• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

“ایک غیر مقلد کی توبہ” توبہ توبہ (یونیکوڈ)

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
"ایک غیر مقلد کی توبہ" توبہ توبہ


"ایک غیر مقلد کی توبہ" توبہ توبہ

از قلم
مولانا عبدالہادی عبدالخالق مدنی


کمپیوٹر کتابت: محمد ابراہیم زین الدین مقدّم
دارا لتراث الاسلامی : تلاؤ پالی . کوسہ . ممبرا . تھانہ.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
عرض نا شر
الحمد ﷲ رب العالمین والصلاة والسلام علی نبینا محمد وعلی آله وأصحابه أجمعین ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین. أما بعد
امت کا جو طبقہ گروہ بندی اور تفرقہ بازی کا شکار ہے اور اسی کو عین ہدایت سمجھتا ہے انھوں نے ہمیشہ سے اہل حق کے خلاف استہزاء، تمسخر، ٹھٹھا، طعن وتشنيع اور تہمتوں کو ایک موثر ہتھیار کی شکل میں اختیار کر ركها ہے، تاریخ اس بات پر گواہ ہے۔
لیکن اہل حق اور سلف صالحین کی راہ اختیار کرنے والوں نے کتاب و سنت کی تعلیم اور برکتوں سے ہمیشہ اس روش سے اپنوں کو بچایا ہے اور محفوظ رہے ہیں۔ الحمد ﷲ۔ البتہ اگر کسی تحریر سے کچھ لوگوں نے اذیت محسوس کی ہے تو انھیں یا تو اپنوں کے ظلم و تعدی کا علم نہیں ہے یا اسے اپنے لئے قابل ملامت نہیں مانتے۔ ایسے لوگ اگر انصاف کی نظر سے اپنی آنکھوں کی شہتیر دیکھ لیتے تو دوسروں کی آنکھوں کے تنکوں کو پہاڑ بنا کر نہ پیش کرتے۔
بہر کیف حقائق کا اظہار اور ان پر عمل، حق کا دفاع، باطل اور جاہلانہ تاویلوں کی نقب کشائی تو جماعت حق کی نشانیوں میں سے ہے۔ یہ کتابچہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جسے “ایک غیر مقلد کی توبہ” کی فریب کاری و تلبیس کا پردہ چاک کرنے کے لئے شائع کر دیا گیا ہے۔ اسے جماعت کے ایک غیور سلفی عالم نے مرتب کیا ہے تاکہ اس خرافاتی کتاب کے اثرات بد سے کم علم اور سادہ لوح عوام کو بچایا جاسکے اور جو لوگ ثابت شدہ حقائق کو وسعت قلبی سے تسلیم کرتے ہیں ان کے لئے رہنمائی اور نمائندگی کا کام دے سکے۔
واﷲ ولي التوفیق ویھدی من یشاء إلی صراط مستقیم۔
ناشر:
دار التراث الإسلامی
٣ لیک پلا زہ , مقابل تلاؤ پالی، کوسہ , ممبرا ,
تھانہ , مہاراشٹر ٦١٢ ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
پیش لفظ
الحمد ﷲ رب العالمین والصلاة والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آله وأصحابه أجمعین۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ملت اسلامیہ ان دنوں عقیدہ وعمل میں مختلف انحرافات کا شکار ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ملت کو انحرافات میں مبتلا کرنے اور ضلالت میں باقی رکھنے کے لئے خود ملت کے بعض افراد ہی ذمہ دار ہیں۔ وہ لوگ قوم و ملت کا نام لے کر گفتگو کرتے، علم وتقوی کا جھوٹا مظاہرہ کرتے، دشمنان اسلام کا حوالہ دے کر اپنے فاسد افکار رائج کرتے اور قرآن کریم و احادث صحیحہ سے لوگوں کو دور کرتے ہیں۔ توسع کے نام پر ہر باطل اور کج روی کو باقی رکھنے اور ہر انحراف کو سند جواز عطا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بات معلوم ہے کہ اگر مسلمان کتاب و سنت پر قائم رہ کر صحیح عقیدہ و عمل کو اپنائے رہیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں زبردستی جہنم میں نہیں جھونک سکتی، دنیا کا ظاہری نقصان ہو سکتا ہے مگر آخرت میں نجاح و فلاح یقینی ہے۔ اس کے برخلاف اگر حالات ومشکلات اور مسائل کا نام لے کر اصلاحی تحریکوں کی مخالفت کی جائے گی۔ انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے باز رکھنے کی کوشش ہوگی، عقیدہ و عمل کی گمراہیوں سے نکلنے کے لئے افراد ملت تیار نہیں ہوں گے، تو ہلاکت وشقاوت اور دنیا و آخرت کی سعادت سے محرومی یقینی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حق اپنانے اور بدعات وانحرافات ترک کرنے کے لئے افراد ملت ہمہ وقت تیار رہیں اور کتاب وسنت کی واضح ہدایت اور صحابہ وسلف کا روشن طریقہ کار ملتے ہی اپنے قدیم عمل اور رواجی طرز فکر سے فوراً دستبردار ہو جائیں۔ اسی میں سعادت و نجات مضمر ہے اور اسی میں ہر طرح کا خیر پنہاں ہے۔
چند دنوں پہلے کی بات ہے ایک صاحب نے مجھے ایک مختصر سا کتابچہ دیا جس کا عنوان تھا “ایک غیر مقلد کی توبہ” میں نے اسے ایک نظر دیکھا اور ناقابل توجہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ اس طرح کے مغالطہ انگیز کتابچے وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے ہیں اور ان کے فساد اور بودے پن سے لوگ باخبر ہیں۔ چند دنوں بعد پھر کچھ نوجوانوں اور بزرگوں نے بالمشافہ ملاقات کے ذریعے اس بات پر اصرار کیا کہ اس کتابچہ کا فساد بہت تیزی سے پھیل رہا ہے لہذا اس کے آپریشن اور پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے۔ بالخصوص محترم عبدالودود صاحب صدیقی سلفی جو بار بار اس طرف توجہ دلاتے رہے اور یہ کام تیزی سے مکمل کرنے پر اصرار کرتے رہے۔ چنانچہ میں نے اس کا مطالعہ کیا اور تیزی کے ساتھ ایک سرسری مختصر جائزہ تحریر کیا تاکہ اس کتابچہ کا مغالطہ اور فریب لوگوں پر واضح ہو جائے اور وه اس کی زہر ناکی سے محفوظ رہ سکیں۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ یہ عمل میرے لئے ذخیرہ آخرت بنائے اور اس کتابچہ کو عوام الناس کے لئے مفید اور گمراہیوں سے بچاؤ کا ذریعہ بنائے اور اس کی اشاعت میں معاون ہر فرد کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین ۔
والسلام
داعی الی الخیر عبدالہادی علیم مدنی
١١ ستمبر ١٩٩٩ء
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
یہ حجاب ونقاب کیوں؟
اس وقت میری نظروں کے سامنے ٤٨ صفحات کا ایک کتابچہ ہے جس کا نام ہے “ایک غیر مقلد کی توبہ” جس پر نہ ہی مرتب کا نام درج ہے اور نہ ہی ملنے کا مکمل پتہ۔ صرف “ثنا پبلی کیشنز ممبئی” لکھ کر چھوڑدیا گیا ہے۔ نہ جانے اتنی پردہ داری کیوں برتی گئی ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: الإثم ما حاك فی صدرك وکرھت أن یطلع علیه الناس (رواہ مسلم و الترمذی و احمد و الدارمی) گناہ وہ ہے جو تمھارے سینے میں کھٹکے اور تم کو ناپسند ہو کہ لوگ اسکی اطلاع پا جائیں۔
شاید مصنف کو پہلے ہی سے اس بات کا احساس تھا کہ وہ جرم و گناہ کا عمل کررہے ہیں اسی لئے انہوں نے نقاب پوشی سے کام لیا اور اپنا نام اور اپنی شخصیت چھپائی تا کہ لوگوں کو اطلاع نہ ہو سکے اور وہ کسی بھی قسم کے باز پرس اور سوال و جواب کا سامنا کرنے سے محفوظ رہ سکیں۔ اگر ان کے پاس دلائل و براہین کی قوت ہوتی اور ان کی بات میں کوئی وزن ہوتا تو اس طرح انہیں چھپنے کی ضرورت نہیں تھی۔
آنجناب نے دیباچہ کے اختتام پر نام کے بجائے لکھا بھی ہے :
“نبی رحمت کا ایک گنہگار امتی” یعنی پہلے ہی سے گنہگار ہیں اور یہ کتابچہ لکھ کر اپنے گناہوں میں مزید اضافہ کر لیا ہے۔ کس قدر قابل افسوس اور قابل رحم ہے !!

