• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہشت نگینہ

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
ہشت نگینہ

اُردو استفادہ از شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب (1)
(1 یہ مجموعۃ رسائل فی التوحید والایمان کا گیارہواں رسالہ ہے جس کو ثمان حالات استنبطھا شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے ہم نے اسے ہشت نگینہ کا نام دیا ہے۔ یہاں ہم اس کا اُردو استفادہ پیش کریں گے اورتوضیح کیلئے کسی حد تک عبارتوں میں توسیع و تصرف کریں گے۔

یاایہا الناس ان کنتم فی شک من دینی فلا اعبدالذین تعبدون من دون اﷲ ولکن اعبداﷲ الذی یتوفا کم وامرت ان اکون من المؤمنین۔ واَن اقم وجہک للدین حنیفاً ولا تکونن من المشرکین۔ ولا تدع من دون اﷲ ما لا ینفعک ولا یضرک فان فعلت فانک اذاً من الظالمین (یونس: 104۔ 106)
”کہہ دو: اے لوگو تم میرے طریقہء بندگی کی بابت ابھی تک کسی شبہ میں ہو تو (سن لو) تم اللہ کے سوا جن جن کو پوجتے ہو میں ان کو نہیں پوجتا۔ میں تو پوجتا ہوں اللہ (وحدہ لاشریک) کو جو تمہاری جان قبض کرتا ہے اور مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ میں اہل ایمان میں کا ہو رہوں۔
”اور (حکم ہوا ہے) یہ کہ اپنا پورا رخ اس دین اور طریقہء بندگی کی جانب ہی کر دو۔ حنیف ویکسو ہو کر۔ اور ہرگز ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو۔
”اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار لینا جو تجھ کو نہ کوئی فائدہ پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے اور اگر تو ایسا کر بیٹھا تو (خود بھی) ظالموں میں سے ہو رہے گا“۔
سورہ یونس کے اختتام کی یہ آیات خاص غور سے پڑھنے کی ہیں۔ یہاں درجہ بدرجہ آٹھ حالتیں ہیں جو ایمان میں اوپر سے اوپر جاتی ہیں:
اول: یہ کہ آدمی عبادت غیر اللہ سے مطلق دستکش ہو جائے۔ باپ زور لگائے ماں دہائی مچائے۔ دُنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے ہرگز کوئی طمع انعام حائل ہو اور نہ خوف خمیازہ خدا کے غیر کی تعظیم اور پرستش خارج اَز سوال ہو جائے۔ جیسا کہ سعدؓ کا اپنی ماں کے طلب واصرار کے جواب میں موحدانہ طرز عمل آخری حدتک اور آخری نقطے تک قائم اور ثابت رہا تھا .... فلا اعبد الذین تعبدون من دون اﷲ ”میں ان کی پوجا کرنے کا نہیں جن کو تم پوجتے ہو“۔
دوئم: یہ کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بے شک شرک کی شناعت کے ’قائل‘ بھی ہو جائیں اور اس کو بُرا بھی جاننے لگیں اور اس کو ترک بھی کر لیں پھر بھی وہ اس معاملے کا وہ سرا نہیں پاتے جو خدا کو مطلوب ہے۔ یعنی خدا کی عظمت اور قدر کی ہیبت وجلال کا اس کے دل میں یوں بسیرا کر لینا جیسا اس آیت کے اگلے لفظ کا اس سے براہِ راست تقاضا ہے: ولکن اعبداﷲ الذی یتوفاکم ”مگر میں تو خدا کو پوجتا ہوں وہ جو تمہاری جان قبض کرتا ہے“ یا یہ کہ ”جو تمہاری جان نکالے گا“۔ یہ خدا کی ہیبت وکبریائی اور اس کے قبضہ وجبروت کی ایک دھاک ہے جو قلب ِمومن پر بیٹھ جاتی ہے تو پھر پہاڑوں پہ بھاری ہوتی ہے اور جو کہ شرک چھوڑنے چھڑوانے کی اصل سمت اور اصل بنیاد ہونا چاہیے۔
سوئم: اب فرض کر لیا کہ اس نے عبادت غیر اللہ سے رخ بھی پھیر لیا اور پھر یہ کہ خدائے واحد کی تعظیم وکبریائی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی بندگی بھی اختیار کر لی تو بھی ابھی یہ فرض باقی ہے کہ وہ اپنے آپ کو جماعت موحدین کا ایک سرگرم فرد ثابت کرے اور اپنی یہ حیثیت اور شمولیت علی الاعلان واضح کرے وامرت ان اکون من المؤمنین ”اور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اہل ایمان میں کا ایک ہو رہوں“۔ اہل توحید سے آملنا اور ان کا جزولانیفک ہو رہنا اسی عمل کا ہی ایک حصہ ہے جسے ولاءکہا جاتا ہے۔ موحدین کا ایک حصہ بن جانا وہ فرض ہے کہ اس کو پورا کرنے کی کوئی صورت اگر اس کے علاوہ نہ ہو کہ آدمی ایک ایسے ملک یا ایسے ماحول سے بھاگ کھڑا ہو جس سے طواغیت اس کو یہ فرض پورا نہ کرنے دیتے ہوں اور اس معاملہ میں دشمنی پر ہی آمادہ ہوں یہاں تک کہ وہ واضح کردے کہ اس کا تعلق اسی (موحد) گروہ سے ہے جو ان (طاغوتوں) سے برسر مخاصمت ہے .... تو یہ بھی کر گزرے۔
