• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’گلستان حدیث‘‘ مولانا اسحٰق بھٹی کی کتاب پر ہندستان کے ممتاز عالم دین شیخ رفیق رئیس سلفی کا تبصرہ

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
''گلستان حدیث''

تحریر : رفیق احمد رئیس سلفی
اردو تذکرہ نگاری اور خاکہ نویسی میں عالمی شہرت کی حامل ممتاز شخصیت حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ کی تازہ ترین کتاب''گلستان حدیث''اس وقت پیش نظر ہے۔میرے مخلص دوست مولانا ارشد سراج الدین مکی صاحب نے ابھی حال ہی میں کسی دوست کے ذریعہ پاکستان سے منگوائی ہے۔ تذکرہ اور سوانح سے میری دل چسپی انھیں اس وقت سے معلوم ہے جب ہم جامعہ سلفیہ میں زیر تعلیم تھے اور ہاسٹل کے ایک ہی کمرے میں ساتھ ساتھ رہتے تھے۔انھوں نے میری درخواست پر کتاب علی گڑھ بھیج دی اور میں اسے ازاول تا آخر نہ صرف پڑھ گیا بلکہ یوں کہیے کہ پڑھ کر نہال ہوگیا۔موصوف کی ہر کتاب اپنے اندر یہی خصوصیت رکھتی ہے۔برصغیر کی جماعت اہل حدیث کی تاریخ میں وہ پہلی شخصیت ہیں جنھوں نے اس کی گم شدہ کڑیوں کو بڑی حد تک جوڑدیا ہے اور ملت اسلامیہ ہند کی تاریخ میں داعیان کتاب وسنت کا جو دینی، دعوتی ،علمی،جہادی اور قائدانہ کردار رہا ہے،اس کو نمایاں کردیا ہے۔ہماری نئی نسلوں کو چاہیے کہ ان کی تمام کتابوں کو زیر مطالعہ رکھیں اور اپنے اسلاف کے تابندہ نقوش اپنی علمی اور عملی زندگی میں پیش نظر رکھیں۔
قابل صداحترام بزرگ عالم دین مولانامحمداسحاق بھٹی صاحب ایک دیدہ ور مورخ،علم وتحقیق کی راہوں سے آشنا محقق، کہنہ مشق مصنف اور اسلامی قدروں کے محافظ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحب دل بزرگ بھی ہیں اور انھوں نے مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی صحبت وتربیت میں کئی سال گزارے ہیں۔مولانا غزنوی کے زہد وتقوی اور علم وتدین کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور اپنے قلب وذہن پر اس کے گہرے اورپرکشش نقوش مرتسم کیے ہیں۔اسی طرح وہ عزیز ترین شاگرد ہیںمولانا محمد اسماعیل گجرانوالہ اور مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہمااللہ کے ،علوم شرعیہ میں جن کی مہارت اور دین داری اور شرافت کا کھلے دل سے اعتراف ان کے تمام معاصرین نے کیا ہے اور جواپنے دور میں سلفی فکرومنہج کے مخلص اور بے باک ترجمان تھے۔ ان کو رفاقت میسر آئی ہے مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کی جو اپنی ذات میں اسلامی علوم کا دائرۃ المعارف تھے۔یہ رفاقت ''الاعتصام لاہور''کی ادارت کے علاوہ ثقافت اسلامیہ لاہور میں کئی سالوں تک حاصل رہی ہے اور ان کے کئی ایک علمی وتحقیقی کاموں کی تکمیل ان کے سامنے ہوئی ہے۔''ارمغان حنیف'' کامطالعہ کریں تو پتا چلے گاکہ ایک فلسفی چائے خانے میںبھی علم وعرفان کے بیسیوں مسائل لطائف کی شکل میں بیان کرجاتا ہے۔ یوں تو صحبتیں ہر کسی کو میسر آتی ہیں لیکن ان سے خود کو فیض یاب کرلینااور ان کے رنگ میں رنگ جانا ہرایک کے نصیب میں نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ نے محترم مولانا بھٹی صاحب کو ان عالی مرتبت علما اور اصحاب علم وفضل کی تربیت اور ان کی صحبتوں سے دامن مراد بھرنے کی توفیق بخشی اور اب وہ پوری دنیا کونصوص قرآن وحدیث سے مزین اور دلائل توحیدوسنت سے آراستہ اپنی دل کش،خوبصورت اور معلومات سے بھرپور تحریروں سے مستفید فرمارہے ہیں۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ان کی خود نوشت سوانح''گزر گئی گزران'' پڑھ کر یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کے معمولات روز وشب کتنے روشن اور تابناک ہیں،کاش ہمیں بھی یہ کہنے کااعزاز حاصل ہوجائے کہ روزانہ گھرسے نکلنے سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت ضرور کرتا ہوں اور نماز فجر باجماعت گھر سے ایک کلومیٹرکے فاصلے پر واقع مسجد میں ادا ہوتی ہے۔متعدد بچیوں کوانھوں نے قرآن کا ترجمہ پڑھادیا ہے اور سیکڑوں اہل علم وفضل سے ان کے روابط دوستانہ اور ہمدردانہ ہیں۔آج تو خاصے پڑھے لکھے لوگوں کا حال یہ ہے کہ ذراسی مقبولیت ملی نہیں کہ دماغ آسمان پر پہنچ گیا اور شب وروز اپنی قصیدہ خوانی ان کا وظیفہ حیات بن گیا۔یہیں سے علم کازوال شروع ہوجاتا ہے اور شیخی وتعلّی شخصیت کو گہنا دیتی ہے۔اس موڑ پر شیطان کے پھندے سے خود کو بچالے جانا انھیں خوش نصیبوں کا مقدر ہے جنھوں نے تزکیہ واحسان کی منزلیں کسی کی رہنمائی میں طے کی ہوں۔''حکومتوں کا وظیفہ قطار میں کھڑے ہوکر وصول کرنے والے اپنے نبی کا بتایا ہواوظیفہ بھول گئے ہیں''،یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ ہماری ملی تاریخ کا پوراالمیہ اس میں سمٹ کرآگیا ہے۔تجربات اور مشاہدات سے بھرپور یہ جملہ محترم بھٹی صاحب کے علاوہ دوسرا کون کہہ سکتا ہے۔ اور ادووظائف میں تصوف کی بدعات کو فروغ اسی لیے ملا کہ داعیان کتاب وسنت کی اپنی زندگیاں ان اورادواذکار سے خالی ہوچکی ہیں جن سے احادیث کی کتابیں معمور ہیں۔کاش ہمیں توفیق مل جائے کہ جس احسان وتزکیہ کاحوالہ دے کر اہل بدعت نے خلق خدا کو ہلاکت کے جوہڑ میں ڈبودیا ہے،ہم اس کے چشمہ شیریں سے ملت کو حیات تازہ عطاکرنے کے لیے کوئی انقلابی قدم اٹھاسکیں۔محترم بھٹی صاحب کی خود نوشت سوانح بہت اہم کتاب ہے، ابھی تک ہندوستان سے اس کی اشاعت نہیں ہوسکی ہے ،کاش کوئی ناشر اسے بھی شائع کردیتا تاکہ یہاں کے اہل علم اس سے بھی استفادہ کرپاتے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
بہر حال اس بات کو یہیں چھوڑکردل ودماغ کو معطر کرنے کے لیے ابھی ہم آپ کو'' گلستان حدیث'' میں لیے چلتے ہیں، جہاں کئی خوش رنگ اور خوشبودار پھولوں سے مصنف عالی وقار نے کئی ایک کیاریاں ترتیب دے ڈالی ہیں،''گزر گئی گزران''سے ان شاء اللہ ملاقات بعد میںکرائیں گے۔پیش نظر کتاب اس سلسلہ زریں کی ایک اہم کڑی ہے جو برصغیر ہندوپاک کے علمائے اہل حدیث کی ہمہ جہت خدمات کے تعارف کے لیے محترم بھٹی صاحب نے شروع کررکھا ہے۔ بزم ارجمنداں، نقوش عظمت رفتہ،دبستان حدیث،قافلہ حدیث، برصغیر کے اہل حدیث خدام قرآن وغیرہ اسی سلسلے کی کتابیں ہیں جن کی روشنی سے ان شاء اللہ دلوں کی تاریکیاں دور ہوں گی،جماعت کو حیات تازہ ملے گی اور ہماری نئی نسل اپنے اسلاف کے کارنامے پڑھ کر پورے عزم وحوصلے سے میدان عمل میں قدم رکھے گی۔
