لیکن بعض اہل توحید بھائی مشرکوں کا جنازہ بے وضو جا کرپڑھتے ہیں تاکہ دنیا داری بھی رہے اور دین بھی ہاتھ سے نہ جائے۔کیا یہ عمل درست ہے؟یا سرے سے مشرک کا جنازہ پڑھنے کے لئے جائے ہی نا۔۔۔تاکہ اُن لوگوں کو اپنے مشرکانہ عقیدے پر شرمندگی ہو۔یا یہ عمل درست ہے؟
یہ عمل بالکل درست نہیں ؛
کیونکہ ’’
بظاہر ہی سہی ‘‘ وہ نماز ہی تو پڑھ رہے ہیں ۔۔اور نماز کسی صورت طہارت کے بغیر جائز نہیں ۔
اور نماز کے متعلق پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے ؛
عن ابي المليح بن اسامة عن ابيه اسامة بن عمير الهذلي قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"لا يقبل الله صلاة إلا بطهور ولا يقبل صدقة من غلول".
(سنن النسائی ۔سنن ابن ماجہ ) قال الشيخ الألباني: صحيح
اسامہ بن عمیر ہذلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کوئی بھی نماز بغیر وضو کے قبول نہیں فرماتا، اور نہ چوری کے مال سے کوئی صدقہ قبول کرتا ہے“۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الطہا رة ۳۱ (۵۹)، سنن النسائی/الطہارة ۱۰۴ (۱۳۹)، (تحفة الأشراف : ۱۳۲)، وقد أخرجہ : مسند احمد (۵/۷۴، ۷۵)، سنن الدارمی/الطہارة ۲۱ (۷۱۳) (صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اوپر عبد اللہ بن ابی کے جنازے کےقصہ میں بھی ضمناً یہ بات موجود ہے کہ :
’’ جس شخص کی بخشش نہیں ہونی ،اگر ستر مرتبہ بھی اس کا جنازہ پڑھا جائے ۔۔۔پھر بھی نبی کریم ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی ۔۔۔جب نماز جنازہ پڑھی تو صاف ظاہر ہے کہ ۔۔با وضوء ۔۔پڑھی ،نہ کہ بے وضوء ‘‘
فقال: اليس الله نهاك ان تصلي على المنافقين فقال: انا بين خيرتين قال الله تعالى: استغفر لهم او لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم سورة التوبة آية 80 ، فصلى عليه ، فنزلت: ولا تصل على احد منهم مات ابدا ‘‘ سورة التوبة آية 84 ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے سے پکڑ لیا اور عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (نہیں ،پڑھنے سے ابھی منع نہیں ،بلکہ )۔مجھے اختیار دیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے ”تو ان کے لیے استغفار کر یا نہ کر اور اگر تو ستر مرتبہ بھی استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا“
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔
اس کے بعد یہ منع کی آیت اتری ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نماز جنازہ میں وضوء کے شرط ہونے کے بارے علامہ نووی ؒ ۔۔المجموع شرح المہذب ۔۔میں فرماتے ہیں :
*
دليلنا على اشتراط الطهارة قول الله عز وجل " ولا تصل على أحد منهم مات أبدا) فسماه صلاة وفي الصحيحين قوله صلى الله عليه وسلم " صلوا على صاحبكم " وقوله صلى الله عليه وسلم " من صلى على جنازة " وغير ذلك من الأحاديث الصحيحة في تسميتها صلاة وقد قال الله عز وجل (إذا قمتم إلي الصلاة فاغسلوا وجوهكم وأيديكم) الآية وفي الصحيح قوله صلى الله عليه وسلم " لا يقبل الله صلاة بغير طهور " ولأنها لما افتقرت إلى شروط الصلاة دل على أنها صلاة وكون معظم مقصودها الدعاء لا يخرجها عن كونها صلاة
(المجموع شرح المهذب ج5 ص 223)
ان کے کلام کا خلاصہ یہ کہ :
’’ نماز جنازہ میں وضوء کے شرط ہونے پر ہماری دلیل یہ کہ اللہ تعالی نے عبد اللہ بن ابی کے جنازہ کی ممانعت کرتےہوئے ،اسے نماز کہا ہے
(ولا تصل على أحد)
اور صحیحین میں پیارے نبی ﷺ الفاظ ہیں ’’ تم اپنے ساتھی کی ’’ نماز جنازہ ‘‘ پڑھو ۔۔۔وغیرہ احادیث جن میں جنازے کیلئے پڑھے جانے والے ۔۔عمل ۔۔کو نماز
کہا گیا ۔اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ نماز بغیر نہیں پڑھی جاسکتی ‘‘