• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کسی کے پاوں احتراما چھونا جائز ہے

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
١۔ویسے پاوں چھونے میں تو کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ لیٹے ہوئے بچے کے پاوں چھونا یاوالدہ یا والد یا استاذ کی خدمت کے لیے ان کے پاوں دابنا وغیرہ
٢۔ لیکن جیسا کہ سائل نے سوال کیا ہے کہ کسی کے احترام کی غرض سے اس کے پاوں چھونا یعنی کھڑے سے اہتمام کے ساتھ بیٹھ کر اس کے پاوں کو ہاتھ لگانا تو فی زمانہ یہ ایک ہندوانہ رسم ہے اور ایسا کرنا ہندوانہ کلچر کے ساتھ مشابہت ہے لہذا اس سے اجتناب کرناچاہیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ۔(سنن ابی داود، کتاب اللباس، باب فی لبس الشھرة)
واللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
54
ری ایکشن اسکور
322
پوائنٹ
0
. Imam Trimidhi has quoted Safwan bin Assal as reporting one hadith on the same subject. He says: some people of the Jewish nation came to the Holy Prophet (blessings and peace be upon him). They questioned him and gave declared evidence that he is the true Prophet of Allah:
فَقَبَّلُوْا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ. وَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّکَ نَبِيٌّ.

“Then they kissed the blessed hands and feet of the Holy Prophet (blessings and peace be upon him) and said: we bear witness that verily you are the Prophet (blessings and peace be upon him) of Allah.”

This Hadith is narrated by Imam Nasai in as-Sunan (vol. 7, p. 111 # 4078); Ibn Maja, as-Sunan (vol. 2, p. 1221 # 3705); Tirmidhi in as-Sunan (vol. 5, pp. 77, 305 # 2733, 3144), Ahmad ibn Hanbal in al-Musnad (vol. 4, pp. 239, 240), Hakim in al-Mustadrak (vol. 1, p. 52 # 20), Tayalisi in al-Musnad (p. 160 # 1164); and Maqdisi in al-Ahadith al-Mukhtara (vol. 8, p. 29 # 18).



These muhadditheen authenticated this narration

وصححه كثيرون ، كالحافظ ابن حجر في "التلخيص الحبير" (5/240) ، وابن الملقن في "البدر المنير" (9/48) ، والنووي في "المجموع" (4/640) ، و"رياض الصالحين" (حديث 889) .


وقال المباركفوري رحمه الله :

والحديث يدل على جواز تقبيل اليد والرِّجْل .

"تحفة الأحوذي" (7/437) .


. Imam Bukhari has devoted a chapter on kissing the feet al-Adab al-Mufrad. He has reported the same Hadith mentioned above from Wazi` ibn Aamir in the following words on page number 339 and hadith number 975. He reports:
قَدِمْنَا فَقِيْلَ: ذَاکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم. فَأَخَذْنَا بِيَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ نُقَبِّلُهَا.

“We came to Madina, (we) were told: That was the Holy Prophet (blessings and peace be upon him). So we enveloped the blessed hands and feet of the Holy Prophet (blessings and peace be upon him) and began to kiss them.”،

Note that Bukhari made whole chapter of kissing feet, and

وجوَّد الحافظ ابن حجر إسناده في "فتح الباري" (11/57) Ibn Hajar in Fath al-Bari (1989 ed. 11:57 Isti'dhan ch. 28 #6265) said: "Among the good narrations in Ibn al-Muqri's book is the hadith of al-Zari` al-`Abdi."

one should put fatwa on Bukhari and Muslim, and we are not going to accept people of today so called self made muhadditheen and their jarha. we accept the authentications of classical muhadditheen/
. Highly respected student of Imam Ibn Taimiyya, Ibn Kathir, writes while narrating an incident in the interpretation of verse no 101 of Sura al-Maida that the Holy Prophet (blessings and peace be upon him) got annoyed over something:
فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه فَقَبَّلَ رِجْلَهُ وَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، رَضِيْنَا بِاﷲِ رَبًّا وَبِکَ نَبِيًّا وَبِالإِْسْلَامِ دِيْنًا وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا فَاعْفُ عَنَّا عَفَا اﷲُ عَنْکَ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّی رَضِيَ.

