• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم اللہ تعالی کو مسجدوں میں کیوں ڈھونڈتے ہیں؟؟؟

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و بر کاتہ
بہت تاخیر سے موضوع کی طرف آنے پر سب سے معذرت!​
آج کا موضوع بہت سادہ ،لیکن فکری ہے اور ایک سوچ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔​
اللہ تعالی اپنی صفات کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے،پھر ہم اللہ تعالی کو مسجدوں میں کیوں ڈھونڈتے ہیں؟​
اسی طرح اللہ کی عبادت ہر جگہ کی جاتی ہے ،مگر ساری دنیا کے علاوہ سکون ، ٹھراؤ ،اطمینان صرف مسجد وں میں کیوں آتا ہے؟​
اپنی آراء کا اظہار کریں۔​
اللہ تعالی دین کے لیے کی گئی ہماری کوششیں ، ہماری جستجو اور اعمال کو آخرت میں ذخیرہ بنا دے۔آمین​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و بر کاتہ
بہت تاخیر سے موضوع کی طرف آنے پر سب سے معذرت!​
آج کا موضوع بہت سادہ ،لیکن فکری ہے اور ایک سوچ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔​
اللہ تعالی اپنی ذات کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے،پھر ہم اللہ تعالی کو مسجدوں میں کیوں ڈھونڈتے ہیں؟​
اسی طرح اللہ کی عبادت ہر جگہ کی جاتی ہے ،مگر ساری دنیا کے علاوہ سکون ، ٹھراؤ ،اطمینان صرف مسجد وں میں کیوں آتا ہے؟​
اپنی آراء کا اظہار کریں۔​
اللہ تعالی دین کے لیے کی گئی ہماری کوششیں ، ہماری جستجو اور اعمال کو آخرت میں ذخیرہ بنا دے۔آمین​
وعلیکم السلام
نوٹ: اس موضوع پر اہل علم میں اختلاف ہے، اہل سنت والجماعت اہلحدیث کے اکثر علماء کے نزدیک اللہ تعالیٰ اپنے علم کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے ذات کے لحاظ سے نہیں، ذات کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، اس کے لیے آپ اس موضوع (کیا یہ کہنا درست ہے کہ "میں اللہ کو حاضر ناضر جان کر قسم اٹھاتا ہوں" ؟) اور اس کتاب (اللہ کہاں ہے؟) کا تفصیلی مطالعہ کر سکتی ہیں۔
باقی رہی بات کہ ہم اللہ تعالیٰ کو مسجدوں میں ہی کیوں ڈھونڈتے ہیں؟ بہت عجیب سا سوال ہے، اس سوال کو ایسے ہونا چاہیے تھا کہ
"ہم نے دین اسلام کو مساجد تک ہی کیوں محدود کر دیا ہے"

مساجد کی اہمیت تو روز روشن کی طرح عیاں ہیں، دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جونہی مسلمان بفضل اللہ تعالیٰ مستحکم ہوئے، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر کی گئی۔مساجد اور مدارس تو اسلام کے قلعے ہیں، یہاں اگر اللہ کی رضا تلاش نہیں کی جائے گی تو پھر کہاں کی جائے گی؟آج یہی اسلام کے قلعے تو کفار کی آنکھوں میں چھب رہے ہیں، انہی کو مٹانے کو وہ درپے ہیں، مساجد ہی تو وہ ہیں جہاں مال غنیمت اکٹھا ہوتا تھا جہاں قیدی باندھے جاتے تھے۔مساجد کے اندر اللہ کی رضا کیسے تلاش نہ کی جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ
"قیامت کے دن وہ سات خوش نصیب جو اللہ کے عرش کا سایہ پائیں گے جس سایے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا، ان میں ایک وہ ہو گا جس کا مسجد سے دل لگا رہے گا"

