• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’اہل الرائے ‘‘کا ایک جائزہ

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
نوٹ: واضح رہے کہ یہ تحریر محترم ابوالحسن علوی صاحب کے مضمون پر ایک نقد ہے۔۔ابھی حال میں ان کا تنقید پر ناقدانہ مضمون نظرنواز ہوا۔کوشش کی ہے کہ یہ تحریر ان کے معیار کے مطابق ہو ۔اورتنقید ہو تنقیص نہ ہو۔میں اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوسکا اس کا فیصلہ توابوالحسن علوی صاحب ہی کریں گے۔(ابتسامہ)

کچھ باتیں ایسی ہیں جس کو لوگ بہت استعمال کرتے ہیں۔تحریر ولکھاوٹ کی صورت میں۔تقریر وبیان کی شکل میں اورروزمرہ کی بول چال میں۔لیکن اس کے معنی ومفہوم سے بہت کم لوگ آشنا ہوتے ہیں۔عموماذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ اس کو توہم جانتے ہیں سمجھتے ہیں اورروزانہ استعمال کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہی چیزیں کبھی کبھی صحیح طورپر جاننے اوراس کی صحیح معرفت حاصل کرنے میں حجاب اوررکاوٹ بن جاتے ہیں جیساکہ کہاگیاہے اورصحیح کہاگیاہے کہ

اے روشنی طبع توبرمن بلاشدی
اہل الرائے کالفظ بھی کچھ اسی قبیل کاہے جس کو استعمال توبہت کیاجاتاہے لیکن اس کاصحیح مفہوم کیاہے اس جانب بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔عمومالوگ ظاہری لفظ سے اصطلاحی مفہوم بھی نکالنے لگ جاتے ہیں اوریہیں وہ ٹھوکر کھاتے ہیں لیکن افسوس کہ بہت کم لوگوں کو اس کی توفیق ملتی ہے کہ وہ اپنی غلطی سے رجوع کریں ۔بیشترایساہوتاہے کہ اپنی اس ایک غلطی کو درست قراردینے کی خاطرکے چکر میں بے شمار غلطیاں کرتے ہین اورنتیجہ پھر بھی وہی ہوتاہے۔یعنی ڈھاک کے تین پات شیخ سعدی نے بھی کہاہے اورصحیح کہاہے۔

خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثریامی رود دیوار کج

ابوالحسن علوی صاحب سے سجدہ سہو کے احکام میں اہل الرائے کے تعلق سے بات چیت ہوئی توانہوں نے کہاتھاکہ وہ اس پر ایک تفصیلی مضمون لکھیں گے۔جس میں اپنا مدعا ثابت کریں گے۔تفصیلی مضمون توانہوں نے لکھ دیاہے لیکن اہل الرائے کے تعلق سے ان کا جومدعا تھاوہ تاحال ثابت نہیں ہواہے۔

اہل الرائے کے تعلق سے ان کا دعویٰ تھاکہ

دوسری بات اہل الرائے کے نزدیک یہ تھی کہ وہ اجتہاد کو کتاب وسنت کی طرح دائمی حیثیت دیتے تھے یعنی ان کے نزدیک ائمہ کے اجتہادات یا فقہ شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی تھی اور اس بنیاد پر اس کی پابندی لازم تھی۔
اپنے اس پورے مضمون میں انہوں نے اس دعوے کے حق میں کوئی دلیل نہیں دی ہے تویاتووہ اپنے اس دعوی سے رجوع کرچکے ہیں یاشاید اس کیلئے ہمیں ان کے مضمون حصہ دوم کاانتظار کرناپڑے گا۔

ویسے ان کی اس بات کیلئے اہل الرائے ائمہ کے اجتہاد کو کتاب وسنت کی طرح دائمی قراردیتے تھے۔اتناہی کہناکافی ہے کہ صاحبین نے امام ابوحنیفہ سے جس قدر اختلاف کیاہے بقیہ ائمہ ثلاثہ میں اس کی نظیرنہیں ملتی۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
محترم ابوالحسن علوی صاحب کے مضمون کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اہل الرائے پر بحث کرنے سے قبل رائے پر بحث کرنے کی ضرورت بالکل ہی نہیں سمجھی۔حالانکہ یہ اہم بات ہے کیونکہ رائے کامفہوم لغوی اوراصطلاحی طئے ہوجائے توبعد کی راہیں مزید آسان ہوجائیں گی۔

رای کا مفہوم لغوی اعتبار سے
اہل الرائے کامعنی متعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم رای کا لغوی اورشرعی معنی جانیں تاکہ اہل الرای کا معنی متعین کرنے میں کسی قسم کا کوئی اشتباہ اورغلطی پیش نہ آئے۔

والرأي مَهْمُوز من قَوْلهم: رَأَيْت رَأيا حسنا. وَفِي التَّنْزِيل: {بَادِي الرَّأْي} وَالله أعلم. والرأي: مُنْتَهى الْبَصَر رَأْي الْعين: مُنْتَهى بصرها والرؤية: رُؤْيَة الْعين.جمہرۃ اللغۃ1/235

ر أى: (الرُّؤْيَةُ) بِالْعَيْنِ تَتَعَدَّى إِلَى مَفْعُولٍ وَاحِدٍ وَبِمَعْنَى الْعِلْمِ تَتَعَدَّى إِلَى مَفْعُولَيْنِ وَ (رَأَى) يَرَى (رَأْيًا) وَ (رُؤْيَةً) وَ (رَاءَةً) مِثْلُ رَاعَةٍ. وَ (الرَّأْيُ) مَعْرُوفٌ وَجَمْعُهُ (آرَاءٌ) وَ (أَرْآءٌ) أَيْضًا مَقْلُوبٌ مِنْهُ. وَ (رَئِيٌّ) عَلَى فَعِيلٍ مِثْلِ ضَأْنٍ وَضَئِينٍ. وَيُقَالُ بِهِ (رَئِيٌّ) مِنَ الْجِنِّ أَيْ مَسٌّ. وَيُقَالُ: رَأَى فِي الْفِقْهِ رَأْيًا. وَقَدْ تَرَكَتِ الْعَرَبُ الْهَمْزَ فِي مُسْتَقْبَلِهِ لِكَثْرَتِهِ فِي كَلَامِهِمْ. وَرُبَّمَا احْتَاجَتْ إِلَى هَمْزِهِ فَهَمَزَتْهُ قَالَ الشَّاعِرُ:
وَمَنْ يَتَمَلَّ الْعَيْشَ يَرْءَ وَيَسْمَعُ
وَقَالَ آخَرُ:

أُرِي عَيْنَيَّ مَا لَمْ تَرْأَيَاهُ ... كِلَانَا عَالِمٌ بِالتُّرَّهَاتِ
. وَرُبَّمَا جَاءَ مَاضِيهِ بِغَيْرِ هَمْزٍ. قَالَ الشَّاعِرُ:

صَاحِ هَلْ رَيْتَ أَوْ سَمِعْتَ بِرَاعٍ ... رَدَّ فِي الضَّرْعِ مَا قَرَى فِي الْحِلَابِ
وَيُرْوَى فِي الْعِلَابِ. وَإِذَا أَمَرْتَ مِنْهُ عَلَى الْأَصْلِ قُلْتَ: ارْءَ وَعَلَى الْحَذْفِ رِهْ. وَ (أَرَيْتُهُ) الشَّيْءَ (فَرَآهُ) وَأَصْلُهُ (أَرْأَيْتُهُ) . وَ (ارْتَآهُ) وَهُوَ افْتَعَلَ مِنَ الرَّأْيِ وَالتَّدْبِيرِ.
مختارالصحاح 1/115
رأي: الرُّؤْيَة بالعَيْن تَتَعدَّى إِلَى مَفْعُولٍ وَاحِدٍ
لسان العرب14/291
ان حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رای کا تعلق رویت سے ہے لہذا رای کے معنی لغویوں کے ا عتبار سے دیکھنے کے اورمنتہائے بصرکی رویت کے ہیں۔یہ اس کا لغوی معنی ہے۔ پھراسی سے ترقی کرکے رای کو عقل اورفہم کے معنی میں بھی استعمال کیاگیاہے ۔چنانچہ یہ مشہور ہی ہے کہ صاحبان عقل وفہم کو اہل الرائے کہاجاتاہے۔

حدیث میں بھی آتاہے کہ جب آنحضرت ﷺ سے پوچھاگیاکہ حزم (عقل کی پختگی)کیاہے توآپ نے فرمایاکہ انسان اہل الرائے سے مشورہ کرے اوران کے مشورہ کی اطاعت کرے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَسَدٍ الْخُشَنِيُّ , حَدَّثَنَا مَعْنٌ , حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ , عَنْ يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ , عَنْ أَبِي الصَّبَّاحِ , أَنَّ رَجُلًا , سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ مَا الْحَزْمُ؟ قَالَ: «تَسْتَشِيرُ أَهْلَ الرَّأْيِ , ثُمَّ تُطِيعُهُمْ»غریب الحدیث لابراہیم الحربی2/475

یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے کیونکہ عبدالرحمن بن ابی بکر ضعیف راوی ہیں اورابوالصباح جن کاپورانام مثنی ہے وہ ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ اختلاط کے بھی شکار ہیں۔
لیکن اس حدیث کی تائید میں قوی مرسل روایتیں موجود ہیں۔ جو امام ابوداؤد نے مراسیل میں ذکر کی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَرْوَانَ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُعَافَى بْنُ عِمْرَانَ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا الْحَزْمُ ؟ ، قَالَ : " أَنْ تُشَاوِرَ ذَا رَأْيٍ ثُمَّ تُطِيعُهُ " . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَزِيرِ ، أَنْ يَحْيَى بْنَ حَسَّانَ حَدَّثَهُمْ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، أَنَّ رَجُلا ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَذَكَرَ مِثْلَ ذَلِكَ ، وَقَالَ : " ذَا لُبٍّ " .
وَحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَشِيطٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَنِ الْحَزْمِ ، فَقَالَ : " تَسْتَشِيرُ الرَّجُلَ ذَا الرَّأْيِ ، ثُمَّ تَمْضِي إِلَى مَا أَمَرَكَ بِهِ " .المراسیل مع الاسانید لابی داؤد

رای کی فقہی اوراصطلاحی تعریف
وأما الرأي: فاستخراج صواب العاقبة.
فمن وضع الرأي في حقه، واستعمل النظر في وضعه، سدده إلى الحق المطلوب، كمن قصد الجامع يسلك طريقه ولم يعدل عنه أداه إليه وأورده عليه.
العدۃ فی اصول الفقہ 1/184

فَأَما الرَّأْي فَمَا أوصل اليه الحكم الشَّرْعِيّ من الِاسْتِدْلَال وَالْقِيَاس وَلذَلِك قَالَ معَاذ اجْتهد رأبي وَكتب عمر هَذَا مَا وَالْقِيَاس وَلذَلِك قَالَ معَاذ أجتهد رابي وَكتب عمر هَذَا مَا رأى عمر وَقَالَ عَليّ عَلَيْهِ السَّلَام رأبي ورأي عمر أَن لَا يتعن ثمَّ رَأَيْت بيعهنَّ يَعْنِي أُمَّهَات الْأَوْلَاد وَفِيه دلَالَة على بطللان قَول من يرد الرَّأْي ويذمهالفروق اللغویہ للعسکری1/79

حافظ ابن قیم رای کے بارے میں لکھتے ہیں۔
[مَعْنَى الرَّأْيِ]
الرَّأْيُ فِي الْأَصْلِ مَصْدَرُ " رَأَى الشَّيْءَ يَرَاهُ رَأْيًا " ثُمَّ غَلَبَ اسْتِعْمَالُهُ عَلَى الْمَرْئِيِّ نَفْسِهِ، مِنْ بَابِ اسْتِعْمَالِ الْمَصْدَرِ فِي الْمَفْعُولِ، كَالْهَوَى فِي الْأَصْلِ مَصْدَرُ هَوِيَهُ يَهْوَاهُ هَوًى، ثُمَّ اُسْتُعْمِلَ فِي الشَّيْءِ الَّذِي يُهْوَى؛ فَيُقَالُ: هَذَا هَوَى فُلَانٌ، وَالْعَرَبُ تُفَرِّقُ بَيْنَ مَصَادِرِ فِعْلِ الرُّؤْيَةِ بِحَسَبِ مَحَالِّهَا فَتَقُولُ: رَأَى كَذَا فِي النَّوْمِ رُؤْيَا، وَرَآهُ فِي الْيَقِظَةِ رُؤْيَةً، وَرَأَى كَذَا - لِمَا يُعْلَمُ بِالْقَلْبِ وَلَا يُرَى بِالْعَيْنِ - رَأْيًا، وَلَكِنَّهُمْ خَصُّوهُ بِمَا يَرَاهُ الْقَلْبُ بَعْدَ فِكْرٍ وَتَأَمُّلٍ وَطَلَبٍ لِمَعْرِفَةِ وَجْهِ الصَّوَابِ مِمَّا تَتَعَارَضُ فِيهِ الْأَمَارَاتُ؛ فَلَا يُقَالُ لِمَنْ رَأَى بِقَلْبِهِ أَمْرًا غَائِبًا عَنْهُ مِمَّا يَحُسُّ بِهِ أَنَّهُ رَأْيُهُ، وَلَا يُقَالُ أَيْضًا لِلْأَمْرِ الْمَعْقُولِ الَّذِي لَا تَخْتَلِفُ فِيهِ الْعُقُولُ وَلَا تَتَعَارَضُ فِيهِ الْأَمَارَاتُ إنَّهُ رَأْيٌ، وَإِنْ احْتَاجَ إلَى فِكْرٍ وَتَأَمُّلٍ كَدَقَائِقِ الْحِسَابِ وَنَحْوِهَا.
اعلام الموقعین عن رب العالمین 1/53

ان تمام تعریفات سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ رای مسائل شرعیہ میں ان تخریجات اوراستنباط کانام ہے جو ادلہ شرعیہ میں غوروفکر کے بعد قائم کی جاتی ہے۔رای کو بسااوقات قیاس کے بھی معنی میں استعمال کیاجاتاہے اورکبھی نص نہ ہونے کی صورت میں اجتہادی آراء کو بھی رائے سے تعبیر کیاجاتاہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب حضرت معاذ کو حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی جانب بھیجا اورپوچھاکہ تم کیسے فیصلہ کروگے توانہوں نے کہاکہ قرآن اوسنت کے بعد کہاکہ اجتہدرای ۔

اس کے علاوہ صحابہ کرام ست نص نہ ہونے کی صورت میں رای کے استعمال کی مثالیں بہت سی پیش کی جاسکتی ہیں لیکن تطویل کے خوف سے ہم اس کونظرانداز کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں جامع بیان العلم وفضلہ کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔ جہاں پر حضرت ابن عبدالبر نے صحابہ کرام سے منقول کچھ ""رای""کو جگہ جمع کردیاہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اہل الرائے کون ہیں​

جیساکہ لکھ چکاہوں کہ اس لفظ ""اہل الرائے"" کا استعمال توبہت کیاجاتاہے لیکن اس کے معنی ومفہوم کی جانب توجہ بہت کم دی جاتی ہے۔یہ صرف دورحاضر کے علماء کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ قدیم دور سے چلاآرہاہے مورخین نے اس لفظ کا بے تحاشہ استعمال کیا لیکن اس سلسلے میں کسی حدونہایت کی پرواہ نہیں کی۔یعنی اگر وہ کسی کو اہل الرائے کہہ رہے ہیں توکس وجہ سے اورکسی دوسرے کو اہل الحدیث کا خطاب دے رہے ہیں تواس کی کیادلیل ہے اوردونوں کے درمیان حدفاصل کیاہے۔ مورخین کے بیانات کا یہ تضاد ہمیں واضح طورپر بتاتاہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی حدونہایت ملحوظ نہیں رکھی ہے۔

ابن قتیبہ نے معارف میں تقریباًتمام مجتہدین کو اصحاب الرائے میں شمار کیاہے اورمحدثین میں صرف انہی کو شمار کیاہے جن کا اوڑھنابچھونا روایت حدیث تھااوروہ میدان فقہ کے شہسوار نہ تھے۔لیکن پھرایک دوسرے مقام پر امام ابوحنیفہ اوران کے شاگردوں کو انہوں نے اہل الرائے سے تعبیر کیاہے۔

کچھ یہی حال مقدسی کابھی رہاہے۔ انہوں نے بھی احسن التقاسیم میں امام احمد بن حنبل اوراسحاق بن راہویہ کو محدثین میں شمار کیاہے فقہی مذاہب کے بانیوں میں شمار نہیں کیاہے جیساکہ حنفیہ ،مالکیہ شافعیہ اورظاہریہ کو شمار کیاہے۔ ایک دوسرے مقام پر وہ شافعیہ کو اہل الحدیث قراردیتے ہیں حنفیہ کو اہل الرائے قراردیتے ہیں۔ تیسرے مقام پر امام ابوحنیفہ اورامام شافعی کو اہل الرائے قراردیتے ہیں اورامام احمد بن حنبل کو اہل الحدیث قراردیتے ہیں۔

شہرستانی کی عبارت ابوالحسن علوی صاحب نے ضرور نقل کی لیکن وہ اس میں غوروفکر نہ کرسکے کہ شہرستانی کی یہ عبارت نہایت ناقص اورغلط فہمی پیداکرنے والی ہے۔شہرستانی لکھتے ہیں۔

