• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!

شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ قَالَ: حَدَّثَنَا الْبُخَارِيُّ قَالَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً جَهَرَ فِيهَا فَقَرَأَ خَلْفَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: «لَا يَقْرَأَنَّ أَحَدُكُمْ وَالْإِمَامُ يَقْرَأُ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ»

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ ایک جہری نماز پڑھا رہے تھے،تو آپ کے پیچھے کوئی آدمی قراءت کر رہا تھا،(نماز مکمل ہونے کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"تم میں سے کوئی بھی کچھ نہ پڑھے اس حال میں کہ امام قراءت کر رہا ہو
سوائے سورۃ فاتحہ کے۔" قراءت خلف الامام از امام بخاری(34)
یہ روایت متعدد اسناد کے ساتھ بہت سی کتب میں مذکور ہے۔


امام بخاری پر حکم خیال سےلگایئے گا نہیں تو روٹی بند ہوجائے گی کیوں کہ تکمیل بخاری کا اشتہار تو آپ کا ہم سے بھی زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ یہ میرے گھر کے ساتھ ہی جامعہ خیرالمدارس ہے اگر کہتے ہیں تو ان سےلے کر یہاں اپ لوڈ کر دیتا ہوں۔(کانا آئیکون)

آپ نے حدیث پیش کی زید رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم کے حوالے سے ہمیں اس سے کوئی اختلاف نہیں کیوں کہ یہ اوپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے کہ کچھ نہ پڑھو سوائے فاتحہ کے لازمی بات ہے کہ زید رضی اللہ عنہ کا بھی یہ ہی مقصد تھا،جیسا کے امام نووی رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کیا ہے،حدیث رسول کے مقابلے میں زید رضی اللہ عنہ مفرد ہیں جب کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی روایات کثرت کے ساتھ مذکور ہیں۔
یہ مقلدین بڑے عجیب ہیں اگر تو صحابی کی بات اپنے موافق آ جائے تو بس باقی سب لوگ صحابہ کے گستاخ ہو جاتے ہین،اگر اپنے خلاف آ جائے تو سیاسی فیصلہ کہہ کر دم دبا لیتے ہیں۔


مثال کے طور پر: عمر رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت تروایح کی روایت سندا ضعیف ہے اور ان کے علماء بھی اس کا اقرار کر چکے ہیں،جب کے موطا امام مالک میں گیارہ رکعت کی صحیح سند کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث ثابت ہے اس کو نہیں مانتے۔بڑے مؤدب ہیں بائی صحابہ کرام کے۔
اب ایک چٹکلا اور لیں: عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقوں کو تین شمار کر دیا لیکن آخری دور میں اپنےاس فعل سے رجوع کر لیا،پہلی بات کو مانتے ہیں اور دوسری کو کہتے ہیں سیاسی فیصلہ ہے جی۔۔ہاہاہاہاہا۔۔ضرورت سے زیادہ ادب نہیں ہو گیا۔۔؟ پانی بھیجوں یا پاس پڑاہوا ہے۔۔۔؟
ایک اور سنیں: ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ غیر فقہی کہتے ہیں، اللہ کی قسم اگر صحابہ کرام فقہی نہیں تھے تو دنیا میں کسی ماں نے فقہی پیدا ہی نہیں کیا۔۔۔ ان کے ادب کی یہ چند مثالیں دیں ہیں۔اگر مزید کی خواہش ہو نہ تو بتا دینا مٹھو میں وہ بھی پیش کر دوں گا۔
بھائی نے بیہقی شریف سے ایک حدیث نقل کی اس پر بھی غور کرلیں۔


وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ , عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّ رَجُلًا قَرَأَ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَنَهَاهُ , فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: أَتَنْهَانِي أَنْ أَقْرَأَ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ , فَتَذَاكَرَا ذَلِكَ حَتَّى سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى خَلْفَ الْإِمَامِ فَإِنَّ قِرَاءَتَهُ لَهُ قِرَاءَةٌ». أَبُو الْوَلِيدِ هَذَا مَجْهُولٌ , وَلَمْ يَذْكُرْ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ جَابِرًا غَيْرُ أَبِي حَنِيفَةَ ۔

