• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یوم عاشوراء کا روزہ ، سال گزشتہ کا کفارہ بن جاتا ہے - سب بھائی اور بہن ضرور رکھیں (جزاک اللہ)

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یوم عاشوراء کا روزہ ، سال گزشتہ کا کفارہ بن جاتا ہے
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشوراء (محرم کی دس تاریخ) کے روزہ کے متعلق سوال کیے گئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:
(انی احتسب علی اللہ ان یکفر السنة التی قبلہ ) (رواہ مسلم) .
میں اللہ عزوجل سے امید رکھتا ہوں کہ وہ یوم عاشوراء کے روزہ کو اس سے پہلے کے سال ماضی کے گناہوں کا کفارہ بنادے گا. ( صحیح مسلم )
عاشوراء کے روزہ کے مراتب:۔

بعض اہل علم نے عاشوراء کے روزہ کے تین حالات ذکر کئے ہیں :۔

١۔ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں اس کے ساتھ روزہ رکھنا.

٢۔ صرف عاشوراء (یعنی دس محرم) ہی کا روزہ رکھنا .

٣۔ ایک دن اس سے پہلے اور ایک دن اس کے بعد روزہ رکھنا یعنی مسلسل تین دن اور یہ طریقہ سب سے بہتر ہے .

۔ اور صرف یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا بھی کوئی حرج کی بات نہیں ہے . (یہ فتوی الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کا ہے)

عاشوراء روزہ کی مناسبت :۔

آج یعنی دس محرم کو اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام اوران کی قوم کو فرعون اور اس کی قوم کے ظلم سے نجات عطا فرمائی تھی اس لئے بطور شکریہ اللہ تعالیٰ کیلئے روزہ رکھنا چاہیے.
اس مناسبت کے تعلق سے چند فائدے :۔

١۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے ہوئے یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا مستحب ہے.

٢۔ یوم عاشوراء سے ایک دن پہلے یا ایک بعد میں روزہ رکھنا مستحب ہے تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہو سکے جیسا کہ اس کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے .

٣۔ اس دن کی بہت عظیم فضیلت ہے اور اس کی حرمت بہت قدیم ہے .

٤۔ اس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ سابقہ امتوں میں وقت کی تحدید چاند کے اعتبار سے ہوا کرتی تھی نہ کہ انگریزی مہینوں کے اعتبار سے ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی ہے کہ دس محرم وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے فوعون اور اس کی قوم کو ہلاک کیا اور موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا فرمائی .

٥۔ یہ (روزہ رکھنا) وہ خوبی ہے جو سنت سے اس دن کے متعلق ثابت ہے ، باقی رہے دیگر اعمال جو اس دن کئے جاتے ہیں تو وہ سب کے سب بدعت ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے خلاف ہیں.

یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بے شمار فضل و احسان ہے کہ وہ ایک دن کے روزہ کے عوض پورے ایک سال کے گناہ معاف کردیتا ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ عظیم فضل والا ہے .

میرے بھائی ! اس فضل کو حاصل کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہو اور اپنا نیا سال اطاعت اور خیرات (نیکیوں) کے حصول میں سبقت کرتے ہوئے شروع کرو بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں.

( یہ اقتباس ، الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کی کتاب (الضیاء اللامع) اور شیخ صالح فوزان الفوزان حفظہ اللہ کی کتاب (الخطب المنبریة) سے ماخوذ ہے ) ( مترجم : ابو فیصل سمیع اللہ رحمہ اللہ)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
صرف اکیلے یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم

کیامیں صرف دس محرم کا روزہ رکھ سکتاہوں یعنی اس سے ایک دن قبل یا ایک دن بعد میں روزہ نہ رکھوں ؟

الحمدللہ


شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

یوم عاشوراء کا روزہ ایک برس کے گناہوں کا کفارہ ہے ، اکیلا دس محرم کا روزہ رکھنا مکروہ نہيں ۔ دیکھیں الفتاوی الکبری جلد نمبر ( 5 ) ۔

ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

صرف اکیلا عاشوراء کا روزہ رکھنے میں کوئي حرج نہيں ۔ دیکھیں کتاب : تحفۃ المحتاج باب صوم التطوع جلدنمبر ( 3 ) ۔

یہی سوال لجنۃ الدائمۃ سے کیاگيا تواس کا جواب تھا :