''گلستان حدیث'' چوراسی شخصیات کے تذکرے اورسوانحی خاکے پر مشتمل ہے۔ان میں سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے تلامذہ کے ذکر سے پہلے چار بڑی شخصیات اور بزرگوں کا ذکر کیا گیاہے جن میں نمایاں ترین نام شاہ محمد اسماعیل شہید رحمہ اللہ کا ہے۔اس کے بعد انھوں نے میاں صاحب کے بیس تلامذہ کی شخصیات کا سوانحی خاکہ پیش کیا ہے۔ جن میں مولانا سلامت اللہ جیراج پوری،مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری، مولاناعبدالسلام مبارک پوری اور مولاناابوالقاسم سیف بنارسی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔تلامذہ میاں صاحب کے بعد مصنف نے چونتیس خدام حدیث کا تذکرہ کیا ہے جو وفات پاچکے ہیں اور جن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔اس ذیل میں انھوں نے مولاناسید تقریظ احمد سہسوانی،مولانا عبدالجلیل سامرودی، مولانا عبیداللہ رحمانی،ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری، مولانا صفی الرحمن مبارک پوری اورڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کی شخصیات اور ان کے علمی کارناموں کا تعارف کرایا ہے۔آخر میں چھبیس ایسے خدام حدیث کاذکر کیا ہے جو حیات ہیں اور جن کی ہمہ جہت خدمات کافیض جاری وساری ہے۔اس باب میں انھوں نے مولانا محمد اسرائیل ندوی سلفی، مولاناارشادالحق اثری،مولانااحمد مجتبی سلفی،ڈاکٹر عبدالرحمن فریوائی، مولانا عارف جاوید محمدی،حافظ زبیر علی زئی، مولانااصغر علی امام مہدی، مولانامحمد انور محمد قاسم سلفی اور مولانا عبدالخالق مدنی وغیرہم کا تذکرہ کیا ہے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
مولانا غلام العلی قصوری کے تذکرے میں انھوں نے ایک بڑی اہم بات لکھی ہے۔میں اسے یہاں درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ بعض دوسرے اہل علم کی بھی غلط فہمی دور ہوجائے۔ ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر صاحب(ڈائریکٹر سیرت چیئر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور) نے اپنی کتاب''علوم الحدیث:فنی ،فکری اور تاریخی مطالعہ'' میں برصغیر میں منکرین حدیث کے پانچ مراکزبتاتے ہوئے علی گڑھ کو بھی انکار حدیث کاایک مرکز قراردے دیا ہے۔محترم مصنف نے ان کی تحریر کا نوٹس لیا ہے اور پانچوں مراکز کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے ان کے خیال کی تردید فرمائی ہے۔علی گڑھ کے بارے میں انھوں نے لکھا ہے:
''علی گڑھ بھی کبھی الحاد یاانکار حدیث کا مرکز نہیں رہا۔بے شک ایک زمانے میں سرسیدحمد خاں کے بعض مذہبی افکار میں تبدیلی آگئی تھی لیکن ان کے مذہبی افکارسے چند ہی افراد متاثر ہوئے۔خودان کے سوانح نگار مولانا حالی(مصنف حیات جاوید) پر ان کے مذہبی افکار کا کوئی اثر نہیں ہوا۔انھوں نے علی گڑھ کالج(پھر یونیورسٹی) قائم کرکے ہندوستانی مسلمانوں کی بے حد خدمت کی،اس پر کسی کو اعتراض نہیں بلکہ سب اسے ان کا عظیم کارنامہ قرار دیتے ہیں۔