ایک آدمی نے نبیﷺ کے پیچھے ظہر اور عصر میں قراءت کی تو ایک آدمی نے اشارے سے اسے منع کیا۔ نماز کے بعد اس نے کہا: کیا تم مجھے نبیﷺ کے پیچھے پڑھنے سے منع کرتے ہو؟ مذاکرہ ہونے لگا تو نبیﷺ نے سن لیا۔ آپﷺ نے فرمایا: جو امام کے پیچھے ہو تو امام کی قراءت ہی مقتدی کےلیے کافی ہے۔
اس روایت میں ابو الولید مجہول ہے اور سند میں جابر کا ذکر صرف ابو حنیفہ نے کیا۔۔سنن دار قطنی(1236)


یہ روایت مجھے بیہقی میں کہیں نہیں ملی البتہ جابربن عبداللہ سے یہ روایت اسی سند کے ساتھ آتی ہے جو کہ ہے ہی ضعیف بلکہ ضعیف جدا۔،
یہ مذاق نہیں ہے کہ اپنی بات کو ثابت کرنے کی غرض سے اتنی کثیر صحیح روایات کا انکار کیا جا رہا ہے وہ بھی ایک ضعیف جدا روایت کے ساتھ۔
کوئی تو خدا کا خوف کریں جناب بہت زیادہ نہیں بس تھوڑا سا ہی کر لیں۔

اور ایک صحیح روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ترک فاتحہ پر دے دیں ابھی ایک منٹ سے پہلے بات ختم کر دیں گے مان لیں گے فوراً حکم کو۔
نوٹ: اوپر کی تمام روایات اصلی عربی طبع سے لی گئی ہیں۔ اور یہ ساری باتیں میں نے سہج صاحب کےلئے نہیں جمع کیں بلکہ ان لوگوں کے لئے جمع کی ہیں جو فضول اشکالات کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔تاکہ وہ ان روایات کو دیکھ کر حق سچ کو جان سکیں۔سہج صاحب اتنی احادیث دیکھ کر دانت نہیں پیسنے یہ آپ کےلئے نہیں ہیں آپ کےلئے تو حدیث کے علاوہ کی باتیں ہیں کیوں کہ حدیث کا جواب تو آپ دے نہیں سکتے،باقی باتیں چھوڑ نہیں سکتے اسلئے باقی باتوں کے ساتھ غصہ اتاریئے گا حدیث کو معاف کر دیجئے گا۔
اللہ ہدایت دیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ماشاء اللہ ، اک اور اہل حدیث صاحب کی تحقیق کہ "ضروری" ہے ۔تو موجودہ دھاگے میں واجب کہنے والے پر کون سا حکم لگے گا ؟ یہ سوال پہلے بھی پوچھ چکا ہوں پچھلے مراسلے میں ۔


اس حدیث کے بارے میں اماترمذی رحمہ اللہ کا فرمان مبارک ہے
قال الامام الترمذی واما احمد بن حنبل فقال معنی قول النبی ﷺ لاصلوٰۃ لمن یقراء بفاتحۃ الکتاب اذا کان وحدہ۔
ترمذی جلد اول صفحہ 71
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضور پاک ﷺ کے فرمان کہ اس کی نماز جائز نہیں جو سورۃ فاتحہ کے ساتھ قراءت نہ کرے ،کے متعلق حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ اس وقت ہے جب کہ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو ۔


اور جو نام نہاد اہلحدیث بنے ہوئے ہیں اور "واجب" کہتے تو ہیں مگر اپنے "فیصلے" سے ۔ نہ اللہ کا حکم دکھاسکتے ہیں اس بارے میں اور ناہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ۔"فرض " بھی اپنے قیاس سے کہتے ہیں اور "واجب" بھی اپنے قیاس سے۔اور اس قیاس کو مان کر آپ بنے اہل حدیث ؟ اک بار پھر ماشاء اللہ(ابتسامہ)
السلام علیکم -