یوم عاشوراء کا اکیلا روزہ رکھنا جائز ہے ، لیکن افضل اوربہتر یہ ہے کہ اس سے دن قبل یا بعد میں بھی روزہ رکھا جائے ، کیونکہ یہ سنت طریقہ ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اگر میں اگلے برس تک باقی رہا تو نومحرم کا روزہ رکھوں گا ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1134 ) ۔

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ : دس کے ساتھ نومحرم کا بھی ۔

اللہ تعالی کی توفیق بخشنے والا ہے ۔

دیکھیں : اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ الافتاء ( 11 / 401 ) ۔

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
يوم عاشوراء كے ساتھ گيارہ تاريخ كا بھى روزہ ركھنا فقھاء كيوں مستحب قرار ديتے ہيں ؟

يوم عاشوراء كے متعلق ميں نے سارى احاديث كا مطالعہ كيا ہے ليكن كسى ميں بھى يہ نہيں ملا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہود كى مخالفت كرتے ہوئے گيارہ محرم كا روزہ ركھنے كا اشارہ كيا ہو، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا تو فرمان يہ ہے كہ:
" اگر ميں آيندہ برس زندہ رہا تو ميں نو اور دس تاريخ كا روزہ ركھوں گا " يہوديوں كى مخالفت كرتے ہوئے، اسى طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام كى بھى گيارہ تاريخ كا روزہ ركھنے كى راہنمائى نہيں فرمائى.
اس بنا پر كيا يہ بدعت تو نہيں كہلائيگى كہ جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہيں كيا ہم وہ كر رہے ہيں، اور نہ ہى صحابہ كرام نے ايسا كيا ہے ؟
اور كيا اگر كسى شخص كا نو محرم كا روزہ رہ جائے تو دس محرم كا روزہ كفائت كر جائيگا يا نہيں ؟

الحمد للہ:

علماء كرام نے گيارہ محرم كا روزہ ركھنا اس ليے مستحب قرار ديا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كو ايسا كرنے كا حكم ديا تھا.

مسند احمد كى روايت ميں ہے كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يوم عاشوراء كا روزہ ركھو، اور اس ميں يہوديوں كى مخالفت كرتے ہوئے ايك دن قبل روزہ ركھو يا ايك دن بعد ميں "
مسند احمد حديث نمبر ( 2155 ).
اس حديث كو صحيح قرار دينے ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، شيخ احمد شاكر نے اسے حسن قرار ديا ہے، اور مسند احمد كے محققين حضرات اسے ضعيف كہتے ہيں.

اور ابن خزيمہ نے اسے ان الفاظ كے ساتھ روايت كيا ہے ديكھيں: ابن خزيمۃ حديث نمبر ( 2095 ) علامہ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں: ابن ابى ليلى كے سوء حفظ كى بنا پر اس كى سند ضعيف ہے، اور عطاء وغيرہ نے اس كى مخالفت كى ہے، انہوں نے اسے ابن عباس سے موقوف روايت كيا ہے، اور اس كى سند امام طحاوى اور بيھقى كے ہاں صحيح ہے " انتہى

اس ليے اگر حديث حسن ہے تو يہ حسن ہے، اور اگر ضعيف ہے تو اس طرح كے مسئلہ ميں علماء كرام تساہل سے كام ليتے ہيں، كيونكہ ا سكا ضعف تھوڑا سا ہے، نہ تو يہ موضوع ہے اور نہ ہى مكذوب، اور اس ليے بھى كہ يہ فضائل اعمال ميں ہے خاص كر محرم الحرام ميں روزے ركھنے كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ترغيب دلائى ہے.

حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" رمضان المبارك كے بعد سب سے افضل روزے محرم الحرام كے ہيں "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1163 ).

امام بيھقى نے يہ حديث سنن الكبرى ميں مندرجہ بالا الفاظ كے ساتھ روايت كى ہے، اور ايك دوسرى روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
" اس كے ايك دن قبل اور ايك دن بعد روزہ ركھو " يہاں يا كى بجائے اور كےالفاظ ہيں.
اتحاف المہرہ ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان الفاظ كے ساتھ رويت كيا ہے كہ:

" اس كے ايك دن قبل اور ايك دن بعد روزہ ركھو "
ديكھيں: اتحاف المھرۃ حديث نمبر ( 2225 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اسے احمد اور بيھقى نے ضعيف سند كے ساتھ روايت كيا ہے، كيونكہ محمد بن ابى ليلى ضعيف ہے، ليكن اس نے اكيلے يہ روايت نہيں كى بلكہ صالح بن ابى صالح بن حي نے اس كى متابعت كى ہے " انتہى
اس طرح يہ روايت نو اور دس اور گيارہ تاريخ كا روزہ ركھنے كے استحباب پر دلالت كرتى ہے.
بعض علماء نے گيارہ تاريخ كے روزے كے استحباب كا ايك اور سبب بيان كيا ہے يہ دس تاريخ كى احتياط ہے، كيونكہ بعض لوگ محرم كے چاند ميں غلطى كر سكتے ہيں، اس ليے يقينى طور پر معلوم نہيں كہ كونسا دن دس تاريخ كا تھا، اس ليے اگر كوئى مسلمان شخص نو اور دس اور گيارہ تاريخ كا روزہ ركھ ليتا ہے تو اس نے يوم عاشورا كا روزہ ركھ ليا.

ابن ابى شيبہ نے مصنف ابن ابى شيبہ ميں طاؤس رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے كہ وہ دس محرم سے ايك دن قبل اور ايك دن بعد روزہ ركھا كرتے تھے، كہ كہيں دس محرم كا روزہ رہ نہ جائے.
ديكھيں: مصنف ابن ابى شيبۃ ( 2 / 313 ).

اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جو شخص يوم عاشوراء كا روزہ ركھنا چاہتا ہے تو وہ نو اور دس تاريخ كا روزہ ركھے، ليكن اگر مہينوں ميں اسے اشكال پيدا ہو جائے تو وہ تين دن كے روزے ركھے، ابن سيرين يہى كہا كرتے تھے " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 4 / 441 ).

اس سے يہ واضح ہوا كہ تين روزوں كو بدعت كہنا صحيح نہيں ہے.
ليكن اگر كوئى شخص نو محرم كا روزہ نہيں ركھ سكا تو وہ اكيلا دس محرم كا روزہ ركھ لے تو اس ميں كوئى حرج نہيں اور يہ مكروہ نہيں ہوگا، اور اگر وہ اس كے ساتھ گيارہ محرم كا روزہ ملا لے تو يہ افضل ہے.

مرداوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" صحيح مسلك كے مطابق صرف دس محرم كا روزہ ركھنا مكروہ نہيں، شيخ تقى الدين ( ابن تيميہ ) رحمہ اللہ نے اس كى موافقت كى ہے كہ يہ مكروہ نہيں " انتہى مختصرا
ديكھيں: الانصاف ( 3 / 346 ).

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
  • ۔ حضرت ابو موسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن کی عزت وتکریم کرتے اور اس دن روزہ رکھتے دیکھاتورسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم اس دن روزہ رکھنے کے (یہود سے) زیادہ حقدار ہیں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے روزہ کا حکم دیا۔
( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1125)
  • ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم فرمایا تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اس دن تو یہودی اور نصاری تعظیم کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے راوی نے کہا کہ ابھی آئندہ سال نہیں آیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا گئے۔

( صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 172)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
رمضان كى قضاء كى موجودگى ميں عاشورا كا روزہ ركھنا

مجھ پر رمضان كى قضاء ہے اور ميں عاشوراء كا روزہ ركھنا چاہتا ہوں، تو كيا ميرے ليے قضاء سے قبل عاشوراء كا روزہ ركھنا جائز ہے؟
اور كيا ميں عاشوراء دس اور گيارہ محرم كا روزہ رمضان كى قضاء كى نيت سے ركھ سكتا ہوں، اور كيا مجھے عاشوراء كے روزے كا اجروثواب حاصل ہو گا ؟

الحمد للہ :

اول:

جس شخص پر رمضان المبارك كے ايك يا ايك سے زيادہ دنوں كى قضاء ہو وہ نفلى روزہ نہ ركھے، بلكہ وہ اپنى قضاء سے ابتدا كرے اور پھر نفلى روزے ركھے.

دوم:

جب وہ دس اور گيارہ محرم الحرام كا روزہ رمضان المبارك كے چھوڑے ہوئے روزوں كى قضاء كى نيت سے رزہ ركھے تو يہ جائز ہے، اور يہ اس كے ذمہ دو يوم كى قضاء ہو گى، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى كچھ ہے جو اس نے نيت كى "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميہ والافتاء ( 11 / 401 )

اور اميد ہے ركھى جاسكتى ہے كہ آپ كو اس دن كے روزے اور قضاء كا اجروثواب حاصل ہو گا.
ديكھيں: فتاوى منار الاسلام، للشيخ محمد ابن عثيمين رحمہ اللہ ( 2 / 358 )

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 
Top