• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ حدیث ضیف ہے اس کی متشابہ ہو تو پلیز یہاں ضرور دیں

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
أخبرنا عتبة بن عبد الله قال أنبأنا ابن المبارک عن سفيان عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جابر بن عبد الله قال کان رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول في خطبته يحمد الله ويثني عليه بما هو أهله ثم يقول من يهده الله فلا مضل له ومن يضلله فلا هادي له إن أصدق الحديث کتاب الله وأحسن الهدي هدي محمد وشر الأمور محدثاتها وکل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة وکل ضلالة في النار ثم يقول بعثت أنا والساعة کهاتين وکان إذا ذکر الساعة احمرت وجنتاه وعلا صوته واشتد غضبه کأنه نذير جيش يقول صبحکم مساکم ثم قال من ترک مالا فلأهله ومن ترک دينا أو ضياعا فإلي أو علي وأنا أولی بالمؤمنين

سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1583 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 11
عتبہ بن عبد اللہ، ابن مبارک، سفیان، جعفربن محمد، وہ اپنے والد سے، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیتے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے جیسے کہ اس کا حق ہے۔ پھر فرماتے جیسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔ یقین رکھو سب سے سچی کتاب اللہ کی کتاب اور سب سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ ہے۔ سب سے بری چیز (دین میں) نئی چیز پیدا کرنا ہے اور ہر نئی چیز بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہیی جہنم میں لے جائے گی۔ پھر فرماتے میں اور قیامت اتنی قریب ہیں جتنی یہ دو انگلیاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب قیامت کا ذکر کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک سرخ ہوجاتے آواز بلند ہوجاتی اور غصہ تیز ہوجاتا جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی لشکر کو ڈرا رہے ہوں کہ صبح یا شام کے وقت تم لوگوں کو لشکر لوٹ لے گا۔ جو شخص مال چھوڑ کر مرے گا وہ اس کے ورثاء کا ہے اور جو شخص قرض یا بچے چھوڑ کر مرے گا اس کا قرض اور بچوں کی پرورش کا میں ذمہ دار ہوں کیونکہ کہ میں مسلمانوں کا ولی ہوں۔
ضیف

ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی آگ کی طرف لے جاتی ہے ۔۔۔

اس طرح کے الفاظ میں صحیح حدیث پلیز دے دیں ۔۔۔۔جزاک اللہ
 

ابوطلحہ بابر

مشہور رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 03، 2013
پیغامات
674
ری ایکشن اسکور
843
پوائنٹ
195
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مکمل حدیث انہیں الفاظ کے ساتھ تو ابھی نہیں ملی البتہ حدیث مبارک کا کچھ حصہ بعض احادیث میں آیا ہے۔ جس میں سے کچھ یہ ہیں۔
اور جو شخص قرض یا بچے چھوڑ کر مرے گا اس کا قرض اور بچوں کی پرورش کا میں ذمہ دار ہوں
سنن ابوداود
كتاب الفرائض
وراثت کے احکام و مسائل
باب في ميراث ذوي الارحام
باب: ذوی الارحام کی وراثت کا بیان۔
حدیث نمبر : 2899
حدثنا حفص بن عمر، ‏‏‏‏حدثنا شعبة، ‏‏‏‏عن بديل، ‏‏‏‏عن علي بن ابي طلحة، ‏‏‏‏عن راشد بن سعد، ‏‏‏‏عن ابي عامر الهوزني عبد الله بن لحى، ‏‏‏‏عن المقدام، ‏‏‏‏قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "‏من ترك كلا فإلى "‏‏.‏ وربما قال "‏إلى الله وإلى رسوله "‏‏.‏ "‏ومن ترك مالا فلورثته وانا وارث من لا وارث له اعقل له وارثه والخال وارث من لا وارث له يعقل عنه ويرثه "‏‏.‏
سیدنا مقدام (مقدام بن معد یکرب) رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو کوئی قرضہ یا عیال و اطفال چھوڑ گیا تو وہ میرے ذمے ہیں، اور کبھی یوں بھی فرمایا، کہ اﷲ اور اس کے رسول کے ذمے ہیں۔ اور جو کوئی مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے۔ اور جس کا کوئی وارث نہ ہو میں اس کا وارث ہوں‘ اس کی طرف سے دیت ادا کروں گا اور اس کا وارث بنوں گا‘ اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی اور وارث نہ ہو‘ وہ اس کی طرف سے دیت ادا کرے گا اور اس کا وارث بھی بنے گا۔“
قال الشيخ الالباني: حسن صحيح

