• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہماری دعائیں بے اثر کیوں؟

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہماری دعائیں بے اثر کیوں؟​



ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،امابعد:

برادران اسلام!

موجودہ دور میں ہم اورآپ اپنی آنکھوں سے ایک طرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ جگہ جگہ پر مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں،کبھی شام میں توکبھی فلسطین میں ،کبھی مصر میں توکبھی لیبیا میں،کبھی برما میں تو کبھی بنگلہ دیش میں ،کبھی عراق میں تو کبھی ہندوستان وافغانستان وغیرہ میں غرضیکہ پچھلے کچھ سالوں سے ہرجگہ پرصرف مسلمان ہی نشانے پر ہےاوردوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ امت مسلمہ کی نجات اوردشمنان اسلام کے ذلیل ورسوا ہونےکے لئے پوری امت مسلمہ جگہ جگہ پر قنوت نازلہ کا بھی اہتمام کررہی ہےیہاں تک کہ پاک ومقدس سرزمین حرمین وشریفین سے بھی مسلسل دعائیں کی جارہی ہے مگر ہائے افسوس ہم مسلمانون کی بدنصیبی وبدبختی دیکھئے کہ نہ توہمارے حالات بدل رہے ہیں اورنہ ہی ہماری دعائیں قبول کی جارہی ہےاورنہ ہی ہمارے اوپر سے مصیبتوں کے بادل چھٹ رہے ہیں،کبھی آپ نے سوچا کہ آخر کیاوجہ ہے کہ ہمارے لئے اتنی زیادہ دعائیں کی جارہی ہیں اور ہم سب خود اپنےرب سے گریہ وزاری کررہے ہیں مگرنہ تو ہماری دعائیں قبول ہو رہی ہیں اورنہ ہی ہماری حالتیں بدل رہی ہیں اور نہ ہی ہم مسلمانوں کی مصیبتیں دور ہورہی ہیں ،ہم مجبور ولاچار وبے بس ہیں مگر پھر بھی ہماری فریادرسی نہیں ہورہی ہے جب کہ رب العزت کا یہ وعدہ ہے کہ ميں ہر مصیبت زدہ کی پکار کو سنتاہوں اور اس کی مصیبتوں کو دور کردیتاہوں،فرمان باری تعالی ہے کہ ’’ أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ ‘‘ بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے،کون قبول کرکے سختی کو دورکردیتاہے؟اورتمہیں زمین کا خلیفہ بناتاہے،کیا اللہ تعالی کے ساتھ اورمعبود ہے؟تم بہت کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو۔(النمل:62) صرف یہی نہیں کہ بلکہ رب العزت نے تو اپنے کلام پاک میں جگہ جگہ پر اس بات کی ضمانت اورگارنٹی دی ہے کہ میں ہر ایک کی دعاؤں کو سنتا اورقبول کرتاہوں جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ‘‘ اورتمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا)ہے کہ مجھ سے دعاکرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔(المؤمن:60)اسی طرح سے رب العزت نے اپنے کلام پاک میں ایک اور جگہ پر قبولیت کا وعدہ کرتے ہوئے فرمایا ’’ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ‘‘جب ميرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہرپکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے،قبول کرتاہوں ۔(البقرۃ:186)دیکھا اورسنا آپ نے کہ رب کا یہ وعدہ ہے کہ وہ سب کی دعاؤں کو سنتا ہے ،وہ بے کسوں ومظلوموں کی فریاد رسی کرتا ہےمگر ایک ہم بدنصیب ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں کی جارہی ہیں،قرآن یہ کہہ رہاہے کہ اللہ بے کسوں ومظلوموں کی فریادرسی ضرورکرتاہے مگر آج ہماری یہ حالت ہے کہ ہم دعائیں کرکرکے تھک جارہے ہیں مگر ہماری دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا نہیں جارہاہے ،آخر کیوں؟؟اسی طرح سے محبوب خداﷺ نے یہ بھی یہ اعلان کیا کہ اے میری امت کے لوگوں سن لو! اللہ دعاؤں کے ذریعے بھی اس امت کی مدد کرتاہے، جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ إِنَّمَا يَنْصُرُ اللَّهُ هَذِهِ الْأُمَّةَ بِضَعِيفِهَا بِدَعْوَتِهِمْ وَصَلَاتِهِمْ وَإِخْلَاصِهِمْ ‘‘ بے شک اللہ اس امت کی مدد کرتا ہے ان کے کمزورلوگوں وجہ سے،ان کی دعاؤں کی وجہ سے اور ان کی نمازوں کی وجہ سے اور ان کے اخلاص کی وجہ سے۔(نسائی:3178 وقال الألبانیؒ:اسنادہ صحیح) مگرافسوس کہ ہماری دعاؤں میں وہ اثر وتاثیر نہیں کہ ہم مسلمانوں کی مدد کی جائے،آخرکیوں؟؟اسی طرح سے آپﷺ نے یہ بھی فرمایاکہ ’’ إِنَّ رَبَّكُمْ حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدِهِ أَنْ يَرْفَعَ إِلَيْهِ يَدَيْهِ فَيَرُدَّهُمَا صِفْرًا ‘‘ بے شک کہ تمہارارب حیادار اورسخی ہے،بندہ جب اس کی طرف اپنے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اسے حیاآتی ہے کہ انہیں خالی ہاتھ لوٹادے ۔(ابن ماجہ:3865،ابوداؤد:1488،وقال الألبانیؒ:اسنادہ صحیح)ذرا اس فرمان مصطفی ﷺ پرغورکیجئے کہ اللہ ہاتھ اٹھانے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا ہے مگر افسوس کہ ہمارے ہاتھ کثرت سے دعاکرنے کے بعد بھی خالی کی خالی ہیں،آخر کیوں؟؟ میرے دوستو!صادق مصدوق ﷺ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ ’’ وَلَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ ‘‘ دعاؤں سے تقدیر بھی بدل جاتی ہے۔(ابن ماجہ:4022 وقال الألبانیؒ اسنادہ حسن)دیکھا اورسنا آپ نے کہ دعاؤں سے تقدیر بھی بدل جاتے ہیں یعنی دعاؤں سےحالات بھی بدل جاتے ہیں مگر پھر بھی دورحاضر کے ہم مسلمانوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے،آخر کیوں؟ کبھی آپ نے غوروفکرسے کام لیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں؟

