• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’اہل اشراق‘ کے قراء اتِ قرآنیہ پر حالیہ اِعتراضات

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
’اہل اشراق‘ کے قراء اتِ قرآنیہ پر حالیہ اِعتراضات


مضمون نگار:عمران اسلم٭

’الاشراق‘ کے اکتوبر ۲۰۰۹ء کے شمارہ میں غامدی صاحب کے خوشہ چیں محمد رفیع مفتی صاحب نے قراء اتِ قرآنیہ سے متعلق فتویٰ دیتے ہوئے اپنی بعض نگارشات کا اِظہار کیا ہے، جس کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں :

  • قراء توں کے رد و قبول کا کوئی منصوص معیار موجود نہیں ہے۔
  • بعض قراء توں سے معنی ومفہوم میں فرق واقع ہوجاتا ہے، بلکہ بعض جگہ شریعت کا حکم بھی بدل جاتا ہے۔
  • تمام لوگ قراء تِ عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے رہے ہیں اور یہ وہی قراء ت ہے جو عرضۂ اَخیرہ میں پڑھی گئی۔
ان اِعتراضات کی حقیقت کیا ہے، بالترتیب ان کا جائزہ لیتے ہیں ۔
موصوف مفتی صاحب رقمطراز ہیں :

قراء توں کے ردّ وقبول کا کوئی منصوص معیار موجود نہیں ہے، بس اہل فن نے مل کر کچھ شرائط طے کر دی ہیں جن پر پورا اترنے والی قراء ت کو قبول کیا جاتا اور باقی کو رد کر دیا جاتا ہے۔ یہ شرائط درج ذیل ہیں :

  1. قراء ت مصحف عثمانی کے رسم الخط کے مطابق ہو۔
  2. لغت، محاورے اور قواعد زبان کے خلاف نہ ہو۔
  3. اس کی سند معتبر اور مسلسل واسطے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہو۔
سب سے پہلے تو ہم اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ مفتی صاحب نے اپنے پورے فتویٰ میں بارہا لفظ قراء ت کو ’قرأت‘ لکھا ہے، حالانکہ اس سے قبل محترم حافظ زبیر صاحب اپنے مضمون میں غامدی صاحب کی اس غلطی کی جانب توجہ دلا چکے ہیں ۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ جس جگہ پر قراء ت کی جمع ’قراء ات‘ استعمال ہونی چاہیے تھی وہاں بھی ’قرأت‘ ہی سے کام چلایا گیا ہے۔ لیکن ذخیرۂ اَحادیث کے بعد لغت کی کتابوں کو کھنگالنے کے بعد بھی جس طرح ہم غامدی صاحب کے فرمان کہ ’امت میں یہ نقطۂ نظر بھی موجود ہے کہ قرآن کریم کی قراء ت صرف ایک ہے‘ میں حلقۂ اِشراق کے علاوہ کسی دوسرے شخص کا ایسا نقطۂ نظر تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے، یہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہوا۔مفتی صاحب کے لفظ ’قرأت‘ پر اِصرار کی وجہ ہم تو یہی سمجھ پائے ہیں کہ وہ لفظ’ قراء ت‘ کا استعمال کر کے اپنے ’روحانی پیشوا‘ جاوید احمد غامدی صاحب کی شان میں گستاخی نہیں کرنا چاہ رہے تھے، جو اپنی کتاب ’میزان‘ میں اسے ’قرأت‘ درج کر چکے ہیں ، اورسادہ سی بات ہے کہ جب غامدی صاحب کی اندھا دھند تقلید میں اُمت کے معتد بہ طبقے کو صرف ایک ’قراء ت‘ کا قائل قرار دیا جا سکتا ہے تو اس قدر معمولی’ غلطی‘ دہرانے میں کیا مضائقہ ہے۔

جناب مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ قراء توں کے ردّ وقبول کا کوئی منصوص معیار موجود نہیں ہے بس اہلِ فن نے مل کر کچھ شرائط طے کر دی ہیں ۔ اس سلسلے میں ہم عرض کرتے چلیں کہ وہ تمام قراء ات جو ہم تک پہنچی ہیں وہ کسی منصوص معیار کے بجائے اہلِ فن کے مقرر کردہ انہی قواعد کی رو سے پہنچی ہیں ،جن میں غامدی صاحب کی اِختیار کر دہ ’قراء ت حفص‘جو اصل میں روایتِ حفص ہے، بھی شامل ہے۔ اگر روایتِ حفص ان قواعد سے ہٹ کر کسی منصوص معیار کے مطابق اہلِ اشراق تک پہنچی ہے تو ضرور آگاہ کریں تاکہ پوری اُمت اپنے اختیار کردہ مؤقف پر نظر ثانی کر سکے۔

