سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ ، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں؟ جب کہ قرآن حکیم آپ پر اترا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اپنے علاوہ دوسرے سے سننا پسند کرتا ہوں ، چنانچہ میں نے آپ کے سامنے سورہ نساء پڑھی ، یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا:
فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿004:041﴾
"پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے"۔
تو آپ ﷺ نے فرمایا: بس اب کافی ہے ۔ میں آپ کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسوں جاری تھے ۔
(صحیح بخاری ، کتاب التفسیر ،تفسیر سورہ نساء ، رقم 4582 ۔)
زیادہ ہنسنے سے انسانی دل مردہ ہو جاتا ہے ، اسی لیے کثرتِ ضحک کو بنظر کراہت دیکھا گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قہقہ مار کر نہیں ہنستے تھے ، بلکہ مسکرایا کرتے تھے ، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
((مَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُسْتَجْمِعًا قَطُّ ضَاحِکًا حَتّٰی تُرَی مِنْہُ لَھَوَاتُہ ، اِنَّمَا کَانَ یَتَبَسَّمُ ۔ ))
" کہ میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو اس طرح قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے گلے کے کوے نظر آنے لگیں ، آپ صرف مسکرایا کرتے تھے ۔"
چونکہ زیادہ ہنسنا غفلت کی دلیل ہے اسی لیے قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے :
((فَلۡیَضۡحَکُوۡا قَلِیۡلًا وَّ لۡیَبۡکُوۡا کَثِیۡرًا)) ( التوبہ : 82 )
" پس چاہیئے کہ وہ (لوگ ) ہنسیں تھوڑا ، اور روئیں زیادہ ۔"
اور دوسری جگہ فرمایا :
(وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَ) ( النجم: 60 )
" اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو ۔"
افادہ"۔۔۔۔۔ علاوہ ازیں کھلکھلا کر اور ٹھٹھے مار کر ہنسنے سے انسان کا وقار اور دبدبہ ختم ہو جاتا ہے ، اس لیے باوقار ، سنجیدہ اور اصحاب شرف و فضل اس طرح ہنسنے سے گریز کرتے ہیں ، گو ان کے لبوں پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی ہے ۔ مطلب یہ کہ ہنسنے میں بھی دائرہ ادب سے باہر نہیں نکلنا چاہیئے ۔
اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا اَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیْلًا وَ لَبَکَیْتُمْ کَثِیْرًا ،))
" اگر تم وہ باتیں جان لو جن کا مجھے علم ہے تو تم ہنسو تھوڑا ، اور روؤ زیادہ ۔"فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿004:041﴾
"پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے"۔
تو آپ ﷺ نے فرمایا: بس اب کافی ہے ۔ میں آپ کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسوں جاری تھے ۔
(صحیح بخاری ، کتاب التفسیر ،تفسیر سورہ نساء ، رقم 4582 ۔)
زیادہ ہنسنے سے انسانی دل مردہ ہو جاتا ہے ، اسی لیے کثرتِ ضحک کو بنظر کراہت دیکھا گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قہقہ مار کر نہیں ہنستے تھے ، بلکہ مسکرایا کرتے تھے ، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
((مَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُسْتَجْمِعًا قَطُّ ضَاحِکًا حَتّٰی تُرَی مِنْہُ لَھَوَاتُہ ، اِنَّمَا کَانَ یَتَبَسَّمُ ۔ ))
" کہ میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو اس طرح قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے گلے کے کوے نظر آنے لگیں ، آپ صرف مسکرایا کرتے تھے ۔"
چونکہ زیادہ ہنسنا غفلت کی دلیل ہے اسی لیے قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے :
((فَلۡیَضۡحَکُوۡا قَلِیۡلًا وَّ لۡیَبۡکُوۡا کَثِیۡرًا)) ( التوبہ : 82 )
" پس چاہیئے کہ وہ (لوگ ) ہنسیں تھوڑا ، اور روئیں زیادہ ۔"
اور دوسری جگہ فرمایا :
(وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَ) ( النجم: 60 )
" اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو ۔"
افادہ"۔۔۔۔۔ علاوہ ازیں کھلکھلا کر اور ٹھٹھے مار کر ہنسنے سے انسان کا وقار اور دبدبہ ختم ہو جاتا ہے ، اس لیے باوقار ، سنجیدہ اور اصحاب شرف و فضل اس طرح ہنسنے سے گریز کرتے ہیں ، گو ان کے لبوں پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی ہے ۔ مطلب یہ کہ ہنسنے میں بھی دائرہ ادب سے باہر نہیں نکلنا چاہیئے ۔
اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا اَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیْلًا وَ لَبَکَیْتُمْ کَثِیْرًا ،))