حدیث نمبر : 2900
حدثنا سليمان بن حرب، ‏‏‏‏- في آخرين - قالوا حدثنا حماد، ‏‏‏‏عن بديل، ‏‏‏‏- يعني ابن ميسرة - عن علي بن ابي طلحة، ‏‏‏‏عن راشد بن سعد، ‏‏‏‏عن ابي عامر الهوزني، ‏‏‏‏عن المقدام الكندي، ‏‏‏‏قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "‏انا اولى بكل مؤمن من نفسه فمن ترك دينا او ضيعة فإلى ومن ترك مالا فلورثته وانا مولى من لا مولى له ارث ماله وافك عانه والخال مولى من لا مولى له يرث ماله ويفك عانه "‏‏.‏ قال ابو داود رواه الزبيدي عن راشد بن سعد عن ابن عائذ عن المقدام ورواه معاوية بن صالح عن راشد قال سمعت المقدام ‏.‏ قال ابو داود يقول الضيعة معناه عيال ‏.‏
سیدنا مقدام (مقدام بن معد یکرب) کندی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں ہر مومن کے لیے اس کی اپنی ذات سے بھی قریب تر ہوں‘ جو شخص قرض یا چھوٹی اولاد چھوڑ جائے تو وہ میرے ذمے ہے اور جو کوئی مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے‘ میں اس کا ولی ہوں جس کا کوئی ولی نہ ہو‘ میں اس کے مال کا وارث بنوں گا اور اس کے قیدی چھڑاؤں گا۔ اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا اور کوئی وارث نہ ہو‘ وہ اس کے مال کا وارث ہو گا اور اس کا قیدی چھڑائے گا۔“ امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الضيعة» کے معنی ہیں عیال۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس روایت کو زبیدی نے «عن راشد بن سعد، عن ابن عائذ ، عن المقدام» کی سند سے روایت کیا۔ اور معاویہ بن صالح نے بواسطہ راشد اسے روایت کیا تو ( «عن» کے بجائے) «سمعت المقدام» یعنی میں نے مقدام سے سنا ہے‘ کہا۔
قال الشيخ الالباني: حسن صحيح

پھر فرماتے میں اور قیامت اتنی قریب ہیں جتنی یہ دو انگلیاں۔
صحیح بخاری
کتاب التفسیر
باب: سورۃ والنازعات کی تفسیر
حدیث نمبر : 4936
حدثنا أحمد بن المقدام: حدثنا الفضيل بن سليمان: حدثنا أبو حازم: حدثنا سهل بن سعد رضي الله عنه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بإصبعيه هكذا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ بالوسطى والتي تلي الإبهام: (بعثت أنا والساعة كهاتين). قال ابن عباس: {أغطش} /29/: أظلم. {الطامة} /34/: تطم كل شيء.
ہم سے احمد بن مقدام نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ابوحازم نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہا آپ اپنی بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کے قریب والی انگلی کے اشارے سے فرما رہے تھے کہ میں ایسے وقت میں مبعوث ہوا ہوں کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف ان دو کے برابر فاصلہ ہے۔

حدیث نمبر : 6505
حدثني يحيى بن يوسف،‏‏‏‏ أخبرنا أبو بكر،‏‏‏‏ عن أبي حصين،‏‏‏‏ عن أبي صالح،‏‏‏‏ عن أبي هريرة،‏‏‏‏ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ بعثت أنا والساعة كهاتين ‏"‏‏.‏ يعني إصبعين‏.‏ تابعه إسرائيل عن أبي حصين‏.‏
مجھ سے یحییٰ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو ابوبکر بن عیاش نے خبر دی ، انہیں ابو حصین نے ، انہیں ابوصالح نے ، انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اور قیامت ان دوکی طرح بھیجے گئے ہیں۔ آپ کی مراد دو انگلیوں سے تھی۔ ابوبکر بن عیاش کے ساتھ اس حدیث کو اسرائیل نے بھی ابو حصین سے روایت کیا ہے۔
 