ہم ان قواعد سے متعلق کسی قسم کی بحث سے قبل اس قدر وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ ان قواعد کو مقرر کرنے کی ضرورت کیونکر پیش آئی اور صرف انہی قواعد پر پورا اترنے والی قراء ت ہی کو قبولیت کیوں حاصل ہوئی۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب مختلف قراء ات سے متعلق فتنہ و فساد رونما ہونے لگا اور ایک دوسرے کی تکفیر کی جانے لگی تو انہوں نے اُمت کو فتنہ اور اِختلاف سے بچانے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اِجماع سے تمام وہ قراء ات جو عرضۂ اَخیرہ میں منسوخ کر دی گئی تھیں یا وہ تفسیری کلمات جو بعض صحابہ نے اپنے اپنے مصاحف میں بطور حواشی درج کر رکھے تھے،کو ان تمام سے الگ کر دیا۔ پھر یہ مصاحف ماہرینِ قراء ات کی معیت میں مختلف علاقوں میں بھیج دئیے گئے اور باقی تمام مصاحف کو تلف کرنے کا حکم دے کر اس فتنہ کا دروازہ بند کر دیاگیا۔

اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تابعین رحمہم اللہ کا ایک جم غفیر جب ان قراء ات کو سیکھ کر اپنے علاقوں میں پہنچا تو ان سے سیکھنے والے ظاہر ہے کہ عدل وثقاہت اور حفظ واتقان میں ایک جیسے نہیں تھے۔ بعض جو عدالت وحفظ کے اس معیار پر نہ تھے، انہوں نے بعض قراء اتِ شاذہ اور ضعیفہ کو قرآن سے ملانا شروع کر دیا، بعض نے اِجماعِ امت سے ہٹ کر اپنے اپنے معیارات مقرر کر لیے ۔چنانچہ ایک دفعہ پھر امت میں اختلافات کا خطرہ پیدا ہوا تو ائمہ عظام کی جانب سے قرآنِ کریم کو غیرِ قرآن سے الگ کرنے کے لیے گہرے غور وخوض اور دقت نظری کے بعد چنداصولی ضوابط اور معیارات مقرر کر دئیے گئے۔پوری امت انہی اصولوں پر اعتماد کا اظہار کرتی رہی ہے اور انہی کو قراء ات کے رد وقبول کا معیار قرار دیتی رہی ہے۔ امام جزری رحمہ اللہ ان تین شرائط کے متعلق فرماتے ہیں :

’’اس اصول کے مطابق جو بھی قراء ت ہوگی وہ قراء تِ صحیحہ اور ان حروف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن نازل ہوا، مسلمانوں پر اس کو قبول کرنا واجب ہے اور اگر تینوں شرائط میں سے کسی ایک شرط میں خلل آ جائے تو وہ قراء ت شاذہ، ضعیف یا باطل ہوگی۔‘‘ [النشر: ۲؍۹]
ایک جگہ پر فرماتے ہیں :
’’ہر وہ قراء ت جو عربی( نحوی) وجہ کے موافق ہو، رسم مصحف کے مطابق ہو( خواہ یہ مطابقت تقدیری ہو) اور اس کی سند صحیح ہو تو وہ قراء ت صحیح ہوگی۔ اس کو رد کرنا جائز نہیں ہوگا۔‘‘ [منجد المقرئین: ۱۵]
ان تین قواعد کی مختصر وضاحت پیش خدمت ہے:

سند متواتر
کسی قراء ت کے صحیح ہونے کے لیے اولین معیار یہ ہے کہ شروع سے لے کر آخر تک متواتر ہو۔ جو قراء ت سنداً اس معیار پر پوری نہ اترے اسے قرآن نہیں کہا جا سکتا ، ہمارے ہاں تواتر کا وہی مفہوم درست ہے جو کہ جمہور اہل الحدیث کے ہاں معروف ہے یعنی ’ما أفاد القطع فہو متواتر‘ (اس ضمن میں تفصیلی بحث کے لیے رشد قراءات نمبر حصہ اول میں مضمون ’تواتر کا مفہوم اور ثبوت قراء ات کا ضابطہ‘ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے نیز اس شمارہ میں مکتوب بنام حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ میں بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔)

