کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
’’التمھید لابن عبدالبر‘‘ کی ایک روایت میں احناف کی تحریف
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے سے متعلق بہت ساری مرفوع و موقوف احادیث مروی ہیں ان کی تفصیل میری کتاب ”انوار البدرفی وضع الیدین علی الصدر“ میں موجود ہے ۔
انہیں میں ایک موقوف روایت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جو سورۃ الکوثر کی آیت ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾ کی تفسیر میں ہے کہ اس سے مراد نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا ہے۔
یہی روایت امام ابن عبدالبر (المتوفی:۴۶۳) کی کتاب ”التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد“ میں بھی امام اثرم کے حوالے سے نقل ہوئی ہے اور اس میں ”عَلَی الصَّدْرِ“ (سینے پر) کے بجائے ”تَحْتَ الثَّنْدُوَةِ“(چھاتی کے نیچے ) کے الفاظ ہیں ، اور معنوی طور پر اس کا معنی بھی سینے پر ہاتھ باندھنا ہی ہے اس کی تفصیل اگلے شمارہ (۸۶)میں ہم پیش کریں گے۔سب سے پہلے یہ روایت ملاحظہ ہو:
امام ابن عبد البر رحمہ الله (المتوفی:۴۶۳) نے کہا:
’’ذكر الأثرم قال حدثنا أبو الوليد الطيالسي قال حدثنا حماد بن سلمة عن عاصم الجحدري عن عقبة بن صهبان سمع عليا يقول في قول اللّٰه عز وجل ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾قال وضع اليمنى على اليسرى تحت الثندوة‘‘
’’صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اللہ عزوجل کے قول ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر:۲؍۱۰۸)کی تفسیرمیں فرمایاکہ:اس سے (نمازمیں) دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پررکھ کر چھاتی کے نیچے (یعنی سینے پر) رکھنا مراد ہے‘‘[ التمهيد لابن عبدالبر ، تحقیق دکتور بشار عواد:۱۲؍۴۲۳]
یہ روایت سینے پر ہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ۔
لیکن عصر حاضر کے بعض حضرات اسے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔
دراصل’’ التمہید‘‘ پہلی بار طبع ہوئی تو مطبوعہ نسخے میں اس روایت کے آخری حصہ کو تبدیل کردیا گیا اور ”تحت الثندوة“ (چھاتی کے نیچے ) کے الفاظ کو ”تحت السرة“ (ناف کے نیچے ) کے الفاظ سے بدل دیا گیا ۔
اس مطبوعہ نسخہ کی بیسویں جلد میں یہ روایت ہے جس کی تحقیق سعید اعراب صاحب نے کی ہے ، اسی محقق نے ان الفاظ کو تبدیل کیا ہے۔
اور اس محقق نے یہ تبدیلی خفیہ طور پر نہیں کی ہے بلکہ حاشیہ میں اپنے تصرف کی وضاحت کردی ہے ، محقق کا کہنا ہے کہ اصل روایت میں ”التندوة“ (تاء دو نقطوںکے ساتھ ) کا لفظ ہے اورچونکہ تاء کے ساتھ اس لفظ کا کوئی معنی نہیں ہوتا ہے اس لئے محقق نے اندازے سے اسے ”السرة“ بناديا اور یہ تبدیلی کرنے کے بعد بھی محقق نے کوئی قطعیت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ شک کے ساتھ کہا کہ شاید یہی صحیح ہوگا جیساکہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے سے متعلق علی رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت منقول ہے ۔ (یہ روایت سنن ابوداؤد وغیرہ میں ہے اور ضعیف ہے)
عرض ہے کہ:
ہم نے اپنی کتاب ’’انوار البدر ‘‘میں محقق کے اس تصرف پر تعاقب کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ محقق کی یہ تبدیلی قطعا ًدرست نہیں ہے کیونکہ محقق صاحب اصل لفظ کو صحیح طرح سے پڑھ نہیں سکے ، انہوں نے جس لفظ کو ”التندوة“ (تاء کے ساتھ ) پڑھا ہے ، وہ دراصل ”الثندوة“ (ثاء تین نقطوںکے ساتھ ) ہے اور یہ بے معنی لفظ نہیں ہے بلکہ اس کا معنی چھاتی ہوتا ہے۔ اور ”تحت الثندوة“ کا مطلب ہوگا چھاتی کے نیچے یعنی سینے پر ۔
