السلام علیکم
قرآن پاک میں سورہ الفرقان آیت 63 ہے
وَعِبَادُ الرَّحْمَـٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَـٰمًا
لیکن جو ویب سائٹ انس نضر بھائی نے شئیر کی ہے اس میں آخری لفظ یوں ہے"سلاما"
وَعِبَادُ الرَّحْمَـٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا
مجھے ڈر ہے کہ یہ قرآن میں تحریف کے زمرے میں نا آ جائے۔اور میرے پاس جو قرآن مجید ہے جو سعودیہ عرب میں ہوتا ہے جس کا سافٹ وئیر بھی بنایا گیا ہے۔اس میں "س" پر "زبر" "ل" پر کھڑی زبر اور "میم" پر دو زبریں ہیں۔اس بارے میں وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرے بھائی
سَلَـٰمًا کو مکمل قرآن کریم میں لام کے بعد الف کے ساتھ لکھنا رسم عثمانی کی مخالفت ہے جو صحیح نہیں۔ اسے بغیر الف کے کھڑی زبر کے ساتھ لکھنا چاہئے۔ اسے بہرحال تحریف نہیں قرار دیا جا سکتا۔ البتہ کسی کتاب یا مضمون میں کوئی آیت کریمہ یا اس کا کوئی حصہ دیا جائے تو اس میں عام رسم کے مطابق بھی لکھنے کی کسی حد تک گنجائش ہے، البتہ اس صورت میں بھی رسم عثمانی کی موافقت بہرطور افضل ہے۔ واللہ اعلم
میں عام طور پر
Tanzil - Quran Navigator | القرآن الكريم سے آیات کریمہ شیئر کر دیتا ہوں، اگرچہ مجھے علم ہے کہ اس میں پاکستانی مصاحف کی طرح زبر زیر اور الفاظ وغیرہ کی غلطیوں سے بچنے کا تو مکمل اہتمام کیا گیا ہے، لیکن رسم وضبط کی کافی ساری علمی غلطیاں موجود ہے، دیگر کوئی ایسی ویب سائٹ میرے علم میں نہیں جس میں یہ غلطیاں موجود نہ ہوں تو میں گویا مجبورا اس ویب سائٹ سے آیات کریمہ شیئر کرتا ہوں۔
اس بارے میں انتہائی اختصار کے ساتھ عرض ہے کہ
علوم قرآن میں سے ایک عظیم الشان علم ’رسم عثمانی‘ کا ہے۔ کہ سیدنا عثمان نے اپنے دَور میں 12 رکنی کمیٹی کے ذریعے نہایت اہتمام کے ساتھ جب قرآن کریم کو جمع فرمایا تو اس رسم کے مطابق جمع فرمایا جس کی تعلیم کاتبین وحی کو نبی کریمﷺ نے معجزاتی طور پر دی تھی، اس کی نسبت سیدنا عثمان کی طرف صرف ان کے اہتمام کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ اور اس جمع پر وہاں موجود تمام صحابہ کرام کا اجماع ہوا تھا۔ یہ قرآن کریم کا جمع کرنا قراءات متواترہ - جن کی حجیت اور قرآنیت پر ہمیشہ تمام علماء کا اجماع رہا ہے - کے مطابق تھا۔ اکثر قراءات تو ایک ہی رسم میں سما جاتی تھیں۔ مثلاً
﴿ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴾ میں
مَـٰلك اور
مَلِكِ دونوں کی رسم ایک ہی ہے۔ لیکن بعض متواتر قراءات ایسی بھی ہیں جو ایک رسم کے مطابق لکھی نہیں جا سکتیں تھیں، مثلاً
﴿ وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرٰهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ ﴾ میں
ووصى اور
وأوصى دونوں متواتر قراءات موجود ہیں۔ جنہیں ایک ہی رسم سے نہیں لکھا جا سکتا، تو اس کا اہتمام سیدنا عثمان نے ایسے فرمایا کہ اس قسم کے کلمات جو پچیس تیس کے لگ بھگ تھے، مختلف مصاحف میں مختلف لکھوایا۔ لہٰذا سیدنا عثمان نے ایک ہی نسخہ تیار کروا کے اس کی کاپیاں نہیں بنوائی تھیں بلکہ چھ مصاحف تیار کروا کر پانچ کو قراء سمیت مختلف شہروں کی طرف سے روانہ کیا تھا، اور ایک اپنے پاس رکھ لیا تھا جسے مصحف امام کہا جاتا ہے۔ اس کمیٹی میں ایک لفظ ’التابوت‘ کے لکھنے میں اختلاف ہوا تھا کہ اس کی آخری تاء کو ’وقت‘ کی تاء کی طرح لمبا لکھا جائے یا ’ربوۃ‘ کی تاء کی طرح گول لکھا جائے۔ بالآخر سیدنا عثمان کی ہدایت کی روشنی میں یہی طے ہوا کہ لمبی تاء کے ساتھ لکھا جائے۔