آپ یوں سوال کریں کہ ہم نے اپنے دین کو مساجد تک ہی کیوں محدود کر دیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ہمارے دیگر معاملات میں دین پر عمل کا فقدان ہے؟ ہمارے سماجیات، معاشیات، سیاست، کاروبار، گھریلو زندگی، شادی بیاہ، میں دین اسلام کی سنہری تعلیمات پر عمل کا رجحان کم ہے؟
تب اس کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
اللہ ہم سب کی اصلاح فرمائے آمین

اسی طرح اللہ کی عبادت ہر جگہ کی جاتی ہے ،مگر ساری دنیا کے علاوہ سکون ، ٹھراؤ ،اطمینان صرف مسجد وں میں کیوں آتا ہے؟
مسجد کے علاوہ اور کون سی جگہ ہے جہاں نماز جیسی عبادت کی جاتی ہو یا نماز پڑھی جاتی ہو؟ اللہ کی عبادت تو نماز ہے جسے مسجد میں ادا کیا جاتا ہے۔ درباروں، خانقاہوں، مزاروں، مندروں میں اللہ کی عبادت نہیں بلکہ غیر اللہ کی عبادت ہوتی ہے جو کفر و شرک ہے جس کی سزا ابدی جہنم ہے، لہذا یہ عبادت گاہیں تو نہ ہوئیں یہ تو صنم کدہ ہیں۔
مسجدوں میں سکون کی سب سے بڑی وجہ وہاں اکیلے اللہ کی عبادت کرنا ہے، ایک سچا موحد مسلمان صرف وہاں ایک اللہ کے آگے اپنی حاجتیں، مناجاتیں پیش کرتا ہے، اور اس امید سے کہ میرے اللہ کے سوا کوئی نہیں جو میری مشکلیں حل کر سکے۔
ایک اہم بات کہ نماز ہو،روزہ ہو حج ہو یا زکوٰۃ ہو، جہاد ہو یا امیر بالمعروف و نہی عن المنکر ہو، یہ سب بہاریں صرف موحدین کے لیے ہیں، مشرک و کافر کے لیے نہیں۔
اللہ ہدایت عطا فرمائے ۔آمین
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
ماشاء اللہ ارسلان بھائی بہت خوب لکھا اور میرے دل کی باتیں کیں آپ نے۔۔۔
پر ایک بات پر حیرانگی ہوئی کہ Dua آپ نے جو لکھا
اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے
آیا یہ جان بوجھ کر لکھا کہ مسئلے کا پتہ نہیں تھا یا پھر سھوا لکھا گیا؟؟؟

رہی بات پوسٹ کی تو ارسلان بھائی کی بات ٹھیک ہے کہ مساجد کی فضیلت اور عظمت کی وجہ سے سکون اور چین والی اس سے بڑھ کر کوئی جگہ نہیں ہو سکتی ۔۔۔
اس میں وہ نماز پڑھی جاتی ہے جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے کہ ہمیں نماز کے ساتھ سکون پہنچاؤ ،
پھر وہ عرش کے سائے والی بھی حدیث ہے ،
اور غالبا سنن ابن ماجہ میں ایک حدیث ہے جو صحیح ہے جس میں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک بندہ جو مسجد میں بیٹھتا ہے ذکر اور نماز کیلئے تو اس سے اللہ تعالی اتنے خوش ہوتے ہیں جتنا ایک گھر والے اپنے گمشدہ شخص کے آنے پر ہوتے ہیں۔۔۔او کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
ماشاء اللہ ارسلان بھائی بہت خوب لکھا اور میرے دل کی باتیں کیں آپ نے۔۔۔
پر ایک بات پر حیرانگی ہوئی کہ Dua آپ نے جو لکھا

