فرضی داستان:
آپ لکھتے ہیں: ”موطأ امام ملک کے عربی نسخے میں موجود وہ دوحدیثیں اردو ترجمہ سے غائب ہیں جو غیر مقلدوں کے مسلک کے خلاف جاتی ہیں۔“
وہ دو حدیثیں آخر کون سی ہیں؟ ان کا ذکر آپ نے کیوں نہیں کیا؟ شاید اس لئے کہ اگر آپ ایسا کرتے تو آپ کے دعوی کی قلعی کھل گئی ہوتی۔
آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اہل حدیث مقلدوں کی طرح گستاخانہ طور پر یہ نہیں کہتے کہ یہ حدیث ہمارے مسلک کے خلاف ہے، وہ اس طرح کا جملہ زبان سے ادا کرنا بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین سمجھتے ہیں۔ حدیث کا صحیح ہونا ثابت ہو جائے وہ فورا اپنا عمل ان شاء ﷲ اسی طرح تبدیل کر لیں گے جس طرح صحابۂ کرام نے دوران صلاة اپنا قبلہ تبدیل کر لیا تھا۔
کچھ اور کہانیاں:
آنجناب لکھتے ہیں: ”حقانی صاحب نے انکشاف کیا کہ ان کی کتاب ”قرآن و حدیث اور مسلک اہل حدیث“ کی کتابت کے دوران انہیں مشکاة شریف میں ایک حدیث دیکھنے کی ضرورت پیش آئی۔ ربانی بک ڈپو کی شائع کردہ مشکاة میں اس حدیث کو تلاش کیا وہ نہ ملی حالانکہ وہی روایت ترمذی، ابوداؤد، نسائی، مشکاة، مظاہر حق میں موجود تھی لیکن ربانی بک ڈپو کے نسخہ سے غائب تھی۔ اس راز کا پردہ اس وقت فاش ہوا جب ربانی بک ڈپو کے مالک حکیم مصباح الدین صاحب نے بتلایا کہ اس کا ترجمہ ایک غیر مقلد نے کیا ہے اس نے شرارتا اس حدیث کو غائب کردیا۔“
جناب من! یہاں بھی آپ نے وہی کیا یعنی اس حدیث کو ذکر نہیں کیا۔ آپ کو وہ حدیث بتلانی چاہئے جو اس نے غائب کی کیوں کہ ایسا قطعا ناممکن ہے کہ جو لوگ دنیا کے سامنے حدیثوں کو ظاہر کرنے اور اس کی نشر واشاعت پر مقلدوں کی دشمنی مول لے رہے ہیں حدیثوں کو غائب کرتے پھریں۔ آپ وہ حدیث ظاہر کرتے تو آپ کی تہمت کی سچائی دنیا کے سامنے ظاہر ہوجاتی۔
یہاں ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ حکیم مصباح الدین صاحب جو مقلد ہیں انہوں نے مشکاة کا ترجمہ کسی غیر مقلد سے کیوں کروایا کیا انہیں کوئی مقلد اس لائق نہیں ملا جو حدیث کا ترجمہ کر سکتا اور اگر ایسا کروا بھی لیا تو کسی مقلد سے نظر ثانی کیوں نہیں کروائی؟
بہرحال ہم اس بات کے قطعی منکر ہیں کہ کوئی اہل حدیث ایسا کرسکتا ہے۔ اگر کوئی دانستہ طور پر جان بوجھ کر کرتا ہے تو وہ اہل حدیث ہر گز نہیں ہو سکتا بھلے ہی وہ اپنے آپ کو اہل حدیث ظاہر کرتا ہو اور اس کا بلند بانگ دعوی کرتا ہو۔
آنجناب نے ایک واقعہ اور لکھا ہے کہ ”لاہور سے چھپی مسلم شریف میں سے حضرت عمر کی فضیلت پر مشتمل ایک طویل حدیث غائب ہے۔ یہ کرشمہ بھی غیر مقلد کا تب ہی کا ہے۔“
آپ نے یہ غلطی نہایت آسانی سے بلا کسی دلیل کاتب کے سر تھوپ دی۔ آپ کو اس کا کشف ہوا ہوگا یا آپ نے اسے خواب میں دیکھا ہوگا کیوں کہ یہی ساری چیزیں آپ کے یہاں دلیل ہوا کرتی ہیں۔ پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کاتب نے یہ کرشمہ سازی کر ہی دی تھی تو پروف ریڈر نے اس کی نشان دہی کیوں نہیں کی؟ یا پھر پروف ریڈر بھی غیر مقلد تھا۔ صرف مالک ہی مقلد تھا جس نے کاتب کی شرارت کا انکشاف کیا۔
