• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یوٹیوب کی کمائی پر نوجوانوں کی فریفتگی اور اسلام

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
یوٹیوب کی کمائی پر نوجوانوں کی فریفتگی اور اسلام

مقبول احمد سلفی



اسلام نے کسب مال کے ضوابط متعین کئے ہیں ، ایک مسلمان کے لئے اس عمل کی کمائی حلال ہے جو اسلامی ضابطہ کے اندر آتا ہو جو عمل ضوابط سے خارج ہو اس کی کمائی حلال نہیں ہوگی ۔
کسب حلال کا اسلامی ضابطہ یہ ہے کہ تجارت وعمل میں جھوٹ وفریب نہ ہواور وہ ظلم وزیادتی ، ناجائزوحرام امور اورسود ی تعامل سے پاک ، عدل وانصاف ، امانت ودیانت اور حق وصداقت کے معیار پر مبنی ہو۔ اسلامی تجارت سے مال پاک ہوتا ہے ، سماج وسوسائٹی میں صالح عناصر تشکیل پاتے ہیں ، فرد وجماعت میں سکون وراحت ، صبروشکر کے اوصاف اور ایک دوسرے کے تئیں خیرخواہی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے لوگوں کو محنت پر ابھارا ہے اور سستی وغفلت سے منع کیا ہے ۔ محنت کے بدلے میں حاصل ہونے والے اجر کی فضیلت بیان کی ہے بلکہ محنت کو بھی مبارک عمل قرار دیا ہے ۔ محنت حلال کمائی کے لئے اورحلال کمائی کا استعمال اللہ کی رضاکے لئے یہ مومن کامل کے اوصاف حمیدہ میں سے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امانتدار تاجر کا حشر انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا جبکہ غیرامانتدار تاجروں کا معاملہ فاسق وفاجر کے ساتھ ہوگا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ مع النَّبيينَ والصِّدِّيقِينَ والشُّهَدَاءِ .(صحيح الترغيب:1782)
ترجمہ:سچا اور امانت دار تاجر( قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:
إنَّ التجارَ يُبعثونَ يومَ القيامةِ فجَّارًا ، إلَّا من اتقَى اللهَ وبَرَّ وصدق( صحيح ابن ماجه:2/208 )
ترجمہ: تاجر لوگ قیامت کے دن گنہگار اٹھائے جائیں گے سوائے اس کے جواللہ سے ڈرے، نیک کام کرے اورسچ بولے۔
اس تمہید کاعمومی مقصد انٹرنیٹ سے جڑے ان تمام لوگوں کو پیغام دینا ہے جو محنت سے جی چراتے ہیں اور سارا سارا دن بیٹھ کر انٹرنیٹ سے ہی کمائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے لئے انہیں جائز وناجائز کی پرواہ نہیں ہوتی ، بس کمائی ہونی چاہئے چاہے جیسے ہو۔بطور خاص نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ زندگی کا اہل ہدف بھول کر اکثر اوقات انٹرنیٹ پر صرف کرنا اور اسے ہی زندگی کا محورومقصود ٹھہرا لینا بڑی ہی نادانی ہے اور جائزوناجائز کی پرواہ کئے بغیر اسے کسب معیشت کا ذریعہ بنالینا اسلامی تجارت کے خلاف ہے ۔ ہم سچے مسلمان ہیں تو ہمارا قدم اسلام کے سچے اصولوں پر قائم ہو ، نہ صرف کھانے پینے میں بلکہ تجارت ومعیشت سےلیکر زندگی کے تمام شعبہ جات میں ۔