آیا یہ جان بوجھ کر لکھا کہ مسئلے کا پتہ نہیں تھا یا پھر سھوا لکھا گیا؟؟؟

رہی بات پوسٹ کی تو ارسلان بھائی کی بات ٹھیک ہے کہ مساجد کی فضیلت اور عظمت کی وجہ سے سکون اور چین والی اس سے بڑھ کر کوئی جگہ نہیں ہو سکتی ۔۔۔
اس میں وہ نماز پڑھی جاتی ہے جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے کہ ہمیں نماز کے ساتھ سکون پہنچاؤ ،
پھر وہ عرش کے سائے والی بھی حدیث ہے ،
اور غالبا سنن ابن ماجہ میں ایک حدیث ہے جو صحیح ہے جس میں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک بندہ جو مسجد میں بیٹھتا ہے ذکر اور نماز کیلئے تو اس سے اللہ تعالی اتنے خوش ہوتے ہیں جتنا ایک گھر والے اپنے گمشدہ شخص کے آنے پر ہوتے ہیں۔۔۔او کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم
وعلیکم السلام


باقی رہی بات کہ ہم اللہ تعالیٰ کو مسجدوں میں ہی کیوں ڈھونڈتے ہیں؟ بہت عجیب سا سوال ہے، اس سوال کو ایسے ہونا چاہیے تھا کہ
"ہم نے دین اسلام کو مساجد تک ہی کیوں محدود کر دیا ہے"

مساجد کی اہمیت تو روز روشن کی طرح عیاں ہیں، دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جونہی مسلمان بفضل اللہ تعالیٰ مستحکم ہوئے، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر کی گئی۔مساجد اور مدارس تو اسلام کے قلعے ہیں، یہاں اگر اللہ کی رضا تلاش نہیں کی جائے گی تو پھر کہاں کی جائے گی؟آج یہی اسلام کے قلعے تو کفار کی آنکھوں میں چھب رہے ہیں، انہی کو مٹانے کو وہ درپے ہیں، مساجد ہی تو وہ ہیں جہاں مال غنیمت اکٹھا ہوتا تھا جہاں قیدی باندھے جاتے تھے۔مساجد کے اندر اللہ کی رضا کیسے تلاش نہ کی جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ
"قیامت کے دن وہ سات خوش نصیب جو اللہ کے عرش کا سایہ پائیں گے جس سایے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا، ان میں ایک وہ گا جس کا مسجد سے دل لگا رہے گا"

آپ یوں سوال کریں کہ ہم نے اپنے دین کو مساجد تک ہی کیوں محدود کر دیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ہمارے دیگر معاملات میں دین پر عمل کا فقدان ہے؟ ہمارے سماجیات، معاشیات، سیاست، کاروبار، گھریلو زندگی، شادی بیاہ، میں دین اسلام کی سنہری تعلیمات پر عمل کا رجحان کم ہے؟
تب اس کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
اللہ ہم سب کی اصلاح فرمائے آمین


مسجد کے علاوہ اور کون سی جگہ ہے جہاں نماز جیسی عبادت کی جاتی ہو یا نماز پڑھی جاتی ہو؟ اللہ کی عبادت تو نماز ہے جسے مسجد میں ادا کیا جاتا ہے۔ درباروں، خانقاہوں، مزاروں، مندروں میں اللہ کی عبادت نہیں بلکہ غیر اللہ کی عبادت ہوتی ہے جو کفر و شرک ہے جس کی سزا ابدی جہنم ہے، لہذا یہ عبادت گاہیں تو نہ ہوئیں یہ تو صنم کدہ ہیں۔
مسجدوں میں سکون کی سب سے بڑی وجہ وہاں اکیلے اللہ کی عبادت کرنا ہے، ایک سچا موحد مسلمان صرف وہاں ایک اللہ کے آگے اپنی حاجتیں، مناجاتیں پیش کرتا ہے، اور اس امید سے کہ میرے اللہ کے سوا کوئی نہیں جو میری مشکلیں حل کر سکے۔
ایک اہم بات کہ نماز ہو،روزہ ہو حج ہو یا زکوٰۃ ہو، جہاد ہو یا امیر بالمعروف و نہی عن المنکر ہو، یہ سب بہاریں صرف موحدین کے لیے ہیں، مشرک و کافر کے لیے نہیں۔
اللہ ہدایت عطا فرمائے ۔آمین
السلام علیکم ،
معذرت کے ساتھ کہ یہاں لفظ "صفات " لکھنا تھا ۔۔۔میں موضوع پر غور فکر میں اس قدر مبتلا تھی کہ یہ اہم ترین نقطہ میں غلطی کر گئی۔
اللہ تعالی مجھے معاف فرما دے۔۔۔۔کچھ دیر پہلے اس بات کی سوچ آئی تو پہلی فرصت میں یہ تھریڈ دیکھا ۔
شاکر بھائی پلیز تھریڈ کو ایڈیٹ کر دیں اور صفات لکھ دیں۔۔۔۔مجھے شدید افسوس ہے اس غلطی کا!

