- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
مرکز البیت العتیق میں حاضری:
البیت العتیق جامعہ رحمانیہ کی ہی ایک شاخ ہے، یہ مرکز تو کافی پرانا ہے، پہلے کسی اور کے پاس تھا، بعد میں اس کے مہتمم خواجہ عتیق صاحب نے اس کی ذمہ داری مدنی خاندان کو سونپ دی۔ مجھے یہاں پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا، البتہ ہمارے کئی ہم جماعت یا سینئر جونیئر ساتھی اور اساتذہ کرام اس ادارے سے منسلک ہیں، اس لیے ہم جامعہ رحمانیہ سمجھ کر ہی یہاں حاضری دیتے ہیں۔
یہاں اساتذہ کرام میں قاری خالد فاروق صاحب، قاری فیاض صاحب، شیخ زید صاحب، شیخ احسان اللہ فاروقی صاحب، قاری عارف بشیر صاحب سے شرف ملاقات حاصل ہوا، اس کے علاوہ قاری عاشب ، قاری ظہیر نام سے دو شخصیات، علامہ عاشق ، قاری اللہ دتہ، عبد الماجد ساقی، قاری یحیی طالب ، قاری اکمل ، ابو سفیان میر محمدی ، قاری محمد ، قاری فیاض منیر وغیرہم سے ملنے کا موقعہ ملا، ہماری نازک مزاجی کا خیال رکھتے ہوئے رات کو جہاں سونے کا انتظام کیا گیا، وہاں اے سی بھی چلوا دیا گیا، قاری ظہیر خان صاحب جو ہم سے سینئر ہیں، انہوں نے ہمیشہ کی طرح خصوصی محبت کا اظہار کیا، اور ایک دوسرے قاری ظہیر صاحب جو ہم سے جونیئر ہیں، اس وقت شعبہ حفظ کے انچارج ہیں، انہوں نے بھی اہتما م کے ساتھ مہمان نوازی کی، شہری بچوں پر مشتمل حفظ کلاسوں کا وزٹ کروایا، اور ادارے کے پراسپکٹس کا ایک نسخہ عنایت فرمایا، جو اس وقت میرے سامنے موجود ہے۔
جہاں بھی جائیں، اساتذہ ہوں یا دیگر احباب، عموما حوصلہ افزائی کرتے ہیں، توجہ سے ملتے ہیں، بعض ایسے بھی ہوں گے، جنہیں اس ’ مدنی چھوکرے‘ میں تکبر وغرور کے جراثیم نظر آتے ہیں، وہ بھی حسب توفیق اسی قسم کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں، چوٹ مارنے کی آزمائش میں ہم کسی سے کم مبتلا نہیں، لیکن سہنے کا تجربہ بھی بعض دفعہ اچھا رہتا ہے ۔
ہمارے محسن و مربی شیخ شفیع طاہر صاحب ، کبھی اسی ادارے میں ملا کرتے تھے، لیکن اب کی بار وہ لاہور ایک اور مدرسے میں تھے، فون کے ذریعے ملنے کی اجازت چاہی، انہوں نے خوش آمدید کہتے ہوئے ، ایڈریس بھی میسیج کردیا۔ حاضر ہوا، خندہ پیشانی سے ملے، دونوں طرف سے خیر و عافیت دریافت کی گئی، استاد جی نے بطور ضیافت آم ، آلو بخارا وغیرہ منگوائے، ہم نے ملکر خوب کھائے، جب میں آخری دفعہ لسی گلاس میں ڈالنے لگا، تو تھوڑی ان کے گلاس میں بھی ڈال دی، لمحہ بھر سوچ کر کہنے لگے، اللہ بھلا کرے ! میرا تو آج روزہ تھا۔۔۔۔ میں نے ہنستے ہوئے عرض کیا استاد جی ، خوش ہوئیے ، إنما أطعمک اللہ و سقاک ۔
جہاں انسان کا تعلق اور لگاؤ ہو، وہاں شکوے بھی ہوتے ہیں، فرمانے لگے، جب پہلے ادارے سے میں بالکل نا امید ہوگیا، تو میں نے لاہور میں کئی جگہ پر پتہ کیا ملازمت دینا تو دور کی بات، کوئی میری کتابیں اپنی لائبریری میں رکھنے کے لیے تیار نہیں تھا، شیخ صاحب کے پاس کتابوں کا ٹھیک ٹھاک ذخیر ہ ہے، میں ان کے سامنے سر جھکائے بیٹھا تھا، کیونکہ ہمارے جیسی پود جب آگے آتی ہے، تو پرانے اساتذہ و ملازمین کے لیے جگہ تنگ ہوجاتی ہے۔ اللہ سے دعا ہے ، اللہ ہمیں اس قسم کی ہر آزمائش سے بچائے کہ جب ہماری ترقی ہمارے اساتذہ و بزرگوں کی ’ چھٹی‘ کا ذریعہ بن جائے۔