پتہ نہیں ان مقلدوں کو حدیث سے متعلق کاموں کے لئے مقلد کیوں نہیں ملتے؟ حدیث کا ترجمہ کرنے کی ضرورت پڑی تو غیر مقلد ہی انہیں ملا، حدیث کی کتابت کی ضرورت پڑی تو غیر مقلد ہی ملا، پروف ریڈنگ کے لئے بھی غیر مقلد ہی ملا۔ سوال یہ ہے کہ جب مقلدین ہی اکثریت اور سواد اعظم ہیں تو ضرورت پڑنے پر کہاں غائب ہو جاتے ہیں؟
دل کے بہلانے کو حضرت یہ خیال اچھا ہے :
آنجناب فرماتے ہیں: ”الحمد ﷲ میں حدیث کے مطابق ہی عمل کرتا ہوں۔“
خوش فہمی میں رہنے سے آپ کو کون روک سکتا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ اگر آپ خالص حنفی ہیں تو آپ کا عمل حدیث کے مطابق ہرگز نہیں ہو سکتا ہے کیوں کہ مذہب حنفی میں سیکڑوں احادیث کی مخالفت موجود ہے۔ فی الفور صرف نماز سے متعلق فقط (١٠) مخالفتوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
١۔ حنفی مذہب کہتا ہے کہ ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں میں برابر کی سورتیں پڑھے جبکہ حدیث کہتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت طویل کرتے تھے.
(بخاری ومسلم)
٢۔ حنفی مسلک کہتا ہے کہ امام کو ظہر وعصر کی آخری دو رکعتوں میں اختیار ہے چاہے خاموش رہے چاہے تو کوئی سورت پڑھ لے اور چاہے تو سبحان ﷲ پڑھ لے جبکہ حدیث کہتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔
(بخاری ومسلم)
٣۔ حنفی مسلک کہتا ہے کہ آمین پکار کر کہنا مکروہ ہے حدیث کہتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پکار کر آمین کہتے تھے۔
(ابو داؤد، ابن ماجہ وغیرہ)
٤۔ حنفی مذہب کہتا ہے کہ عورتوں کی جماعت مکروہ تحریمی ہے اگرچہ تراویح کی ہی جماعت کیوں نہ ہو جبکہ حدیث کہتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا تھا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کرائیں۔
(ابوداؤد)
٥۔ حنفی مذہب کہتا ہے کہ رکوع سے سر اٹھانے کے بعد سیدھا کھڑا ہونا فرض نہیں جبکہ حدیث میں سیدھا کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔
(بخاری ومسلم)
٦۔ حنفی مسلک کہتا ہے کہ دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا فرض نہیں جبکہ حدیث میں اطمینان کے ساتھ بیٹھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(بخاری ومسلم)
٧۔ حنفی مسلک کہتا ہے کہ نمازی طاق رکعتوں میں دوسرے سجدے کے بعد جب سر اٹھائے تو بیٹھے نہیں بلکہ قدموں کے بل سیدھا کھڑا ہو جائے جبکہ حدیث کہتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی طاق رکعت ادا فرماتے تو اچھی طرح بیٹھے بغیر کھڑا نہ ہوتے۔
(بخاری و مسلم)
