• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
بالکل صحیح فرمایا آپ نے ۔ یعنی کہ خاموش رہنا ۔ یہاں پرکسی کو مغالطہ دینے کی کیا ضرورت ہے ، جب فاتحہ کا ذکر ہے ہی نہیں۔ اور یہ اصول ہے کہ عدم ذکرسے عدم شے لازم نہیں ہے ۔ اور فاتحہ خلف الامام پڑھتے وقت خاموشی ضروری ہے ۔ یہ نہیں کہ جس طرح عوام کالانعام نیت زبان سے اور جہر کے ساتھ پڑھتے ہیں جس سے دوسروں کو مشکل پیش آتی ہے ۔
ڈھکوسلہ کا جواب
زکر خیر فاتحہ کا نہیں بلکل نہیں ویسے ہی جیسے البقرۃ اور آل عمران سمیت ایک سو تیرہ سورتوں کا زکر نہیں ، جناب مون لائٹ آفریدی اور ان کا فرقہ جماعت نام نہاد اہل حدیث فاتحہ کی طرح بقیہ ایک سو تیرہ سورتیں بھی اسی اصول "عدم زکر سے عدم شے لازم نہیں" کے ماتحت خاموشی کے ساتھ پڑھتے ہیں ؟ یہ تو ھوا آپ جناب نام نہاد اہل حدیث کے ڈھکوسلہ کا جواب ۔
دھوکے کا جواب
دھوکہ آپ نے یہ دیا ہے کہ پیش کردہ روایت جسے آپ نے کوٹ کیا ہے ۔ دیکھئے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم فاقیمو صفو فکم ثم لیسومکم احدکم فاذا کبر فکبر واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین یحبکم اللہ۔
صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کرلیا کرو ، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے، جب امام تکبیر کئے تو تم بھی تکبیر کہو ، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ اسطرح کرنے سے اللہ تم سے محبت رکھے گا۔

اس حدیث کو اقتباس میں تو لیے لیا جناب نے اور جواب میں ایک عدد ڈھکوسلہ بھی دے مارا ، مگر جب عقل پر پردہ پڑھ جائے تو ایسی حرکات سرزد ہو ہی جاتی ہیں ،فکر ناٹ۔ اب آپ کو دکھاتا ہوں بلکہ یاد دلاتا ہوں مزکورہ روایت پیش کرکے میں نے آگے بھی کچھ لکھا تھا ۔دیکھئے
نوٹ:معلوم ہوا الحمد سے لے کر ولاالضالین تک صراحتا خاموش رہنے کا حکم رسول للللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےآیا ہے ۔
اب بتائیے صریح دلیل ہے کہ نہیں ؟آیت غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فاتحہ میں ہی ہے یا بقیہ قرآن میں کسی اور جگہ ہے؟ اگر تو آپ اس آیت کو قرآن کی سورت فاتحہ میں ہی مانتے ہو تو پھر یہ بھی ماننا ہی پڑے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سورۃ کے شروع کرنے پر خاموش ہوجانے کا حکم دیا ہے اور امام جب کہےغیر المغضوب علیہم ولا الضالین پر تو مقتدی صرف آمین کہے گا ۔اور یہی حکم ہے اللہ تعالٰی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔جسے آپ نام نہاد اہل حدیث مانتے ہی نہیں ۔ ۔۔۔۔
دھوکہ کیسے دیا؟
ایسے کہ جناب نے آیت غیر المغضوب علیہم ولاالضالین کو بھی ۔عدم زکر ثابت کرنے کی کوشش کی بلکل ویسے جیسے ماقبل جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بول بھول گئے ہوئے ہیں ۔ پچھلے مراسلہ میں آپ کو یاد دلادیا ہوا ہے اس بارے میں اب دیکھنا یہ ہے کہ جناب نے جو جھوٹ بولا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کے بارے میں کیا صفائی پیش کرتے ہیں اور یہاں تو جناب نے رسول ﷺ پر جھوٹ بولنے سے آگے بڑھتے ہوئے اب کلام اللہ پر بھی جھوٹ بولنا شروع کردیا ہے ۔
کیسے ؟
غیر المغضوب علیھم ولا الضالین آیت کے لکھا ہوا ہونے کے باوجود آپ نے عدم زکر کہہ کر کہ فاتحہ کا نام نہیں ۔اسلئے فاتحہ تو ہم پڑھیں گے کیونکہ ہم ضدی فرقہ نام نہاد اہل حدیث سے تعلق رکھتے ہیں ۔
اور اگر یہ آیت فاتحہ کی نہیں تو بتائیے
1:کس سورۃ کی ہے ؟
2:امام تکبیر کے بعد قرآن کہاں سے شروع کرتا ہے؟
3:۔آمین کس آیت کے بعد کہتے ہو ؟


