• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہائے! میرے یوسف کا غم

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
ہائے! میرے یوسف کا غم


بشریٰ امیر

اولاد دنیا کی عظیم ترین نعمت ہے۔ اس نعمت کا کوئی نعم البدل نہیں اور پھر اولاد میں سے بیٹوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا کی زینت قرار دیا اور والدین کے لئے اس کا بیٹا واقعی زینت ہے۔ والد کے لئے بازو کی حیثیت سے اس کی طاقت اور والدہ کے لئے اس کے بڑھاپے کا سہارا اور محافظ۔ اسی لئے والدین اپنے بیٹے کو آنکھ کا تارابنا کر رکھتے ہیں۔ ہر دم اس پر نگاہ رکھتے ہیں۔ اسے ہر بری آنکھ سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بیٹا جب سکول و مدرسہ جانے کی عمر میں ہوتا ہے تو اسے محفوظ طریقے سے خود چھوڑ کر آتے ہیں۔ خود اپنی حفاظت میں ادارے سے واپس لے کر آتے ہیں۔ اگر بچہ اکیلا آتا جاتا ہے تو اس کی گھر واپسی تک دھڑکا لگا رہتا ہے۔ پھر ذرا دیر ہو جائے اور وہ گھر نہ پہنچے تو والدین کے دل بیٹھنے لگ جاتے ہیں۔ بچہ اگرڈھونڈنے سے بھی نہیں ملا تو ذرا اندازہ لگائیے کہ والدین کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ اے کاش! حسد کا شکار ہو کر رشتہ دار کے بچے کو اغوا کرنے والے یا پیسوں کے لالچ میں تاوان کے بدلے بچے کو اغوا کرنے والے یہ سوچ لیںکہ بچے کی جدائی کے غم میں والدین کے دل کس طرح پھٹتے ہیں۔ بچے کی جدائی میں خون کے آنسو روتے ہیں۔ کس طرح ہر سانس کے ساتھ آہیں نکلتی ہیں۔ کس طرح ایک ایک لمحہ ا ور ایک ایک پل گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ غم کے لمحے صدیوں پر محیط لگتے ہیں، راتیں کانٹوںپر گزرتی ہیں۔ گم ہوئے بچے کے والدین گھر کے دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ دن رات اس آس میں کہ کہیں سے ان کا بچہ واپس آ جائے۔ وہ بچے کی جدائی کے غم میں زندہ ہوتے ہوئے بھی زندہ لاش بن کر رہ جاتے ہیں۔ مرے کا تو صبر آ جاتا ہے لیکن گم ہو جانے والے کی جدائی پل پل تڑپاتی ہے۔ اے کاش! اغوا کرنے والے ایسی دکھ دینے والی جدائی کے غم کو سمجھ پائیں۔

آئیے! آج ہم بیٹے کی جدائی کے غم کا قصہ قرآن کے اوراق سے ملاحظہ کرتے ہیں کہ کس طرح حضرت یقعوبؑ کو اپنے پیارے بیٹے حضرت یوسفؑ کی جدائی کا غم اٹھانا پڑا۔

حضرت یعقوبؑ کے بارہ بیٹے تھے۔ ان میں حضرت یوسف علیہ السلام اور بن یامین ایک ماں سے اور دس بھائی دوسری ماں سے تھے۔ دس بھائی بڑے تھے اور یوسفؑ اور اس کا بھائی چھوٹے تھے۔ چھوٹے ہونے کی وجہ سے حضرت یعقوبؑ کو حضرت یوسفؑ سے والہانہ پیار تھا۔ حضرت یوسفؑ بہت خوبصورت اور حسین و جمیل اور باقی سب بھائیوں کی نسبت نیک سیرت بھی تھے انہی وجوہ کی بنا پر اپنے والد کی توجہ کا مرکز رہے۔ اس وجہ سے بڑے بھائی ان سے حسد کرنے لگے۔ کم سنی کی عمر میں انہیں ایک خواب آیا جس کا تذکرہ یوسفؑ نے اپنے باپ حضرت یعقوبؑ سے کیا اور کہا ”ابا جان! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں تو باپ نے کہا: ”میرے پیارے بیٹے! یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا ورنہ وہ تمہارے لئے بری تدبیریں سوچنے لگیں گے کیونکہ شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔ حضرت یعقوبؑ نے مختصراً خواب کی تعبیر بھی بیان فرما دی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں چنے گا اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے گا۔