مصحف عثمانی کے رسم کی موافقت
وہ مصاحفِ عثمانیہ میں سے کسی ایک کے رسم کے موافق ہو۔ یہ موافقت حقیقی بھی ہوسکتی ہے اور تقدیری بھی۔ مصحفِ عثمانی کے رسم کی اس قدر اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مہاجرین وانصار کے مشورہ سے جب تمام اُمت کو ایک رسم پر جمع کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے اس بات کو ملحوظ رکھا کہ مصاحف کا رسم ان تمام حروف پر مشتمل ہو جو عرضۂ اَخیرہ کے وقت باقی رکھے گئے تھے۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھئے کہ سورۃ فاتحہ کی آیت { مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ }[الفاتحۃ:۳] میں [مٰلِکِ] کو[مَلِکِ ]اور [مٰلِکِ ]دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور یہ دونوں قراء ات ، متواترہ ہیں ، روایتِ حفص میں اسے [مٰلِکِ] میم پر کھڑا زبر اور روایت ورش میں [مَلِکِ] میم پر زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ لیکن جس مقام میں اختلاف قراء ت کے متعلق متواتر سند نہ ہو وہاں رسم الخط میں گنجائش کے باوجود دوسری قراء ت پڑھنا ناجائز اور حرام ہے مثلاً سورۃ الناس کی دوسری آیت رسم عثمانی کے مطابق اس طرح ہے، {مَلِکِ النَّاسِ} [الناس:۲] اس مقام پر تمام قراء مَلِکِ النَّاسِ ہی پڑھتے ہیں اسے کوئی بھی مٰلِکِ النَّاسِ نہیں پڑھتا، کیونکہ یہاں اختلافِ قراء ت منقول نہیں ہے۔

ابوبکر الانباری فرماتے ہیں :
اجتمع القراء علی ترک کل قراء ۃ مخالف المصحف۔ [البحر المحیط:۷؍۶۰]
’’تمام ائمہ قراء کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہر وہ قراء ۃ متروک(شاذ) قرار پائے گی جو رسم عثمانی کے مخالف ہوگی۔‘‘
لغتِ عرب کی کسی وجہ کی موافقت
اس شرط کو دوسری دونوں شروط کا لوازمہ قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کا مقصود یہ ہے کہ ہر وہ قراء ت جو متواتر سند کے ساتھ منقول ہو مصحف عثمانی کے خط کے بھی موافق ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ لغتِ عرب میں بھی اس کی کوئی وجہ موجود ہو، اگرچہ وہ زیادہ معروف نہ بھی ہو۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
یاد رہے کہ قرآن کریم کی ایسی کسی قراء ت کا وجود نہیں ہے جو متواتر ہو اور رسم عثمانی کے بھی موافق ہو لیکن لغت عرب میں اس کی کوئی وجہ موجود نہ ہو۔ اور اگر فرض کر بھی لیا جائے کہ ایک ایسی ثابت شدہ متواتر قراء ت جس میں بقیہ دونوں شروط تو پائی جا رہی ہیں لیکن لغت عرب میں اس کی کوئی وجہ نہ مل رہی ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ پوری لغت عرب میں اس کا وجود نہیں ہے، یہ بات قطعی ہے کہ ہر وہ قراء ت جو تواتر کے ساتھ منقول ہو اور مصحف عثمانی کے موافق ہو وہ نازل کردہ قرآن ہے۔ یہ ایک ایسی قطعی دلیل ہے جو وجود لغت کا پتہ دے رہی ہے اور جس کے ثبوت میں کوئی بحث نہیں ہے۔