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح منجد﷾ سے سوال ہوا کہ کیا قرآن کریم کی آیات کو توڑ کر لکھنا جائز ہے؟
ان کا جواب یہ تھا کہ رسم عثمانی کے علاوہ قرآن کریم کو لکھنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
ایک تو یہ کہ مکمل قرآن کریم کو بغیر رسم عثمانی کے لکھا جائے ... یہ کسی صورت جائز نہیں، کیونکہ اگر اس کی اجازت دی جائے تو کچھ لوگ رسم عثمانی کے بغیر قرآن کریم لکھ لیں گے اور لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد لوگ اسی خلافِ رسم شے کو ہی صحیح سمجھنا شروع کر دیں گے۔
دوسرا یہ کہ کتب یا مضامین وغیرہ میں بعض آیات کے کلمات کو بغیر رسم عثمانی کے لکھا جائے .... اس کی کسی حد تک گنجائش ہے۔
اس کے بعد انہوں نے مجمع فقہی اسلامی (مکہ مکرمہ) کی قرار داد دلائل کے ساتھ پیش کی ہے، جس میں قرآن کریم کی کتابت کیلئے رسم عثمان کے التزام کو واجب قرار دیا گیا ہے۔
آخر میں فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک قرآنی آیات کو کاٹ کر لکھنا کسی صورت جائز نہیں، ہم مکمل قرآن کریم کی کتابت کیلئے رسم عثمانی پر اکتفاء کو لازمی سمجھتے ہیں اور ہمارے نزدیک کسی کتاب یا مضمون میں کسی آیت کو تو رسم عثمانی کے بغیر لکھا جا سکتا ہے اگرچہ اس میں بھی رسم عثمانی کی رعایت رکھنا افضل ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
مکمل فتویٰ ملاحظہ کریں!
هل تعتبر كتابة الآيات بهذه الطريقة تحريفا للقرآن " إن اللـ هـ لا يغيّر ما بقومٍ حتى يغيّروا ما بـ أنفسهـــ م " فقد شاعت هذه الطريقة في المنتديات الحديثة ؟
الحمد لله
كتابة الآيات القرآنية على وفق القواعد الإملائية الحديثة ، وعلى غير الرسم العثماني له وجهان :
الأول : أن يكون ذلك بكتابة القرآن كله في مصحف .
والثاني : أن تكتب بعض الآيات في الكتب ، والمنتديات ، والمقالات .
وإذا أمكن التساهل في الأمر الثاني ، وسمحنا بكتابة الآية والآيتين في كتب العلم ، حسب قواعد الإملاء الحديثة ، فإن الأمر الأول وهو كتابة المصحف كله لا يسمح بها ، ولا يُتهاون فيها ، وذلك لقطع الطريق على العابثين الذين يمكن أن يجمعوا القرآن على هيئات مختلفة من الكتابة – غير الرسم العثماني – فيطول الزمان على الناس فيرون خلافاً بين نسخ المصاحف في العالم .
ومن هنا جاء قرار المجمع الفقهي في مكة المكرمة مؤيداً لما وصل إليه قرار كبار العلماء في المملكة العربية السعودية من منع كتابة المصاحف بغير الرسم العثماني .
ونص قرار المجمع الفقهي :
" .... فإن " مجلس المجمع الفقهي الإسلامي " قد أطلع على خطاب الشيخ هاشم وهبة عبد العال من جدة الذي ذكر فيه موضوع " تغيير رسم المصحف العثماني إلى الرسم الإملائي " ، وبعد مناقشة هذه الموضوع من قبل المجلس ، واستعراض قرار " هيئة كبار العلماء " بالرياض رقم ( 71 ) ، وتاريخ 21 / 10 / 1399هـ ، الصادر في هذا الشأن ، وما جاء فيه من ذكر الأسباب المقتضية بقاء كتابة المصحف بالرسم العثماني وهي :
1. ثبت أن كتابة المصحف بالرسم العثماني كانت في عهد عثمان رضي الله عنه ، وأنه أمر كتبة المصحف أن يكتبوه على رسم معين ، ووافقه الصحابة ، وتابعهم التابعون ، ومن بعدهم إلى عصرنا هذا ، وثبت أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي ) ، فالمحافظة على كتابة المصحف بهذا الرسم : هو المتعين ؛ اقتداء بعثمان ، وعلي ، وسائر الصحابة ، وعملاً بإجماعهم .