حصول مقصد کا غلط طریقہ:
مذکور ہ کتابچہ كا مقصد مؤلف کی زبانی یہ ہے ۔ “تا کہ ہرشخص جان لے کہ مقلد ین کو گمراہ سمجھنا غلط ہے”۔ (ص٢)
اہل انصاف بتائیں کہ اس مقصد کے حصول کا صحیح طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟ یہی نا کہ تقلید کے جائز اور مشروع ہونے کی دلیل قرآن مجید کی آیات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے پیش کی جائے لیکن فاضل مؤلف نے اس کے بر خلاف کیا یہ ہے کہ اہلحدیثوں پر بہتان بازی اور تہمت تراشی کی ہے۔ ان پر جھوٹے الزامات عائد کئے ہیں، ان پر لعنت و ملامت کی ہے اور اس طرح اپنے دل کا غبار نکال کر اپنا غصہ ٹھنڈ ا کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایک وضاحت:
مؤلف کی اہل حدیثوں سے بدظنی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہر غیرمقلد کو اہل حدیث سمجھتے ہیں ۔ انہیں اتنا بھی نہیں معلوم کہ ہر اہل حدیث غیر مقلد ہے مگر ہر غیر مقلد اہل حدیث نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر انہوں نے شمس پیر زادہ صاحب رحمۃ ﷲ علیہ کا نام لیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ وہ غیر مقلد تھے مگر یہ ہر گز سچ نہیں کہ وہ اہل حدیث تھے ۔
یہ تفریق کیوں؟
مؤلف ص ٣ پر رقمطراز ہیں : “اس مضمون کا ہدف وہی غیرمقلدین ہیں جو تقلید کو کفر وشرک قرار دیتے ہیں۔ ان سے بحث نہیں کی گئی جو تقلید کو جائز اور صحیح سمجھنے کے باوجود غیر مقلدیت کو ترجیح دیتے ہیں”۔
محترم! آپ نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی کہ غیر مقلدیت کو ترجیح دینے والوں سے آپ نے بحث کیوں نہیں فرمائی جبکہ آپ کی عینک سے محدثین کو تو جانے دیجئے صحابۂ کرام تک (معاذﷲ) مقلد نظر آتے ہیں !!
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر مقلدیت کی ترجیح کے دلائل میں اتنی قوت اور اتنا وزن ہے کہ بڑے سے بڑے متعصب اور تنگ نظر کو اس کی تردید کی جرأت اور ہمت نہیں ہے۔
خود را فضیحت دیگراں را نصیحت:
آ نجناب ص ٣ پر لکھتے ہیں : “ضرورت ہے کہ حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، غیر مقلد ین اور تمام مسالک کے افراد اپنے اندر توسع پیدا کریں۔ ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کی بجائے اتحاد وانضباط کا مظاہرہ کریں اور ملت کو انتشار سے بچائیں ۔”
جناب عالی! یہ ضرورت صرف دوسروں کو ہے یا آپ کو بھی ہے؟ خود را فضیحت و دیگراں را نصیحت۔ یہ کتابچہ تصنیف کر کے آپ نے کس توسع اور اتحاد وانضباط کا مظاہرہ کیا ہے؟ کیا یہ کتابچہ غیر مقلدین کے خلاف پروپیگنڈہ نہیں ہے؟ آپ نے شاید اپنے اس وعظ کے کلمات پر غور اور تدبر نہیں کیا ورنہ اس کی اشاعت سے باز رہتے۔
ضرورت توسع کی نہیں قبول حق کی:
ضرورت توسع پیدا کرنے کی نہیں بلکہ ﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے ساتھ ان کے احکام پر عمل کرنے نیز تقلید نہ کر کے ﷲ اور اس کے رسول کی مخالفت سے بچنے کی ہے تاکہ دنیا وآخرت میں فلاح وکامرانی نصیب ہو اور جہنم کے عذاب سے نجات مل سکے۔
ﷲتعالی فرماتا ہے :اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَآء (الاعراف:۳) تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور ﷲ تعالی کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کا اتباع مت کرو ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
مکالمہ کے دونوں فریقوں کا ایک عمومی جائزہ:
مقدمہ کے بعد ص٤ سے اصل کتاب شروع ہوتی ہے جو عبدالجلیل اور شوکت نامی دو افراد کے مابین مکالمہ کی صورت میں ہے۔ عبدالجلیل وہ شخص ہے جس نے ابھی نیا نیا مسلک اہل حدیث قبول کیا ہے اور بے چارہ کم علم بھی ہے اور سادہ لوح بھی۔ ابھی اسے مقلدین کے داؤ پیچ، ان کے مغالطوں اور ان کی فریب کاریوں کا علم بھی نہیں ہے۔ شوکت نامی شخص جس کو مقلد ظاہر کیا گیا ہے اس نے عبدالجلیل صاحب پر اپنے علم اور تقوی کی دھونس جما کر انہیں اپنے تقلیدی جال میں پھنسا لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی مكالمہ واقعۃً اور سچ مچ کسی اہل حدیث عالم اور کسی مقلد عالم کے درمیان ہو تو اس کی شکل بہت حد تک بدلی ہوئی ہوگی جیسا کہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس وقت پورے عالم میں علماء اہل حدیث کی محنتوں کے صلہ میں لوگ تقلید کی روش سے توبہ کر کے سلفیت اختیار کر رہے ہیں اور مقلدین کے اکابر ان کے سوالات کے جوابات دینے سے عاجز ہیں اور بوکھلاہٹ میں عجیب وغریب حرکتیں کر رہے ہیں جس کا ایک نمونہ زیر تنقید کتابچہ بھی ہے کہ مرتب نے اسے لکھ کر کاغذ کے صفحات کے ساتھ اپنے نامۂ اعمال کو بھی سیاہ کر لیا ہے۔ چنانچہ آئندہ صفحات کے مطالعہ سے آپ کو اس کا پورا یقین حاصل ہوجائیگا۔
پہلا سوال:
اس کتابچہ میں اہل حدیث کی طرف سے پہلا سوال یہ رکھا گیا ہے کہ امام کا ذکر قرآن و حدیث میں کہاں ہے؟ اور پھر اپنے طور پر اس کا جواب دیا گیا ہے۔
اگر یہی سوال اہل حدیث کی طرف سے ہوتا تو اس طرح ہوتا کہ تقلید کا ذکر قرآن وحدیث میں کہاں ہے؟ کیوں کہ تقلید کے ثبوت سے پہلے ہی امام کے بارے میں سوال کرنا الٹی بات ہے۔ جب سرے سے یہ ثابت ہی نہیں ہو سکا کہ تقلید کرنا ضروری یا کم از کم جائز ہے تو اس پر بحث کرنا کہ کس کی تقلید کی جائے بالکل فضول سی بات ہے۔ تقلید کا وجوب یا جواز ثابت ہوجانے کے بعد ہی یہ سوال اٹھتا ہے کہ کس کی تقلید کی جائے گی؟ کون اس کا حقدار ہے؟ کس کو امام تسلیم کیا جائے اور کس بنیاد پر؟ اور بیک وقت کتنے لوگوں کو امام مانا جائے وغیرہ وغیرہ۔
تعجب ہے کہ تقلید کا جواز ثابت کرنے کے لئے کتابچہ تصنیف کیا جارہا ہے۔ عنوان ہی میں تقلید کا لفظ ہے مگر اس لفظ پر نہ کوئی سوال ہے اور نہ کوئی جواب۔ رہے بھی کیسے کہ قرآن و حدیث میں یہ لفظ انسان کے لئے استعمال ہی نہیں ہوا۔ یہ کوئی ایسی شرعی اصطلاح ہے ہی نہیں کہ جس کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت ہو۔
جہاں تک قرآن مجید کی بات ہے تو اس میں تقلید کا لفظ سرے سے ہے ہی نہیں۔ اگر تقلید اتنی ہی اہمیت کی حامل ہوتی جتنا باور کرایا جارہا ہے تو قرآن مجید میں اس کا ذکر ضرور ہوتا۔ ﷲتعالیٰ اتنی اہم چیز کو نظر انداز نہیں کرتا۔
حدیث میں بھی مروجہ اصطلاحی معنوں میں تقلید کہیں مذکور نہیں۔ آئیے حدیث کی اول نمبر کی صحیح کتاب بخاری شریف میں دیکھا جائے۔ کتاب الحج میں امام بخاری نے باب قائم کیا ہے: باب تقلید الغنم (باب : بکریوں کو ہار پہنانے کا بیان)
اس کی ذیل میں حدیث لائے ہیں کہ عائشہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں: كُنْتُ أَفْتِلُ الْقَلَائِدَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُقَلِّدُ الْغَنَمَ وَيُقِيمُ فِي أَهْلِهِ حَلَالًا. یعنی ”میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے قلادہ خود بٹا کرتی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کو بھی قلادہ پہنایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے گھر اس حال میں مقیم تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلال تھے۔“
امام بخاری نے دوسرا باب قائم کیا ہے: باب تقلید النعل (باب : جوتوں کا ہار ڈالنا) اور اس کی ذیل میں حدیث لائے ہیں : أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَسُوقُ بَدَنَةً قَالَ ارْكَبْهَا قَالَ إِنَّهَا بَدَنَةٌ قَالَ ارْكَبْهَا قَالَ فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ رَاكِبَهَا يُسَايِرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّعْلُ فِي عُنُقِهَا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ قربانی کا اونٹ لئے جارہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جا، اس نے کہا کہ یہ تو قربانی کا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ سوار ہو جا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے دیکھا کہ وہ اس پر سوار ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا ہے اور جوتے (کا ہار ) اس اونٹ کے گردن میں ہے۔
دیکھا آپ نے تقلید کا لفظ حدیث میں کن معنوں میں اور کس کے لئے استعمال ہوا ہے۔ میں نے المعجم المفھرس لألفاظ الحدیث سے مراجعہ کیا تاکہ شاید ایک ہی جگہ کتب حدیث میں انسان کے لئے تقلید کے لفظ کا استعمال مل جائے مگر میں اس میں ناکام رہا۔ میں مقلدین کا انتہائی شکر گذار ہوں گا اگر وہ انسان کے لئے تقلید کا لفظ قرآن و حدیث میں دکھلا سکیں تا کہ میرے علم میں اضافہ ہو اور اگر میں غلطی پر ہوں تو میں رجوع کرسکوں۔
امام کا لفظ قرآن و حدیث میں اور اس کی حقیقت:
آنجناب نے امام کا لفظ قرآن و حدیث سے نكال کر بڑی آسانی سے آنکھ میں دھول جھونکنے کی ناروا کوشش کی ہے، اس بات کی وضاحت کی مطلقاً کوئی زحمت نہیں کی کہ جن آیات و احادیث میں اماموں کا ذکر ہے ان سے فقہی مسالک کے یہی ائمہ مراد ہیں جن پر امت میں تفریق کی بنیاد رکھی گئی ہے یا کوئی اور مقصود ہے۔
آپ نے سب سے پہلے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٧١ پیش کی ہے۔ آیئے اس آیت کی تفسیر مشہور حنفی مقلد عالم مولانا محمودالحسن دیوبندی کی تفسیر میں دیکھتے ہیں۔ يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ کا ترجمہ انہوں نے کیا ہے (جس دن ہم بلائیں گے ہر فرقہ کو ان کے سرداروں کے ساتھ حاشیہ میں لکھا ہے (قیامت کے دن ہر فرقہ اس چیز کی معیت میں حاضر ہوگا جس کی پیروی اور اتباع کرتا تھا مثلا مومنین کے نبی، کتاب، دینی پیشوا، یا کفار کے مذہبی سردار، بڑے شیطان اور جھوٹے معبود) آ گے چل کر لکھتے ہیں (بعض نے لفظ امام سے خود اعمال نامہ مراد لیا ہے کیونکہ وہاں لوگ اس کے پیچھے چلیں گے)۔
بتلائیے جناب! یہاں امام کی ایک تفسیر آپ کے حنفی مقلد عالم “مومنین کے نبی” سے کرتے ہیں۔ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پھر الگ سے کسی امام کی ضرورت رہ جاتی ہے؟ اہل حدیثوں کی یہی تمنا اور یہی دعا ہے کہ کل قیامت کے دن ان کو ان کے نبی کے ساتھ ہی پکارا جائے۔ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسرے اماموں کو تلاش کرتے ہیں ان کے لئے ان کا امام مبارک ہو۔
کسی کا ہو رہے کوئی نبی کے ہو رہے ہیں ہم
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے:
آپ نے سورۂ نساء کی آیت نمبر٥٩ أَطِيعُواْ اللَّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ صرف ﷲ اور رسول ہی کی پیروی اور اطاعت کا دعوی درست نہیں ۔ (ص ٦)
سوال یہ ہے کہ یہ دعوی کس کا ہے؟ اہل حدیث کا دعوی یہ نہیں کہ ﷲ اور رسول کے سوا کسی کی اطاعت درست نہیں بلکہ یہ ہے کہ ﷲ اور اس کے رسول کے خلاف اور ان کی معصیت میں کسی کی اطاعت درست نہیں۔ اور اس دعوی میں آپ بھی ہمارے ساتھ ہیں مگر صرف قولا، تقلید کی بنا پر عملا آپ کو اس کی مخالفت کرنی پڑ تی ہے۔ چنانچہ آپ مولانا محمد ابوالحسن کی کتاب الظفر المبین جس کو مولانا عبدالنور راغب سلفی نے ادارہ دعوۃ الاسلام کٹیر منڈل کرلا ممبئی سے شائع کیا ہے اٹھا کر دیکھ لیجئے جس میں انھوں نے ایک سو ایسے مسائل نقل کئے ہیں جن میں امام اعظم کا مسلک احادیث صحیحہ نبویہ کے خلاف جاتا ہے۔ اسی طرح مولانا محمدصاحب جوناگڈھی کی کتاب سیف محمدی دیکھ لیجئے جس میں انھوں نے تقریبا چھ سو ایسے مسائل ذکر کئے ہیں جو قرآن و حدیث کے خلاف ہیں۔ ہم یہاں پر بطور نمونہ صرف دس مسائل نقل کرتے ہیں۔
١) صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اس برتن کو سات بار دھونا چاہئے۔ اور حنفی مذہب کہتا ہے کہ تین بار دھونا چاہئے۔
٢) بخاری ومسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ پر مسح کیا ہے اور حنفی مذہب کہتا ہے کہ عمامہ پر مسح جائز نہیں۔
٣) ابوداؤد میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم کو نائب بنایا، وہ نابینا تھے اور لوگوں کو نماز کی امامت کراتے تھے۔ اور حنفی مذہب کہتا ہے کہ اندھے کی امامت جائز نہیں کیوں کہ وہ نجاست سے بچ نہیں سکتا۔
٤) بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری ہی پر وتر ادا کرتے تھے اور حنفی مذہب کہتا ہے کہ بلا عذر سواری پر وتر ادا کرنا جائز نہیں۔
٥) بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلی کی طرف لوگوں کے ساتھ نکل کر استسقاء کی دو رکعت نماز ادا کی اور امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ نماز استسقاء میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی سنت نہیں ہے۔
٦) بخاری ومسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاة کسوف پڑھانے کے بعد خطبہ دیا اور حنفی مذہب کہتا ہے کہ صلاة کسوف میں خطبہ نہیں ہے۔
٧) صحیح مسلم میں ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا قسم کھا کر فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں سہیل اور ان کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی۔ اور حنفی مذہب کہتا ہے کہ کسی میت کی نماز جنازہ مسجد میں ادا نہ کی جائے۔
٨) بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس حال میں مرے کہ اس پر روزہ ہو تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزہ رکھے۔ اور حنفی مذہب کہتا ہے کہ میت کی طرف سے ولی روزہ نہیں رکھ سکتا۔
٩) بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں اور حنفی مذہب کہتا ہے کہ مدینہ حرم نہیں ہے۔
١٠) بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ کی اجرت اور کاہن کے معاوضہ سے منع فرمایا۔ اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک زانیہ کی مقرر کردہ اجرت حلال ہے اور جو شخص خرچہ دے کر کسی عورت سے زنا کرے اس پر حد واجب نہیں۔
یہ صرف دس مسائل ہیں جنہیں “مشتے نمونہ از خروارے” کے بطور ہم نے ذکر کردیاہے۔
مصنف محترم! آپ نے غیر مقلد سے اسی لئے توبہ کرائی ہے تاکہ اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے ہٹا کر امام کی تقلید کے جال میں پھانس دیں۔ آہ! وہ بے چارے کتنے بد نصیب ہیں جو آپ کے دام ہم رنگ زمین کا شکار ہوگئے!!
محدثین حنفی مسلک کیوں نہیں ؟
آنجناب نے کتب ستہ کے مصنفین بخاری و مسلم، ابو داؤد وترمذی اور نسائی وابن ماجہ کو امام شافعی کا مقلد قرار دیا ہے ۔ (ص٨)
سوال یہ ہے کہ ان سارے محدثین نے شافعی مسلک ہی کو کیوں اختیا ر کیا ہے؟ حنفی مسلک میں وہ کونسی خامی تھی جس کی وجہ سے اسے اپنانے سے یہ لوگ باز رہے؟ پھر بعض لوگوں نے ان محدثین کو حنبلی بھی تو کہا ہے آخر ایسا کیوں؟ درحقیقت معاملہ یہ ہے کہ وہ لوگ نہ ہی حنبلی تھے اور نہ ہی شافعی بلکہ یہ دونوں مذاہب چونکہ سنت کے قریب اور ان کے اکثر مسائل حدیث کے موافق ہیں اس لئے لوگوں نے موافقت کی بنا پر کسی ایک مسلک کی طرف منسوب کردیا ورنہ ان محدثین نے اپنے اجتہاد کی بنا پر بہت سے مسائل میں امام شافعی اور امام احمد بن حنبل سے اختلاف بھی کیا ہے۔
ان محدثین کو لوگ حنفی مذہب کی طرف تو ہرگز منسوب نہیں کرسكتے تھے کیونکہ یہ مسلک قرآن و حدیث اور دلائل صحیحہ سے اس قدر دور ہے کہ محدثین نے جگہ جگہ اس کا رد کیا ہے.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
ایک کھلا فریب اور شرمناک خیانت:
ص٩
پر آپ نے ایک کھلا دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔ آپ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ﷲ تعالٰی نے اپنے دین کی حفاظت نہیں کی۔ ایک حدیث جو امام ابو حنیفہ کے زمانے تک صحیح تھی بعد میں ضعیف ہو گئی۔ اس کی آپ نے ایک مثال بھی پیش کی ہے جس سے آپ کی صلاحیت و مہارت ہی نہیں بلکہ امانت و دیانت بھی طشت از بام ہو جاتی ہے اور آپ کا سارا بھرم کھل جاتا ہے اور یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آپ اپنے مسلک کی بے جا حمایت میں کس قدر نیچے تک جا سکتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ “ابن ماجہ میں ایک حدیث کو ضعیف قرار دیا گیا ہے کیوں کہ اس میں ایک راوی جابر جعفی ہیں جو ضعیف القول ہیں۔ یہ جابر جعفی ٢٣٥ھ میں پیدا ہوئے۔ روایت کے الفاظ ہیں “مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَإِنَّ قِرَاءَةَ الإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ ” یعنی جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اسی کی قراء ت ہوگی۔ امام ابو حنیفہ کے پاس جب یہ روایت آئی اس وقت جابر جعفی کے پردادا بھی شاید پیدا نہ ہوئے ہوں گے۔ اس لئے امام صاحب پر اس ضعف کا کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔ ان کے پاس جن معتبر راویوں کے ذریعے روایت پہنچی ان پر پوری امت اعتماد کرتی ہے”۔
جناب یہ کون جابر جعفی ہے جس کی پیدائش ٢٣٥ھ میں ہوئی۔ وہ جابر جعفی جو ابن ماجہ، ترمذی اور ابوداؤد کا راوی ہے اور جس کا ضعف محدثین میں مشہور ہے اس کی وفات امام ابو حنیفہ رحمہ ﷲ کی زندگی ہی میں ١٢٧ھ یا دوسرے قول کے مطابق ١٣٢ھ میں ہوئی۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں تصریح فرمائی ہے اور یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں خود امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ میں نے اس سے بڑا جھوٹا نہیں دیکھا۔ اور آپ یہ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے زمانے میں اس کے پردادا بھی پیدا نہ ہوئے ہوں گے۔ اپنے مسلک کی حمایت میں اتنا بڑا جھوٹ لکھتے ہوئے آپ کو ذرا بھی شرم نہیں آئی؟ ذرا بھی ﷲ کا خوف محسوس نہیں ہوا؟ کہاں ١٣٢ھ اور کہاں ٢٣٥ھ؟ دس بیس نہیں سو سال سے زیادہ کا فرق۔
آپ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے پاس جن معتبر راویوں کے ذریعے روایت پہنچی ان پر پوری امت اعتماد کرتی ہے سوال یہ ہے کہ پھر آپ نے وہ سند پیش کیوں نہیں کی؟ صرف دعوی کے بل بوتے تقلید کروانا چاہتے ہیں؟ اور حدیث کی اتباع سے روکنا چاہتے ہیں جبکہ ہر حدیث کی الگ الگ سند موجود ہے اور صحیح و ضعیف کی تحقیق موجود ہے؟
اصل میں آپ شاید یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ کتاب کسی اہل حدیث کے ہاتھ میں جائے گی ہی کیوں؟ اور گئی بھی تو ایسی کتاب کو پڑھے گا کون؟ اور بالفرض کسی نے دیکھ بھی لیا تو علماء کو کیا خبر؟ اور اگر علماء کے ہاتھ بھی پڑ گئی تو اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں گے کون جواب لکھتا ہے؟ مسکین کو کیا معلوم تھا کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑیں گے۔ آئیے لگے ہاتھوں اس روایت کو ابن ماجہ اٹھا کر دیکھ ہی لیا جائے۔ روایت کے الفاظ آپ نے ذکر کر دئیے ہیں۔ میں سند بھی ذکر کر دیتا ہوں۔ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ (دیکھئے ابن ماجہ مطبوعہ مصر جلد۱ صفحہ٢٧٧ حدیث: ٨٥٠)
اس حدیث کے صحابی جابر بن عبدﷲ رضی اللہ عنہ ہیں ان سے ابو الزبیر بیان کرتے ہیں جو مکہ کے رہنے والے ہیں اور جن کی وفات ١٢٦ھ میں ہوئی ہے (دیکھئے تقریب التہذیب) ابو الزبیر سے روایت کرنے والے جابر جعفی ہیں جو کوفہ کے ہیں جن کی سنہ وفات ۱۲۷ھ یا ایک قول کے مطابق ١٣٢ھ ہے۔ غالب گمان یہی ہے کہ امام صاحب نے انہیں سے سنا ہوگا کیوں کہ یہ امام صاحب کے شہر کوفہ کے ہی رہنے والے ہیں اور امام صاحب کے ہم عصر ہیں۔ اگر امام صاحب نے ان کے سوا کسی اور سے سنا ہے تو اس کی دلیل پیش کیجئے۔
مجھے لگتا ہے کہ یہ مثال آپ نے کسی اردو کتاب سے نوٹ کر لیا ہے نہ ہی آپ نے ابن ماجہ دیکھا ہے اور نہ ہی تاریخ ورجال کی کسی کتاب سے آپ نے نوٹ کیا ہے، اس کے مصنف نے غلطی کی تھی اس لئے یہ غلطی آپ نے بھی دہرادی، مکھی پر مکھی مارنے کا عمل جاری ہے۔ دراصل یہ شاخسانہ ہے تقلید کا۔ اگر آپ نے تقلید کو چھوڑ کر تحقیق کی راہ اپنائی ہوتی تو اس غلطی سے محفوظ رہتے۔