ابوطلحہ بابر

مشہور رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 03، 2013
پیغامات
674
ری ایکشن اسکور
843
پوائنٹ
195
ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی آگ کی طرف لے جاتی ہے ۔۔۔
سنن ابوداود
كتاب السنة
سنتوں کا بیان
باب في لزوم السنة
باب: سنت کا اتباع واجب ہے۔
حدیث نمبر : 4607
حدثنا احمد بن حنبل، ‏‏‏‏حدثنا الوليد بن مسلم، ‏‏‏‏حدثنا ثور بن يزيد، ‏‏‏‏قال حدثني خالد بن معدان، ‏‏‏‏قال حدثني عبد الرحمن بن عمرو السلمي، ‏‏‏‏وحجر بن حجر، ‏‏‏‏قالا اتينا العرباض بن سارية وهو ممن نزل فيه ‏‏‏‏{ولا على الذين إذا ما اتوك لتحملهم قلت لا اجد ما احملكم عليه ‏}‏ فسلمنا وقلنا اتيناك زائرين وعائدين ومقتبسين ‏.‏ فقال العرباض صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم ثم اقبل علينا فوعظنا موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب فقال قائل يا رسول الله كان هذه موعظة مودع فماذا تعهد إلينا فقال "‏اوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن عبدا حبشيا فإنه من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياكم ومحدثات الامور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة "‏‏.‏
جناب عبدالرحمٰن بن عمرو سلمی اور حجر بن حجر کا بیان ہے کہ ہم سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تھی «ولا على الذين إذا ما اتوك لتحملهم قلت لا اجد ما احملكم عليه» ”ان لوگوں پر کوئی گناہ نہیں کہ جب وہ آپ کے پاس آئے کہ آپ انہیں سواری دیں، آپ نے کہا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں، تو وہ اس حال میں لوٹ گئے کہ ان کی آنکھیں، اس غم سے آنسو بہا رہی تھیں کہ انہیں کچھ میسر نہیں جسے وہ خرچ کریں۔“ ہم نے انہیں سلام کیا اور عرض کیا: ہم آپ سے ملنے کے لیے آئے ہیں اور یہ کہ آپ کی عیادت ہو جائے اور کوئی علمی فائدہ بھی حاصل کر لیں، تو سیدنا عرباض رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دن نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف منہ کر لیا اور وعظ فرمایا، بڑا ہی بلیغ اور جامع وعظ، ایسا کہ اس سے ہماری آنکھیں بہہ پڑیں اور دل دہل گئے۔ ایک کہنے والے نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تو گویا الوداعی وعظ تھا، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ فرمایا ”میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کیے رہنا اور اپنے حکام کے احکام سننا اور ماننا، خواہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ بلاشبہ تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہا وہ بہت اختلاف دیکھے گا، چنانچہ ان حالات میں میری سنت اور میرے خلفاء کی سنت اپنائے رکھنا، خلفاء جو اصحاب رشد و ہدایت ہیں، سنت کو خوب مضبوطی سے تھامنا، بلکہ ڈاڑھوں سے پکڑے رہنا، نئی نئی بدعات و اختراعات سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا، بلاشبہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
قال الشيخ الالباني: صحيح