سطور ذیل میں اس بات کا جائز لینا مقصود ہے کہ آج کل نوجوان لڑکے اور لڑکیاں طرح طرح کی ویڈیوز بنانےمیں دن ورات کا اکثر حصہ صرف کررہے ہیں ، کوئی چٹکلے، کوئی جنسی مسائل، کوئی پکوان، کوئی کام کاج ، کوئی فتنہ پرور، کوئی فحش ومنکر، کوئی کہانی وکارٹون، کوئی خاص وعوام ہر قسم کی چیزیں نشر کررہاہے ۔ نوجوانوں میں ویڈیوز بنانے کے تئیں ایک قسم کا جنون سا پیدا ہوگیا۔ اس کی اہم وجہ ہے کہ گوگل کی طرف سے ویڈیوز پہ پیسے ملتے ہیں ، گھر بیٹھے آسانی سے پیسے اکاؤنٹ میں آنے کی وجہ سے اس جانب لوگوں نے بطور خاص نوجوانوں نے کافی توجہ دیدی ہے ۔ اس سے نہ صرف نوجوانوں کا مقصدزندگی ختم ہورہاہے بلکہ روشن مستقبل، جہد وعمل اور انقلابی کوششیں دھندلا پن کا شکار ہورہی ہیں۔ بہت سے ناعاقبت اندیش نوجوانوں کی وجہ سے لوگوں میں فحش ومنکرات کو بڑی تعداد میں فروغ مل رہاہے ۔ حد تو یہ ہے کہ کتنے لوگ یہاں جھوٹے مفتی، فریبی اسلامی اسکالر، دفاع عن الاسلام والسنہ ، مناظر، محقق وباحث بنے ہوئے ہیں اور سادہ لوح عوام میں ان کے جھوٹ کی وجہ سے منہج وعقیدہ کا فساد ،علم وفن کے نام پر گمراہی پھیل رہی ہے ۔ ایک نے کوئی بات یوٹیوب پر اپ لوڈ کی ،دوسرا اس پہ ضرب لگاتا ہے ، گالیاں دیتا ہے اور گھر بیٹھے مناظرہ کی ویڈیو بناتا ہے اور اپنے مشاہدین کی تعداد دیکھ پھولے نہیں سمارہاہے۔
یہاں اصل مسئلہ یہ ہے کہ یوٹیوب پر ویڈیوز بناکر اپ لوڈ کرنے کے نتیجہ میں جو مالی منافع حاصل ہوتا ہے وہ شرعا حلال ہے یا حرام ؟
اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ گوگل کمپنی جو یہودی کمپنی ہے وہ کسی کو یوٹیوب پہ ویڈیو ڈالنے سے کیوں پیسہ دیتا ہے ؟ کیا صرف ویڈیو ڈالنے سے پیسہ ملتا ہے یا کسی دوسری چیز کے مقابل ؟ ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم رہے کہ ہرکسی کو یوٹیوب پہ پیسہ نہیں ملتا ہے ۔ خیر جس کوبھی پیسہ ملتا ہے اسے اس بات کا پیسہ ملتا ہے کہ جس ویڈیوپہ گوگل کمپنی کسی چیز کا پرچار کرتی ہے اس پرچار سے گوگل پہلے اس کمپنی سے منافع کماتا ہے جس کا پرچار کیا ہے اور اس منافع میں سے گوگل ویڈیوز اپ لوڈ کرنے والے اس شخص کو بھی دیتا ہے جس کی ویڈیوز پر پرچار نشر کرتا ہے ۔
مختصر میں مذکورہ سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر گوگل ہمیں یوٹیوب پر ویڈیواپلوڈ کرنے اور اس پہ پرچار ڈالنے کے عوض معلوم اجرت دےبشرطیکہ پرچار میں اسلام سے متصادم کوئی چیز نہ ہو اور نہ ہی ویڈیو بنانے والے نے اس ویڈیومیں کوئی خلاف شرع بات ڈالی ہو تو پھر گوگل کی طرف سے دیا گیا منافع حلال ہوگا۔ یہ ایک طرح سے جعالہ کا معاملہ ہے جس کے جواز پر علماء کے فتاوی موجود ہیں کہ کسی چیز کے عوض معلوم شدہ انعام یا معاوضہ ملے یعنی جعالہ میں اجرت تو معلوم وطے ہوتی ہے مگر مدت کا طےہونا ضروری نہیں ہے۔جعالہ اجارہ سے مختلف ہے ۔