'' ثم المجتھدون من أئمة الأمة محصورون فی صنفین لایعدوان الی ثالث ؛ أصحاب الحدیث وأصحاب الرأی. أصحاب الحدیث ؛ وھم أھل الحجاز ھم أصحاب مالک بن أنس وأصحاب محمد بن دریس الشافعی وأصحاب سفیان الثوری وأصحاب أحمد بن حنبل وأصحاب داؤد بن علی بن محمد الأصفھانی وانما سموا أصحاب الحدیث لأن عنیاتھم بتحصیل الأحادیث ونقل الأخبار وبناء الأحکام علی النصوص ولایرجعون الی القیاس الجلی والخفی ما وجدوا خبرا أو أثرا...أصحاب الرأی ؛ وھم أھل العراق ھم أصحاب أبی حنیفة النعمان بن ثابت، ومن أصحابہ ؛ محمد الحسن وأبو یوسف یعقوب بن براھیم بن محمد القاضی وزفر بن الھذیل والحسن بن زیاد اللؤلؤی وابن سماعة وعافیة القاضی وأبو مطیع البلخی وبشر المریسی وانما سموا أصحاب الرأی لأن أکثر عنایتھم بتحصیل وجہ القیاس والمعنی المستنبط من الأحکام وبناء الحوادث علیھا وربما یقدمون القیاس الجلی علی آحاد الأخبار.'' (الملل والنحل : جلد 1، ص 206)''
امت مسلمہ کے مجتہدین دو قسم پر ہیں اوران کے علاوہ کوئی تیسری قسم نہیں ہے اور یہ اصحاب الحدیث اور اصحاب الرائے ہیں۔ اصحاب الحدیث سے مراد اہل حجاز ہیں جن میں امام مالک بن انس، امام محمد بن ادریس شافعی، سفیان ثوری اور ان کے اصحاب، امام احمد بن حنبل، امام داؤد بن علی اصفہانی رحمہم اللہ اجمعین وغیرہ شامل ہیں۔ انہیں اصحاب الحدیث کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ حدیث کو حاصل کرنے اور اسے نقل کرنے کا بہت اہتمام کرتے ہیں اور کتاب وسنت کی نصوص پر فتاوی کی بنیاد رکھتے ہیں اور اگر کوئی روایت یا اثر موجود ہو تو اس کی موجودگی میں کسی قیاس جلی یا خفی کے قائل نہیں ہیں...دوسری قسم اصحاب الرائے کی ہے اور یہ اہل عراق ہیں۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب امام محمد ، قاضی ابو یوسف، امام زفر، حسن بن زیاد ، ابن سماعہ، عافیہ القاضی، ابو مطیع بلخی اور بشر المریسی رحمہم اللہ وغیرہ ہیں۔ انہیں اصحاب الرائے کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی توجہ قیاس اور احکام شرعیہ سے مستنبط معنی ومفہوم اور اس کا جدید حوادث پر اطلاق وغیرہ میں صرف کی ہے اور اس وجہ سے بھی ان کو اہل الرائے کہتے ہیں کہ بعض اوقات یہ حضرات قیاس جلی کو اخبار آحاد پر ترجیح بھی دے جاتے ہیں۔''

یہ ابوالحسن علوی صاحب سے نقل شدہ شہرستانی کی عبارت اورترجمہ ہے۔
اس میں محل نظربات یہ ہے کہ شہرستانی سیدھے مقام کے اعتبار سے اہل حدیث اوراہل رائے کے درمیان فرق کررہے ہیں کہ جوحجاز کے ہیں وہ اہل حدیث ہیں اورجوعراق کے ہیں وہ اہل الرائے ہیں۔ حالانکہ دونوں جگہ اہل الحدیث اوراہل الرائے کثیرتعداد میں موجود تھے۔پھرسفیان ثوری اوران کے شاگردوں کا تعلق حجاز سے تھایاعراق سے تھا؟پھراگرمکانی اعتبار سے تقسیم کیاجائے تو حجاز سے زیادہ محدثین عراق اوربغدادکے ہیں۔لہذا شہرستانی کی یہ تقسیم اصولی طورپر غلط ہے کہ جوححاز کا ہے وہ اہل الحدیث اورجوعراق کا ہے وہ اہل الرائے۔

پھراسی طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ احکام شرعیہ سے مسائل کا استنباط صرف اہل الرائے ہی کرتے ہیں کیاامام مالک اورامام شافعی ایسانہیں کرتے۔جس شخص نے بھی امام شافعی کی تصنفیات اورامام مالک سے منقول مسائل کا مطالعہ کیاہوگاوہ ہواضح طورپر کہہ دے گاکہ ان سے منقول قیاسی مسائل کی تعداد کچھ کم نہیں ہے۔لہذا شہرستانی کی یہ تقسیم نہ مکانی اعتبار سے درست قرارپاتی ہے اورنہ ہی اپنے بیان کردہ معیار کے اعتبار سے۔
محترم ابوالحسن علوی صاحب نے اس سلسلے میں ابن خلدون کی بھی رائے ذکر کی ہے۔

ابن خلدون کے ذکر سے یاد آیاکہ سجدہ سہو کے احکام کے تھریڈ میں جب محترم ابوالحسن علوی صاحب نے اپنی خانہ زاد تعریف اہل الرای کی بیان کی تھی اس پر جب راقم الحروف نے انکو مقدمہ ابن خلدون کی مراجعت کا مشورہ دیاتوانہوں نے فرمایاتھا

آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر انسان سائنس کے مسائل فلسفہ کی کتابوں میں تلاش کرنا شروع کردے تو واقعتا اسے پریشانی توہوتی ہے کہ وہاں یہ مسائل نہیں ملتے ہیں۔ بہرحال کیا کریں ؟مصنقفین پر اعتراضات کریں؟ کہ وہ ایک ہی فن کی کتاب میں ہر قسم کے فن کے مسائل جمع کیوں نہیں کر دیتے ہیں۔ بہرحال میں اس بارے تاحال کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پایا ہوں ۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/نماز-5/سجدہ-سہوكے-أحکام-1066/index4.html#post6506

خداکا شکرہے کہ ان کو سائنس کے مسائل فلسفہ کی کتابوں میں مل گئے اورانہوں نے وہاں سے لے کر نقل بھی کردیاہے۔

ابن خلدون نے ابن قتیبہ اوشہرستانی کے برعکس علماء اسلام کو تین گروہوں میں تقسیم کیاہے۔ اہل الرائے۔ اہل الحدیث اوراہل الظاہر۔

ابن خلدون کی یہ تقسیم ابن قتیبہ اورشہرستانی سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ ظاہری حضرات اوردیگر علماء اسلام میں بنیادی فرق قیاس کی حجیت کاہے۔لہذا بہتریہی ہے کہ اہل ظاہر کو الگ سے ظاہر کیاجائے ان کو اہل الحدیث میں مندرج نہ کیاجائے۔

وانقسم الفقہ فیھم الی طریقتین ؛ طریقة أھل الرأی والقیاس، وھم أھل العراق، وطریقة أھل الحدیث، وھم أھل الحجاز، وکان الحدیث قلیلا فی أھل العراق کما قدمناہ، فاستکثروا من القیاس ومھروا فیہ، فلذلک قیل أھل الرأی، ومقدم جماعتھم الذی استقر المذھب فیہ وفی أصحابہ أبو حنیفة، وامام أھل الحجاز مالک بن أنس والشافعی من بعدہ. ثم أنکر القیاس طائفة من العلماء وأبطلوا العمل بہ، وھم الظاھریة. وجعلوا مدارک الشرع کلھا منحصرة فی النصوص والجماع وردوا القیاس الجلی والعلة المنصوصة الی النص، لأن النص علی العلة نص علی الحکم فی جمیع محالھا. وکان امام ھذا المذھب داؤد بن علی وابنہ وأصحابھما. وکانت ھذہ المذاھب الثلاثة ھی مذاھب الجمھور المشتھرة بین الأمة. وشذ أھل البیت بمذاھب ابتدعوھا وفقہ انفردوا بہ، وبنوا علی مذھبھم فی تناول بعض الصحابة بالقدح، وعلی قولھم بعصمة الأئمة ورفع الخلاف عن أقوالھم، وھی کلھا أصول واھیة. وشذ بمثل ذلک الخوارج.'' (مقدمہ ابن خلدون،الفصل السابع، علم الفقہ وما یتبعہ من الفرائض)ابن خلدون نے بھی وہی غلطی کی ہے جو کہ شہرستانی کرچکے ہیں ۔طریقۃ اہل الرائے والقیاس وھم اہل العراق،وطریقہ اہل الحدیث وھم اہل الحجاز۔

یہ تقسیم ہی اصولی اعتبار سے غلط ہے۔جیساکہ اس کی وضاحت آگے آئے گی۔اوراس سے بھی زیادہ بڑی غلطی ابن خلدون کی یہ ہے کہ وکان الحدیث قلیلافی اھل العراق کماقدمناہ۔

ابن خلدون کے اس جملہ کی بعد کے علماء نے اس قدر تقلید کی کہ حیرت ہوتی ہے۔اگربعد کے مورخین اورسوانح نگاروں کے اس جملہ کی تلاش کی جائے کہ کان الحدیث قلیلافی اھل العراق تومیرے خیال سے کتابوں کی ایک لمبی فہرست تیار ہوجائے گی۔ کسی نے بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ذرامحدثین کا جائزہ لے لیں کہ بیشتر محدثین کہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ عراق کوفہ بصرہ،بغداد سے یادیگر مقامات سے۔اگرکسی کو خداتوفیق دے تو وہ صرف تذکرۃ الحفاظ سے ان محدثین کا انتخاب کرے جن کا تعلق عراق سے تھااوران کا جن کا تعلق حجاز سے تھا۔ بات واضح ہوجائے گی۔

قابل غور بات یہ ہے کہ ابن خلدون نے اہل الحدیث اوراہل الرائے کی تقسیم توکردی لیکن یہ بتانے کی زحمت قطعاگواراہ نہیں کہ کسی کو اہل الرائے کیوں کہاجائے گا۔ وہ کون سافرق اورامتیاز ہے اوروہ کون ساجوہری فرق ہے جس کی بنیاد پر ایک فرد کو اہل الرائے میں شمار کیاجائے اوردوسرے کو اہل الحدیث میں۔ اس وضاحت سے ابن خلدون کی عبارت خالی ہے۔لہذا ابن خلدون کی یہ عبارت اس مقصد کیلئے قطعاناکافی ہے جس پر بحث کی جارہی ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی اہل الرائے کی تعریف

