اسحاق بھائی سنن ترمذی کی جو حدیث آپ نے بیان کی اس کی وضاحت کر دیں اس میں مغرب میں دروازہ سے کیا مراد ہے؟
انسانی اعمال آسمان کی طرف چڑھتے ہیں
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
(مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ) سورہ فاطر 10
جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ ہی کی ساری عزت ہے، تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے "
اور ان اعمال کےاوپر چڑھنے کیلئے آسمان میں دروازے ہیں :
إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ (سورۃ الاعراف 40 )
ترجمہ :
جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وه لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جائے "
اس آیت سے واضح ہے کہ آسمان میں کچھ دروازے ہیں ،
ان میں ایک دروازہ توبہ کا بھی ہے ،جو مغرب کی طرف ہے اور جب تک سورج مغرب کی طرف سے طلوع نہ ہو یہ دروازہ کھلا ہے ، اور توبی قبول ہوتی ہے
حدیث شریف میں ہے :
وَعَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى جَعَلَ بِالْمَغْرِبِ بَابًا، عَرْضُهُ مَسِيرَةُ سَبْعِينَ عَامًا لِلتَّوْبَةِ، لَا يُغْلَقُ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ مِنْ قِبَلِهِ، وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ} [الأنعام: 158] » . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ مَاجَهْ.
(مشکوۃ شریف باب الاستغفار و التوبہ )
صفوان بن عسال (رضی اللہ عنہ) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مغرب کی جانب ایک دروازہ بنایا ہے جو توبہ کے لئے ہے اور جس کا عرض ستر سال کی مسافت کے بقدر ہے اور یہ دروازہ اس وقت تک بند نہیں کیا جائے گا جب تک کہ آفتاب مغرب کی سمت سے نکلے یعنی مغرب کی سمت سے آفتاب کا نکلنا قبولیت توبہ کا مانع ہے ،
اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کہ اس دن آویں گی بعض نشانیاں تیرے پروردگار کی نہیں نفع دے گا کسی ایسی جان کو ایمان لانا جو پہلے سے ایمان نہیں لائی تھی کا یہی مطلب ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
تشریح " جو توبہ کے لئے ہے" کا مطلب یہ ہے کہ توبہ کرنے والون کے لئے کھلا ہوا ہے یا یہ کہ وہ توبہ کے صحیح ہونے اور توبہ کے قبول ہونے کی علامت ہے ! حاصل یہ کہ جب آفتاب مغرب کی جانب سے نہیں نکلتا لوگوں کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے جس کا جی چاہے اپنے شرک و کفر سے توبہ کرے اور جس کا جی چاہے اپنے گناہوں سے توبہ کر کے اس دروازہ کے ذریعہ آخرت کی ابدی راحتوں اور سعادتوں کا مستحق ہوجائے۔ جب مغرب کی سمت سے آفتاب نکلے گا تو توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا حدیث میں جس آیت کریمہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ پوری یوں ہے۔۔
آیت
(يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِيْ اِيْمَانِهَا خَيْرًا) 6۔ الانعام : 158)۔ اس دن آویں گی بعض نشانیاں تیرے پروردگار کی (یعنی قرب قیامت پروردگار بعض نشانیاں ظاہر کرے گا ان ہی میں سے ایک نشائی یہ ہے کہ ایک دن آفتاب مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا اس دن نہیں نفع دے گا کسی ایسی جان کو ایمان لانا جو پہلے سے (یعنی پروردگار کی نشانی ظاہر ہونے سے پہلے) ایمان لائی تھی اور اس جان کو کہ جس نے حالت ایمان بھلائی (یعنی توبہ) نہیں کی تھی (اس دن اس کی توبہ اس کو کوئی نفع نہیں دے گی)۔ اس آیت کا حاصل یہی ہے کہ جس دن آفتاب مغرب کی سمت سے طلوع ہوگا تو جو شخص اس سے پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا یا ایمان پر تو ہوگا مگر توبہ نہیں کی ہوگی اب نہ اس کا ایمان نفع پہنچائے گا نہ اس کی توبہ کوئی فائدہ پہنچائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