امام ترمذی ؒ نقل فرماتے ہیں کہ :
حدثنا إسماعيل بن موسى قال: حدثنا محمد بن عمر بن الرومي قال: حدثنا شريك، عن سلمة بن كهيل، عن سويد بن غفلة، عن الصنابحي، عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا دار الحكمة وعلي بابها». هذا حديث غريب منكر وروى بعضهم هذا الحديث عن شريك، ولم يذكروا فيه عن الصنابحي ولا نعرف هذا الحديث عن أحد من الثقات غير شريك. وفي الباب عن ابن عباس ‘‘
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں“۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب، اور منکر ہے، ۲- بعض راویوں نے اس حدیث کو شریک سے روایت کیا ہے، اور انہوں نے اس میں صنابحی کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ یہ حدیث کسی ثقہ راوی کے واسطہ سے شریک سے آئی ہو، اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
یہ روایت (موضوع) ہے ، (سند میں شریک القاضی حافظہ کے ضعیف ہیں اور شریک کے سوا کسی نے سند میں صنابحی کا ذکر نہیں کیا ہے، جس سے پتہ چلا کہ سند میں انقطاع بھی ہوا ہے، اس حدیث پر ابن الجوزی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے موضوع کا حکم لگایا ہے، ابن تیمیہ کہتے ہیں: یہ حدیث ضعیف بلکہ عارفین حدیث کے یہاں موضوع ہے، لیکن ترمذی وغیرہ نے اس کی روایت کی ہے بایں ہمہ یہ جھوٹ ہے، اس حدیث کی مفصل تخریج ’’ کتاب شیخ الاسلام ابن تیمیہ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ ‘‘ میں کی گئی ہے ، حدیث نمبر ۳۷۶)
قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(3723) إسناده ضعيف ¤ شريك عنعن (تقدم:112) ولم يثبت تصريح سماعه وللحديث شواهد ضعيفة
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6087) // ضعيف الجامع الصغير (6087) //
یہ روایت ترمذی میں ہے جس کی سند میں شریک بن عبداللہ نخعی صاحب ہیں جو ضعیف ہیں پھر یہ روایت مستدرک حاکم میں بھی ہے جس کی سند میں عبدالسلام صاحب ہروی ہیں وہ بھی ضعیف ہیں لہٰذا یہ روایت قابل اعتماد واحتجاج نہیں۔
وباللہ التوفیق