اہل الرائے اوراہل الحدیث کے درمیان فرق وامتیاز کے تعلق سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف میں بحث کی ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ محترم ابوالحسن علوی صاحب نے اس بحث میں مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ کی جانب قطعاتوجہ نہیں دی۔

شاہ ولی اللہ پہلے لکھتے ہیں کہ اہل الحدیث ہوں یااہل الرائے عقل فہم اورسمجھ میں سبھی برابر کے حصہ دار ہیں۔یہ دراصل اس الزام کے دفعیہ کیلئے ہے کہ اگرصرف احناف اہل الرائے ہیں اوردوسرے اہل الرائے نہیں تو عقل وفہم پر بلاشرکت غیرے احناف کا ہی قبضہ رہتاہے۔بقیہ اس سے محروم قرارپاتے ہیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں۔
وجدت بَعضهم يزْعم أَن هُنَاكَ فرْقَتَيْن لَا ثَالِث لَهما الظَّاهِرِيَّة وَأهل الرَّأْي وَأَن كل من قَاس واستنبط فَهُوَ من أهل الرَّأْي كلا بل لَيْسَ المُرَاد بِالرَّأْيِ نفس الْفَهم وَالْعقل فان ذَلِك لَا يَنْفَكّ من أحد من الْعلمَاءالانصاف فی بیان اسباب الاختلاف93

اس کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں کہ اہل الحدیث اوراہل الرائے میں کیافرق ہے۔ دونوں کے درمیان وجہ امتیاز کیاہے۔اس سلسلے میں ان کی رائے یہ ہے کہ اہل الحدیث اوراہل الرائے کے درمیان وجہ تفریق وامتیاز ""تخریج"" ہے۔تخریج سے حضرت شاہ ولی اللہ کی مراد یہ ہے۔

بل المُرَاد من أهل الرَّأْي قوم توجهوا بعد الْمسَائِل الْمجمع عَلَيْهَا بَين الْمُسلمين أَو بَين جمهورهم إِلَى التَّخْرِيج على أصل رجل من الْمُتَقَدِّمين وَكَانَ أَكثر أَمرهم حمل النظير على النظير وَالرَّدّ إِلَى أصل من الْأُصُول دون تتبع الْأَحَادِيث والْآثَاروَلَا الرَّأْي الَّذِي لايعْتَمد على سنة أصلا فَإِنَّهُ لَا يَنْتَحِلهُ مُسلم الْبَتَّةَ(المصدرالسابق)

شاہ صاحب نے اپنے اس نظریہ کی دوسری جگہ وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

كَانَ بِإِزَاءِ هَؤُلَاءِ فِي عصر مَالك وسُفْيَان وبعدهم قوم لَا يكْرهُونَ الْمسَائِل وَلَا يهابون الْفتيا وَيَقُولُونَ على الْفِقْه بِنَاء الدّين فَلَا بُد من إشاعته ويهابون رِوَايَة حَدِيث رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَالرَّفْع إِلَيْهِ حَتَّى قَالَ الشّعبِيّ على من دون النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أحب إِلَيْنَا فَإِن كَانَ فِيهِ زِيَادَة أَو نُقْصَان كَانَ على من دون النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَقَالَ إِبْرَاهِيم أَقُول قَالَ عبد الله وَقَالَ عَلْقَمَة أحب إِلَيّ وَكَانَ ابْن مَسْعُود إِذا حدث عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم تَرَبد وَجهه وَقَالَ هَكَذَا أَو نَحوه
وَقَالَ عمر حِين بعث رهطا من الْأَمْصَار إِلَى الْكُوفَة إِنَّكُم تأتون الْكُوفَة فَتَأْتُونَ قوما لَهُم أزيز بِالْقُرْآنِ فيأتونكم فَيَقُولُونَ قدم أَصْحَاب مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قدم أَصْحَاب مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فيأتونكم فيسألونكم عَن الحَدِيث فأقلوا الرِّوَايَة عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
وَقَالَ ابْن عون كَانَ الشّعبِيّ إِذا جَاءَهُ شَيْء أتقى وَكَانَ إِبْرَاهِيم يَقُول وَيَقُول أخرج هَذِه الْآثَار الدَّارمِيّ
فَوَقع تدوين الحَدِيث وَالْفِقْه والمسائل من حَاجتهم بموقع من وَجه آخر وَذَلِكَ أَنه لم يكن عِنْدهم من الْأَحَادِيث والْآثَار مَا يقدرُونَ بِهِ على استنباط الْفِقْه على الْأُصُول الَّتِي اخْتَارَهَا أهل الحَدِيث وَلم تَنْشَرِح صُدُورهمْ للنَّظَر فِي أَقْوَال عُلَمَاء
الْبلدَانِ وَجَمعهَا والبحث عَنْهَا واتهموا أنفسهم فِي ذَلِك وَكَانُوا اعتقدوا فِي أئمتهم أَنهم فِي الدرجَة الْعليا من التَّحْقِيق وَكَانَت قُلُوبهم أميل شَيْء إِلَى أَصْحَابهم كَمَا قَالَ عَلْقَمَة هَل أحد مِنْهُم أثبت من عبد الله وَقَالَ أَبُو حنيفَة رَحمَه الله تَعَالَى إِبْرَاهِيم أفقه من سَالم وَلَوْلَا فضل الصُّحْبَة لَقلت عَلْقَمَة أفقه من ابْن عمر
وَكَانَ عِنْدهم من الفطانة والحدس وَسُرْعَة انْتِقَال الذَّهَب من شَيْء إِلَى شَيْء مَا يقدرُونَ بِهِ على تَخْرِيج جَوَاب الْمسَائِل على أَقْوَال أَصْحَابهم وكل ميسر لما خلق لَهُ و {كل حزب بِمَا لديهم فَرِحُونَ}فمهدوا الْفِقْه على قَاعِدَة التَّخْرِيج وَذَلِكَ أَن يحفظ كل أحد كتاب من هُوَ لِسَان أَصْحَابه وأعرفهم بأقوال الْقَوْم وأصحهم نظرا فِي التَّرْجِيح فيتأمل فِي كل مَسْأَلَة وحه الحكم فَكلما سُئِلَ عَن شَيْء أَو احْتَاجَ إِلَى شَيْء رأى أَي نظر فِي فِيمَا يحفظه من تصريحات أَصْحَابه فان وجد الْجَواب فبها وَإِلَّا نظر إِلَى عُمُوم كَلَامهم فأجراه على هَذِه الصُّورَة أَو إِلَى إِشَارَة ضمنية لكَلَام فاستنبط مِنْهَاوَرُبمَا كَانَ لبَعض الْكَلَام إِيمَاء أَو اقْتِضَاء يفهم الْمَقْصُود
وَرُبمَا كَانَ للمسألة الْمُصَرّح بهَا نَظِير يحمل عَلَيْهَا وَرُبمَا نظرُوا فِي عِلّة الحكم الْمُصَرّح بِهِ بالتخريج أَو بالسبر والحذف فأداروا حكمه على غير الْمُصَرّح بِهِ وَرُبمَا كَانَ لَهُ كلامان لَو اجْتمعَا على هَيْئَة الْقيَاس الاقتراني أَو الشرطي أنتجا جَوَاب الْمَسْأَلَة
وَرُبمَا كَانَ فِي كَلَامهم مَا هُوَ مَعْلُوم بالمثال وَالْقِسْمَة غير مَعْلُوم بِالْحَدِّ الْجَامِع الْمَانِع فيرجعون إِلَى أهل اللِّسَان
ويتكلفون تَحْصِيل ذاتياته وترتيب حد جَامع مَانع لَهُ وَضبط مبهمه وتمييز مشكله وَرُبمَا كَانَ كَلَامهم مُحْتملا لوَجْهَيْنِ فَيَنْظُرُونَ فِي تَرْجِيح أحد المحتملين وَرُبمَا يكون تقريب الدَّلَائِل للمسائل خفِيا فيبينون ذَلِك وَرُبمَا اسْتدلَّ بعض المخرجين من فعل أئمتهم وسكوتهم وَنَحْو ذَلِك
فَهَذَا هُوَ التَّخْرِيج


اس پورے کلام کو ہم نے تفصیل سے اس لئے ذکر کردیاہے تاکہ شاہ صاحب کا نظریہ تخریج واضح ہوکر سامنے آسکے۔

شاہ صاحب کے نظریہ تخریج میں کئی باتیں محل نظر ہیں۔

شاہ صاحب پہلے کہتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے تھے جوروایت حدیث سے پرہیز کرتے تھے لیکن مسئلہ اورفتاوی کے جواب سے پرہیز نہیں کرتے تھے۔توجولوگ حدیث کی روایت سے پرہیز کرتے ہوں اوران سے روایت کم منقول ہوں توصرف قلت روایت کو دیکھ کر یہ فیصلہ کردینا کہ علم حدیث میں ان کا پایہ کم تھا درست نظریہ نہیں ہے۔
اس کی وضاحت راقم الحروف کفایت اللہ صاحب سے بحث کےتھریڈ میں کرچکاہے۔ مناسب ہے کہ وہاں کا پورابیان نقل کرنے کے بجائے اس کا لنک دے دیاجائے تاکہ نئے پڑھنے والوں کوبھی آگاہی مل سکے۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/فقہاء-126/امام-ابوحنیفہ-رضی-اللہ-عنہ-کا-مقام-ومرتبہ-حافظ-ذہبی-کی-نگاہ-1508/index4.html#post10459

