یوم عرفہ کا روزہ
بشمول یوم عرفہ (ذوالحجہ کے نو دنوں ) کی فضیلت متفق علیہ حدیث میں موجود و ثابت ہہے :
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ يَعْنِي أَيَّامَ الْعَشْرِ. قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ ".
سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دنوں یعنی عشرہ ذی الحجہ کا نیک عمل اللہ تعالیٰ کو تمام دنوں کے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں جہاد بھی (اسے نہیں پا سکتا) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاد بھی نہیں، مگر ایسا شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور جان و مال دونوں ہی نہیں لوٹے “۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العیدین ۱۱ (۹۶۹)، سنن الترمذی/الصوم ۵۲ (۷۵۷)، سنن ابن ماجہ/الصیام ۳۹ (۱۷۲۷)، (تحفة الأشراف: ۵۶۱۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۴، ۳۳۸، ۳۴۶)، سنن الدارمی/الصیام ۵۲ (۱۸۱۴) (صحیح)
__________________________
اور وہ حدیث جس میں خاص روز عرفہ کے روزہ کی فضیلت وارد ہے وہ یہ ہے :
صحیح مسلم ، حدیث نمبر: 2746
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ جَمِيعًا، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ : رَجُلٌ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَيْفَ تَصُومُ؟، " فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غَضَبَهُ، قَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ، وَغَضَبِ رَسُولِهِ فَجَعَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُرَدِّدُ هَذَا الْكَلَامَ حَتَّى سَكَنَ غَضَبُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ كُلَّهُ؟، قَالَ: " لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ "، أَوَ قَالَ: " لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ، وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ: " وَيُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ: " ذَاكَ صَوْمُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ؟، قَالَ: " وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِكَ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ، صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ، وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور عرض کیا کہ آپ کیونکر رکھتے ہیں روزہ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے (یعنی اس لیے کہ یہ سوال بے موقع تھا۔ اس کو لازم تھا کہ یوں پوچھتا کہ میں روزہ کیونکر رکھوں) پھر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دیکھا تو عرض کرنے لگے: «رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِہم» ”راضی ہوئے اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر اور پناہ مانگتے ہیں ہم اللہ اور اس کے رسول کے غصہ سے۔“ غرض سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بار بار ان کلمات کو کہتے تھے یہاں تک کہ غصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھم گیا پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! جو ہمیشہ روزہ رکھے وہ کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ افطار کیا۔“ پھر کہا جو دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے وہ کیسا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی طاقت کس کو ہے۔ یعنی اگر طاقت ہو تو خوب ہے پھر کہا: جو ایک دن روزہ رکھے ایک دن افطار کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ روزہ ہے داؤد علیہ السلام کا، پھر کہا: جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں آرزو رکھتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت ہو۔“ یعنی یہ خوب ہے اگر طاقت ہو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین روزے ہر ماہ میں اور رمضان کے روزے ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان تک یہ ہمیشہ کا روزہ ہے یعنی ثواب میں
اور عرفہ کے دن کا روزہ ایسا ہے کہ میں امیدوار ہوں اللہ پاک سے کہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جائے اور عاشورے کے روزہ سے امید رکھتا ہوں ایک سال اگلے کا کفارہ ہو جائے۔“
صحیح مسلم ، الصیام
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی وہ روایت جس کا محولہ تحریر میں ذکر ہے وہ یہ ہے :
عن عائشة رضي الله عنها، قالت: «ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم صائما في العشر قط»
صحيح مسلم وكتاب الاعتكاف )
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ”میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی عشرہ ذی الحجہ میں روزے سے نہیں دیکھا۔
