• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ تعاون کرنا چاھیے؟

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
متحد ہو کر کام کرنے والوں کے مقاصد مختلف ہوسکتے ہیں ، جیساکہ مشہور ہے کہ پاکستان میں بعض تخریبی کاروائیاں کرنے والے بعض مسلمانوں کا ہدف طاغوت کا خاتمہ ہوتا ہے ، جبکہ ان کو آلات تخریب کاری مہیا کرنے والے ’’ را ‘‘ یا ’’ موساد ‘‘ کے کافر ہوتے ہیں ۔
محترم -

اس نظر سے دیکھا جائے تو پھر تو "دو قومی نظریہ " بھی ان یہود و نصاریٰ کی کارستانی ہے - یعنی ہندوستان کو دومذاہب (ہندو مسلم ) کی بنیاد پر الگ الگ کردیا گیا - تا کہ ساری عمر لڑتے رہیں اور اسلحہ باٹنے کا کام انگریز کرتے رہیں - اور تا کہ مسلمانوں کو نظریہ جہاد کے جال میں پھنسا کر اسلحہ سازی کی تجارت کا فائدہ خود اٹھائیں- جب کہ دوسری طرف ہمارے نادان دانشور مسلمانوں کی اسلام کے نام پرقربانیوں کا ڈھنڈھورا پیٹتے رہیں-

اب ظاہر ہے کہ اگر ان یہودیوں سے بھیک میں ایف ١٦ طیارے نہ ملیں گے - تو ہمارے افواج تلواروں سے تو جہاد کرنے سے رہی- (جن کے نزدیک جہاد صرف ہندؤوں سے ہے - اسرائیلی دہشت گردوں سے نہیں)-
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
وزیر اعظم کے ہمراہ آرمی چیف بھی سعودی عرب جائیں گے، اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ

ویب ڈیسک 17 منٹ پہلے

وزیر اعظم اور آرمی چیف کے ساتھ سعودی عرب جانے والے وفد میں وزیر دفاع خواجہ آصف، طارق فاطمی اور سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری شامل ہوں گے، ترجمان وزیر اعظم ہاؤس فوٹو: فائل

اسلام آباد: وزیر اعظم نواز شریف ایک روزہ دورے پر کل سعودی عرب روانہ ہورہے ہیں جہاں ان کے ہمراہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی ہوں گے۔

ترجمان وزیر اعظم ہاؤس کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی، اجلاس میں سعودی حکام کی جانب سے یمن میں فضائی حملے بند کرنے اور تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے فیصلے کو سراہا گیا جب کہ وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب سے متعلق امور پر مشاورت بھی کی گئی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی سعودی عرب جائیں گے جب کہ وفد کے دیگر ارکان میں وزیر دفاع خواجہ آصف، طارق فاطمی اور سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری شامل ہوں گے۔

http://www.express.pk/story/349793/
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم -
اس نظر سے دیکھا جائے تو پھر تو "دو قومی نظریہ " بھی ان یہود و نصاریٰ کی کارستانی ہے - یعنی ہندوستان کو دومذاہب (ہندو مسلم ) کی بنیاد پر الگ الگ کردیا گیا - تا کہ ساری عمر لڑتے رہیں اور اسلحہ باٹنے کا کام انگریز کرتے رہیں - اور تا کہ مسلمانوں کو نظریہ جہاد کے جال میں پھنسا کر اسلحہ سازی کی تجارت کا فائدہ خود اٹھائیں- جب کہ دوسری طرف ہمارے نادان دانشور مسلمانوں کی اسلام کے نام پرقربانیوں کا ڈھنڈھورا پیٹتے رہیں-
اب ظاہر ہے کہ اگر ان یہودیوں سے بھیک میں ایف ١٦ طیارے نہ ملیں گے - تو ہمارے افواج تلواروں سے تو جہاد کرنے سے رہی- (جن کے نزدیک جہاد صرف ہندؤوں سے ہے - اسرائیلی دہشت گردوں سے نہیں)-
ایک غیر درست اعتراض کرکے آپ بات کو مزید غلط سمت لے کر جارہے ہیں ۔ حالانکہ اگر افواج پاکستان تلواروں سے جہاد نہیں کرسکتیں تو پھر جو آپ کے نزدیک ’’ دین کے مجاہد ‘‘ ہیں ، ان کی کونسی اپنی اسلحہ ساز فیکڑیاں ہیں ۔
سیدھی سی بات ہے ، مسلمان حکمران تو ان کے نزدیک طاغوت ہیں ، ویسے بھی بقول آپ کے مسلمان خود دوسروں سے اسلحہ لیتے ہیں ، تو ایسی صورت حال میں ان مجاہدین کی اسلحہ اور دیگر جنگی ضرورویات کیسے پوری ہوتی ہوں گی ۔ ایک ہی رستہ بچتا ہے ، کہ کفار کے خالص صدقات و خیرات اس نیک کام کے لیے صرف ہوتے ہوں گے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ایک غیر درست اعتراض کرکے آپ بات کو مزید غلط سمت لے کر جارہے ہیں ۔ حالانکہ اگر افواج پاکستان تلواروں سے جہاد نہیں کرسکتیں تو پھر جو آپ کے نزدیک ’’ دین کے مجاہد ‘‘ ہیں ، ان کی کونسی اپنی اسلحہ ساز فیکڑیاں ہیں ۔
سیدھی سی بات ہے ، مسلمان حکمران تو ان کے نزدیک طاغوت ہیں ، ویسے بھی بقول آپ کے مسلمان خود دوسروں سے اسلحہ لیتے ہیں ، تو ایسی صورت حال میں ان مجاہدین کی اسلحہ اور دیگر جنگی ضرورویات کیسے پوری ہوتی ہوں گی ۔ ایک ہی رستہ بچتا ہے ، کہ کفار کے خالص صدقات و خیرات اس نیک کام کے لیے صرف ہوتے ہوں گے ۔
اسلحہ کا خریدار بننا کوئی اتنا برا کام بھی نہیں - بشرط ہے کہ بیچنے والا اسلام دشمن نہ ہو- باقی رہے "دین کے مجاہد" تو ہمارے ملک کے یہ مجاہد جب تک "کفریہ جمہوریت کی چھتری تلے" جہاد کرتے رہینگے (چاہے نیک نیتی سے ہی کیوں نہ ہو) اس وقت تک غیر مسلم دنیا پر فتح حاصل نہ کرسکیں گے-
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
محمد عامر یونس بھائی حماس ایرانی حمایتی تنظیم ہے جس کہ سلفیوں کی دشمن ہے انہوں نے جو سلوک غزہ کے سلفیوں کے ساتھ کیا ہے وہ کوئی ڈھکا چھپا نہیں مدینہ یونیورسٹی کے فاضل طالب علم تک کو قتل کروایا ہے پہلے خود قید رکھا تھا ان کی زیرسرپرستی غزہ میں ماتم بھی شروع ہو چکا ہے اور یہ حزب اللہ کے بھی حمایتی ہیں
 