2. أن العدول عن الرسم العثماني إلى الرسم الإملائي الموجود حاليّاً بقصد تسهيل القراءة : يفضي إلى تغيير آخر إذا تغير الاصطلاح في الكتابة ؛ لأن الرسم الإملائي نوع من الاصطلاح ، قابل للتغير باصطلاح آخر ، وقد يؤدي ذلك إلى تحريف القرآن ، بتبديل بعض الحروف ، أو زيادتها ، أو نقصها ، فيقع الاختلاف بين المصاحف على مر السنين ، ويجد أعداء الإسلام مجالاً للطعن في القرآن الكريم ، وقد جاء الإسلام بسد ذرائع الشر ومنع أسباب الفتن .
3. ما يخشى من أنه إذا لم يلتزم الرسم العثماني في كتابة القرآن أن يصير كتاب الله ألعوبة بأيدي الناس ، كلما عنت لإنسان فكرة في كتابته اقترح تطبيقها ، فيقترح بعضهم كتابته باللاتينية ، أو غيرها ، وفي هذا ما فيه من الخطر ، ودرء المفاسد أولى من جلب المصالح وبعد اطلاع " مجلس المجمع الفقهي الإسلامي " على ذلك كله قرر بالإجماع تأييد ما جاء في قرار " مجلس هيئة كبار العلماء " في المملكة العربية السعودية من عدم جواز تغيير رسم المصحف العثماني ، ووجوب بقاء رسم المصحف العثماني على ما هو عليه ، ليكون حجة خالدة على عدم تسرب أي تغيير ، أو تحريف في النص القرآني ، واتباعاً لما كان عليه الصحابة وأئمة السلف رضوان الله عليهم أجمعين .
أما الحاجة إلى تعليم القرآن وتسهيل قراءته على الناشئة التي اعتادت الرسم الإملائي الدارج : فإنها تتحقق عن طريق تلقين المعلمين ، إذ لا يستغني تعليم القرآن في جميع الأحوال عن معلم ، فهو يتولى تعليم الناشئين قراءة الكلمات التي يختلف رسمها في قواعد الإملاء الدارجة ، ولا سيما إذا لوحظ أن تلك الكلمات عددها قليل ، وتكرار ورودها في القرآن كثير ككلمة ( الصلوة ) و ( السموات ) ، ونحوهما ، فمتى تعلَّم الناشئ الكلمة بالرسم العثماني : سهل عليه قراءتها كلما تكررت في المصحف ، كما يجري مثل ذلك تماماً في رسم كلمة ( هذا ) و ( ذلك ) في قواعد الإملاء الدارجة أيضاً .
رئيس مجلس المجمع الفقهي : الشيخ عبد العزيز بن باز .
نائب الرئيس : د . عبد الله عمر نصيف .
" فتاوى إسلامية " ( 4 / 34 ، 35 ) .
وعليه نقول :
لا وجه لإجازة كتابة الآيات بالطريقة الواردة في السؤال لسببين :
الأول : أنه لا يوجد قول بإباحة كتابة القرآن بأي كيفية ، والوارد في كلام أهل العلم : الرسم العثماني ، والرسم الإملائي ، وليست هذه الطريقة من أي منهما .
والثاني : أن في هذه الطريقة مشابهة لكتابات السحرة ، حيث يكتبون الآيات بتقطيع حروفها ، وتبديل أماكنها .
لذا فلا نرى جواز كتابة الآيات القرآنية بطريقة تقطيع الحروف ، ونرى الاكتفاء بالرسم العثماني لكتابة مصحف كامل ، أو على الطريقة الحديثة بحسب قواعد الإملاء إذا أردت كتابة آيات في كتاب أو مقال . وإن كان الأفضل – في هذه الحال أيضاً – أن تنسخ من المصحف برسمه العثماني . والله أعلم
اس بارہ میں اردو زبان میں تفصیلات جاننے کیلئے
ماہنامہ رشد قراءات نمبر اول، دوم وسوم میں رسم اور جمع قرآن سے متعلّق مضامین کا مطالعہ کریں!