• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(42)فقہ السیرۃ النبویہ Fiqh Us Seerat Un Nabavia ((شق صدر اور اہل عقل و درایت ))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
فقہ السیرۃ النبویہ: سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تربیتی ، تنظیمی اور سیاسی رہنمائی

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))

شق صدر اور اہل عقل و درایت

(1) اہل السنہ و الجماعہ کے نزدیک واقعہ شق صدر جسمانی اور حسی طور پر رونما ہوا ۔ اس کے برعکس بعض اہل علم نے عقل و درایت کے نام پر جسمانی شق صدر کا انکار کیا ہے۔ جیسے سر سید، محمد حسین ہیکل اور ابو زہرہ مصری۔

(2) سر سید صاحب ان میں سرفہرست ہیں۔ انھوں نے عقل کی بنا پر ایسی کئی ایک روایات کا انکار کیا ہے ،جو فقہاء و محدثین کے نزدیک مستند، متواتر اور مسلمہ ہیں۔ واقعہ شق صدر بھی انھی واقعات میں سے ایک ہے۔

(3) سر سید صاحب نے انکار واقعہ کے کئی ایک اسباب و علل بیان کی ہیں۔ انھوں نے بنو سعد میں شق صدر کی تمام روایات کو غلط اور باطل تک قرار دیا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت کو بھی غیر معتبر ٹھہرایا ہے۔ واقعہ شق صدر کے انکار کی ایک وجہ یہ بیان کی ہے کہ راوی حدیث سیدنا انس رضی اللّٰہ عنہ مدینہ میں مسلمان ہوئے تھے ،جبکہ واقعہ مکہ میں پیش آیا تھا اور وہ بغیر واسطہ کے روایت بیان کرتے ہیں۔

(4)اسی طرح ایک وجہ بیان کی ہے کہ سیدنا انس رضی اللّٰہ عنہ اپنی روایت میں آپ کے سینہ مبارک پر ٹانکوں کے نشانات دیکھنے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ سر سید صاحب کے نزدیک عقل و درایت کے لحاظ سے ایسا ناممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ کا حلیہ مبارک کئی ایک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔لیکن ان کے ہاں ٹانکوں کا تذکرہ نہیں ملتا۔

(5) انھوں نے واقعہ کے وقت سیدنا انس رضی اللّٰہ عنہ کی عدم موجودگی کو بھی انکار واقعہ کا ایک سبب بیان کیا ہے۔ کیونکہ حضرت انس مدینہ میں مسلمان ہوئے تھے اور واقعہ مکی دور کا ہے ،(ملاقات سر سید: 716/11، 717)

(6) سر سید صاحب کے تمام اعتراضات غیر معتبر اور ناقابل قبول ہیں ۔ صحیحین تک کی روایات کو عقل و درایت کے نام پر رد کر دینا کسی طور پر بھی موزوں نہیں۔ واقعہ شق صدر کے متعلق صحیح مسلم میں مذکور سیدنا انس رضی اللّٰہ عنہ کی روایت کو غیر معتبر ٹھہرانا نقل و عقل کے اعتبار سے ہی انتہائی غیر مناسب ہے ،کیونکہ ٹانگوں کے نشانات تو مدینہ میں بھی دیکھے جا سکتے تھے۔ نشانات بعد میں بھی موجود تھے ، وہ مٹے تو نہ تھے۔ پھر نشانات ختم ہونے کی کہیں کوئی صراحت بھی نہیں ہے۔

(7) بعد میں مسلمان ہونے والے صحابی رسول کا سابقہ واقعہ کو بغیر واسطہ کے بیان کرنا، اصول احادیث کی اصطلاح میں ''مراسل صحابہ'' کہلاتا ہے اور مرسل صحابی مقبول ہوتی ہے۔ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت پر امت کا اجماع ہے۔ مزید یہ کہ بعض روایات میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان موجود واسطہ کی وضاحت بھی ہے اور وہ سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا مالک بن صعصعہ رضی اللّٰہ عنہماہیں ۔ (مسند أحمد: 21288، 17833)

(8) اسی طرح وقت واقعہ سیدنا انس رضی اللّٰہ عنہ کی عدم موجودگی بھی چنداں قابل اعتراض و انکار نہیں۔ اس اصول کو درست تسلیم کرنے کی صورت میں تو بیشتر ذخیرہ احادیث ہی غیر معتبر قرار پائے گا، جبکہ حقیقت ایسی نہیں ہے۔ دیگر سے سن کر بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ آغاز وحی کی روایات ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہیں ،حالانکہ یہ تو مدینہ میں آپ کی زوجیت میں آئی تھیں۔

(9) رسول اللہ ﷺ کے تفصیلی سراپا اقدس کے دیگر روایان کے ہاں عدم ذکر بھی قابل التفات نہیں۔یہ متفقہ اصول ہے کہ کسی چیز کے عدم ذکر سے اس کا عدم لازمی نہیں آتا۔ پھر ٹانکے حلیہ مبارک کا حصہ بھی نہیں ہیں۔ ہر ایک کو آپ کے ٹانکے دکھائی دینا بھی ممکن نہ تھے، کیونکہ وہ تو کپڑے کے نیچے چھپے رہتے تھے۔ سیدنا انس رضی اللّٰہ عنہ تو آپ کے خادم خاص تھے، اس لیے انھوں نے وہ دیکھ لے۔

(10) عقل و درایت کے نام پر مسلمہ اور ثابت شدہ حقیقت کا انکار کسی طور پر بھی موزوں نہیں۔ عقل کو شریعت و دین پر فوقیت دینا کسی طرح بھی روا نہیں، کیونکہ عقل دین کے تابع ہے ناکہ دین عقل کے۔ محمد رمضان بوطی کے بقول واقعہ شق صدر کو پرتکلف تاویلات کے بھینٹ چڑھانا انتہائی غیرمناسب اور اللہ تعالیٰ پر کمزور ایمان کی علامت ہے۔ (فقہ السیرۃ للبوطي، ص: 67)

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top