• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہوئے ’’وہ‘‘ دوست جس کے۔۔۔

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
ہوئے ’’وہ‘‘ دوست جس کے۔۔۔

محسن فارانی


امریکہ پاکستان کا روایتی ’’دوست‘‘ ہے جس کے بارے میں حضرت اسد اللہ خاں غالب ڈیڑھ صدی پہلے کہہ گئے ہیں۔۔۔ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔۔۔؟

13مئی 2016ء کو ’’پاکستان کو فوجی امداد دینے سے متعلق امریکی ارکان کانگرس کے تحفظ‘‘ سامنے آئے اور اگلے روز امریکی محکمہ خارجہ کی عہدیدار الزبتھ ٹروڈیو نے کہہ دیا کہ ’’پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے۔ امریکہ اس ضمن میں پاکستان پر اپنا نقطۂ نظر واضح کر چکا ہے اور اسلام آباد کو پتہ ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔‘‘

یہ ہے ’’پاک امریکہ دوستی‘‘ کے نئے دور کا ڈراپ سین جس کے متعلق مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے تسلیم کیا ہے کہ ’’پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات 3ماہ سے سردمہری کا شکار ہیں۔‘‘ اس سرد مہری کے پیچھے حقانی نیٹ ورک کے علاوہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا مکروہ کردار بھی ہے جس نے بلال ٹاؤن ایبٹ آباد میں ویکسی نیشن کی جعلی مہم چلا کر اسامہ آپریشن کے لئے امریکہ کی مدد کی تھی اور امریکہ اپنے اس اہم ترین ایجنٹ کو رہا کروانے اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے لئے پاکستان کو ایف 16طیاروں کی سپلائی روک کر اسلام آباد پر دباؤ ڈال رہا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے افغانستان میں امریکی ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان اور حقانی نیٹ ورک پر ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان اور افغانستان کو دہشت گرد نیٹ ورک کے خطرے کا سامنا ہے۔ دہشت گرد آج بھی دونوں ممالک کو محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور دہشت گرد گروپوں کی وجہ ہی سے افغانستان میں امریکی فوج آج بھی موجود ہے۔‘‘ اس کے بعد امریکی سینیٹ نے ایک قرارداد کے ذریعے فوجی امداد حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی اور شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کر دی۔

امریکہ نے افغانستان سے روس کی رسوا کن پسپائی بھلا کر سانحہ نائن الیون کی آڑ میں افغانستان پر جو ننگی جارحیت کی وہ آج پندرہ سال بعد بھی واشنگٹن کو مہنگی پڑ رہی ہے۔

طالبان امریکی کٹھ پتلی اشرف غنی کی حکومت کو ٹکنے نہیں دے رہے اور صدر اوباما کے افغانستان سے انخلاء کے اعلان کے باوجود امریکہ اپنی دس ہزار فوج ابھی تک وہاں پھنسائے ہوئے ہے۔ اس دوران میں وہاں دو اڑھائی ہزار امریکی فوجی مارے گئے ہیں اور دسیوں ہزاروں زخمی ہوئے۔۔۔ خود کردہ را علاجے نیست۔۔۔ تاہم امریکی کس قدر ڈھٹائی سے پاکستان اور حقانی گروپ کو موردالزام ٹھہرا رہے ہیں جبکہ مولانا جلال الدین حقانی کی تنظیم سے پاکستان کو ہرگز کوئی خطرہ نہیں۔ پاکستان نے وزیرستان میں دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی کے خلاف کامیاب آپریشن کیا ہے لیکن امریکی ڈومور مطالبے پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کسی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں جبکہ امریکہ طے شدہ اسلحے کی فراہمی روک کر دباؤ ڈالنے کے مذموم ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔

امریکی ترجمان کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان سے امریکہ کے تعلقات اہم اور ضروری ہیں جو بعض اوقات پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔‘‘ لیکن اس پیچیدگی کے پیچھے ساٹھ ستر سال کی امریکی عیاریاں اور وعدہ خلافیاں ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورۂ امریکہ (1950ء) سے استوار ہوئے تھے۔ اس وقت ری پبلیکن صدر ٹرومین کا دور تھا۔

اگلے ری پبلیکن صدر جنرل آئزن ہاور کے عہد (1953-60ء) میں پاکستان امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدوں سینٹو اور سیٹو میں شامل ہوا۔ 1959ء میں صدر جنرل ایوب نے امریکہ کے ساتھ دو طرفہ فوجی تعاون کا ایک معاہدہ بھی کیا۔ اس دوران میں پاکستان کو امریکی پیٹن ٹینک، لڑاکا ایف 86 سیبرجیٹ اور سی 130ہرکولیس طیارے ملے اور امریکہ کو بڈبیر نزد پشاور کا فضائی اڈا دیا گیا جہاں سے اڑنے والا یُوٹو جاسوس طیارہ 30اپریل 1960ء کو روس نے اپنی فضا میں میزائل داغ کر گرا لیا۔ تب روسی لیڈر نکیتا خروشیف نے دھمکی دی کہ انہوں نے پشاور کے گرد سرخ نشان لگا لیا ہے۔ اس کے باوجود امریکہ کے ڈیموکریٹک صدر جانسن (1963-69ء) نے پاکستان کی فوجی امداد جنگ ستمبر 1965ء کے وقت بند کر دی اور دفاعی معاہدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ پھر 1971ء میں بھی دفاعی معاہدے پاکستان کے کسی کام نہ آئے اور امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا خلیج بنگال پہنچنا تھا نہ پہنچا، البتہ ری پبلیکن امریکی صدر نکسن کا یہ دعویٰ ضرور سامنے آیا کہ انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے بعد روس کے ذریعے انتباہ کر کے اندراگاندھی کو مغربی پاکستان پر یلغار کرنے سے باز رکھا، شاید اس لئے کہ پاکستان نے جون1971ء میں امریکی مشیر قومی سلامتی ہنری کسنجر کے خفیہ دورۂ چین کا بندوبست کر کے امریکہ چین تعلقات کی راہ ہموار کی تھی۔

