہ اور 12 فیصد شیعہ اثناء عشری اور اسماعیلی شیعہ مسالک پر مشتمل ہے۔ گویا یمن کی کل آبادی کا تقریباً 40 فیصد شیعہ مسالک پر مشتمل ہے، بقیہ آبادی سنی مسالک پر مشتمل ہے۔ جس میں اکثریت شافعی اہلسنت مسلمانوں کی ہے۔ ملک کی زیادہ تر زیدیہ مسلک کی آبادی شمالی حصے صعدہ میں آباد ہے، جس کی سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے اور سرحد کے اُس پار سعودی عرب کا علاقہ نجران (جو پہلے یمن کا حصہ تھا، نجران اورجا زان کے علاقے پر سعودی عرب نے 1934ء میں قبضہ کیا تھا) ہے، جس کے لگ بھگ 300 دیہاتوں میں بھی شیعہ زیدیہ مسلمان بستے ہیں۔ گویا سرحد کے دونوں اطراف شیعہ زیدیہ مسلک کے لوگ آباد ہیں۔ یمن کی 85فیصد آبادی قبائل کی صورت میں رہتی ہے اور ان کا مسلح رہنا معمول کی بات ہے۔ زیدیہ شیعہ مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق حوثی قبائل سے ہے اور یمن پر لگ بھگ ایک ہزار سال تک انہی زیدیہ کی حکومت رہی ہے۔

بیداری اسلامی اور یمن کی تحریک:
2011ء میں خطے میں اسلامی بیداری شروع ہوئی اور اس کے نتیجے میں تیونس، مصر اور لیبیا کی حکومتیں گریں، تو یمن میں بھی یمنی عوام صدر علی عبداللہ صالح (جوکہ امریکہ اور سعودی عرب کا پٹھو تھا) کے خلاف مظاہرے ہونے لگے۔ ان مظاہروں میں حوثی شیعہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اہلسنت شافعی مسلمانوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ مظاہرے پر امن تھے اور لاکھوں افراد دارالحکومت صنعا اور صعدہ کی سڑکوں پر بدستور نکل کر ایسی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ دہراتے رہے، جس کی بدعنوانی کی وجہ سے یمنی عوام کی زندگی دوبھر ہو چکی تھی۔ علی عبداللہ صالح ان مظاہروں سے تنگ آ کر فروری 2013ء میں اپنے آقا سعودی عرب روانہ ہوگیا۔ اس کے بعد سعودی عرب نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اس کے نائب عبدالرب منصور ہادی کو عبوری صدر بنا دیا۔ لیکن منصور ہادی نے اپنے پیشرو کی پالیسیوں پر عمل جاری رکھا اور عوامی مطالبات کو پس پشت ڈال دیا۔ 2014ء کے آخر میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا، جس سے عوامی بے چینی بڑھی۔ اسی دوران وزارت داخلہ اور دفاع کی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں القاعدہ جو مغربی یمن میں پچھلے کئی سال سے موجود تھی، اس نے پیش قدمی شروع کر دی۔ ان حالات میں حوثی شیعہ مسلمانوں کی تنظیم انصار اللہ فعال ہوئی اور اس نے دو محاذوں پر کام شروع کیا۔ ایک تو القاعدہ کے خلاف حکومتی سکیورٹی فورسز کو پسپا ہوتا دیکھ کر انصاراللہ کے مجاہدین میدان میں آگئے اور یمن کے دفاع کی جنگ شروع کر دی اور نتیجتاً القاعدہ کو واپس دور افتادہ علاقوں میں دھکیل دیا۔