شاہ صاحب کا نظریہ تخریج جسے وہ اہل الرائے اوراہل الحدیث کے درمیان حد فاصل مانتے ہیں۔کئی بناء پر قابل قبول نہیں ہے۔ ایک تو وہ امام ابوحنیفہ کے فقہی مقام ومرتبہ اوران کی جلالت قدر کے خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ شاہ صاحب کے اس نظریہ تخریج پر اوران کو ابراہیم نخعی اوردیگر فقہاء کوفہ کے اقوال کی تخریج تک محدودکرنے پر شیخ ابوزہرہ،دکتور عبدالمجید اوردیگر محققین نے تنقید کی ہے۔

دوسرے وہ خود ہی اسی کتاب میں دوسرے مقامات پر اعتراف کرچکے ہیں کہ تخریج دوصدیوں کے بعد تیسری صدی ہجری میں پیداہوئی ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔

إعلم أَن النَّاس كَانُوا فِي الْمِائَة الأولى وَالثَّانيَِة غير مُجْمِعِينَ على التَّقْلِيد لمَذْهَب وَاحِد بِعَيْنِه قَالَ أَبُو طَالب الْمَكِّيّ فِي قوت الْقُلُوب إِن الْكتب المجموعات محدثة وَالْقَوْل بمقالات النَّاس والفتيا بِمذهب الْوَاحِد من النَّاس واتخاذ قَوْله والحكاية لَهُ فِي كل شَيْء والتفقه على مذْهبه لم يكن النَّاس قَدِيما على ذَلِك فِي القرنين الأول وَالثَّانِي انْتهىأَقُول وَبعد القرنين حدث فيهم شَيْء من التَّخْرِيج۔الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف 68
ان کے اپنے اعتراف کے مطابق کہ تخریج کا سلسلہ دوسری صدی ہجری کے بعد تھوڑاتھوڑاشروع ہوا۔ 150ہجری میں انتقال کرنے والے امام ابوحنیفہ کو اہل الرای میں کیسے شمار کیاجاسکتاہے اورتخریج کو ان پرچسپاں کرکے انکو اہل الرای میں کیسے شمار کیاجاسکتاہے۔

بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ حضرت شاہ ولی اللہ نے جس تخریج کو اہل الرای اوراہل الحدیث میں وجہ فرق وامتیاز قراردیاتھا وہ ان کے اپنے اعتراف کے مطابق دوسرے مذاہب کے یہاں بھی پایاجاتاہے۔حضرت شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں۔

فَوَقع التَّخْرِيج فِي كل مَذْهَب، وَكثر(حجۃ اللہ البالغہ1/260)

ایک دوسرے مقام وہ اہل حدیث حضرات کااصول بیان کرتے ہوئے اوریہ کہتے ہوئے کہ ان میں بھی اہل تخریج گزرے ہیں وہ لکھتے ہیں۔

وَكَانَ أهل التَّخْرِيج مِنْهُم يخرجُون فِيمَا لَا يجدونه مُصَرحًا، ويجتهدون فِي الْمَذْهَب، وَكَانَ هَؤُلَاءِ ينسبون إِلَى مَذْهَب أحدهم فَيُقَال: فلَان شَافِعِيّ، وَفُلَان حَنَفِيّحجۃ اللہ البالغۃ ص1/261
ان تمام امور کی موجودگی میں تخریج کو اہل الرائے اوراہل الحدیث کے درمیان حد فاصل بنانا اورامام ابوحنیفہ کو اہل الرائے میں قراردینے کیلئے تخریج کو وجہ امتیاز بنانا درست نہیں لگتا۔

میرے علم کے مطابق حضرت شاہ ولی اللہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اہل الحدیث اوراہل الرائے کے درمیان واضح طورپرفرق اورامتیاز بیان کیاہے لیکن ان کا بیان کردہ فرق درست ہے۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا خود کو اہل حدیث کہنا اوردوسروں کو اہل الرائے کسی بھی طورپر درست نہیں ہے جب تک وہ اس کی واضح حد بندی بیان نہ کردیں۔جس طرح کہ ظاہریہ حضرات نے کیاہے۔ وہ قیاس کے منکر ہیں اوراسے اسلامی شریعت کا ایک ماخذ نہیں مانتے ۔یہ نہایت اہم اوربنیادی حد فاصل ہے۔

جولوگ مالکیہ ،شافعیہ اورحنابلہ کو اہل الحدیث بتاکر حنفیہ کو اس سے خارج کررہے ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بتائیں کہ وہ کون ساجوہری فرق ہے جس کی بناء پر یہ تینوں اہل الحدیث ہوجائیں اورحنفیہ اہل الرائے کہلائیں۔

قیاس اوررائے وجہ تفریق نہیں بن سکتاکیونکہ یہ سبھی کے یہاں مشترک ہے۔ فقہ تقدیری بھی وجہ امتیاز نہیں بن سکتاکیونکہ کم وبیش یہ چیز بھی ہرایک کے یہاں موجود ہے۔خصوصا بعد کے فقہاء حنابلہ،مالکیہ،شافعیہ میں سے کون ہے جس نے فقہ تقدیر ی کو اپنی جولان گاہ نہیں بنایا۔امام شافعی کے مناظرات دیکھئے فقہ تقدیری سے بھرے پڑے ہیں۔

اگریہ کہاجائے کہ عراق میں حدیث کم تھی اورامام ابوحنیفہ کو کم حدیثیں پہنچی تھیں(یہ نہایت غلط مفروضہ اورمن گھڑت خیال ہے اس کیلئے انشاء اللہ پھر کبھی وقت نکلاجائے گاکہ عراق حدیث کے اعتبار سے کتنا زرخیز اوروہاں کے محدثین کرام کس مقام بلند کے حامل ہیں)توہماراجواب یہ ہوگاکہ

کم وبیش ایک اضافی اورنسبتی امرہے۔کہ ایک شخص اپنے لحاظ سے کثیر الحدیث ہے لیکن اپنے سے زیادہ بڑے محدث کے لحاظ سے قلیل الحدیث ہوسکتاہے۔اکبراوربیربل کا مشہور لطیفہ سبھوں کومعلوم ہوگاکہ بغیر لکیر کاٹے کسی لکیر کو کس طرح چھوٹی کردی جاسکتی ہے۔اورآئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کی بھی تھوڑی سدھ بدھ ضرور ہوگی۔مثلاامام ابوحنیفہ کو اگرہم قلیل الحدیث ہونے کی وجہ سے اہل الرائے کہیں تویہی بات امام شافعی پربھی صادق آتی ہے کہ وہ امام احمد بن حنبل کے لحاظ سے قلیل الحدیث ہیں جیساکہ چند دیگر محدثین عجلی اوردوسروں نے کہاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ مالکیہ ،شافعیہ،حنابلہ اہل الحدیث ہیں اوراحناف اہل الرائے ہیں۔ان کے پاس صرف جذباتی بیان بازیاں ہیں۔ اس تعلق سے ان کے پاس دلیل کے نام پر کوئی چیز نہیں ہے۔دکتورعبدالمجید محمود عبدالمجید لکھتے ہیں۔

اماالتقسیم الذی یضع المذہب الحنفی تحت شعار(اھل الرای)ویضع باقی المذاہب تحت شعار (اھل الحدیث)فلیس قائماعلی اساس،وانمایقوم علی اساس عاطفی نفسی۔(الاتجاہات الفقھیہ عنداہل الحدیث فی القرن الثالث الہجری ص91)
دکتور عبدالمجید محمود عبدالمجید کی رائے یہ ہے اوردرست رائے ہے کہ امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ،اور وہ محدثین جو روایت واسناد میں مشغول رہے ان کو اہل الحدیث کے زمرہ میں رکھاجائے۔
مالکیہ،حنابلہ،شافعیہ کو اہل الرائے کے ضمن میں رکھاجائے۔

(واضح رہے کہ دکتور عبدالمجید کی رائے یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ امام احمد بن حنبل اہل حدیث کے امام تھے لیکن حنابلہ اورحنفیہ میں(امام ابوحنیفہ اورامام احمد بن حنبل میں نہیں)کوئی جوہری فرق نہیں ہے۔)