محدثین کی بے ادبی:

ص١٢
پر جناب نے محدثین کی بے ادبی کرتے ہوئے انہیں غیر فقیہ (یعنی بے سمجھ) قرار دیتے ہوئے ایک مثال پیش کی ہے، یہ وہی رٹی رٹائی بات ہے جسے مقلدین بارہا پیش کرتے رہے ہیں، دراصل پورا کتابچہ ہی پہلوں کا چبایا ہوا لقمہ ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کا جواب اہل حدیثوں کی طرف سے بارہا مختصر بھی اور تفصیل کے ساتھ بھی دیا جا چکا ہے۔ چنانچہ ذیل میں چند کتابوں کا نام دیا جا رہا ہے ان کی طرف رجوع کریں۔
١۔ تحریک آزادیٔ فکر اور شاہ ولی ﷲ کی تجدیدی مساعی
مصنف مولا نا اسماعیل سلفی گو جرانوالہ​

٢۔ الارشاد الی سبیل الرشاد
مصنف مولانا ابو یحییٰ محمد شاہجہاں پوری​
٣۔ اللمحات​
مصنف مولانا محمد رئیس ندوی​

٤۔ سیف محمدی اور مشکاة محمدی
مصنف مولانا محمد صاحب جوناگڈھی​

٥۔ حسن البیان
شیخ عبدالعزیز رحیم آبادی​

٦۔ حقیقۃ الفقہ
مولانا یوسف جے پوری​

٧۔ الظفر المبین فی رد مغالطات المقلدین
مؤلف محمد ابوالحسن​

٨۔ اصلی اور جعلی اسلام
مولانا عبدالنور راغب سلفی​

٩۔ دین محمدی ترجمہ اعلام الموقعین امام ابن قیم
اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری کتابیں اس موضوع پر لکھی گئی ہیں۔

آئیے اب آپ کی مثال ذکر کرکے اس کا جائزہ لے لیا جائے۔
مثال یہ ہے کہ محدثین عطار، دوافروش، کیمسٹ اور گاندھی کی طرح ہیں جبکہ فقہاء ڈاکٹر، حکیم اور وید کی طرح ہیں۔
اگر مقلدین سنجیدگی سے اسی مثال پر غور کر لیں تو ان کی اصلاح کے لئے ان شاء ﷲ کافی ہے۔ غور کیجئے اگر ڈاکٹر ایسا نسخہ لکھتا ہے جو کیمسٹ کے یہاں دستیاب نہیں تو مریض کو اس سے کیا فائدہ ہے۔ ڈاکٹر اس بات کا پابند ہے کہ وہی دوا لکھے جو پائی جاتی ہے نہ کہ فرضی دوا لکھے جس کا وجود ہی نہیں۔ اسی طرح اگر اصلی دوائیں موجود ہیں اور نقلی دوائیں لکھتا ہے تو ایسا ڈاکٹر مجرم ہے۔ اسی طرح اگر فقہاء صحیح حدیثوں کے ہوتے ہوئے ضعیف حدیثوں کے مطابق مسٔلہ بتائیں تو ان کا مسئلہ مردود ہوگا۔

تضاد بیانی:

