• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

40 آدمیوں کا نماز جنازہ پڑھنا :

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
سبحان اللہ ۔۔کیا پیاری حدیث ہے ؛
اس میں توحید کی عظمت و اہمیت بتائی گئی ہے ۔۔۔اور شرک کا رد کیا گیا ہے ۔۔۔
لیکن واضح رہے :
صرف جنازہ پڑھنے والوں کا شرک سے پاک ہونا کافی نہیں ۔۔۔جس کا جنازہ پڑھ رہے ہیں وہ بھی شرک سے پاک ہو ۔۔تب اسے بخشش ملے گی؛
دیکھیئے عبد اللہ بن ابی ،کا جنازہ امام الانبیاء ﷺ نے خود پڑھایا تھا ۔۔۔۔لیکن اسکی بخشش نہ ہو سکی ؛

’’ عن ابن عمر رضي الله عنهما ان عبد الله بن ابي لما توفي جاء ابنه إلى النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال:‏‏‏‏ " يا رسول الله اعطني قميصك اكفنه فيه وصل عليه واستغفر له فاعطاه النبي صلى الله عليه وسلم قميصه ، فقال:‏‏‏‏ آذني اصلي عليه فآذنه فلما اراد ان يصلي عليه جذبه عمر رضي الله عنه ، فقال:‏‏‏‏ اليس الله نهاك ان تصلي على المنافقين فقال:‏‏‏‏ انا بين خيرتين قال الله تعالى:‏‏‏‏ استغفر لهم او لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم سورة التوبة آية 80 ، فصلى عليه ، فنزلت:‏‏‏‏ ولا تصل على احد منهم مات ابدا سورة التوبة آية 84 ".
(صحیح البخاری :حدیث نمبر: 1269۔۔۔باب الكفن في القميص الذي يكف أو لا يكف ومن كفن بغير قميص
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) کی موت ہوئی تو اس کا بیٹا (عبداللہ صحابی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! والد کے کفن کے لیے آپ اپنی قمیص عنایت فرمائیے اور ان پر نماز پڑھئے اور مغفرت کی دعا کیجئے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص (غایت مروت کی وجہ سے) عنایت کی اور فرمایا کہ مجھے بتانا میں نماز جنازہ پڑھوں گا۔ عبداللہ نے اطلاع بھجوائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے سے پکڑ لیا اور عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے ”تو ان کے لیے استغفار کر یا نہ کر اور اگر تو ستر مرتبہ بھی استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا“ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ اس کے بعد یہ آیت اتری
”کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھانا“۔
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
لیکن بعض اہل توحید بھائی مشرکوں کا جنازہ بے وضو جا کرپڑھتے ہیں تاکہ دنیا داری بھی رہے اور دین بھی ہاتھ سے نہ جائے۔کیا یہ عمل درست ہے؟یا سرے سے مشرک کا جنازہ پڑھنے کے لئے جائے ہی نا۔۔۔تاکہ اُن لوگوں کو اپنے مشرکانہ عقیدے پر شرمندگی ہو۔یا یہ عمل درست ہے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لیکن بعض اہل توحید بھائی مشرکوں کا جنازہ بے وضو جا کرپڑھتے ہیں تاکہ دنیا داری بھی رہے اور دین بھی ہاتھ سے نہ جائے۔کیا یہ عمل درست ہے؟
مجھے ہنسی آرہی ہے !
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اگر کوئی شخص جہالت کی وجہ سے شرک پر مر جاتا ہے کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے یا پھر صرف اس کی تدفین میں شریک ہوا جا سکتا ہے -
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس بات پر
لیکن بعض اہل توحید بھائی مشرکوں کا جنازہ بے وضو جا کرپڑھتے ہیں تاکہ دنیا داری بھی رہے اور دین بھی ہاتھ سے نہ جائے۔
لیکن آپ کا سوال بلکل بجا ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
لیکن بعض اہل توحید بھائی مشرکوں کا جنازہ بے وضو جا کرپڑھتے ہیں تاکہ دنیا داری بھی رہے اور دین بھی ہاتھ سے نہ جائے۔کیا یہ عمل درست ہے؟یا سرے سے مشرک کا جنازہ پڑھنے کے لئے جائے ہی نا۔۔۔تاکہ اُن لوگوں کو اپنے مشرکانہ عقیدے پر شرمندگی ہو۔یا یہ عمل درست ہے؟
یہ عمل بالکل درست نہیں ؛
کیونکہ ’’ بظاہر ہی سہی ‘‘ وہ نماز ہی تو پڑھ رہے ہیں ۔۔اور نماز کسی صورت طہارت کے بغیر جائز نہیں ۔
اور نماز کے متعلق پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے ؛
عن ابي المليح بن اسامة عن ابيه اسامة بن عمير الهذلي قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏"لا يقبل الله صلاة إلا بطهور ولا يقبل صدقة من غلول".
(سنن النسائی ۔سنن ابن ماجہ ) قال الشيخ الألباني: صحيح
اسامہ بن عمیر ہذلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کوئی بھی نماز بغیر وضو کے قبول نہیں فرماتا، اور نہ چوری کے مال سے کوئی صدقہ قبول کرتا ہے“۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الطہا رة ۳۱ (۵۹)، سنن النسائی/الطہارة ۱۰۴ (۱۳۹)، (تحفة الأشراف : ۱۳۲)، وقد أخرجہ : مسند احمد (۵/۷۴، ۷۵)، سنن الدارمی/الطہارة ۲۱ (۷۱۳) (صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اوپر عبد اللہ بن ابی کے جنازے کےقصہ میں بھی ضمناً یہ بات موجود ہے کہ :
’’ جس شخص کی بخشش نہیں ہونی ،اگر ستر مرتبہ بھی اس کا جنازہ پڑھا جائے ۔۔۔پھر بھی نبی کریم ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی ۔۔۔جب نماز جنازہ پڑھی تو صاف ظاہر ہے کہ ۔۔با وضوء ۔۔پڑھی ،نہ کہ بے وضوء ‘‘
فقال:‏‏‏‏ اليس الله نهاك ان تصلي على المنافقين فقال:‏‏‏‏ انا بين خيرتين قال الله تعالى:‏‏‏‏ استغفر لهم او لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم سورة التوبة آية 80 ، فصلى عليه ، فنزلت:‏‏‏‏ ولا تصل على احد منهم مات ابدا ‘‘ سورة التوبة آية 84 ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے سے پکڑ لیا اور عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (نہیں ،پڑھنے سے ابھی منع نہیں ،بلکہ )۔مجھے اختیار دیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے ”تو ان کے لیے استغفار کر یا نہ کر اور اگر تو ستر مرتبہ بھی استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا“ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔
اس کے بعد یہ منع کی آیت اتری ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نماز جنازہ میں وضوء کے شرط ہونے کے بارے علامہ نووی ؒ ۔۔المجموع شرح المہذب ۔۔میں فرماتے ہیں :
* دليلنا على اشتراط الطهارة قول الله عز وجل " ولا تصل على أحد منهم مات أبدا) فسماه صلاة وفي الصحيحين قوله صلى الله عليه وسلم " صلوا على صاحبكم " وقوله صلى الله عليه وسلم " من صلى على جنازة " وغير ذلك من الأحاديث الصحيحة في تسميتها صلاة وقد قال الله عز وجل (إذا قمتم إلي الصلاة فاغسلوا وجوهكم وأيديكم) الآية وفي الصحيح قوله صلى الله عليه وسلم " لا يقبل الله صلاة بغير طهور " ولأنها لما افتقرت إلى شروط الصلاة دل على أنها صلاة وكون معظم مقصودها الدعاء لا يخرجها عن كونها صلاة
(المجموع شرح المهذب ج5 ص 223)
ان کے کلام کا خلاصہ یہ کہ :
’’ نماز جنازہ میں وضوء کے شرط ہونے پر ہماری دلیل یہ کہ اللہ تعالی نے عبد اللہ بن ابی کے جنازہ کی ممانعت کرتےہوئے ،اسے نماز کہا ہے (ولا تصل على أحد)
اور صحیحین میں پیارے نبی ﷺ الفاظ ہیں ’’ تم اپنے ساتھی کی ’’ نماز جنازہ ‘‘ پڑھو ۔۔۔وغیرہ احادیث جن میں جنازے کیلئے پڑھے جانے والے ۔۔عمل ۔۔کو نماز
کہا گیا ۔اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ نماز بغیر نہیں پڑھی جاسکتی ‘‘
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
لیکن بعض اہل توحید بھائی مشرکوں کا جنازہ بے وضو جا کرپڑھتے ہیں تاکہ دنیا داری بھی رہے اور دین بھی ہاتھ سے نہ جائے۔کیا یہ عمل درست ہے؟یا سرے سے مشرک کا جنازہ پڑھنے کے لئے جائے ہی نا۔۔۔تاکہ اُن لوگوں کو اپنے مشرکانہ عقیدے پر شرمندگی ہو۔یا یہ عمل درست ہے؟

تم نے ایک نماز بغیر وضو کی پڑھی تھی !!!