مذہبی اعتبار سے علی گڑھ مولانا عبدالجلیل شہید کاشہر تھا،جنھوں نے 1857 میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے اسی شہر میں شہادت پائی،(شہر کی جامع مسجد میں اس کے شمالی دروازے سے متصل دیگر شہدا کے ساتھ مولاناعبدالجلیل علی گڑھی کی بھی قبرہے[رفیق])ان کے بیٹے مولانامحمداسماعیل کا شہر تھا۔مولاناعبدالتواب غزنوی علی گڑھی کا شہر تھا،جنھیں ہزاروں حدیثیں زبانی یاد تھیں۔اس شہر میں ہمیشہ علمائے حدیث کااثر رہا۔اب بھی یہی حالت ہے۔وہاں کے لوگ منکرین حدیث سے متاثر نہیں ہیں۔وہ حدیث کو ماننے والے اوراس پر عمل کرنے والے مسلمانوں کا مرکز تھا اور مرکز ہے۔''(ص 83)
محترم بھٹی صاحب نے علی گڑھ کی بالکل صحیح اور واقعی تصویر پیش کی ہے۔میں علی گڑھ میں ہی رہتا ہوں بلکہ اب یہی میرا وطن ہے ۔یہ شہر نہ کبھی منکرین حدیث کامرکز رہا ہے اور نہ آج ہے۔ قدیم شہر اور سول لائنس دونوں حصوں میں اہل سنت مسلمانوں کی بڑی تعدادآباد ہے۔جماعت اہل حدیث کی یہاں دس مساجد ہیں۔سات قدیم شہر میں اور تین یونیورسٹی کے علاقے یعنی سول لائنس میں۔ یونیورسٹی کے تمام اقامتی ہالوں میں مساجد ہیں جو طلبہ اور یونیورسٹی ملازمین سے آباد ہیں۔یونیورسٹی کی تمام مساجد میں جہری نمازوں میں صداء آمین گونجتی ہے اور اہل حدیث طلبہ یہاں دعوت وتبلیغ کی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔میں خود بھی اس علاقے میں کئی مقامات پرہفت روزہ درس قرآن اور درس حدیث دیتا ہوں،یونیورسٹی مساجد میں محاضرے اور مختلف موضوعات پر تقریریں ہوتی ہیں۔ میں قدیم شہر کی ایک اہل حدیث مسجد میں گزشتہ 27؍ سال سے خطبہ جمعہ دیتا ہوں،جس میں شرکا کی بڑی تعداد دیوبندی اور بریلوی مسلک سے تعلق رکھتی ہے ،وہ یہاں خطبات سنتے ہیں اور پھراللہ توفیق دیتا ہے تو کتاب وسنت پر عمل شروع کردیتے ہیں۔ایک بڑی تعدادنئے اہل حدیث افراد کی ہے اور وہ اپنے اپنے حلقوں میں مصروف دعوت وارشاد ہیں۔ اللہ ان خدمات کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ ان تما م بزرگوں، احباب اور دوستوں کو شادوآباد رکھے جن کے تعاون، تائید اور حمایت سے یہ سارے کام انجام دے پارہا ہوں۔ آمین
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
میں ذاتی طور پر شکر گزار ہوں کہ مصنف ذی اکرام نے شیخ الحدیث مولاناعبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ کے تذکرے میں ''مکاتیب حضرت شیخ الحدیث'' کا تعارف کراتے ہوئے اس فقیر کا بھی ذکر کیا ہے اور میری مرتب کی ہوئی کتاب کو شیخ الحدیث کی شخصیت کے حوالے سے بیش قیمت قرار دیا ہے۔ کاش میں اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر قابو پاتے ہوئے ان امیدوں پر کھرا اترتا جو مصنف محترم نے مجھ سے وابستہ کی ہیں۔کوئی علمی کام اہل علم کی نگاہوں میں آجائے ،کسی مصنف کے لیے اس سے بڑی سعادت کی بات کیا ہوسکتی ہے۔یہ بھی المیہ ہے کہ ہمارے ملک کے کسی صاحب علم کو اس کتاب پر تبصرہ کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی بلکہ بہتوں کے منہ کا ذائقہ بگڑ گیا اوران کے کلیجے بھنچ گئے اور محترم بھٹی صاحب نے اسے شیخ الحدیث کی شخصیت کے تعارف کے لیے ایک اہم کتاب قراردے دیا۔ ہیرے کی پرکھ جوہری ہی رکھتا ہے اوراللہ نے ہمارے محترم بزرگ کو ان تمام خوبیوں سے فیض یاب کیا ہے۔ وہ نہ صرف جوہری کی نظر رکھتے ہیں بلکہ دنیا جہان سے دانہ دانہ جمع کرکے ذخیرہ بنانے کا سلیقہ بھی انھیں آتا ہے۔