میرے مراسلہ میں وضاحتی عبارت کے موجود ہوتے ہوئے پھر بھی آپ کی جانب سے ڈھکوسلہ اور دھوکہ دینا کہ روایت میں فاتحہ کا زکر نہیں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جناب عوام کلانعام دوسروں کو کہتے کہتے خود ہی ویسا بن گئے ہیں ۔ خیر یہ تو تھا تھوڑا سا وہ مزاق جیسا آپ نے کیا ۔ اسلئے یہاں بھی فکر ناٹ۔
امید ہے اب بات سمجھ گئے ہوں گے آپ ۔
شکریہ
-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بھائی محمد علی جواد صاحب: آپ نے لکھا ہے کہ " بلکہ وہ صرف نبی کریم کے ظاہری فرمان سے اس بات کا اندازہ کر لیتے تھے کہ فلاں عمل واجب ہے یا فرض ہے یا سنّت ہے یا مستحب ہے-"
محترم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وہ روایات نقل کر دیں جن میں یہ بات مو جود ہو کہ حدیث رسول سننے کے بعد صحابہ کرام نے فرمایا ہو ا یہ کام "فرض" ہے یہ "واجب" یہ "سنت" اور یہ "مستحب" ہے؟؟؟
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن صالح بن كيسان، عن عروة بن الزبير، عن عائشة أم المؤمنين، قالت ‏"‏ فرض الله الصلاة حين فرضها ركعتين ركعتين في الحضر والسفر، فأقرت صلاة السفر، وزيد في صلاة الحضر ‏"‏‏.‏
صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ
حدیث نمبر : 350
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہمیں خبر دی امام مالک نے صالح بن کیسان سے ، انھوں نے عروہ بن زبیر سے ، انھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے نماز میں دو دو رکعت فرض کی تھی ۔ سفر میں بھی اور اقامت کی حالت میں بھی ۔ پھر سفر کی نماز تو اپنی اصلی حالت پر باقی رکھی گئی اور حالت اقامت کی نمازوں میں زیادتی کر دی گئی ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
چلو پہلی بات کی ہی وضاحت کردیں صاحب ، آپ یہ کہنا چاھتے ہیں کہ امام کے پیچھے قراءت کرنے والے مقتدی کی قراءت کو واجب کہنے والی شخصیت صحابی کی ہے ؟ یعنی یہ فیصلہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ؟ تو پھر دلیل صحیح صریح غیر معارض آپ کے ذمہ ہے ، پیش کیجئے ۔ میں انتظار کر رہا ہوں آپ اب صرف وہ روایت پیش کریں گے جس میں صحابی کا فیصلہ موجود ہو ۔
دوسری بات کا جواب آپ کو ان شاء اللہ اس وقت دوں گا جب آپ پہلی بات کو ثابت کر لیں گے ۔
شکریہ
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن صالح بن كيسان، عن عروة بن الزبير، عن عائشة أم المؤمنين، قالت ‏"‏ فرض الله الصلاة حين فرضها ركعتين ركعتين في الحضر والسفر، فأقرت صلاة السفر، وزيد في صلاة الحضر ‏"‏‏.‏
صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ
حدیث نمبر : 350
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہمیں خبر دی امام مالک نے صالح بن کیسان سے ، انھوں نے عروہ بن زبیر سے ، انھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے نماز میں دو دو رکعت فرض کی تھی ۔ سفر میں بھی اور اقامت کی حالت میں بھی ۔ پھر سفر کی نماز تو اپنی اصلی حالت پر باقی رکھی گئی اور حالت اقامت کی نمازوں میں زیادتی کر دی گئی ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم باقر صاحب اور سہج صاحب -