یہاں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اولا اکثر ویڈیوز ہی فتنہ کا باعث ہیں ۔ کوئی مسلک کے نام پہ، کوئی جھوٹی تعلیمات پھیلانے کے نام پر، کوئی فحش ومنکرات کے نام پر تو کوئی اپنے دنیاوی اغراض ومقاصدکے نام پر ۔ اس قسم کی ویڈیوزبنانا اور لوڈ کرنا فی نفسہ حرام ہے اور اس سے پیسہ کمانا بھی ۔
اب ہم اس کا دوسرا پہلویہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا گوگل کی جانب سے پرچار کے مقابلہ میں منافع طے ہوتا ہے ؟ اس کاجواب بعض لوگوں سے یہ معلوم ہواہے کہ ہاں اس کی اجرت طے ہے یعنی جس قدر آدمی پرچار والی ویڈیو کو دیکھے گا اسی قدر منافع زیادہ ہوگا۔ میں نے اپنی سطح پہ اجرت کی معلومات کی تو پتہ چلا کہ گوگل کی اپنی مرضی ہے جس چاہے جتنا منافع دے ۔ کہنے کے لئے ایک ہزار "مشاہدین" پر ایک ڈالر ہے مگر اس کی کوئی حقیقت مجھے نظر نہیں آتی۔ اس وجہ سے یوٹیوب کے ذریعہ پرچارکے مقابل منافع کے حصول میں ایک رکاوٹ پیدا ہورہی ہے وہ ہے اجرت کا نامعلوم نہ ہونا۔
اس سلسلہ میں ایک تیسرا بہت ہی اہم پہلو پرچار سے متعلق ہے ۔ اس پہلو سے کئی سوالات جڑے ہیں ۔ کیا جس کمپنی کا پرچار کیا جارہاہے اس کی تجارت حلال ہے ؟ کیا وہ سودی کاروبار سے پاک ہے ؟ اس میں حرام چیزوں کی ملاوٹ، طبی اعتبار سے اشیاء میں کوئی ضرررساں عنصر تو شامل نہیں ہے؟ پرچار مبالغہ آرائی اور جھوٹ کی آمیزش پہ مبنی تو نہیں ہے؟ پرچار میں روح والی تصویر، برہنہ عورت یا ہیجانی کوئی کیفیت تو نہیں ؟ کیا گوگل اس بات کی کسی کو ضمانت دیتا ہے کہ پرچار میں اسلامی اعتبار سے صرف جائز چیزیں ہی شامل ہوں گی؟ کیا منافع کمانے والے کو یہ حق ہے کہ اسلا م مخالف امر کو پرچار سے ہٹا سکے اور صرف اسلامی تجارت کے ضابطہ میں آنے والی تجارت کا ہی پرچار کرے ؟
اتنے سارے سوالات بلکہ اس سے بھی زیادہ سوالات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ سیدھی سی بات ہے اگر ہم گوگل کے پرچار میں بااختیار نہیں ہیں تو بلاشبہ پرچار میں حرام چیزوں کی آمیزش ہوگی کیونکہ یہ یہودی میڈیا ہے اس کے پاس تجارت کا کہاں کوئی ضابطہ ہے ؟ اسے تو مال سے سروکار ہے بس۔ اس کا پرچار کرکے ہم شر کے معاون بنیں گے اگر پرچار شر پر مبنی ہوا۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ(المائدة:2)
ترجمہ: نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اورظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو ، بیشک اللہ تعالٰی سخت سزا دینے والا ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنْ الأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ ، لا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا ، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنْ الإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ ، لا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا( مسلم:2674) .
