۔
حق کو جتنا مرضی چھپالیں یہاں فرقہ جماعت غیر مقلدیت والے
چھپایا نہیں جاسکتا ویسے ہی جیسا کہ بجھایا نہیں جاسکتا سورج کو پھونکوں کے ساتھ
ناجانے کہاں کہاں کی باتیں تو کر رہے ہیں بار بار یہ نام نہاد اہل حدیث ۔نعرے تو لگاتے ہیں قرآن اور حدیث کو ہی دلیل ماننے کے مگر جب ان سے پوچھو کہ امام کے پیچھے قرآن پڑھنے کو واجب کہنے والی شخصیت کون ہے تو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سب غیر مقلدین جو کہ نام کے ہی غیر مقلد ہیں اور حقیقت میں ہیں اندھے مقلد ،وہ بھی امام اہلحدیث وحید الزمان ،گوندلوی،امرتسری،نزیر ،زبیر وغیرہ کے ۔ جب یہ علماء کہہ دیتے ہیں کہ امام کے پیچھے قرآن پڑھنا فرض واجب ہے تو پھر یہ اندھے بن کر ان کی تقلید کرتے ہیں اور اس تقلید میں حدیث بھی یاد نہیں رہتی اور قرآن کو بھی نہیں مانتے۔
میرا مشورہ ہے نام نہاد اہل حدیث نام چھوڑو اور قرآن اور حدیث کو ہی دلیل ماننے کا نعرہ بھی چھوڑ دو ۔ اب نئے نعرے بناؤ جیسے اہل حدیث کے تین اصول قرآن ،حدیث اور امام اہلحدیث کی اندھی تقلید۔
ناراض ہوتے ہو تو ہوجاؤ
غصہ کرتے ہو تو کرلو
کچھ بھی کرلو آپ لوگوں سے بڑا اندھا مقلد کوئی نہیں ۔ کیا ؟ آپ لوگ مولویوں کے مقلد نہیں ؟ تو پھر پیش کر کیوں نہیں دیتے فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ
ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے
حدیث رسول اللہ ﷺ ہو صریح و غیر معارض ۔ کسی تاویل شاویل کے بغیر،ایسا نہیں چلے گا جیسا کہ اب تک کر رہے ہو کہ اس بات سے اور اس اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ امام کے پیچھے قراءت کرنا واجب ہے یا فرض ۔ صریح الفاظ کے ساتھ فرمان رسول ﷺ پیش کریں ۔ مگر کیا کیا جائے آپ لوگ تو ہوئے انے مقلدین وہ بھی وحید الزمان و امرتسی و زبیر وغیرہ جیسے لوگوں کے ۔سوائے شور کرنے کے اور موضوع کو تباہ کرنے کے اور کچھ نہیں کیا ابھی تک ۔چلو میں تمہیں بتاتا ہوں مختصر ترین انداز میں کہ اہل سنت والجماعت امام کے پیچھے قراءت کرنے کو کیا سمجھتے ہیں ۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک
قال محمد لا قراءۃ خلف الامام فیما جھر فیہ ولا فیما لم یجھر و بذالک جاءت عامۃ الآثار وھو قول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ۔
موطا امام محمد رحمہ اللہ 94
امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے قراءت جائز نہیں ،نہ جہری نمازوں میں اور نہ سری نمازوں میں ۔اس کی تائید میں عام آثار وارد ہوئے ہیں اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔
حضرت امام محمد رحمہ اللہ 189ھ کا مسلک
قال محمد و بہ ناخذ لانری القراءۃ خلف الامام فی شیئی من الصلوٰۃ یجھر فیہ او لا یجھر۔
کتاب الآثار بروایت الامام محمد رحمہ اللہ ص23
امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ،یہی ہمارا مسلک ہے کہ ہم کسی بھی نماز میں خواہ جہری ہو یا سری ، امام کے پیچھے قراءت کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
یہ تو ہوا وہ فیصلہ جو کہ ہمیں امام کے پیچھے قراءت سے روکتا ہے خواہ جہری ہو یا سری نماز، اور آپ سے پھر یہ مطالبہ ہے کہ پیش کرو فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ "ہر نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے"
اور اور اور ۔اب دیکھو ۔غیر واجب کہنے والی جماعت کا بھی فرمان۔
حضرت امام مالک رحمہ اللہ 179ھ
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ 241ھ