ہم نے مزید تائید کے لئے یہ بھی کہا تھا کہ اسی کتاب ’’التمہید‘‘ کی ایک دوسرے محقق نے بھی تحقیق کی ہے اور انہوں نے اپنے محقق نسخے میں اس روایت کو ”تحت الثندوة“ کے الفاظ کے ساتھ ہی درج کیا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی ہم نے بہت سے دلائل پیش کئے تھے جن کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔
اس وضاحت کے بعد ہر انصاف پسند شخص کو یہ بات مان لینی چاہئے کہ’’ التمہید‘‘ میں منقول اس روایت میں ”تحت السرة“ (نا ف کے نیچے )کے الفاظ نہیں ہیں ، بلکہ یہ کتاب کے ایک محقق کی غلطی ہے ۔
لیکن افسوس کہ احناف نے اس حق بات کو قبول کرنے کے بجائے نہ صرف یہ کہ باطل پر اصرار کیا بلکہ تحریف جیسی گھناؤنی حرکت بھی کرڈالی چنانچہ انہوں نے ’’التمہید‘‘ کا ایک مخطوطہ (قلمی نسخہ) لیا جس میں اس روایت کے اندر ”الثندوة“ ہی کالفظ تھا لیکن ان لوگوں نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اسے ایڈٹ کرکے ”السرة“ بنادیا پھر اس صفحہ کا زیراکس لے کر اپنے مجلہ ”الاجماع“ شمارہ نمبر (۸)میںشائع کردیا ، اور اپنے سادہ لوح قارئین کو بے وقوف بنادیا ۔
لطف کی بات یہ ہے کہ مجلہ ”الاجماع“ شمارہ نمبر (۸)میں اس تحریف بردار مضمون کے لکھنے والے کا نام درج نہیں کیا گیا ہے بلکہ مضمون نگار کے نام کے بغیر ہی اسے شائع کردیا گیا ہے ۔
تحریف کی یہ گھناؤنی حرکت کرنے والے صاحب کوبھی معلوم تھا کہ راز کھل سکتا ہے ، اس لئے محرف موصوف نے اپنی شخصیت کو پردے میں ہی رکھا تاکہ پول کھل جانے پر ان کی رسوائی نہ ہو ، اور ان کے مقلدین کی نظر میں موصوف کی شخصیت مجروح نہ ہو۔
اب اگلی سطور میں ہم اللہ کے فضل وکرم سے اصل حقیقت قارئین کے سامنے رکھتے ہیں اورسچائی پر چڑھائی گئی تحریف کی چادر کو ہٹا تے ہیں ۔
سب سےپہلے یہ واضح کردیا جائے کہ مجلہ ”الاجماع“ شمارہ نمبر (۸)والوں نے جس مخطوطہ کا زیراکس پیش کیا ہے وہ دراصل دارالکتب المصریہ رقم (۷۱۶) کا مخطوطہ ہے جو تقریباً آٹھویں صدی ہجری کا لکھا ہوا ہے۔
لیکن ان حضرات نے اس مخطوطہ کی اصلیت پر پردہ ڈالنے کے لئے اسے ’’نسخہ شیخ محمد علی الموصلی عراق‘‘ کے نام سے پیش کیا ہے ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مخطوطہ اس نام سے کہیں بھی نہیںجانا جاتا ۔احناف نے ایسا شاید اس لئے کیا ہے تاکہ کوئی اس مخطوطہ کی اصلیت تک بآسانی پہنچ نہ سکے ، مزید وضاحت آگے آرہی ہے ۔
سب سےپہلے مجلہ ”الاجماع“ شمارہ نمبر (۸)کا وہ صفحہ ملاحظہ کریں جس میں احناف نے’’ التمہید‘‘ کے ایک مخطوطہ سے ایک صفحہ کا زیراکس (xerox) پیش کیا ہے اور یہ دکھا یاہے کہ اس میں ”تحت السرة“ کے الفاظ ہیں ۔
اس کے بعد اس کے سامنے اگلے ہی صفحہ پر ہم اس مخطوطہ سے اس اصل صفحہ (original page) کا اسکین (scan) پیش کریں گے جس میں صاف طور سے ”الثندوة“ کا لفظ موجود ہے۔جسے احناف نے ایڈٹ کرکے”السرة“ بنادیا ہے ۔
یاد رہے احناف نے اس مخطوطہ سے متعلقہ صفحہ کا اسکین (scan) یعنی اصل صفحہ کا ہو بہو فوٹو پیش نہیں کیا ہے بلکہ زیراکس (xerox) یعنی ڈبلی کیٹ کاپی پیش کیا ہے جو بلیک اینڈ وائٹ ہے۔
لیکن ہم اس صفحہ کا زیراکس پیش نہیں کریں گے بلکہ الحمدللہ ہم اصل مخطوطہ سے اصل صفحہ کا اسکین (scan) پیش کریں گے ۔