muntazirrehmani

مبتدی
شمولیت
فروری 24، 2015
پیغامات
72
ری ایکشن اسکور
20
پوائنٹ
18
اسکی کوئی دلیل کہ حماس نے ایسا کیا ھے
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
سعودی عرب کی امامت
شاہ سلمان بن عبد العزیز نے ایک حرف انکار بلند کیاا ور وہ امامت اور سیاست کے اعلی مرتبے پر فائزہو گئے۔عالم اسلام کو اپنے جس مسیحا کی تلاش ہے، شاہ سلمان کی شکل میں وہ ظہورر پذیر ہونے کو ہے۔سبق پھر پڑھ صداقت کا ، شجاعت کا، تجھے دنیا کی امامت کا فریضہ ادا کرنا ہے۔
امریکی صدر اوبامہ کا خیال تھا کہ اس کے پیش رو بش کے پوڈل ٹونی بلیئر کی طرح عرب حکمران اس کے ایک اشارے پر کچے دھاگے کی طرح کھنچے چلے آئیں گے مگر شاہ سلمان نے عرب ممالک کی مجوزہ کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی کے مالک ہیں۔ ان کا تنا ہوا سینہ دیکھ کر مسلم امہ کے ایک ایک فرد کا سینہ فخر سے فراخ ہو گیا۔
عالم اسلام کو ایک خودد دار لیڈر کی شدیدپیاس لاحق ہے،صدیاں گزرتی چلی جا رہی ہیں کہ غلامی کی زنجیریں ٹوٹتی ہی نہیں۔ایک تاریک سرنگ ہے جس کے دوسرے سرے پر روشنی کی لکیر تک نظر نہیں آتی، امید اور آس کا سرا ٹوٹ گیا ہے۔ڈالر اور کوکاکولاکے عفریت نے ہماری رگوں سے لہو کاآخری قطرہ بھی نگل لیا۔
سعودی عرب ان دنوں ایک سنگین بحران کی زد میں ہے مگر یہی تندی باد مخالف اسے بلندیوں کی جانب اچھال سکتی ہے۔اس نے یمن میں مداخلت کر کے اچھا کیا یا برا کیا، مگر یہ ا س کا سوچا سمجھا اقدام تھا۔ اورا س کی یہ توقع بجا تھی کہ وہ مسلم امہ کا محسن اور مربی ہے اور کوئی بھی اس کی آزمائش کے وقت میں اس کی مدد میںپس و پیش سے کام نہ لے گا۔
مگر مسلم دنیا کا رد عمل باکل ایک سو اسی ڈگری کا تھا، سعودی عرب کے لئے انتہائی غیر متوقع، اس کے لئے قطعی مایوس کن اور محسن کشی کے مترادف۔ پاکستان سے تو اس نے مدد مانگی اور ہماری پارلیمنٹ نے انکار کر دیا مگر دنیا میں پچاس سے زائد اور بھی ملک ہیں اور کوئی ملک فوجی طاقت سے محروم نہیں،کیا مجال کہ کہیں سے توپ کا ایک گولہ بھی سعودیہ بھجوایا گیا ہو، پاکستان میں سعودی حمائت کے لے جلو سوں پر جلوس نکلے، مگر کسی ایک رضا کار کی کشتی عدن کی بندر گاہ میں لنگر انداز نہ ہوسکی، یہ سب دودھ پینے والے مجنوں تھے، حیرت ہے کہ نصف صدی سے پیٹرو ڈالر پر پل رہے ہیں، ا ن کی گردنیں موٹی ہو چکیں اور توندیں پھٹنے کوآ گئیں۔وہ کر بھی کیا سکتے تھے سوائے روٹیاں توڑنے کے۔اور سعودی عرب کوبھی ایک تلخ تجربہ ہو گیا کہ اس نے دوسرے ملکوںکے ساتھ ملک اور قوم کی بنیاد پر نہیں، ایک محدود فرقے کی بنیاد پر جو تعلقات استوار کئے، وہ کام نہ آئے۔پاکستان ایک ملک ہے اور اس میںپاکستانی قوم بستی ہے۔ یورپ اور امریکہ ضرور یہاں کے مسیحی بھائیوں کی مدد کرتے ہوں گے اور انہیںکرنی بھی چاہئے مگرمغربی دنیا نے ہمارے ساتھ ہمیشہ قوم اور ملک کی سطح پر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی۔اس نے ہمیں خانوںمیںنہیں بانٹا، اب امید کی جا سکتی ہے کہ سعودی عرب بھی پاکستان کے ساتھ ایک ملک اور قوم کی بنیاد پر خارجہ پالیسی کو آگے بڑھائے گا۔
