نوٹ: واضح رہے کہ یہ تحریر محترم ابوالحسن علوی صاحب کے مضمون پر ایک نقد ہے۔۔ابھی حال میں ان کا تنقید پر ناقدانہ مضمون نظرنواز ہوا۔کوشش کی ہے کہ یہ تحریر ان کے معیار کے مطابق ہو ۔اورتنقید ہو تنقیص نہ ہو۔میں اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوسکا اس کا فیصلہ توابوالحسن علوی صاحب ہی کریں گے۔(ابتسامہ)
کچھ باتیں ایسی ہیں جس کو لوگ بہت استعمال کرتے ہیں۔تحریر ولکھاوٹ کی صورت میں۔تقریر وبیان کی شکل میں اورروزمرہ کی بول چال میں۔لیکن اس کے معنی ومفہوم سے بہت کم لوگ آشنا ہوتے ہیں۔عموماذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ اس کو توہم جانتے ہیں سمجھتے ہیں اورروزانہ استعمال کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہی چیزیں کبھی کبھی صحیح طورپر جاننے اوراس کی صحیح معرفت حاصل کرنے میں حجاب اوررکاوٹ بن جاتے ہیں جیساکہ کہاگیاہے اورصحیح کہاگیاہے کہ
اے روشنی طبع توبرمن بلاشدی
اہل الرائے کالفظ بھی کچھ اسی قبیل کاہے جس کو استعمال توبہت کیاجاتاہے لیکن اس کاصحیح مفہوم کیاہے اس جانب بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔عمومالوگ ظاہری لفظ سے اصطلاحی مفہوم بھی نکالنے لگ جاتے ہیں اوریہیں وہ ٹھوکر کھاتے ہیں لیکن افسوس کہ بہت کم لوگوں کو اس کی توفیق ملتی ہے کہ وہ اپنی غلطی سے رجوع کریں ۔بیشترایساہوتاہے کہ اپنی اس ایک غلطی کو درست قراردینے کی خاطرکے چکر میں بے شمار غلطیاں کرتے ہین اورنتیجہ پھر بھی وہی ہوتاہے۔یعنی ڈھاک کے تین پات شیخ سعدی نے بھی کہاہے اورصحیح کہاہے۔
ابوالحسن علوی صاحب سے سجدہ سہو کے احکام میں اہل الرائے کے تعلق سے بات چیت ہوئی توانہوں نے کہاتھاکہ وہ اس پر ایک تفصیلی مضمون لکھیں گے۔جس میں اپنا مدعا ثابت کریں گے۔تفصیلی مضمون توانہوں نے لکھ دیاہے لیکن اہل الرائے کے تعلق سے ان کا جومدعا تھاوہ تاحال ثابت نہیں ہواہے۔
اہل الرائے کے تعلق سے ان کا دعویٰ تھاکہ
ویسے ان کی اس بات کیلئے اہل الرائے ائمہ کے اجتہاد کو کتاب وسنت کی طرح دائمی قراردیتے تھے۔اتناہی کہناکافی ہے کہ صاحبین نے امام ابوحنیفہ سے جس قدر اختلاف کیاہے بقیہ ائمہ ثلاثہ میں اس کی نظیرنہیں ملتی۔
کچھ باتیں ایسی ہیں جس کو لوگ بہت استعمال کرتے ہیں۔تحریر ولکھاوٹ کی صورت میں۔تقریر وبیان کی شکل میں اورروزمرہ کی بول چال میں۔لیکن اس کے معنی ومفہوم سے بہت کم لوگ آشنا ہوتے ہیں۔عموماذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ اس کو توہم جانتے ہیں سمجھتے ہیں اورروزانہ استعمال کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہی چیزیں کبھی کبھی صحیح طورپر جاننے اوراس کی صحیح معرفت حاصل کرنے میں حجاب اوررکاوٹ بن جاتے ہیں جیساکہ کہاگیاہے اورصحیح کہاگیاہے کہ
اے روشنی طبع توبرمن بلاشدی
اہل الرائے کالفظ بھی کچھ اسی قبیل کاہے جس کو استعمال توبہت کیاجاتاہے لیکن اس کاصحیح مفہوم کیاہے اس جانب بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔عمومالوگ ظاہری لفظ سے اصطلاحی مفہوم بھی نکالنے لگ جاتے ہیں اوریہیں وہ ٹھوکر کھاتے ہیں لیکن افسوس کہ بہت کم لوگوں کو اس کی توفیق ملتی ہے کہ وہ اپنی غلطی سے رجوع کریں ۔بیشترایساہوتاہے کہ اپنی اس ایک غلطی کو درست قراردینے کی خاطرکے چکر میں بے شمار غلطیاں کرتے ہین اورنتیجہ پھر بھی وہی ہوتاہے۔یعنی ڈھاک کے تین پات شیخ سعدی نے بھی کہاہے اورصحیح کہاہے۔
خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثریامی رود دیوار کج
تاثریامی رود دیوار کج
ابوالحسن علوی صاحب سے سجدہ سہو کے احکام میں اہل الرائے کے تعلق سے بات چیت ہوئی توانہوں نے کہاتھاکہ وہ اس پر ایک تفصیلی مضمون لکھیں گے۔جس میں اپنا مدعا ثابت کریں گے۔تفصیلی مضمون توانہوں نے لکھ دیاہے لیکن اہل الرائے کے تعلق سے ان کا جومدعا تھاوہ تاحال ثابت نہیں ہواہے۔
اہل الرائے کے تعلق سے ان کا دعویٰ تھاکہ
اپنے اس پورے مضمون میں انہوں نے اس دعوے کے حق میں کوئی دلیل نہیں دی ہے تویاتووہ اپنے اس دعوی سے رجوع کرچکے ہیں یاشاید اس کیلئے ہمیں ان کے مضمون حصہ دوم کاانتظار کرناپڑے گا۔دوسری بات اہل الرائے کے نزدیک یہ تھی کہ وہ اجتہاد کو کتاب وسنت کی طرح دائمی حیثیت دیتے تھے یعنی ان کے نزدیک ائمہ کے اجتہادات یا فقہ شریعت اسلامیہ کی طرح دائمی تھی اور اس بنیاد پر اس کی پابندی لازم تھی۔
ویسے ان کی اس بات کیلئے اہل الرائے ائمہ کے اجتہاد کو کتاب وسنت کی طرح دائمی قراردیتے تھے۔اتناہی کہناکافی ہے کہ صاحبین نے امام ابوحنیفہ سے جس قدر اختلاف کیاہے بقیہ ائمہ ثلاثہ میں اس کی نظیرنہیں ملتی۔