اس عمل کے نتیجے میں یمنی عوام میں یہ شعور بیدار ہوا کہ جس میدان میں ہماری کٹھ پتلی حکومت ناکام ہو گئی ہے، اس میدان میں انصاراللہ یعنی حوثی شیعہ مسلمانوں کی تنظیم نے ملکی دفاع کو یقینی بنایا ہے، ورنہ القاعدہ کے درندے یمن میں بھی وہی داستان رقم کرتے جو شام اور عراق میں آج داعش کے درندے رقم کر رہے ہیں۔ دوسرا حوثی شیعہ عوام نے صفا میں حکومت کے خلاف مظاہروں کو شدید تر کر دیا، چونکہ یمن کے اہلسنت عوام دیکھ چکے تھے کہ القاعدہ کے ناسور کے خلاف حکومتی ناکامی کے بعد انصاراللہ کے جوانوں نے ملکی دفاع کیا ہے لہٰذا ان کا اعتماد بھی انصاراللہ یعنی حوثی تحریک پر بڑھ گیا اور یمن کے اہلسنت عوام بھی ان مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر شامل ہو گئے۔ پھر اس تحریک کے مطالبات بھی عوامی تھے، یعنی کسی موقع پر انہوں نے حکومت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی بلکہ عوامی مطالبات کو بھرپور طریقے سے اٹھایا۔ ان کے مطالبات یہ تھے۔
۱۔ پٹرول کی قیمت میں اضافے کو واپس لیا جائے
۲۔ چونکہ حکومت بدعنوان ہے لہٰذامستعفی ہواور ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنائی جائے۔
۳۔ قومی مذاکرت کے نتیجے میں ہونے والی سفارشات کی روشنی میں آئینی اصلاحات کی جائیں۔
مندرجہ بالا مطالبات میں سے کوئی مطالبہ بھی مسلکی نہیں تھا بلکہ تمام مطالبات قومی تھے۔

یمنی حکومت کی مکمل ناکامی:
شدید ترین مظاہروں کے بعدستمبر 2014ء میں ہونے والے معاہدے میں حکومتی کمیٹی نے یہ تسلیم کیا تھا، کہ ایک مہینے کے اندر اہلیت کی بنیاد پر حکومت قائم کرے گی اور انصاراللہ اور جنوبی یمن کی پر امن تحریک سے سیاسی مشیر مقرر کرے گی۔ اور مشاورت کے ساتھ یمن کے تمام حلقوں کی نمائندگی والی اچھی ساکھ کی حامل کابینہ نامزد کی جائے گی۔ ملک میں قائم ہونے والی دستوری کونسل میں توسیع کی جائے گی اور انتخابی اصلاحات عمل میں لائی جائیں گی۔ لیکن ایک ماہ کی ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد 7 نومبر 2014ء کو منصور ہادی نے تاخیر کے ساتھ 36 رکنی کابینہ کا اعلان کیا تو اس میں جانبدار اور بری ساکھ کے حامل افراد کو وزارتوں کاقلمدان سونپا گیا تھا۔ اس اعلان پر عوامی رد عمل اتنا شدید تھا کہ اگلے ہی روز خود منصور ہادی کی پارٹی نے منصور ہادی کو General Peoples Congress کے جنرل سیکرٹری کے عہدے سے فارغ کر دیا۔ اس 36 رکنی کابینہ میں حوثی مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے صرف 6 وزراء کا کوٹہ مقرر کیا گیا، جبکہ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو 36 رکنی کابینہ میں ان کے 14 سے 15 وزراء ہونے چاہیے تھے۔ دوسری طرف یمن میں شدت پسندوں نے عراق کی طرح یہاں بھی بم دھماکوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ نتیجتاً حوثیوں کی قیادت میں دیگر سنی مسلمانوں نے all out جانے کا فیصلہ کیا اور صدارتی محل کا گھیراؤ کر لیا۔ صدر منصور ہادی نے استعفٰی دے دیا اور اپنے محل میں محصور ہو گئے۔ چند روز محاصرے میں رہنے کے بعد حوثیوں نے انہیں فرار کا پراُمن راستہ مہیا کر دیا۔ اب منصور ہادی نے اپنی کابینہ کے ساتھ یمن کے جنوب میں موجود شہر عدن میں پہنچ کر اعلان کیا کہ وہ اپنا استعفٰی واپس لیتے ہیں اور عدن میں متوازی حکومت تشکیل دے دی۔ سعودی عرب سمیت دیگر عرب کٹھ پتلی حکومتوں نے اپنے سفارت خانے صنعا سے عدن منتقل کرلئے۔ اب ملک انتشار کا شکار ہونے لگا۔