چہارم: اب فرض کرلیا اس نے یہ تینوں کام بھی کر لئے تب بھی ہو سکتا ہے کہ دین پر عمل پیرا ہونا اور دین کو لے کر چلنے میں آخری درجے کی سنجیدگی اختیار کر لینا ابھی پڑا ہو۔ دین کے معاملے میں آستینیں چڑھا لینا ابھی باقی ہو۔ اب اس کو کہا جاتا ہے وان اَقم وجہک للدین مراد یہ کہ آدمی کا اپنا پورے کا پورا رخ دین ہی کی جانب کر لینا اور اپنے آپ کو اسی کا کر لینا۔
پنجم: اب فرض کر لیا یہ چار چیزیں بھی ہو گئیں۔ اب ضروری ہے کہ اس شخص کا ایک باقاعدہ مذہب اور مسلک بھی ہو جس سے یہ کھل کھلا کر اپنی نسبت کرائے اور اس سے وابستگی کو ہی اپنے لئے حوالہ بنا لے۔ اب یہاں حکم ہوتا ہے کہ اس کا مذہب حنیفیت ہو۔ اس کے ماسوا کوئی اس کا مذہب ہو اور نہ کوئی حوالہ، بے شک کسی مذہب میں کوئی کتنی بھی اچھی بات کیوں نہ ہو مگر اس کو ایک حنیفیت ہی کفایت کرتی ہو۔ اس کے اس مسلک میں کمی ہی کیا ہے جو خیر اور بھلائی کو کہیں اور جا کر ڈھونڈا جائے؟!
ششم: فرض کر لیا آدمی سمجھتا ہے کہ اس نے پانچوں کے پانچوں مرحلے سر کر لئے تو اب یہ ضروری ہے کہ وہ مشرکوں سے براءت وبیزاری بھی کرے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے ولا تکونن من المشرکین۔ چنانچہ اب یہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے وجود سے مشرکوں کے مجمع میں اضافے کا باعث نہ ہو۔ اب وہ اس امر کو ہر ممکن یقینی بنائے کہ وہ مشرکوں کی رونق وشوکت بڑھانے کا ہرگز ذریعہ نہ ہو اور اپنے وجود سے ان کے لئے کسی صورت باعث تقویت نہ ہو۔
ہفتم: فرض کر لیا اب وہ اپنے تئیں یہ چھ کے چھ فرض پورے کر چکا تب بھی یہ چیز باقی ہے کہ وہ معاملے کو موت تک نبھانے کا عزم رکھے اور زندگی بھر اس پر جما رہنے پہ پختہ ہو۔ یہ معاملہ گھڑی دو گھڑی کا نہیں زندگی کا فیصلہ ہے۔ اس میں اس کو بس اب آگے ہی بڑھنا ہے۔ واپسی کے سب راستے مسدود کر لینے ہیں۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنا بھی خارج از سوال ہو جانا ہے۔ خدا کے سوا کوئی ہستی کیسی بھی کیوں نہ ہو، نبی کیوں نہ ہو بطور معبود خدا کی ہستی ہی نگاہ میں رہے اس کے سوا سب کچھ نگاہ سے روپوش ہو جائے۔ وہ یکسوئی حاصل ہو کہ خدا کے ماسوا ہر کہیں سے اُمید تک ختم ہو جائے۔ خدا کے سوا کسی کا خوف اور پرواہی نہ رہے۔ آدمی کمزور ایمان ہو تو وہ چاہت سے شرک نہ بھی کرے کسی کے خوف اور رعب سے یا پھر حالات سے دب کر ایسا کر بیٹھنے کی جانب مائل ہو سکتا ہے بلکہ سمجھتا ہے کہ دفع ضرر کیلئے تو اس کیلئے اس بات کی ضرور ہی گنجائش ہے۔ مگر یہ بات بھی خارج از بحث ہو جانا چاہیے۔ اس بات کو ذہن میں تادم مرگ پختہ رکھنے کیلئے اب پھر یہ کہا جا رہا ہے ولا تدع من دون اﷲ ما لا ینفعک ولا یضرک
ہشتم: فرض کیجئے اپنے تئیں وہ یہ ساتوں باتیں بھی پوری کر چکا ہے پھر بھی ایک بات ابھی باقی ہے جس میں اسے اپنے طرز عمل کو دو ٹوک اور فیصلہ کن کرنا ہے .... اور وہ یہ کہ چلیں وہ خود تو نہیں اس کا کوئی دوست، کوئی عزیز کسی خوف واندیشے کے باعث یا کسی غرض سے ملت شرک سے قربت اختیار کرتا ہے اور غیر اللہ کے پکارے جانے کی سمت واپسی کی راہ پہ چل پڑتا ہے تو کیا یہ خدا سے اپنے تعلق میں اس قدر سچا اور بے لاگ ہو کر دکھاتا ہے کہ فان فعلت فانک اذاً من الظالمین کے مصداق یہ اپنے اس دوست اور عزیز کو ’ظالمین‘ میں گنے، چاہے یہ اپنے اس دوست کو سارے جہان سے بڑھ کر نیک و پارسا کیوں نہ سمجھتا ہو؟ یا پھر وہ اپنے اس عزیز کو شرک کرتے دیکھ کر کہے گا: اس کو کفر کا مرتکب کیونکر کہا جائے جبکہ یہ دین سے محبت کرتا ہے اور شرک کو (دل سے) ناپسند کرتا ہے؟ کتنے کم اورنایاب ہیں وہ لوگ جو اس آخری گھاٹی سے بھی صاف گزر جاتے ہوں: بلکہ کتنے کم اور نایاب ہیں وہ لوگ جو چاہے اس سے گزرنہ پائیں اس سے گزرنے کا ادراک ہی رکھتے ہوں! بلکہ کتنے کم اور نایاب ہیں وہ لوگ جو اس راہ چلنے کو کم از کم جنون شمار نہ کریں!!!
واﷲ اعلم
 
Top