دنیاوی لالچ ،مجبوریاں اور سہولتیں انسان کو اس قدر جکڑ لیتی ہیں کہ انسان چاہتے ہوئے بھی ان ہستیوں کےلیے کچھ نہیں کر پاتا، جنہوں نے انہیں انگلی پکڑ کے چلنا سکھایا ہوتا ہے، وہ مہربان جو ہمیں ہیرے کی طرح تراشتے ہیں، ایک وقت آتا ہے، کہ وہ انہیں ہیروں کی تیز دھار کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
تعلیم و تعلم دینی ہو یا دنیاوی، اس میں استاد ایک ایسا کردار ہے، جس کا استحصال ہمارے معاشرے کی پیشانی پر بدنماں داغ ہے، جو پڑھے لکھے دماغوں میں موجود جہل کا پتہ دیتا ہے۔ ہم دینی مدارس کو روتے رہتے ہیں، کبھی دنیاوی تعلیم دینے والے پرائیوٹ سکولوں میں جاکر دیکھیے، چار پانچ ہزار دے کر لوگوں کو خرید لیا جاتا ہے۔ اگر ٹیچر خاتون ہے ، تو اس کی عزت و عفت کو الگ چیلنج در پیش ہوگا۔
معمارانِ ملت کی یوں ناقدری، شاید ہماری قوم کے زوال کے اسباب میں یہ جاہلانہ رویے بھی ہیں۔
رضوان مرحوم کے بھائی سے ملاقات:
شیخ رضوان رفیق رحمہ اللہ، جو دو سال قبل اپنے اہل خانہ سمیت ایک حادثے کا شکار ہوگئے تھے، ان کے دو بچے الحمد للہ خیر و عافیت سے اپنے چچا اور دادا کے پاس موجود ہیں، ان بچوں کی ایک امانت میرے پاس تھی، جو ان تک پہنچانا ضروری تھی، ویسے بھی رضوان صاحب کے بھائی شفیق صاحب نے کئی مرتبہ گھر آنے کی دعوت تھی، لاہور کماہاں رہائش پذیر ہیں، میں دو تین دن لاہور رہ کر گیا، لیکن اساتذہ کرام کے ساتھ مصروفیت کچھ اس قسم کی تھی کہ چاہتے ہوئے بھی شفیق صاحب سے ملاقات نہیں ہوسکی ۔ ایک دن لاہور جمعہ کی ذمہ داری تھی، میں دو گھنٹے پہلے ہی گھر سے روانہ ہوگیا، شفیق صاحب سے رابطہ ہوا، انہوں نے خوش آمدید کہا، اور بڑی محبت سے میٹرو سٹاپ پر لینے کے لیے بھی آ گئے، نہ صرف یہ، بلکہ پر تکلف ناشتہ بھی پیش کیا، شیخ رضوان کے صاحبزادوں محمد اور احمد سے مل کر بہت خوشی اور اطمینان ہوا، ماشاء اللہ ، بچوں میں گھل مل گئے ہیں، چھوٹا احمد تو حادثے کے وقت سال سے بھی کم عمر کا تھا، پاکستان آکر چچا چچی کا رضاعی بیٹا بن گیا، اور اب انہیں ہی امی ابو پکارتا ہے، بڑے محمد کو امی ابو یاد آتے ہوں گے، لیکن بہرصورت دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے اسے صبر و اطمینان سے نواز دیا ہے۔ اللہ ان بچوں کی عمر میں برکت دے، انہیں والدین کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بنائے، اور بڑوں کی جو کمیاں کوتاہیاں اور نادانیاں ان ننھے پھولوں کے مرجھانے کا سبب بن سکتی ہیں، اللہ ان سب مصیبتوں سے ان کو محفوظ رکھے۔
رضوان مرحوم والا حادثہ ایسا ہے، شاید زندگی بھر کبھی نہ بھول سکے، اس حادثے نے ہمیں بہت کچھ سکھایا، بہت کچھ آشکار کیا، یہ ایک حادثہ ہی نہیں، عبرتوں اور نصیحتوں کا ایک پورا باب ہے، ایک ایسی کہانی جس میں معاشرے میں پائے جانے والے کئی کردار بہت نمایاں ہو کر نظر آتے ہیں۔