  • ابو عمرو دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ائمہ قراء حروف قرآن کے سلسلہ میں اس بات پر اعتماد نہیں کرتے کہ وہ لفظ لغوی لحاظ سے عام مستعمل یا عربی قاعدہ کے زیادہ مطابق ہے بلکہ اس پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ حروف نقل وروایت کے اعتبار سے صحیح ترین اور ثبوت کے اعلیٰ معیار پر ہو، کیونکہ قراء ت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ائمہ تک کے سلسلہ تواتر (قطعیت) کی اتباع کی جا ئے گی اور اس کی طرف لوٹنا اور اسے قبول کرنا ضروری ہے۔ [جامع البیان في القراء ات السبع:ق۱۷۷؍ب]
  • کسی بھی قراء ت کو قبول کرنے کے لیے یہ وہ معیار اور کسوٹی ہے جو ائمہ کرام نے مقرر کیا ہے۔ جس قراء ت میں ان تین ارکان میں سے کوئی ایک بھی ناپید ہوگا اسے شاذ قرار دیا جائے گا۔ ان تین شروط کی جانچ پرکھ کے ساتھ اس خیال کی شدت کے ساتھ نفی کی جاسکتی ہے کہ امت میں کوئی ایسی قراء ت عام ہو جائے جو بطور تفسیر نقل کی گئی تھی یا عرضۂ اَخیرہ میں منسوخ کر دی گئی تھی۔
  • مفتی صاحب مزیدلکھتے ہیں :
’’مختلف قراء توں کے اس تصور کو قبول کرنے کے بعد یہ خیال غلط قرار پاتا ہے کہ خدا کی طرف سے نازل ہونے والے قرآن کے الفاظ میں ایک زیر، زبر اور ایک شوشے کا بھی فرق نہیں ہے اور مزید یہ کہ بعض قراء توں میں معنی و مفہوم میں بھی فرق واقع ہوجاتا ہے، بلکہ بعض جگہ شریعت کا حکم بھی بدل جاتا ہے۔‘‘
جناب مفتی صاحب نے بڑی شدو مد کے ساتھ یہ تو دعویٰ کردیا ہے کہ قراء ات کے بدلنے سے معنی ومفہوم اور شریعت کا حکم بدل جاتا ہے لیکن اس کے لیے کسی ایک بھی قراء ت کو بطور دلیل نقل کرنا گوارا نہیں کیا۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ کسی بھی ایسی متواتر، حتیٰ کہ شاذ قراء ت کا بھی وجود نہیں ہے جس سے شریعت کا حکم بدل جاتا ہو۔ امت کے ہر دور میں اَحکام فقہ اور قواعد نحو میں مختلف قراء اتِ قرآنیہ سے بھرپور مدد لی گئی ہے، قرآن کریم کی تفسیر کے سلسلہ میں تو قرائات کو ایک اَہم ماخذ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اور اس بات پر اِجماع نقل کیا گیا ہے کہ ہر ایک قراء ت کو مستقل آیت شمار کیا جائے گا اور اگر ان کے مابین تعارض ہوتا ہے تو ان کا تعارض بالکل اسی طرح حل کیا جا ئے گا جیسا کہ دو آیات کا کیا جاتا ہے۔ اَحکام القرآن للجصاص میں ہے:

وہاتان القرائتان قد نزل بہما القرآن جمیعا ونقلتہما الأمۃ تلقیا من رسول اﷲ ﷺ۔
’’یہ دونوں قراء تیں ایسی ہیں کہ قرآن ان دونوں کے ساتھ نازل ہوا ہے اور امت نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا ہے۔‘‘ [احکام القرآن للجصّاص:۲؍۳۲۵]
  • علامہ قنوجی لکھتے ہیں :
وقد تقرّر أن القرائتین بمنزلۃ الآیتین فکما أنہ یجب الجمع بین الآیتین المشتملۃ إحداہما علی زیادۃ بالعمل بتلک الزیادۃ، کذلک یجب الجمع بین القرائتین۔ [نیل المرام:۳۵]
’’یہ بات ثابت شدہ ہے کہ دو قراء تیں دو آیتوں کی طرح ہیں ، تو جس طرح ایسی دو آیتوں کے درمیان تطبیق کرنا ضروری ہے، جن میں سے ایک آیت کسی زائد معنی پر مشتمل ہو، اسی طرح دو قراء توں میں بھی جمع وتطبیق واجب ہے۔‘‘
  • علامہ سیوطی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
وتعارض القرائتین بمنزلۃ تعارض الآیتین۔ [الإتقان:۲؍۳۰]
’’دو قراء توں کا تعارض دو آیتوں کے تعارض کی طرح ہے۔‘‘
  • تفسیر روح المعانی میں ہے:
ومن القواعد الأصولیۃ عند الطائفتین أن القرائتین المتواترتین إذا تعارضتا في آیۃ واحدۃ فلہما حکم آیتین۔[۶؍۶۶]
’’اصولی قواعد میں سے ایک یہ ہے (دونوں طائفوں کے نزدیک) کہ متواتر قراء تیں جب ایک آیت میں متعارض ہو جائیں تو ان کا حکم دوآیتوں کی طرح ہے۔‘‘
مزید برآں قرآن کریم کا متنوع حروف پر نازل ہونا اُمت محمدیہ کے فضائل وخصائص میں سے ہے، کیونکہ پہلی کتبِ سماویہ ایک حرف پر نازل ہوئیں اور وہ امتیں ان کتب کو صرف ایک ہی حرف پر پڑھ سکتی تھیں اور ان متعدد اَحرف سے جہاں قرآن کریم کی تلاوت میں آسانی مقصود تھی وہاں ان میں بہت سے فوائد اور حکمتیں بھی پنہاں تھیں ۔

