اس بارے اہل الحدیث اہل علم کا اختلاف ہے کہ اہل حدیث نام اپنے ساتھ لگانا ضروری ہے یا نہیں؟
بعض اس کو ضروری سمجھتے ہیں یعنی واجب یا فرض کا درجہ دیتے ہیں جبکہ بعض کے نزدیک اصل چیز اہل حدیث کی فکر اور منہج ہے، یہ ہونی چاہیے، چاہیے نام کچھ بھی ہو، اس سے فرق نہیں پڑتا جیسا کہ سید احمد شہید بریلوی اپنے نام کے ساتھ بریلوی لگاتے تھے اور اب کچھ حنفی علماء نے اپنے ناموں کے ساتھ سلفی لگانا شروع کر دیا ہے کہ دعوی یہ کیا ہے کہ اصل سلفی، حنفی ہیں۔
پس میرے خیال میں اگر آپ کا عقیدہ اور منہج اہل حدیث کا ہے تو بھلے آپ اپنے نام کے ساتھ بریلوی لگائیں یا اہل حدیث، اس سے آپ کی اخروی نجات متاثر نہیں ہو گی۔ اور اگر آپ کا عقیدہ و منہج اہل الحدیث کا نہیں ہے اور آپ اپنے آپ کو اہل حدیث یا سلفی وغیرہ لکھتے ہیں تو اس صورت میں یہ نام آپ کو آخرت میں کچھ بھی کام نہ آئیں گے۔ پس اصل نام نہیں ہے بلکہ فکر و عمل یا عقیدہ و منہج ہے، وہ درست ہونا چاہیے۔
اہل کتاب میں بھی ایک وقت میں ناموں کے بارے حساسیت بہت بڑھ گئی تھی، یہاں تک کہ اپنے باہمی اختلافات کی بدولت جب وہ فرقوں میں بٹ گئے تو اب ان فرقوں میں کسی داخل یا خارج کرنے کا کام اور اس پر مناظرہ کرنا ہی دین کی اصل خدمت قرار پائی۔ یہاں تک کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے بھی اختلاف کرنے لگے۔ یہودیوں نے کہا کہ وہ یہودی تھے یعنی ہمارا بندہ تھا اور عیسائیوں نے کہا کہ ہمارے تھے۔ اس پر اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٦٧﴾
ہمارے ہاں شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے بارے یہ مکالمہ ہوا ہے کہ وہ بریلوی تھے یا دیوبندی یا اہل حدیث۔
مسلمان کے علاوہ کسی گروہ یا جمعیت یا انجمن یا قبیلے کا نام رکھنے کی نہ تو ممانعت ہے اور نہ ہی ممنوع ہے۔ بات یہ ہے کہ جب ان ناموں کے بارے حساسیت بڑھ جاتی ہے اور ان ناموں کا اسلام کا مترادف قرار دیے جانے کی سوچ بڑھ جاتی ہے تو پھر یہ چیز شریعت اسلامیہ کی نظر میں مذموم ہے۔
بہر حال یہ دلیل درست نہیں ہے کہ قادیانی یا منکرین حدیث بھی چونکہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لہذا مسلمان کے علاوہ بھی لازما کوئی سابقہ یا لاحقہ ہونا چاہیے۔ کل کلاں، بلکہ کل کیا آج ہی یہ ہو رہا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے اپنے آپ کو سلفی کہنا شروع کر دیا ہے اور وہ دن دور نہیں ہے کہ جب بریلوی اور دیوبندی بھی اپنے ناموں کے ساتھ اہل حدیث کا اضافہ کر لیں گے تو پھر آپ کو ضرورت پڑے گی کہ آپ اپنے نام کے ساتھ اس سابقہ یا لاحقہ کا اضافہ کریں کہ
'اصلی اہل حدیث' جیسا کہ اصلی اہل سنت یا اصلی سلفی کی اصطلاحات تو معروف ہو چکی ہیں کیونکہ مدمقابل فکر رکھنے والوں نے بھی اپنے آپ کو ان ناموں سے معروف کر دیا تھا۔ پھر اصلی اہل حدیث میں بھی کئی ورژن آئیں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
میرے خیال میں کوشش کریں کہ قرون اولی کے اہل الحدیث یعنی صحابہ، تابعین، ائمہ ثلاثہ اور محدثین عظام کی فکر و عقیدہ اور منہج و عمل کو اپنانے کی کوشش کریں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں، اور کوئی آپ کو اہل حدیث کہتا ہے یا نہیں، یا مانتا ہے یا نہیں، یا اہل حدیث جماعت میں داخل کرتا ہے یا نہیں، اس سے صرف نظر کرتے ہوئے بس کام کرتے جائیں۔
میرے تلامذہ میں بیسیوں ایسے دیوبندی اور بریلوی ہیں کہ تدریس کی بدولت ان کا عقیدہ اہل حدیث کا بن گیا اور انہوں نے نماز و دیگر مسائل میں احادیث صحیحہ کے مطابق عمل شروع کر دیا لیکن وہ اپنا تعارف بطور اہل حدیث کروانا پسند نہیں کرتے ہیں اور اس کی ان کے نزدیک کچھ وجوہات ہیں بلکہ بعض اہل حدیث تو میں نے ایسے بھی دیکھے ہیں جو اپنے نام کے ساتھ جان بوجھ کر بریلوی لگاتے ہیں کیونکہ وہ سابقہ بریلوی تھے اور اب بریلویوں میں دعوت و تبلیغ کا کام بریلوی نام سے کر رہے ہیں۔ یعنی وہ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ براءے نام بریلوی یا دیوبندی رہیں لیکن ان کے اذہان و قلوب اہل حدیث کے ہو جاءیں جیسا کہ انگریز نے ہماری اکثریت کو برائے نام تو مسلمان رہنے دیا لیکن ذہنا انگریز بنا دیا۔ اسے آپ حکمت کہیں یا کچھ اور نام دیں لیکن مجھے بہر حال اہل حدیث نام استعمال کرنے میں کوئی حساسیت نہیں ہے۔ اگر آپ کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں اور نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں اور یہ دیکھیں کہ آپ کی دعوت کے پھیلنے میں کیا چیز زیادہ مفید ہے۔ اہل حدیث کا نام استعمال کرنا یا نہ کرنا اور جو مفید ہے اس کے مطابق دعوت پھیلائیں۔
جزاکم اللہ خیرا