محترم پہلے قرآن و حدیث نبوی سے آپ یہ ثابت کریں کہ تقلید امام ابو حنیفہ فرض ہے ، واجب ہے سنّت ہے یا نفل ہے ؟؟؟؟ اور اگر تقلید کی فرضیت یا وجوب کو آپ قرآن و حدیث نبوی سے ثابت نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنی حنفی فقہ سے ہی اس کو ثابت کر کے دیکھا دیں - تاکہ ہم غیر مقلدین کو جو تقلید نہ کرنے کا گناہ ہو رہا ہے اس سے ہم باز آجائیں اور رجوع کر لیں - لیکن یہ اسی صورت میں ہے کہ جب آپ تقلید کو قرآن و سنّت سے فرض یا واجب ثابت کردیں گے- کیا کہتے ہیں آپ ؟؟؟
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
آپ کا جواب اس امیج میں ہے غور سے دیکھیں تو نظر آ جائے گا

سوال کیا تھا آپ سے
واجب کہنے والا کون ہے ؟ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟
جناب امیج میں مقلد کو اندھا کہا گیا ہے ۔ نہ تو اس میں واجب کہنے کی دلیل ہے اور ناہی فرض کہنے کی۔
یقینا یہ بینر آپ پر فٹ آتا ہو کیونکہ آپ بغیر دلیل کے ہی کسی کی اندھی تقلید کرتے ہوئے امام کے پیچھے قراءت کرنے کو فرض اور واجب کہتے ہیں ۔
بغیر تقلید کئے وہ بھی اندھی ، دلیل پیش کیجئے ۔
شکریہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
السلام علیکم -

محترم پہلے قرآن و حدیث نبوی سے آپ یہ ثابت کریں کہ تقلید امام ابو حنیفہ فرض ہے ، واجب ہے سنّت ہے یا نفل ہے ؟؟؟؟ اور اگر تقلید کی فرضیت یا وجوب کو آپ قرآن و حدیث نبوی سے ثابت نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنی حنفی فقہ سے ہی اس کو ثابت کر کے دیکھا دیں - تاکہ ہم غیر مقلدین کو جو تقلید نہ کرنے کا گناہ ہو رہا ہے اس سے ہم باز آجائیں اور رجوع کر لیں - لیکن یہ اسی صورت میں ہے کہ جب آپ تقلید کو قرآن و سنّت سے فرض یا واجب ثابت کردیں گے- کیا کہتے ہیں آپ ؟؟؟
ماشاء اللہ
قراءت خلف الامام کو واجب آپ ثابت نہیں کرسکے دلیل کے ساتھ ۔ اور نہ ہی فرض۔ اندھی تقلید کرتے ہیں تمام نام نہاد اہل حدیث کسی نہ کسی امتی کی ۔اور شور یہی ہوتا ہے کہ اہل حدیث کے دواصول اک قرآن اور دوسرا حدیث۔
آپ کو قرآن سے دلیل دکھانے کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی حدیث سے ۔ کیونکہ آپ تو نفس کے حکم پر چلتے ہو ۔ آپ کے فرقہ کا مولوی کہے گا تو مانو گے ، اور مانو گے بھی وہ جسے ماننے کا حکم آپ کا نفس کہے گا ۔
اب دیکھ لینا میں جو ابھی آپ کے اکابرین علامہ حضرات کے تقلید کے بارے میں فرمان پیش کروں گا تو ان کو آپ نہیں مانو گے ، کیونکہ ان کے فرمان میں نے پیش کئے ہیں ۔ لیکن اگر ان میں سے ہی کوئی مولوی قراءت خلف الامام کو واجب کہہ دے تو آپ اس پر ایمان لے آئیں گے اور کوئی فرض کہے تو بھی ، یا فرض بھی کہے اور واجب بھی تو بھی اس پر ایمان لے آیا جائے گا بغیر مطالبہ دلیل کے ، بلکل اندھے مقلد بن کر ۔
دیکھو اب آپ کے اکابرین تقلید کو کیا کہہ گئے ہیں۔

مولانا نزیر حسین دھلوی لکھتے ہیں اقسام تقلید کے عنوان سے:
"قسم اول:واجب ہے اور وہ مطلق تقلید ہے کسی مجتہد اہل سنت کی سے "
(معیار الحق ص80)
مزید لکھتے ہیں
"قسم ثانی : مباح اور وہ تقلید مزھب معین کی ہے۔ بشرطیکہ مقلد اس تعین کو امر شرعی نہ سمجھے"
(معیار الحق ص 81)