تمام قراء ات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں ۔ قراء ات کا تعدد تحریف وتغییر کا نتیجہ ہے اور نہ ہی ان سے معانی میں التباس ،تناقض یا تضاد پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ بعض قراء ات بعض قراء ات کے معانی کی تصدیق کرتی ہیں ۔
بعض قراء ات سے متنوع معانی سامنے آتے ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک معنی مقاصد شریعت اور بندوں کی مصلحتوں میں سے کسی مصلحت کو محقق کرنے والے حکم پر دلالت کرتا ہے۔
ایسی قراء ات میں سے ایک ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{ وَکُلَّ اِنْسٰنٍ أَلْزَمْنٰہُ طٰٓپرَہُ فِیْ عُنِقِہٖ۱ وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰباً یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا } [الاسرائ:۱۳]
اس آیت مبارکہ میں لفظ یَلْقٰہُ‘ میں دو قراء ات ہیں ۔
  • یَلْقٰہُ‘ (بفتح الیاء والقاف مخففۃ)اس قراء ت کی صورت میں اس آیتِ مبارکہ کا معنی ہوگا کہ ہم روزِ قیامت انسان کے لئے ایک کتاب نکالیں گے جو اس کے اعمال کا صحیفہ ہوگا اور وہ آدمی اس صحیفے کے پاس اس حال میں پہنچے گا کہ وہ مفتوح (کھلا ہوا) ہو گا۔ اگر وہ شخص جنتی ہو گا تو اسے اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑے گا اور اگر جہنمی ہوگا تو اسے اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑے گا۔
  • یُلَقّٰہُ‘ (بضم الیاء وتشدید القاف) اس قراء ات کی صورت میں اس آیت مبارکہ کا معنی ہوگا کہ ہم روزِ قیامت انسان کے لئے ایک کتاب نکالیں گے جو اس کے اعمال کا صحیفہ ہوگا اوروہ کتاب انسان کو اس حال میں دی جائے گی کہ وہ مفتوح (کھلی ہوئی) ہوگی۔
مذکورہ دونوں قراء ات کے معانی معمولی سے فرق سے واضح ہوتا ہے کہ بالآخر دونوں کا ایک ہی معنی ہے، کیونکہ کتاب کے پاس جانا یا کتاب کادیا جانا ایک ہی شے ہے۔ اور دونوں صورتوں میں ہی وہ کتاب مفتوح (کھلی ہوئی) ہوگی۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
{فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۔ فَزَادَہُمُ اﷲُ مَرَضاً ۵ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ۔ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ } [ البقرۃ:۱۰]
اس آیتِ مبارکہ میں لفظ’ یَکْذِبُوْنَ‘ میں دو قراء اتیں ہیں ۔
  • یَکْذِبُوْنَ‘ (بفتح الیاء وسکون الکاف وکسر الذال) اس قراء ات کی صورت میں اس کا معنی ہو گا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور مومنوں کی طرف سے جھوٹی خبریں دیتے ہیں ۔
  • یُکَذِّبُوْنَ‘بضم الیاء وفتح الکاف وتشدید الذال المکسورۃ) اس قراء ات کی صورت میں اس کا معنی ہوگا کہ وہ رسولوں اور ان کی لائی ہوئی شریعت کو جھٹلاتے ہیں ۔
مذکورہ دونوں قراء ات کے معنی میں نہ تو تناقض ہے اور نہ ہی تضاد ہے بلکہ دونوں قراء ات میں سے ہر ایک نے منافقین کے اَوصاف میں سے ایک ایک وصف بیان کیا ہے۔
پہلا وصف: وہ اللہ تعالی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں کی خبروں میں جھوٹ بولتے ہیں ۔
دوسرا وصف: وہ اللہ تعالی کی طرف سے رسولوں کی دی گئی شریعت کو جھٹلاتے ہیں ۔
اورمنافقین کے بارے میں یہ دونوں صفات ہی برحق ہیں ۔ کیونکہ انہوں نے ان دونوں صفات(کذب اور تکذیب) کو ہی اپنے اَندر جمع کر لیا تھا۔

اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعددِ قراء ات اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی حکمت کی بناء پر ہے۔ تحریف وتغیر کا نتیجہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی قراء ات سے معانی میں التباس، تناقض یا تضاد پیدا ہوتا ہے ، بلکہ بعض قراء ات بعض قراء ات کی تصدیق کرتی ہیں ۔

مفتی صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ تمام لوگ قراء تِ عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے رہے ہیں اور یہ وہی قراء ت ہے جو عرضۂ اَخیرہ میں پڑھی گئی۔ اور زرکشی رحمہ اللہ کے حوالے سے ابو عبدالرحمن السلمی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے :
’’ابو بکر وعمر، عثمان، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور تمام مہاجرین وانصار کی قراء ت ایک ہی تھی۔ وہ قراء تِ عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے تھے۔ یہ وہی قراء ت ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے سال جبریلِ اَمین علیہ السلام کو دو مرتبہ قرآن سنایا۔ عرضۂ اَخیرہ کی اس قراء ت میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ دنیا سے رخصت ہونے تک وہ لوگوں کو اسی کے مطابق قرآن پڑھاتے تھے۔‘‘ [الاتقان فی علوم القرآن:۱؍۳۳۱]

