امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثني عبد العزيز بن إسماعيل بن عبيد الله ، أن سليمان بن حبيب حدثهم ، عن أبي أمامة الباهلي ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : لتنقضن عرى الإسلام عروة عروة ، فكلما انتقضت عروة تشبث الناس بالتي تليها ، وأولهن نقضا الحكم وآخرهن الصلاة.[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 251]۔
یہ سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں ولید بن مسلم ہے اوریہ تدلیس تسویہ کرنے والا اور تدلیس تسویہ کرنے والے راوی کی سند کے تمام طبقات میں سماع یا تحدیث کی صراحت ضروری ہے علامہ البانی رحمہ اللہ ایک دوسری حدیث کی تحقیق کرتے ہوئے ضمنا اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
عن جابر بن سَمُرَة السَّوَائي قال: كان رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يُطِيلُ الموعظة يوم الجمعة؛ إنما هن كلماتٌ يسيراتٌ. (قلت: حديث حسن، وقال الحاكم: " صحيح على شرط مسلم "! ووافقه الذهبي!) .
إسناده: حدثتا محمود بن خالد: ثنا الوليد: أخبرني شيبان أبو معاوية عن سماك بن حرب عن جابر بن سمرة السًوائي.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات إن كان شيبان سمعه من سماك، وهذا من جابر؛ فإن الوليد- وهو ابن مسلم الدمشقي- كان يدلس تدليس التسوية؛ فيُخشى- حين لا يكون إسناده مسلسلاً بالتحديث- أن يكون أسقط منه رجلاً فوق شيخه.
إلا أن الحديث على كل حال حسن؛ فإنه بمعنى حديث سماك أيضا عن جابر، المتقدم برقم (١٠٠٩) .[صحيح أبي داود - الأم (4/ 271) ].
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے :
تدليس الوليد بن مسلم وتسويته ليس بخاص عن الأوزاعي - ملتقى أهل الحديث
معلوم ہوا کہ تدلیس تسویہ والے راوی کی سند کے تمام طبقات میں سماع یا تحدیث کی صراحت ضروری ہے اور میرے ناقص مطالعہ کی حدتک اس روایت کے کسی طریق میں بھی سند کے تمام طبقات میں سماع کی صراحت نہیں ہے لہٰذا یہ سند ضعیف ہے ۔
لیکن حدیث کا یہ ٹکڑا
لتنقضن عرى الإسلام عروة عروة صحیح ہے کیونکہ اس کا شاہد ہے چنانچہ:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا هيثم بن خارجة ، أخبرنا ضمرة ، عن يحيى بن أبي عمرو ، عن ابن فيروز الديلمي ، عن أبيه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لينقضن الإسلام عروة ، عروة كما ينقض الحبل قوة ، قوة.[مسند أحمد ط الميمنية: 4/ 232]۔
اس کی سند حسن ہے اور اس میں بھی
لينقضن الإسلام عروة ، عروة کے الفاظ ہیں ۔
لہٰذا مذکورہ حدیث کے صرف اتنے الفاظ صحیح باقی
فكلما انتقضت عروة تشبث الناس بالتي تليها ، وأولهن نقضا الحكم وآخرهن الصلاة. والے الفاظ ثابت نہیں کیونکہ ان الفاظ کا کوئی شاہد نہیں اور جس منفرد سند سے یہ الفاظ نقل ہیں وہ ولید بن مسلم کی تدلیس تسویہ کے سبب ضعیف ہے ۔