من يهده الله فلا مضل له ومن يضلله فلا هادي له
سنن ابوداود
كتاب النكاح
نکاح کے احکام و مسائل
باب في خطبة النكاح
باب: خطبہ نکاح کے احکام و مسائل۔
حدیث نمبر : 2118
حدثنا محمد بن كثير، ‏‏‏‏اخبرنا سفيان، ‏‏‏‏عن ابي إسحاق، ‏‏‏‏عن ابي عبيدة، ‏‏‏‏عن عبد الله بن مسعود، ‏‏‏‏في خطبة الحاجة في النكاح وغيره ح وحدثنا محمد بن سليمان الانباري - المعنى حدثنا وكيع عن إسرائيل عن ابي إسحاق عن ابي الاحوص وابي عبيدة عن عبد الله قال علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبة الحاجة "‏إن الحمد لله نستعينه ونستغفره ونعوذ به من شرور انفسنا من يهد الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له واشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله يا ايها الذين آمنوا ‏‏‏‏{اتقوا الله الذي تساءلون به والارحام إن الله كان عليكم رقيبا ‏}‏ ‏‏‏‏{يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وانتم مسلمون ‏}‏ ‏‏‏‏{يا ايها الذين آمنوا اتقوا الله وقولوا قولا سديدا * يصلح لكم اعمالكم ويغفر لكم ذنوبكم ومن يطع الله ورسوله فقد فاز فوزا عظيما ‏}‏ ‏.‏ لم يقل محمد بن سليمان إن ‏.‏
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ حاجت تعلیم فرمایا وہ یہ کہ «إن الحمد لله نستعينه ونستغفره ونعوذ به من شرور انفسنا من يهد الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له واشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله» ”تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں۔ اور (اپنے گناہوں کی) معافی چاہتے ہیں اور اپنے نفسوں کی شرارتوں سے اس کی پناہ چاہتے ہیں۔ جسے وہ راہ حق سجھا دے کوئی اسے گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کے لیے کوئی راہنما نہیں ہو سکتا۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عزوجل کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“ ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس کے واسطے سے تم سوال کرتے ہو، اور رشتے ناتے (توڑنے) سے بچو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔“ ”اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اس سے ڈرو جیسے کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم پر موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔“ ”اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور بات ہمیشہ صاف سیدھی کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال درست فرما دے گا، تمہاری خطائیں معاف کر دے گا، اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر لی بلاشبہ وہ عظیم کامیابی سے ہمکنار ہوا۔“ امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ محمد بن سلیمان نے (شروع روایت میں) لفظ «ان» ذکر نہیں کیا۔
قال الشيخ الالباني: صحيح

أصدق الحديث کتاب الله وأحسن الهدي هدي محمد وشر الأمور محدثاتها
صحیح بخاری
کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا
حدیث نمبر : 7277
حدثنا آدم بن أبي إياس،‏‏‏‏ حدثنا شعبة،‏‏‏‏ أخبرنا عمرو بن مرة،‏‏‏‏ سمعت مرة الهمداني،‏‏‏‏ يقول قال عبد الله إن أحسن الحديث كتاب الله،‏‏‏‏ وأحسن الهدى هدى محمد صلى الله عليه وسلم،‏‏‏‏ وشر الأمور محدثاتها،‏‏‏‏ وإن ما توعدون لآت،‏‏‏‏ وما أنتم بمعجزين‏.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عمرو بن مرہ نے خبر دی ‘ کہا میں نے مرۃ الہمدانی سے سنا ‘ بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا ‘ سب سے اچھی بات کتاب اللہ اور سب سے اچھا طریقہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور سب سے بری نئی بات (بدعت) پیدا کرنا ہے (دین میں) اور بلاشبہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ آ کر رہے گی اور تم پر وردگار سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
لیکن بھائی میں نے تو بدعت کے مطالق پوچھا ہے کہ ۔۔۔۔

کہ بدعت گمراہی ہے ،اور گمراہی آگ کی طرف لے جاتی ہے۔۔۔

ہاں گمراہی کا بحی ہے پر آگ کی طرف لے جانے والی حدیث مجھے نہیں مل رہی پلیز ۔۔۔ وہ دیں
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلاَ لَۃٌ وَّ کُلُّ ضَلاَ لَۃٍ فِی النّار
یعنی ہر بدعت [SUP](نئی بات)[/SUP] گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنّم میں [SUP](لے جانے والی)[/SUP] ہے۔
[SUP](سُنَنُ النَّسائی ج۲ ص۱۸۹)[/SUP]
 
Top