حضرت امام زہری رحمہ اللہ 125ھ
حضرت امام سفیان ثوری رحمہ اللہ 161ھ
حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ 198ھ
اور اسحٰق بن راہویہ رحمہ 238ھ کا مسلک
وجملۃ ذالک ان القراءۃ غیر واجبۃ علی الماموم فیما جھربہ الامام ولافیما اسربہ نص علیہ احمد فی روایۃ الجماعۃ و بذالک قال الزھری و الثوری و ابن عیینۃ و مالک و ابوحنیفۃ و اسحٰق۔
مغنی ابن قدامۃ ج1ص566
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مقتدی پر قراءت واجب نہیں ہے نہ جہری نمازوں میں نہ سری نمازوں میں ۔۔۔۔امام احمد رحمہ اللہ نے صراحت کے ساتھ یہ بیان کیا ہے کہ جیساکہ علماء کی اک جماعت نے ان سے نقل کیا ہے،اور امام زہری رحمہ اللہ،سفیان ثوری رحمہ اللہ،سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ،اور اسحاق ابن راھویہ رحمہ اللہ بھی اسی بات کے قائل ہیں
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ 204ھ کا مسلک
نحن نقول کل صلاۃ صلیت خلف الامام والامام یقراء قراءۃ لا یسمع فیھا قراء فیھا۔
کتاب الام جلد7 صفحہ 166
اور ہم کہتے ہیں کہ ہر وہ نماز جو امام کے پیچھے پڑھی جارہی ہو اور امام ایسی قراءت کر رہا ہو جو سنی نہ جاتی ہو تو مقتدی ایسی نماز میں قراءت کرلے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ 561ھ کا فرمان
وکذالک ان کان ماموما ینصت الی قراءۃ الامام و یفھما۔
غنیۃ الطالبین مترجم ص592
ایسے ہی اگر نماز پڑھنے والا مقتدی ہے تو اس کو امام کی قراءت کے لئے خاموش رہنا چاھئیے اور اس کی قراءت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاھئیے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ 728ھ
فالنزاع من الطرفین لکن الذین ینھون عن القراءۃ خلف الامام جمہور السلف و الخلف و معھم الکتاب و السنۃ الصحیحۃ والذین اوجبو ھا علی الموموم فحدیثھم ضعفہ الائمۃ۔
تنوع العبادات ص86،
مسئلہ زیر بحث میں نزاع تو طرفین سے ہے لیکن جولوگ امام کے پیچھے قراءت سے منع کرتے ہیں وہ جمہور سلف و خلف ہیں اور ان کے ہاتھ میں کتاب اللہ اور سنت صحیحہ ہے اور جولوگ امام کے مقتدی کے لئے قراءت کو واجب قرار دیتے ہیں انکی حدیث کو ائمہ حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے۔
امام شافعی ؒ صرف سری نماز میں قراءت کرنے کا فیصلہ دیتے ہیں
شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ جہری نماز میں مقتدی کو سننے کا حکم دیتے ہیں
ابن تیمیہ ؒ ترک قراءت خلف الامام کے قائل افراد کو جمہور قرار دیتے ہیں
یہ ہیں چند امتیوں کے فیصلے اور آپ سے اک بار پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ مانگتا ہوں کہ دکھاؤ فیصلہ اگر واقعی اہل حدیث ہو تو ورنہ نام بدل لو اپنے فرقے کا ۔
مزید آگے چلتے ہیں
واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون
اعراف204
اور جب قرآن پڑھاجائے تو اس کی طرف کان لگائے رکھو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم ہو۔
1
عن یسیر بن جابر قال صلی ابن مسعود رضی اللہ عنہ فسمع ناسایقرؤن مع الامام فلما انصرف قال اما آن لکم ان تفقہوا اما آن لکم ان تعقلوا واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا کما امرکم اللہ۔
تفسیر طبری جلد9
حضرت یسیر بن جابر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نماز پڑھی اور چند آدمیوں کو امام کے ساتھ قراءت کرتے سنا۔جب آپ رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو،جب قرآن کریم کی قراءۃ ہوتی ہو تو تم اس کی طرف توجہ کرو اور خاموش رہو جیسا کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں حکم دیا ہے۔