٨۔ حنفی مسلک کہتا ہے کہ مصلی آخری قعدہ میں ویسے ہی بیٹھے جیسا کہ پہلے قعدہ میں بیٹھا جبکہ حدیث کہتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری سجدہ کرتے جس کے بعد سلام پھیرنا ہوتا تو اپنا بایاں پاؤں ذرا پیچھے نکال لیتے اور کولھے کے بل بائیں جانب پر بیٹھ جاتے اور آخری سلام پھیر دیتے ۔
(بخاری، ابوداؤد، ترمذی وغیرہ)
٩۔ حنفی مسلک کہتا ہے کہ فجر کی جماعت ہو رہی ہو تو فجر کی سنتیں مسجد کے دروازے کے پاس پڑھ سکتے ہیں۔ جبکہ حدیث کہتی ہے کہ فرض نماز کی اقامت کے بعد فرض کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں۔
١٠۔ حنفی مسلک کہتا ہے کہ وتر کی نماز مغرب کی طرح دو تشہدکے ساتھ پڑھے جبکہ حدیث کہتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تین رکعت وتر پڑھتے تو صرف آخری رکعت میں ہی تشہد کے لئے بیٹھتے۔
(مستدرک حاکم)
امام مسجد کی تقلید۔ حقیقت کیا ہے؟
آنجناب فرماتے ہیں : ”آپ لوگ اپنی مسجد کے امام کی تقلید کرتے ہیں۔“
میرا کہنا یہ ہے کہ اس معاملہ میں ہم آپ دونوں برابر ہیں۔ دونوں اپنی مسجد کے امام یا اپنے مسلک کے مولوی سے مسئلہ پوچھتے ہیں۔ اگر ہم نے ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کوئی حدیث نہیں سنی ہے تو آپ نے بھی امام ابوحنیفہ کی زبان سے کوئی بات نہیں سنی ہے، البتہ ہم دونوں میں بعض وجوہ سے فرق ہے۔
پہلا فرق یہ ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات معلوم کر کے اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں اور آپ ایک امتی کا فتوی معلوم کرکے اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ ہم پورے یقین واعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اس کی یہ سند موجود ہے لیکن آپ کسی بھی معاملہ میں یقینی طور پر ثابت نہیں کر سکتے کہ وہ امام ابوحنیفہ ہی کی بات ہے۔
تیسرا فرق یہ ہے کہ آپ امام ابوحنیفہ کی تقلید کے لئے اپنی مسجد کے امام کی تقلید کرتے ہیں یعنی آپ تقلید در تقلید میں مبتلا ہیں۔
‘ظلمات بعضھا فوق بعض’۔
چوتھا فرق یہ ہے کہ اہل حدیث تقلید کو بدعت کہتے ہیں کیوں کہ قرآن وحدیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ اور وہ اپنے مسجد کے امام اور مولوی سے ﷲ کے حکم کی تعمیل میں مسئلہ پوچھتے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ الانبياء: ٧ (اگر تم نہیں جانتے تو ذکر والوں سے پوچھو)
”ذکر والے“ وہ لوگ ہیں جن کے پاس کتاب وسنت کا علم ہے کیوں کہ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر: ٩) ہم نے ہی ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
اور ظاہر ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے قرآن وحدیث دونوں کو نازل کیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ * إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْيٌ يُوحَىٰ (النجم: ٣-٤) ﷲ کے نبی اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے وہ وحی الٰہی کے مطابق بولتے ہیں۔