“Then Umar (may Allah be well pleased with him) stood up and he kissed the blessed feet of the Holy Prophet (blessings and peace be upon him) and said: O Prophet of Allah (blessings and peace be upon him)! We are pleased with Allah being Sustainer, your being the Prophet (blessings and peace be upon him), Islam being Din and the Holy Quran being guide and leader. Forgive us. Allah would further be pleased with you. So Umar (may Allah be well pleased with him) kept on saying so till he (blessings and peace be upon him) became pleased.”




Fath al-Bari (13:335) Al-Hafidh Ibn Hajr says that



خشية أن يكون لأمر يعم فيعمهم ، وإدلال عمر عليه ، وجواز تقبيل رجل الرجل



This Hadith is evidence for several things. Among them is that it’s PERMISSIBLE TO KISS SOMEONES FOOT!

الكتب-صحيح البخاري-كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة-كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة- الجزء رقم4



Now see imam muslim kissing feet of Bukhari




"تاريخ بغداد" (13/102) عن أحمد بن حمدون القصار قال : سمعت مسلم بن الحجاج وجاء إلى محمد بن إسماعيل البخاري فقبَّل بين عينيه ، وقال : دعني حتى أقبِّل رجليك ، يا أستاذ الأستاذين ، وسيد المحدثين ، وطبيب الحديث في علله .

وفي "تاريخ دمشق" (52/68) :

فقبَّل بين عينيه ، فقال : دعني حتى أقبِّل رجليك ، يا أستاذ الأستاذين ، وسيد المحدثين ، وطبيب الحديث . انتهى .



Hafiz Ibne hajar authenticated and said



حكاية صحيحة ، قد رواها غير الحاكم على الصحة ، من غير نكارة ، وكذا رواها البيهقي عن الحاكم على الصواب ، كما سنوضحه ؛ لأن المنكَر منها إنما هو قوله : "إن البخاري قال : لا أعلم في الدنيا في هذا الباب غير هذا الحديث الواحد المعلول" ، والواقع : أن في الباب عدة أحاديث لا يخفى مثلها على البخاري " .

والحق أن البخاري لم يعبِّر بهذه العبارة ، وقد رأيت أن أسوق لفظ الحكاية من الطريق التي ذكرها الحاكم وضعفها الشيخ ، ثم أسوقها من الطريق الأخرى الصحيحة التي لا مطعن فيها ، ولا نكارة ، ثم أبيِّن حال الحديث ، ومن أعلَّه ، أو صححه لتتم الفائدة ... .

"النكت على كتاب ابن الصلاح" (2/715 ، 716) .



Imam NAWAWI said it is allowed



وتقبيل رأسه ورِجله : كيَده .