اس لحاظ سے اہل الرائے اوراہل الحدیث کے درمیان فرق وامتیاز کیلئے وہ تعریف مناسب ہے جو کہ شیخ خضری بک نے تاریخ التشریع الاسلامی میں کی ہے۔ چنانچہ وہ اہل الرائے کے بارے میں لکھتے ہیں۔
اما اھل الرائے والقیاس،فانہم راؤ الشریعۃ معقولۃ المعنی،راوااصولاعامۃ نطق بہاالقرآن الکریم،وایدتہاالسنۃ وراوا کذلک لکل باب من ابواب الفقہ اصولااخذوہا من الکتاب والسنۃ ،وردو الیہا جمیع المسائل التی تعرض من ھذاالباب ولولم یکن فیہانص وھم بالنسبۃ الی السنۃ کالاولین متی وثقوا من صحتھا۔
اہل الحدیث کے بارے میں وہ لکھتے ہیں۔
اھل الحدیث قبلتہم النسۃ باعتبارھامکملاللقرآن وباعتبارھا نصوصا تعبدبہاالشارع الاسلامی من دان بالاسلام،من غیرنظرالی علل راعاھا فی تشریعہ،ولااصولاعامۃ یرجع الیھاالمجہتد،ولاصولاخاصۃ بالابواب المختلفۃ،فہم المتشرعون الحرفیون،ومن اجل ذلک نراھم اذالم یجدوانصافی المسالۃ سکتوا ولم یفتوا۔تاریخ التشریع الاسلامی ص197
اب اخیر میں مناسب ہے کہ اہل الرائے کے بارے میں مشہور حنبلی عالم سلیمان بن عبدالقوی الطوفی الحنبلی کی رائے بھی ذکر کردی جائے جو انہوں نے نے مختصرالروضہ کی شرح میں
لکھاہے۔
''واعلم ان اصحاب الرای بحسب الاضافة ھم کل من تصرف فی الاحکام بالرای ،فیتناول جمیع علماء الاسلام ،لان کل واحد من المجتہدین لایستغنی فی اجتھادہ عن نظرورای ،ولوبتحقیق المناط ،وتنقیحہ الذی لانزاع فی صحتہ وامابحسب العلمیة فھو فی عرف السلف 'من الرواة بعد محنة خلق القران'علم علی اہل العراق وھم اہل الکوفة ،ابوحنیفة ومن تابعہ منھم وبالغ بعضھم فی التشنیع علیہ وانی واللہ لااری الاعصمتہ مماقالوہ،وتنزیہ عماالیہ نسبوہ ،وجملة القول فیہ:انہ قطعا لم یخالف السنة عناداً وانماخالف فیماخالف منہااجتہاداً،بحجج واضحة ،ودلائل صالحة ،وحججہ بین ایدی الناس موجودة، وقل ان ینتصف منہامخالفوہ، ولہ بتقدیر الخطاء اجر،وبتقدیر الاصابة اجران،والطاعنون علیہ اماحساد،اوجاہلون،اوجاہلون بمواقع الاجتہاد،وآخر ماصح عن الامام احمد رضی اللہ عنہ احسان القول فیہ ،والثناء علیہ ،ذکرہ ابوالورد من اصحابنافی کتاب اصول الدین
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

معین

رکن
شمولیت
اپریل 26، 2011
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
145
پوائنٹ
49

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اہل الرائے اوراہل الحدیث کے درمیان محترم ابوالحسن علوی صاحب نے 7مسائل اختلافی ذکر کئے ہیں۔انہوں نے ان سات مسائل کوکس طرح اہل الرائے اوراہل الحدیث کے درمیان وجہ تفریق بنایااورانہی سات کی کیاخاصیت ہے۔اس کاعلم مجھے نہیں ہے۔مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ اگرکوئی شخص اہل الرائے میں سے مذکورہ سات امورجو بطور وجہ تفریق ذکر کئے گئے ہیں۔ ان میں وہ احناف کے موقف سے اختلاف کرے توکیاوہ اہل الحدیث ہوجائے گا؟پھر یہ کہ ان سات امورکی تخصیص کسی متقدم عالم نے بھی کی ہے یامحض ان کی اپنی اختراع ہے۔

دوسرے یہ کہ انہوں نے چن چن کر وہ مسائل منتخب کئے جس میں امام ابوحنیفہ کا موقف ائمہ ثلاثہ سے الگ ہے۔اگراسی طرح وہ مسائل امام مالک کے ذکر کئے جائیں جن میں ان کا موقف امام ابوحنیفہ، امام شافعی اورامام احمد بن حنبل سے الگ تو کیاان کو اہل الرائے کہنادرست ہوگا۔یہی حال امام شافعی کابھی ہے۔کیاکہ انہوں نے جن مسائل میں بقیہ ائمہ سے اختلاف کیاہے ان کو ذکرکرکے ان کو اہل الرائے میں شمار کیاجائے۔یہی صورت امام احمد بن حنبل کے بھی ساتھ ہے۔

ہماری رائے توان مسائل کے بارے میں یہ ہے کہ اس کوکسی کے اہل الرائے ہونے اورکسی کے اہل الحدیث ہونے میں کو قطعاًکوئی دخل نہیں ہے۔اگردخل ہے تواس کی وجہ ابوالحسن علوی صاحب بیان کردیں۔اگرمعقول ہوئی توماننے سے انکار نہیں ہوگا۔

ہم ان 7امور کے بارے میں جن کو ابوالحسن علوی صاحب احناف اوراہل الحدیث کے درمیان وجہ تفریق مانتے ہیں ذکر کریں گے اوران میں احناف کانقطہ نظرواضح کریں گے۔لیکن اس سلسلے میں ابوالحسن صاحب کی ذکر کردہ ترتیب پر قائم نہ رہ کر حسب فرصت جوکچھ میسر ہوگا لکھاجائے گا۔

قضاء قاضی کا ظاہراوباطنانفاذ
اس کوابوالحسن علوی صاحب احناف اور اہل الحدیث اوراہل الحدیث کیوں کہئے ائمہ ثلاثہ کے درمیان وجہ تفریق مانتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں۔
اہل الرائے کے نزدیک قاضی کا فیصلہ ظاہرا اور باطنا دونوں طرح سے نافذ ہوتا ہے یعنی قاضی کا فیصلہ یا اجتہاد حرام کو حلال بنا دیتا ہے جبکہ اہل الحدیث کے نزدیک قاضی کا فیصلہ ظاہرا تو نافذ ہوتا ہے لیکن باطنا نافذ نہیں ہوتا ہے۔
قضاء قاضی کے ظاہراوباطنانفاذ کے سلسلہ میں وہ مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

مثلا ایک شخص نے کسی اجنبی عورت کے بارے عدالت میں یہ دعوی دائر کر دیا کہ اس سے میرا نکاح ہوا تھا اور اس نکاح کے بارے دو جھوٹے گواہ بھی پیش کر دیے۔ قاضی نے گواہوں کے بیان کا اعتبار کرتے ہوئے اس شخص کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ اب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس شخص کے لیے اس عورت سے استمتاع جائز ہے اور قاضی کے اس فیصلہ سے وہ اجنبی عورت اس شخص کے لیے حلال ہو جاتی ہے جبکہ اہل الحدیث کےنزدیک قاضی کا یہ فیصلہ ظاہرا تو نافذ ہو گا لیکن اس شخص کے لیے اس عورت سے استمتاع شرعا جائز نہیں ہے اور وہ عورت تاحال اس شخص کے لیے حرام ہے۔ اگر وہ اس سے تعلق قائم کرے گا تو زانی شمار ہو گا
امام صاحب کی رائے پر محدثین نے قدیم زمانے میں بھی بہت تنقید بلکہ تشنیع سے کام لیاہے اوراس کی بنیادی وجہ امام صاحب سے حسن ظن نہ رکھنا اوربدگمانی کو دل میں جگہ دیناہے۔جب کہ محدثین نے ایسے ہی شاذ اقوال دوسرے علماء سے منقول ہونے پر ویسی سخت تنقید نہیں کی جوواضح طورپر پاسداری اورجانبداری کی علامت ہے؟جب کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا واضح ارشاد ہے۔لایجرمنکم شنآن قوم علی ان لاتعدلوااعدلوا،ھواقرب للتقوی

قضاء قاضی کے ظاہراوباطنانفاذ کا مطلب
بعض لوگ غلط فہمی اورجلد بازی میں یہ سمجھ لیتے ہیں کہ قضاء قاضی کے ظاہراوباطنانفاذ کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو کوئی گناہ نہیں ہوگا اوراللہ تعالیٰ کے یہاں اس حرکت پر اس سے بازپرس نہیں ہوگی۔ جب کہ یہ امام ابوحنیفہ کا موقف قطعانہیں ہے۔امام ابوحنیفہ کاموقف یہ ہے کہ ایک شخص نے غلط اورجھوٹا دعویٰ کسی عورت سے نکاح کا کیا۔اوراپنی تائید میں دوجھوٹے گواہ پیش کردیئے۔اورقاضی نے بھی اس عورت کے مدعی کے منکوحہ ہونے کا فیصلہ کردیاتواب قضاء قاضی کی وجہ سے وہ عورت اس کی منکوحہ ہوجائے گی اوراس شخص کو حق استمتاع حاصل ہوجائے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس شخص کو جھوٹا دعویٰ کرنے اورجھوٹے گواہ پیش کرنے کا گناہ ہوگا۔

قضاء قاضی کے ظاہراوباطنا نفاذ کی شرطیں
قضاء قاضی کے ظاہراوباطنا نفاذ کی کچھ شرطیں بھی ہیں یونہی اسے مطلق اورآزاد نہیں چھوڑاگیاہے کہ جس معاملے میں جوشخص چاہے۔جوبھی دعویٰ کردےاورجھوٹے گواہ پیش کردے تواس کے تعلق سے قضاء قاضی کاظاہراوباطنا نفاذ ہوگا۔ قضاء قاضی کے ظاہراوباطنا نفاذ کی شرطیں یہ ہیں۔

اولا

قاضی کا وہ فیصلہ عقود یافسوخ سے متعلق ہو یعنی کا دعویٰ کا عقد ہو، مثلایہ دعویٰ کہ میں نے اس سے نکاح کیاتھایافسخ کا دعویٰ ہو۔مثلاکوئی عورت دعویٰ کرے کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تھی۔لہذا اگر عقود وفسوخ کا دعویٰ نہ ہو تو قضاء قاضی باطنا نافذ نہیں ہوگی۔