ذرا صحیح احادیث نبوی سے نیچے دیے گئے فتوے کو ثابت کریں -

جسے دعائے قنوت یاد نہ ہو اسے یاد کرنا چاہئیے کہ خاص اس کا پڑھنا سنت ہے اور جب تک یاد نہ ہو اللھم ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ وحسنۃ وقنا عذاب النار پڑھ لیا کرے۔ یہ بھی یاد نہ ہو تو اللھم اغفرلی تین بار کہہ لیا کرے، یہ بھی نہ آئے تو صرف یارب تین بار کہہ لے، واجب ادا ہوجائے گا۔ یونہی قل ہو اللہ شریف پڑھنے سے بھی واجب ادا ہوجاتا ہے۔ (فتاوٰی رضویہ، فتاویٰ عالمگیری، ردالمحتار)
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
محترم باقر صاحب اور سہج صاحب -

ذرا صحیح احادیث نبوی سے نیچے دیے گئے فتوے کو ثابت کریں -

جسے دعائے قنوت یاد نہ ہو اسے یاد کرنا چاہئیے کہ خاص اس کا پڑھنا سنت ہے اور جب تک یاد نہ ہو اللھم ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ وحسنۃ وقنا عذاب النار پڑھ لیا کرے۔ یہ بھی یاد نہ ہو تو اللھم اغفرلی تین بار کہہ لیا کرے، یہ بھی نہ آئے تو صرف یارب تین بار کہہ لے، واجب ادا ہوجائے گا۔ یونہی قل ہو اللہ شریف پڑھنے سے بھی واجب ادا ہوجاتا ہے۔ (فتاوٰی رضویہ، فتاویٰ عالمگیری، ردالمحتار)
@محمد باقر بھائی ضرور کوئی نہ کوئی تاویل کریں گے - ابتسامہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن صالح بن كيسان، عن عروة بن الزبير، عن عائشة أم المؤمنين، قالت ‏"‏ فرض الله الصلاة حين فرضها ركعتين ركعتين في الحضر والسفر، فأقرت صلاة السفر، وزيد في صلاة الحضر ‏"‏‏.‏
صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ
حدیث نمبر : 350
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہمیں خبر دی امام مالک نے صالح بن کیسان سے ، انھوں نے عروہ بن زبیر سے ، انھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے نماز میں دو دو رکعت فرض کی تھی ۔ سفر میں بھی اور اقامت کی حالت میں بھی ۔ پھر سفر کی نماز تو اپنی اصلی حالت پر باقی رکھی گئی اور حالت اقامت کی نمازوں میں زیادتی کر دی گئی ۔
محمد علی جوا صاحب آپ سے سفر کی نماز کے بارے میں صریح دلیل مانگی تھی ؟ یا قراءت خلف الامام کے واجب ہونے کے بارے میں ؟
سوال اک بار پھر دیکھئے

چلو پہلی بات کی ہی وضاحت کردیں صاحب ، آپ یہ کہنا چاھتے ہیں کہ امام کے پیچھے قراءت کرنے والے مقتدی کی قراءت کو واجب کہنے والی شخصیت صحابی کی ہے ؟ یعنی یہ فیصلہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ؟ تو پھر دلیل صحیح صریح غیر معارض آپ کے ذمہ ہے ، پیش کیجئے ۔ میں انتظار کر رہا ہوں آپ اب صرف وہ روایت پیش کریں گے جس میں صحابی کا فیصلہ موجود ہو ۔
دوسری بات کا جواب آپ کو ان شاء اللہ اس وقت دوں گا جب آپ پہلی بات کو ثابت کر لیں گے ۔
شکریہ
لگتا ہے جناب کو اس بارے میں دلیل صریح دستیاب ہے ہی نہیں اسی لئے سفر پر روانا ہونے کی تیاری میں ہیں ۔
اب اگر آف ٹاپک پوسٹ کی تو آپ کو بھی جواب نہیں دیا جائے گا ۔