حلقۂ اِشراق کی طرف سے پیش کی جانے والی قراء تِ عامہ کی دلیل اور زرکشی رحمہ اللہ کے حوالے سے ابو عبدالرحمن السلمی کے قول کی حقیقت تو حافظ زبیر صاحب اپنے مضمون’قراء تِ متواترہ … غامدی مؤقف کا تجزیہ‘ میں واضح کر چکے ہیں ۔ ہم ’شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘ کے مصداق مکرر عرض کیے دیتے ہیں ۔

غامدی صاحب قرآن کو ثابت کرنے چلے ہیں اور اس کے ثبوت کی دلیل کے طور پر اُن کے پاس اگر کچھ ہے تو وہ ایک تابعی کاقول ہے کہ جس کی کوئی سند بھی موجود نہیں ہے۔امام زرکشی رحمہ اللہ نے ’البرھان‘ میں اس قول کی کوئی سند بیان نہیں فرمائی ہے۔اگر توایک تابعی کایہ قول ایک سے زائد قراءات کے اِنکار پر مبنی ہے جیسا کہ غامدی صاحب کا گمان ہے تو تابعی کے ایک ایسے قول کو، کہ جس کی سند بھی موجود نہ ہو، صحاح ستہ کی قراء ا ت متواترہ کے ثبوت میں موجود صحیح، مستند ، مرفوع اور اُمت میں معروف و مقبول روایات پر ترجیح دینا، ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ۔

امام قراء ت، امام اَبو عبد الرحمن سلمی رحمہ اللہ کی طرف اس قول کی نسبت کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے توپھر بھی اس کا معنی و مفہوم وہ نہیں ہے جو کہ غامدی صاحب سمجھ رہے ہیں ۔امام زرکشی رحمہ اللہ نے جب اس قول کو اپنی کتاب البرھان میں بیان کیا ہے تو انہیں تو وہ بات سمجھ میں نہ آئی جو کہ غامدی صاحب اِس قول سے نکال رہے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض روایات میں ’قرا ء تِ عامہ‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں :

عن عبد اﷲ بن مسعود أن رسول اﷲ ﷺ قرأ { فَھَلْ مِن مُّدَّکِرٍ } [القمر:۱۷] مثل القراء ۃ العامۃ۔ [ صحیح البخاري، کتاب الأنبیاء، حدیث: ۳۳۴۱]
’’عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے{ فَھَلْ مِن مُّدَّکِرٍ }کو قراء تِ عامہ کے مطابق پڑھاہے۔‘‘
جامعہ دمشق کے استاذ الحدیث ڈاکٹر مصطفی دیب البغا، اس روایت کی تشریح میں لکھتے ہیں :
قرائۃ العامۃ أي القرائۃ المشھورۃ التي یقرأ بھا عامۃ القراء الذین رووا القرائات المتواترۃ۔[صحیح البخاري: ۳؍۱۲۱۶، دار ابن کثیر الیمامۃ، بیروت ]
’’قرا ء اتِ عامہ سے مرادوہ مشہور قراء ت ہے کہ جس کے مطابق ان عام قراء نے، کہ جنہوں نے قراء اتِ متواترہ کو نقل کیا ہے، قرآن کو پڑھا ہے ۔‘‘
پس اہل سنت کے نزدیک ’قراء تِ عامہ‘ سے مراد بھی معروف و متواترقراء ات ہی ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کے زمانے میں بعض لوگوں کاخیال یہ تھا کہ { فَھَلْ مِن مُّدَّکِرٍ } میں مُدَّکِرٍ کواہلِ عرب کے استعمالات کی رعایت رکھتے ہوئے مذکر پڑھنا چاہیے، کیونکہ اس لفظ کا مادہ بھی ’ذکر‘ہی ہے ، لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں دو اَساسی باتوں کو واضح کیا ہے ایک تویہ کہ قرآن کی قراء ت میں اصل،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا سماع ہے نہ کہ عرب کامحاورہ، دوسری بات انہوں نے یہ بیان کی کہ مسلمانوں نے جن طرق سے قرآن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا ہے،ان سب میں یہ لفظ مُدَّکِرٍ ہی پڑھا گیاہے ۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قراء اتِ عشرہ متواترہ کے دس اَئمہ نے بھی اسے مُدَّکِرٍ ہی پڑھا ہے۔