مصنف حفظہ اللہ نے ہر شخصیت کے امتیازی کارناموں اور ان کی نمایاں خصوصیات کاتذکرہ کیا ہے،صاحب تصانیف حضرات کی کتابوں کی تفصیل بتاتے ہوئے ان کے مضامین اور موضوعات کی نشان دہی فرمائی ہے،اگر ان کی جہدومساعی کا میدان دعوت وتبلیغ رہا ہے تو ان کی فتوحات اور کامرانیوںکا ذکر جمیل کیا ہے۔اصحاب سوانح کے اخلاق عالیہ اور صفات حمیدہ کے بیان میں موصوف کاقلم بڑی فیاضی سے رواں دواں رہتا ہے اور اس باب میں وہ اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ اگرانھوں نے زیرقلم شخصیت کودیکھا ہے،اس سے ملاقات کی ہے یااس کے بارے میں کسی سے کچھ سنا ہے تواس کا ذکر اولین فرصت میں کرتے ہیں اور اس طرح کرتے ہیں کہ تصویر نگاہوں میں سماجاتی ہے۔موصوف کے یہاں نہ لفظوںکی کمی ہے اور نہ تعبیرات میںکوئی تنگی ہے،وہ برمحل الفاظ اور تعبیرات درج کرنے میں پوری مہارت رکھتے ہیں۔شخصیت کے وہ پہلو ضرور نمایاں کرتے ہیںجن میں عبرت ونصیحت کا کوئی سامان ہوتا ہے،کیوں کہ اعاظم رجال کاتذکرہ لوگ اسی لیے پڑھتے ہیں کہ انہی کواپنا نمونہ اورآئیڈیل بنائیں۔خاکہ تیار کرتے ہوئے درمیان میں اپنے تجربات اور مشاہدات سے بھی قاری کی ضیافت کرتے ہیں اور اپنے خیالات وافکار سے بھی آگاہ کرتے جاتے ہیں۔اگر اس طرح کی باتیں ان کی تمام سوانحی کتابوں سے جمع کی جائیں تومصنف کے افکارونظریات کی ایک مستقل کتاب تیار ہوجائے گی۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
پڑوسی ملک پاکستان سے جو بھی اہم اور مفید کتاب شائع ہوتی ہے،اس کو ہمارے ملک کے ناشرین فواراً اپنے مکتبہ سے چھاپ دیتے ہیں۔اس کاایک بڑافائدہ یہ ہے کہ ملک کے قارئین کو بہ آسانی کتاب فراہم ہوجاتی ہے اوروہ اسے خرید کر اپنی لائبریری کی زینت بنالیتے ہیں اور استفادہ کرتے ہیں۔ ورنہ پاکستان سے کتابیں منگانا اور ان سے فائدہ اٹھانا آسان نہیں ہے۔اس پہلو سے ہمارے یہ تاجر ناشرین ہمارے شکریے کے مستحق ہیں اور ہم ان کے احسان مند ہیں ۔اللہ ان کی تجارت کو خیر وبرکت سے نوازے۔البتہ بڑے ادب سے ایک بات عرض کروں گا کہ تجارت کو بڑھانے اور زیادہ نفع حاصل کرنے کی دوڑ میں بعض کتابوں کی طباعت بے توجہی کا شکار نظر آتی ہے۔حضرت مولانا محمداسحاق بھٹی حفظہ اللہ کی یہ کتاب جسے ہندوستان میں''الکتاب انٹر نیشنل،جامعہ نگر،نئی دہلی'' نے شائع کیا ہے، اس پہلوسے بڑی مظلوم ہے۔جن احباب نے کتاب کا پاکستانی ایڈیشن دیکھا ہے ،وہ ہندوستانی ایڈیشن دیکھ کر اپناسر پیٹ لیں گے۔سائز کو چھوٹا کردیا گیا ہے،کاغذ اتنا ردی استعمال کیا گیا ہے کہ کھولنے میں ذراسی بے احتیاطی ہوئی تو ورق پھٹ کر ہاتھ میں آجائے گا اور بائنڈنگ حد درجہ ناقص اور کم زور ہے۔درمیان سے جزبندی کی سلائی اور اس کے دھاگے نظرآرہے ہیں۔کاش اپنے موضوع کے اعتبار سے جس طرح یہ کتاب اہم اور پائیدار تھی ،ناشر نے بھی اسے کاغذ ،طباعت اور بائنڈنگ کے لحاظ سے پائیدار بنایا ہوتا، اس طرح کی کتابیں ہمیشہ اور بار بار نہیں خریدی جاتیں بلکہ صرف ایک بار خریدی جاتی ہیں اور ہمیشہ ان کواستعمال کیا جاتا ہے۔حیرت کی بات ہے کہ کمپوزنگ کی زحمت نہیں اٹھانی پڑی ،پروف ریڈنگ کی تکلیف نہیں ہوئی اور مصنف کو کوئی معاوضہ نہیں دینا پڑا،اس کے باوجود کتاب معیاری اور دیدہ زیب کی بجائے اس قدر خراب کیوں چھاپی گئی؟اس پر مزیدستم یہ کہ اس قدر مہنگی کہ انسان اپنی جیب ٹٹولتا رہ جائے۔بعض دوستوں نے بتایاہے کہ کتابوں کی قیمت لاگت سے چار گنی زیادہ رکھی جاتی ہے۔پچاس فی صد کمیشن ناشرین اورذیلی مکتبوں کو دیا جاتا ہے اور باقی ڈبل معاوضہ کتاب کے ناشرین خودوصول کرتے ہیں۔کاروبار میں دس فیصد،بیس فیصد اور زیادہ سے زیادہ پچیس فی صد نفع بہت ہے لیکن یہاں معاملہ ہی الٹا ہوگیا ہے۔دینی کتابوں کے ساتھ یہ معاملہ تکلیف دہ ہے۔کاش ہمارے یہ ناشرین ملت پر رحم کرتے اوراس کی قوت خرید پر ترس کھاتے تو دینی کتابوں کی اشاعت کا دائرہ مزید وسیع ہوجاتااور علم کی رفتار بڑھ جاتی۔کیا کوئی ہے جو ہماری آواز محترم ناشرین تک پہنچادے؟l
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

میں نیٹ پر اتنی طویل تحریر بلاضرورت شاذونادر ہی پڑھتا ہوں کیونکہ نیٹ پر لمبی تحریریں پڑھنا بہت مشکل اور تکلیف دہ عمل ہے۔ لیکن یہ تحریر اور اسکا انداز بیاں اس قدر سادہ اور خوبصورت ہے کہ میں نے ابھی یہ جاننے کے لئے کہ تحریر کیا ہے پڑھنے کا آغاز ہی کیا تھا کہ میں پڑھتا ہی چلا گیا اور تکمیل پر ہی دم لیا۔ مصنف نے علمائے حق سے جس محبت کا اظہار کیا ہے اور جس احترام سے اسے سپرد قلم کیا ہے اس نے دل موہ لیا۔ اللہ مصنف کو جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ خیرا سرفراز فیضی صاحب ۔
لگ رہا ہے کہ یہی تحریر بوالعزم کلیمی صاحب کی طرف سے بھی فورم پر لگائی جا چکی ہے ۔
وہاں میں نے یہ مشورہ بھی عرض کیا تھا کہ دی فری لانسر کی دیگر تحاریر بھی فورم کی زینت ہونی چاہییں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

میں نیٹ پر اتنی طویل تحریر بلاضرورت شاذونادر ہی پڑھتا ہوں کیونکہ نیٹ پر لمبی تحریریں پڑھنا بہت مشکل اور تکلیف دہ عمل ہے۔ لیکن یہ تحریر اور اسکا انداز بیاں اس قدر سادہ اور خوبصورت ہے کہ میں نے ابھی یہ جاننے کے لئے کہ تحریر کیا ہے پڑھنے کا آغاز ہی کیا تھا کہ میں پڑھتا ہی چلا گیا اور تکمیل پر ہی دم لیا۔ مصنف نے علمائے حق سے جس محبت کا اظہار کیا ہے اور جس احترام سے اسے سپرد قلم کیا ہے اس نے دل موہ لیا۔ اللہ مصنف کو جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین
شاہد نذیر بھائی میں نے بھی رفیق سلفی صاحب کی کچھ تحاریر پڑھی ہیں ۔ معتدل مزاج سلفی عالم دین محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی تحاریر واقعتا بہت اچھی ہوتی ہیں ان کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے ۔
 
Top