ثانیا

املاک مرسلہ کا دعویٰ نہ ہو۔املاک مرسلہ کامطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کسی چیزکے بارے میں اپنی ملکیت کا دعویٰ کرے لیکن ملکیت میں آنے کاسبب بیان نہ کرے ایسی املاک کا املاک مرسلہ کہاجاتاہے۔لہذا اگرکوئی شخص املاک مرسلہ کا دعوی کرے اورقاضی اس کے حق میں فیصلہ کردے تو قضاء قاضی ظاہرانافذ ہوگی باطنا نافذ نہیں ہوگی۔

ثالثاً

معاملہ انشاء کا احتمال رکھتاہو۔یعنی اس بات کااحتمال ہو کہ وہ عقد اب قائم کردیاجائے۔مثلانکاح اوراگروہ معاملہ انشاء کا احتمال نہ رکھتاہو تو اس صورت میں قاضی کا فیصلہ صرف ظاہرانافذ ہوگا۔باطنانافذ نہ ہوگا مثلاًمیراثکا دعوی۔میراث ایک مرتبہ ورثاء کی طرف منتقل ہوجاتی ہے اوراس میں دوبارہ انشاء کااحتمال نہیں رہتا۔مثلاکوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ یہ مکان مجھے اپنے باپ کی میراث میں ملاتھا اورمدعی علیہ انکار کردے اورمدعی اس پر جھوٹابینہ پیش کردے اورقاضی اس بینہ کے مطابق مدعی کے حق میں فیصلہ کردے تواس صورت میں قاضی کا فہصلہ صرف ظاہرانافذ ہوگا باطنا نافذ نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ میراث کے اندر انشاء ممکن نہیں ہے۔

رابعا

وہ معاملہ ""محل قابل للعقد""ہو یعنی اگراس محل میں ہی عقد قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تواس صورت میں قاضی کا فیصلہ نہ ظاہرا نافذ ہو گا اورنہ باطنا۔مثلاًکوئی شخص کسی محرم عورت کے بارے میں دعویٰ کرے کہ یہ میری منکوحہ ہے۔ تواس صورت میں اگروہ مدعی گواہ پیش کردے اورقاضی فیصلہ بھی کردے تب بھی اس کا فیصلہ ظاہرااورباطنا کسی طرح بھی نافذ نہیں ہوگا کیونکہ محل قابل للعقد ہی نہیں ہے۔

خامسا

قاضی نے فیصلہ بینہ کی بنیاد پر یامدعی کے نکول عن الیمین کی بنیاد پر فیصلہ کیاہو۔تب قاضی کافیصلہ باطنانافذ ہوگا۔لیکن اگر قاضی نے مدعی علیہ کی یمین کی بنیاد پر فیصلہ کیاہوتو اس صورت مین قاضی کا فیصلہ ظاہرانافذ ہوگا ۔باطنا نہیں۔بہرحال ان مذکورہ شرائط کے ساتھ حنفیہ کے نزدیک قضاء قاضی ظاہراوباطنا نافذ ہوگا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام صاحب کے موقف پر اعتراض اورجواب

عمومی طورپر یہی اعتراض کیاجاتاہے کہ اس طرح احناف نے چوپٹ دروازہ کھول دیاہے کہ جس شخص کو کوئی عورت پسند آئے وہ جھوٹی گواہی کے ذریعہ اسے حاصل کرلے۔

یہ بظاہرقوی اعتراض معلوم ہوتاہے لیکن درحقیقت سطحی اعتراض ہے ۔اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مفروضہ کی دوقسمیں ہوتی ہیں۔ وہی اورحقیقی۔

ایک مفروضہ تو وہ ہے جو بعض اندیشوں کی بنیاد پر قائم کیالیکن اس کا وقوع نہیں ہوا وہ صرف خیال اوروہم کی حد تک محدود رہ گیا
دوسرامفروضہ وہ ہوتاہے جو اندیشوں کی بنیادپر ہی قائم کئے جاتے ہین لیکن وہ وقوع پذیر ہوتے ہیں اوراورمفروضہ قائم کرنے والے کی رائے درست ہوتی ہے۔
ایک مثال دوں جب ہندوستان امریکہ صدربش کے دورصدارت مین امریکا سے نیوکلیر معاہدہ کررہاتھاتوبائیں بازو کی پارٹیاں شور مچارہی تھیں کہ اس سے ہندوستان امریکہ کا محتاج اوردست نگر بن جائے گااوربھی دنیابھر کے اندیشے۔
لیکن یہ صرف خیال تک ہی رہا۔ بعض عالمی امور میں ہندوستان نے امریکہ سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی بات سامنے رکھی۔ابھی ہندوستان نے اپناسب سے بڑادفاعی سوداکیاہے ۔اس کے حصول کیلئے امریکہ،روس،برطانیہ،فرانس کوشاں تھے۔ امریکہ صدربراک اوباما نےاس کیلئے بڑی کوششیں بھی کیں لیکن ہندوستان نے اپنے مفادات کو دھیان میں رکھتے ہوئے فرانس کے جنگی جہاز رافیل کے حق میں یہ سودا کیا۔
امام صاحب کے تعلق سے جولوگ شور مچاتے ہیں کہ انہوں نے چوپٹ دروازہ کھول دیاہے وہ صرف اس سوال کاجواب دیں۔

مسلمانوں کی چودہ سوسالہ دور حکومت میں اقتدار کے دروبست پر حنفی قابض رہے ہیں۔ قاضی بھی عموماحنفی رہے ہیں۔ حنفی فقہ ہی رائج الوقت قانون رہی ہے۔ چاہے وہ عباسی خلافت ہو، سلجوقی حکومت، عثمانی حکومت ہو، مغلیہ حکومت ہو۔ہمیں تاریخ میں ایسے کتنے واقعات ملتے ہیں کہ لوگ اس پر جری ہوگئے تھے کہ جس عورت کو دل چاہا اس کے تعلق سے جھوٹے گواہ پیش کرکے اسے حاصل کرلیتے تھے۔ تاریخ کایہ طویل دورانیہ دیکھیں اوراس کے مقابل میں ہمیں ہزار دوہزار بھی ایسے واقعات مل جائیں تو یہ اس طویل دورانیہ کے مقابلہ میں بہت کم ہوں گے ۔ہمارادعویٰ ہے کہ ہزار دوہزار توبہت دور کی بات ہے۔ اس کا پانچ فیصدبھی تاریخ سے ثابت نہیں کیاجاسکتا۔
تاریخ کی یہ گواہی بتارہی ہے کہ مخالفین کے جواندیشے تھے وہ وہمی اورخیالی تھی۔ صداقت وحقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس کے علاوہ امام صاحب کے موقف میں چند دیگر باتیں بھی قابل غور ہیں۔

کسی شخص نے کسی عورت کے خلاف منکوحہ ہونے کا دعویٰ کردیا اورقاضی نے اس کے حق میں فیصلہ کردیا توآپ کہتے ہیں کہ یہ عورت ظاہراتو اس کی منکوحہ ہے لیکن باطنا اس کی منکوحہ نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں نکاح نہیں ہوا اورعورت پر واجب ہے کہ اس فیصلے کے بعد وہ اس شخص کو اپنے اوپر قدرت نہ دے اس لئے کہ حقیقت میں وہ اس کی منکوحہ نہیں ہے اوراگر وہ عورت اس شخص کو اپنے اوپر قدرت دیتی ہے اورحق زوجیت اداکرنے کی اجازت دیتی ہے تو وہ خود گناہ گار ہوتی ہے اوراگر حق زوجیت اداکرنے نہیں دیتی تو شوہر کو قاضی کی حمایت حاصل ہے۔اس لئے کہ شوہر جاکر قاضی کی عدالت میں یہ دعویٰ کرسکتاہے کہ یہ عورت حق زوجیت اداکرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ اب قاضی شوہر کے حق میں ہی فیصلہ کرے گا۔اوراگر وہ عورت شوہر کے پاس سے بھاگ جاتی ہے تو قاضی اس کو پکڑواکر دوبارہ شوہر کے پاس بھیج دے گا۔اس طرح وہ عورت ایک عذاب میں مبتلاہوجائے گی اوراس کے پاس مخلصی کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔

اگرشوہر نے اس سے زبردستی وطی کرلی اوربچہ پیداہوگیا تو آپ کہیں گے کہ وہ بچہ ظاہراثابت النسب ہے حقیقتاثابت النسب نہیں ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر میں وہ اپنے باپ کا وارث ہے باطناوارث نہیں ۔اوراسی حالت میں جب کہ وہ عورت اس مدعی کے پاس تھی اگر اس عورت نے کسی اورسے نکاح کرلیاتواس صورت میں قاضی اس کو زانیہ قراردے گااوراس کا وہ نکاح زنا میں شمار ہوگا۔لیکن باطنا وہ نکاح درست ہے اوراس دوسرے شوہر سے اگر اس کے بچے ہوگئے تو وہ بچے ظاہراثابت النسب نہیں اورباطناثابت النسب ہیں۔
یہی معاملہ وراثت وغیرہ کابھی ہوگا۔ آپ کہیں گے کہ ایک بچہ ظاہراوارث ہے اوردوسراباطناوارث ہے۔