 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
وعلیکم السلام


باقی رہی بات کہ ہم اللہ تعالیٰ کو مسجدوں میں ہی کیوں ڈھونڈتے ہیں؟ بہت عجیب سا سوال ہے، اس سوال کو ایسے ہونا چاہیے تھا کہ
"ہم نے دین اسلام کو مساجد تک ہی کیوں محدود کر دیا ہے"

مساجد کی اہمیت تو روز روشن کی طرح عیاں ہیں، دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جونہی مسلمان بفضل اللہ تعالیٰ مستحکم ہوئے، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر کی گئی۔مساجد اور مدارس تو اسلام کے قلعے ہیں، یہاں اگر اللہ کی رضا تلاش نہیں کی جائے گی تو پھر کہاں کی جائے گی؟آج یہی اسلام کے قلعے تو کفار کی آنکھوں میں چھب رہے ہیں، انہی کو مٹانے کو وہ درپے ہیں، مساجد ہی تو وہ ہیں جہاں مال غنیمت اکٹھا ہوتا تھا جہاں قیدی باندھے جاتے تھے۔مساجد کے اندر اللہ کی رضا کیسے تلاش نہ کی جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ
"قیامت کے دن وہ سات خوش نصیب جو اللہ کے عرش کا سایہ پائیں گے جس سایے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا، ان میں ایک وہ گا جس کا مسجد سے دل لگا رہے گا"



آپ یوں سوال کریں کہ ہم نے اپنے دین کو مساجد تک ہی کیوں محدود کر دیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ہمارے دیگر معاملات میں دین پر عمل کا فقدان ہے؟ ہمارے سماجیات، معاشیات، سیاست، کاروبار، گھریلو زندگی، شادی بیاہ، میں دین اسلام کی سنہری تعلیمات پر عمل کا رجحان کم ہے؟
تب اس کا جواب دیا جا سکتا ہے۔