البیت العتیق جامعہ رحمانیہ کی ہی ایک شاخ ہے، یہ مرکز تو کافی پرانا ہے، پہلے کسی اور کے پاس تھا، بعد میں اس کے مہتمم خواجہ عتیق صاحب نے اس کی ذمہ داری مدنی خاندان کو سونپ دی۔ مجھے یہاں پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا، البتہ ہمارے کئی ہم جماعت یا سینئر جونیئر ساتھی اور اساتذہ کرام اس ادارے سے منسلک ہیں، اس لیے ہم جامعہ رحمانیہ سمجھ کر ہی یہاں حاضری دیتے ہیں۔
یہاں اساتذہ کرام میں قاری خالد فاروق صاحب، قاری فیاض صاحب، شیخ زید صاحب، شیخ احسان اللہ فاروقی صاحب، قاری عارف بشیر صاحب سے شرف ملاقات حاصل ہوا، اس کے علاوہ قاری عاشب ، قاری ظہیر نام سے دو شخصیات، علامہ عاشق ، قاری اللہ دتہ، عبد الماجد ساقی، قاری یحیی طالب ، قاری اکمل ، ابو سفیان میر محمدی ، قاری محمد ، قاری فیاض منیر وغیرہم سے ملنے کا موقعہ ملا، ہماری نازک مزاجی کا خیال رکھتے ہوئے رات کو جہاں سونے کا انتظام کیا گیا، وہاں اے سی بھی چلوا دیا گیا، قاری ظہیر خان صاحب جو ہم سے سینئر ہیں، انہوں نے ہمیشہ کی طرح خصوصی محبت کا اظہار کیا، اور ایک دوسرے قاری ظہیر صاحب جو ہم سے جونیئر ہیں، اس وقت شعبہ حفظ کے انچارج ہیں، انہوں نے بھی اہتما م کے ساتھ مہمان نوازی کی، شہری بچوں پر مشتمل حفظ کلاسوں کا وزٹ کروایا، اور ادارے کے پراسپکٹس کا ایک نسخہ عنایت فرمایا، جو اس وقت میرے سامنے موجود ہے۔
جہاں بھی جائیں، اساتذہ ہوں یا دیگر احباب، عموما حوصلہ افزائی کرتے ہیں، توجہ سے ملتے ہیں، بعض ایسے بھی ہوں گے، جنہیں اس ’ مدنی چھوکرے‘ میں تکبر وغرور کے جراثیم نظر آتے ہیں، وہ بھی حسب توفیق اسی قسم کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں، چوٹ مارنے کی آزمائش میں ہم کسی سے کم مبتلا نہیں، لیکن سہنے کا تجربہ بھی بعض دفعہ اچھا رہتا ہے ۔
ہمارے محسن و مربی شیخ شفیع طاہر صاحب ، کبھی اسی ادارے میں ملا کرتے تھے، لیکن اب کی بار وہ لاہور ایک اور مدرسے میں تھے، فون کے ذریعے ملنے کی اجازت چاہی، انہوں نے خوش آمدید کہتے ہوئے ، ایڈریس بھی میسیج کردیا۔ حاضر ہوا، خندہ پیشانی سے ملے، دونوں طرف سے خیر و عافیت دریافت کی گئی، استاد جی نے بطور ضیافت آم ، آلو بخارا وغیرہ منگوائے، ہم نے ملکر خوب کھائے، جب میں آخری دفعہ لسی گلاس میں ڈالنے لگا، تو تھوڑی ان کے گلاس میں بھی ڈال دی، لمحہ بھر سوچ کر کہنے لگے، اللہ بھلا کرے ! میرا تو آج روزہ تھا۔۔۔۔ میں نے ہنستے ہوئے عرض کیا استاد جی ، خوش ہوئیے ، إنما أطعمک اللہ و سقاک ۔
جہاں انسان کا تعلق اور لگاؤ ہو، وہاں شکوے بھی ہوتے ہیں، فرمانے لگے، جب پہلے ادارے سے میں بالکل نا امید ہوگیا، تو میں نے لاہور میں کئی جگہ پر پتہ کیا ملازمت دینا تو دور کی بات، کوئی میری کتابیں اپنی لائبریری میں رکھنے کے لیے تیار نہیں تھا، شیخ صاحب کے پاس کتابوں کا ٹھیک ٹھاک ذخیر ہ ہے، میں ان کے سامنے سر جھکائے بیٹھا تھا، کیونکہ ہمارے جیسی پود جب آگے آتی ہے، تو پرانے اساتذہ و ملازمین کے لیے جگہ تنگ ہوجاتی ہے۔ اللہ سے دعا ہے ، اللہ ہمیں اس قسم کی ہر آزمائش سے بچائے کہ جب ہماری ترقی ہمارے اساتذہ و بزرگوں کی ’ چھٹی‘ کا ذریعہ بن جائے۔