میرے دوستو!آج میں آپ سب کو یہی پیغام دینا چاہتاہوں کہ رب کافرمان اور رب کا وعدہ تو بالکل ہی سچاہے اس میں کسی بھی قسم کی شک وشبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے ،اگر خرابی ہے تو ہماری دعاؤں میں خرابی ہے ،اگرخرابی ہے تو ہمارے اعمال وکردار میں خرابی ہے ،یہ ہماری برائیاں اورہماری کوتاہیاں ہی ہیں کہ ہماری دعاؤں کو قبول نہیں ہونے دے رہی ہے،امام ابن قیمؒ نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ ’’ دعائیں ور تعوذات کی حیثیت اسلحہ کی طرح ہےاوراسلحے کی کارکردگی اسلحہ چلانے والے پر منحصر ہوتی ہے،صرف اسلحے کی تیزی کارگرثابت نہیں ہوتی ہے،چنانچہ اسلحہ مکمل اورہرقسم کے عیب سے پاک ہواوراسلحہ چلانے والے کے بازو میں قوت ہو اوردرمیان میں کوئی رکاوٹ نہ ہو تو دشمن پر ضرب کاری لگتی ہےاوراگر ان تینوں اشیاء میں سے کوئی ایک ناپید ہوتو نشانہ متأثر ہوتا ہے‘‘۔(الداء والدواء:ص35)بے شک دعا مومن کے لئے ایک ہتھیار ہے مگر ہمارا جو ہتھیار ہے ایک تو وہ کند ہوچکا ہے اوردوسری بات یہ کہ ہمارے بازؤں میں بھی وہ طاقت وقوت نہیں کہ ہم ہتھیارچلاسکے،اسی لئے میرے دوستو!اگرہم سب یہ چاہتے ہیں کہ ہم سب کی دعائیں قبول کی جائیں تو سب سے پہلےہم سب اپنے آپ کو بدلیں،پکے وسچے مومن بندے بن جائیں اللہ ہماری حالتوں کو بدل دے گا،اب آئیے میں آپ لوگوں کے سامنے میں ان اسباب کو بیان کردیتاہوں جو ہم مسلمانوں کی دعاؤں میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے:

(1) دعوت دین سے انحرافی:

برادران اسلام!!

آج جوہماری دعائیں بے اثر ہیں اورہماری دعاؤں کو جوشرف قبولیت سےنوازا نہیں جارہاہے تو اس کی سب سے بڑی اورپہلی وجہ یہ ہے کہ ایک فریضہ جو اللہ نے ہم مسلمانوں کے کندھوں پر رکھا تھا اس کو ہم سب نے اتارپھینکا ہےاورجب ہم مسلمانوں نےاس فریضے سے جی چرانا شروع کردیا تو تبھی سےرب العزت نے ہم پر اغیارکو مسلط کرکے ہمیں بے یارومددگار چھوڑدیاہے،اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ایساکونسا فریضہ ہے جس کی وجہ سے ہماری یہ نوبت ہوگئی ہے کہ نہ تو ہماری دعائیں قبول ہورہی ہیں اور نہ ہی ہماری مدد کی جارہی ہے تو وہ فریضہ دعوت دین کا فریضہ ہے،وہ فریضہ امربالمعروف والنہی عن المنکر کا فریضہ ہے،وہ فریضہ انبیائی مشن دعوت توحیدکو عام کرنے کا فریضہ ہے ،افسوس صد افسوس کہ آج ہم مسلمانوں نے اجتماعی طور پراللہ کے پیغام کو عام کرنا چھوڑ دیا ہے،ہم نے اللہ کے دین کو پھیلانا چھوڑدیا اللہ نے ہماری دعاؤں کو قبول کرنا چھوڑ دیا،ہم نے نیکی کا حکم دینے اوربرائی سے روکنے سے منہ پھیرا تواللہ نے ہماری دعاؤں کو ہمارے منہ پر ماردیا ،اوریادرکھ لیجئے جب تک امت مسلمہ اجتماعی طور پر دین کو عام کرنے کا فریضہ ادانہیں کرے گی اورجب تک یہ امت مسلمہ انبیائی مشن کو لے کر نہیں اٹھے گی تب تک نہ تو ہماری دعائیں قبول کی جائیں گی اور نہ ہی یہ مصیبت کے بادل ہم سے چھٹیں گے،جیسا کہ محبوب خداﷺ کا یہ اعلان ہے’’ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ المُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ ‘‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ضروربالضرور نیکی کا حکم دیتے رہنا اورہرحال میں لوگوں کو برائی سے روکتے رہنا ورنہ ایسا ہوگا کہ اللہ تعالی تم پراپنا عذاب بھیجے گا ،پھر تو تم اللہ سے دعائیں مانگوگے مگر تمہاری دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی۔(ترمذی:2169،وقال الألبانیؒ:اسنادہ حسن)اسی طرح سے ایک دوسری روایت کے اندر اس بات کا ذکرہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا’’ مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ قَبْلَ أَنْ تَدْعُوا فَلَا يُسْتَجَابَ لَكُمْ ‘‘تم نیکی کا حکم دو اورلوگوں کو برائی سے روکو قبل اس کے کہ تم دعائیں مانگو اور تمہاری دعاؤں کو شرف قبولیت سے نہ بخشا جائے۔(ابن ماجہ:4004،وقال الألبانیؒ اسنادہ حسن)میرے دوستو!ذراسوچئے کہ آج ہمارے ساتھ تو یہی ہورہاہے کہ ہم سب مل کر اپنے مظلوم مسلم بھائیوں اوربہنوں کے لئے گڑگڑاکردعائیں کرتے ہیں مگر پھر بھی ہماری دعائیں بے اثر ہیں اورایسا اس لئے ہورہاہے کہ ہم سب نے دعوت دین سے منہ موڑ لیاہے،اس لئے میرے دوستو! اگرہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری دعاؤں کو قبول کیا جائے اورہم مسلمانوں کی جان ومال کی حفاظت کی جائے تو پھر ہم سب اللہ کے دین کے داعی بن جائیں کیونکہ اللہ نے یہ وعدہ کررکھا ہے ’’ وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ ‘‘ جو اللہ کی مددکرے گا اللہ بھی ضروراس کی مدد کرے گا۔(الحج:40)

(2) حرام کمائی :

میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو!

جن اسباب کی وجہ سے ہماری دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں اورجو جو چیزی ہماری دعاؤں میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ان میں سے دوسری ایک اوراہم چیزحرام کمائی ہے،آج مسلمانوں کی اکثریت حرام کمائی کررہی ہے،آج کل کے مسلمانوں نے حرام اورحلال کی تمیز کو ختم کردیا ہے،ہرمسلمان یہ چاہتاہے کہ اس کے پاس پیسہ ہو،مال ودولت ہو چاہے وہ حرام کمائی سے ہی کیوں نہ ہو،آج کا مسلمان جب حرام کمائی کررہاہے اورپھرمزید یہ کہ اسی حرام کمائی سے وہ اپنی زندگی بھی گذر وبسر کررہاہے تو پھردعائیں کیسے قبول ہوں گی کیونکہ دعا کی قبولیت میں سب سے بڑی چیز جو رکاوٹ ہے وہ حرام کمائی ہے جیسا کہ ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو!’’ إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا ‘‘ بے شک کہ اللہ پاک ہے اور وہ صرف پاک چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے،’’ وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ ‘‘اور بے شک کہ اللہ تعالی نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو دیا ہے،چنانچہ رب العزت نے رسولوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ‘‘ اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو،تم جوکچھ کررہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔(المؤمنون:51)اسی طرح سے یہی حکم رب العزت نے مومنوں کو دیا کہ ’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ‘‘ اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ ،پیو۔(البقرۃ:172)پھرآپﷺ نے ایک ایسے انسان کا تذکرہ کیا جو طویل سفرکرتاہے،اس کے بال پراگندہ ہیں،اس کے جسم وکپڑے غبارآلود ہیں،وہ آسمان کی طرف اپنے ہاتھ پھیلا کر دعاکرتاہے اور کہتا ہے کہ ’’ يَا رَبِّ، يَا رَبِّ ‘‘ اے میرے رب !اے میرے رب!یعنی کہ وہ روتے اورگڑگڑاتے ہوئے دعائیں کررہاہے اورمسافر کی دعائیں قبول بھی کی جاتی ہیں مگر اس انسان کی حالت یہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ ‘‘ اس کا کھانا بھی حرام کا ہے،اس کا پینا بھی حرام کا ہے،اس کا لباس بھی حرام کا ہے اور اس کی پرورش بھی حرام غذا اورحرام کمائی سے ہوئی تو بھلا بتلاؤ کہ ’’ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ ‘‘ایسے انسان کی دعا کیسے قبول کی جائے۔(مسلم:1015) میرے دوستو! ذراسوچئے کہ ایک مسافر جس کی دعاؤں کو اللہ رد نہیں کرتاہے مگر حرام کمائی کی وجہ سے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے تو بھلا سوچئے کہ اگر ہم حرام کمائی کریں گےاورپھر دعائیں کریں گے کہ اے اللہ تو فلسطین کے مسلمانوں کی مدد فرماتو اللہ ہماری دعاؤں کو کیسے قبول کرے گا،اسی لئےہم سب اگریہ چاہتے ہیں کہ ہم سب کی انفرادی واجتماعی دعائیں قبول کی جائیں تو پھر حرام کمائی کو چھوڑ کر حلال کو اپنالیجئے،اورامام ابن قیمؒ کی یہ بات آپ ہمیشہ یاد رکھیں کہ حرام کھانے سے دعا میں قوت ختم ہوجاتی ہے اوردعا میں کمزوری آجاتی ہے۔(اسلام سوال وجواب :جواب نمبر:13506،ویب سائٹ شیخ محمد صالح المنجد)