"المجموع شرح المهذب" (4/636 ، 637)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
١۔
کیا کسی کے پاوں احتراما چھونا جائز ہے
آپ کے اس متعین سوال کا جواب اوپر بیان ہو چکا ہے۔
٢۔
السلام و علیکم اصل سوال پاوں چومنے کے بارے میں ہے اس بارے میں کچھ روایات اوپر دی ہیں براے میربانی ان کا جواب عنایت فرما دیں
ہم اس بارے یہ توجہ کئی بار دلا چکے ہیں کہ نیا سوال نئی پوسٹ میں کیا جائے۔ ہم اس کے لیے سائلین سے معذرت خواہ ہیں ۔
٣۔آپ کے اس دوسرے سوالنامہ کے بارے پہلے سے ایک طویل تحقیق پیش کرنے سے ایک اشکال یہ پیدا ہوا کہ آپ کی اس نقل کردہ تحقیق سے یہ محسوس ہوتاہے کہ آپ کچھ حوالہ جات کی روشنی میں ایک رائے تک پہنچے ہوئے ہیں تو پھر سوال کرنے کی کوئی وجہ جواز سمجھ نہیں آتی ہے۔ دوسرا آپ نے اس روایت کو صحیح کہنے والے محدثین کے نام تو نقل کیے ہیں جبکہ اس روایت کو ضعیف یا منکر کہنے والے محدثین کے نام سوال میں نقل نہیں کیے ہیں حالانکہ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جہاں سے یہ حوالہ جات نقل کیے گئے ہیں یعنی ’درر‘ نامی ویب سائیٹ سے تووہاں اس روایت کے ضعیف کہنے والوں کے بھی حوالہ جات موجود تھے۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تو یہ واقعتا ایک سائل کا سوال ہے تو ایسے سوالات کا جواب دینا اس سیکشن کا مقصود ہے اور اگر تو کسی صاحب علم کی اپنی تحقیق پر مبنی رائے کو پیش کرنا ہے تو اس کے لیے اوپن فورم زیادہ مناسب پلیٹ فارم ہے۔اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے کہ ایک مختلف فیہ روایت کی بنیاد پر اگر آپ اس موقف کے حامل ہیں کہ والدین یا استاذ یا پیر صاحب یا گدی نشین یا سادہ الفاظ میں طاہر القادری صاحب کے پاوں چومے جا سکتے ہیں لیکن مقصود کلام یہ ہے کہ اس مکالمہ کے لیے بہتر جگہ اوپن فورم ہے۔
اور اگر تو یہ ایک سائل کا سوال ہے تو سوال سے پہلے ہی اتنی تحقیق پیش کرنے کی ضرورت کیا ہے یا دوسرے الفاظ میں سوال کا جواب بھی ساتھ ہی نقل کرنے کی وجہ جواز سمجھ میں نہیں آ سکی؟یا سوال کے شروع میں ہی مختلف فیہ روایات کو صحیح قرار دیتے ہوئے اور ان کی بنیاد پر بعض اہل علم کے جواز کے فتاوی نقل کرنے میں کیا حکمت ہے؟ یہ معلوم نہ ہو سکی۔یعنی جب سوال میں ہی صحیح روایات سے استشہاد بھی موجود ہے اور جواب کے طور پر بعض اہل علم کی رائے بھی موجود ہے تو جواب کس چیز کا مطلوب ہے؟
میں اپنے محترم بھائی سے اس استفسار کے لیے معذرت خواہ ہوں لیکن ہم اس کے ذریعے اس طرف سائلین کو توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ سوالات وجوابات کا سیکشن ہم صرف سوال وجواب کے لیے ہی رکھنا چاہتے ہیں اور اسے اختلافات یا مکالمے یا سائل اور مجیب کے مابین مباحثے کا میدان نہیں بنانا چاہتے ہیں۔
 