منصور ہادی کے حمایت یافتہ مسلح جتھے صنعا کی طرف کاروائیاں کرنے لگے اور حکومت نام کی کوئی چیز یمن میں نہ رہی۔ ایسی حالت میں انصار اللہ نے ملکی دفاع کی خاطر فیصلہ کیا کہ وہ ملک کو منصور ہادی (جوکہ قانونی طور پر مستعفی ہوچکے تھے) کے مسلح گروہوں سے آزاد کرائے گی۔ لہٰذا انصار اللہ نے پہلے تعزّ اور پھر عدن کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور عملی طور پر یمن کی حکومت خود سنبھال لی۔ انصاراللہ کی پیش قدمی دیکھ کر منصور ہادی اپنے پیشرو کی طرح سعودی عرب کے شہر ریاض فرار ہو گیا۔ اگلے ہی روز سعودی عرب کی قیادت میں GCC کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ منصور ہادی کی درخواست پر ہم یمن پر فضائی حملے شروع کرتے ہیں۔ اس فیصلے کی تائید کے لئے امریکہ سے رابطہ کیا گیا اور تائید ملنے کے بعد واشنگٹن میں مقیم سعودی سفیر نے اپنی پریس کانفرنس بھی اس شہر یعنی اپنے سیاسی قبلہ واشنگٹن میں کی اور حملوں کا اعلان کر دیا۔ اگلے دن سعودی عرب کے 100 جنگی طیارے اور ڈیڑھ لاکھ فوجی یمن کی سرحد پر تعینات کر دئیے گئے اور تقریباً ایک ہفتے سے غریب یمنی عوام پر سعودی اتحاد میں شامل ممالک آگ برسا رہے ہیں۔ اب تک بیسیوں بچے، خواتین، اور عام شہری ان حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیکن انصار اللہ کے سربراہ عبدالمالک حوثی نے اعلان کیا ہے کہ وہ سعودی جارحیت سے خوفزدہ نہیں ہو نگے اور اپنی مقاومت اور سرزمین یمن کا دفاع جاری رکھیں گے۔ سعودی جنگی جنون اپنی سفاکیت میں اتنا آگے نکل چکا کہ پناہ گزیں کیمیوں اور فیکٹریوں پر حملہ کرکے نہتے شہریوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ (جاری ہے)

خبر کا کوڈ: 451666
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
غصہ کمزور آدمی کی آخری کوشش اور وہابیت کی تو علامت ہے اس تحریر پر غور کریں
۔
خبر کا کوڈ: 451666
یہودیوں کی اللہ نے نشانی بتائی تھی کہ تلبسوالحق بالباطل پس اسی کے تحت انکے نسلا اور مذھبا اولاد آج ناجائز غصہ اور ملعون کافروں کے خلاف دینی غیرت کو گڈ مڈ کر رہی ہے اس غیرت کے بارے قرآن نے کہا کہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم اور اسی جنگ میں انس بن نضر کے اکڑ کر چلنے کی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی تھی پس ہماری باتیں تو دینی غیرت کا نتیجہ ہیں ورنہ دوسری طرف شیعہ یا امریکہ کے پٹھووں سے ہٹ کر میری اس فورم پر تمام پوسٹوں کی گواہی سب بھائی دیں گے میں تو طالبان کے ساتھیوں اور مقلدوں وغیرہ سے بھی اپنی کوشش کے مطابق نرمی سے بات کرتا ہوں
اسکے برعکس غصہ کون کر رہا ہے یہ سب لوگ جانتے ہیں اور غصہ کمزور آدمی کو آتا ہے یا وہ جو دلائل سے خالی ہو تو غور کریں تو پتا چلے گا کہ کمزور ڈرپوک کون ہے اور ساتھ ہی دلائل سے خالی کون ہے
کمزور تو وہ ہوتا ہے جو میدان سجنے سے ڈرتا ہے اور وہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب یمن مین شیروں کا میدان سجا ہے تو سارے پاکستانی رفضی ڈرپوک اسکو شیعہ سنی جنگ نہ بنانے اور لڑائی نہ بڑھانے اور پاکستان کو نہ پھیجنے پر زور دے رہے ہیں تو یہ واضح کرتا ہے کہ ڈرپوک کون ہیں
اور دلائل سے خالی وہ ہوتا ہے جو پوچھے گئے سوالات کا جواب تو نہ دے سکتا ہو پس ادھر ادھر کی خبریں کاپی پیسٹ کر کے لگا دے
پس اوپر میں نے ایک ایک بات کا جواب دے کر چیلنج کیا تھا کہ انکے جواب دو مگر جواب نہ بن پڑنے کی صورت میں ایک ایسی خبر لگا دی کہ جس کے مخالف ہزاروں خبریں مجبور ہیں بھلا شیعہ عینک اترے گی تو دوسری خربیں نظر آئیں گی ورنہ ایران ایران کردے انہوں نے آپ ہی ایران ہو جانا ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ان رافضیوں نے اب پاک فوج کے یمن کا ساتھ دینے کی وجہ سے اسکے خلاف خباثتیں شروع کر دی ہیں اور فیس بک پر سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ انکے کچھ لوگوں کے خلاف مقدمہ بھی کر دیا گیا ہے جسکی ایک تصویر مندرجہ ذیل فیس بک پر گردش کر رہی ہے
گلگت:

3 روزقبل پاک آرمی اورگورنمنٹ کیخلاف ریلی نکالنےپرMWMگلگت ڈویژن کےرہنماءشیخ نیر،شیخ بلال اورشیخ سادات سمیت 8رہنماؤں پرغداری کامقدمہ درج۔

مقدمےمیں مجلس وحدت کےرہنماؤں پریمن کےحوثی شیعہ باغیوں کےحق میں ریلی نکالنےاورلوگوں کوجمع کرکےبغاوت پراکسانےکی دفعات لگائ گئ۔۔
گلگلت شیعہ کے خلاف مقدمہ.jpg

جب سے پاک فوج کے سعودی مدد کا پتا چلا ہے تو انہوں نے جو اپنی سائیٹس پر اور کمنٹ میں واضح لکھنا شروع کر دیا ہے کہ پاک فوج بکاو فوج ہے اور یہ یمن میں کتے کی موت مرے گی

mnwr hasan.jpg
میرے خیال میں یمن میں ہماری پاک فوج نہیں بلکہ اس فوج میں جو شیعہ رافضی ہوں گے وہ صرف کتے کی موت مریں گے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425

اب کوئی شیعہ ذرا بتائے کہ یمن میں جو حزب اللہ مدد کر رہی ہے اور ایران میں کر رہی ہے اور پاکستان میں لعین علامہ ناصر نے جو میڈیا پر کھل کر اس حزب اللہ کی حمایت کی ہے تو اس حزب للہ کے تو معاملات اوپر ویڈیو میں بتائے گئے ہیں کہ سعودی کافر اور بے دین اور ملحد لوگوں کو قتل کر کے حرمین میں نماز فاتحانہ ادا کرنا اس حزب اللہ (اصل میں حزب الشیطان) کا مقصد اور منہج ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425

محمدجان

مبتدی
شمولیت
مارچ 11، 2015
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
11
۔یمن میں مالک اشتر کی اولاد کے ہاتھوں جنگ احد ،صفین اور جمل کے باغی فراریوں کی نسل اپنی موت آپ مر چکی ہے داعش کے نام پر ماں بہنوں کو جھاد النکاح کی آڑ میں تاجک ازبک آفریقی و مغربی فوجیوں کے ہاتھوں بھجنے والے سعودی یہودی ایجنڈوں کی ظالمانہ شہنشاہی نظام خطرے میں ہیں جسے بہانہ بناکر تحفظ حرمین کے نعرے لگا کر دنیا کے سادہ مسلمانوں کے جزبات سے کھیل رہے ہیں آل سعودی کی پوری تاریخ مظالم اسلام سے خیانت کعبہ کی رائلٹی سے عیاشیوں سے عبارت ہے اگر مرد کے بچے ہیں تو یمن مجاہدین کے مقابلے میں خود کیوں نہیں آتے کیوں کراۓ کے قاتل برتی کرنے کی بھیگ مانگتے ہیں آ ج پاکستان میں سعودی و امریکی ٹکروں پر پلنے والے چند دہشت گرد تحفظ حرمین کی باتیں کررہے ہیں ان ملک دشمن ناصبی کتوں سے کوئی پوچھے کہ کس نے کس پر حملہ کیا ہے ارے نادان جاہلوں سعودیہ بارہ دنوں سے یمن کے شیعہ سنی مظلوموں پر حملہ کر رہا ہے نہ یمن سعودیہ پر جسکی مولانہ فضل الرحمن سمیت جماعت اسلامی اور تمام مزہبی سیاسی پارٹیوں نے مخالفت کی ہے سواے ن لیگ اور بعض دہشت گردے کے مراکز برای نام مدارس وناصبی مو لوں کے
تم جیسے نادان جاہل اور دشمن اہل بیت کے سوالوں کا جواب دینا اپنی توہین سمجہتا ہوں
 
Top