حضرت یوسفؑ نے اپنے باپ کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اپنے خواب کو راز ہی رکھا یوسفؑ کے بھائی باپ کی حد سے زیادہ محبت کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ ان کے دل حسد سے بھر گئے تھے۔ اسی حسد کی آگ نے انہیں بھیانک فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ”یوسفؑ کے بھائیوں نے کہا: ”یوسف اور اس کا بھائی، ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں، حالانکہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں۔ ہمارا باپ تو صریح بھول میں ہے۔ (لہٰذا) یوسف کو مار ڈالو یا اسے کہیں دور پھینک دو اس طرح تمہارا باپ تمہاری طرف متوجہ رہے گا۔ پھر اس کے بعد تم نیک لوگ بن جانا۔ ان میں سے ایک نے کہا: ”یوسف کو مارو نہیں بلکہ اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو اسے گمنام کنویں میں پھینک دو کوئی آتا جاتا قافلہ اسے اٹھا لے جائے گا۔ پروگرام بنا کر پھر وہ اپنے باپ سے کہنے لگے آپ یوسف کے بارے ہم پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے خیرخواہ ہیں۔ اس طرح وہ یوسفؑ کو ساتھ لے جاتے ہیں انہیں کنویں میں ڈال دیتے ہیں اور جھوٹ موٹ کا قمیض کو خون لگا کر باپ کو بتاتے ہیں کہ اسے بھیڑیا کھا گیا۔ قمیض صحیح و سالم دیکھ کر کہ پھٹی نہیں تو یعقوبؑ نے کہا: تم لوگوں نے ایک بری بات کو بنا سنوار لیا ہے۔ خیر اب صبر ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو اس کے متعلق میں اللہ سے ہی مدد چاہتا ہوں۔ پھر یہاں سے گزرتے ہوئے قافلے کا ایک فرد پانی کی تلاش میں اس کنویں پر آیا تو اس نے ڈول لٹکایا دیکھا تو بول اٹھا بڑی خوشی کی بات ہے۔ یہاں تو ایک لڑکا ہے۔ بکاؤ مال سمجھ کر اسے چھپا لیا اور چند درہموں کے عوض حقیر سی قیمت میں بیچ ڈالا۔ اس طرح وہ عزیز مصر کے ہاتھ جا لگے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں سرزمین مصر کی بادشاہت عطا فرما دی۔ علم و حکمت بھی عطا فرمائی۔