اِمام بخاری رحمہ اللہ نے { فَھَلْ مِن مُّدَّکِرٍ } کی قراء ت کو واضح کرنے کے لیے کتاب التفسیرمیں چار اَبواب باندھے ہیں ، جن میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی چھ اَحادیث بیان کی ہیں ، انہی میں سے ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ سے یہ سوال بھی ہوا تھا کہ اس لفظ کو مذکر پڑھنا چاہیے یا مدکر؟
پس اہل سنت کے نزدیک ’قراء تِ عامہ‘ سے مراد وہ قراء ت ہے‘ جو قراء ت شاذہ نہیں ہے یعنی قراء اتِ متواترہ۔ ’قراء اتِ شاذہ کے بالمقابل ’قراء تِ عامہ‘ ایک ہی ہے لیکن اپنی اَصل کے اعتبار سے یہ کئی ایک روایات پر مبنی ہے۔

علاوہ اَزیں امام ابو عبد الرحمن سلمی رضی اللہ عنہ سے صحیح اور متصل سند کے ساتھ مروی ہے کہ انہوں نے امام عاصم رحمہ اللہ کو جو قراء ت پڑھائی تھی وہ دو روایتوں ، روایتِ حفص اور روایتِ شعبہ پر مشتمل تھی۔جبکہ غامدی صاحب کی قراء تِ عامہ صرف روایت حفص کو شامل ہے۔پس اِمام ابوعبد الرحمن السلمی سے صحیح اور متصل سند کے ساتھ روایت شعبہ کا ثبوت اس بات کی دلیل کے طور پر کافی ہے کہ امام صاحب کی قراء تِ عامہ صرف روایتِ حفص پر مشتمل نہ تھی۔اس رسالہ کے بعض دوسرے مضامین میں ان اَسناد کے بارے میں تفصیلاً بحث موجود ہے۔ [رشدقراء ات نمبر:۱؍۵۱۱]

ضرورت تو اس بات کی تھی کہ اپنے مؤقف کے اِثبات کے لیے حافظ صاحب کے مضمون کا علمی طور پر محاکمہ پیش کیا جاتا اور اس کا کافی وشافی جواب دیا جاتا، لیکن چونکہ حلقۂ اشراق روز اول سے اپنے مؤقف کے خلاف محکم براہین کے ہوتے ہوئے بھی ’میں نہ مانوں ‘ کی پالیسی پر بڑی جرأت کے ساتھ کاربند رہا ہے لہٰذا یہاں بھی اپنے اُصول کی خلاف ورزی کو مناسب خیال نہیں کیا۔ بہرحال ہم علامہ زرکشی رحمہ اللہ کے حوالے سے مزید چند ایک گزارشات پیش کرتے ہیں ۔

اولاً :یہ کہ اِمام زرکشی رحمہ اللہ نے ابو عبدالرحمن السلمی کا مذکورہ قول جمع قرآن کی بحث میں ذکر کیا ہے جس سے ان کا مقصود ترتیبِ سور اور آیات کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یکساں عمل نقل کرنا ہے نہ کہ قرآن کی قراء ات کے متعلق بحث کرنا کہ قراء تِ عامہ سے مراد صرف روایتِ حفص ہے۔

ثانیا: یہ کہ غامدی صاحب کے اِس قول سے استدلال کے مطابق تو تمام مہاجرین وانصار کی ایک ہی قراء ت یعنی روایتِ حفص ہونی چاہیے تھی اور اگر فی الواقع ایسا ہی ہے تو پھر لوگوں میں قراء ت کے حوالے سے اختلاف ہی کیوں رونما ہوا تھا ایک شخص قراء ت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ترجیح دے رہا تھا تو دوسرا قراء ت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو، حالانکہ آپ کے بقول تو ان سب کی قراء ت ایک تھی۔اس سلسلے میں علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

إن حذیفۃ قدم من غزوۃ فلم یدخل في بیتہ حتی أتی عثمان فقال: یا أمیر المؤمنین! أدرک الناس۔ قال: وما ذاک؟ قال: غزوت أرمینیۃ فإذا أہل الشام یقرئون بقرائۃ أبي بن کعب فیأتون بما لم یسمع أہل العراق وإذا أہل العراق یقرئون بقرائۃ عبداﷲ بن مسعود فیأتون بما لم یسمع أہل الشام فیکفر بعضہم بعضاً۔

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ایک غزوہ سے واپسی ہوئی تو وہ واپسی پر وہ اپنے گھر میں داخل نہیں ہوئے تاآنکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو ئے ،اور عرض کیا: اے امیر المؤمنین ! لوگوں کی خبر لیجئے۔ انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہا میں لڑ ائی کے سلسلے میں آرمینیا گیا ہوا تھا وہاں پہنچا تومعلوم ہوا کہ اہل شام اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراء ت پڑھتے ہیں جسے اہلِ عراق نے نہیں سنا ہوا تھا اور اہلِ عراق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں پڑھتے ہیں جسے اہل شام نے نہیں سنا اس اِختلاف کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں ۔‘‘[عمدۃ القاری: ۱۶]