ترجمہ: جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہو گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔
یوٹیوب سے پیسہ کمانے والا کوئی بھی مسلم نوجوان اس بات کا اقرار کرنے سے نہیں کترائے گا کہ گوگل کی جانب سے ویڈیوز پر شائع ہونے والے اعلانات میں اسلام سے ٹکرانے والی کوئی بات کبھی بھی نہیں ہوتی ۔ جب صورت حال ایسی ہو تو ہم بھی شر کے پھیلاؤ میں حصہ بنیں گے ۔ اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھیں کہ آپ نے ایک ویڈیو اپ لوڈ کی اس میں گوگل نے کسی کمپنی کا اعلان شامل کیا ، اس اعلان میں برہنہ لڑکی شامل ہے یا کوئی فحش کام کا اعلان ہے یا حرام کمپنی / اشیاء کا اعلان ہے یا اس اعلان میں جھوٹ اور فریب سے کا م لیا گیا ہے ۔ ایسی صورت میں اس اعلان کو جو بھی دیکھے گا اس کا گناہ ویڈیو لوڈ کرنے والے کے سر جائے گا ۔ اس ویڈیو کو دیکھنے والے لاکھوں ہوں تو لاکھوں کا گناہ سر آئے گا۔ دوسری طرف اس کی کمائی بھی حلال نہیں ہوگی ۔
ان باتوں کا میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ کوئی مفید کاموں کے لئے یوٹیوب پر دینی ویڈیوز اپ لوڈ نہ کرے ، اصل مقصد پرچار کے مقابل مالی منافع کی شرعی حیثیت بتلانا ہے ۔ پیسہ کمانا اصل یا اہم نہیں ہے بلکہ کمائی حلال ہے کہ نہیں یہ اصل اور اہم ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر گوگل کمپنی سے جڑنا فری میں ہو ، آپ کو اپنی اجرت معلوم ہو اور اعلان مباح چیزوں پر مشتمل اور مباح امور کے متعلق ہونیز ویڈیو بھی فی نفسہ بے عیب ہو تو پھر منافع حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نوجوانوں کو آخر میں نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ اگر اللہ نے آپ کو ویڈیو زبنانے کا جوہر دیا ہے تو اس جوہر سے قوم کو فائدہ پہنچائیں،میں اس سے نہیں روکتا مگر مندرجہ ذیل باتوں کو دھیا ن میں رکھیں ۔
٭ زندگی کا اصل ہدف اسے نہ ٹھہرائیں ، اپنی تخلیق کااصل مقصد جانیں اور اس کے نفاذ کی کوشش کریں ۔
٭ انٹر نیٹ جہاں مفید ہے وہیں مضر بھی ہے ، اس کے مضرات کو محسوس کریں اور ان سے بچیں ،اللہ کے یہاں حساب دینا ہوگااور اوقات کا خیال کرتے ہوئے حقوق وواجبات کی ادائیگی کریں ۔
٭ سستی و جھوٹی شہرت اور حلت وحرمت کی پرواہ کئے بغیر بن محنت مالی منفعت کے حصول اورفواحش ومنکرات کا سبب بننے سے بچیں ۔ آپ دنیا سے چلے جائیں گے مگر یوٹیوب کا یہ کالا حصہ باقی رہے گا حتی کہ یوم حساب اس کا حساب بھی چکانا ہوگا۔
٭ اسلام نےانسان کو محنت وعمل پہ ابھارا ہے ، عمل اور عامل کی قدر کی ہے لہذا ہم بھی شرف محنت کو اپنائیں اور ہمیشہ حلال رزق کی تلاش کریں ، اللہ تعالی نیتوں کے حساب سے آپ کو حلال روزی مہیا فراہم کرے گا کیونکہ انسانوں کو روزی دینے والا ہے۔
٭ آج آبادی کی کثرت کی وجہ سے روزگار کی فراہمی ہرکس وناکس کے لئے مشکل ہوگئی ہے اور فتنے کے دور میں کسب حلال تو اور بھی مشکل ہے ۔ ایسے میں ایک مومن کا یہ امتحان ہے کہ اپنے دامن کو فتنہ سے بچاتے ہوئے حلال روزی پر اکتفا کرے خواہ کم ہی روزی نصیب ہو۔ ہر شخص کی روزی اس کی تقدیر میں لکھ دی گئی ہے اورہرشخص کی قسمت میں امیر ہونا بھی نہیں لکھا ہے ، اللہ نے سماج کے دوطبقے امیروغریب بنائے ہیں ۔ یہ فرق قیامت تک باقی رہے گا۔ اشتراکی نظام نے معیشت میں مساوات پیداکرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوگیا۔