مولانا میر صاحب تاریخ اہل حدیث میں لکھتے ہیں
" قسم اول واجب ہے اور وہ مطلق تقلید ہے کسی مجتہد کی مجتہدین اہل سنت میں سے۔لاعلی التعین جس کو مولانا شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے عقد الجید میں کہا ہے کہ یہ تقلید واجب ہے اور صحیح ہے باتفاق امت۔ قسم دوم مباح ہے اور وہ تقلید مزھب معین کی ہے۔"

(تاریخ اہل حدیث صفحہ 147)
اب کہو کہ آپ کے اکابرین بے دلیل باتیں کرنے والے تھے
بے دلیل ہی انہوں نے تقلید کو واجب قرار دیا
یا انہوں نے کسی کی اس بارے میں اندھی تقلید کی ؟​

اور وہی سوال آپ سے بھی جس کا جواب دینے کی بجائے سارے نام نہاد اہل حدیث ایک دوسرے کی اندھی تقلید میں دائیں بائیں بھاگ رہے ہیں ۔
واجب کہنے والا کون ہے ؟ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟
شکریہ
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
پیارے مقلد بھائی میرا بڑا ہی عاجزی سے یہ سوال ہے کہ اگر آپ اپنے معیار واجب فرض مباح بتا دیں تو جواب دینا آسان ہو جائے گا۔
مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر کوئی چیز فرض ہو تو اس کےلئے کونسا صیغہ کونسی عبارت اور کونسی ایسی صرفی نحوی چیز ہو گی جس سے یہ پتہ چلے گا کہ یہ فرض و واجب ہے یا نہیں۔۔آپ اس کا اچھے انداز میں جواب دیں پھر ان شاء اللہ بتا دیں گے کہ واجب ہے یا نہیں۔ کیوں کہ ہمارے خیال سے جو واجب والی چیزیں تھیں اس لحاظ سے تو واجب ہی ہے ان شاء اللہ آپ اپنا معیار واجب و فرض عنائت فرمائیں۔ بڑی نوازش ہو گی تاکہ آپ کا یہ سوال باربار دھرانا بند ہوجائے۔ اللہ کے فضل سے۔
جواب دیتے وقت بڑی ہی نوازش ہو گی کہ پہلے میری یہ پوسٹ اچھی طرح پڑھ لیجئے گا،تاکہ جواب دے سکیں اور ساتھ میں فقاہت کی توہین بھی نہ ہو جائے، اس لئے جناب ڈر لگتاہے۔بہت مہربانی،
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
سوال کیا تھا آپ سے
واجب کہنے والا کون ہے ؟ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟
جناب امیج میں مقلد کو اندھا کہا گیا ہے ۔ نہ تو اس میں واجب کہنے کی دلیل ہے اور ناہی فرض کہنے کی۔
یقینا یہ بینر آپ پر فٹ آتا ہو کیونکہ آپ بغیر دلیل کے ہی کسی کی اندھی تقلید کرتے ہوئے امام کے پیچھے قراءت کرنے کو فرض اور واجب کہتے ہیں ۔
بغیر تقلید کئے وہ بھی اندھی ، دلیل پیش کیجئے ۔
شکریہ
اس حدیث کا غور سے پڑھیں

سورۃ فاتحہ پڑھنى واجب ہے، اس كى دليل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
" جو شخص فاتحۃ الكتاب نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں "
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
بھائی جان یہ تو ہمارے خیال سے ہے نہ آپ اب دیکھیں کہ ہوتا کیا ہے ان کی باتوں کا جواب دیتے رہے پھرتوجواب پرہی رہیں گے اور یہ بار بار ایک ہی سوال الاپتے رہیں گے،،ان سے ذراان کا فرضیت و واجب کا معیار پوچھ لینے دیں پھر ان کا جواب ہی ان کے لئے جواب ہو گا اللہ کے فضل سے میں یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ کوئی اصلاح کی غرض سے یہاں وارد ہوئے ہیں لیکن۔۔۔۔۔!!!
اس لئے اب ان سے ان کی طرز پر بات ہو گی۔دیکھتے ہیں ان تلوں میں کتنا تیل ہے اب۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ماشاء اللہ
قراءت خلف الامام کو واجب آپ ثابت نہیں کرسکے دلیل کے ساتھ ۔ اور نہ ہی فرض۔ اندھی تقلید کرتے ہیں تمام نام نہاد اہل حدیث کسی نہ کسی امتی کی ۔اور شور یہی ہوتا ہے کہ اہل حدیث کے دواصول اک قرآن اور دوسرا حدیث۔
آپ کو قرآن سے دلیل دکھانے کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی حدیث سے ۔ کیونکہ آپ تو نفس کے حکم پر چلتے ہو ۔ آپ کے فرقہ کا مولوی کہے گا تو مانو گے ، اور مانو گے بھی وہ جسے ماننے کا حکم آپ کا نفس کہے گا ۔
اب دیکھ لینا میں جو ابھی آپ کے اکابرین علامہ حضرات کے تقلید کے بارے میں فرمان پیش کروں گا تو ان کو آپ نہیں مانو گے ، کیونکہ ان کے فرمان میں نے پیش کئے ہیں ۔ لیکن اگر ان میں سے ہی کوئی مولوی قراءت خلف الامام کو واجب کہہ دے تو آپ اس پر ایمان لے آئیں گے اور کوئی فرض کہے تو بھی ، یا فرض بھی کہے اور واجب بھی تو بھی اس پر ایمان لے آیا جائے گا بغیر مطالبہ دلیل کے ، بلکل اندھے مقلد بن کر ۔
دیکھو اب آپ کے اکابرین تقلید کو کیا کہہ گئے ہیں۔

مولانا نزیر حسین دھلوی لکھتے ہیں اقسام تقلید کے عنوان سے:
"قسم اول:واجب ہے اور وہ مطلق تقلید ہے کسی مجتہد اہل سنت کی سے "
(معیار الحق ص80)
مزید لکھتے ہیں
"قسم ثانی : مباح اور وہ تقلید مزھب معین کی ہے۔ بشرطیکہ مقلد اس تعین کو امر شرعی نہ سمجھے"
(معیار الحق ص 81)

مولانا میر صاحب تاریخ اہل حدیث میں لکھتے ہیں
" قسم اول واجب ہے اور وہ مطلق تقلید ہے کسی مجتہد کی مجتہدین اہل سنت میں سے۔لاعلی التعین جس کو مولانا شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے عقد الجید میں کہا ہے کہ یہ تقلید واجب ہے اور صحیح ہے باتفاق امت۔ قسم دوم مباح ہے اور وہ تقلید مزھب معین کی ہے۔"

(تاریخ اہل حدیث صفحہ 147)
اب کہو کہ آپ کے اکابرین بے دلیل باتیں کرنے والے تھے
بے دلیل ہی انہوں نے تقلید کو واجب قرار دیا
یا انہوں نے کسی کی اس بارے میں اندھی تقلید کی ؟​

اور وہی سوال آپ سے بھی جس کا جواب دینے کی بجائے سارے نام نہاد اہل حدیث ایک دوسرے کی اندھی تقلید میں دائیں بائیں بھاگ رہے ہیں ۔
واجب کہنے والا کون ہے ؟ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟
شکریہ
السلام علیکم -

محترم میں نے اور میرے اہل حدیث بھائیوں نے تو صرف صحیح احادیث انبوی ور اہل سلف کے اجتہادات ہی پیش کیے ہیں یہاں پر- آپ مقلدین تو ابو ہریرہ رضی الله عنہ کو فقہی معاملات میں عالم ہی نہیں مانتے - اور جب فاتحہ خلف الامام کی بات آتی ہے تو زور و شور سے کہتے ہیں کہ انہوں نے فاتحہ خلف الامام کے معاملے میں مقتدی کو اپنے جی میں پڑھنے حکم دیا تھا -(زور سے پڑھنے کا حکم نہیں)

آپ مولانا نذیر دہلوی کی تقلید کے بارے میں نظریات پیش کرنے سے پہلے اپنے گھر کا جائزہ بھی لے لیتے تو اچھا ہوتا- آپ جو ہر وقت تقلید اور امام ابو حنیفہ رح کی نام نہاد محبّت کا ڈھنڈھورا پیٹنے والے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آپ کے اپنے پیارے امام نے اپنے آخری وقت میں فاتحہ خلف الامام کا مسلے میں رجوع کر لیا تھا -لیکن کیا کہیں کہ غیر مقلدین کی دشمنی میں اپنے امام تک کو گھاس نہ ڈالی - اور ان کے رجوع کیے گئے اس مسلے فاتحہ خلف الامام میں ان ہی سے انحراف کر لیا -بتایے اب کہاں گئی آپ کی تقلید؟؟؟ - اور یہ بھی بتا دیں کہ جو امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے مقلدین ہیں جو فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں ان کے بارے میں آپ کی راے کیا ہے- کیوں کہ آپ کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جگہ صحیح ہیں- بہر حال آپ کے مقلد بھائی جو ہوے ؟؟؟- کیوں کہ آپ کے اصل دشمن تو غیرمقلد ہیں جن کی دشمنی آپ کو قرآن و صحیح احادیث نبوی تک کا انکار کرنے کی جرّت فراہم کردیتی ہے -

لأبي حنیفۃ ومحمد قولان أحدھما عدم وجوبھا علی المأموم بل ولا تسن وھذا قولھما القدیم أدخلہ محمد في تصانیفہ القدیمۃ وانتشرت النسخ إلی الأطراف وثانیھما استحسانھا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراھتھا عند المخافۃ للحدیث المرفوع لا تفعلوا إلا بأم القرآن وفي روایۃ لا تقرؤوا بشي إذا جھرت إلا بأم القرآن وقال عطائ: کانوا یرون علی الماموم القراءۃ فیما یسر فرجعا من قولھما الأول إلی الثاني احتیاطا۔

یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے اس مسئلہ (قرأت فاتحہ خلف الامام) میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ مقتدی کے لیے الحمد شریف نہ واجب ہے نہ سنت اور یہ ان کا پہلا قول ہے، امام محمد ؓ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قدیم قول کو داخل کیا اور ان کے نسخے اطراف میں پھیل گئے- دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کو احتیاطا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا مستحسن وبہتر ہے اور آہستہ نماز میں کوئی کراہت نہیں ہے (یہ قول اس لیے اختیار کیا کہ ) صحیح حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام مقتدیوں کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ سورہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب میں بلند آواز سے پڑھ رہا ہوں تو سوائے سورہ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔

اور امام صاحب کے استاد حضرت عطاء جلیل القدر تابعی نے فرمایا کہ صحابہ کرام وتابعین نماز جہری وسری میں مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے (پس ان دلائل صحیحہ کی بنا پر ) امام ابوحنیفہ اور امام محمد نے احتیاطا اپنے پہلے قول سے رجوع کیا اور دوسرے قول کے قائل ہوگئے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ہی بہتر ہے، ائمہ دین کا یہی شیوہ تھا، جب اپنے قول کے خلاف حدیث کو دیکھتے تو اپنے قول کو چھوڑ دیتے اور صحیح حدیث کے مطابق فتوی صادر فرماتے۔ اس لیے امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایا: ''إذا صح الحدیث فھو مذھبي ان توجہ لکم دلیل فقولوا بہ ...''۔ (در مختار: 1 / 5 معہ رد المختار) یعنی حدیث صحیح میرا مذہب ہے، اگر تم کو کوئی دلیل قرآن وحدیث سے مل جائے تو اس پر عمل کرو اور اسی کے مطابق فتوی دیا کرو۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436


دیوبندی عالم مولانا خورشید حسن قاسمی کا سنن نسائی شریف کا ترجمہ اور خلاصہ الباب



1.jpg
2.jpg
3.jpg
4.jpg
5.jpg
6.jpg


 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
(اپنی مرضی کے)صفحات کے صفحات تو ایسے پیش کئے جارہے ہیں کہ جیسے میرے اکلوتے سوال کا جواب دیا جاچکا ۔
اس بات سے آپ نام کے اہل حدیثوں کو بھی انکار نہیں ہوسکتا کہ امتیوں نے فرض واجب کی اصطلاحات نافذ کیں ۔
جب کوئی قرآن اور حدیث کا نعرہ لگانے والا کسی عمل کو فرض یا واجب کہتا ہے تو اس سے دلیل مانگنا آپ لوگوں کو کیوں برا لگتا ہے؟
پچھلی کئی پوسٹوں میں سوال دھراتا چلا آیا ہوں مگر کسی غیر مقلد کو جراءت نہیں ہوئی کہ جواب دے دے، کوئی کہتا ہے یہاں دیکھ لو یہاں جواب ھے کوئی کہتا ہے خود دیکھ لو ساری پوسٹ میں ۔ بھئی نشان ہی لگا دو کہ کس جگہ اللہ یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام کے پیچھے تم اپنی سورت فاتحہ پڑھنا اور یہ تم پر واجب ہے؟ فقہاء کی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے حیا ء بھی نہیں فرمائی جاتی ،اور کہلاتے پھر بھی کہلانا پسند کرتے ہیں اہل حدیث ۔
اس دھاگے کا عنوان بنایا گیا ہے
ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے

اس موضوع کے عین مطابق میرا سوال ہے
واجب کہنے والا کون ہے ؟ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟
مگر کبھی کوئی تقلید کی طرف بھاگتا ہے اور کبھی کوئی ائمہ احناف کے اقوال پیش کرکے قراءت خلف الامام کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے
امید تو نہیں کہ کوئی نام نہاد اہل حدیث جواب دے گا ٹودی پوائنٹ،پھر بھی اک بار یہی سوال پیش کردیا ہے کہ شاید کوئی بندہ اپنے نعرے کی لاج رکھتے ہوئے کوئی آیت یا حدیث پیش کردے ۔جس میں صریح الفاظ میں دکھادیا جائے کہ "ہر نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے"۔
اس کے علاوہ یہ حدیث بار بار پیش کی جاتی ہے آپ غیر مقلدین کی جانب
۔لا صلوۃ لمن لم یقراء بفاتحۃ الکتاب

مزکورہ حدیث میں مقتدی کا زکر تک نہیں ،چونکہ اختلاف مقتدی کے پڑھنے نہ پڑھنے کے بارے میں ہے تو حدیث بھی ایسی ہی پیش کی جانی چاھئیے جس میں صراحت ہو مقتدی کی۔
مگر عجیب ڈھکوسلہ یہ دیا جاتا ہے کہ بس یہی حدیث ہے جو اس بارے میں وارد ہوئی ہے مزید کئی احادیث جو کہ اس حدیث کے الفاظ سے کچھ زاید وارد ہوئی ہیں ان کو خاطر میں ہی نہیں لاتے۔دیکھئے
1: عن ابی ہریرۃ مرفوعًا: لا صلوۃ الا بقرءاۃ فا تحۃ الکتاب فما زاد

(ابو داود :ج:1:ص: 125 با ب من تر ک القر ءاۃ فی صلوتہ ، صحیح ابن حبان :ج:3:ص:141رقم الحد یث 1788،کتا ب القرءۃ للبیہقی :ص:13،14رقم الحدیث 26،27،28،29)

2: عن ابی سعید الخدری مرفوعاً: امر نا ان نقرء بفا تحۃ الکتا ب وما تیسر

(ابو داود :ج:1:ص:٫125 با ب من تر ک القر ءاۃ فی صلوتہ ، صحیح ابن حبا ن :ج؛3:ص:140 رقم الحدیث 1788 ،کتا ب القرءۃ للبیہقی :ص:15 رقم الحدیث32۔35 )

3: عن أبي سعيد مرفوعا: لا صلاة لمن لم يقرأ في كل ركعة بالحمد لله وسورة في فريضة أو غيرها
(سنن ابن ماجۃ ص60 باب القراءۃ خلف الامام، کتا ب القرءۃ للبیہقی :ص:16، رقم الحدیث 37،36)

4:لاصلوٰۃ لمن لم یقراء بفاتحۃ الکتاب فصاعد۔۔
ابوداؤد جلد اول صفحہ 119


5: قال جا بر بن عبد اللہ اذا کا ن وحدہ ۔

(جا مع التر مذی:ج:1:ص:71باب ماجاء فی تر ک قرءۃ خلف الامام )