(3) خوشحالی کے دنوں میں دعا نہ کرنا:

میرے دوستو! جن اسباب کی وجہ سے ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں ان میں سے ایک تیسری بڑی سبب یہ بھی ہے کہ ہم اللہ رب العالمین کو اس وقت یادکرتے ہیں جب ہمارے اوپرکوئی مصیبت وپریشانی نازل ہوتی ہے،جب ہم پریشان وبدحال اوربیمار ہوجاتے ہیں تو اپنے رب سے منتیں کرتے ہوئے روتے اورگڑگڑاتے ہیں جب کہ خوشحالی اورایام صحت میں کبھی بھی رب کے حضور نہ توہم روتے ہیں اور نہ ہی گڑگڑاتےہیں ،ہماری اسی بری عادت کے بارے میں رب العزت نے فرمایا ’’ وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنَا إِلَى ضُرٍّ مَسَّهُ كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ‘‘اورجب انسان كو كوئی تکلیف پہنچتی ہے توہم کو پکارتا ہے لیٹے بھی،بیٹھے بھی،کھڑے بھی،پھر جب ہم اس کی تکلیف اس سے ہٹادیتے ہیں تو وہ ایساہوجاتاہے کہ گویا اس نے تکلیف کے لئے جواسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہیں تھا،ان حدسے گزرنے والوں کے اعمال کوان کے لئے اسی طرح خوشنما بنادیاگیا ہے۔(یونس:12) کسی عربی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ :

نَحْنُ نَدْعُوْ الإِلٰهَ فِيْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ نَنْسَاهُ عِنْدَ كَشْفِ الْكُرُوْبِ

یعنی کہ ہم اپنے رب سے ہرمصیبت میں دعا تو کرتے ہیں مگر جیسے ہی ہم سےمصیبت چھٹ جاتی ہے توہم اپنے رب کو بھول جاتے ہیں ۔ (حیاۃ السلف بین القول والعمل:1/504) ہم انسانوں کی اسی بری عادت وخصلت کے بارے میں ایک اورجگہ پر رب العزت نے فرمایا’’ وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍ ‘‘اورجب ہم انسان پر اپنا انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اورکنارہ کش ہوجاتاہے اورجب اسے مصیبت پڑتی ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے والا بن جاتاہے۔(فصلت:51)دیکھا اورسنا آپ نے کہ جیسا ہمارے رب نے کہاہے آج ہم ویسا ہی کررہے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ ہماری دعائیں بے اثر ہیں ،اس لئے میرے دوستو اگرآپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا جائے تو پھر آپ ہمیشہ اللہ سے دعائیں کرتے رہا کریں، ہم خوشحالی اورایام صحت میں اپنے رب کو نہ بھولیں،ہمارا رب ہمیں بدحالی اورایام مرض میں نہیں بھولے گاجیسا فرمان مصطفی ﷺ ہےكه ’’ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْتَجِيبَ اللَّهُ لَهُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالكَرْبِ فَلْيُكْثِرِ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ ‘‘ جوانسان یہ چاہتاہوکہ اللہ تعالی سختی وپریشانی اورغم وتکلیف کے وقت اس کی دعاؤں کو قبول کرے تو اسے چاہئے کہ خوشحالی کے دنوں میں وہ بکثرت دعائیں کیا کرے۔ (ترمذی:3382،الصحیحۃ:593)اس لئے میرے دوستو اپنے رب سے ہمیشہ دعائیں کرتے رہاکرو اورہمیشہ بالخصوص خوشحالی اورآسودگی ،چین وآرام اورامن وسکون کے دنوں میں اپنے رب سے تعلق جوڑے رکھو وہ تمہیں تمہاری پریشانی وبدحالی کے دنوں میں یادرکھے گاجیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے کہ ’’ تَعَرَّفْ إِلَى اللهِ فِي الرَّخَاءِ يَعْرِفْكَ فِي الشِّدَّةِ ‘‘ تم اللہ کو خوشحالی میں یادرکھو وہ تمہیں تکلیف کے وقت یادرکھے گا۔(احمد:2803،صحیح الجامع الصغیرللألبانی:2961)

(4)ہم نیکیوں میں سست اورگناہوں میں چست ہیں:

میرے دوستو!آج ہماری دعائیں جن اسباب کی وجہ سے مردود ہوجارہی ہیں ان میں سے ایک چوتھیسب سے بڑی سبب یہ کہ آج ہم مسلمانوں کی اکثریت نیکیوں کو انجام دینے میں سست اورگناہوں کو انجام دینے میں چست نظرآتے ہیں، آج کا مسلمان نیکیوں کے معاملے میں بہت پیچھے رہتا ہے جب کہ برائیوں کے میدان میں تو مسلمانوں کاکوئی ثانی ہی نہیں ہے،آج امت مسلمہ کی اکثریت نےاللہ اوراس کے رسولﷺ کے دین کو پیٹھ پیچھے ڈال دیا ہے،آج کی مسلم قوم یہ چاہتی ہے کہ نہ وہ توحید کو مانے،نہ نماز پڑھے،نہ روزہ رکھےمگر اللہ ان کی ہردعاکو قبول کرلے،مسلم قوم یہ چاہتی ہے کہ ہم جیسے بھی رہیں مگر اللہ ہماری ہرخواہشوں کو پوری کردے،اگرآپ بھی ایساچاہتےہیں تو پھر یادرکھ لیجئے کہ جب تک ہم نیکیوں میں سست اورگناہوں میں چست رہیں گے تب تک ہماری کوئی دعاقبول نہ کی جائے گی کیونکہ رب العزت نے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں تو دعاؤں کو قبول کروں گا بشرطیکہ تم میری باتوں مانو اورمیرے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گذارو،جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ‘‘جب ميرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہرپکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے،قبول کرتاہوں،اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اورمجھ پر ایمان رکھیں،یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔(البقرۃ:186)ذراغورسے رب العزت کا فرمان سنئے کہ رب العزت نے یہ کہا کہ میں سب کی پکارکو سنتاہوں اس لئے لوگوں کو چاہئے کہ وہ میری بات مان لیا کریں تو اگرہم اللہ کی بات ہی نہیں مانیں گے تو پھر اللہ ہماری دعاؤں کو کیسے شرف قبولیت سے نوازے گا،اسی لئے میرے دوستو!اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اللہ ہماری ہردعاکو سن لے توپھر ہم سب گناہوں کو چھوڑدیں اورنیکیوں کو طرف آجائیں،جتنی جلدی ہم گناہوں کو چھوڑکرنیکیوں کے طرف آئیں گے اتنی ہی جلدی ہماری دعائیں قبول کی جائیں گی،اگر آپ کو میری باتوں پر یقین نہ آرہاہوتو پھر ذراقرآن اٹھاکر زکریا علیہ الصلاۃ والسلام کا واقعہ پڑھئے اورپھر دیکھئے کہ رب العزت نے کیابیان فرمایا ہے،اللہ رب العزت نے وہاں پر یہ واضح طورپر پیغام دے دیا ہے کہ ہم نے زکریا کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازااورانہیں ایک پیارا بیٹا عطا کیا تو یہ اس لئے کہ وہ نیکیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہا کرتے تھے،سنئے فرمان باری تعالی کو ’’ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَى وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ ‘‘ ہم نے اس کی دعا کو قبول فرماکراسے یحیی (علیہ السلام) عطا فرمایا اوران کی بیوی کو ان کے لئے درست کردیا،یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اورہمیں لالچ طمع اورڈرخوف سے پکارتے تھے،اورہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے۔(الأنبیاء:90)اس لئے میرے دوستو!اگرہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا جائے تو پھر ہم سب سےپہلے اپنے آپ کوبدلیں اور آج سے ہی اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں اورنیکیوں کو انجام دینے میں منہمک ہوجائیں اوراپنی زندگی کو اللہ اوراس کے رسولﷺ کے دین کے مطابق گذارنا شروع کردیں ورنہ ہم دعائیں کرتے کرتے تھک جائیں گے مگر ہماری دعائیں قبول نہیں ہوں گی کیونکہ یہ ہمارے برے اعمال اورہمارے گناہ ہی تو ہیں جو دعا کی قبولیت میں رکاوٹ پیدا کررہی ہیں ،آئیے اس بارے میں ابراہیم بن ادہمؒ کا ایک حقیقت پرمبنی قول سناتاہوں کہ ان سے لوگوں نے کہا کہ اے ابراہیم بن ادہمؒ اللہ نے قرآن مجید کے اندر یہ وعدہ کیا ہے کہ ’’ أُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ‘‘ تم مجھے پکارو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔(غافر:60) مگر’’وَنَحْنُ نَدْعُوهُ مُنْذُ دَهْرٍ فَلَا يَسْتَجِيبُ لَنَا ‘‘ ہم ایک زمانے سے دعاکررہے ہیں مگر ہماری دعائیں قبول ہی نہیں ہورہی ہیں،آخر کیوں؟ تو ابراہیم بن ادہم نے کہا کہ ’’ مَاتَتْ قُلُوبُكُمْ فِي عَشَرَةِ أَشْيَاءَ ‘‘ تمہاری دعاؤں کے قبول نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تمہارے دل دس چیزوں اوردس باتوں کی وجہ سےمردہ ہوچکے ہیں:

(1) پہلی بات تو یہ ہےکہ ’’ عَرَفْتُمُ اللهَ ولَمْ تُؤَدُّوا حَقَّهُ ‘‘ تم نے اللہ تعالی کو پہچانا مگر اس کا حق ادا نہ کیا۔

(2) دوسری بات یہ کہ’’ قَرَأتُمْ كِتَابَ اللَّهِ وَلَمْ تَعْمَلُوا بِهِ ‘‘ تم قرآن مجید کو پڑھتے ہومگر اس پرعمل نہیں کرتے ہو۔

(3) تیسری بات یہ ہے کہ ’’ اِدَّعَيْتُمْ حُبَّ الرَّسُولَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرَكْتُمْ سُنَّتُهُ ‘‘ تم آپﷺ سے محبت کا دعوی تو کرتے ہو مگر ان کی سنتوں پر عمل نہیں کرتے ہو۔

(4) چوتھی بات یہ ہے کہ ’’ اِدَّعَيْتُمْ عَدَاوَةَ الشَّيْطَانَ وَوَافَقْتمُوهُ ‘‘ تم شیطان کو اپنا دشمن تو سمجھتے ہو مگر تم نے اس شیطان کو اپنا دوست بنا رکھا ہے۔

(5) پانچویں بات یہ ہے کہ ’’ قُلْتُمْ نُحِبُّ الجنَّةَ فَلَمْ تَعْملُوا لَهَا ‘‘ تم جنت سے محبت کا دعوی تو کرتے ہو مگر اس کے حصول کےلئے نیک اعمال نہیں بجالاتے ہو۔

(6) چھٹی بات یہ ہے کہ ’’ قُلْتُمْ نَخَافُ النَّارَ وَرَهَنْتُمْ نُفُوسَكُمْ بِهَا ‘‘ تم یہ تو کہتے ہو کہ ہمیں جہنم سے بہت ڈرلگتاہے مگر گناہوں سے اپنے آپ کو بچاتے نہیں ہو۔

(7) ساتویں بات یہ ہے کہ ’’ قُلْتُمْ إِنَّ المَوْتَ حَقٌّ وَلَمْ تَسْتَعِدُّوا لَهُ ‘‘ تم یہ مانتے ہو کہ موت برحق ہے مگر اس کے لئے تم کوئی تیاری نہیں کرتے ہو۔

(8) آٹھویں بات یہ ہے کہ ’’ اِشْتَغَلْتُمْ بِعُيُوْبِ إخْوَانِكُمْ وَنَبَذْتُمْ عُيُوبَكُمْ ‘‘ تم دوسروں کے عیوب کے پیچھے پڑے تو رہتے ہو مگر اپنے عیوب پر نظر نہیں ڈالتے ہو۔

(9) نویں بات یہ ہے کہ ’’ أكَلْتُمْ نِعْمَةَ رَبِكُمْ وَلَمْ تَشْكُرُوْهَا ‘‘ تم اللہ کا رزق کھاتے ہو مگر اس کا شکریہ ادا نہیں کرتے ہو۔

(10) اوردسویں بات یہ ہے کہ ’’ دَفَنتمْ مَوْتَاكُمْ وَلَمْ تَعْتَبِرُوا بِهِمْ ‘‘ تم سب اپنے ہاتھوں سے اپنے مردوں کو دفن تو کرتے ہو مگر اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے ہو۔( حیاۃ السلف بین القول والعمل:1/504، حلیۃ الأولیاءوطبقات الاصفیاء:8/15)کسی عربی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

كَيْفَ نَرْجُوْ إِجَابَةَ الدُّعَاءِ وَقَدْ سَدَدْنَا طَرِيْقَهَا بِالذُّنُوْبِ

یعنی کہ ہم اپنے دعا ؤں کی قبولیت کی امید کیسے کرسکتے ہیں جب کہ ہم نےاپنے گناہوں سے دعاؤں کے قبول ہونے کےراستوں کو بندکر رکھا ہے۔(حیاۃ السلف بین القول والعمل:1/504)