اقبال نے نہ جانے کیوں کہہ دیا کہ تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا جبکہ ہماری تقدیر تو ہمیشہ سے مکہ اور مدینہ سے جڑی ہوئی ہے، وادی بطحا سے اٹھنے والی ہوائوں نے ہماری تاریخ کے اوراق پلٹے ہیں۔سرزمین حجاز ہماری امیدوں اور آشائوں اور دعائوںکا منبع رہی ہے۔ ہم نے بہت عرصہ بغداد کے زیر سایہ بھی گزار لیا اور خلافت عثمانیہ کی باجگزاری بھی کر دیکھی مگر جو سکون وادی مکہ میں کعبہ کے غلاف سے لپٹنے اور مدینہ میں سنہری جالیوںکے سامنے درود و سلام میں ملتا ہے، اس پر سارے بغداد اور سارے قسطنطنیہ قربان کئے جا سکتے ہیں۔
کیوں نہ ہم پھر سے اسی سرزمین سے پیوست ہو جائیں۔کیوں نہ ہم ایک مرکز قائم کر لیں۔ایک زمانے میں مولانا محمد علی، مولا نا شوکت علی ا ور بی اماں نے تحریک خلافت شروع کی تھی، میرا بس چلے اور خدا میرے اندر توانائیاں پھونک دے تو میں عالم اسلام کو مکہ ومدینہ کے ایک مرکز کے نیچے اکٹھے ہونے کی تحریک شروع کر دوں، ہم الگ الگ کسی نہ کسی حکومت کے فرمان کو مانتے ہیں، کیوں نہ ایک مرکزی حکومت کے فرمان کے تابع ہو جائیں۔اپنی بکھری ہوئی قوت کو سمیٹ کر ایک مضبوط قوت میں ڈھال لیں۔پھر ہمیں کسی سے مدد مانگنے کی حاجت نہیں رہے گی، سارے عالم اسلام کی قوت اس مکہ و مدینہ کی ریاست اور امارت کے تابع ہو گی۔پھر پاکستا نی فوج ہو، ترک فوج ہو، مصری فوج ہو، اردنی فوج ہو، سبھی حرمین شریفین کے جاں نثار ہوں گے۔
امریکہ نے جو سلوک سعودی عرب سے روا رکھا ہوا ہے، اس کی وجہ سے یہ منزل جلد حاصل کی جا سکتی ہے، ہم شاید عمل کے قائل نہیں لیکن رد عمل میں بہت کچھ کرنے کی دھن رکھتے ہیں بلکہ کمال رکھتے ہیں۔امریکہ نے سعودی عرب سے آنکھیں بدلیں، ایران سے دوستی کی پینگ چڑھا لی، پاکستان کو دہشت گردوںکے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، شام میں خانہ جنگی سے لہو اور بربادی کا سونامی پھنکارا ٹھا، عرب اور افریقی ممالک میں عرب بہار کے نام پر خزائوںکے جھکڑ چلا دیئے۔
یہ لمحہ امت مسلمہ کے جاگنے کا ہے۔اس صورت حال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب آگے بڑھے، شاہ سلمان میںبجلیاں بھری ہیں، انکے ساتھ نوجوان شاہی نسل کے زند ہ و تابندہ جذبے ہیں۔یہ لوگ من و تو کی تفریق میں نہ پڑیں اور امت واحدہ بن کر اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لیں۔یقین کیجئے ہم اپنی ہی نہیں، کرہ ارض کی تقدیر بھی بدل سکتے ہیں۔
ایران کو اپنے رویئے میں اصلاح کی ضرورت ہے، وہ اپنی خواہشات کو فرمان میںنہ بدلے، دوسروں پر مسلط ہونے کی کوشش نہ کرے اور مسلم ممالک کو ڈکٹیشن نہ دے ، اپنی سلامتی کا تحفظ کرے اور دوسروں کی سلامتی اور خود مختاری کا احترام کرے۔اس میںکوئی شک نہیں کہ عالم اسلام نے انقلاب اسلامی کا خیر مقدم کیا تھا مگرا س انقلاب کو بر آمد کرنے کی خواہش ترک کر دی جائیئ، ایران کی بڑی مہربانی۔
مسلم امہ میںنجد وحجاز کے لئے بے حد احترام پایا جاتا ہے، اسی نکتے پر اتحاد کی کوئی صورت سامنے آنی چاہیے، شاہ سلمان خارجہ پالیسی کا انشی ایٹو لیں اور اتحا دو یگانگت کا پیغام لے کر مسلم عوام سے رابطہ کریں، یہ رابطہ ڈالر خور مولویوں کے بجائے خارجہ معاملات کی گتھیاں سلجھانے والے ماہرین کے ذریعے ہونا چاہئے، اکہتر میںمشرقی پاکستان پر برق رفتار جارحانہ یلغار سے پہلے اندرا گاندھی ملکوں ملکوں گھوم گئی تھیں، اسی طرح خود شاہ سلمان جہاز پکڑیں اور مسلم دنیا میں بیداری کہ لہر پیدا کرنے کے لئے تیز رفتار دورے کریں ہر مسلمان کی نبض پر ہاتھ رکھیں ، اس کے دل کو ٹٹولیں، کچھ بعید نہیں کہ سارے دل ایک ساتھ دھڑکنے شروع ہو جائیں ۔اسداللہ غالب(کالم نگار نوائے وقت)