6: سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی فر ما یا کہ یہ حکم اکیلے آد می کیلئے ہے ۔
( موطا امام مالک بحوا لہ احسن الکلام :ج:2:ص:39)
7:۔امام سفیا ن بن عیینہ جو اس حد یث کے راوی ہیں فر مایتے ہیں: لمن یصلی وحدہ
(تفسیر سفیان بن عیینہ :ص:202 ، ابوداود :ج:1:ص:126،التمہید لابن عبد البر المالکی :ج:4:ص:449)

8:قال امام احمد بن حنبل: اذا کا ن وحدہ ۔
(ترمذی :ج:1::ص71 باب ماجاء فی تر ک قرءۃ خلف الامام )
9:امام ابوبکر اسماعیلی فر ما تے ہیں :کان وحدہ ۔
(بذل المجہود الشیخ سہا رنپوری :ج:2:ص:54 )
10: امام ابن عبد البر فر ماتے ہیں : عن عبا دۃ رضی اللہ عنہ وھو محتمل للتاویل ۔۔۔۔ خا ص وواقع علی من صلی وحدہ او کا ن اماماً ۔
(التمہید لا بن عبد البر :ج:4:ص:448،449 ،الاستذکار :ج:1:ص:470

تمام طرق جمع کرنے سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا مخاطب وہ شخص ہے جو دو نو ں سورتیں [یعنی سورۃ فاتحہ اور دوسری سورت]پڑ ھتا ہے، مقتدی اس کا مخا طب نہیں ۔ لہذا یہ روایت مقتدی پر وجوب قر ءاۃ کی دلیل نہیں ۔جیسا کہ حدیث لاصلوٰۃ۔۔۔کے بارے میں فیصلہ موجود ہے
قال الامام الترمذی واما احمد بن حنبل فقال معنی قول النبی ﷺ لاصلوٰۃ لمن یقراء بفاتحۃ الکتاب اذا کان وحدہ۔
ترمذی جلد اول صفحہ 71
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضور پاک ﷺ کے فرمان کہ اس کی نماز جائز نہیں جو سورۃ فاتحہ کے ساتھ قراءت نہ کرے ،کے متعلق حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ اس وقت ہے جب کہ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو ۔


مندرجہ بالا فیصلہ لاشک امتیوں کا ہے اگر آپ کے پاس اتنی صراحت کے ساتھ آپ کی دلیل کے مطابق قرآن یا حدیث میں موجود ہو تو پیش کیجئے ڈرئیے نہیں۔ اور دلیل نہیں اور بلکل نہیں تو پھر مان لو کہ آپ نام کے اہل حدیث ہو کام کے نہیں ، امتیوں کے اقوال مان کر فرض واجب وغیرہ کہتے ہو ۔ یقین کرلو اگر آپ ایسا لکھ دو گے تو میں بھی مزید یہ والا سوال نہیں کروں گا ۔
کچھ مزید احادیث پیش خدمت ہیں ان پر بھی نظر رکھئے، میرا مطلب ھے ان کو بھی ضعیف قرار دیجئے امتیوں کی تقلید کرتے ہوئے۔
عن عکرمۃ عن ابن عباس انہ قیل لہ ان ناسا یقرءون فی الظھر و العصر فقال لوکان لی علیھم سبیل لقلعت السنتھم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قراء فکانت قراءتہ لنا قراءۃ وسکوتہ لنا سکوتا۔

طحاوی ج1ص141
حضرت عکرمہ رحمہ اللہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ کچھ لوگ ظہر و عصر میں قراءت کرتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میرا ان پر بس چلے تو میں ان لوگوں کی زبانیں کھینچ لوں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت کی سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت ہماری قراءت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت ہمارا سکوت تھا۔
عن جابر قال لا یقراء خلف الامام۔
مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص376
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے قراءت نہ کی جائے۔
عن عطاء بن یسار انہ اخبرہ انہ ساءل زید بن ثابت عن القراء مع الامام فقال لا قراءۃ مع الامام فی شیئی۔
مسلم جلد اول ، نسائی جلد اول 111
حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ قراءت کرنے کے بارے میں پوچھا، تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراءت نہیں کی جاسکتی۔



شکریہ
 
Top