ایک طرف آنجناب محدثین کو دوافروش سے تشبیہ دیتے ہیں دوسری طرف یہ بھی فرماتے ہیں کہ محدثین رحمہم ﷲ نے اپنی بساط کی حد تک تفقہ سے کام لیا۔ (ص١٢) مزید فرماتے ہیں: “امام بخاری، امام ترمذی، امام ابن ماجہ نے جمع حدیث کے ساتھ ساتھ تفقہ فی الدین کے قابل تعریف خاکے پر کئے ہیں۔” (ص ١٣)
غور کا مقام ہے کہ ایک طرف تو محدثین کو مقلد بھی بتاتے ہیں دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے تفقہ سے کام لیا اور اس کے قابل تعریف خاکے پر کئے۔ ایک آدمی جو فقیہ اور مجتہد ہو گا اسے تقلید کی کیا ضرورت ہے؟ آپ نے کتب ستہ کے مؤلفین میں سے صرف تین کا نام لیا اور تین کا نام کیوں چھوڑ دیا؟ خصوصاً امام ابوداؤد اور نسائی کا جبکہ انہوں نے ابواب فقہ کے مطابق ہی اپنی کتابیں مرتب کی ہیں اور آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ محدث اپنے استنباط و اجتہاد کے ذریعے ہی حدیث پر باب قائم کرتا ہے۔

فقہ کا صرف ایک نمونہ:

جس فقہ کی تعریف میں آپ نے زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں اس کا صرف ایک نمونہ ملاحظہ ہو۔
فقہ کی مشہور کتاب الاشباہ والنظائر ص٧٢٠ میں ہے۔
لو نظر مصل إلى المصحف وقرأ منه فسدت صلاته لا إلی فرج امرأة بشھوة لأن الأول تعلیم وتعلم فیھا لا الثاني.
ترجمہ: اگر قرآن میں دیکھ کر پڑھے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی کیونکہ اس میں تعلیم وتعلم ہے اور اگر عورت کی شرم گاہ کو شہوت سے دیکھے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔
مولوی احمد رضا صاحب فتاوی رضویہ جلد۱ صفحہ٦٧ میں لکھتے ہیں: “اگر عورت کو طلاق رجعی دی تھی۔ ہنوز عدت نہ گذری، یہ نماز میں تھا کہ عورت کی فرج داخل پر نظر پڑ گئی اور شہوت پیدا ہوئی اور نماز میں فساد نہ آیا ۔”
یہ ہے فقہ کا وہ نمونہ جس کی مدح و ثنا کرتے آپ نہیں تھکتے اور جس سے اہل حدیث ﷲ کی پناہ چاہتے ہیں۔

کٹ حجتی:
آپ سے یہ سوال کئے جانے پر کہ صحابہ نہ تو حنفی تھے نہ شافعی نہ مالکی نہ حنبلی، پھر آپ لوگ کیوں ان مسالک کو اختیار کرتے ہیں یہ جواب دیا ہے کہ صحابہ بخاری ومسلم وغیرہ کی کتابیں بھی نہیں پڑھتے تھے ان کو کیوں اہلحدیث پڑھتے ہیں؟ (ص ١٥)
آپ نے جب یہ جملہ لکھا ہوگا تبھی آپ کو احساس ہوا ہوگا کہ یہ نری کٹ حجتی ہے مگر وائے رے تقلید کا عشق! جو بھی آپ سے کہلوائے۔
صحابہ کرام ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو بلا واسطہ خود آپ سے سنتے یا دیکھتے یا کسی دوسرے صحابی کے واسطے سے معلوم کرتے اور اپنی سمجھ اور استطاعت کے مطابق عمل کرتے تھے اور یہی اہل حدیث کا طریقہ ہے کہ محدثین کے واسطہ سے ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو معلوم کرتے ہیں اور اپنے فہم اور استطاعت کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
اس کے برخلاف مقلدین کا طریقہ یہ ہیکہ وہ اپنے اماموں کے اقوال وآراء اور فتاوی کو معلوم کر کے ان کے مطابق عمل کرتے ہیں خواہ قول امام حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہی کیوں نہ ہو جبکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عمل سراسر حدیث کی توہین اور شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی وبے ادبی ہے۔
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
ایک اور خیانت:
مؤلف کے خیانت کی ایک مثال پچھلے صفحات میں ذکر کی جا چکی ہے دوسری خیانت انہوں نے ص١٥ پر کی ہے لکھتے ہیں:“صحابۂ کرام اپنے زمانہ کے فقيہ صحابۂ کرام کی تقلید کرتے تھے۔” اس سلسلہ میں آنجناب نے بخاری کتاب الحج کی ایک روایت پیش کی ہے کہ اہل مدینہ نے حضرت ابن عباس سے طواف زیارت کے بعد حائضہ ہونے والی خاتون کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ بلا طواف وداع جا سکتی ہے۔ “اہل مدینہ نے کہا کہ ہم زید بن ثابت کے مقابلہ میں آپ کا قول اختیار نہیں کریں گے۔” پھر آنجناب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “اہل مدینہ اکثر انہیں کی تقلید کرتے تھے۔ اس ایک مثال سے یہ امر واضح ہو گیا کہ صحابۂ کرام بھی عملا تقلید کرتے تھے اور الحمدﷲ ہم بھی تقلید کے قائل ہیں۔”
مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے کہ تقلید کی محبت کا جنون آپ کو کہاں تک لے جائے گا؟ یہ تقلید تھا یا اس آیت پر عمل تھا فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (النحل: ٤٣) (اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھو) کاش آپ نے خیانت سے کام نہ لیا ہوتا اور بخاری کی مکمل حدیث نوٹ کی ہوتی تو آپ کو بھی اور اس کتاب کے پڑھنے والوں کو بھی معلوم ہوتا کہ تقلید کے خلاف اور تحقیق کی تائید میں اہل حدیثوں کے لئے یہ حدیث کتنی عظیم دلیل ہے۔مذکورہ حدیث میں آگے یہ الفاظ ہیں کہ عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب مدینہ جانا تو پوچھنا (تحقیق کرنا) چنانچہ وہ لوگ مدینہ پہنچے اور (اہل علم سے) دریافت کیا، ام سلیم سے بھی دریافت کیا تو انہوں نے صفیہ کی حدیث سنائی جو اس طرح ہے کہ ان کے ساتھ خود یہ معاملہ پیش آیا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ طواف وداع کی ضرورت نہیں ہے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الحج باب ١٤٥ حدیث: ١٧٥٨)
ٹھنڈے دل سے غور کیجئے کہ یہ حدیث تقلید کی دلیل ہے یا تحقیق کی؟ اہل مدینہ کو اس وقت تک اطمينان حاصل نہیں ہوا جب تک انہوں نے ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں پالی۔ آج کے مقلدین کا طور طریقہ کیا ہے؟ وہ اپنے امام کی رائے سن کر مطمئن ہو جاتے ہیں اور حدیث کو تلاش کرنے اور تحقیق کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور اوپر سے مگن بھی رہتے ہیں کہ حق وراستی پوری کی پوری انہیں کی ملکیت ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ﷲ تعالی فرماتا ہے: فَإِنَّهَا لا تَعْمَى الأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (الحج: ٤٦) آنکھیں نہیں اندھی ہوتیں بلکہ سینوں میں دل اندھے ہوجاتے ہیں۔

مؤلف کی عربی دانی:

ص١٦
پر مؤلف نے دعوی کیا ہے کہ بیس رکعت تراویح پورے رمضان میں ادا کرنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت ہے حالانکہ یہ بات عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔ آپ امام ہیثمی کی کتاب مجمع الزوائد اور امام ابو نصر مروزی کی قیام اللیل وغیرہ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ اس میں یہ صریح روایت موجود ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو گیارہ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا اور جہاں تک ترویحتین اور تراویح کی لفظی بحث آپ نے کی ہے تو اس کے بارے میں اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ کاش آپ کو عربی زبان کا کچھ بھی معمولی علم ہوتا تو ایسی بات زبان پر نہ لاتے۔ تثنیہ کی جگہ جمع کا استعمال عربی زبان میں عام بات ہے۔ خود قرآن مجید میں سورہ تحریم آیت نمبر٤ میں ہے۔ إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا (اے نبی کی دونوں بیویو!) اگر تم دونوں ﷲکے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہتر ہے) یقینا تمھارے دل جھک پڑے ہیں۔
اس آیت میں (قلوبکما) کہا گیا ہے یعنی تم دونوں کے دل جبکہ قلوب جمع ہے اور دو سے زیادہ کے لئے بولا جاتا ہے۔ اور دو کے لئے قلبان مثل ترویحتان آتا ہے مگر قلبان نہ استعمال کرکے ﷲ تعالی نے قلوب استعمال کیا ہے۔ آپ جیسا کوئی تدبر و تفقہ زدہ مقلد یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ بیویاں تو دو ہی مخاطب ہیں مگر ان کے پاس دو سے زیادہ دل تھے کیوں کہ ﷲ تعالیٰ نے اس تاویل کی گنجائش ہی نہیں باقی رکھی ہے۔ صاف طور پر قرآن مجید میں دوسری جگہ اس بات کی صراحت کردی ہے کہ کسی شخص کے سینہ میں دو دل نہیں ہوتا مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ (الاحزاب: ٤)
اب آپ کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا کہئے کہ قلبان (تثنیہ) کی جگہ قلوب ( جمع ) کا استعمال غلط ہے اور معاذ ﷲ قرآن میں ایسی غلطی ہوئی ہے اور یا اپنی عقل پر ماتم کیجئے ترویحتان اور تراویح کی لفظی بحث کے فلسفہ سے توبہ کر لیجئے اور جاہلوں کے درمیان اپنی عربی دانی کا رعب قائم کرنے سے گریز کیجئے

حرمین کا عمل:
آپ نے دعوی کیا ہے کہ شروع سے آج تک حرمین شریفین میں بیس رکعت ادا کرنے کا دوامی عمل جاری ہے۔ کیوں صاحب؟ یہ شروع کب سے ہوا؟ عہد نبوی سے یا عہد صدیقی سے یا عہد فاروقی سے یا اس کے بعد سے اور اس تاریخی تسلسل کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟ آج تک کا دعوی بھی درست نہیں۔ اگر رمضان میں ﷲ تعالیٰ مکہ یا مدینہ جانے کی توفیق دے تو وہاں پہنچ کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجئے کہ آپ کا دعوی صداقت سے کتنا دور ہے؟ وہاں رمضان کے آخری دس دنوں میں تیس رکعت قیام اللیل کیا جاتا ہے۔ بیس رات کے ابتدائی حصہ میں اور دس آخری حصہ میں اور وتر صرف آخر میں پڑھتے ہیں۔ یہ کہنا قطعا غلط ہے کہ بیس تراویح اور دس تہجد ہے کیوں کہ رات کی تمام نمازیں قیام اللیل ہیں۔ تراویح اور تہجد کی تفریق خانہ ساز ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔
اور پھر حرمین کا عمل ہی اگر آپ کے لئے دلیل ہے تو حرمین میں تو عورتیں بھی باجماعت نماز ادا کرتی ہیں آپ اس کے اتنے شدید مخالف کیوں ہیں؟ آپ حالات کا رونا روتے ہیں بھلا بتائیے کہ جب ﷲ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر شریعت کو مکمل کر دیا تو پھر کس کی مجال ہے کہ وہ اس میں رد وبدل اور حذف واضافہ کر سکے۔ کیا یہ شریعت قیامت تک کے لئے نہیں ہے؟ کیا ﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبانی جب عورتوں کو یہ حکم دیا تھا کہ حائضہ و طاہرہ اور شادی شدہ وغیر شادی شدہ سب عید گاہ نکل کر آئیں تو اس وقت ﷲتعالیٰ کو یہ معلوم نہیں تھا معاذ ﷲ کہ آئندہ حالات خراب ہو جائیں گے اور عورتوں کا عید گاہ جانا مناسب نہیں ہوگا؟ یا ﷲ تعالیٰ جانتا تو ضرور تھا مگر آپ جیسے تفقہ والے مقلدین کے بھروسہ پر چھوڑ دیا تھا کہ لوگ حالات کے اعتبار سے شریعت میں خود رد وبدل کر لیا کریں گے۔
ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو حکم دیا ہےلاَ تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ (ﷲ کی بندیوں کو ﷲ کی مسجدوں میں جانے سے مت روکو) اور آپ کی جرأت کیسے ہو جاتی ہے کہ اس حکم کی صریح مخالفت کریں اور اتنے پر بس نہیں بلکہ جو اس حکم کو مانے اس پر بھی لعن طعن کریں۔ آپ کو ﷲ تعالیٰ کی یہ وعید یاد نہیں آتی فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ(النور: ٦٣) جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کسی فتنہ میں پڑ جائیں یا انہیں دردناک عذاب آپہنچے۔
عورتوں کے مسجد میں آنے سے متعلق دلائل کی تفصیل دیکھنا چاہیں تو مولانا مختار احمد ندوی کا رسالہ ”کیا مسلمان خواتین کا مسجد میں آنا فتنہ ہے؟“ مطبوعہ الدار السّلفیہ، ممبئی کا مطالعہ کریں۔