کالم نگار سے متفق ہونا ضروری نھیں میرا،لیکن کچھ اہم نکات زیر بحث لایا ھے ۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
ہم نے سعودی عرب کو سمجھنے میں غلطی کی(اسداللہ غالب)

ہمیں یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ ہم پرائی آگ میں نہیں کود سکتے، ہمارا جواب یہ ہونا چاہئے تھا کہ اے ہمارے محسن اور برادر ملک! بارہ برس کی دہشت گردی کی جنگ نے ہمارا کچومر نکال دیا ہے، ہماری معیشت کا جنازہ اٹھ چکا اور ہمارا انجر پنجر ہل چکا، اس لئے ہم آپ کی مدد کے قابل نہیں رہ گئے۔
خدا کی پناہ! ہم نے سعودیہ کے مسئلے کو سمجھنے میں فاش غلطی کی، چلئے، اب ہی یہ غلطی مان لیں اور ایک بار پھر ہمارے وزیراعظم اور آرمی چیف سعودیہ جائیں اور شاہ سلمان سے کہیں کہ دنیا نے ہمارا بھرکس نکال دیا، ہم کسی کھیت کی مولی نہیں ہیں، وہ دن لد گئے جب ہم نعرے لگاتے تھے کہ پاکستان عالم اسلام کا قلعہ اور خلیج کے دہانے کا چوکس چوکیدار ہے۔
آج سعودی عرب نشانے پر ہے۔ اس کے ساتھ وہ باریک کھیل شروع ہو گیا ہے جو پاکستان،عراق، افغانستان، مصر، الجزائر وغیرہ میں کھیلا جا چکا۔ اس کھیل کا موجد رچرڈ ہالبروک تھا، وہ مرنے کو مرگیا مگر اپنے جراثیم پیچھے چھوڑ گیا، ہالبروک وہ ذات شریف ہے جس نے بوسنیا کے اس طرح ٹکڑے کئے جیسے سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کئے گئے تھے۔ عثمانی خلافت کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تو عالمی سطح پر یہ اصطلاح استعمال کی گئی کہ اس خطے کی بالقنائزیشن کی جا رہی ہے مگر جب رچرڈ ہالبروک نے بوسنیا کو ٹکڑوں میں بانٹا تو دنیا نے بالقنائزیشن کی بجائے ہالبروکنائزیشن کی نئی اصطلاح ایجاد کی۔ یہ شخص قوموں کو رنگ و نسل، علاقے اور صوبے کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سائنس کا پی ایچ ڈی تھا، مسلم ممالک میں اس نے فرقہ واریت کے بیج بوئے، سنی، شیعہ کی تقسیم پیدا کی، کافر بنانے کی فیکٹریوں کا بے دریغ لائسنس دیا۔ ایک خدا، ایک رسول ﷺ، ایک قرآن پر ایمان رکھنے والے ایک دوسرے کے خون کی پیاسے بنا دیئے گئے، مسجدوں، مزاروں، امام بارگاہوں، چرچوں، سکولوں پر حملوں اور جوابی حملوں کے ذریعے خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دی گئی۔
یہ آگ اب سعودی عرب تک پھیل گئی ہے، پہلے اس ارض مقدس کو حوثیوں کے خلاف صف آرا کیا گیا، سعودی عرب دہائی دیتا رہ گیا کہ اس کے وجود کو خطرہ ہے، حرمین شریفین کو خطرہ ہے مگر ہم نے اس کا مذاق اڑایا۔ ہم نے سعودی ایس او ایس پیغام کو ڈی کوڈ کرنے میں سنگین غلطی کا ارتکاب کیا، ہماری پارلیمنٹ نے بھی سعودیہ کو ٹھینگا دکھایا اور ہماری سول سوسائٹی نے بھی سعودیہ کے لتے لئے۔ ہم حال ہی میں سعودیہ کے اڑھائی ارب ڈالر ڈکار چکے تھے، ہماری جان کڑکی میں آئی ہوئی تھی تو ہم نے سعودیہ میں پناہ ڈھونڈھی، اب ہم مشکل سے نکل چکے تھے اورہ میں سعودیہ کی کوئی ضررو ت نہ تھی، اس لئے ہم نے سعودیہ کی درخواست کو در خور اعتنا نہ سمجھا۔