٭ اسلام نے ہمیں جائز طریقے سے محنت کرکے زیادہ سے زیادہ دولت کمانے سے منع نہیں کیا ہے ، منع کیا ہے تو کسب معاش کے ناجائز طریقے سے اور جسے غربت ملی یا جسے روزی کی فراوانی نصیب نہیں ہوئی ایسے لوگوں کو صبر کرنا چاہئے ۔ اس پر اللہ کی طرف سے دنیا اور آخرت میں بہتر بدلہ ہے۔ یقین جانیں مالدار وہ نہیں جو پیسے والا ہو بلکہ مالدار وہ ہے جو اعمال وتقوی والاہو اور یتیم وہ نہیں جس کے والدین نہ ہوں بلکہ یتیم وہ ہے جواعمال وتقوی سے خالی ہوگرچہ اس کے پاس دولت کا انبار ہو۔
٭ آخری بات کے طور یہ جملہ یاد رکھیں کہ یوٹیوب کے لئے صرف وہی ویڈیو بنائیں جس سے آپ کا اخروی کوئی نقصان نہ ہو۔ عقیدہ ومنہج مخالف ویڈیو، کسی پر الزام تراشی والی ویڈیو، مسلکی عصبیت میں بنائی گئی ویڈیو، اخلاق واعمال برباد کرنے والی ویڈیو، فتنہ وفساد پھیلانے والی ویڈیو یا بدعات وخرافات اور فواحش ومنکرات سے لبریز ویڈیو بنانے کا انجام بہت برا ہے اور اس کا اثر کتنا زیادہ ہے وہ اوپر ہمیں معلوم ہی ہوگیا۔ منافع سے بالا تر ہوکرہم صرف تعلیمی ، اصلاحی اور مفید ویڈیوز جو کتاب وسنت پر مبنی ہوں یا ان کے مخالف نہ ہوں اسے ہی بنائیں اور شیئر کریں ۔جھوٹی کہانیاں بنانے، کارٹون میں وقت ضائع کرنے ، ویڈیوز میں غیرضرروی تصنع وتکلف برتنے یا فضول ولایعنی کاموں والے ویڈیوز سے بھی بچیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ہواوی موبائل کا جو جھگڑا بنا تھا، سب جانتے ہوں گے، امریکی کمپنی گوگل نے انڈرائیڈ نظام انہیں دینے سے انکار کیا، تو انہوں نے اپنا نظام بنانا شروع کردیا. اب گوگل کو یہ فکر پڑگئی ہے کہ اگر ہواوی نے واقعتا اپنا خاص نظام بنالیا تو نہ صرف یہ کہ ہواوے والے لاکھوں صارفین سے ہم ہاتھ دھو بیٹھیں گے، بلکہ اگر ہواوی کا نظام بہترین ثابت ہوا تو آئندہ دنوں میں انڈرائیڈ کے لیے خطرہ ثابت ہوگا.
دو کافروں نے کس طرح ایک دوسرے کو اپنے ہونے کا احساس دلایا۔
مسلمانوں میں ’اپنا بنانے ‘ کی سوچ ہونی چاہیے، ورنہ کفریہ نظام کی تمام سہولتیں جیسی بھی ہوں، وہ در حقیقت اسلام کی خدمت کے لیے نہیں ہیں، انہیں جتنا بھی مسلمان کریں، اس میں اسلامی رو سے مسائل باقی رہیں ہی گے۔
مثلا تصویر کے ذریعے شناختی نظام کافر کا تھا، اس لیے تمام دنیا پر پھیل گیا، حالانکہ یہ نظام مسلمانوں کی طرف سے متعارف ہوتا تو فنگر پرنٹس وغیرہ کی شکل میں ضرور اس کا متبادل ہوتا، کیونکہ ان کے نزدیک تصویر کشی شدید اہم مسئلہ ہے۔
اسی طرح گوگل نے یوٹیوب کے ذریعے کمائی کا سسٹم متعارف کروایا ہے، نوجوان دھڑا دھڑا اس طرف متوجہ ہورہے ہیں، جبکہ اسلامی رو سے یہ کاروبار متنازع ہے۔ کچھ لوگ اس کی ڈھیروں خامیاں بیان کر رہے ہیں، جو در حقیقت اس میں ہیں بھی، جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ اسے خامیوں سمیت قبول کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔
مولویوں کو کوسنے والے مسلمان انجینئرز مل کر مسلمان یوٹیوبرز کو متبادل نظام دے دیں، علما کرام اسلامی حدود و ضوابط کے مطابق کام لوگوں کے سامنے رکھیں، سب مل جل کر اپنے پراجیکٹ لانچ کرکے، نوجوانوں سے وہاں کام کروائیں، انہیں تنخواہیں دیں، وہ خود بخود یوٹیوب چھوڑ دیں گے۔
 
Top