اللہ ہم سب کی اصلاح فرمائے آمین


مسجد کے علاوہ اور کون سی جگہ ہے جہاں نماز جیسی عبادت کی جاتی ہو یا نماز پڑھی جاتی ہو؟ اللہ کی عبادت تو نماز ہے جسے مسجد میں ادا کیا جاتا ہے۔ درباروں، خانقاہوں، مزاروں، مندروں میں اللہ کی عبادت نہیں بلکہ غیر اللہ کی عبادت ہوتی ہے جو کفر و شرک ہے جس کی سزا ابدی جہنم ہے، لہذا یہ عبادت گاہیں تو نہ ہوئیں یہ تو صنم کدہ ہیں۔
مسجدوں میں سکون کی سب سے بڑی وجہ وہاں اکیلے اللہ کی عبادت کرنا ہے، ایک سچا موحد مسلمان صرف وہاں ایک اللہ کے آگے اپنی حاجتیں، مناجاتیں پیش کرتا ہے، اور اس امید سے کہ میرے اللہ کے سوا کوئی نہیں جو میری مشکلیں حل کر سکے۔
ایک اہم بات کہ نماز ہو،روزہ ہو حج ہو یا زکوٰۃ ہو، جہاد ہو یا امیر بالمعروف و نہی عن المنکر ہو، یہ سب بہاریں صرف موحدین کے لیے ہیں، مشرک و کافر کے لیے نہیں۔
اللہ ہدایت عطا فرمائے ۔آمین
محترم!
"ہم نے دین اسلام کو مساجد تک ہی کیوں محدود کر دیا ہے"
آپ کا یہ سوال الگ ہے ۔۔۔لیکن موضوع سے کسی حد تک مطابقت بھی رکھتا ہے۔۔۔۔جزاک اللہ خیرا کثیرا
مگر یہاں سوال "ہم اللہ تعالی کو مسجدوں میں کیوں ڈھونڈتے ہیں ؟" الگ ہے۔اس سے آپ یہ مراد لے سکتے ہیں کہ عام طور پر مساجد میں ہم زیادہ دین دار ،مہذب ،عبادت گزار اور ہر طرح کے غرور سے عاجز نظر آتے ہیں،لیکن باہر نکلتے ہی ویسے ہو جاتے ہیں۔۔۔
اسی طرح جب کوئی مصیبت پیش آئے تو رخ بھی وہاں کا کرتے ہیں،جبکہ اللہ تعالی اپنی صفات سے ہر جگہ موجود ہے۔۔۔۔۔ ہم اسے کہیں بھی پکار سکتے ہیں۔۔۔۔
تو پھر اللہ تعالی کے قرب کی تلاش کیا ہے؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مگر یہاں سوال "ہم اللہ تعالی کو مسجدوں میں کیوں ڈھونڈتے ہیں ؟" الگ ہے۔اس سے آپ یہ مراد لے سکتے ہیں کہ عام طور پر مساجد میں ہم زیادہ دین دار ،مہذب ،عبادت گزار اور ہر طرح کے غرور سے عاجز نظر آتے ہیں،لیکن باہر نکلتے ہی ویسے ہو جاتے ہیں۔۔۔
محترمہ ! آپ نے یہاں جو اپنے سوال کا مقصود بیان کیا ہے، وہ اوپر بیان کردہ آپ کے دو سوالات سے کہیں بھی نظر نہیں آ رہا، آپ اپنے دونوں سوالات کو ایک بار غور سے دیکھیں:​
(1) پھر ہم اللہ تعالی کو مسجدوں میں کیوں ڈھونڈتے ہیں؟​
(2) اسی طرح اللہ کی عبادت ہر جگہ کی جاتی ہے ،مگر ساری دنیا کے علاوہ سکون ، ٹھراؤ ،اطمینان صرف مسجد وں میں کیوں آتا ہے؟​
آپ کے دونوں سوالات مسجد کے متعلق ضرور ہیں، لیکن وہاں عبادت میں سکون کے حوالے سے ہیں نا کہ طبیعت میں ٹھہراؤ اور غرور و عاجزی سے چھٹکارے کے حوالے سے۔آپ موضوع شروع کرنے سے پہلے تھوڑا غور و فکر کر لیا کریں کہ موضوع شروع کرنا کیا ہے، اور کس موضوع پر مسلمانوں کی رائے معلوم کرنی ہے۔​
اسی طرح جب کوئی مصیبت پیش آئے تو رخ بھی وہاں کا کرتے ہیں،جبکہ اللہ تعالی اپنی صفات سے ہر جگہ موجود ہے۔۔۔۔۔ ہم اسے کہیں بھی پکار سکتے ہیں۔۔۔۔​
تو پھر اللہ تعالی کے قرب کی تلاش کیا ہے؟
