• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا !

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ ﴿٧٨﴾

اور داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو یاد کیجئے جبکہ وه کھیت کے معاملہ میں فیصلہ کر رہے تھے کہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو اس میں چر چگ گئی تھیں، اور ان کے فیصلے میں ہم موجود تھے (78) سورة الأنبياء

فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ ﴿٧٩﴾

ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا۔ ہاں ہر ایک کو ہم نے حکم وعلم دے رکھا تھا اور داؤد کے تابع ہم نے پہاڑ کر دیئے تھے جو تسبیح کرتے تھے اور پرند بھی۔ ہم کرنے والے ہی تھے (79) سورة الأنبياء

تفسیر تیسیر القرآن
اس آیت میں نفش کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی رات کے وقت بکریوں کے بغیر چرواہے کے چرنے کے لئے منتشر ہونا ہے۔ (مفردات القرآن)

ہوا یہ تھا کہ کچھ لوگوں کی بکریاں کسی کھیتی کو رات کے وقت چر کر اجاڑ گئی تھیں ۔ کھیتی والے نے داؤد علیہ السلام کی عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا۔ آپ نے مدعا علیہ کو بلایا تو اس نے واقعہ کا اعتراف کر لیا۔
اب از روئے انصاف و قانون پورا ہرجانہ بکریوں کے مالک پڑتا تھا۔ اس سلسلہ میں شرعی قاعدہ یا قانون درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اونٹنی ایک باغ میں گھس گئی اور اسے خراب کیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ دن کو باغوں کی نگہبانی باغ والوں کے ذمہ ہے۔ اور رات کو جو مویشی خراب کریں تو ان کے مالک ان کا ہرجانہ دیں ۔ (مالک، ابو داؤد، ابن ماجہ بحوالہ مشکوۃ۔ کتاب البیوع، باب الغصب والناریہ فصل ثانی)

اور یہی شرعی دعوہ اس دور میں بھی تھا اب یہ اتفاق کی بات تھی کہ جتنا کھیتی کا نقصان ہوا تھا اس کی قیمت کے لگ بھگ بکریوں کی قیمت بنتی تھی۔ چنانچہ سیدنا داؤد علیہ السلام نے یہ فیصلہ کیا کہ بکریوں والا اپنی بکریاں کھیتی والے کو دے دے۔ تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے۔

سیدنا سلیمان علیہ السلام بھی پاس موجود تھے انہوں نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا اور کہا کہ میرے خیال میں یہ فیصلہ یوں ہونا چاہئے کہ بکریوں والا اپنی بکریاں کھیتی کو دے دے مگر یہ بکریاں کھیتی والے کے پاس بطور رہن ہوں گی۔ کھیتی والا ان کی پرورش بھی کرے اور ان سے دودھ اور اون وغیرہ کے فوائد بھی حاصل کرے۔ اور اس دوران بکریوں والا کھیتی کی نگہداشت کرکے اور اس کی آبپاشی کرے تاآنکہ وہ کھیتی اپنی پہلی سی حالت پر آجائے اور جب کھیتی پہلی حالت پر آجائے تو بکریوں والے کو اس کی بکریاں واپس کردی جائیں ۔

اس فیصلہ سے کھیتی والے کے نقصان کی بھی تلافی ہوجاتی تھی اور بکریوں والے کا بھی کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوتا تھا۔
لہذا سلیمان علیہ السلام کے اس فیصلہ کو حضرت داؤد نے بھی درست تسلیم کیا اور اپنے فیصلہ سے رجوع کر لیا۔ یہی وہ فیصلہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ فیصلہ سلیمان علیہ السلام کو ہم نے سمجھایا تھا۔
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
ابو عاکاشہ بھائی سارا اچھا لکھا ہے،بس عنوان میں تھوڑی تبدیلی کر دے
ہم نے اس کا صحیح فیصلہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو سمجھا دیا !
 
Top