لہذا معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث دونوں کا علم رکھنے والے سے مسئلہ دریافت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
چور چلائے چور چور:
آپ فرماتے ہیں: ”آپ لوگوں کا یہ خیال کہ معاذ ﷲ صحابۂ کرام کے اجتہادات غلط تھے ایمان کے لئے زہر قاتل ہے۔“
ذرا آپ سینے پر ہاتھ رکھ کر سچ سچ بتائیے کہ یہ گناہ احناف نے کیا ہے یا اہل حدیثوں نے۔ اسی کو کہتے ہیں ”چور چلائے چور چور“ یعنی اپنا گناہ چھپانے کے لئے دوسروں پر بہتان تراشی کرنا۔
شاید آپ نے اپنے مذہب کے اصول فقہ کی کتابیں پڑھی ہی نہیں ورنہ آپ کی نظر سے یہ عبارتیں ضرور گذری ہوتیں اصول الشاشی میں ہے۔
والقسم الثاني من الرواة وھم المعروفون بالحفظ والعدالة دون الاجتھاد والفتوی کأبي ھریرة وأنس بن مالك فإذا صحت روایة مثلھما عندك فإن وافق القیاس فلا خفاء في لزوم العمل به وإن خالفه کان العمل بالقیاس أولی ۔
یعنی جو راوی عادل وحافظ تو ہیں لیکن فقیہ ومفتی نہیں جیسے ابوہریرہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم جب ان جیسوں کی روایت تیرے نزدیک صحت کو پہنچ جائے تو اگر وہ حدیث موافق قیاس ہو تو اس پر عمل کے لازم ہونے میں کوئی پوشیدگی نہیں۔ ہاں اگر وہ حدیث خلاف قیاس ہو تو قیاس پر عمل کرنا ہی اولی ہے۔
کہئے جناب! صاف عبارت ہے یا نہیں کہ جب ابوہریره اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور یہی دونوں ہی نہیں بلکہ ان جیسوں کی روایت سے کوئی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بہ سند صحیح مروی ہو اور وہ خلاف قیاس ہو تو حنفی مذہب کے اصول کی تعلیم یہ ہے کہ ایسے وقت میں اس حدیث کو چھوڑ دیا جائے اور قیاس پر عمل کیا جائے۔
اس اصول میں آپ کے حنفی مذہب کے اصولیوں نے کئی گناہوں کا ارتکاب کیا ہے۔ اول تو یہ کہ صحابۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر مجتہد غیر فقیہ یعنی صاف لفظوں میں بے سمجھ کہا ہے۔
آپ کا الزام اہل حدیثوں پر صرف اتنا ہے کہ وہ صحابہ کے بعض اجتہاد کو غلط مانتے ہیں اور آپ کے حنفی مذہب کا حال یہ ہے کہ وہ بعض صحابہ کو سرے سے مجتہد ہی نہیں مانتا ۔
فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالأَمْنِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (الانعام: ٨١)
دوسرا گناہ یہ ہے کہ حدیث پر قیاس کو ترجيح دی ہے۔ تیسرا گناہ یہ ہے کہ ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو نہیں مانا۔
ﷲ کی شان ہے! امام محمد، امام ابو یوسف، ہدایہ، شرح وقایہ اور قدوری کے مصنف تو فقیہ ٹھہریں اور شاگردان رسول واصحاب پیغمبر غیرفقیہ ٹھریں؟ قیاس فقہاء مقبول اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم مردود ۔ لا حول ولا قوة اِلا با ﷲ۔
آگے اصول الشاشی میں ہے
“وعلی ھذا ترك أصحابنا روایة أبي ھریرة في مسألة المصراة بالقیاس” یعنی اسی اصول کی بنا پر ہم حنفیوں نے ابو ہریرة کی روایت کردہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ کے روکے ہوئے جانور کی خرید وفروخت کے مسئلہ میں چھوڑ دیا ہے اور قیاس کو لے لیا ہے۔
واضح ہو کہ مصنف اصول الشاشی کی یہ بات ان کی تحقیق کی کمی کی وجہ سے ہے ورنہ یہ حدیث عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جو احناف کی نظر میں سیدالفقہاء ہیں اور وہ بھی بخاری شریف میں ہے مگر یہ اصولی اسے کیسے مان سکتے ہیں کیوں کہ اس کے ماننے سے مذہب بگڑتا ہے۔
غیر فقیہ کی حدیث چھوڑ دینے کی علت بیان کرتے ہوئے حنفی مذہب کی مشہور کتاب نور الانوار میں لکھا ہے
“وھي أنه لو عمل بالحدیث لانسد باب الرأي” یعنی اگر حدیث پر عمل کیا جائے تو رائے کا دروازہ بند ہوجائے گا۔
یہ ہے فقاہت جس کی مدح وثنا میں آنجناب رطب اللسان ہیں!! حدیث پر عمل چھوٹے تو چھوٹ جائے مگر رائے کا دروازہ بند نہ ہونے پائے۔
آگے چل کر صاحب نور الانوار لکھتے ہیں
“وھذا لیس ازدراء بأبي ھریرة واستخفافا به” یعنی اس میں نہ تو ابو ہریرة رضی اللہ عنہ کی تحقیر ہے نہ توہین۔ تعجب ہے۔ اتنا ناسمجھ بتلایا کہ ان کی روایت کردہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی متروک کردی گئی لیکن ابھی تک نہ ان کی تحقیر ہوئی نہ توہین !!!
واضح رہے کہ ابو ہریرہ صلی اللہ علیہ وسلمبوہ صحابی ہیں جن سے آدھا دین مروی ہے، احکام کے بیان کی حدیثیں کل تین ہزار ہیں جن میں سے ڈیڑھ ہزار صرف ابو ہریرة رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں۔ آپ صحابہ کے زمانہ میں فتوے دیتے تھے۔ آٹھ سو صحابہ اور تابعین آپ کے شاگرد ہیں۔ پانچ ہزار تین سو چھہتر حدیثیں آپ سے مروی ہیں۔ انہیں غیر فقیہ کہنے والے سے زیادہ بے سمجھ اور گستاخ وبے ادب دنیا میں کوئی نہ ہوا اور نہ ہوگا۔
آپ نے اہل حدیثوں کو بار بار شیعہ ہونے کا طعنہ دیا ہے مگر خود اپنے گریبان میں منہ ڈال کے جھانکا نہیں کہ حدیث دشمنی اور صحابہ دشمنی میں آپ خود کتنی پستی میں گرے ہوئے ہیں اور پھر بھی آپ کو شرم نہیں آتی۔
عبادت سے جی چور کی پسند حنفی تراویح:
آپ نے عبدالجلیل کی زبانی کہلوایا ہے: “میں نے دراصل اہلحدیث مسلک تراویح کی بیس رکعتوں سے بچنے کی خاطر اختیار کیا تھا۔”
شاید آپ نے کسی اہل حدیث مسجد میں تراویح کی نماز کبھی نہیں پڑھی اور نہ پڑھتے ہوئے دیکھا اور نہ کسی معتبر شخص سے اس کی کیفیت سنی ورنہ ایسی غیر معقول بات زبان پر نہ لاتے۔ عبادت سے جی چور حنفی مذہب کی آسان تراویح چھوڑ کر اہل حدیث کی مشکل تراویح کیوں کر اپنائے گا۔ احناف کی مسجدوں میں تراویح کی تلاوت جس تیز رفتاری سے کی جاتی ہے کہ یعلمون تعلمون کے سوا کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا ایسا اہل حدیث مساجد میں نہیں ہوتا بلکہ ترتیل کے ساتھ تلاوت کی جاتی ہے جو قرآن کریم کی عظمت کے شایان شان بھی ہے اور سمجھنے والوں کو سمجھنے کا موقع بھی ہے۔ اسی طرح رکوع سجود، قومہ اور جلسہ بھی اہل حدیث پورے سکون واطمينان کے ساتھ کرتے ہیں۔ احناف کی طرح تیزی وبے اطمینانی سے کوے کی ٹھونگیں نہیں مارتے۔ جتنی دیر میں احناف کی مساجد میں بیس رکعت مکمل ہوجاتی ہے اتنی دیر میں اہل حدیثوں کی آٹھ رکعت پوری نہیں ہوتی۔ ایسا شخص جس کی طبیعت عبادت پر آمادہ نہیں ہوتی اہل حدیث مسجد چھوڑ کر حنفی مساجد کا رخ کرتا ہے تا کہ کم وقت بھی لگے اور بیس رکعت کی بڑی گنتی بھی گنواسکے اور لوگوں میں اپنی عبادت ودینداری کا چرچا بھی کر سکے۔
حنفی کتابوں کے شرمناک مسائل:
آپ نے دعوی کیا ہے کہ جس طرح کے گندے اور شرمناک مسائل حنفی کتابوں میں ہیں اسی طرح حدیث میں بھی ہیں اور آپ نے مثال میں ایک حدیث بھی پیش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی جانور کے ساتھ بد فعلی کرے اسے قتل کردو۔
آپ نے حدیث تو پیش کردی لیکن فقہ کا نمونہ پیش نہیں کیا تاکہ لوگ خود موازنہ کرلیں کہ آپ کا برابری کا دعوی کتنا صحیح ہے؟ لیجئے اس کمی کو میں پوری کر دیتا ہوں اور حنفی مذہب کی دو مشہور کتابوں درمختار اور عالمگیری کے فقط ایک ایک نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ واضح رہے کہ یہ مسائل نہ صرف شرمناک ہیں بلکہ قرآن وحدیث کے خلاف بھی ہیں۔
١۔ در مختار جلد اول ص ١٢٢ میں ہے کہ جانور کے ساتھ بد فعلی کرنے سے اور مردے کے ساتھ کرنے سے اور نابالغ غیر خواہش مند لڑکی کے ساتھ جماع کرنے سے نہ وضو ٹوٹتا اور نہ غسل واجب ہوتا ہے۔
٢۔ عالمگیری مصری جلد اول ص ١٣ میں ہے کہ مباشرت فاحشہ سے بھی امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمد کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا یعنی میاں بیوی ننگے ہو کر انتشار کی حالت میں شرمگاہیں ملائیں تب بھی وضو نہیں ٹوٹتا۔
یہ دو نمونے بہت کافی ہیں۔ تفصیل کے خواہش مند بڑی کتابوں کا مطالعہ کریں۔
آخری بات:
چلتے چلتے ایک اصولی بات ذہن نشین کر لیں کہ کسی مسلک کی خوبی وخرابی دلائل کی بنیاد پر ثابت ہوتی ہے۔ الزام تراشی اور بہتان بازی کا سوائے نقصان کے کوئی فائدہ نہیں۔ اگر آپ تقلید کو جائز یا مستحب یا واجب سمجھتے ہیں تو اسے قرآن و حدیث کے دلائل سے ثابت کیجئے۔
غیر مقلدین کو گالی دے کر، انہیں شیعہ کہہ کر، انہیں عبادتوں سے بے رغبت بتا کر تقلید کی فضیلت ثابت نہیں کی جاسکتی۔ الٹا اس سے آپ کا کھوکھلاپن ظاہر ہوگا اور آپ کے عوام کے سامنے آپ کا سارا بھرم جاتا رہے گا۔
ہم اہل حدیث ہر نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ یعنی صراط مستقیم کی ہدایت اور اس پر ثبات اور استقامت کی دعا مانگتے ہیں۔ آیئے آپ بھی اس میں شریک ہو جایئے اور حق وسعادت کو گلے لگا لیجئے۔
ﷲ تعالیٰ ہی دعائیں قبول فرماتا ہے اور توفیق سے نوزتا ہے۔
********************************