(5) کچھ دن دعاکرنا اورپھر چھوڑدینا:

میرے دوستو!ہماری دعائیں جو قبول نہیں ہورہی ہیں تو اس کے ذمے دارہم خود ہیں وہ اس طرح سے کہ ہم کچھ دن مسلسل دعائیں کرتے رہتے ہیں،اپنے رب کے حضور خوب روتے اورگڑگڑاتے ہیں اورپھر کچھ دنوں کے بعد تھک ہارکر بیٹھ جاتے ہیں اوریہ کہہ کردعاکرنا ہی چھوڑدیتے ہیں کہ میں نے بہت دعائیں مانگی مگر میری دعائیں قبول ہی نہیں ہوئی،جولوگ بھی ایساکرتے اور کہتےہیں توایسے لوگوں کے بارے میں محبوب خداﷺ نے یہ کہا کہ ایسے لوگوں کی دعائیں قبول ہی نہیں کی جاتی ہے جیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ يُسْتَجَابُ لِأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ يَقُولُ دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي ‘‘ کہ تم میں سے ایک انسان کی دعا اس وقت قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ جلدی نہ کرے کہ کہنے لگے کہ میں نے دعاکی تھی مگرمیری دعاقبول نہیں ہوئی۔(بخاری:6340)اسی بارے میں صحیح مسلم کے اندر یہ حدیث بھی موجود ہے آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ لَا يَزَالُ يُسْتَجَابُ لِلْعَبْدِ مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ مَا لَمْ يَسْتَعْجِلْ ‘‘ ایک بندے کی دعااس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعانہ کرےاورجلدی نہ کرے،صحابۂ کرامؓ نے آپﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ کے نبیﷺ ’’ مَا الِاسْتِعْجَالُ ‘‘ جلدی کرنے سے مقصود کیاہے؟توآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ قَدْ دَعَوْتُ وَقَدْ دَعَوْتُ فَلَمْ أَرَ يَسْتَجِيبُ لِي فَيَسْتَحْسِرُ عِنْدَ ذَلِكَ وَيَدَعُ الدُّعَاءَ ‘‘ دعاکرنے والا یہ کہنے لگے کہ میں نے کئی بار دعاکی لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی،پھر وہ انسان اکتاکردعاکرنا ہی چھوڑدے۔ (مسلم:2735،ابوداؤد:1484،ترمذی:3387)اس لئے میرے دوستو!دعا ہمیشہ کرتے رہنا اور اسے کبھی نہ چھوڑنا کیونکہ ہمارے رب کی شان یہ ہے کہ وہ دعا نہ کرنے سے ناراض ہوتا ہے جیساکہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ مَنْ لَمْ يَسْأَلِ اللَّهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ ‘‘ جو شخص اللہ تعالی سے نہیں مانگتا ہے تو اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوجاتا ہے۔ (ترمذی:3373،الصحیحۃ:2654)رب کی اسی شان اور عظمت کے بارے میں کسی عربی شاعرنے کیا ہی خوب کہا ہے :

أَللّٰهُ يَغْضَبُ إِنْ تَرَكْتَ سُؤَالَهُ

وَبَنِیْ آدَمَ حِينَ يُسْأَلُ يَغْضَبُ

اللہ تعالی کی شان یہ ہے کہ جب تو اس سے نہ مانگے تو وہ ناراض ہوتا ہےاورانسان کی حالت یہ ہے کہ اس سے مانگاجائے تو وہ ناراض ہوجاتا ہے۔(تفسیر قرطبی:5/164)اسی لئے اے لوگو! جب بھی ہاتھ پھیلاؤ تو اپنے رب کے سامنے میں پھیلاؤ اوردعاکا بکثرت اہتمام کیا کرواوریہ بات ہمیشہ یاد رکھوکہ دعا کی توفیق سب کو نہیں ملتی ہے،رب جس پر مہربان ہوتا ہے اسے ہی دعاکرنے کی توفیق ملتی ہےجیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ مَنْ فُتِحَ لَهُ مِنْكُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ ‘‘جس انسان کے لئے دعاکا دروازہ کھل گیا (یعنی اسے باربار دعاکرنے کی توفیق ملی تو سمجھو کہ )اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل گئے۔(ترمذی:3548،اسنادہ حسن)

(6)دعا کی قبولیت کا یقین نہ ہونا:

(7) لاپرواہی اورسستی وکاہلی سے دعاکرنا:

برادران اسلام!

آج ہماری دعائیں جو قبول نہیں ہورہی ہیں اس کا ایک اورچھٹا اہم سبب یہ بھی ہے کہ بہت سارے لوگ دعاتوکرتے ہیں مگر انہیں خوداس بات پر یقین نہیں ہوتا ہے کہ اللہ ان کی دعاؤں کو قبول کرے گا،وہ شک وشبہ کے شکاررہتے ہیں اورخود اپنی زبان سے کہتے بھی نظر آتے ہیں اللہ ہماری دعاؤں کو قبول ہی نہیں کرتاہے،پتہ نہیں اللہ میری دعاؤں کو قبول کیوں نہیں کرتاہے؟بہت سارے لوگ تو یہ بھی کہتے نظرآتے ہیں کہ ہمیں کیا معلوم کہ اللہ قبول کرےگا کی نہیں بلکہ سماج ومعاشرے کے اندر تو لوگوں نے اپنی شرک وبدعت کی دوکان کو چلانے کے لئے یہ بات بھی پھیلا رکھی ہے کہ اللہ تو صرف نیک لوگوں کی سنتا ہے، ہم تو گناہگار ہیں اللہ ہماری کہاں سنے گا، ارے لوگوں اللہ تو سب کی سنتاہےچاہے وہ کافرہویا مشرک،ملحد ہویا پھر زندیق ،کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

وہ سنتا ہے سب کی دعا کرتو دیکھو

تم اپنے نصیب آزما کر تودیکھو​

امام سفیان بن عیینہؒ نے کیا ہی خوب کہاہے کہ اے لوگو!دعاکو کبھی مت چھوڑناکیونکہ اللہ نے تو تمام مخلوق میں سب سے برا جوابلیس ہے اس کی بھی دعا کو قبول کرلیاتھا کہ جب اس ابلیس نے یہ دعا کی کہ ’’ رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ‘‘ اے میرے رب مجھے لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن تک مہلت دے،تو رب العزت نے اس کی دعاکو قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ ، إِلَى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ‘‘ تومہلت والوں میں سے ہے،متعین وقت کے دن تک(کےلئے)۔ (ص:79-81،تفسیرقرطبی:2/313)دیکھا اورسنا آپ نے کہ جب اللہ رب العزت نے ابلیس ملعون کی دعاکو قبول کرلیاتو کیا اللہ ہماری دعاؤں کو قبول نہیں کرے گا،ضروربالضرورکرے گا بشرطیکہ ہمیں کامل یقین ہوکہ رب العزت ہماری دعاؤں کو ضروربالضرور قبول کرے گا،لیکن اگر ہم شک وشبہ میں رہیں گے اوریہ سوچیں گے کہ پتہ نہیں ہماری دعا قبول کی جائے گی کی نہیں تو سن لیجئے جولوگ بھی دعاکے متعلق شک وشبہ کا اظہارکرتے ہیں تو ایسے لوگوں کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نہیں نوازا جاتا ہے۔

