• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ حدیث صحیح ہے ’’ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ‘‘

شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
السلام علیکم
کیا یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ ذخیرہ حدیث میں کہی موجود ہیں.
"اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہو اور علی اس کا دروازہ "۔
علماء سے گزارش ہیں کی برائے مہربانی اسکا جواب دے.
جزاکم اللہ خیرا



گزارش:-جو بھی بھائی میری اس پوسٹ کو پڑے وہ میرے لئے شیخ خضر حیات اور ابن داود بھائی کو ٹیگ کردے کیونکہ مجھے ٹیگ کرنے میں کوئی مسئلہ پیش آرہا ہے.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
کیا یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ ذخیرہ حدیث میں کہی موجود ہیں.
"اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہو اور علی اس کا دروازہ "۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ــــــــــــــــــــــــــــــ

سوال :۔
جناب علی ؓ کے متعلق یہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے۔’’ کیا یہ حدیث صحیح ہے ،اگر صحیح ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے ہاں بیشتر احادیث زبان زدعام خاص وعام ہیں، لیکن ان کی اسنادی حیثیت انتہائی مخدوش ہوتی ہے۔ اس میں سے ایک یہ ہے جس کا سوال میں حوالہ دیا گیا ہے۔ اس روایت کو امام حاکم نے اپنی تالیف مستدرک میں بیان کیا ہے۔(مستدرک،ص:۱۲۶،ج۳)
یہ حدیث بیان کرنے کے بعد امام حاکم کہتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے اور ابو الصلت نامی راوی ثقہ اور باعث اطمینان ہے۔(تلخیص المستدرک ص:۱۲۶،ج ۳)
اس روایت کے متعلق ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ امام حاکم کا اس طرح کی باطل روایات کو صحیح قرار دینا انتہائی تعجب انگیز ہے اور اس کا ایک راوی احمد تو دجال اوردروغ گو ہے۔ اس کے بارے میں امام ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں کہ محدثین کے نزدیک یہ روایت ضعیف بلکہ موضوع ہے۔(احادیث القصاص،ص:۷۸)
خطیب بغدادی ،امام یحییٰ بن معین کے حوالے سے اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ روایت جھوٹ کا پلندہ اور اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ (تاریخ بغداد،ص:۲۰،ج۱۱)
یہ روایت مختلف الفاظ سے مروی ہے اور اس کے تمام طرق بےکار ہیں۔ امام جوزیؒ نے اس روایت کے تمام طرق پر بڑی سیر حاصل بحث کی ہے جو تقریباً چھ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ انہوں نے عقلی اور نقلی لحاظ سے اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں یہ حدیث کسی بھی طریق سے صحیح ثابت نہیں ہے۔ (موضوعات،ص:۳۵۳،ج۱)
اس روایت کے دوسرے الفاظ حسب ذیل ہیں:‘‘میں دانائی کا گھرہوں اور علی ؓ اس کادروازہ ہے۔’’(تر مذی ،کتاب المناقب :۳۷۲۳)
امام ترمذی ؒ اس روایت کوبیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں غرابت اور نکارت ہے۔ حافظ سخاوی ،امام دارقطنی کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہونے کے ساتھ ساتھ بے بنیاد بھی ہے۔ (المقاصد الحسنہ،ص:۹۷)
اس روایت کے متعلق امام ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں کہ امام ترمذی ؒ اور دیگر حضرات نےا سے بیان کیا ہے۔ ان کے بیان کرنےکے باوجود یہ محض جھوٹ ہے۔ (احادیث القصاص ،ص:۷۸)
علامہ ذہبی ؒ لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت کو امام ترمذیؒ نے اسماعیل بن موسیٰ سے انہوں نےمحمد بن عمر سےانہوں نے شریک سےبیان کی ہے مجھےمعلوم نہیں ان میں سے کس نے اسے وضع کیا ہے۔ (میزان الاعتدال ،ص:۶۹۸،ج۳)
علامہ شوکانی ؒ نے بھی اس روایت کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔ (الغوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ ،ص:۲۴۸)
اگرچہ حافظ ابن حجرؒ نے اسے کثرت طرق کی وجہ سے حسن کہا ہے لیکن ان کا یہ فیصلہ محل نظر ہے کیونکہ کثرت طرق سے روایت میں پایا جانے والا معمولی سقم تو دور ہوسکتا ہے لیکن بنیادی کمزوری اس سےرفع نہیں ہوتی ۔ چنانچہ محدث ابن الصلاح لکھتے ہیں : کثرت طرق سے ضعف رفع نہیں ہوتا وہ یہ ہے کہ اس روایت میں کوئی راوی متہم بالکذب ہو۔ (مقدمہ ابن الصلاح،ص:۳۱)
اس روایت کی سندمیں صرف تہمت زدہ راوی نہیں بلکہ کذاب اور جھوٹے راوی موجود ہیں۔ محدث العصر علامہ البانی ؒ نے بھی اسے موضوع قرار دیا ہے اور اس کے تمام طرق پر بحث کرکے اس کا خود ساختہ ہونا واضح کیا ہے۔ (ضعیف الجامع الصغیر:۴۱۶)
اس روایت کے مقابلہ میں ایک صحیح روایت ملاحظہ ہو جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔آپ نے فرمایا کہ ‘‘خواب میں میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا میں نے اس میں سے کچھ دودھ نوش کیا حتی کہ اس کی سیرابی میرے ناخنوں تک ٹپکنے لگی ۔میں نے اپنا بچاہوا دودھ عمرؓ کو دے دیا۔’’ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا:اس کی تعبیر کیا ہے؟آپ نے فرمایا:‘‘اس کی تعبیر علم ہے۔’’(صحیح بخاری کتاب تعبیر الرویا،باب رویۃ اللبن)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت کو نیچا دکھانے کےلئے مذکورۃ الصدر روایت کو وضع کیا گیا ہے۔
عرصہ ہوا کہ راقم نے اس روایت کی استنادی حیثیت ہفت روزہ ‘‘اہلحدیث ’’۳۱مارچ ۱۹۸۹ءمیں واضح کی تھی۔ اس کادفاع سید بشیر حسین بخاری نے پندرہ روزہ ‘‘ذوالفقار’’ پشاور میں کیا۔ ان کے مبلغ علم سے قارئین اس دفاع کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔بخاری صاحب نے حضرت علی ؓ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ تمام قرآن حکیم کا لب لباب بسم اللہ میں ہے اور بسم اللہ کا اس کی ب میں اور ب کا اس کے نقطہ میں جو اس کے نیچے ہے اور وہ نقطہ میں ہوں۔’’ پندرہ روزہ ذوالفقار مجریہ ،۱۶اپریل ۱۹۸۹)معتقدین اور متوسلین کو خوش کرنے کے لئے تو اس طرح کے بے کار روایات سہارابن جاتی ہیں ، لیکن علمی دنیا میں اس طرح کی روایات کا کوئی مقام نہیں ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج2ص467