سعودیہ کا کیس خراب کرنے والوں میں وہ مذہبی طبقات پیش پیش تھے جو سال ہا سال سے پیٹرو ڈالر پر پل رہے ہیں، جن کی گردنیں موٹی اور توندیں باہر نکل آئی ہیں، جنہوں نے کاغذی مدرسے کھولے اور اپنے بینک اکاﺅنٹ بھر لئے۔ بھلا کیا جاتا تھا سینیٹر ساجد میر اور مولانا فضل الرحمن کا اگر وہ پارلیمنٹ کی قرارداد کے سامنے دیوار بن جاتے اور قوم کو سمجھاتے کہ سعودیہ کی اصل ضرورت کیا ہے اور ہما را کردار کیا ہونا چاہئے لیکن یہ بھلے مانس ایوان میں خاموش رہے اور باہر سڑکوں پر جلوس نکالنے لگ گئے، قوم کے فیصلے سڑکوں پر تو نہیں ہوتے۔ میرا خیال ہے کہ سعودیہ کو دوست دشمن میں تمیز کرنے کا ہنر آ گیا ہو گا۔
سعودی عرب میں دہشت گردی کی حالیہ واردات کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے اور دعا یہ ہے کہ یہ پہلی واردات نہ ہو، آخری ہو، سعودی عرب کو اللہ اس فتنے سے بچائے، وہاں حرم کعبہ ہے اور حرم نبوی ہے، لاکھوں زائرین صبح شام عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ ابھی رمضان کی آمد آمد ہے اور پھر حج کا سیزن شروع ہو جائے گا، اس لئے ہمیں گڑگڑا کر دعا کرنی چاہئے کہ اللہ اس سرزمین کو اپنی پناہ میں رکھے۔
کہنے کو تو ہم نے کہہ دیا کہ ہم پرائی آگ میں نہیں پڑتے، اس سے سعودی عرب کا دل بھی دکھا اور روح بھی زخمی ہوئی مگر خدا لگتی بات یہ ہے کہ ہم سعودی عرب کی مدد کے قابل ہی نہیں رہے، دہشت گردی نے ہمارا بھرکس نکال دیا، ہم ویسے ہی اتراتے پھریں، ڈینگیں مارتے پھریں تو اور بات ہے ورنہ ہم تو ہشت پا کے شکنجے میں ہیں، ہمیں تو لندن اور کراچی کے دو اصحاب للکار رہے ہیں کہ کسی چھڑی کا ڈر نہیں۔ واقعی کسی کو اس چھڑی سے کیا ڈر ہو گا۔ اس چھڑی میں تو ہم سو چھید کر چکے۔ بات بے بات ہم اس چھڑی پر برستے ہیں کہ اس نے مارشل لا لگا کر ملک کو تباہ کر دیا مگر کوئی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنا پسند نہیں کرتا کہ دوہزار آٹھ کے بعد جمہوریت بحال ہو گئی، عدلیہ بحال ہو گئی، میڈیا آزاد ہو گیا تو ہم نے اس ملک کا حال کیا کر دیا، نہ کھانے کو دو وقت کی روٹی، نہ پڑھنے کو کوئی سکول، نہ تن ڈھانپنے کو کپڑا، نہ دوا دارو۔ شاعر نے کہا تھا کہ گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن، اب ان پیروںکے گھر بھی تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ایک گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے جو زمین سے آسمان تک چھایا ہوا ہے۔
امت مسلمہ پر کئی بار برا وقت آچکا ہے، کبھی طائف، کبھی احد، کبھی کربلا ، کبھی سقوط بغداد، کبھی سقوط غرناطہ اور کبھی سقوط ڈھاکہ۔
اب ہم کسی سقوط کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ سعودیہ کے لئے ہماری جانیں حاضر ہیں، یہ سعودیہ پر احسان نہیں ، حرمین شریفین کی سرزمین ہمیں پکار رہی ہے، یہ پکار رہی ہے کہ اسے فرقہ واریت کے میدان جنگ میں تبدیل نہ کریں۔
کوئی ہے جو حوثیوں سے نبٹے، داعش سے نبٹے، بوکوحرام سے نبٹے،طالبان سے نبٹے، خود کش بمباروں سے نبٹے، را سے نبٹے، موساد اور سی آئی اے سے نبٹے، کیا مسلم دنیا میں کوئی ایک خالد بن ولید نہیں، کوئی ایک صلاح الدین نہیں۔ کوئی تو ہوگا جو ان فتنوں کا سر کچلے گا۔
 
Top