اگر کوئی مصیبت پیش آئے تو مسجد یا مسجد کے باہر سب جگہ اللہ کو پکارا جا سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:​
أَمَّن يُجِيبُ ٱلْمُضْطَرَّ‌ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ ٱلسُّوٓءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ ٱلْأَرْ‌ضِ ۗ أَءِلَـٰهٌ مَّعَ ٱللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٦٢﴾۔۔۔سورۃ النمل​
ترجمہ: بے کس کی پکار کو جب کہ وه پکارے، کون قبول کرکے سختی کو دور کر دیتا ہے؟ اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے؟ تم بہت کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو۔
ایک سچا مومن ہر جگہ اللہ کو پکارتا ہے، یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ کو پکارا:​
وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ ٱلْمُرْ‌سَلِينَ ﴿١٣٩﴾ إِذْ أَبَقَ إِلَى ٱلْفُلْكِ ٱلْمَشْحُونِ ﴿١٤٠﴾ فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ ٱلْمُدْحَضِينَ ﴿١٤١﴾ فَٱلْتَقَمَهُ ٱلْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ ﴿١٤٢﴾ فَلَوْلَآ أَنَّهُۥ كَانَ مِنَ ٱلْمُسَبِّحِينَ ﴿١٤٣﴾ لَلَبِثَ فِى بَطْنِهِۦٓ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿١٤٤﴾۔۔۔سورۃ الصافات​
ترجمہ:اور بلاشبہ یونس (علیہ السلام) نبیوں میں سے تھے (139) جب بھاگ کر پہنچے بھری کشتی پر (140) پھر قرعہ اندازی ہوئی تو یہ مغلوب ہوگئے (141) تو پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا اور وه خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگ گئے (142) پس اگر یہ پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے (143) تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس کے پیٹ میں ہی رہتے (144)
اور وہ پکارنا کیا تھا:
فَنَادَىٰ فِى ٱلظُّلُمَـٰتِ أَن لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبْحَـٰنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ ﴿٨٧﴾۔۔۔سورۃ الانبیاء
ترجمہ: بالﺂخر وه اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، بیشک میں ﻇالموں میں ہو گیا
مساجد کے اندر بالخصوص اللہ تعالیٰ کو اس لیے پکارا جاتا ہے، کہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، اور وہاں کسی غیر کو پکارنے کی سخت ممانعت ہے، وہاں صرف اللہ کو پکارنا جائز ہے۔مساجد شورشرابے، دنیاوی شغافل، اور بے دینی کی باتوں سے پاک ہوتی ہیں۔(آج کل ایسی مساجد صرف اہلحدیث کی ہی ہو سکتی ہیں ورنہ اہل بدعت اپنی مساجد میں نہ صرف غیر اللہ کو پکارتے ہیں بلکہ وہاں اوچھی اوچھی حرکات بھی کرتے ہیں۔ ھداھم اللہ)​
نیز اس لیے بھی کہ سجدے میں انسان اللہ کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔​
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463