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ علم کا دروازہ تھے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال :
کیا یہ صحیح ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا!کہ میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ علم کا دروازہ تھے۔(ایضاً)​
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ روایت مشہو ر تو بہت ہے مگر صحیح نہیں ہے۔علامہ ابن تیمیہ ؒ نے اسےموضوع قراردیا ہے۔اور اس کی سند پر کسی کواعتماد نہیں ہے۔
نیز علم کا دروازہ ہونا زو معنی چیز ہے۔اگردروازے سے یہ مفہوم ہے کہ آپ کے بغیرکسی کوعلم حاصل نہیں ہوا۔تو بھی غلط ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے براہ راست حضور ﷺ سے علم سیکھا۔اور دوسروں کو سکھایا۔ حضور ﷺ کی دیگر جتنی حدیثیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے پھیلایئں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو ان کا ہزارواں حصہ بھی روایت نہیں کیا۔ پھر علم لُدی سے مراد اگر وہ علم روحانی یا کشفی مراد ہے جو الہام سے حاصل ہوتاہے۔تو بھی بہت سے بزرگوں کو ہوتا رہا۔اس میں بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کوئی خصوصیت نہیں۔امت محمدیہ میں ایسے بے شمار اولیاء اللہ ہوئے ہیں۔جن کوالہام اور کشف ہوتے ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت سے ہمیں انکار نہیں۔مگر ان کی علمی یا شجاعت کی فضیلت کو ان سے مختص یا مخصوص کر دینا صحیح نہیں۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں بے شمار ایسے لو گ تھے۔جوعلم میں اورشجاعت میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑھ کر تھے۔بے شک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غزوات میں اپنی شجاعت کے جوہر دیکھائے۔مگر خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ طارق بھی کچھ کم نہ تھے۔شیعہ حضرات اگرتاریخ کا مطالعہ کریں تو خود ہی اس کا اعتراف کر لیں۔ (اخبار اہل حدیث سوہدرہ جلد 8 ش 48)


جلد 12 ص 133

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
امام ترمذی ؒ نقل فرماتے ہیں کہ :
حدثنا إسماعيل بن موسى قال: حدثنا محمد بن عمر بن الرومي قال: حدثنا شريك، عن سلمة بن كهيل، عن سويد بن غفلة، عن الصنابحي، عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا دار الحكمة وعلي بابها». هذا حديث غريب منكر وروى بعضهم هذا الحديث عن شريك، ولم يذكروا فيه عن الصنابحي ولا نعرف هذا الحديث عن أحد من الثقات غير شريك. وفي الباب عن ابن عباس ‘‘
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں“۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب، اور منکر ہے، ۲- بعض راویوں نے اس حدیث کو شریک سے روایت کیا ہے، اور انہوں نے اس میں صنابحی کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ یہ حدیث کسی ثقہ راوی کے واسطہ سے شریک سے آئی ہو، اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔

یہ روایت (موضوع) ہے ، (سند میں شریک القاضی حافظہ کے ضعیف ہیں اور شریک کے سوا کسی نے سند میں صنابحی کا ذکر نہیں کیا ہے، جس سے پتہ چلا کہ سند میں انقطاع بھی ہوا ہے، اس حدیث پر ابن الجوزی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے موضوع کا حکم لگایا ہے، ابن تیمیہ کہتے ہیں: یہ حدیث ضعیف بلکہ عارفین حدیث کے یہاں موضوع ہے، لیکن ترمذی وغیرہ نے اس کی روایت کی ہے بایں ہمہ یہ جھوٹ ہے، اس حدیث کی مفصل تخریج ’’ کتاب شیخ الاسلام ابن تیمیہ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ ‘‘ میں کی گئی ہے ، حدیث نمبر ۳۷۶)​

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(3723) إسناده ضعيف ¤ شريك عنعن (تقدم:112) ولم يثبت تصريح سماعه وللحديث شواهد ضعيفة



قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6087) // ضعيف الجامع الصغير (6087) //
یہ روایت ترمذی میں ہے جس کی سند میں شریک بن عبداللہ نخعی صاحب ہیں جو ضعیف ہیں پھر یہ روایت مستدرک حاکم میں بھی ہے جس کی سند میں عبدالسلام صاحب ہروی ہیں وہ بھی ضعیف ہیں لہٰذا یہ روایت قابل اعتماد واحتجاج نہیں۔
وباللہ التوفیق



 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791

میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے
(میں علم کا شہر ہوں۔ ابوبکراس کی بنیاد ہیں۔ عمر اس کی دیوار یں ہیں۔ عثمان اس کی چھت ہیں اورعلی اس کا دروازہ ہیں)

موضوع(من گھڑت) : " میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔"
امام ابن جوزی اور امام ابن تیمیہ نے اسے موضوع کہا ہے۔ (الموضوعات: 350/1) (أحادیث القصاص: ص 78)، مزید دیکھئے: (تذکرۃ الموضوعات: ص 95) (الآلی المصنوعۃ: 302/1)
تنبیہ :یہ روایت سخت ضعیف و مردودہے۔
٭ اس روایت کی سند میں اعمش اور ابو معاویہ (محمد بن خازم الضریر) مدلس ہیں اور روایت عن سے ہے۔
٭تیسرا راوی عبدالسلام بن صالح ابو الصلت جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف اور مجروح ہے۔
٭ چوتھے راوی محمد بن عبد الرحیم الہروہ کے حالات مطلوب ہیں۔ (ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ نمبر: 20 ، ص:15-16)


سعودی عرب کے مشہور مفتی اعظم شیخ عبداللہ بن البازکی تحقیق اورفیصلہ کہ حدیث "میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے"،حدیث نہیں کسی کاگھڑاہوا قول ہے۔

٭ امام عجلونی رحمہ اللہ کشف الخفاء میں فرماتے ہیں کہ: یہ حدیث سندکے لحا ظ سے مضطرب اور غیر ثابت ہے۔جیسا کہ امام داراقطنی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب العمل میں فرمایا ہے ۔
٭اور امام ترمذی فرماتے ہیں یہ قول بطور حدیث کہ نہیں پہچانا گیا۔
٭امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی سند صحیح نہیں ۔
٭نیز حضرت خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے امام یحیی بن معین سے نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ یہ اس قول کو حدیث کہنا سراسر جھوٹ ہے، اس کی کوئی بنیاد نہیں۔
٭علاوہ ازیں حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے موضوعات (من گھڑت) روایات میں شمار کیا ہے اور حافظ ذہبی وغیرہ نے ان کی تائید کی ہے۔
٭امام ابوذرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس روایت کو نقل کرکے نجانے کتنے لوگوں کو شرمندگی اٹھانی پڑی (اس کے جھوٹا ہونے کی وجہ سے)۔
٭امام ابوحاتم اور یحیی بن سعید فرماتے ہیں کہ یہ بے بنیاد روایت ہے،
٭اور حافظ ابن دقیق العید نے فرمایا ہے کہ محدثین نے اسے ثابت شدہ تسلیم نہیں کیا۔
٭(علاوہ ازیں اسی سے ملتی جلتی ایک اور روایت ہے) جسے دیلمی نے اپنی کتاب الفردوس میں نقل کیا ہے لیکن اس کی سند ذکر نہیں کی ۔ (جس سے پتہ چلے کہ راوی ثقہ تھے یا نہیں ) اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’میں علم کا شہر ہوں۔ ابوبکراس کی بنیاد ہیں۔ عمر اس کی دیوار یں ہیں۔ عثمان اس کی چھت ہیں اورعلی اس کا دروازہ ہیں۔‘‘
٭اس طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں اور معاویہ اس کی کنڈی ہیں۔‘‘
٭امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب المقاصدمیں فرماتے ہیں’’خلاصہ یہ کہ یہ تمام روایات ضعیف ہیں اور ان کی الفاظ سند کے لحاظ سے انتہائی کمزور ہیں۔
٭علامہ نجم الدین فرماتے ہیں:’’یہ تمام روایات ضعیف اور نہایت درجہ کمزور ہیں۔‘‘
٭شیخ ابن باز فرماتے ہیں:’’میں کہتا ہوں یہ روایات ضعیف نہیں بلکہ موضوع ہیں۔"

( اقتباس : التحفۃ الکریمۃ فی بیان بعض الأ حادیث الموضوعۃ والسقیمۃ)
 
Top