• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

27 رجب اسراء و معراج کی رات :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
27 رجب اسراء و معراج کی رات :


27 رجب اسراء و معراج کی رات :

بعض ملکوں میں اسراء و معراج کی یاد کے طور پر ستائیس رجب کی رات کو جشن منایا جاتا ہے۔ جبکہ اس رات میں معراج ہونا صحیح نہیں ہے۔

٭حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابن دحیہ رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں کہ بعض قصہ گو لوگوں نے یہ بیان کیا ہے کہ معراج ماہ رجب میں پیش آئی تھی، "یہ کذب ہے۔"(تبیین العجب، ص 6)

٭علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں "معراج والی روایت قاسم بن محمد سے ایسی سند سے مروی ہے جو صحیح نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ستائیس رجب کو معراج ہوئی تھی ۔ ابراہیم حربی وغیرہ نے اس بات کا انکار کیا ہے۔ " (زاد المعاد لابن القیم 275/2 ، )

٭ علامہ ابن حجر نے فتح الباری( 243/7-242 )میں معراج کے وقت کے بارے میں اختلاف ذکر کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ ایک قول یہ ہے کہ معراج ماہ رجب میں ہوئی تھی، دوسرا قول یہ ہے کہ ماہ ربیع الاوّل میں اور تیسرا قول یہ ہے کہ ماہ رمضان یا شوال میں ہوئی تھی، صحیح بات وہی ہے جو علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیان کی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں "موراج کے مہینہ ، عشرہ اور دن کے بارے میں کوئی قطعی دلیل ثابت نہیں ہے ، بلکہ اس سلسلہ میں نقول منقطع و متضاد ہیں جن سے کسی تاریخ کی قطعیت ثابت نہیں ہوسکتی۔" (لطائف المعارف ، لابن رجب ، ص 233)

واقعہ اسراء اور معراج کے مہینہ کے تعیین میں سیرت نگار اہل علم کے مختلف اقوال ہیں، جن میں سے 9پیش خدمت ہیں:

٭ہجرت سے چھ مہینے پہلے
٭ ہجرت سے نو مہینے پہلے
٭ محرم
٭ربیع الأول
٭ربیع الآخر
٭رجب
٭رمضان
٭شوال
٭ذوالقعدہ

اسی طرح اسراء و معراج کس سال ہوئی اس میں بھی اختلاف ہے، کسی نے کہا بعثت سے پہلے، تو کسی نے کہانبوت کے سال،اسی طرح ہجرت سے ایک سال پہلے، ہجرت سے تین سال پہلے ، ہجرت سے پانچ سال پہلے وغیرہ وغیرہ جیسے مختلف ا قول بھی ملتے ہیں۔

جب واقعہ اسراء و معراج کے سال و مہینہ کی تعیین میں اس قدر شدید اختلاف ہے تو دن متعین کرنے میں تو لازمی طور پر بدرجہ اولی اختلاف ہوجائے گا۔

اس اختلاف کی مزید تفصیل کے لیے تفسیر قرطبی، فتح البار شرح صحیح البخاری (باب المعراج)، امام ابن القیم رحمہ اللہ کی کتاب زاد المعاد اور دیگر کتب تفسیر و سیرت ملاحظہ فرمائیں۔

مزید تفصیلات کے لئے درج ذیل لنک وزٹ کریں

!http://islamqa.info/ur/60288http://islamqa.info/ur/60288
http://islamqa.info/ar/60288http://islamqa.info/ar/60288
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
شب معراج !

رجب کی 27 ویں رات جسے شب معراج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے جس کی بابت جہلاء نے مشہور کر رکھا ہے کہ اسراء و معراج کا عظیم معجزہ رجب کی اسی رات کو پیش آیا اس لیے اس رات وہ خصوصی عبادات کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ چراغاں کرتے، محفلیں منعقد کراتے ہیں ایک دوسرے کو کھانے کی دعوتیں دیتے اور نفلی نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ اب تو نوبت یہ آگئی ہے کہ بعض مقامات پر براق نما گھوڑے کی شبیہ بنائی جاتی ہے جس کے دو بازو اور چہرہ عورت کے چہرے کی مانند ہوتا ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

جہاں تک اسراء ومعراج کے واقعہ کا تعلق ہے اس سے کسی کو انکار نہیں، یقینا وہ برحق ہے کتاب و سنت میں اس پر اس قدر دلائل ہیں کہ ان سے انکار کی گنجائش نہیں، لیکن خاص طور پر اس مہینے
اور کسی ایک رات کا تعیّن نا ممکن بات ہے کیونکہ اس بارے میں بہت سے اقوال ہیں جن میں خاصا اختلاف ہے۔

اگر بالفرض 27 رجب ہی کو معراج کی رات تسلیم کر لیا جائے تو اس سے یہ کس طرح لازم آتا ہے کہ یہ رات دھوم دھام سے منانی چاہیے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کو دھوم دھام کا کوئی اہتمام نہیں کیا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ایسا کرنے کا کوئی حکم دیا۔ پھر ہم نے یہ سب کچھ کہاں سے اپنا لیا؟؟؟؟ ( تھوڑا سا غور فرمائیں )

اس رات کی عبادت سے متعلق بہت سے فضائل بھی بیان کیے جاتے ہیں جو سب کے سب من گھڑت اور بے بنیاد ہیں۔ ان فضائل کی سرے سے کوئی حقیقت ہی نہیں۔ ہم سب کو صرف اللہ رب العزت کے احکام کی تعمیل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقے اپنانے چاہییں۔ خاص طور پر رجب کے مہینے کے بارے میں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حرمت کے علاوہ اس کی کوئی خاص فضیلت نہیں۔ اس لیے فرضی قصے اور ضعیف وموضوع روایات پر مبنی داستانوں پر بالکل کان نہیں دھرنا چاہیے۔
اسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ معراج کے بارے میں خطباء اور واعظین اپنی تقاریر میں ایسے من گھڑت قصے اور واقعات بیان کرتے ہیں جو درجۂ استناد سے گرے ہوئے ہوتے ہیں حالانکہ اگر صرف صحیح احادیث پر مبنی تفصیلات و واقعات ہی بیان کیے جائیں تو آپ کی فضیلت بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے انتباہ فرمایا ہے کہ جو شخص کوئی ایسی بات مجھ سے منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی، اُس کا ٹھکانا جہنم ہے ۔ (صحیح البخاري: 107)
 

Abdul Haseeb

مبتدی
شمولیت
اگست 14، 2016
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
18
27 رجب کے بارے مین کوئی صحیح روایت نہین۔
 
Top