2
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ فی قولہ تعالٰی واذا قری القران فاستمعوا لہ و انصتوا یعنی فی الصلوٰۃ المفروضۃ
کتاب القراءۃ للبیہقی
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالٰی کے ارشاد واذا قری القرآن۔الآیۃ کے متعلق مروی ہے کہ یہ فرض نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
3
عن ابن عمر قال کانت بنو اسرائیل اذا قراءت اسمتھم جاوبوھم فکرہ اللہ ذٰلک لہذہ الامۃ قال واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا۔
الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور جلد3
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے امام جب قراءت کرتے تھے تو بنی اسرائیل ان کی مجاوبت کرتے تھے ،اللہ تعالٰی نے یہ کام اس امت کے لئے ناپسند فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو۔
4
عن عبداللہ بن المغفل فی ھذہ الآیۃ واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا قال فی الصلوٰۃ۔
کتاب القراءۃ للبیہقی
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ آیت کریمہ واذا قری القرآن کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
5
قال ابن تیمیۃ الحرانی وذکراحمد بن حنبل الاجماع علی انھا نزلت فی ذالک فی الصلوٰۃ وذکرالاجماع علی انہ لا تجب القراءۃ علی الماموم حال الجہر۔
فتاوٰی کبری جلد2صفحہ168
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع ذکر کیا ہے کہ یہ آیت واذا قری القرآن فاستمعوا ۔الآیۃ۔نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے نیز اس پر بھی اجماع نقل کیا ہے کہ جب امام اونچی آواز سے قراءت کررہا ہو تو مقتدی پر قراءت واجب نہیں ۔
پس یہ بھی ثابت شدہ بات ہے کہ آیت واذا قری القرآن فاستمعوا ۔الآیۃ مقتدی کو خاموش رہ کر امام کی قراءت کی طرف توجہ کرنے کا حکم دیتی ہے۔ الحمدللہ
اب رہی بات یہ کہ یہ آیت واذا قری القرآن فاستمعوا ۔الآیۃ مدنی ہے یا مکی؟ تو پہلے میں اک سوال آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہو
سوال:
سورہ اعراف کو مکی سورۃ کہنے والی شخصیت کا نام بتائیے؟
مجھے یقین ہے کہ پچھلے سوال کی طرح اس سوال کا جواب بھی نہیں آئے گا ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے ایک روایت نقل کرتے ہیں :
أخبرنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحافظ رحمه الله أنا عبد الرحمن بن الحسن القاضي ، نا إبراهيم بن الحسين ، نا آدم بن أبي إياس ، نا ورقاء ، عن ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عن مجاهد ، قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ في الصلاة فسمع قراءة فتى من الأنصار فنزل وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا
(کتاب القراءۃ للبیھقی ؛ص107)
اس روایت میں ذکر ہے کہ آپ صلى الله علیہ وسلم جب قراءت فرما رہے تھے تو ایک انصاری نوجوان کی قراءت سنی تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ بات واضح ہے کہ انصار مدینہ منورہ ہی میں تھے یا مکہ میں ؟ یقینا مدینہ میں ہی تھے ۔ تو ثابت کیا ہوا ؟ کم از کم مزکورہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی۔
امید ہے اب کوئی نام کا ہی سہی، اہل حدیث میرے سوال کا جواب دے ہی دے گا۔ کہ
واجب کہنے والی شخصیت کا نام کیا ہے ؟
شکریہ