تین طلاقیں:
طلاق کا مسئلہ ذکر کرتے ہوئے آپ چراغ پا ہو گئے ہیں۔ اہل حدیثوں پر شیعہ ہونے کی تہمت لگانے کے ساتھ مجرموں کو رعایت دینے کا ملزم بھی ٹھہرایا ہے۔ آپ کو خوب معلوم ہوگا کہ اس موضوع پر مختلف مسالک کے علماء اکٹھا ہو کر ایک سیمینار میں یہ طے کر چکے ہیں کہ تین طلاق کا ایک واقع ہونا صحیح ہے اور کتابی شکل میں اس سیمینار کے مقالات شائع ہوچکے ہیں۔ نیز جامعہ سلفیہ، بنارس کے شیخ الحدیث مولانا محمد رئیس ندوی صاحب کی کتاب ”تنویر الآفاق فی مسألۃ الطلاق“ اس موضوع پر نہایت مدلل اور مفصل ہے اگر طلاق کے تعلق سے حق معلوم کرنا اور اپنے شبہات دور کرنا چاہتے ہوں تو اس کتاب کا مطالعہ کریں اور اگر اپنے باپ دادا کی روش پر باقی رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہدایت کی توفیق ﷲ کے ہاتھ میں ہے۔
طلاق کے سلسلے میں ملت اسلامیہ میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بتلانے کی ضرورت ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دینا بدعت اور بہت بڑا گناہ ہے اور صحیح اور سنت کا طریقہ یہ ہے کہ جس طہر میں مجامعت نہ کی ہو اس میں صرف ایک طلاق دی جائے۔ صرف اسی ایک طلاق سے عدت ختم ہو جانے پر عورت بائنہ ہو جائے گی اور آپ سے الگ ہوجائے گی اور اگر آپ رجوع کرنا چاہیں گے تو عدت ختم ہونے سے پہلے اور بعد دونوں وقت رجوع آسان ہو گا اور رجوع نہ کرنا چاہیں تو طلاق تو واقع ہو ہی جائے گی۔
کرنے کا کام تو یہ تھا مگر چونکہ یہ مشکل اور محنت طلب ہے اس لئے اسے چھوڑ دیا گیا اور بے چارے غیر مقلدین کو گالیاں دینا اور ان کے خلاف کتابچے لکھنا آسان ہے اس لئے اسے اپنا لیا گیا۔

امام چار ہی کیوں؟
یہ وہ سوال ہے جسے صفحہ٢٧ میں آپ نے اہل حدیث کی زبانی ذکر کیا ہے اور پھر اس کا جواب اس طرح دیا ہے کہ اگر پانچ ہوتے تو اہل حدیث پوچھتے کہ پانچ ہی کیوں اور تین ہوتے تو پوچھتے کہ تین ہی کیوں؟
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ سوال سے اتنا گھبراتے کیوں ہیں؟ اہل حدیث ضرور پوچھے گا کیونکہ وہ دین کی راہ مقلدوں کی طرح اندھا بہرہ بن کر نہیں بلکہ بصیرت کی بنیاد پر اپناتا ہے، ہر قول وعمل کی کتاب وسنت سے دلیل تلاش کرتا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق اہل ایمان کی یہی صفت ہے. لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا (الفرقان:٧٣) وہ اس پر اندھے بہرے بن کر نہیں گرتے۔ نیز فرمایا: قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّٰهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي(يوسف:١٠٨) کہ دیجئے یہ میری راہ ہے۔ میں ﷲ کی طرف بلاتا ہوں، میں اور میرے پیروکار بصیرت پر ہیں۔
پھر آگے چل کر آنجناب لکھتے ہیں: ”چار مسالک کیوں بنے اس کی حقیقی مصلحت تو ﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن چار کے عدد کی دین میں کچھ خصوصیت رہی ہے۔“ اس کے بعد آپ نے کچھ مثالیں پیش کی ہیں۔ آپ کی مثالوں کا جائزہ لینے سے پہلے موجودہ بحث سے متعلق ایک مناظرہ کی رو داد پیش کر دینا دلچسپی اور فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔

ایک مناظرہ:
ایک حنفی بریلوی نے اہلحدیث وہابی سے کہا: وہابی میں پانچ حرف، فرعون، نمرود، قارون، شداد، شیطان، مردود، یہ سب پانچ حرفی ہیں اور سب کی خباثت وہابی میں پائی جاتی ہے۔
وہابی نے جواب میں کہا: وہابی میں پانچ حرف، ﷲ (ال لاہ)، محمّد صلی اللہ علیہ وسلم، صدّیق، فاروق، عثمان، مرتضیٰ، فاطمہ، جبریل، توریت، قرآن، انجیل، یہ تمام مبارک اور پاکیزہ نام بھی پانچ حرفی ہیں۔ البتہ اب اپنے بارے میں سنو! حنفی میں چار حرف۔ گدها، گدھی، کتا، کتیا، بندر، سور، گیدڑ، چوہا، سانپ، ڈاکو، بدبو، گندہ، گوبر، کافر، فاسق، فاجر، مشرک، کاہن، ساحر۔ ان تمام ناپسندیدہ چیزوں کے نام چار حرفی ہیں۔ اب آپ کیا فرمائیں گے!!
دراصل قرآن و سنت کو چھوڑ کر تک بندیاں کرنے اور عقلی گھوڑے دوڑانے کا انجام یہی ہوتا ہے۔ دلیل کتاب وسنت ہے نہ کہ فرضی قیاسات۔

عدد چار کی اہمیت کے دلائل کا مختصر جائزہ:
اب آئیے آپ کی ذکر کردہ دلیلوں کا مختصر جائزہ لے لیا جائے۔
پہلی دلیل: آپ نے لکھا ہے کہ جلیل القدر انبیا ء چار ہیں: ١۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ٢۔ ابراہیم علیہ السلام ٣۔ موسیٰ علیہ السلام ٤۔ عیسیٰ علیہ السلام.
جائزہ: افسوس کا مقام ہے کہ آپ نے چار کی گنتی باقی رکھنے کے لئے نوح علیہ السلام کا نام چھوڑ دیا ہے جبکہ ان پانچوں پیغمبروں کا نام ایک سے زائد آیتوں میں ﷲ تعالیٰ نے ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے مثلا دیکھئے سورہ شوری آیت نمبر١٣ اور سورہ احزاب آیت نمبر٧ وغیرہ۔ اہل علم اور سلف کے نزدیک اولوالعزم رسولوں سے یہی پانچ مراد ہیں مگر آپ کو تو چونکہ اپنی چار کی گنتی پوری کرنی تھی اس لئے ایک کا نام حذف کردیا۔
دوسری دلیل: چار آسمانی کتابوں کو شہرت ملی۔ ١۔ قرآن مجید ٢۔ توریت ٣۔ انجیل ٤۔ زبور۔
جائزہ: یہاں بھی آپ نے سابقہ حرکت دہرائی اور صحف ابراہیم کو چھوڑ دیا۔
تیسری دلیل: چار ملائکہ کی شہرت ہے۔ ١۔ جبریل ٢۔ میکائیل ٣۔ عزرائیل ٤۔ اسرافیل۔
جائزہ: یہاں آپ نے چار کی گنتی پوری کرنے کے لئے عزرائیل نام جو کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے گلے لگا لیا ہے۔
بہرحال مقصود یہ ہے کہ آپ نے چار کی اہمیت بیان کرنے کے لئے چند مثالیں پیش کیں اور اس میں بھی اپنی عادت کے مطابق، خیانت، خردبرد اور کتر بیونت سے باز نہیں رہے۔

عدد چار سے زیادہ عدد ٣ کی اہمیت:
اگر گنتیوں کا ذکر قرآن وحدیث سے اکٹھا کرکے اور اس کی اہمیت بتلا کر کوئی بات ثابت کرنی ہو تو بہت سی خرافات ثابت ہو جائیں گی مثلا تیجہ کا ثبوت اس طرح پیش کریں گے کہ تین کے عدد کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے۔
١۔ تین مسجدوں کو اسلام میں امتیازی شان حاصل ہے، مسجد حرام، مسجد نبوی، اور بیت المقدس۔
٢۔ ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات کہتے تو تین بار دہراتے۔
٣۔ پانی تین سانس میں پینا چا ہئے۔
٤۔ رکوع اور سجدے میں کم از کم تین تسبیح پڑھنی چاہئے۔
٥۔ طلاق کی عدت تین حیض یا تین ماہ ہے۔
٦۔ کتا برتن میں منہ ڈال دے تو حنفی مذہب کے مطابق اسے تین بار دھونا چاہئے۔
٧۔ تین خصلتیں جس میں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پا جائے گا (١) سب سے زیادہ ﷲ اور رسول کی محبت (٢) اپنے بھائی سے ﷲ واسطے محبت (٣) کفر سے انتہائی کراہت۔
٨۔ ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سونے سے پہلے تین قل (سوائے قل یا ایہا الکافرون کے) پڑھ کر اپنے ہاتھوں میں پھونک کر اپنے بدن پر پھیر لیا کرتے تھے۔
٩۔ نمازوں کے بعد ٣٣ بار سبحان ﷲ ٣٣ بار الحمد لله اور ٣٣ بار ﷲ اکبر پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے اور اسے سو ( ١٠٠) پورا کرنے کے لئے ایک بار مزید ﷲ اکبر کہہ لیں یا اس کے بدلے یہ دعا پڑھیں: لا إله إلا ﷲ وحدہ لا شریك له، له الملك وله الحمد وهو علی کل شىء قدیر۔
واضح رہے کہ تینتیس کی تعداد تین کی گنتی دوبار لکھنے سے بنتی ہے۔
١٠۔ وتر کے تين رکعت ہونے پر اجماع ہے (احناف کے دعوی کے مطابق)
تلك عشرة کاملة۔ اب شاید آپ تین کی اہمیت تسلیم کرکے تیجہ کو شرعی عمل مان لیں گے۔ اگر اب بھی اضطراب ہے تو آپ کے اطمينان کے لئے مزید دلائل پیش خدمت ہیں۔
١١۔ اوقات مکروہہ تین ہیں جن میں نماز پڑھنا منع ہے۔
١٢۔ اعضاء وضو کو زیادہ سے زیادہ تین بار دھونا چاہئے۔
١٣۔ قرآن کے پارے تیس ہیں جس میں تین کے عدد کے ساتھ صرف صفر کا اضافہ ہے۔
١٤۔ تین نشانیاں منافق کی ہوتی ہیں (١) بات کرے تو جھوٹ بولے (٢) وعدہ کرے تو خلاف کرے (٣) امانت سونپی جائے تو خیانت کرے۔
١٥۔ موزوں پر مسح کی مدت مسافر کے لئے تین دن اور تین رات ہے۔
١٦۔ نکاح کے وقت تین بار عہد واقرار لیتے ہیں عموما۔
١٧۔ ایک عورت کی زیادہ سے زیادہ تین سوکنیں ہو سکتی ہیں۔
فرمائیے! اب تو یقینا آپ تیجہ کے قائل ہو گئے ہوں گے، ورنہ کم از کم یہ تو تسلیم کر ہی لیں گے کہ چار کے عدد سے زیادہ تین کی اہمیت ہے اس لئے آپ امام ابوحنیفہ کے سوا بقیہ تین ائمہ کی تقلید کے قائل ہو جائیں گے کیوں کہ حدیث صحیح کا سب سے زیادہ مخالف مذہب حنفی ہی ہے بقیہ تینوں ائمہ ائمۂ حدیث ہیں، انکا سلسلہ استاد وشاگرد کا ہے۔ اسی لئے شاہ ولی ﷲ رحمہ ﷲ نے اختلاف کو صرف دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ایک اہل الحدیث اور دوسرے اہل الرائے۔ اہل الرائے میں امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب آتے ہیں اور اہل الحدیث میں بقیہ تینوں ائمہ۔
ﷲ تعالیٰ ہم سب کو قبول حق کی توفیق عنایت فرمائے اور صراط مستقیم کی ہدایت بخشے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
علماء کو رب بنانا:
سورة توبہ آیت ٣١
میں ﷲ تعالیٰ نے نصرانیوں کی گمراہی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے احبار ورھبان (یعنی علماء اور عبادت گذاروں) کو رب بنا لیا ہے۔ اس کی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمائی ہے جس وقت عدی بن حاتم نے اعتراض کیا کہ ہم نے ان کو اپنا رب نہیں بنایا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ایسا نہیں تھا کہ انہوں نے جو حلال کیا تم نے حلال کر لیا اور جو حرام کیا تم نے حرام کر لیا۔
مذکورہ آیت اور اس کی تفسیری روایت کا مفہوم پوری طرح واضح ہے اور مقلدین پر پوری طرح فٹ بھی ہے۔ مقلدین اپنے اماموں کی تقلید میں قرآنی آیات اور احادیث رسول کو ترک کر دیتے ہیں، چنانچہ اس کی چند مثالیں پچھلے صفحات میں گذر چکی ہیں، اور ان کتابوں کا نام بھی ذکر کیا جا چکا ہے جن کی طرف رجوع کر کے ان کی احادیث کی مخالفت کی تفصیل معلوم کی جا سکتی ہے۔
مذکورہ آیت وحدیث کو پیش کر کے کبھی کسی اہل حدیث نے یہ نہیں کہا کہ وہ ائمہ جن کی تقلید کی جاتی ہے احبار ورھبان کی طرح بد صفت، بد دیانت حریص اور لالچی تھے۔ یہ اہل حدیثوں پر آپ کی طرف سے شدید بہتان ہے۔
اہل حدیث تو صرف یہ کہتے ہیں کہ کوئی کتنا ہی عظیم ہو ﷲکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی بات اپنانا حرام اور بہت بڑا گناہ ہے۔ ہم مقلدین کو اسی گناہ سے باز آنے کی دعوت دیتے ہیں۔

مسالک کے اتفاق کا جھوٹا دعوی:
آنجناب لکھتے ہیں: ”قیام، رکوع اور سجدے کی ہیئت پر تمام مسالک متفق ہیں“۔ (ص ٣٣)
آپ کی یہ بات دو صورتوں سے خالی نہیں یا تو آپ کو اختلاف کا علم نہیں اور یہ دعویٰ مبنی بر جہالت ہے یا آپ نے تجاہل عارفانہ سے کام لیا ہے اور اسی کی زیادہ امید ہے کیوں کہ یہ اختلاف اتنا مشہور ہے کہ ادنیٰ شخص کو بھی معلوم ہے چہ جائیکہ وہ آپ جیسا کوئی مصنف ہو۔
قیام کی حالت میں ہاتھ کہاں ہوں گے؟ سینہ پر یا ناف پر یا ناف کے اوپر یا ناف کے نیچے؟ عورت اور مرد کا سجدہ یکساں ہوگا یا دونوں میں کوئی فرق ہو گا؟ معلوم نہیں یہ امور آپ کی نظر میں ہیئت میں داخل ہیں یا اس سے خارج ہیں؟

توسع اور تنگی کا میزان:
آپ فرماتے ہیں: ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس امر کے نفاذ میں توسع فرمایا اور گنجائش رکھی اس میں آپ حضرات تنگی پیدا کرنا چاہتے ہیں“۔ (ص٣٣)
یہ اہل حدیثوں پر بہت بڑی تہمت ہے۔ اہل حدیث کہتے ہیں کہ حدیث سے ثابت کرو حدیث کی بات سر آنکھوں پر۔ ہاں اگر آپ ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کی بات کے ذریعے گنجائش پیدا کرنا چاہیں گے تو اہل حدیثوں سے اس کے ماننے کی توقع نہ رکھئے۔ ایسی گنجائش آپ جیسے مقلدوں ہی کو مبارک ہوں، ہم کو متبع سنت ہی رہنے دیجئے۔

جمع بین الصلاتین:
آپ فرماتے ہیں: ”حضرت امام ابو حنیفہ کی تحقیق کے مطابق جمع بین الصلاتین عرفات اور مزدلفہ میں بعض شرائط کے ساتھ مسنون ہے کسی اور موقع پر جمع کا حکم نہیں دیا گیا۔“ (ص ٣٤)
پہلی بات:
”حضرت امام ابوحنیفہ کی تحقیق کے مطابق“ مت کہئے بلکہ علماء احناف کی تحقیق کے مطابق کہئے کیوں کہ امام ابوحنیفہ کی نہ کوئی کتاب ہے اور نہ ہی ان تک کسی بات کی کوئی سند پہنچتی ہے۔
دوسری بات: آج کل کے حنفی منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں بھی نہ قصر کرتے ہیں اور نہ ہی جمع بین الصلاتین۔ وہاں کے امام کی مخالفت کر کے اپنی نماز پوری کرتے ہیں اور الگ وقت پر اپنے طور پر ادا کرتے ہیں۔ تراویح میں آپ کو حرمین کا عمل یاد آتا ہے يہاں اہل حرمین کا عمل کیوں یاد نہیں رہتا؟
دراصل آپ کے یہاں اصول صرف اور صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے مذہب کی تائید میں جو بات بھی جہاں بھی ملے لے لی جائے اور مخالفت میں جو بات بھی ہو چھوڑ دی جائے۔ خواہ وہ قرآن کی آیت اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کے بڑے ہی بزرگ اور معتمد عالم کا قول ہے: کل آیة أو حدیث یخالف قول اِمامنا فھو مؤول أو منسوخ۔
آپ نے ترمذی شریف کی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی ہے جس میں صاف لفظوں میں موجود ہے کہ اگر بلاعذر جمع بین الصلاتین کیا گیا تو کبیرہ گناہ ہے یعنی عذر کے ساتھ گناہ نہیں ہے بلکہ جائز ہے۔ بخاری شریف میں عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کی واضح روایت موجود ہے۔ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ، حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَاءِ‏ (کتاب تقصیر الصلاة باب ١٤ حدیث ١١٠٩) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب سفر میں چلنے کی جلدی ہوتی تو مغرب کو موخر کرتے یہاں تک کہ مغرب اور عشاء دونوں کو ایک ساتھ ادا کرتے۔
آپ فرماتے ہیں: ”جن احادیث سے جمع بین الصلاتین کا جواز ظاہر ہوتا ہے تحقیق کی جائے تو صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ایک نماز اپنے آخر وقت میں ادا کی جائے اور اس کے بعد والی دوسری نماز شروع وقت میں ادا کی جائے“۔ (ص ٣٥)
ہم نے حدیث آپ کے سامنے رکھ دی صرف ”تحقیق کی جائے تو ایسا ثابت ہو گا“ کہہ کر نہیں چھوڑا ہے۔ حنفی مذہب تو مغرب کی نماز کا وقت اتنا مختصر مانتا ہے کہ وقت ختم ہونے کے ڈر سے مغرب سے پہلے کی دو رکعت سنت جو حدیث سے ثابت ہے اس کے پڑھنے سے منع کرتا ہے پھر بتائیے کہ مغرب کو عشاء کے ساتھ جمع کرنے کے لئے موخر کیا جائے گا تو صرف اپنے آخری وقت میں پہنچے گا یا اس کا وقت ختم ہو جائے گا؟

آسان کیا ہے فقہ یا حدیث؟
آنجناب لکھتے ہیں : ”میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ غیر مقلدین دین کی عطا کردہ سہولت سے محرومی کو ترجیح دیتے ہیں، اس سے میرا اشارہ اس طرف تھا کہ ایک عام شخص جو دین کا علم مکمل حاصل نہیں کر سکتا وہ کسی مستند امام فقہ کی تقلید اختیار کرے تو اسے احادیث کی تمام کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔“ (ص ٣٥)
آپ کی یہ سطریں پڑھ کر چند سوالات ذہن میں آتے ہیں :
١۔ کیا کسی مستند امام فقہ کی تقلید کے لئے اس کی فقہ کی کتابوں کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے؟
٢۔ جس طرح فقہ کی کتابیں پڑھی جاسکتی ہیں کیا حدیث کی کتابیں نہیں پڑھی جاسکتی ہیں؟
٣۔ حدیث اور فقہ دونوں کی کتابوں کی زبان عربی ہے یا دونوں کی زبان الگ الگ ہے؟
٤۔ حدیث سمجھنا زیادہ مشکل ہے یا فقہ سمجھنا؟
٥۔ بخاری کا ترجمہ پڑھنے میں زیادہ مشقت ہے یا ہدایہ اور عالمگیری کا؟
٦۔ کیا ہر مقلد فقہ کی کتاب پڑھتا ہے یا کسی عالم سے پوچھ لیتا ہے؟
٧۔ جس طرح ایک مقلد فقہ کا مسئلہ پوچھ کر عمل کرسکتا ہے ایک اہلحدیث حدیث کا مسئلہ پوچھ کر عمل کیوں نہیں کر سکتا؟
٨۔ صحابہ جب ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنتے تھے تو کیا کسی فقیہ صحابی کے پاس سمجھنے جاتے تھے یافورا عمل کرتے تھے؟ اگر وہ فورا عمل کرتے تھے تو آج کسی حدیث پر عمل کرنے کے لئے فقیہ کی اجازت کی شرط کیوں؟
٩۔ کیا حدیث پر عمل کرنے کے لئے حدیث کی تمام کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے؟
محدثین پوری محنت اور جانفشانی کے بعد احادیث کی صحت اور ضعف کا معتبر فیصلہ دے چکے ہیں۔ بخاری ومسلم کی تمام حدیثوں کے صحیح ہونے پر امت متفق ہو چکی ہے۔ سنن اربعہ، موطا اور مسند احمد کی بیشتر حدیثیں صحیح اور اعتراض سے پاک ہیں۔ اب صحیح حدیثوں پر عمل کے لئے کسی قسم کا عذر باقی نہیں رہ جاتا۔ حدیث کو چھوڑ کر فقہ پر عمل کرنے میں سہولت کا دعوی سراسر جھوٹا دعوی ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

خوش فہمی :

آپ لکھتے ہیں: ”ہمارا حال یہ ہے کہ ہم امام ابوحنیفہ کے مسلک پر اس یقین کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ ان کا مسلک سنت کے مطابق ہے۔ تاہم امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے مسالک کو بھی سنت سے قریب ہی سمجھتے ہیں۔“ (ص ٣٦)
اگر آپ کا حال واقعی وہی ہے جو آپ نے لکھا ہے تو آپ کے مذہب کی کتاب سراجیہ میں یہ کیوں لکھا ہے کہ جوحنفی شافعی ہو جائے اسے تعزیری سزادی جائے گی۔
اور کیا آپ یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ آپ کو حنفی مسلک کے مطابق سنت ہونے کا یقین کس طرح حاصل ہوا؟ یہ کیسے معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہ کا مسلک سنت کے مطابق ہے؟ اگر دلائل کی روشنی میں ہر مسئلہ یا بیشتر مسائل کی آپ نے تحقیق کی ہے تو آپ مقلدباقی نہیں رہے, اور اگر صرف خوش فہمی اور حسن ظن کی بنیاد پر ایسا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ ہرفرقہ اسی خوش فہمی میں مبتلا ہے قرآن کے الفاظ میں كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (الروم: ٣٢)
اور پہلی بات تو نا ممکن ہے کیوں کہ جو شخص تعصب کو چھوڑ کر دلائل کی بنیاد پر تحقیق کرے گا وہ تقلید سے عموما اور حنفی مسلک سے خصوصا توبہ کرلے گا کیوں کہ حنفی مسلک قرآن و حدیث کے جس قدر مخالف ہے چاروں مسالک میں کوئی مسلک اتنا مخالف نہیں ہے۔ مخالفت کے کچھ نمونے پچھلے صفحات میں ذکر کئے جا چکے ہیں۔ اور کچھ آئندہ صفحات میں آرہے ہیں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
فرضی داستان:
آپ لکھتے ہیں: ”موطأ امام ملک کے عربی نسخے میں موجود وہ دوحدیثیں اردو ترجمہ سے غائب ہیں جو غیر مقلدوں کے مسلک کے خلاف جاتی ہیں۔“
وہ دو حدیثیں آخر کون سی ہیں؟ ان کا ذکر آپ نے کیوں نہیں کیا؟ شاید اس لئے کہ اگر آپ ایسا کرتے تو آپ کے دعوی کی قلعی کھل گئی ہوتی۔
آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اہل حدیث مقلدوں کی طرح گستاخانہ طور پر یہ نہیں کہتے کہ یہ حدیث ہمارے مسلک کے خلاف ہے، وہ اس طرح کا جملہ زبان سے ادا کرنا بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین سمجھتے ہیں۔ حدیث کا صحیح ہونا ثابت ہو جائے وہ فورا اپنا عمل ان شاء ﷲ اسی طرح تبدیل کر لیں گے جس طرح صحابۂ کرام نے دوران صلاة اپنا قبلہ تبدیل کر لیا تھا۔

کچھ اور کہانیاں:
آنجناب لکھتے ہیں: ”حقانی صاحب نے انکشاف کیا کہ ان کی کتاب ”قرآن و حدیث اور مسلک اہل حدیث“ کی کتابت کے دوران انہیں مشکاة شریف میں ایک حدیث دیکھنے کی ضرورت پیش آئی۔ ربانی بک ڈپو کی شائع کردہ مشکاة میں اس حدیث کو تلاش کیا وہ نہ ملی حالانکہ وہی روایت ترمذی، ابوداؤد، نسائی، مشکاة، مظاہر حق میں موجود تھی لیکن ربانی بک ڈپو کے نسخہ سے غائب تھی۔ اس راز کا پردہ اس وقت فاش ہوا جب ربانی بک ڈپو کے مالک حکیم مصباح الدین صاحب نے بتلایا کہ اس کا ترجمہ ایک غیر مقلد نے کیا ہے اس نے شرارتا اس حدیث کو غائب کردیا۔“
جناب من! یہاں بھی آپ نے وہی کیا یعنی اس حدیث کو ذکر نہیں کیا۔ آپ کو وہ حدیث بتلانی چاہئے جو اس نے غائب کی کیوں کہ ایسا قطعا ناممکن ہے کہ جو لوگ دنیا کے سامنے حدیثوں کو ظاہر کرنے اور اس کی نشر واشاعت پر مقلدوں کی دشمنی مول لے رہے ہیں حدیثوں کو غائب کرتے پھریں۔ آپ وہ حدیث ظاہر کرتے تو آپ کی تہمت کی سچائی دنیا کے سامنے ظاہر ہوجاتی۔
یہاں ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ حکیم مصباح الدین صاحب جو مقلد ہیں انہوں نے مشکاة کا ترجمہ کسی غیر مقلد سے کیوں کروایا کیا انہیں کوئی مقلد اس لائق نہیں ملا جو حدیث کا ترجمہ کر سکتا اور اگر ایسا کروا بھی لیا تو کسی مقلد سے نظر ثانی کیوں نہیں کروائی؟
بہرحال ہم اس بات کے قطعی منکر ہیں کہ کوئی اہل حدیث ایسا کرسکتا ہے۔ اگر کوئی دانستہ طور پر جان بوجھ کر کرتا ہے تو وہ اہل حدیث ہر گز نہیں ہو سکتا بھلے ہی وہ اپنے آپ کو اہل حدیث ظاہر کرتا ہو اور اس کا بلند بانگ دعوی کرتا ہو۔
آنجناب نے ایک واقعہ اور لکھا ہے کہ ”لاہور سے چھپی مسلم شریف میں سے حضرت عمر کی فضیلت پر مشتمل ایک طویل حدیث غائب ہے۔ یہ کرشمہ بھی غیر مقلد کا تب ہی کا ہے۔“
آپ نے یہ غلطی نہایت آسانی سے بلا کسی دلیل کاتب کے سر تھوپ دی۔ آپ کو اس کا کشف ہوا ہوگا یا آپ نے اسے خواب میں دیکھا ہوگا کیوں کہ یہی ساری چیزیں آپ کے یہاں دلیل ہوا کرتی ہیں۔ پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کاتب نے یہ کرشمہ سازی کر ہی دی تھی تو پروف ریڈر نے اس کی نشان دہی کیوں نہیں کی؟ یا پھر پروف ریڈر بھی غیر مقلد تھا۔ صرف مالک ہی مقلد تھا جس نے کاتب کی شرارت کا انکشاف کیا۔
پتہ نہیں ان مقلدوں کو حدیث سے متعلق کاموں کے لئے مقلد کیوں نہیں ملتے؟ حدیث کا ترجمہ کرنے کی ضرورت پڑی تو غیر مقلد ہی انہیں ملا، حدیث کی کتابت کی ضرورت پڑی تو غیر مقلد ہی ملا، پروف ریڈنگ کے لئے بھی غیر مقلد ہی ملا۔ سوال یہ ہے کہ جب مقلدین ہی اکثریت اور سواد اعظم ہیں تو ضرورت پڑنے پر کہاں غائب ہو جاتے ہیں؟

دل کے بہلانے کو حضرت یہ خیال اچھا ہے :
آنجناب فرماتے ہیں: ”الحمد ﷲ میں حدیث کے مطابق ہی عمل کرتا ہوں۔“
خوش فہمی میں رہنے سے آپ کو کون روک سکتا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ اگر آپ خالص حنفی ہیں تو آپ کا عمل حدیث کے مطابق ہرگز نہیں ہو سکتا ہے کیوں کہ مذہب حنفی میں سیکڑوں احادیث کی مخالفت موجود ہے۔ فی الفور صرف نماز سے متعلق فقط (١٠) مخالفتوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
١۔ حنفی مذہب کہتا ہے کہ ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں میں برابر کی سورتیں پڑھے جبکہ حدیث کہتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت طویل کرتے تھے. (بخاری ومسلم)
٢۔ حنفی مسلک کہتا ہے کہ امام کو ظہر وعصر کی آخری دو رکعتوں میں اختیار ہے چاہے خاموش رہے چاہے تو کوئی سورت پڑھ لے اور چاہے تو سبحان ﷲ پڑھ لے جبکہ حدیث کہتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔ (بخاری ومسلم)
٣۔
حنفی مسلک کہتا ہے کہ آمین پکار کر کہنا مکروہ ہے حدیث کہتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پکار کر آمین کہتے تھے۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ وغیرہ)
٤۔
حنفی مذہب کہتا ہے کہ عورتوں کی جماعت مکروہ تحریمی ہے اگرچہ تراویح کی ہی جماعت کیوں نہ ہو جبکہ حدیث کہتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا تھا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کرائیں۔ (ابوداؤد)
٥۔
حنفی مذہب کہتا ہے کہ رکوع سے سر اٹھانے کے بعد سیدھا کھڑا ہونا فرض نہیں جبکہ حدیث میں سیدھا کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ (بخاری ومسلم)
٦۔
حنفی مسلک کہتا ہے کہ دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا فرض نہیں جبکہ حدیث میں اطمینان کے ساتھ بیٹھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (بخاری ومسلم)
٧۔
حنفی مسلک کہتا ہے کہ نمازی طاق رکعتوں میں دوسرے سجدے کے بعد جب سر اٹھائے تو بیٹھے نہیں بلکہ قدموں کے بل سیدھا کھڑا ہو جائے جبکہ حدیث کہتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی طاق رکعت ادا فرماتے تو اچھی طرح بیٹھے بغیر کھڑا نہ ہوتے۔ (بخاری و مسلم)
٨۔
حنفی مسلک کہتا ہے کہ مصلی آخری قعدہ میں ویسے ہی بیٹھے جیسا کہ پہلے قعدہ میں بیٹھا جبکہ حدیث کہتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری سجدہ کرتے جس کے بعد سلام پھیرنا ہوتا تو اپنا بایاں پاؤں ذرا پیچھے نکال لیتے اور کولھے کے بل بائیں جانب پر بیٹھ جاتے اور آخری سلام پھیر دیتے ۔ (بخاری، ابوداؤد، ترمذی وغیرہ)
٩۔
حنفی مسلک کہتا ہے کہ فجر کی جماعت ہو رہی ہو تو فجر کی سنتیں مسجد کے دروازے کے پاس پڑھ سکتے ہیں۔ جبکہ حدیث کہتی ہے کہ فرض نماز کی اقامت کے بعد فرض کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں۔
١٠۔ حنفی مسلک کہتا ہے کہ وتر کی نماز مغرب کی طرح دو تشہدکے ساتھ پڑھے جبکہ حدیث کہتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تین رکعت وتر پڑھتے تو صرف آخری رکعت میں ہی تشہد کے لئے بیٹھتے۔ (مستدرک حاکم)

امام مسجد کی تقلید۔ حقیقت کیا ہے؟

آنجناب فرماتے ہیں : ”آپ لوگ اپنی مسجد کے امام کی تقلید کرتے ہیں۔“
میرا کہنا یہ ہے کہ اس معاملہ میں ہم آپ دونوں برابر ہیں۔ دونوں اپنی مسجد کے امام یا اپنے مسلک کے مولوی سے مسئلہ پوچھتے ہیں۔ اگر ہم نے ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کوئی حدیث نہیں سنی ہے تو آپ نے بھی امام ابوحنیفہ کی زبان سے کوئی بات نہیں سنی ہے، البتہ ہم دونوں میں بعض وجوہ سے فرق ہے۔
پہلا فرق یہ ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات معلوم کر کے اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں اور آپ ایک امتی کا فتوی معلوم کرکے اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ ہم پورے یقین واعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اس کی یہ سند موجود ہے لیکن آپ کسی بھی معاملہ میں یقینی طور پر ثابت نہیں کر سکتے کہ وہ امام ابوحنیفہ ہی کی بات ہے۔
تیسرا فرق یہ ہے کہ آپ امام ابوحنیفہ کی تقلید کے لئے اپنی مسجد کے امام کی تقلید کرتے ہیں یعنی آپ تقلید در تقلید میں مبتلا ہیں۔ ‘ظلمات بعضھا فوق بعض’۔
چوتھا فرق یہ ہے کہ اہل حدیث تقلید کو بدعت کہتے ہیں کیوں کہ قرآن وحدیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ اور وہ اپنے مسجد کے امام اور مولوی سے ﷲ کے حکم کی تعمیل میں مسئلہ پوچھتے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ الانبياء: ٧ (اگر تم نہیں جانتے تو ذکر والوں سے پوچھو)
”ذکر والے“ وہ لوگ ہیں جن کے پاس کتاب وسنت کا علم ہے کیوں کہ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر: ٩) ہم نے ہی ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
اور ظاہر ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے قرآن وحدیث دونوں کو نازل کیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے: وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ * إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْيٌ يُوحَىٰ (النجم: ٣-٤) ﷲ کے نبی اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے وہ وحی الٰہی کے مطابق بولتے ہیں۔
لہذا معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث دونوں کا علم رکھنے والے سے مسئلہ دریافت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

چور چلائے چور چور:
آپ فرماتے ہیں: ”آپ لوگوں کا یہ خیال کہ معاذ ﷲ صحابۂ کرام کے اجتہادات غلط تھے ایمان کے لئے زہر قاتل ہے۔“
ذرا آپ سینے پر ہاتھ رکھ کر سچ سچ بتائیے کہ یہ گناہ احناف نے کیا ہے یا اہل حدیثوں نے۔ اسی کو کہتے ہیں ”چور چلائے چور چور“ یعنی اپنا گناہ چھپانے کے لئے دوسروں پر بہتان تراشی کرنا۔
شاید آپ نے اپنے مذہب کے اصول فقہ کی کتابیں پڑھی ہی نہیں ورنہ آپ کی نظر سے یہ عبارتیں ضرور گذری ہوتیں اصول الشاشی میں ہے۔
والقسم الثاني من الرواة وھم المعروفون بالحفظ والعدالة دون الاجتھاد والفتوی کأبي ھریرة وأنس بن مالك فإذا صحت روایة مثلھما عندك فإن وافق القیاس فلا خفاء في لزوم العمل به وإن خالفه کان العمل بالقیاس أولی ۔
یعنی جو راوی عادل وحافظ تو ہیں لیکن فقیہ ومفتی نہیں جیسے ابوہریرہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم جب ان جیسوں کی روایت تیرے نزدیک صحت کو پہنچ جائے تو اگر وہ حدیث موافق قیاس ہو تو اس پر عمل کے لازم ہونے میں کوئی پوشیدگی نہیں۔ ہاں اگر وہ حدیث خلاف قیاس ہو تو قیاس پر عمل کرنا ہی اولی ہے۔
کہئے جناب! صاف عبارت ہے یا نہیں کہ جب ابوہریره اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور یہی دونوں ہی نہیں بلکہ ان جیسوں کی روایت سے کوئی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بہ سند صحیح مروی ہو اور وہ خلاف قیاس ہو تو حنفی مذہب کے اصول کی تعلیم یہ ہے کہ ایسے وقت میں اس حدیث کو چھوڑ دیا جائے اور قیاس پر عمل کیا جائے۔
اس اصول میں آپ کے حنفی مذہب کے اصولیوں نے کئی گناہوں کا ارتکاب کیا ہے۔ اول تو یہ کہ صحابۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر مجتہد غیر فقیہ یعنی صاف لفظوں میں بے سمجھ کہا ہے۔
آپ کا الزام اہل حدیثوں پر صرف اتنا ہے کہ وہ صحابہ کے بعض اجتہاد کو غلط مانتے ہیں اور آپ کے حنفی مذہب کا حال یہ ہے کہ وہ بعض صحابہ کو سرے سے مجتہد ہی نہیں مانتا ۔ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالأَمْنِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (الانعام: ٨١)
دوسرا گناہ یہ ہے کہ حدیث پر قیاس کو ترجيح دی ہے۔ تیسرا گناہ یہ ہے کہ ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو نہیں مانا۔
ﷲ کی شان ہے! امام محمد، امام ابو یوسف، ہدایہ، شرح وقایہ اور قدوری کے مصنف تو فقیہ ٹھہریں اور شاگردان رسول واصحاب پیغمبر غیرفقیہ ٹھریں؟ قیاس فقہاء مقبول اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم مردود ۔ لا حول ولا قوة اِلا با ﷲ۔
آگے اصول الشاشی میں ہے “وعلی ھذا ترك أصحابنا روایة أبي ھریرة في مسألة المصراة بالقیاس” یعنی اسی اصول کی بنا پر ہم حنفیوں نے ابو ہریرة کی روایت کردہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ کے روکے ہوئے جانور کی خرید وفروخت کے مسئلہ میں چھوڑ دیا ہے اور قیاس کو لے لیا ہے۔
واضح ہو کہ مصنف اصول الشاشی کی یہ بات ان کی تحقیق کی کمی کی وجہ سے ہے ورنہ یہ حدیث عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جو احناف کی نظر میں سیدالفقہاء ہیں اور وہ بھی بخاری شریف میں ہے مگر یہ اصولی اسے کیسے مان سکتے ہیں کیوں کہ اس کے ماننے سے مذہب بگڑتا ہے۔
غیر فقیہ کی حدیث چھوڑ دینے کی علت بیان کرتے ہوئے حنفی مذہب کی مشہور کتاب نور الانوار میں لکھا ہے “وھي أنه لو عمل بالحدیث لانسد باب الرأي” یعنی اگر حدیث پر عمل کیا جائے تو رائے کا دروازہ بند ہوجائے گا۔
یہ ہے فقاہت جس کی مدح وثنا میں آنجناب رطب اللسان ہیں!! حدیث پر عمل چھوٹے تو چھوٹ جائے مگر رائے کا دروازہ بند نہ ہونے پائے۔
آگے چل کر صاحب نور الانوار لکھتے ہیں “وھذا لیس ازدراء بأبي ھریرة واستخفافا به” یعنی اس میں نہ تو ابو ہریرة رضی اللہ عنہ کی تحقیر ہے نہ توہین۔ تعجب ہے۔ اتنا ناسمجھ بتلایا کہ ان کی روایت کردہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی متروک کردی گئی لیکن ابھی تک نہ ان کی تحقیر ہوئی نہ توہین !!!
واضح رہے کہ ابو ہریرہ صلی اللہ علیہ وسلمبوہ صحابی ہیں جن سے آدھا دین مروی ہے، احکام کے بیان کی حدیثیں کل تین ہزار ہیں جن میں سے ڈیڑھ ہزار صرف ابو ہریرة رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں۔ آپ صحابہ کے زمانہ میں فتوے دیتے تھے۔ آٹھ سو صحابہ اور تابعین آپ کے شاگرد ہیں۔ پانچ ہزار تین سو چھہتر حدیثیں آپ سے مروی ہیں۔ انہیں غیر فقیہ کہنے والے سے زیادہ بے سمجھ اور گستاخ وبے ادب دنیا میں کوئی نہ ہوا اور نہ ہوگا۔
آپ نے اہل حدیثوں کو بار بار شیعہ ہونے کا طعنہ دیا ہے مگر خود اپنے گریبان میں منہ ڈال کے جھانکا نہیں کہ حدیث دشمنی اور صحابہ دشمنی میں آپ خود کتنی پستی میں گرے ہوئے ہیں اور پھر بھی آپ کو شرم نہیں آتی۔

عبادت سے جی چور کی پسند حنفی تراویح:
آپ نے عبدالجلیل کی زبانی کہلوایا ہے: “میں نے دراصل اہلحدیث مسلک تراویح کی بیس رکعتوں سے بچنے کی خاطر اختیار کیا تھا۔”
شاید آپ نے کسی اہل حدیث مسجد میں تراویح کی نماز کبھی نہیں پڑھی اور نہ پڑھتے ہوئے دیکھا اور نہ کسی معتبر شخص سے اس کی کیفیت سنی ورنہ ایسی غیر معقول بات زبان پر نہ لاتے۔ عبادت سے جی چور حنفی مذہب کی آسان تراویح چھوڑ کر اہل حدیث کی مشکل تراویح کیوں کر اپنائے گا۔ احناف کی مسجدوں میں تراویح کی تلاوت جس تیز رفتاری سے کی جاتی ہے کہ یعلمون تعلمون کے سوا کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا ایسا اہل حدیث مساجد میں نہیں ہوتا بلکہ ترتیل کے ساتھ تلاوت کی جاتی ہے جو قرآن کریم کی عظمت کے شایان شان بھی ہے اور سمجھنے والوں کو سمجھنے کا موقع بھی ہے۔ اسی طرح رکوع سجود، قومہ اور جلسہ بھی اہل حدیث پورے سکون واطمينان کے ساتھ کرتے ہیں۔ احناف کی طرح تیزی وبے اطمینانی سے کوے کی ٹھونگیں نہیں مارتے۔ جتنی دیر میں احناف کی مساجد میں بیس رکعت مکمل ہوجاتی ہے اتنی دیر میں اہل حدیثوں کی آٹھ رکعت پوری نہیں ہوتی۔ ایسا شخص جس کی طبیعت عبادت پر آمادہ نہیں ہوتی اہل حدیث مسجد چھوڑ کر حنفی مساجد کا رخ کرتا ہے تا کہ کم وقت بھی لگے اور بیس رکعت کی بڑی گنتی بھی گنواسکے اور لوگوں میں اپنی عبادت ودینداری کا چرچا بھی کر سکے۔

حنفی کتابوں کے شرمناک مسائل:
آپ نے دعوی کیا ہے کہ جس طرح کے گندے اور شرمناک مسائل حنفی کتابوں میں ہیں اسی طرح حدیث میں بھی ہیں اور آپ نے مثال میں ایک حدیث بھی پیش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی جانور کے ساتھ بد فعلی کرے اسے قتل کردو۔
آپ نے حدیث تو پیش کردی لیکن فقہ کا نمونہ پیش نہیں کیا تاکہ لوگ خود موازنہ کرلیں کہ آپ کا برابری کا دعوی کتنا صحیح ہے؟ لیجئے اس کمی کو میں پوری کر دیتا ہوں اور حنفی مذہب کی دو مشہور کتابوں درمختار اور عالمگیری کے فقط ایک ایک نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ واضح رہے کہ یہ مسائل نہ صرف شرمناک ہیں بلکہ قرآن وحدیث کے خلاف بھی ہیں۔
١۔ در مختار جلد اول ص ١٢٢ میں ہے کہ جانور کے ساتھ بد فعلی کرنے سے اور مردے کے ساتھ کرنے سے اور نابالغ غیر خواہش مند لڑکی کے ساتھ جماع کرنے سے نہ وضو ٹوٹتا اور نہ غسل واجب ہوتا ہے۔
٢۔ عالمگیری مصری جلد اول ص ١٣ میں ہے کہ مباشرت فاحشہ سے بھی امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمد کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا یعنی میاں بیوی ننگے ہو کر انتشار کی حالت میں شرمگاہیں ملائیں تب بھی وضو نہیں ٹوٹتا۔
یہ دو نمونے بہت کافی ہیں۔ تفصیل کے خواہش مند بڑی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

آخری بات:
چلتے چلتے ایک اصولی بات ذہن نشین کر لیں کہ کسی مسلک کی خوبی وخرابی دلائل کی بنیاد پر ثابت ہوتی ہے۔ الزام تراشی اور بہتان بازی کا سوائے نقصان کے کوئی فائدہ نہیں۔ اگر آپ تقلید کو جائز یا مستحب یا واجب سمجھتے ہیں تو اسے قرآن و حدیث کے دلائل سے ثابت کیجئے۔
غیر مقلدین کو گالی دے کر، انہیں شیعہ کہہ کر، انہیں عبادتوں سے بے رغبت بتا کر تقلید کی فضیلت ثابت نہیں کی جاسکتی۔ الٹا اس سے آپ کا کھوکھلاپن ظاہر ہوگا اور آپ کے عوام کے سامنے آپ کا سارا بھرم جاتا رہے گا۔
ہم اہل حدیث ہر نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ یعنی صراط مستقیم کی ہدایت اور اس پر ثبات اور استقامت کی دعا مانگتے ہیں۔ آیئے آپ بھی اس میں شریک ہو جایئے اور حق وسعادت کو گلے لگا لیجئے۔
ﷲ تعالیٰ ہی دعائیں قبول فرماتا ہے اور توفیق سے نوزتا ہے۔

********************************
 
Top