• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہمارا تعلیمی نظام۔۔۔

باسط رحمٰن

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 14، 2014
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
2
ارسطو کے نزدیک تعلیم کے تین بنیادی مقاصد ہیں
۱۔ زندگی کے مقصد purpose of life ور کائنات کی حقیقت کو جاننا
۲۔ اپنے اخلاق کو سنوارنا اور بہتر انسان بننا
۳۔ تعلیم کے ذریعے دنیاوی زندگی میں آگے بڑھنا اور ترقی کرنا
اب موجودہ دور میں ہمارے تعلیمی اداروں میں رائج نظام تعلیم میں پہلے دو مقاصد تو سرے سے ہی نہیں پائے جاتے یعنی ہمارےطالب علم کونہ تو یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کی زندگی کا آخر مقصد کیا ہے اور اور نہ ہی اس کو اخلاقیات کے حوالے سے کوئی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ وہ ایک بہتر انسان بن سکے اور معاشرے میں کوئی مفید کردار ادا کرسکے۔ البتہ ان تعلیمی اداروں میں صرف تیسرے مقصد پر توجہ دی جاتی ہے کہ کیسے اس تعلیم کے ذریعے دنیاوی زندگی میں آگے بڑھا جائے اور زیادہ پیسے کمائے جائیں نتیجتاً ہمارے یہ تعلیمی ادارے ایسے افراد پیدا کررہے ہیں جن کے نزدیک زندگی کا واحد مقصد اسی دنیا کی زندگی اور یہیں کی ترقی و خوشحالی ہے یعنی ایسے مادہ پرست Materialistic لوگ جو اپنی زندگی کا واحد مقصد اسی دنیا کی زندگی کو بنائے ہوتے ہیں اور اخلاقی لحاظ سے حد درجہ متکبریعنی Ego-Centric
دراصل اسلام کا اپنا ایک نظریہ حیات Worldview ہے جس میں اصل اہمیت دنیا کی زندگی کی بجائے آخرت کو حاصل ہے جبکہ موجودہ سرمایہ دارانہ Capitalistic نظام کی بنیاد پر قائم ان تعلیمی اداروں میں جو تعلیم دی جاتی ہے اس کا اصل مقصد اسی دنیا کی مادی زندگی تک ہی محدود ہے۔
دوسری طرف ہمارے دینی مدارس کی اکژیت کا یہ معاملہ ہے کہ وہاں ایسے علماء پیدا کئے جاتے ہیں جن کے پاس دین کا علم اور فہم تو ہوتا ہے ہے لیکن ان میں تنگ نظری اور سخت گیری Rigidness حد درجہ پائی جاتی ہے اوروہ اپنے اپنے مسلک کی ترویج و اشاعت کو ہی دین کی خدمت سمجھتے ہیں ۔ ایسے علما ء کا تمام تر زور صرف اسلام کے فقہی معاملات پر ہوتا ہے جبکہ دین کے سیاسی، معاشی۔ معاشرتی اور نظریاتی پہلو اُن کی نظروں سے عموماً اوجھل ہوتے ہیں۔
اس لئے یہاں ایسے تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جس میں دنیاوی کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بھی انتظام ہو ۔ جہاں پر کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے طالب علم کو کم از کم دین کے مبادیات مثلاً قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر ، اصول حدیث اور اصول تفسیر سے آگاہی ضرور ہو اور جن کے سامنے اسلام کا نظریہ حیات واضح ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ایک طالب علم بھی دین کا علم حاصل کرنے کے لئے systematic study ویسے ہی کرے جیسے وہ دیگر علوم کی تحصیل کے لئے کرتا ہے مگر افسوس آج کا مسلمان تو دین کو موروثی سمجھتا ہے بس باپ دادا سے ورثے میں مل گیا ہے بس یہی کافی ہے چاہے بچپن میں ناظرہ قرآن ختم کرلینے کے بعد قرآن مجید کو کبھی دوبارہ کھول کر بھی نہ دیکھا ہو۔

 
Top