محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
گروہِ منافقین
آدمیوں میں سے بعض ہیں جو (زبان سے) کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ ہرگز مومن نہیں۔۱؎ (۸) وہ خدا اور ایمان لانے والوں کو فریب دیتے ہیں حالانکہ کسی کو فریب نہیں دیتے مگر اپنے آپ کو اور نہیں سمجھتے۔(۹)ان کے دلوں میں بیماری ۲ ؎ہے ۔پھر خدا نے ان کی بیماری بڑھادی اور جھوٹ بولنے کے سبب ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (۱۰) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تومحض سنوارنے اور اصلاح کرنے والے ہیں۔(۱۱)خبردار رہو، وہی فساد کرنے والے ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔(۱۲) اور جب انھیں کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسے اور لوگ ایما ن لائے ہیں تو کہتے ہیں، کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لائیں جس طرح بے وقوف۳؎ ایمان لائے ہیں۔ خبرداررہو وہی بے وقوف ہیں لیکن جانتے نہیں۔(۱۳)
۱؎ یہ وہ گروہ ہے جو منھ سے تو اسلام کا اعتراف کرتا ہے لیکن دلوں میں بدستور کفر کی غلاظت موجود ہے ۔ اس لیے فرمایا کہ درحقیقت یہ لوگ مومن نہیں۔ یہ کوشش کرتے ہیں کہ خدا اور خدا پرست لوگوں کو دھوکہ میں رکھیںلیکن اس حرکت کاکیا فائدہ؟
زہر کو تریاق سمجھ لینے سے اس کی مضرت توزائل نہیں ہوجاتی جب دلوں میں کفر ہے توزبان کا اقرار اور اعتراف کسی طرح بھی مفید نہیں۔
۲؎ مقصدیہ ہے کہ یہ جتنا اسلام کی کامیابی پرکڑھتے ہیں، اللہ تعالیٰ اسی تناسب سے اسلام کو کامیابی بخش رہا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ دل میں نفاق وحسد کا مرض بڑھتا ہی جاتا ہے کم نہیں ہوتا۔
اس کو اپنی طرف منسوب کرنا یہ بتانا ہے کہ سب کام اللہ کی قدرت سے ہوتے ہیں،گو اس کا منشاء یہ نہیں کہ لوگ کفر اختیار کریں۔
۳؎ ایمان وکفر میں ہمیشہ دانائی وسفاہت کی حدود الگ الگ رہی ہیں۔ ایمان کی دعوت عقل وبصیرت کی دعوت ہے اور کفر وضلالت کی طرف بلانا درحقیقت بے علمی وجہالت پر آمادہ کرنا ہے۔کفر والے ہمیشہ اس غلط فہمی میں رہے کہ ایمان قبول کرنا گھاٹے اور خسارے کو خواہ مخواہ مول لینا ہے ۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے ۔ اَلاَ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَـھَآء۔ درحقیقت وہ خود بے وقوف ہیں۔ نفع ونقصان کو صرف مادیات تک محدود سمجھتے ہیں۔ نگاہوں میں بلندی نہیں ہے ، ورنہ دین ودنیا کی نعمتوں کا حصول کسی طرح بھی خسارہ نہیں اور مذہب تو کہتے ہیں اس نظامِ عمل کو جس کو مان کر فلاح دارین حاصل ہوجائے۔
حل لغات
{یُخٰدِعُوْنَ} فعل مضارع۔ باب مفاعلہ، اصل خَدَعْ کے معنی ہوتے ہیں مخالف کو ایسی بات کے یقین دلانے کی کوشش کرنا جو اس کا مقصد نہیں اور ایسے طریق سے کہ وہ بظاہر فریب دہ نہ ہو۔ {یَمُدُّھُمْ} مضارع معلوم۔ ڈھیل دیتا ہے۔ {یَعْمَھُوْنَ} مضارع معلوم۔ اصل العمہ۔ دل کا بصیرت سے محروم ہونا۔ بصیرت کے اندھے کو اعمہ کہتے ہیں۔ {اَلسُّفَھَآء} جمع سَفِیْہٌ۔ کم عقل۔ بے وقوف۔