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
54
ری ایکشن اسکور
322
پوائنٹ
0
السلام و علیکم بھائی اصل بات یہ ہے کہ میرا سوال نہیں نہ ہی میں کسی ایسی چیز کا قائل ہوں یہ سوال ایک بھائی نے مجھ سے کیا تھا اور یہ حوالہ جات بھی اسی بھائی نے فراہم کیے میرے پاس اس وقت زرائع نہیں تھے تحقیق کے اس لیے آپ بھائیوں سے پوچھا اگر برا لگا تو معذرت چاہتا ہوں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
١۔مجھے آپ کی کوئی بات بھی بری نہیں لگی ہے بلکہ جو بات اچھی لگی ہے وہ یہ ہے کہ غلطی نہ ہونے کے باوجود آپ نے معذرت کی ہے۔ بہرحال یہ رویہ عمدہ اخلاق حسنہ کی نشانی ہے۔
٢۔تحریر کا ایک بڑا نقص یہ ہوتا ہے کہ اس میں آپ کی بات تو آ جاتی ہے لیکن لب ولہجہ نہیں آتا لہذا ایک ہی عبارت سے ناراضگی اور عدم ناراضگی دونوں سمجھے جا سکتے ہیں۔ پس جب ہم کسی فورم پر بات کرتے ہیں تو اس وقت ہمارا لب ولہجہ، ہمارا تلفظ، ہمارا بات کرنے کا والیم، الفاظ کا اتار چڑھاو وغیرہ سب مخاطب کے سامنے نہیں ہوتے ہیں جس سے پیغا م اپنی مکمل صورت میں نہیں پہنچتا ہے۔
٣۔ آپ نے وضاحت کی کہ یہ آپ کا موقف نہیں ہے، اس سے خوشی ہوئی۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
١۔ جن اہل علم کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے تو ان کے نزدیک اس روایت کی توجیہ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ متقدمین میں سے امام نسائی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’منکر‘ کہا ہے جبکہ امام عقیلی رحمہ اللہ نے بھی اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ متاخرین میں سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’ضعیف‘ کہا ہے۔
٢۔متقدمین میں سے جن اہل علم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے تو ان میں سے ابن ملقن، ابن مفلح ، امام نووی اور اشبیلی رحمہم اللہ نے اسے ’صحیح الاسناد‘ کہا ہے۔ ایک روایت کے ’صحیح‘ اور ’صحیح الاسناد‘ ہونے میں جو فرق ہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں ہے۔ ’صحیح‘ روایت میں پانچوں شرائط موجود ہوتی ہیں اور محدث کی طرف سے صحت کا حکم سند اور متن دونوں پر ہوتا ہے جبکہ ’صحیح الاسناد‘ میں سند سے متعلق تین شرائط پائے جانے پر سند کے صحیح ہونے کا حکم لگایا جاتا ہے لیکن شذوذ اور علل کی تحقیق نہ ہونے کی بنا پر متن کی صحت کاحکم محدث نہیں لگاتاہے اور اس میں خاموش ہوتا ہے۔یعنی ان محدثین کے نزدیک اس روایت میں شذوذ اور علل کی نفی نہیں کی گئی ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے معلول روایت کہا ہے۔
٣۔اگر اس روایت کو سند اور متن دونوں اعتبار سے صحیح مان لیا جائے تو بھی ہر صحیح روایت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ قابل عمل بھی ہو مثلا منسوخ ، مرجوح اور متوقف فیہ روایات بھی صحیح ہوتی ہیں لیکن قابل عمل نہیں ہوتی ہیں اور یہ بات اصول حدیث کے طالب علم پر واضح ہے۔ہم نے اپنے ایک مضمون ’اہل سنت کا تصور سنت‘ میں اس بارے تفصیلی بحث کی ہے کہ ایک صحیح روایت پر عمل نہ ہونے کے کیا اصول وضوابط ہیں۔ان شاء اللہ فراغت ملتے ہی اس مضمون کو فورم پر شیئر کیا جائے گا۔
٤۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس روایت میں دو یہود کا طر زعمل بتلایا گیا ہے۔ کیا یہود یا کفار کے طرز قول وعمل پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سنت ہے؟ تو یقینا ایسا نہیں ہے بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال وافعال پر آپ کی تقریر سنت ہے۔ پس اس سنت کو تقریری سنت کہنا مشکل ہے اگرچہ اس میں شبہ یہ ہے کہ یہود کا یہ عمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ متعلق ہے اور اس شبہ پر غور کرنا چاہیے۔
٥۔بعض اوقات آپ کی تقریر کسی مسئلہ میں ناپسندیدگی کے ساتھ ہوتی ہے کیونکہ پیش نظر کوئی بڑی حکمت، مصلحت ، مفسدہ یا شرعی حکم ہوتا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کو دور جاہلیت کی بنیادوں پر قائم رکھا ہے حالانکہ آپ کی خواہش تھی کہ ابراہیمی بنیادوں پر اسے واپس لایا جائے اور پیش نظر لوگوں کے نیا نیا مسلمان ہونا تھا۔اسی طرح آپ نے گوہ کھانے میں طبعا کراہت محسوس کی حالانکہ آپ کے دستر خوان پر کھائی گئی ہے اور پیش نظر شرعی حکم کی وضاحت تھی۔
دو یہود کے مسئلہ میں پیش نظر کسی شرعی حکم کی وضاحت نہیں تھی کیونکہ تقبیل رجلین کا معاملہ یہود کاتھا بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لیے اس ظاہری جھکاو کے ذریعے ان میں باطنی جھکاو کے میلانات کے امکانات پیدا کرنا مقصود تھے کیونکہ انسان کے ظاہر کا بہرحال اس کے باطن پر اثر ہوتا ہے لہذا ان یہود پر اس لیے نکیر نہیں کی گئی کہ ان کے ظاہری جھکاو سے ان کے باطن میں بھی جھکاو پیدا ہو اور وہ ایمان لے آئیں اور یہ یعنی ان کا ایمان لانا ایک بہت بڑی حکمت تھی کہ جس کے پیش نظر ان کے فعل پر نکیر نہیں ہے۔
٦۔ اگر یہ فعل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پسندیدہ ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کثرت سے یہ مروی ہوتا کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاوں کا بوسہ لیتے تھےجبکہ ان کی محبت بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہود سے زائد تھی اور ان میں آپ کے جسم مبارک کو مس کرنے کا اشتیاق بھی حد درجے موجود تھا۔
٧۔پاوں کا بوسہ لینے کی اکثر حالتوں میں کم ازکم سجدے جتنا جھکنا پڑتا ہے اور اس کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے لہذا ان اکثر حالتوں میں پاوں کا بوسہ سجدے کے برابر کسی کے سامنے جھکنے کو بھی مستلزم ہے کہ جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
٨۔اگر بفرض محال مان لیا جائے کہ اس روایت سے پاوں کے بوسے کا جواز معلوم ہوتا ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس روایت میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اپنے آپ کو سجدہ کرنے سے منع کیا تھا، وہ اس پاوں کا بوسہ لینے والی روایت سے متاخر ہے لہذا پاوں کا بوسہ لینے کی وہ صورتیں جو سجدے کی پوزیشن یا حالت کو مستلزم ہوں ، منسوخ تصور کی جائیں گی۔
 