شکریہ
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ڈھکوسلہ کا جواب
زکر خیر فاتحہ کا نہیں بلکل نہیں ویسے ہی جیسے البقرۃ اور آل عمران سمیت ایک سو تیرہ سورتوں کا زکر نہیں ، جناب مون لائٹ آفریدی اور ان کا فرقہ جماعت نام نہاد اہل حدیث فاتحہ کی طرح بقیہ ایک سو تیرہ سورتیں بھی اسی اصول "عدم زکر سے عدم شے لازم نہیں" کے ماتحت خاموشی کے ساتھ پڑھتے ہیں ؟ یہ تو ھوا آپ جناب نام نہاد اہل حدیث کے ڈھکوسلہ کا جواب ۔
دھوکے کا جواب
دھوکہ آپ نے یہ دیا ہے کہ پیش کردہ روایت جسے آپ نے کوٹ کیا ہے ۔ دیکھئے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم فاقیمو صفو فکم ثم لیسومکم احدکم فاذا کبر فکبر واذا قرء فانصیتوا واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین یحبکم اللہ۔
صحیح مسلم ، التشہد فی الصلاۃ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ھے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کرلیا کرو ، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کرائے، جب امام تکبیر کئے تو تم بھی تکبیر کہو ، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہوجاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ اسطرح کرنے سے اللہ تم سے محبت رکھے گا۔

اس حدیث کو اقتباس میں تو لیے لیا جناب نے اور جواب میں ایک عدد ڈھکوسلہ بھی دے مارا ، مگر جب عقل پر پردہ پڑھ جائے تو ایسی حرکات سرزد ہو ہی جاتی ہیں ،فکر ناٹ۔ اب آپ کو دکھاتا ہوں بلکہ یاد دلاتا ہوں مزکورہ روایت پیش کرکے میں نے آگے بھی کچھ لکھا تھا ۔دیکھئے
نوٹ:معلوم ہوا الحمد سے لے کر ولاالضالین تک صراحتا خاموش رہنے کا حکم رسول للللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےآیا ہے ۔
اب بتائیے صریح دلیل ہے کہ نہیں ؟آیت غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فاتحہ میں ہی ہے یا بقیہ قرآن میں کسی اور جگہ ہے؟ اگر تو آپ اس آیت کو قرآن کی سورت فاتحہ میں ہی مانتے ہو تو پھر یہ بھی ماننا ہی پڑے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سورۃ کے شروع کرنے پر خاموش ہوجانے کا حکم دیا ہے اور امام جب کہےغیر المغضوب علیہم ولا الضالین پر تو مقتدی صرف آمین کہے گا ۔اور یہی حکم ہے اللہ تعالٰی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔جسے آپ نام نہاد اہل حدیث مانتے ہی نہیں ۔ ۔۔۔۔
دھوکہ کیسے دیا؟
ایسے کہ جناب نے آیت غیر المغضوب علیہم ولاالضالین کو بھی ۔عدم زکر ثابت کرنے کی کوشش کی بلکل ویسے جیسے ماقبل جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بول بھول گئے ہوئے ہیں ۔ پچھلے مراسلہ میں آپ کو یاد دلادیا ہوا ہے اس بارے میں اب دیکھنا یہ ہے کہ جناب نے جو جھوٹ بولا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کے بارے میں کیا صفائی پیش کرتے ہیں اور یہاں تو جناب نے رسول ﷺ پر جھوٹ بولنے سے آگے بڑھتے ہوئے اب کلام اللہ پر بھی جھوٹ بولنا شروع کردیا ہے ۔
کیسے ؟
غیر المغضوب علیھم ولا الضالین آیت کے لکھا ہوا ہونے کے باوجود آپ نے عدم زکر کہہ کر کہ فاتحہ کا نام نہیں ۔اسلئے فاتحہ تو ہم پڑھیں گے کیونکہ ہم ضدی فرقہ نام نہاد اہل حدیث سے تعلق رکھتے ہیں ۔
اور اگر یہ آیت فاتحہ کی نہیں تو بتائیے
1:کس سورۃ کی ہے ؟
2:امام تکبیر کے بعد قرآن کہاں سے شروع کرتا ہے؟
3:۔آمین کس آیت کے بعد کہتے ہو ؟