اللہ فرماتے ہیں ہم نیک لوگوں کو ایسے ہی بدلہ دیتے ہیں۔ ادھر حضرت یعقوبؑ بیٹے کی جدائی میں ہر وقت روتے رہتے تھے۔ لیکن اللہ کی رحمت سے ناامید نہ تھے۔ انہیں بہر طور یقین تھا کہ وہ ایک دن ضرور یوسف کو پا لیں گے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ علاقے میں قحط پڑ گیا۔ یوسفؑ مصر کے بادشاہ تھے انہوں نے کافی غلہ محفوظ کر لیا تھا۔ اس لئے یوسفؑ کے بھائیوں کو غلہ لینے کے لئے آپ کے پاس آنا پڑا۔ حضرت یوسف نے افراد کے حساب سے غلہ دینے کے لئے بھائی بنیامین اور والد کو بھی ساتھ لانے کا مطالبہ کیا کہ ان کے حصے کا غلہ وہ آئیں گے تو انہیں دیا جائے گا۔ اب بیٹوں نے باپ کو منایا کہ وہ بنیامین کو ان کے ساتھ بھیج دیں باپ نے عہد و شرائط کے ساتھ بھیج دیا کہ اس کا خیال رکھیں گے لیکن حضرت یوسف نے حکمت عملی سے جو کہ قرآن میں مذکور ہے اسے اپنے پاس رکھ لیا۔ اب بھائی غلہ لے کر واپس آئے تو بنیامین کے اوپر لگے الزامات کو پختہ کر کے بتلایا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے۔ جس کی وجہ سے بادشاہ نے اسے روک لیا ہے۔ حضرت یعقوبؑ ان کی بتائی ہوئی بات پر اور بھی غمگین ہو گئے۔ اس واقعہ نے پرانے زخم کو پھر سے ہرا کر دیا۔ آپ کے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے۔ صبر ہی بہتر ہے۔ حضرت یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں کی طرف سے منہ پھیر لیا اور کہنے لگے ہائے یوسف! اور ان کی آنکھیں غم سے بے نور ہو گئیں اور وہ خود غم سے بھرے ہوئے تھے۔ تیسیر القرآن میں ہے کہ باپ کے منہ سے آہ سن کر بھی حاسد بیٹوں کو ان پر رحم نہ آیا بلکہ الٹا باپ کو ملامت کرنے لگے کہ اب اس قصہ کو چھوڑتے بھی ہو یا نہیں؟ یا اسی کے غم میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے؟ مغموم باپ نے انہیں جواب دیا کہ میں تمہیں تو کچھ نہیں کہتا۔ تم نے جو کچھ چاہا کر لیا میں تو اپنی پریشان حالی کو اللہ کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اسی سے صبر کی توفیق چاہتا ہوں کیونکہ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یوسفؑ ابھی زندہ ہے۔ قصہ مذکور ہے کہ یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کو غلہ بھی دیا اور بتلا بھی دیا کہ میں تمہارا بھائی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بنیامین ہے۔ بھائی اظہار ندامت سے چونک اٹھے۔ حضرت یوسفؑ نے کہا دیکھ لو اللہ نے ہم پر کیسی رحمت فرمائی اور ہم دونوں بھائیوں کو طویل جدائی کے بعد ملا دیا۔ پھر حضرت یوسفؑ نے اپنی قمیض دی اور کہا یہ لے جاؤ قمیض میرے والد کے چہرے پر ڈال دینا۔ ان کی بینائی لوٹ آئے گی۔ ادھر یوسفؑ بیٹے کی قمیض چلی ادھر باپ نے بیٹے کی خوشبو محسوس کر لی ، یہ ہے باپ بیٹے کا پیار اور اس کی انتہا، یوسفؑ نے کہا میرے باپ کو لے کر میرے پاس آ جاؤ، بیٹے کی قمیض باپ کے چہرے کو لگی اور وہ دیکھنے لگ گئے۔ بیٹوں سمیت مصر میں آ گئے، حضرت یوسفؑ نے والدین کو تخت پر بٹھایا اور اس کے گیارہ بھائی یوسفؑ کے آگے سجدہ میں گر گئے۔ یہ تھا وہ خواب جو حضرت یوسف نے دیکھا اور وہ کئی برس بعد پورا ہوا۔ بھائیوں نے باپ سے معافی مانگ لی۔ باپ نے رب سے بیٹوں کی مغفرت کی دعا کی۔

یہ تھا ایک باپ سے بیٹے کی جدائی کا ایک لمبا غم ناک قرآنی قصہ، کسی کے مال کو دیکھ کر آج بھی حسد کرنے والے اور تاوان کی خاطر بچے اٹھانے والے والدین کو اذیت سے دوچار کرنے والے سورہ یوسف سے سبق سیکھیں کہ یوسفؑ کے بھائیوں نے حسد کی آگ میں جل کر عظیم جرم کیا۔ معافی مانگی، باپ اور بھائی یوسفؑ نے معاف کر دیا۔ اللہ سے استغفار کر کے معافی مانگ لی۔ اللہ غور رحیم ہے۔ اللہ نے معاف فرما کر یہ قصہ قیامت تک کے لئے سبق بنا دیا کہ اغوا کرنے والے جدائی کی اذیت سے دوچار کرنے والے اپنی روش چھوڑ کر باز آ جائیں۔ معافی مانگ لیں تاوان کے نام پر جہنم کا سودا نہ کریں۔ حسد کی آگ میں جل کر کسی کے پیارے کو اغوا کر کے اسے اذیت سے دوچار کر کے جہنم کی آگ کو نہ بھڑکائیں۔ اے کاش! تیرے لئے اے اغواکار! سورہ یوسف کا سبق ہی راہ راست کا ذریعہ بن جائے۔

یااللہ! ہر ماں کا بچہ تیری حفاظت میں۔ جس کا بچہ گم ہو جائے وہ اللہ سے وہی دعا کرے جو حضرت یعقوبؑ مانگا کرتے تھے اللہ اس کا بیٹا ضرور اسے ملا دے گا۔ ان شاءاللہ

”انمااشکو بثی وحزنی الی اللہ“
(میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ سے ہی کرتا ہوں)

اے اللہ! جن کے پیارے گم ہیں ان سے ملا دے اور جن کے جگر گوشے اغوا کاروں کے ہاتھوں جان سے گئے ان کو اپنی جناب سے صبر عطا فرما دے۔ (آمین)
 
Top