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
54
ری ایکشن اسکور
322
پوائنٹ
0
السلام و علیکم جزاک اللہ بھائی اس روایت پر زرا مزید روشنی ڈال دیں

"تاريخ بغداد" (13/102) عن أحمد بن حمدون القصار قال : سمعت مسلم بن الحجاج وجاء إلى محمد بن إسماعيل البخاري فقبَّل بين عينيه ، وقال : دعني حتى أقبِّل رجليك ، يا أستاذ الأستاذين ، وسيد المحدثين ، وطبيب الحديث في علله .

وفي "تاريخ دمشق" (52/68) :

فقبَّل بين عينيه ، فقال : دعني حتى أقبِّل رجليك ، يا أستاذ الأستاذين ، وسيد المحدثين ، وطبيب الحديث . انتهى .



Hafiz Ibne hajar authenticated and said



حكاية صحيحة ، قد رواها غير الحاكم على الصحة ، من غير نكارة ، وكذا رواها البيهقي عن الحاكم على الصواب ، كما سنوضحه ؛ لأن المنكَر منها إنما هو قوله : "إن البخاري قال : لا أعلم في الدنيا في هذا الباب غير هذا الحديث الواحد المعلول" ، والواقع : أن في الباب عدة أحاديث لا يخفى مثلها على البخاري " .

والحق أن البخاري لم يعبِّر بهذه العبارة ، وقد رأيت أن أسوق لفظ الحكاية من الطريق التي ذكرها الحاكم وضعفها الشيخ ، ثم أسوقها من الطريق الأخرى الصحيحة التي لا مطعن فيها ، ولا نكارة ، ثم أبيِّن حال الحديث ، ومن أعلَّه ، أو صححه لتتم الفائدة ... .

"النكت على كتاب ابن الصلاح" (2/715 ، 716) .



Imam NAWAWI said it is allowed



وتقبيل رأسه ورِجله : كيَده .

"المجموع شرح المهذب" (4/636 ، 637)
 
Top