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی شاید خود اس خطرے سے آگاہ تھے۔انہیں اس بات کی اِطلاع ملی تھی کہ خود مدینہ طیبہ کے اَندر ایسے واقعات پیش آئے کہ جب مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شاگرد اکٹھے ہوئے تو اِختلاف کی سی ایک کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ [ الاتقان فی علوم القرآن:۱؍۶۱]

اِس سے ثابت ہوتاہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین قراء ات کے اختلافات موجود تھے اور انہوں نے اپنے اپنے اختیارات اپنا رکھے تھے اور قراء تِ عامہ صرف روایتِ حفص کو ہی نہیں بلکہ دیگر متواترقراء ات کو بھی شامل تھی۔ اس سلسلہ میں ہم علامہ زرکشی رحمہ اللہ کے ان اَقوال کو پیش کرتے ہیں جو متعدد قراء ات قرآنیہ سے متعلق ان کا مؤقف واضح کرنے اور ناقابل تردید دلائل کے ساتھ پنجہ آزمائی کر کے ثابت شدہ قراء ات کا اِنکار کرنے والوں کے لیے کافی ہوں گے۔
  • امام صاحب فرماتے ہیں :
إن القراء ات توقیفیۃ ولیست اختیاریۃ۔
’’قراء ات توقیفی ہیں نہ کہ کسی کی اپنی اختیار کردہ ہیں ۔‘‘
  • مزید فرماتے ہیں :
وقد انعقد الإجماع علی صحۃ قرائۃ ہؤلاء الأئمۃ وأنہا سنۃ متبعۃ لا مجال للإجتہاد فیہا۔ [البرہان فی علوم القرآن: ۱؍۳۲۲]
’’قراء عشرہ کی قراء ت کی حجیت پر اِجماع منعقد ہو چکا ہے، یہ قراء ت، سنت متبعہ (یعنی توقیفی) ہیں اور ان میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے۔‘‘
  • قاضی ابوبکر رحمہ اللہ کے حوالہ سے ذکر کرتے ہیں کہ صحیح بات یہ ہے:
أن ہذہ الأحرف السبعۃ ظہرت واستفاضت عن رسول اﷲ ﷺ وضبطہا عنہ الأئمۃ وأثبتہا عثمان والصحابۃ في المصحف۔ [البرہان فی فی علوم القرآن:۱؍۲۲۳]
’’یہ سبعہ حروف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے مشہور و معروف ہیں ۔ ائمہ نے سبعہ حروف کو ضبط کیا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی انہیں مصاحف میں ثابت رکھا۔‘‘
ایک جگہ پر اَحرف سبعہ سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار یوں فرماتے ہیں :
’’سبعہ اَحرف پر انزال قرآن کی اجل حکمت اور اہم غرض یہ ہے کہ تلاوتِ قرآن کی بابت عرب پر تیسیر وآسانی پیدا کر دی جائے۔ اَحرف سبعہ پر انزالِ قرآن منجانب اللہ امت محمدیہ پر توسع ورحمت اور تخفیف وتیسیر کا معاملہ ہے، کیونکہ اگرعرب کا ہر قبیلہ فتح وامالہ، تحقیق وتخفیف، مد و قصر وغیرہ کے متلق اپنی عادی وطبعی لغت کو چھوڑ کر چار و ناچار دوسرے قبیلہ کے لغت کے موافق پڑھنے کا مکلف قرار دیا جاتا تو اس میں بہت تنگی ومشقت لازم آتی۔‘‘
[البرہان فی علوم القرآن:۱؍۲۷۷]

لہٰذا اِمام زرکشی رحمہ اللہ کا کہنا کہ’تمام مہاجرین وانصار قراء تِ عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے تھے‘ اس میں صرف روایتِ حفص داخل نہیں تھی بلکہ قراء تِ عامہ تمام متواتر قراء ات کو شامل تھی اور اسی کے مطابق صحابہ وتابعین اور مابعد اَدوار کے تمام لوگ متنوع قراء اتِ قرآنیہ کو سیکھتے اور سکھاتے چلے آرہے ہیں ۔

اس تمام تر وضاحت کے بعد ہم اس قدر ہی کہہ سکتے ہیں خدا تعالیٰ مفتی موصوف اور ان کے کارپردازان کو نفس مسئلہ سمجھنے کی توفیق دے اور حقائق کے ادراک کے بعد کھلے دل سے تسلیم کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین

٭_____٭_____٭
 
Top