شیخ ظاہرالکوثری نے بھی اس مسئلہ پر تانیب الخطیب میں اچھاکلام کیاہے۔لیکن تفصیل کے خوف سے اس کو نظرانداز کرتاہوں۔یہ ساری باتیں مولاناتقی عثمانی کے درس ترمذی سے مستفادہیں۔اس موضوع پر سب سے زیادہ تفصیلی کلام میں نے مولانا تقی عثمانی کا ہی دیکھاہے جونہایت عام فہم بھی ہے۔آگے بھی کچھ باتیں مولانا تقی عثمانی صاحب کے حوالہ سے بیان کی جائیں گی۔

جیساکہ پہلے عرض کیاجاچکاہے کہ ظاہراوباطنا قاضی کے نفاذ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کو جھوٹادعویٰ اورجھوٹے پیش کرنے کا گناہ نہیں ہوگا بلکہ سخت گناہ ہوگا۔

دوسری بات یہ ہے کہ کسی چیز کا ملکیت میں آنا الگ چیز ہے اوراس ملکیت سے استفادہ الگ شے ہے۔قضاء قاضی کی بناء پر وہ عورت مدعی کی منکوحہ توبن جائے گی لیکن کیااس سے مدعی کیلئے استفادہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک جائز ہوگا۔ توامام صاحب کے نقطہ نظر اورقواعد کے لحاظ سے دیکھاجائے تواس کیلئے قضاء قاضی کی بناء پر منکوحہ بننے والی خاتون سے استمتاع جائز نہیں ہے۔اس کی مثالیں یہ ہیں۔
ایک شخص نے بیع فاسد کے ذریعہ ایک جاریہ خریدی اوراس بیع کے نتیجہ میں اس شخص کی ملکیت ثابت ہوگئی اور وہ محل ملک مین آگیا لیکن انتفاع کرنا اس جاریہ سے حلال نہیں بلکہ اس کیلئے حکم یہ ہے کہ وہ بیع کو فسخ کرے اورازسرنوصحیح طریقے سےبیع کرےتب اس جاریہ سے انتفاع کرنا حلال ہوگا۔
اسی طرح کوئی عورت کسی کی بیوی ہے اورصحیح طورپر بیوی ہے لیکن حالت حیض میں ہے اس صورت میں بھی محل "مملوک" ہے لیکن اس حالت میں انتفاع حلال نہیں۔ یہی صورت حالت احرام وحج کی ہے۔
لہذا جب حنفیہ کہتے ہیں کہ قضاء قاضی باطنانافذ ہوگی تواس کے معنی یہی ہیں کہ محل مملوک ہوگیا اورمحل مملوک ہونے کا نتیجہ یہ ہوگاکہ اگربچہ پیداہوجائے تووہ بچہ ثا بت النسب ہوگا اوراس شخص پر حد زنا جاری نہیں ہوگی لیکن اس شخص کیلئے انتفاع حلال نہیں اس لئے کہ اس نے یہ ملکیت خبیث طریقہ سے حاصل کیاہے۔اورجوچیز خبیث کسب سے ملکیت میں آئے اس سے انتفاع بھی طیب نہیں ہوگا۔ یہی بات حضرت علامہ انورشاہ کاشمیری نے بھی العرف الشذی میں ذکر کی ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
محترم ابوالحسن علوی صاحب کا بیان کردہ فرق نمبر1اور2اور3اور4دیکھ حیرت ہوتی ہے جوبات نمبر1کے فرق کے تحت بیان کی گئی ہےوہی بات نمبر2کے تحت بھی بیان کی گئی صرف انداز بیان الگ ورنہ بات وہی ہے۔یہی حال نمبر 3اورنمبر4کاہے۔

فی الحال ہمارے پیش نظر ان کا بیان کردہ فرق نمبر4ہے۔وہ لکھتے ہیں۔

اہل الحدیث اجتہادات ائمہ یا فقہ کو دائمی حیثیت نہیں دیتے ہیں جبکہ اہل الرائے نے ائمہ کے اجتہادات یا فقہ کو دائمی حیثیت دی ہے اور قیامت تک کے لیے ان کی پیروی کو ایک انتظامی مسئلہ کے طور پر بطور تقلید شخصی لازم قرار دیا ہے۔ اہل الحدیث کے نزدیک دوام صرف شریوت اسلامیہ کی نصوص کو حاصل ہے اور ائمہ کے اجتہادات عارضی اور وقتی طور پر درپیش مسائل کے حل کے لیے ہوتے ہیں جیسا کہ قاضی کا اجتہاد کسی متعین مسئلہ میں وقتی طور رفع نزاع کے لیے ہوتا ہے نہ کہ قیامت تک کے قاضیوں کے لیے قانون کا درجہ رکھتا ہے۔
میری رائے میں ان کے بیان کردہ حکم اورذکرکردہ دلیل میں بہت زیادہ تفاوت ہوتاہے اورمیرے لحاظ سے تو وہ کسی بھی طرح سے ان کے مدعا کیلئے دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ زبردستی کسی کو دلیل بنادینادوسری بات ہے۔انہوں نے ماقبل میں جودعویٰ نہیں بلکہ دعاوی کئے ہیں اس کو ہم ترتیب وار ذکرکرتے ہیں اورپھران کے ذکرکردہ دلیل کوبیان کریں گے اورجائزہ لیں گے کہ دعویٰ اوردلیل میں کیامطابقت ہے؟اورمطابقت ہے بھی یانہیں؟

1: اہل الحدیث اجتہادات ائمہ یا فقہ کو دائمی حیثیت نہیں دیتے ہیں جبکہ اہل الرائے نے ائمہ کے اجتہادات یا فقہ کو دائمی حیثیت دی ہے۔

2: اور قیامت تک کے لیے ان کی پیروی کو ایک انتظامی مسئلہ کے طور پر بطور تقلید شخصی لازم قرار دیا ہے۔

3: اہل الحدیث کے نزدیک دوام صرف شریوت اسلامیہ کی نصوص کو حاصل ہے۔

4: اور ائمہ کے اجتہادات عارضی اور وقتی طور پر درپیش مسائل کے حل کے لیے ہوتے ہیں۔
دفعہ نمبر1 کے تحت موصوف نے پہلے بھی یہ دعویٰ کیاتھا

دوسری بات اہل الرائے کے نزدیک یہ تھی کہ وہ اجتہاد کو کتاب وسنت کی طرح دائمی حیثیت دیتے تھے یعنی ان کے نزدیک ائمہ کے اجتہادات یا فقہ شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی تھی اور اس بنیاد پر اس کی پابندی لازم تھی۔
اورسابقہ تھریڈ میں اس بحث کے تحت ایسے دلائل پیش کئے تھے جو ان کے دعویٰ کیلئے قطعامفید نہ تھے۔

ہم پہلی شق کاجائزہ لیتے ہیں۔
اولا:
تواہل الحدیث کون ہیں اس کی وضاحت تاحال محتاج تحقیق ہے اورابوالحسن علوی صاحب کی جانب سے شافعیہ،مالکیہ اورحنابلہ کو اہل الحدیث مین شامل کرنے پر شدید اختلاف ہے۔
ثانیا :
کیاائمہ کے اجتہادات ان کی موت کے بعد ختم ہوجاتے ہیں جیساکہ کچھ شیعوں کاعقیدہ ہے اورصرف معاصر اورزندہ مجتہد کی پیروی یاتقلید کرنے چاہئے۔یہ رائے اہل سنت میں سے کسی کی بھی نہیں ہے۔
ثالثا:
حنفیہ اگرامام ابوحنیفہ کے اجتہادات پر عمل کرتے ہیں تو وہ اہل الرائے ہیں لیکن اگرشافعیہ امام مشافعی کی رائے پرعمل کریں اورمالکیہ امام مالک کی رائے پرعمل کریں اورحنابلہ امام احمد بن حنبل کی رائے پر عمل کریں تو وہ اہل الحدیث ہیں۔کیایہ بوالعجبی اورطرفہ تماشانہیں ہے۔
رابعا :
اگرامام کے اجتہادات موجودہ دورمیں بھی کارآمد ہوں تواس کے ماننے میں کیامضائقہ ہے کیا کوئی صحیح رائے کوصرف اس لئے ترک کردینا چاہئے کہ امام ابوحنیفہ کو جواررحمت میں منتقل ہوئے بہت دن ہوگئے ہیں ۔

دوسرے شق کا جائزہ بھی لے لیاجائے ۔ابوالحسن علوی صاحب کا کہناہے۔
اور قیامت تک کے لیے ان کی پیروی کو ایک انتظامی مسئلہ کے طور پر بطور تقلید شخصی لازم قرار دیا ہے۔
عامیوں کیلئے اہل علم کی تقلید واجب ہے جیساکہ نص قرآنی سے ثابت ہے اورجس کی وضاحت اجلہ علماء کرام خطیب الفقیہ والمتفقہ ،ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم وفضلہ میں ،علامہ شاطبی نے موافقات میں کی ہے۔اب اس سے توکوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اہل علم ائمہ اربعہ ہوں، ابن تیمیہ ہوں،ابن قیم ہوں،قاضی شوکانی ہوں، البانی ہوں، ابن بازہوں یاکوئی دوسرے ہوں۔ اگرکسی کو ابن باز کی رائے اچھی لگتی ہے اوردوسرے کو امام ابوحنیفہ کی یاامام شافعی کی رائے اچھی لگتی ہے اور وہ اس پر عمل کرتاہے تو ابن باز کی رائے پر عمل کرنے والے کے پاس وہ کیانص قطعی ہے جس کی بناء پر وہ ئمہ اربعہ کی رائے پر عمل کرنے والوں کو ملامت کریں۔
 
Top