محترمہ ! آپ نے یہاں جو اپنے سوال کا مقصود بیان کیا ہے، وہ اوپر بیان کردہ آپ کے دو سوالات سے کہیں بھی نظر نہیں آ رہا، آپ اپنے دونوں سوالات کو ایک بار غور سے دیکھیں:​
(1) پھر ہم اللہ تعالی کو مسجدوں میں کیوں ڈھونڈتے ہیں؟​
(2) اسی طرح اللہ کی عبادت ہر جگہ کی جاتی ہے ،مگر ساری دنیا کے علاوہ سکون ، ٹھراؤ ،اطمینان صرف مسجد وں میں کیوں آتا ہے؟​
آپ کے دونوں سوالات مسجد کے متعلق ضرور ہیں، لیکن وہاں عبادت میں سکون کے حوالے سے ہیں نا کہ طبیعت میں ٹھہراؤ اور غرور و عاجزی سے چھٹکارے کے حوالے سے۔آپ موضوع شروع کرنے سے پہلے تھوڑا غور و فکر کر لیا کریں کہ موضوع شروع کرنا کیا ہے، اور کس موضوع پر مسلمانوں کی رائے معلوم کرنی ہے۔​


اگر کوئی مصیبت پیش آئے تو مسجد یا مسجد کے باہر سب جگہ اللہ کو پکارا جا سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:​
أَمَّن يُجِيبُ ٱلْمُضْطَرَّ‌ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ ٱلسُّوٓءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ ٱلْأَرْ‌ضِ ۗ أَءِلَـٰهٌ مَّعَ ٱللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٦٢﴾۔۔۔سورۃ النمل​

ایک سچا مومن ہر جگہ اللہ کو پکارتا ہے، یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ کو پکارا:​
وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ ٱلْمُرْ‌سَلِينَ ﴿١٣٩﴾ إِذْ أَبَقَ إِلَى ٱلْفُلْكِ ٱلْمَشْحُونِ ﴿١٤٠﴾ فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ ٱلْمُدْحَضِينَ ﴿١٤١﴾ فَٱلْتَقَمَهُ ٱلْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ ﴿١٤٢﴾ فَلَوْلَآ أَنَّهُۥ كَانَ مِنَ ٱلْمُسَبِّحِينَ ﴿١٤٣﴾ لَلَبِثَ فِى بَطْنِهِۦٓ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿١٤٤﴾۔۔۔سورۃ الصافات​

اور وہ پکارنا کیا تھا:
فَنَادَىٰ فِى ٱلظُّلُمَـٰتِ أَن لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبْحَـٰنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ ﴿٨٧﴾۔۔۔سورۃ الانبیاء

مساجد کے اندر بالخصوص اللہ تعالیٰ کو اس لیے پکارا جاتا ہے، کہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، اور وہاں کسی غیر کو پکارنے کی سخت ممانعت ہے، وہاں صرف اللہ کو پکارنا جائز ہے۔مساجد شورشرابے، دنیاوی شغافل، اور بے دینی کی باتوں سے پاک ہوتی ہیں۔(آج کل ایسی مساجد صرف اہلحدیث کی ہی ہو سکتی ہیں ورنہ اہل بدعت اپنی مساجد میں نہ صرف غیر اللہ کو پکارتے ہیں بلکہ وہاں اوچھی اوچھی حرکات بھی کرتے ہیں۔ ھداھم اللہ)​
نیز اس لیے بھی کہ سجدے میں انسان اللہ کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔​
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
ابتسامہ۔۔۔خود کو درست ثابت کرنے کے لیے ٹھراؤ کے ساتھ" طبیعت" کا اضافہ بھی فرما لیا آپ نے!
میں یہاں علم نفسیات سے متعلق تھریڈ نہیں دے رہی ہوں جو طبیعت کے ٹھراؤ کا ذکر کروں۔۔۔بلکہ اہل علم جانتے ہیں یہ ٹھراؤ کیا ہے ۔۔۔۔اور غرور سے چھٹکارا پانا چاہیئے ، جبکہ عاجزی تو اچھی چیز ہے۔یہاں بھی اپنی اصلاح فرما لیں۔غور و فکر کی تلقین کرنا اچھا ہے لیکن یہ خود پر بھی لاگو کریں تاکہ مستقبل میں ایسے "اضافے" سے بچا جا سکے۔
بلا شبہ ہر عمل کا حساب دینا ہے،اللہ تعالی سچ پر قائم رکھے۔آمین

مساجد کے حوالے سے باقی آپ کی بات درست ہے۔جزاکم اللہ خیرا
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
السلام علیکم ،
معذرت کے ساتھ کہ یہاں لفظ "صفات " لکھنا تھا ۔۔۔میں موضوع پر غور فکر میں اس قدر مبتلا تھی کہ یہ اہم ترین نقطہ میں غلطی کر گئی۔
اللہ تعالی مجھے معاف فرما دے۔۔۔۔کچھ دیر پہلے اس بات کی سوچ آئی تو پہلی فرصت میں یہ تھریڈ دیکھا ۔
شاکر بھائی پلیز تھریڈ کو ایڈیٹ کر دیں اور صفات لکھ دیں۔۔۔۔مجھے شدید افسوس ہے اس غلطی کا!
مجھے پہلے ہی اللہ سے اسی بات کی امید تھی الحمد اللہ
اللہ تعالی ہمیں غور و فکر کرنے کی اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔آمین۔۔۔




ابتسامہ۔۔۔خود کو درست ثابت کرنے کے لیے ٹھراؤ کے ساتھ" طبیعت" کا اضافہ بھی فرما لیا آپ نے!
میں یہاں علم نفسیات سے متعلق تھریڈ نہیں دے رہی ہوں جو طبیعت کے ٹھراؤ کا ذکر کروں۔۔۔بلکہ اہل علم جانتے ہیں یہ ٹھراؤ کیا ہے ۔۔۔۔اور غرور سے چھٹکارا پانا چاہیئے ، جبکہ عاجزی تو اچھی چیز ہے۔یہاں بھی اپنی اصلاح فرما لیں۔غور و فکر کی تلقین کرنا اچھا ہے لیکن یہ خود پر بھی لاگو کریں تاکہ مستقبل میں ایسے "اضافے" سے بچا جا سکے۔
بلا شبہ ہر عمل کا حساب دینا ہے،اللہ تعالی سچ پر قائم رکھے۔آمین

مساجد کے حوالے سے باقی آپ کی بات درست ہے۔جزاکم اللہ خیرا
محمد ارسلان بھائی جس انداز میں آپ تعقب کر رہے ہیں اتنا معاملہ خراب نہیں ہے بلکہ اوپر کئے گیئے آپ کے سوالات اور محترمہ کے سوالات میں تفاوت ضرور ہے لیکن ہیں قریب قریب۔۔۔۔
سب کا مقصد یہ ہے کہ مساجد میں ہی انسان کیوں بہت ذیادہ نیک بن جاتا ہے؟؟؟
تو اس کا سمپل سا جواب یہ ہے جس طرح حج کے دوران لوگوں کی ایک الگ سے کیفیت بن جاتی ہے اور لوگ سکون اور اطمینان محسوس کرتے ہیں کیوں کہ ان مقامات میں اللہ نے قدرتی سکون رکھا ہے تو ایسے ہی مساجد بھی سکون اور اطمینان کی جگہیں ہیں جیسا کہ میں نے اپنی پہلی بات میں اس طرف اشارہ کیا تھا۔۔۔
لہذا عرض یہ ہے کہ خوامخوہ معاملے کو گھمبیر نا بنایا جائے۔۔
جزاک اللہ خیرا۔۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
میرے خیال میں اس سوال کے دو پہلو ہو سکتے ہیں:
ایک یہ کہ عملا مساجد میں جو کیفیت طاری ہوتی ہے وہ مسجد کے علاوہ کیوں نہیں ہوتی؟
دوسرے یہ کہ باقاعدہ نظریہ ہی یہ بنا لیا جائے کہ خدا کا قرب صرف مسجد ہی میں حاصل ہوتا ہے اور اس سے باہر یہ ممکن نہیں یا مشکل ہے۔
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو یہ امر واقع ہے اورقرآن و حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ مسجد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر بقاع الارض قرار دیا ہے؛پس جو تقدس آمیز ماحول اور ملکوتی احساس مسجد میں میسر آسکتا ہے ظاہر ہے گھر اور بازار میں ممکن نہیں۔
اب دوسرے پہلو کو لیجیے تو یہ تصور غلط ہے کہ خدا کا قرب مسجد سے باہر حاصل نہیں ہو سکتا،بل کہ بندہ مومن کو ہمہ وقت اور ہر جگہ خدا کی معیت خاصہ حاصل ہوتی ہے ؛اب یہ اس کے ایمان و اخلاص پر منحصر ہے کہ وہ اس جاں فزا کیفیت کو کس حد تک محسوس کر سکتاہے۔
 
Top