بغير وضوء نماز ادا كرنا كفر نہيں بلكہ كبيرہ گناہ ہے

مجھے علم ہے كہ جنابت كى حالت ميں نماز ادا كرنى جائز نہيں، ليكن اگر كوئى شخص جنابت كى حالت ميں نماز ادا كر لے تو اس نماز كا حكم كيا ہے ؟

وہ يہ محسوس كرتا ہے كہ اندر سے مكمل ٹوٹ چكا ہے، اور اپنى معصيت و نافرمانى پر غمزدہ ہے، كيونكہ اس نے ايك كتاب ميں پڑھا ہے كہ اگر مسلمان شخص بغير وضوء نماز ادا كر لے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اس بنا پر مذكورہ شخص كو كيا كرنا چاہيے ؟

كيا واقعتا وہ اس فعل كى بنا پر دائرہ اسلام سے خارج ہوا ہے يا نہيں ؟

وہ اس معصيت و نافرمانى سے كس طرح خلاصى اور توبہ كر سكتا ہے، يا اسے اپنے ايمان ( اسلام ) كى تجديد كرنا ہو گى ؟


الحمد للہ:

اول:

مسلمانوں كو يہ ضرور معلوم ہونا چاہيے كہ حدث اصغر اور اكبر سے طہارت و پاكيزگى اختيار كرنا واجب ہے، اور نماز صحيح ہونے كے ليے شرط ہے اور يہ كہ جس نے بھى بغير وضوء جان بوجھ كر عمدا يا بھول كر نماز ادا كى تو اس كى نماز باطل ہے، اسے وہ نماز دوبارہ ادا كرنا ہو گى، پھر اگر وہ عمدا ايسا كرتا ہے تو وہ كبيرہ گناہ اور عظيم معصيت كا مرتكب ٹھرےگا.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" چنانچہ مسلمان شخص نہ تو قبلہ رخ كے علاوہ كسى اور طرف رخ كر كے نماز ادا كرے، اور نہ ہى بغير وضوء اور بغير ركوع يا سجدے كے، اور اگر كوئى شخص ايسا كرتا ہے تو وہ قابل مذمت اور سزا كا مستحق ٹھرےگا " انتہى

ديكھيں: منھاج السنۃ النبويۃ ( 5 / 204 ).

اورايسے كرنے والے كے متعلق شديد قسم كى وعيد آئى ہے:

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ كے بندوں ميں سے ايك بندے كو قبر ميں سو كوڑے مارنے كا حكم ديا گيا، چنانچہ وہ اللہ سے سوال كرتا رہا اور اس ميں كمى كى دعاء كرتا رہا حتى كہ ايك كوڑا رہا گيا، تو اسے ايك كوڑا مارا گيا جس سے اس كى قبر آگ سے بھر گئى، اور جب اس سے يہ سزا ختم ہوئى اور اسے ہوش آيا تو اس نے دريافت كيا: تم نے مجھے كوڑا كيوں مارا ؟
تو اسے كہا گيا: تم نے ايك نماز بغير وضوء ادا كى تھى، اور ايك مظلوم شخص كے پاس سے گزرے تو اس كى مدد نہ كى "

اسے امام طحاوى نے " مشكل الآثار ( 4 / 231 ) ميں نقل كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2774 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.


دوم:

اہل علم متفق ہيں كہ جس نے بھى بغير وضوء كے نماز حلال سمجھتے ہوئے ادا كى، يا پھر استھزاء كرتے ہوئے بے وضوء نماز ادا كى تو اس نے كفر كا ارتكاب كيا، اسے توبہ كروائى جائيگى، اگر توبہ كرلے تو ٹھيك وگرنہ اسے قتل كر ديا جائيگا.

اور اگر وہ حقارت كى بنا پر بے وضوء نماز ادا كرتا ہے، نہ كہ حلال سمجھتے ہوئے، اور نہ ہى استھزاء كے ساتھ تو امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں اس نے بھى كفر كيا.

ليكن جمہور علماء كرام اسے كافر قرار نہيں ديتے، بلكہ وہ اس فعل كى بنا پر مرتكب كبيرہ ٹھرےگا.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اگر اسے حدث اور بے وضوء نماز ادا كرنے كى حرمت كا علم ہو تو اس نے عظيم معصيت كا ارتكاب كيا، اور ہمارے ہاں وہ كفر كا مرتكب نہيں ٹھرے گا، ليكن اگر وہ اسے حلال سمجھے تو پھر كافر ہے، اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى اسے بطور استھزاء ايسا كرنے پر بھى كافر قرار ديتے ہيں.

ہمارى دليل يہ ہے كہ: يہ معصيت ہے چنانچہ يہ زنا وغيرہ كے مشابہ ہوئى " انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 2 / 84 ) اور روضۃ الطالبين ( 10 / 67 ) ميں بھى ايسے ہى لكھا ہے.

احناف كا مسلك ديكھنے كے ليے آپ " البحر الرائق ( 1 / 302 - 151 ) ( 5 / 132 ) اور حاشيۃ ابن عابدين ( 3 / 719 ) ديكھيں.

چنانچہ بغير طہارت اور وضوء كيے نماز ادا كرنے والے كو توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور وہ يہ عزم اور پختہ ارادہ كرے كہ آئندہ ايسا نہيں كرےگا، پھر وہ بغير وضوء ادا كردہ نماز كو دوبارہ ادا كرے، اللہ تعالى توبہ كرنے والے كى توبہ قبول كرنے والا ہے، اور اسے اپنے اسلام كى تجديد كرنے كى كوئى ضرورت نہيں.

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 27091 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/65731
 
Top