دنیاوی لالچ ،مجبوریاں اور سہولتیں انسان کو اس قدر جکڑ لیتی ہیں کہ انسان چاہتے ہوئے بھی ان ہستیوں کےلیے کچھ نہیں کر پاتا، جنہوں نے انہیں انگلی پکڑ کے چلنا سکھایا ہوتا ہے، وہ مہربان جو ہمیں ہیرے کی طرح تراشتے ہیں، ایک وقت آتا ہے، کہ وہ انہیں ہیروں کی تیز دھار کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
تعلیم و تعلم دینی ہو یا دنیاوی، اس میں استاد ایک ایسا کردار ہے، جس کا استحصال ہمارے معاشرے کی پیشانی پر بدنماں داغ ہے، جو پڑھے لکھے دماغوں میں موجود جہل کا پتہ دیتا ہے۔ ہم دینی مدارس کو روتے رہتے ہیں، کبھی دنیاوی تعلیم دینے والے پرائیوٹ سکولوں میں جاکر دیکھیے، چار پانچ ہزار دے کر لوگوں کو خرید لیا جاتا ہے۔ اگر ٹیچر خاتون ہے ، تو اس کی عزت و عفت کو الگ چیلنج در پیش ہوگا۔
معمارانِ ملت کی یوں ناقدری، شاید ہماری قوم کے زوال کے اسباب میں یہ جاہلانہ رویے بھی ہیں۔
رضوان مرحوم کے بھائی سے ملاقات:
شیخ رضوان رفیق رحمہ اللہ، جو دو سال قبل اپنے اہل خانہ سمیت ایک حادثے کا شکار ہوگئے تھے، ان کے دو بچے الحمد للہ خیر و عافیت سے اپنے چچا اور دادا کے پاس موجود ہیں، ان بچوں کی ایک امانت میرے پاس تھی، جو ان تک پہنچانا ضروری تھی، ویسے بھی رضوان صاحب کے بھائی شفیق صاحب نے کئی مرتبہ گھر آنے کی دعوت تھی، لاہور کماہاں رہائش پذیر ہیں، میں دو تین دن لاہور رہ کر گیا، لیکن اساتذہ کرام کے ساتھ مصروفیت کچھ اس قسم کی تھی کہ چاہتے ہوئے بھی شفیق صاحب سے ملاقات نہیں ہوسکی ۔ ایک دن لاہور جمعہ کی ذمہ داری تھی، میں دو گھنٹے پہلے ہی گھر سے روانہ ہوگیا، شفیق صاحب سے رابطہ ہوا، انہوں نے خوش آمدید کہا، اور بڑی محبت سے میٹرو سٹاپ پر لینے کے لیے بھی آ گئے، نہ صرف یہ، بلکہ پر تکلف ناشتہ بھی پیش کیا، شیخ رضوان کے صاحبزادوں محمد اور احمد سے مل کر بہت خوشی اور اطمینان ہوا، ماشاء اللہ ، بچوں میں گھل مل گئے ہیں، چھوٹا احمد تو حادثے کے وقت سال سے بھی کم عمر کا تھا، پاکستان آکر چچا چچی کا رضاعی بیٹا بن گیا، اور اب انہیں ہی امی ابو پکارتا ہے، بڑے محمد کو امی ابو یاد آتے ہوں گے، لیکن بہرصورت دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے اسے صبر و اطمینان سے نواز دیا ہے۔ اللہ ان بچوں کی عمر میں برکت دے، انہیں والدین کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بنائے، اور بڑوں کی جو کمیاں کوتاہیاں اور نادانیاں ان ننھے پھولوں کے مرجھانے کا سبب بن سکتی ہیں، اللہ ان سب مصیبتوں سے ان کو محفوظ رکھے۔
رضوان مرحوم والا حادثہ ایسا ہے، شاید زندگی بھر کبھی نہ بھول سکے، اس حادثے نے ہمیں بہت کچھ سکھایا، بہت کچھ آشکار کیا، یہ ایک حادثہ ہی نہیں، عبرتوں اور نصیحتوں کا ایک پورا باب ہے، ایک ایسی کہانی جس میں معاشرے میں پائے جانے والے کئی کردار بہت نمایاں ہو کر نظر آتے ہیں۔
Last edited: