• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

‫اهل حديث سے محبت‬ !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

قتیبہ بن سعید رحمہ اللہ کہتے ہیں :

" جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ اہل حدیث سے مثلا یحیی بن سعید ، عبد الرحمن بن مہدی ، امام احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ سے محبت کرتا ہے تو وہ سنت پر ہے ، اور جو کوئی ان کی مخالفت کرے تو جان لو کہ وہ بدعتی ہے . "
________________________


قال قتيبة رحمہ اللہ :

(( اذا رأيت الرجل يحب اهل الحديث، مثل يحيي بن سعيد، وعبد الرحمن بن مهدي ، و احمد بن محمد بن حنبل ، و اسحاق بن راهويه ..... و ذكر قوما آخرين ، فانه علی السنة ، ومن خالف هؤلاء فاعلم انه مبتدع . ))


[ شرح اصول اعتقاد اهل السنة ١٥٣/١ رقم ٥٤ ]
( سنده صحيح )​
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
سوال یہ ہے اگر تو ان کا یہ فرمان قرآن و سنت کے مطابق ہے تو ٹھیک ورنہ قتیبہ بن سعید کی فہم و بات کا اہل حدیث کے ہاں کیا حیثیت ہے ؟
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
سوال یہ ہے اگر تو ان کا یہ فرمان قرآن و سنت کے مطابق ہے تو ٹھیک ورنہ قتیبہ بن سعید کی فہم و بات کا اہل حدیث کے ہاں کیا حیثیت ہے ؟
ملا علی قاری حنفی اپنی کتاب "سم القوارض فی ذم الروافض" میں لکھتے ہیں: "اس امت میں کسی ایک پر حنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی ہونا واجب نہیں"
اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں کہ:
"حنفی، شافعی ہونا جزوایمان نہیں، ورنہ صحابہ و تابعین کا غیر مومن ہونا لازم آئے گا۔"
(امداد الفتاویٰ:ج5،ص300)
مولانا کفایت اللہ حنفی دیوبندی بیان کرتے ہیں کہ:
"محض ترک تقلید سے اسلام میں فرق نہیں پڑتا اور نہ اہل سنت والجماعت سے تارک تقلید باہر ہوتا ہے"
(کفایت المفتی:ج،1ص325)

اگر حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی بعد کی پیداوار نہیں ہیں، اور صرف یہی مکتب فکر اہل سنت میں شامل ہیں تو صحابہ کے بارے میں کیا کہو گے؟
امام ابو حنیفہ رح کے بارے میں کیا کہو گے کہ جن کا غیر مقلد ہونا خود تمہارے بڑوں نے تسلیم کیا ہے؟
اشرف علی تھانوی صاحب فرماتی ہیں:
" امام ابو حنیفہ کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے" (مجالس حکیم الامت:ص345)
نوٹ: امام ابو حنیفہ کا غیر مقلد ہونا صراحت سے درج ذیل کتابوں میں بھی لکھا ہوا ہے۔
حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختار،ج1،ص51، معین الفقہ، ص88

جواب = یہ وسوسہ بهی عام آدمی کوبڑا وزنی معلوم هوتا هے لیکن دراصل یہ وسوسہ بهی باطل هے ، الحمد لله هم اهل سنت والجماعت هیں اور اهل سنت کے چاربڑے مکاتب فکرهیں حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، یہ چار مسالک ایک دوسرے کے ساتهہ باهمی محبت ومودت رکهتے هیں ایک دوسرے کے ساتهہ استاذ وشاگرد کی نسبت رکهتے هیں ایک دوسرے کو کافر و مشرک و گمراه نہیں کہتے صرف فروعی مسائل میں دلائل کی بنیاد پراختلاف رکهتے هیں ، اوراصول وعقائد میں اختلاف نہ توصحابہ کے مابین تها اور نہ ائمہ اربعہ کے درمیان ، اور غیرمنصوص مسائل میں ان ائمہ کرام نے اجتهاد کیا اسی وجہ سے فروعی مسائل میں ان ائمہ کرام کے مابین اختلاف موجود هے ، اور یہ اختلاف بمعنی جنگ وفساد نہیں هے جیسا کہ فرقہ جدید اهل حدیث کا پروپیگنڈه هے بلکہ یہ علمی اختلاف دلائل وبراهین کی بنیاد پر هے ، جوکہ امت مرحومہ کے لیئے رحمت هے ، اور پهر یہ فروعی اختلاف صحابہ کرام کے مابین بهی تها ،
اور حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی سب اهل سنت والجماعت هیں ، اور همارا یہ نام ولقب حدیث سے ثابت هے ، حضور صلی الله علیہ وسلم نے قول باری تعالی {يوم تبيض وجوه وتسود وجوه} کی تفسیر میں فرمایا کہ وه اهل سنت والجماعت هیں
وأخرج الخطيب في رواة مالك والديلمي عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله تعالى {يوم تبيض وجوه وتسود وجوه} قال: "تبيض وجوه أهل السنة، وتسود وجوه أهل البدع".
وأخرج أبو نصر السجزي في الإبانة عن أبي سعيد الخدري "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ {يوم تبيض وجوه وتسود وجوه} قال: تبيض وجوه أهل الجماعات والسنة، وتسود وجوه أهل البدع والأهواء".
وأخرج ابن أبي حاتم وأبو نصر في الإبانة والخطيب في تاريخه واللالكائي في السنة عن ابن عباس في هذه الآية قال {تبيض وجوه وتسود وجوه} قال "تبيض وجوه أهل السنة والجماعة، وتسود وجوه أهل البدع والضلالة.
تو أهل السنة والجماعة هی فرقة ناجیة اور طائفة منصورة هے ، اور جن کی صفت حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ بیان کی کہ وه میرے اور میرے صحابہ کے طریق پرهوں گے ،
اس باب میں وارد شده چند احادیث صحیحہ ملاحظہ کریں
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة أو اثنتين وسبعين فرقة، والنصارى مثل ذلك، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة) قال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجه (1/44). وجاء في سنن أبي داود (4/197) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (افترقت اليهود على إحدى أو اثنتين وسبعين فرقة، وتفرقت النصارى على إحدى أو اثنتين وسبعين فرقة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة).
وجاء في صحيح ابن حبان (6247) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة، وافترقت النصارى على اثنتين وسبعين فرقة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة).
ان مذکوره بالا احادیث سے تویہ معلوم هوا کہ اس امت میں افتراق ( فرقے ) واقع هوں گے ، لیکن ان روایات میں ناجی فرقہ ( نجات والی کامیاب فرقه ) کی تعیین نہیں کی گئ ، بلکہ دیگر احادیث صحیحہ میں ناجی فرقہ کی تعیین کی گئ هے جودرج ذیل هیں ،
حديث أنس بن مالك رضي الله عنه الذي أخرجه الإمام أحمد حديث رقم (12229) عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: (إن بني إسرائيل قد افترقت على اثنتين وسبعين فرقة، وأنتم تفترقون على مثلها، كلها في النار إلا فرقة).
اس حدیث سے معلوم هوا کہ ان فرقوں میں سے ایک هی فرقہ کامیاب وناجی هوگا ، اب وه ناجی فرقہ کون سا هے ؟؟
وبيَّن النبي صلى الله عليه وسلم في الحديث الذي أخرجه الطبراني في الكبير (8/152) عـن أبي الدرداء وأبي أمامة وواثلة بن الأسقع وأنس بن مالك أن من شرط الفرقة الناجية: عدم تكفير أحد من أهل القبلة، فقـال: (ذَرُوا المِرَاء،فإن بني إسرائيل افترقوا على إحدى وسبعين فرقة، والنصارى على اثنتين وسبعين فرقة، و تفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة، كلهم على الضلالة إلا السَّواد الأعظم، قالوا: يا رسول الله ومَن السَّواد الأعظم؟ قال: مَن كان على ما أنا عليه وأصحابي، الخ
قال صلى الله عليه وسلم : " إن بني إسرائيل افترقوا على إحدى وسبعين فرقة ، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة ، كلها في النار إلا واحدة " فقيل له : ما الواحدة ؟ قال : " ما أنا عليه اليوم وأصحابي " . حديث حسن أخرجه الترمذي وغيره .
ان مذکوره بالا احادیث سے معلوم هوا کہ ناجی فرقہ ( نجات والی کامیاب جماعت ) وه هے جو حضور صلى الله عليه وسلم کی سنت پرعمل پیرا هوگی
یعنی " أهل السنة " اسی کو حدیث میں " ما أنا عليه " فرمایا ، اور " والجماعة "
یعنی سنت رسول پرعمل کے ساتهہ ساتهہ سنت صحابہ پربهی وه جماعت عمل کرے گی ، اسی کو حدیث میں " وأصحابي " فرمایا
تواس عظیم الشان بشارت کی حامل جماعت ایک هی هے اور وه أهل السنة والجماعة هے ، اور حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی چاروں مسالک أهل السنة والجماعة اسی اصول پر قائم هیں ، توکامیابی ونجات کا معیار ومیزان سنت رسول اور سنت صحابہ هے ، اب هم اس میزان میں فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کو پرکهتے هیں تو وه بظاهر سنت پرتو عمل کا دعوی کرتے هیں لیکن ناجی فرقہ کی دوسری صفت یعنی جماعت صحابہ کی اتباع نہیں کرتے ، حتی کہ ان کے هاں صحابی کا قول فعل فہم کوئ حجت ودلیل نہیں هے ، صرف یہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے اجماعات کی بهی مخالفت کرتے هیں ( مثلا بیس رکعت تراویح ، طلاق ثلثہ ، جمعہ کے دن اذان ثانی وغیره ) اجماعی مسائل میں صحابہ کی مخالفت کرتے هیں ، یہاں سے ایک عاقل آدمی فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی حقیقت کومعلوم کرلیتا هے ،
مزید نمائش کے لیے کلک کریں۔۔۔
حافظ صاحب سے مطالبہ ہیں کہ وہ اپنے اس قول "علمی اختلاف دلائل وبراهین کی بنیاد پر هے ، جوکہ امت مرحومہ کے لیئے رحمت هے" کی شرعی دلیل دیں؟

مفتی کفایت اللہ دہلوی دیوبندی کہتے ہیں:
"اہل حدیث مسلمان ہیں اور اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں" (کفایت المفتی ج1،ص325)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح فرماتے ہیں:
"ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل کے پیدا ہونے سے پہلے، اہل سنت و الجماعت کا مذہب قدیم و مشہور ہے، کیونکہ یہ صحابہ کا مذہب ہے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔"
(منہاج السنہ ج1، ص256)
معلوم ہوا کہ آئمہ اربعہ کی پیدائش سے پہلے اہل سنت والجماعت موجود تھے اور انگریزوں کے دور میں پیدا ہوجانے والے دیوبنیوں اور بریلویوں کا اس لقب پر قبضہ غاصبانہ قبضہ ہے۔ اور ان آئمہ سے پہلے تقلید شخصی کا جواز نہیں تھا صرف کتاب و سنت کی اطاعت موجود تھی اور یہ تقلید شخصی کی بدعت چوتھی صدی میں ایجاد ہوئی۔

شاہ ولی اللہ حنفی لکھتے ہیں:
اعلم ان الناس کا نو قبل الما ئة الرابعة غیر مجمعین علی التقلید الخالص لمذھب واحد
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ کسی ایک مخصوص مذہب کی تقلید پر متفق نہیں تھے (حجة اللہ البالغہ ص ۴۵۱)

قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی لکھتے ہیں:
فان اہل السنة والجمة قد افترق بعد القرون الثلاثة او الاربعة علی اربعة مذاہب
اہل سنت والجماعت چوتھی یا پانچویں صدی میں چار مذاہب میں متفرق ہوئے۔ (تفسیر مظہری)

امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
انما حد ثت ھذہ البدعة فی القرن الرابع المذمومة علیٰ لسانہ علیہ الصلاة والسلام۔
تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئی جسے نبی علیہ الصلاة والسلام نے مذموم قرار دیا تھا۔ (اعلام المو قعین ۲۸۹۱)
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
ملا علی قاری حنفی اپنی کتاب "سم القوارض فی ذم الروافض" میں لکھتے ہیں: "اس امت میں کسی ایک پر حنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی ہونا واجب نہیں"
اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں کہ:
"حنفی، شافعی ہونا جزوایمان نہیں، ورنہ صحابہ و تابعین کا غیر مومن ہونا لازم آئے گا۔"
(امداد الفتاویٰ:ج5،ص300)
مولانا کفایت اللہ حنفی دیوبندی بیان کرتے ہیں کہ:
"محض ترک تقلید سے اسلام میں فرق نہیں پڑتا اور نہ اہل سنت والجماعت سے تارک تقلید باہر ہوتا ہے"
(کفایت المفتی:ج،1ص325)

اگر حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی بعد کی پیداوار نہیں ہیں، اور صرف یہی مکتب فکر اہل سنت میں شامل ہیں تو صحابہ کے بارے میں کیا کہو گے؟
امام ابو حنیفہ رح کے بارے میں کیا کہو گے کہ جن کا غیر مقلد ہونا خود تمہارے بڑوں نے تسلیم کیا ہے؟
اشرف علی تھانوی صاحب فرماتی ہیں:
" امام ابو حنیفہ کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے" (مجالس حکیم الامت:ص345)
نوٹ: امام ابو حنیفہ کا غیر مقلد ہونا صراحت سے درج ذیل کتابوں میں بھی لکھا ہوا ہے۔
حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختار،ج1،ص51، معین الفقہ، ص88

جواب = یہ وسوسہ بهی عام آدمی کوبڑا وزنی معلوم هوتا هے لیکن دراصل یہ وسوسہ بهی باطل هے ، الحمد لله هم اهل سنت والجماعت هیں اور اهل سنت کے چاربڑے مکاتب فکرهیں حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، یہ چار مسالک ایک دوسرے کے ساتهہ باهمی محبت ومودت رکهتے هیں ایک دوسرے کے ساتهہ استاذ وشاگرد کی نسبت رکهتے هیں ایک دوسرے کو کافر و مشرک و گمراه نہیں کہتے صرف فروعی مسائل میں دلائل کی بنیاد پراختلاف رکهتے هیں ، اوراصول وعقائد میں اختلاف نہ توصحابہ کے مابین تها اور نہ ائمہ اربعہ کے درمیان ، اور غیرمنصوص مسائل میں ان ائمہ کرام نے اجتهاد کیا اسی وجہ سے فروعی مسائل میں ان ائمہ کرام کے مابین اختلاف موجود هے ، اور یہ اختلاف بمعنی جنگ وفساد نہیں هے جیسا کہ فرقہ جدید اهل حدیث کا پروپیگنڈه هے بلکہ یہ علمی اختلاف دلائل وبراهین کی بنیاد پر هے ، جوکہ امت مرحومہ کے لیئے رحمت هے ، اور پهر یہ فروعی اختلاف صحابہ کرام کے مابین بهی تها ،
اور حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی سب اهل سنت والجماعت هیں ، اور همارا یہ نام ولقب حدیث سے ثابت هے ، حضور صلی الله علیہ وسلم نے قول باری تعالی {يوم تبيض وجوه وتسود وجوه} کی تفسیر میں فرمایا کہ وه اهل سنت والجماعت هیں
وأخرج الخطيب في رواة مالك والديلمي عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله تعالى {يوم تبيض وجوه وتسود وجوه} قال: "تبيض وجوه أهل السنة، وتسود وجوه أهل البدع".
وأخرج أبو نصر السجزي في الإبانة عن أبي سعيد الخدري "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ {يوم تبيض وجوه وتسود وجوه} قال: تبيض وجوه أهل الجماعات والسنة، وتسود وجوه أهل البدع والأهواء".
وأخرج ابن أبي حاتم وأبو نصر في الإبانة والخطيب في تاريخه واللالكائي في السنة عن ابن عباس في هذه الآية قال {تبيض وجوه وتسود وجوه} قال "تبيض وجوه أهل السنة والجماعة، وتسود وجوه أهل البدع والضلالة.
تو أهل السنة والجماعة هی فرقة ناجیة اور طائفة منصورة هے ، اور جن کی صفت حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ بیان کی کہ وه میرے اور میرے صحابہ کے طریق پرهوں گے ،
اس باب میں وارد شده چند احادیث صحیحہ ملاحظہ کریں
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة أو اثنتين وسبعين فرقة، والنصارى مثل ذلك، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة) قال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجه (1/44). وجاء في سنن أبي داود (4/197) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (افترقت اليهود على إحدى أو اثنتين وسبعين فرقة، وتفرقت النصارى على إحدى أو اثنتين وسبعين فرقة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة).
وجاء في صحيح ابن حبان (6247) عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة، وافترقت النصارى على اثنتين وسبعين فرقة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة).
ان مذکوره بالا احادیث سے تویہ معلوم هوا کہ اس امت میں افتراق ( فرقے ) واقع هوں گے ، لیکن ان روایات میں ناجی فرقہ ( نجات والی کامیاب فرقه ) کی تعیین نہیں کی گئ ، بلکہ دیگر احادیث صحیحہ میں ناجی فرقہ کی تعیین کی گئ هے جودرج ذیل هیں ،
حديث أنس بن مالك رضي الله عنه الذي أخرجه الإمام أحمد حديث رقم (12229) عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: (إن بني إسرائيل قد افترقت على اثنتين وسبعين فرقة، وأنتم تفترقون على مثلها، كلها في النار إلا فرقة).
اس حدیث سے معلوم هوا کہ ان فرقوں میں سے ایک هی فرقہ کامیاب وناجی هوگا ، اب وه ناجی فرقہ کون سا هے ؟؟
وبيَّن النبي صلى الله عليه وسلم في الحديث الذي أخرجه الطبراني في الكبير (8/152) عـن أبي الدرداء وأبي أمامة وواثلة بن الأسقع وأنس بن مالك أن من شرط الفرقة الناجية: عدم تكفير أحد من أهل القبلة، فقـال: (ذَرُوا المِرَاء،فإن بني إسرائيل افترقوا على إحدى وسبعين فرقة، والنصارى على اثنتين وسبعين فرقة، و تفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة، كلهم على الضلالة إلا السَّواد الأعظم، قالوا: يا رسول الله ومَن السَّواد الأعظم؟ قال: مَن كان على ما أنا عليه وأصحابي، الخ
قال صلى الله عليه وسلم : " إن بني إسرائيل افترقوا على إحدى وسبعين فرقة ، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة ، كلها في النار إلا واحدة " فقيل له : ما الواحدة ؟ قال : " ما أنا عليه اليوم وأصحابي " . حديث حسن أخرجه الترمذي وغيره .
ان مذکوره بالا احادیث سے معلوم هوا کہ ناجی فرقہ ( نجات والی کامیاب جماعت ) وه هے جو حضور صلى الله عليه وسلم کی سنت پرعمل پیرا هوگی
یعنی " أهل السنة " اسی کو حدیث میں " ما أنا عليه " فرمایا ، اور " والجماعة "
یعنی سنت رسول پرعمل کے ساتهہ ساتهہ سنت صحابہ پربهی وه جماعت عمل کرے گی ، اسی کو حدیث میں " وأصحابي " فرمایا
تواس عظیم الشان بشارت کی حامل جماعت ایک هی هے اور وه أهل السنة والجماعة هے ، اور حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی چاروں مسالک أهل السنة والجماعة اسی اصول پر قائم هیں ، توکامیابی ونجات کا معیار ومیزان سنت رسول اور سنت صحابہ هے ، اب هم اس میزان میں فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کو پرکهتے هیں تو وه بظاهر سنت پرتو عمل کا دعوی کرتے هیں لیکن ناجی فرقہ کی دوسری صفت یعنی جماعت صحابہ کی اتباع نہیں کرتے ، حتی کہ ان کے هاں صحابی کا قول فعل فہم کوئ حجت ودلیل نہیں هے ، صرف یہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے اجماعات کی بهی مخالفت کرتے هیں ( مثلا بیس رکعت تراویح ، طلاق ثلثہ ، جمعہ کے دن اذان ثانی وغیره ) اجماعی مسائل میں صحابہ کی مخالفت کرتے هیں ، یہاں سے ایک عاقل آدمی فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی حقیقت کومعلوم کرلیتا هے ،
مزید نمائش کے لیے کلک کریں۔۔۔
حافظ صاحب سے مطالبہ ہیں کہ وہ اپنے اس قول "علمی اختلاف دلائل وبراهین کی بنیاد پر هے ، جوکہ امت مرحومہ کے لیئے رحمت هے" کی شرعی دلیل دیں؟

مفتی کفایت اللہ دہلوی دیوبندی کہتے ہیں:
"اہل حدیث مسلمان ہیں اور اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں" (کفایت المفتی ج1،ص325)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح فرماتے ہیں:
"ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل کے پیدا ہونے سے پہلے، اہل سنت و الجماعت کا مذہب قدیم و مشہور ہے، کیونکہ یہ صحابہ کا مذہب ہے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔"
(منہاج السنہ ج1، ص256)
معلوم ہوا کہ آئمہ اربعہ کی پیدائش سے پہلے اہل سنت والجماعت موجود تھے اور انگریزوں کے دور میں پیدا ہوجانے والے دیوبنیوں اور بریلویوں کا اس لقب پر قبضہ غاصبانہ قبضہ ہے۔ اور ان آئمہ سے پہلے تقلید شخصی کا جواز نہیں تھا صرف کتاب و سنت کی اطاعت موجود تھی اور یہ تقلید شخصی کی بدعت چوتھی صدی میں ایجاد ہوئی۔

شاہ ولی اللہ حنفی لکھتے ہیں:
اعلم ان الناس کا نو قبل الما ئة الرابعة غیر مجمعین علی التقلید الخالص لمذھب واحد
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ کسی ایک مخصوص مذہب کی تقلید پر متفق نہیں تھے (حجة اللہ البالغہ ص ۴۵۱)

قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی لکھتے ہیں:
فان اہل السنة والجمة قد افترق بعد القرون الثلاثة او الاربعة علی اربعة مذاہب
اہل سنت والجماعت چوتھی یا پانچویں صدی میں چار مذاہب میں متفرق ہوئے۔ (تفسیر مظہری)

امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
انما حد ثت ھذہ البدعة فی القرن الرابع المذمومة علیٰ لسانہ علیہ الصلاة والسلام۔
تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئی جسے نبی علیہ الصلاة والسلام نے مذموم قرار دیا تھا۔ (اعلام المو قعین ۲۸۹۱)
ماشاء اللہ علمی پوسٹ ہے لیکن بھائی میرہ سوال سمجھیں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سوال یہ ہے اگر تو ان کا یہ فرمان قرآن و سنت کے مطابق ہے تو ٹھیک ورنہ قتیبہ بن سعید کی فہم و بات کا اہل حدیث کے ہاں کیا حیثیت ہے ؟
بھائی اس سلسلے میں علماء کی طرف رجوع کر لیتے ہیں وہ کیا کہتے ہے اس قول کے بارے میں

@خضر حیات بھائی
@اسحاق سلفی بھائی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
بھائی اس سلسلے میں علماء کی طرف رجوع کر لیتے ہیں وہ کیا کہتے ہے اس قول کے بارے میں

@خضر حیات بھائی
@اسحاق سلفی بھائی
محترم بھائی !
السلام علیکم ؛
آپ نے کیا پیارا موضوع چھیڑا ہے ؛
أهل الحديث كثر الله تعالى سوادهم ورفع عمادهم
سے یقیناً محبت رکھنی چاہیئے ۔۔کیونکہ وہی تو پیارے نبی ﷺ کے قول ذیشان کے امین ،اور عمل مبارک کے حامل
تھے ۔۔اور ہیں ۔۔صرف وہی تو ہیں جو عقیدہ و عمل میں صرف انکی طرف دیکھتے ہیں ؛
علامہ خطیب بغدادی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
لهم نسبة خاصة ومعرفة مخصوصة بالنبي صلى الله عليه وسلم ، لا يشاركهم فيها أحد من العالمين، فضلا عن الناس أجمعين، لأنهم الذين لا يزال يجري ذكر صفاته العليا، وأحواله الكريمة، وشمائله الشريفة على لسانهم، ولم يبرح تمثال جماله الكريم
انہیں اپنے محبوب سے خصوصی نسبت اور انکی مخصوص معرفت کا شرف حاصل ہے ،جس میں دوسرے انسان تو کیا سارے جہانوں میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔یہ ہر لحظہ اپنے محبوب کی عالی صفات و کمالات اوراداوں ہی کا ذکر جمیل کرتے نظر آتے ہیں ؛انہیں اپنے محبوب کے جمال بے مثال کے سوا کسی اور طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ؛

أهل الحديث همُ أهل النبي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وإن لم يصحبوا نفسه أنفاسه صحبوا

اور امام قتیبہ بن سعید رحمہ اللہ بالکل صحیح فرمایا کہ :
" جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ اہل حدیث سے مثلا یحیی بن سعید ، عبد الرحمن بن مہدی ، امام احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ سے محبت کرتا ہے تو وہ سنت پر ہے ، اور جو کوئی ان کی مخالفت کرے تو جان لو کہ وہ بدعتی ہے . "
سنت امام الانبیاء کا طالب اور محب یقیناً ائمہ اہل حدیث سے محبت کرتاہے ،،کیونکہ وہی تو سنت کے امین ہیں ۔۔
اور ہر بدعتی اور مخالف سنت کو ان سے چڑ اور کدورت ہے کیونکہ وہ صرف حدیث رسول ﷺ کی بات کرتے ہیں ؛
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
شیخ محترم شخصیات سے محبت کرنا سنت پر ہونی کسوٹی نہیں ہے ، لیکن فرض کرلیں اگر ایک اہل حدیث ، دوسرے اہل حدیث سے شدید مخالفت کرے تو پھر کیا ہوگا۔۔۔
 
Top