میرے مراسلہ میں وضاحتی عبارت کے موجود ہوتے ہوئے پھر بھی آپ کی جانب سے ڈھکوسلہ اور دھوکہ دینا کہ روایت میں فاتحہ کا زکر نہیں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جناب عوام کلانعام دوسروں کو کہتے کہتے خود ہی ویسا بن گئے ہیں ۔ خیر یہ تو تھا تھوڑا سا وہ مزاق جیسا آپ نے کیا ۔ اسلئے یہاں بھی فکر ناٹ۔
امید ہے اب بات سمجھ گئے ہوں گے آپ ۔
شکریہ
-
پہلی بات تو ہے کہ صحیح احادیث نبوی میں سوره فاتحہ خلف الامام کا قراءت کے معاملے میں استثنی آیا ہے-(یعنی امام کے پیچھے کچھ مت پڑھو مگر سوره الفاتحہ)-

دوسرے یہ کہ اگر اس حدیث میں مقتدی کو امام کی قراءت کے وقت خاموشی لازم ہے تو بظاہر اس حدیث کا حکم نماز کی جہری رکعت کے لئے ہو گا - ورنہ مقتدی کو کیسے پتا چلے گا کہ امام نے سوره فاتحہ پڑھ لی ہے؟؟؟ - کیوں کہ حدیث کے الفاظ ہیں کہ "واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین" -

جب کہ احناف تو سری نماز میں بھی فاتحہ خلف الامام کے قائل نہیں -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محمد علی جوا صاحب آپ سے سفر کی نماز کے بارے میں صریح دلیل مانگی تھی ؟ یا قراءت خلف الامام کے واجب ہونے کے بارے میں ؟
سوال اک بار پھر دیکھئے



لگتا ہے جناب کو اس بارے میں دلیل صریح دستیاب ہے ہی نہیں اسی لئے سفر پر روانا ہونے کی تیاری میں ہیں ۔
اب اگر آف ٹاپک پوسٹ کی تو آپ کو بھی جواب نہیں دیا جائے گا ۔

شکریہ
میں نے تو دلیل دے دی -

آپ فاتحہ خلف الامام کا اپنے امام کی فقہ سے مکروہ حرام یا نا جائز ہونے کے الفاظ پیش کر دیں - اور یہ بتا دیں کہ اگر کوئی (غلطی) سے فاتحہ خاف الامام پڑھ لے تو کیا اس کی نماز فاسد ہو گی یا اسے سجدہ سہو کرنا پرے گا ؟؟؟ کوئی صحیح حدیث یا کم اس کم اپنی فقہ سے اس کو ثابت کریں -

نیز آپ کے اپنے امام ابو حنیفہ کا فاتحہ خلف الامام کے رجوع پر آپ نے اب تک کوئی تبصرہ پیش نہیں کیا - وہ تو فاتحہ خلف الامام کو "مستحب" سمجھتے تھے-کیا ایسی صورت میں ان کی نماز قابل قبول ہو گی یا یا باطل ہو گی؟؟؟

شکریہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
پہلی بات تو ہے کہ صحیح احادیث نبوی میں سوره فاتحہ خلف الامام کا قراءت کے معاملے میں استثنی آیا ہے-(یعنی امام کے پیچھے کچھ مت پڑھو مگر سوره الفاتحہ)-

دوسرے یہ کہ اگر اس حدیث میں مقتدی کو امام کی قراءت کے وقت خاموشی لازم ہے تو بظاہر اس حدیث کا حکم نماز کی جہری رکعت کے لئے ہو گا - ورنہ مقتدی کو کیسے پتا چلے گا کہ امام نے سوره فاتحہ پڑھ لی ہے؟؟؟ - کیوں کہ حدیث کے الفاظ ہیں کہ "واذا قرء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین" -

جب کہ احناف تو سری نماز میں بھی فاتحہ خلف الامام کے قائل نہیں -
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

(الاعراف :204)

اب چاہے سری نماز ہو یا جہری ہم خاموش رہتے ہیں اور امام کے پیچھے ہوتے ہوئے قرآن نہیں پڑھتے ۔
آپ نے سوال کا جواب ابھی تک نہیں دیا جناب ؟
واجب کہنے والی شخصیت کا نام ؟
 
Top