اس کے بعد فوجی معاہدے ختم ہو گئے اور بھٹو دور میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی خبر نکلی تو امریکہ نے پاکستان کی ہر نوع کی امداد بند کر دی اور پاکستان کے ’’اسلامی ایٹم بم‘‘ کا ڈھنورا پیٹا گیا۔ یہ ڈیموکریٹک صدر جمی کارٹر کا دور تھا، پھر دسمبر 1979ء میں سوویت روس افغانستان پر حملہ آور ہوا اور کارٹر نے صدر جنرل ضیاء الحق کو40کروڑ ڈالر کی دفاعی امدادی پیشکش کی تو صدر ضیاء نے اسے مونگ پھلی کہہ کر ٹھکرا دیا۔ آخرکار جنوری 1981ء میں ریپبلیکن صدر رونالڈ ریگن وائٹ ہاؤس میں داخل ہوا تو اس نے 3ارب 20کروڑ ڈالر کا پیکج پیش کر دیا جس کے تحت پاکستان کو 40ایف 16طیارے ملے، پھر امریکی صدر ہر سال کانگرس میں یہ سرٹیفکیٹ پیش کرتا رہا کہ اس کے علم کی حد تک پاکستان ایٹمی اسلحہ تیار نہیں کر رہا جو کہ پاکستان دراصل دسمبر 1984ء تک تیار کر چکا تھا۔ اس دوران میں افغان مجاہدین نے امریکی سٹنگر میزائلوں سے روس کے چھکے چھڑا دیئے اور روسی صدر گورباچوف نے صدر ریگن کے گھٹنے پکڑ لیے۔ پھر جنیوا معاہدہ ہوا (اپریل 1988ء) اور اس کے تحت 15فروری 1989ء تک روسی فوجیں افغانستان سے نکل گئیں۔ اس کے بعد اکتوبر 1990ء میں ری پبلیکن صدر جارج بش سینئر نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں سرٹیفکیٹ نہ دیا اور پاک امریکہ تعلقات پر اوس پڑ گئی۔

اگلے ڈیموکریٹک صدر بل کلنٹن کے دور (جنوری 1993ء تا جنوری 2001ء) میں پاک امریکہ تعلقات جمود کا شکار رہے۔ امریکہ نے پاکستان کو دیے جانے والے مزید ایف 16طیاروں کی کھیپ روک لی جن کے لئے پاکستان تقریباً 67 کروڑ ڈالر ادا کر چکا تھا۔ مئی 1998ء میں 5بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان 6ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا جبکہ صدر کلنٹن نے وزیراعظم میاں نوازشریف اور شہباز شریف کے ذاتی اکاؤنٹس میں دس دس کروڑ ڈالر جمع کرانے کی پیشکش کے ساتھ پاکستان کو خطیر دفاعی امداد دینے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر میاں صاحب نے اسے ٹھکرا دیا تھا۔ اس کے بعد اکتوبر 1999ء میں جنرل مشرف چیف ایگزیکٹو اور پھر صدرِ مملکت بن گئے تو پاک امریکہ تعلقات میں مزید سردمہری آ گئی۔ اس دوران میں جنوری 2001ء میں کٹر صلیبی ری پبلیکن صدر جارج بش جونیئر وائٹ ہاؤس میں براجمان ہو چکا تھا اور پھر ’’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ کے مصداق سانحۂ نائن الیون برپا ہوا پاکستان فرنٹ لائن اتحادی بنا جس وجہ سے یہ سردمہری کم ہوئی۔ اس دوران میں پاکستان کو ’’سپورٹ فنڈ‘‘ کے تحت محدود مالی و فوجی امداد بھی ملی لیکن مطلب نکل جانے کے بعد ایک بار پھر ڈیموکریٹک صدر اوباما نے آنکھیں پھیر لی ہیں اور ایف 16طیاروں کی فراہمی کا نیا وعدہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ پاکستان سے باربار بے وفائی کرنے والا امریکہ بھارت سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی کا معاہدہ کر چکا ہے مگر پاکستان کے ساتھ ایسے معاہدے سے مسلسل انکاری ہے۔ خدا ہمارے حکمرانوں کو امریکہ کے ابلیسی جال سے نکل کر آزاد قوم کے حکمران بننے کی توفیق دے!
 
Top