_______________
امام نووی ؒ اس کے تحت لکھتے ہیں :
قَالُوا وَهَذَا مِمَّا يُتَأَوَّلُ فَلَيْسَ فِي صَوْمِ هَذِهِ التِّسْعَةِ كَرَاهَةٌ بَلْ هِيَ مستحبة استحبابا شديدا لاسيما التَّاسِعُ مِنْهَا وَهُوَ يَوْمُ عَرَفَةَ وَقَدْ سَبَقَتِ الْأَحَادِيثُ فِي فَضْلِهِ وَثَبَتَ فِي صَحِيحِ الْبُخَارِيِّ إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قَالَ مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَفْضَلُ مِنْهُ فِي هَذِهِ يَعْنِي الْعَشْرَ الْأَوَائِلَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ فَيُتَأَوَّلُ قَوْلُهَا لَمْ يَصُمِ الْعَشْرَ أَنَّهُ لَمْ يَصُمْهُ)
__________________
جبکہ صحیح حدیث میں ذوالحج کے ابتدائی نو دنوں کے روزے رکھنے کا ثبوت نبی مکرم ﷺ سے ثابت ہے :
عن هنيدة بن خالد، عن امرأته، عن بعض، أزواج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم تسع ذي الحجة، ويوم عاشوراء، وثلاثة أيام من كل شهر، أول اثنين من الشهر والخميس»
سنن ابي داود ،باب صوم العشر ، سنن النسائي
ہنیدہ بن خالد کی بیوی سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ سے روایت کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے (شروع) کے نو دنوں کا روزہ رکھتے، اور یوم عاشورہ (دسویں محرم) کا روزہ رکھتے نیز ہر ماہ تین دن یعنی مہینے کے پہلے پیر (سوموار، دوشنبہ) اور جمعرات کا روزہ رکھتے "
امام الترمذی یوم عرفہ کی حدیث روایت فرماتے ہیں :
عن أبي قتادة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «صيام يوم عرفة، إني أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والسنة التي بعده» وفي الباب عن أبي سعيد.: «حديث أبي قتادة حديث حسن،
عرفہ کے دن کا روزہ ایسا ہے کہ میں امیدوار ہوں اللہ پاک سے کہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جائے ۔
امام ترمذی فرماتے ہیں ابو قتادہ کی یہ حدیث حسن ہے "
_______________________
قال الامام البخاري :
عَبد اللهِ بْن مَعبَد، الزِّمّانِيّ، البَصرِيّ.
عَنْ أَبي قَتادة.
رَوَى عَنه حَجّاج بْن عَتّاب، وغَيلان بن جَرير، وقَتادة.
ولا نَعرِفُ سماعه من أَبي قَتادة.
التاريخ الكبير
______________________________
قال ابن حجر في التهذيب :
"م 4 عبد الله" بن معبد الزماني1 البصري روى عن أبي قتادة وأبي هريرة وعبد الله بن عتبة ابن مسعود وأرسل عن عمر وعنه قتادة وغيلان بن جرير وثابت البناني والحجاج بن عتاب العبدي قال النسائي ثقة وقال أبو زرعة لم يدرك عمر قلت وقال البخاري لا يعرف سماعه من أبي قتادة وقال العجلي بصري تابعي ثقة وذكره ابن حبان في الثقات
___________________________
قال الذهبي في ديوان الضعفاء:
عبد الله بن معبد الزماني: عن أبي قتادة، قال البخاري: لا يعرف له سماع من أبي قتادة، قلت: لا يضره ذلك.
______________________
وقال الامام ابن حزم في المحلى(باب مسئلة صوم يوم عاشوراء ) :
وأما سماع عبد الله بن معبد من أبي قتادة فعبد الله ثقة - والثقات مقبولون - لا يحل رد رواياتهم بالظنون - وبالله تعالى التوفيق
________________________________
قال الشخ محمد بن صالح العثيمين
رابط المادة: http://iswy.co/e3ldh
هل وَرَدَ أن النبي لم يكن يصوم عشر ذي الحجة
السؤال: ورد في الحديث أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يكن يصوم عشر ذي الحجة فما الجواب عن ذلك؟ الإجابة: الحديث المشار إليه في صحيح مسلم عن عائشة رضي الله عنها قالت: "ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم صائماً في العشر قط"، وفي رواية: "أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يصم العشر". والجواب: أن هذا إخبار من عائشة رضي الله عنها عمَّا علمت، وقول الرسول صلى الله عليه وسلم مُقدَّم على شيء لم يعلمه الراوي، وقد رجح الإمام أحمد رحمه الله أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصوم هذه العشر فإن ثبت هذا الحديث فلا إشكال، وإن لم يثبت فإن صيامها داخل في عموم الأعمال الصالحة التي قال فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب إلى الله من هذه العشر"، والصوم من العمل الصالح. ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين المجلد العشرون - كتاب الصيام.
اس حدیث کے متعلق شبہات کے رد میں سعودیہ کے بڑے علمی ادارے (الرئاسة العامة لإدارات البحوث العلمية والإفتاء والدعوة والإرشاد ) کی طرف شائع ہونے والے مجلہ :
مجلة البحوث الإسلامية " میں بہت مفید بحث کی گئی ہے ،
ربط مجلہ البحوث الاسلامیہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عربی کی بقیہ عبارات کا ترجمہ ۔۔ ان شاء اللہ ۔۔ آئیندہ نشست میں کرتا ہوں ،