میرے دوستو!اسی طرح سے ہماری دعائیں جو قبول نہیں ہورہی ہیں اس کا ایک اورساتوں اہم سبب یہ بھی ہے کہ ہم خشوع وخضوع ، عاجزی وانکساری ،مکمل یکسوئی اورحضورقلب سے دعا نہیں مانگتے ہیں بلکہ ہم سب اس عظیم عبادت کو ایک رسماوعادتا کے طورپراچاٹ دل سے انجام دیتے ہیں،اکثروبیشتر دیکھا یہ جاتاہے کہ جب لوگ فرض نماز کے بعداپنے اپنے ہاتھوں کو دعاکے لئےاٹھاتے ہیں تو وہ دورانِ دعا ادھر ادھر تاک جھانک کررہے ہوتے ہیں،کوئی مصلیوں کے طرف دیکھ رہاہوتاہے تو کوئی مسجد کے درودیوار کے طرف باربار اپنی نگاہ کو لے جارہاہوتاہے تو کوئی اپنے داڑھی کے بالوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نظرآتاہے توکوئی اپنے موبائل میں مشغول رہتے ہوئے دعاکررہاہوتاہے،جولوگ بھی اس طرح کی حرکت کرتے ہیں وہ لوگ اپنی اس حرکت سے باز آجائیں کیونکہ جولوگ بھی اس طرح غفلت ولاپرواہی سے دعاکرتے ہیں تو ایسے لوگوں کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نہیں نوازا جاتا ہے مذکورہ بالا دونوں باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایاکہ اے لوگو! ’’ أُدْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالإِجَابَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ ‘‘ تم اللہ تعالی سے اس طرح سے دعائیں کروکہ تمہیں اس دعاکی قبولیت کا یقین ہو اور یہ بات اچھی طرح سے جان لوکہ اللہ تعالی غافل اورلاپرواہ دل سے کی گئی دعاؤں کوقبول نہیں کرتاہے۔(ترمذی:3479،الصحیحۃ:594)اس لئے میرے دوستو!خشوع وخضوع ،حضورقلب، عاجزی وانکساری کے ساتھ،روتے اورگڑگڑاتے ہوئے دعائیں کیا کرواورہمارے رب کا بھی یہی حکم ہے کہ ’’ أُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ‘‘ تم اپنے پروردگار سے دعاکیاکرو،گڑگڑاکرکے بھی اورچپکے چپکے بھی،واقعی اللہ تعالی ان لوگوں کو ناپسندکرتاہے جوحدسے نکل جائیں۔(الاعراف:55)

(8) دعا کرنے سے پہلے درود وسلام کا اہتمام نہ کرنا:

محترم قارئین!

آج ہماری دعائیں جو قبول نہیں ہورہی ہیں اس کا ایک اورآٹھواں اہم سبب یہ بھی ہے کہ ہم جب اپنے ہاتھوں کودعا کرنے کے لئے اٹھاتے ہیں تو بس ہاتھ اٹھاتے ہی ربنا آتنا اوریہ وہ مانگنا شروع کردیتے ہیں،جب کہ طریقہ یہ ہے کہ ہم پہلے اللہ کی حمدوثنا اوربڑائی وکبریائی بیان کریں اورپھر اپنے محبوب نبیﷺ پر درودوسلام بھیجے اورپھر اس کے بعد اپنے لئے خیروبھلائی کی جودعائیں مانگنی ہے مانگیں مگرہمیں ایساکرنے کی فرصت ہی کہاں رہتی ہے ،لوگوں کو تو بس جلدی ہی رہتی ہے،امام صاحب کے سلام پھیرتے ہی لوگ ہاتھ اٹھاتے ہیں اورپھر چہرے پر ملتے ہوئے وہاں سے اٹھ جاتے ہیں، اللہ ہی بہتر جانے کہ وہ 10/15 سیکنڈ میں وہ کون سی دعا پڑھتے ہیں،میرے دوستو!اگر آپ بھی ایسا کرتے ہیں تو آج سے ہی اس حرکت سے باز آجائیں کیونکہ جولوگ اپنے نبیﷺ پر درودوسلام بھیجے بغیر دعاکرتے ہیں تو ایسے لوگوں کی دعائیں زمین وآسمان کے درمیان میں لٹک جاتی ہے جیسا کہ امیر المومنین سیدنا عمربن خطابؓ نے کہا کہ ’’ إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ لَا يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْءٌ حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘‘بے شک کہ دعا آسمان وزمین کے درمیان ٹھہری رہتی ہے ،وہ دعا اس سے کچھ بھی اوپرنہیں چڑھتی ہے جب تک کہ تم اپنے نبیﷺ پر درود نہ بھیج لو۔(ترمذی:486،وقال الألبانیؒ اسنادہ حسن)اسی طرح سے آپﷺ کا بھی فرمان ہے کہ ’’ كُلُّ دُعَاءٍ مَحْجُوبٌ حَتَّى يُصَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صلى اللهُ عليه وسلَّم ‘‘ جب تک آپﷺ پر درود نہ بھیجی جائے تب تک ہردعا کو روک لیا جاتاہے یعنی کہ دعاؤں کو قبول نہیں کی جاتی ہے۔(الصحیحۃ:2035) میرے دوستو!جولوگ بھی سلام پھیرتے ہی جلدی جلدی درود شریف پڑھےبغیر ہی دعائیں کرنے لگ جاتے ہیں توایسے لوگ یہ بات یاد رکھ لیں کہ وہ زندگی سارا اس طرح سے دعائیں کرتے رہیں گے مگر ان کی دعائیں زمین وآسمان کے بیچ میں لٹکی ہوئی رہ جائے گی،آئیے اس بارے میں ایک اورحدیث کو سنتے ہیں سیدنا فَضالہ بن عبیدؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم آپﷺ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اورنماز پڑھی اورپھر سلام پھیرتے ہی یہ دعا کرنے لگا کہ ’’ أَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي ‘‘ اے اللہ مجھے بخش دے اورمیرے اوپر رحم فرما،ایسا دیکھ کرآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ عَجِلْتَ أَيُّهَا المُصَلِّي إِذَا صَلَّيْتَ فَقَعَدْتَ فَاحْمَدِ اللَّهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ وَصَلِّ عَلَيَّ ثُمَّ ادْعُهُ ‘‘اے نماز ی انسان تم نے بہت جلدی کی ہے، جب تم نماز پڑھو اورپھر دعاکرنے کے لئے بیٹھو تو پہلے اللہ کی شان کے مطابق اس کی حمد وثنا بیان کرو اورمجھ پر درود بھیجو پھر تم دعا کرو،حضرت فضالہ بیان کرتے ہیں کہ پھر کچھ دیر کے بعدایک دوسرا آدمی مسجد میں آیا اورنماز اداکرکے اس نے اس طرح سے دعا کی شروعات کی کہ پہلے اس نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی اورنبیﷺ پردرود بھیجا تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ ’’ أَيُّهَا المُصَلِّي ادْعُ تُجَبْ ‘‘اے نمازی !دعاکر قبول کی جائے گی، ایک دوسری روایت میں ہے آپ نے فرمایا کہ دعاکرو تمہاری دعا قبول کی جائے گی ’’ وَسَلْ تُعْطَ ‘‘ اورمانگو تمہاری مراد پوری کی جائے گی۔(ترمذی:3476،نسائی:1284،وقال الألبانیؒ اسنادہ صحیح)

(9) گناہ کی دعائیں کرنا:

میرے دوستو!آج ہماری دعائیں جو قبول نہیں ہورہی ہیں اس کا ایک اوراہم نواں سبب یہ ہے کہ بہت سارے لوگ گناہ کی دعائیں کرتے رہتے ہیں،سماج ومعاشرے کے اندر بہت سارے لوگوں کو یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ وہ گناہ کی یاپھر اللہ کی نافرمانی کی دعائیں کرتے رہتے ہیں اور جب دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں تواپنےرب سے بدظن ہوکر یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوئی،بہت سارے ایسے نوجوان بھی ہم نے دیکھے ہیں جو ہاتھ اٹھاکررب کے حضورروتے اورگڑگڑاتے ہوئےکسی لڑکی کی محبت کی بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں اورکچھ ایسے لوگ بھی ہم نے دیکھے ہیں جو اپنے رشتے داروں کے ہلاک وبربادہونے کی دعائیں کرتے رہتے ہیں،کچھ ایسے لوگ بھی ہم نے دیکھے ہیں جو حسد وجلن میں آکر کسی کی تجارت کے ڈوبنے اوردیوالیہ ہونے کی دعائیں کرتے رہتے ہیں الغرض اس طرح کی جتنی بھی دعائیں ہوتی ہیں رب اس کو قبول نہیں کرتاہے جیسا کہ سیدناابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’ لَا يَزَالُ يُسْتَجَابُ لِلْعَبْدِ مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ ‘‘ ایک بندے کی دعااس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک کہ وہ گناہ یا پھر قطع رحمی کی دعا نہ کرے۔(مسلم:2735)

(10) اخلاص کا نہ ہونا:

برادران اسلام!

آج کل جو ہم مسلمان کی دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں اس کا ایک دسواں اورسب سے بڑا سبب یہ ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت اللہ کی عبادت وبندگی کرنے اوراپنے رب سےمانگنے اوردعائیں کرنے میں مخلص نہیں ہےجبکہ کسی بھی طرح کےدعا کی قبولیت کے لئے اخلاص کا ہونا یہ لازمی شرط ہے،افسوس صد افسوس آج کا مسلمان اپنے رب سے بھی مانگتاہے اورغیروں سے بھی مانگتاہےاور تواور ہے آج کل کےمسلمان تو مکہ کے کفار ومشرکین سے بھی چارقدم آگے ہے وہ اس طرح سے کہ اگر ان کفارومشرکین پرکوئی آفت ومصیبت آتی تھی تو وہ لوگ اپنے تمام باطل خداؤں سے اپناپلوجھاڑلیتےتھے اورصرف اورصرف ایک اللہ کو پکارناشروع کردیتے تھے۔(یونس:22-23)مگرآج کا ایک مسلمان ہے کہ جب اسے مصیبت آتی ہے تو وہ اس مصیبت کے گھڑی میں بھی یا حسین اوریا علی کے نعرے لگاناشروع کردیتے ہیں،بھلاایسے لوگوں کی دعائیں کیونکرقبول ہوں گی جو اللہ کو چھوڑکرغیروں سے مرادیں مانگے،اللہ رب العزت کاحکم تویہ ہے کہ اے لوگوں تم اپنی تمام عبادات کو صرف ایک اللہ کے لئے خالص کرلو اور دعا بھی ایک عبادت ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ ‘‘ انهیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیاگیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کےلئے دین کو خالص رکھیں۔(البینۃ:5)اسی طرح سے دوسری جگہ رب العزت کا فرمان ہے’’ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ‘‘ اوراللہ تعالی کی عبادت اس طورپرکروکہ اس عبادت کو خالص اللہ ہی کے واسطے رکھو۔(الاعراف:29) اس لئے میرے دوستو!اگرآپ اپنی ہردعاؤں کو قبول کرانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ پختہ یقین وایمان اپنے دل میں پیداکرلیں کہ وہی ایک اللہ سب کچھ عطاکرنے والاہے،مافوق الاسباب طریقے سے سب کی فریادرسی وہی ایک اللہ کرتاہے اور یہ بات اپنے دل ودماغ میں بیٹھا لیں کہ ایک اللہ کے علاوہ اس کائنات میں کوئی مشکل کشااورحاجت روا نہیں جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ ،إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ‘‘جنہیں تم اس کے سواپکاررہے ہو وہ تو کھجورکی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں،اگرتم انہیں پکاروتووہ تمہاری پکارسنتے ہی نہیں، اوراگر(بالفرض)سن بھی لیں تو فریادرسی نہیں کریں گے،بلکہ قیامت کے دن تمہارےاس شرک کا صاف انکارکرجائیں گے،آپ کو کوئی بھی حق تعالی جیسا خبردارخبریں نہ دے گا۔(فاطر:13-14)

میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اوربہنو!اب آئیے میں آپ کودعاکے متعلق پانچ باتیں بیان کردیتاہوں اورآپ سب ان پانچ باتوں کو اپنے دل میں بیٹھاکرجائیں اورہمیشہ یاد رکھیں ان شاء اللہ آپ کبھی بھی اپنے رب سے مایوس نہ ہوں گے اورنہ ہی دعاؤں کو کبھی چھوڑیں گے:

(1) سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ دعاکرنا کبھی نہ چھوڑیں کیونکہ یہ دعا آپ کو کسی نہ کسی شکل میں فائدہ ضرورپہنچائے گی، یہ دعا آپ کی اورآپ کے جان ومال کی حفاظت کرائے گی جیسا کہ محبوب خداﷺ نے فرمایا ’’ إِنَّ الدُّعَاءَ يَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ يَنْزِلْ فَعَلَيْكُمْ عِبَادَ اللَّهِ بِالدُّعَاءِ ‘‘ كه یقینا دعا ایسی آفات جو نازل ہوچکی ہیں اورجو ابھی نازل نہیں ہوئیں ہیں سب کے لئے فائدہ مند ہےاس لئے اے اللہ بندو! دعا کو لازم پکڑنا اوراسے کبھی مت چھوڑنا۔(ترمذی:3548،وقال الألبانیؒ اسنادہ حسن،صحیح الجامع للألبانیؒ:3409)

(2) دوسری بات یہ کہ اے لوگوں بارے میں یہ کبھی مت سوچنا اورکبھی بھی اپنی زبان سے یہ نہ نکالناکہ میری دعا قبول نہیں ہوئی کیونکہ محمدعربیﷺ نے دعاکرنے والوں کو یہ مژدۂ جانفزاسنایا ہے کہ ایسے لوگوں کو تین فائدوں میں سے کوئی ایک فائدہ ضرورملتاہے جیساکہ سیدنا ابوسعیدخدریؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ ‘‘ جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعاکرتا ہے جس میں نافرمانی اورقطع رحمی والی بات نہ ہو تو اللہ تعالی اسے تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ضرورعطاکردیتاہے،نمبر ایک ’’ إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ ‘‘ یا تو اللہ اس کی دعا کو جلدی قبول فرما لیتاہے،نمبر دو’’ وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ ‘‘ یا پھر آخرت میں اس دعا کو اس کے لئے ذخیرہ بنا دیتا ہے اورنمبر تین یہ کہ ’’ وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا ‘‘ اس دعا کی برکت سےاللہ رب العزت اس انسان سے اس کے برابر کسی مصیبت کو دورفرمادیتاہے،یہ سن کر صحابۂ کرام ؓ نے کہا کہ ’’ إِذًا نُكْثِرُ ‘‘ تب تو ہم کثرت سے دعائیں کیا کریں گےتو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ أَللَّهُ أَكْثَرُ ‘‘تم جتنی دعائیں کیاکروگے اللہ اس سے کہیں زیادہ عطاکرنے والا ہےکیونکہ اللہ کی رحمت اوراس کے فضل کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ (مسنداحمد:11133،صحیح الأدب المفرد للألبانیؒ:550)

(3)تیسری بات یہ کہ جب آپ دعاکریں تو آپ کو دعاکی قبولیت کا یقین ہو اورساتھ میں آپ کو اس بات کا بھی کامل یقین ہو کہ آپ کے حق میں جو بہترہوگا وہ آپ کواللہ رب العزت ضرورعطا کرے گا اوریہ جان لیں کہ بسااوقات ایساہوتا ہے کہ ہم اپنے رب سے کوئی چیز طلب کرتے ہیں مگر وہ چیز ہمارے لئے بری ہوتی ہے اس لئے ہمارا رب ہمیں وہ چیزعطا نہیں کرتاہےجیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‘‘ ممكن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اوردراصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو اوریہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو،حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو،حقیقی علم اللہ ہی کو ہے،تم محض بے خبر ہو۔(البقرۃ:216)اس لئے میرے دوستو!آپ دعاکرنے کے بعد ہمیشہ یہ سوچنا اوریادرکھنا اوراپنے آپ سے کہنا کہ میں نے دعائیں تو کی مگرمیرے رب کو میرے بارے میں جو پسند تھا وہ اس نے کیا۔فللہ الحمد۔اوراے لوگوں اپنے بارے میں اپنے رب سے ہمیشہ اچھاگمان رکھو کیونکہ جیسا اپنے رب کے بارے میں گمان رکھوگے ویسا ہی تمہارے ساتھ بھی ہوگا جیسا کہ حدیث قدسی کے اندر فرمان مصطفیﷺ ہے کہ خود رب العزت کا یہ کہنا ہے’’ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي إِنْ ظَنَّ بِي خَيْرًا فَلَهُ وَإِنْ ظَنَّ شَرًّا فَلَهُ ‘‘ کہ اپنے بندوں کے ساتھ میں اس کے گمان کے مطابق اس کے معاملات کو انجام دیتاہوں،اگر وہ میرے بارے میں اچھا گمان رکھتاہے تو اس کے ساتھ اچھا ہی ہوتاہے اوراگر وہ میرے بارے میں براگمان رکھتا ہے تو اس کے ساتھ براہی ہوتاہے۔ (الصحیحۃ:1664،مسنداحمد:9076)

(4) چوتھی بات یہ ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے رب سے دعائیں کرتے رہا کریں اوراللہ کا یہ قانون ودستور بھی ذرا یاد رکھیں کہ بسا اوقات دعائیں فورا قبول ہوجاتی ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں یہ بات مذکور ہے کہ سیدنا زکریاعلیہ الصلاۃ والسلام نے اللہ رب العزت سے دعا کی کہ ’’ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ ‘‘اے میرے پروردگار!مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطافرما،بے شک تو دعا کو سننے والا ہے،اِدھرحضرت زکریاعلیہ الصلاۃ والسلام نے دعا کیا اور اُدھر کچھ ہی لمحوں کے بعدفرشتہ دوران نماز یہ خوشخبری لے کر حضرت زکریا علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس حاضرہوگیا کہ ’’ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَى ‘‘ اے زکریا!اللہ تعالی آپ کو یحیی بیٹے کی خوشخبری وبشارت دیتا ہے۔(اٰل عمران:38-39) دیکھا اورسنا آپ نے کہ اِدھردعاہورہی ہے اوراُدھر دعاقبول بھی ہوجارہی ہے،اسی طرح سے اللہ رب العزت کا یہ بھی قانون ہے کہ بسااوقات دعائیں قبول تو ہوتی ہیں مگربہت تاخیر سے ہوتی ہیں اوراللہ اپنے بندے کے حق میں جب بہتراوراچھا سمجھتاہے تبھی اس دعا کو شرف قبولیت سے نوازتا ہےجیسا کہ اس بات کا بیان سورہ بقرہ کے اندر موجود ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے جب خانۂ کعبہ کی تعمیر کی تو اپنے رب سے یہ دعامانگی کہ ’’ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ‘‘ اے ہمارے رب! ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے،انہیں کتاب وحکمت سکھائے اورانہیں پاک کرے ،یقینا تو غلبہ والا اورحکمت والا ہے۔(البقرۃ:129)میرے دوستو! حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ دعا مکہ والوں کے لئے کیا اوریہ دعا قبول بھی ہوئی مگرظاہر کب ہوئی؟ہزاروں سال کے بعداللہ نے ان کی دعا کو ظاہر کیا وہ اس طرح سے کہ مکہ کے اندر سب سے آخری رسول جناب محمد عربی ﷺ کو مبعوث کیا،یہی وجہ ہے کہ خود آپﷺ بھی یہ کہا کرتے تھے کہ ’’ أَنَا دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيمَ ‘‘ میں اپنے باپ سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی دعا ہوں۔ (الصحیحۃ:1546)اس لئے میرے دوستو!دعاکو کبھی نہ چھوڑو اوریہ اللہ سے امید رکھو کہ آج نہیں تو کل،کل نہیں تو پرسوں میری دعا ضرور قبول کی جائے گی،کسی شاعرنے کیا ہی خوب کہا ہے:

یارب تیری رحمت سے مایوس نہیں فانی

لیکن تیری رحمت کی تاخیرمیں حکمت ہے​

(5)پانچویں اورآخری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ جہاں ہم سب اپنے رب سےاپنےلئے ہرطرح کی خیروبھلائی کی دعائیں مانگتے ہیں وہیں پر ہم سب ایک اوروہ دعا ضرورکیاکریں جودعا خودجناب محمدعربیﷺ کیا کرتے تھے اورکہا کرتے تھےکہ اے اللہ میں تیری پناہ میں آتاہوں اس بات سے کہ میری دعائیں قبول نہ کی جائےجیسا کہ سیدناابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ کی ایک دعا یہ بھی تھی کہ ’’ أَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ،وَمِنْ دُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ،وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ،وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ ‘‘اے اللہ میں تیری پناہ میں آتاہوں اس علم سے جو فائدہ نہ دےاوراس دعا سے جوقبول نہ کی جائے اوراس دل سے جس میں خشوع وخضوع نہ ہواوراس نفس سے جو سیر نہ ہو۔(ابن ماجہؒ250،نسائی:5539،صحیح الجامع للألبانیؒ:1297) میرے دوستو اس حدیث کے اندر جن چاردعاؤں کا تذکرہ ہے ان چاروں دعاؤں کی ہم سب کو بہت سخت ضرورت ہے اس لئے آپ سب اس دعاکو ضروربالضروریادکرلیں۔

اب آخر میں رب العزت سے دعاگوہوں کہ اے الہ العالمین تو ہم سب کی ٹوٹی پھوٹی دعاؤں کو اپنے فضل وکرم سے قبول فرمالے۔آمین ثم آمین یارب العالمین۔

میری معصوم دعاؤں کو الٰہی سن لے

میری مغموم صداؤں کو الٰہی سن لے



کتبہ

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

 

اٹیچمنٹس

Top