دوسری روایت
(از:یزیدبن خصیفہ)
علي بن الجَعْد بن عبيد البغدادي (المتوفى230ھ) نے کہا:
أنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، وَإِنْ كَانُوا لَيَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ مِنَ الْقُرْآنِ» [مسند ابن الجعد:ص: 413]۔
...........
وأخرجه الفريابي في (الصيام: ص: 131) من طريق يزيد بن هارون عن ابن أبي ذئب به
اس روایت کا ایک راوی علی ابن الجعد تشیع کے ساتھ مجروح ہے ،سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کی تنقیص کرتا تھا ،(دیکھئے تہذیب التہذیب وغیرہ)اس کی روایات صحیح بخاری میں متابعات میں ہیں ، اور جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے لیکن ایسے مختلف فیہ راوی کی ”شاذ“ روایت مؤطا امام مالک کی صحیح روایت کے خلاف کیونکر پیش کی جاسکتی ہے ؟ (قیام رمضان ص31 ایضا ص77)
عرض ہے کہ اس روایت میں علی ابن الجعد کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ اس روایت کے نقل میں وہ منفرد نہیں ہے بلکہ تین ثقہ رواۃ نے اس کی متابعت کی ہے :
1۔ يزيد بن هارون (ثقہ ) نے دیکھئے : [الصيام للفريابي ص: 131]
2۔محمد بن يوسف (ثقہ) نے دیکھئے :[فوائد أبي بكرالنيسابوري ،مخطوط (135/ب)]
3۔ إسماعيل بن أمية (ثقہ) نے دیکھئے: [فوائد أبي بكرالنيسابوري ،مخطوط (135/ب)]
لہٰذا علی ابن الجعد کو مورد الزام ٹہرانا درست نہیں ہے ، البتہ یہ روایت دوسری وجوہات کی بناپر شاذ ہے جس کی تفصیل یہ ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ روایت شاذ ہے اس کی کئی وجوہات ہیں:
شذوذ کی پہلی وجہ
سند میں موجود یزید بن خصیفہ ، رکعات کی تعداد صحیح طور سے ٍضبط نہیں کرسکے، اس بات کا اعتراف خود انہوں نے کرلیا ہے اورپوری صراحت کے ساتھ بتلادیا کہ انہیں تعداد بالضبط یاد نہیں ہے بلکہ انہیں ایسا لگتا تھا کہ محمدبن سائب نے اکیس کی تعداد بتائی ہوگی ، چنانچہ:
امام أبو بكر النيسابوري رحمه الله (المتوفى324)نے کہا:
حدّثنا يوسف بن سعيد، ثنا حجاج، عن ابن جريج، حدثني إسماعيل بن أمية، أنّ محمد بن يوسف ابن أخت السّائب بن يزيد أخبره، أنّ السّائب بن يزيد أخبره قال: جمع عمر بن الخطاب الناس على أبي بن كعب وتميم الداري، فكانا يقومان بمائة في ركعة، فما ننصرف حتى نرى أو نشك في فروع الفجر. قال: فكنا نقوم بأحد عشر.
قلت : أو واحد وعشرين؟! قال: لقد سمع ذلك من السائب بن يزيد ابنُ خصيفة. فسألتُ يزيد بن خصيفة، فقال: حسبتُ أنّ السّائب قال: أحد وعشرين. [فوائد أبي بكرالنيسابوري ،مخطوط (135/ب)]۔
ترجمہ: سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں ابی بن کعب اورتمیم داری رضی اللہ عنہما کے ساتھ تراویح پڑھنے کے لئے جمع کردیا ، تو یہ دونوں ایک رکعت میں سوآیات پڑھاتے تھے پھرجب ہم نماز سے فارغ ہوتے تھے تو ہم کو لگتا کہ فجرہوچکی ہے ، سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
اس روایت کے راوی اسماعیل بن امیہ نے جب محمدبن یوسف سے سناتو پوچھا: گیارہ رکعات یا اکیس رکعات ؟؟
محمدبن یوسف نے کہا: اس طرح کی بات یزیدبن خصیفہ نے سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔
اساعیل بن امیہ کہتے ہیں کہ: پھر میں یزیدبن خصیفہ سے اس بارے میں سوال کیا توانہوں نے کہا:مجھے لگتا ہے کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے اکیس کہا تھا۔
اس روایت میں غورکیجئے کہ محمدبن یوسف سے ان کے شاگرد اسماعیل بن امیہ نے جب گیارہ کی تعداد سنی تو مزید یاد دلا کرپوچھا کہ کیا گیارہ رکعات یا اکیس رکعات ؟؟؟
یہ یاد دلانے پر بھی محمدبن یوسف نے گیارہ ہی کی تعداد بیان کی اور اور کہا اکیس والی بات تو ابن خصیفہ بیان کرتے ہیں ، گویا کہ محمدبن یوسف کو پوری طرح اپنے حفظ وٍضبط پر مکمل اعتماد تھا اسی لئے انہوں اپنے شاگردکے دوبارہ پوچھنے پربھی گیارہ ہی کی تعداد بتلائی ۔
نیز محمدبن یوسف کو یہ بھی معلوم تھا کہ یزیدبن خصیفہ اکیس کی تعداد بتلاتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے گیارہ ہی کی تعداد آگے روایت کی اس سے معلوم ہوا کہ محمدبن یوسف نے پورے وثوق سے گیارہ کی تعداد بیان کی ہے ۔
اس کے برعکس یزیدبن خصیفہ کا حال یہ ہے کہ ان سے جب تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے تردد کا اظہار کیا اوریوں کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ سائب بن یزید نے اکیس کی تعداد بتلائی تھی ، نیز انہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ان کے دوسرے ساتھی کیا تعداد بیان کرتے ہیں لہٰذا ان کی بیان کردہ تعداد مشکوک ہے اور محمدبن یوسف کی بیان کردہ تعداد کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردوو ہے۔
اسماعیل بن امیہ نے اپنے استاذ محمدبن یوسف سےسوال کیوں کیا؟؟
یہاں پرایک بات غورطلب یہ ہے کہ اسماعیل بن امیہ کے استاذ محمدبن یوسف نے جب ان کے سامنے گیارہ کی تعداد بیان کی تو انہوں نے اپنے استاذ سے دوبارہ کیوں پوچھا کہ گیارہ رکعات یا اکیس رکعات۔
توعرض ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے ان کے انہیں استاذ یعنی محمدبن یوسف ہی کے حوالہ سے کچھ لوگ یہ بھی بیان کرتے پھرتے تھے کہ انہوں نے اکیس کی تعداد روایت کی ہے ، جیسا کہ مصنف عبدالرزاق میں ہے، چنانچہ:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نےکہا:
عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، وَغَيْرِهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، " أَنَّ عُمَرَ: جَمَعَ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَعَلَى تَمِيمٍ الدَّارِيِّ عَلَى إِحْدَى وَعِشْرِينَ رَكْعَةُ يَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ وَيَنْصَرِفُونَ عِنْدَ فُرُوعِ الْفَجْرِ "[مصنف عبد الرزاق: 4/ 260]۔
یعنی داؤد بن قیس وغیرہ نے محمدبن یوسف سے نقل کیا انہوں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا : عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے رمضان میں لوگوں ابی بن کعب اورتمیم داری رضی اللہ عنہما کے ساتھ اکیس رکعات تراویح پڑھنے کے لئے جمع کردیا ، یہ سوسو آیات پڑھتے تھے اوراورفجرکے قریب ہی نماز سے فارغ ہوتے تھے۔
اس روایت میں دیکھیں کہ اسماعیل بن امیہ کے استاذ محمدبن یوسف ہی کے حوالے سے دوسرے لوگوں نے اکیس کی تعداد نقل کی ہے ، یقینا یہ بات اسماعیل بن امیہ تک بھی پہونچی ہوگی اور انہوں نے یہ سن رکھا ہوگا کہ محمدبن یوسف نے اکیس کی تعداد بیان کی ہے لیکن جب انہوں نے اپنے استاذ محمدبن یوسف سے براہ راست یہ روایت سنی تو محمدبن یوسف نے اکیس کی تعداد نہیں بتلائی جیساکہ لوگوں نے ان کے حوالہ سے بیان کررکھاتھا بلکہ گیارہ کی تعداد بتلائی ، ظاہر ہے کہ ان کے شاگر کو حیرانی ہوگی کیونکہ انہوں نے اپنے اسی استاذ کے حوالہ سے اکیس کی تعداد سنی تھی ، لہٰذا انہوں نے فورا سوال اٹھا دیا کہ گیارہ رکعات یا اکیس رکعات ؟؟ اس پر ان کے استاذ نے بتلایا کہ گیارہ ہی رکعات ، اور اکیس والی تعداد تو دوسرے صاحب یزیدبن خصیفہ بیان کرتے ہیں۔
اس وضاحت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس روایت میں محمدبن یوسف کے حوالہ سے اکیس کی تعداد بیان کی گئی ہے وہ مردود ہے کیونکہ محمدبن یوسف نے اس سے برات ظاہر کردی ہے۔
تنبیہ بلیغ:
یاد رہے کہ فوائد أبي بكر للنیسابوری ابھی تک غیرمطبوع ہے لیکن کسی صاحب نے اس کی ٹائپنگ کرکے شاملہ فارمیٹ میں تیار کیا ہے اورشاملہ کی سائٹ پر موجود بھی ہے ، اس شاملہ والے نسخہ میں مذکور روایت میں تحریف کردی گئی ہے ، اور وہ عبارت جس سے یزید بن خصیفہ کے وہم کی دلیل تھی اسے بدل دیا گیا ہے:
چنانچہ مخطوطہ میں اصل عبارت یوں ہے :
فسألتُ يزيد بن خصيفة، فقال: حسبتُ أنّ السّائب قال: أحد وعشري [ ملاحظہ ہو آگے مخطوطہ کے متعلقہ صفحہ کا عکس].
ترجمہ: اسماعیل بن امیہ نے یزید بن خصیفہ سے تعداد رکعات سے متلق پوچھا تو یزید بن خصیفہ نے کہا؛ مجھے لگتا ہے کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے اکیس کہا تھا۔
چونکہ اس عبارت سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ یزیدبن خصیفہ کو بالضبط تعداد یاد نہ تھی اورتعداد کی بابت وہ تردد کے شکار تھے ، اس لئے کچھ لوگوں نے اس عبارت میں اس طرح تحریف کردی کہ یزیدبن خصیفہ کے اظہار تردد پر پردہ پڑ جائے چنانچہ شاملہ کے محولہ نسخہ میں ہے:
فسألت يزيد بن خصيفة، فقال: أحسنت إن السائب قال إحدى وعشرين[فوائد أبي بكر عبد الله بن محمد بن زياد النيسابوري - مخطوط ص: 14 ترقیم الشاملہ]۔
ترجمہ: اسماعیل بن امیہ نے یزید بن خصیفہ سے تعداد رکعات سے متلق پوچھا تو یزید بن خصیفہ نے کہا؛ تم ٹھیک کہہ رہے ہو سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے اکیس کہا تھا۔
غورفرمائیں کی مذکورہ تحریف سے عبارت کیا سے کیا بن گئی ، یعنی یزیدبن خصیفہ کے تردد کو یقین سے بدل دیا گیا ، اناللہ واناالیہ راجعون۔
اس شاملہ والے نسخہ کے ناسخ نے مخظوطہ کے مصدر کاحوالہ یوں دیا ہے:
مصدر المخطوط: مجاميع المدرسة العمرية، الموجودة في المكتبة الظاهريةرقم المجموع: 3755 عام [مجاميع 18]
ذیل میں ہم اسی مخطوطہ سے متعلقہ صفحہ کا عکس پیش کررہے ہیں قارئیں تسلی کے لئے ملاحظہ فرمالیں:
مخطوطہ میں صاف پڑھا جارہا ہے کہ
’’حسبت‘‘ سے قبل
’’أ‘‘ موجود نہیں ہے لہٰذا اسے
’’احسنت ‘‘ پڑھنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی مخطوطہ ہی سے یہ روایت نقل کی ہے اور
’’حسبت ‘‘ ہی نقل کیا ہے اور اس سے یزید بن خصیفہ کے تردد پر استدلال بھی کیا ہے دیکھئے [صلاۃ الترایح للالبانی: ص : 58]۔
دکتور كمال قالمی نے بھی اسے مخطوطہ ہی سے نقل کیا ہے اور
’’حسبت‘‘ ہی نقل کیا دیکھئے موصوف کا مضمون فصل الخطاب في بيان عدد ركعات صلاة التراويح في زمن عمر بن الخطاب۔
لہٰذا قارئیں سے گذارش ہے کہ شاملہ کے نسخہ سے دھوکہ نہ کھائیں۔
شذوذ کی دوسری وجہ
حفظ وضبط میں یزیدبن خصیفہ ، محمدبن یوسف سے کم تر ہیں اس کے دلائل ملاحظہ ہوں:
ابن خصیفہ کے ضعف حفظ کی پہلی دلیل:
محمدبن یوسف کے حفظ پرکسی نے بھی جرح نہیں کی ہے جبکہ یزید بن خصیفہ کو ثقہ کہنے کے ساتھ ساتھ ان کے حفظ پر درج ذیل ناقدین کی جرح ملتی ہے۔
پہلے ناقد:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) ، چنانچہ امام مزي رحمه الله نے کہا:
وَقَال أبو عُبَيد الآجري ، عَن أبي داود : قال أحمد : منكر الحديث[تهذيب الكمال للمزي: 32/ 173 ]۔
بعض اہل عم کا یہ کہنا ہے کہ امام احمدرحمہ اللہ نے یہاں منکر سے منفرد حدیث بیان کرنے والا مراد لیا ہے بے دلیل ہے۔
تنبیہ:
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دکتور بشار عواد نے امام احمد کے اس قول کو غیرثابت قراردیا ہے اورکہا:
هذا شيء لم يثبت عن أحمد ، فيما أرى والله أعلم ، فقد تقدم قول الأثرم عنه ، وفي العلل لابنه عَبد الله ، أنه قال : ما أعلم إِلاَّ خَيْرًا (٢ / ٣٥) وهو توثيق واضح.[تهذيب الكمال للمزي: 32/ 173]۔
عرض ہے کہ :
الف:
اگربشار صاحب نے اس قول کرغیرثابت کہا ہے تو دیگراہل علم نے ان پر رد بھی کیا ہے مثلا علامہ اسحاق الحوینی فرماتے ہیں:
ولعل هذا الاختلاف من يزيد بن خصيفة، فهو وإن كان ثقة إلّا أن أحمد قال في رواية: "منكر الحديث"، وقد خولف فيه كما يأتي, وزعم المعلق على "تهذيب الكمال" "٣٢/ ١٧٣" أن هذا لم يثبت عن أحمد، ولم يُبْدِ حجة سوى قوله: "فيما أرى"! وبأن أحمد قال: "لا أعلم إلا خيرًا"، وهذا القول لا يمنع أن يكون لأحمد فيه قول آخر, والله أعلم.[فضائل القرآن لابن كثير ص: 117 حاشیہ]۔
ب:
اس قول کو امام احمدبن حنبل سے امام ابوداؤد نے روایت کیا اور ان سے ابوعبیدنے پھر اسی کی کتاب سے امام مزی نے اس قول کو نقل کیا پھر اسے غیرثابت کہنا کیا معنی رکھتاہے۔
ج:
امام احمدرحمہ اللہ ہی کی طرح ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی یزید بن خصیفہ کے حفظ پر کلام کیا ہے لہٰذا امام احمدرحمہ اللہ مذکورہ جرح میں منفرد نہیں ، دریں صورت امام احمد رحمہ اللہ کی اس جرح کو غیرثابت کہنا غیرمعقول ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الاجماع کے مضمون نگارصاحب نے امام احمد کے اس قول پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
سؤالات ابوعبید الآجری میں یہ قول ہے ہی نہیں ، نہ مطبوعہ میں اور نہ ہی مخطوطہ میں (مجلہ الاجماع شمارہ 1 ص26)
عرض ہے کہ:
اولا:
مضمون نگار پر کہاں سے یہ وحی آئی ہے کہ مخطوطہ میں بھی یہ قول موجود نہیں ہے ، کیا مضمون نگار نے سؤالات الآجری کا مکمل مخطوطہ دیکھا ہے؟ یا ایسے ہی ہوائی قیاس آرائی فرمائی ہے ؟ گذارش ہے کہ کم ازکم الاجماع نامی مجلہ میں اس طرح کی قیاس آرائیوں کا مظاہرہ نہ کیا کریں ۔
قارئین کی اطلاع کے لئے ہم عرض کردیں کہ ہماری معلومات کی حدتک سؤالات الآجری کا کوئی بھی ایسا مخطوطہ اب تک منظر عام پر نہیں آیا ہے جو مکمل ہو ، لہٰذا یہ کہنا کہ مخطوطہ میں بھی یہ قول نہیں ہے رجما بالغیب کے سوا کچھ نہیں ۔
ثانیا:
یہ قول ہم نے امام مزی کی کتاب تہذیب الکمال سے نقل کیا ہے اور امام مزی نے اس کتاب میں یہ قول ابوعبیدالآجری کی کتاب سے نقل کیا ہے ، لہٰذا اس پر اعتراض کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔اگر سؤلات الآجری کا وہ حصہ مفقود ہے جس میں یہ قول تھا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ امام مزی نے اسی حصہ سے اس قول کو اپنی کتاب میں نقل کررکھا ہے ۔
رہا مضمون نگار کا یہ الزام کی ہم نے الجرح والتعدیل میں میں منقول ایک قول کو درست کیوں نہیں جانا؟ تو اس کی وضاحت اپنے مقام پر آرہی ہے۔
مضمن نگار نے آگے یہ بحث کی ہے کہ بعض ائمہ تفرد پر نکارت کا اطلاق کرتے ہیں ۔ہمیں اس بات سے بالکل انکار نہیں ، یقینا بعض ائمہ کبھی روایات کے لئے اور کبھی رواۃ کے لئے تفرد کے معنی میں یہ لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ائمہ جرح کے معنی میں اس لفظ کا استعمال نہیں کرتے ہیں اس لئے ایسے کسی بھی قول میں تفرد کا معنی خاص کرنے کے لئے دلائل یا قرائن درکار ہیں ۔
اورجہاں تک امام احمد رحمہ اللہ کی بات ہے تو ان کے تعلق سے یہ تو مسلم ہے کہ وہ راوی کی منفرد حدیث پر بھی منکر کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، لیکن یہ کہنا کہ جب وہ کسی راوی کے لئے منکر الحدیث کا لفظ استعمال کریں تو اس کا بھی یہی مطلب ہے ، یہ بات محل نظر ہے ۔
اس کی وجہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے عبد الرحمن بن أبي الموال کی استخارہ والی حدیث کو منکر کہا لیکن عبد الرحمن بن أبي الموال کو منکر نہیں کہا بلکہ ساتھ ہی انہیں لا بأس به کہا ہے [الكامل لابن عدي ت عادل وعلي: 5/ 499]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ راوی کی منفرد روایت پر تو منکر کا اطلاق کرتے ہیں لیکن راوی پر اس کا اطلاق نہیں کرتے ہیں ،اس لئے خاص امام احمد رحمہ اللہ جب کسی روایت کے بجائے کسی راوی کو منکر الحدیث کہیں تو اسے تفرد کے معنی میں لینے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔الا یہ کہ کوئی صریح دلیل اس کی بھی مل جائے ۔
معلوم ہوا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے منکر الحدیث بول کر اس راوی پر جرح ہی کی ہے لیکن چونکہ امام احمد رحمہ اللہ نے اس کی توثیق بھی کی ہے لہٰذا دونوں اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے یہی کہا جائے گا کہ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ راوی ثقہ ہے لیکن حفظ وضط میں کمزور ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے ناقد:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) ، چنانچہ موصوف نے کہا:
يزيد بن عبد الله بن خصيفة من جلة أهل المدينة وكان يهم كثيرا إذا حدث من حفظه [مشاهير علماء الأمصار لابن حبان: ص: 135]۔
۔۔۔۔۔۔۔
یہاں امام ابن حبان رحمہ اللہ کی جرح کو تشدد کا حوالہ دیکر رد کرنے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ اس کی ثقاہت کے منکر نہیں ہیں ، بلکہ اسے اپنی کتاب ثقات میں ذکرکیا ہے، اوریہاں وہ وہ اس کے حافظہ پر مفسر جرح کررہے ہیں ، لہٰذا یہ خاص اور مفسر جرح قابل قبول ہے ، بالخصوص جبکہ امام احمد رحمہ اللہ کی مذکورہ جرح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرے ناقد:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) ، چنانچہ موصوف نے اس روای کو ضعفاء کی کتاب میزان میں نقل کرتے ہوئے کہا:
يزيد بن عبدالله بن خصيفة ، وقد ينسب إلى جده فيقال: يزيد بن خصيفة. عن السائب بن يزيد، وعروة، ويزيد بن عبدالله بن قسيط. وعنه مالك، وطائفة. وثقه أحمد من رواية الاثرم عنه، وأبو حاتم، وابن معين، والنسائي. وروى أبو داود أن أحمد قال: منكر الحديث.[ميزان الاعتدال للذهبي: 4/ 430]۔
یاد رہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام احمدکے قول پر کوئی تعاقب نہیں کیا ہے ، اس سے معلوم ہواکہ امام ذہبی رحمہ اللہ بھی اسے ثقہ ماننے کے ساتھ اس کے حافظہ پرکلام کو تسلیم کرتے ہیں۔
ابن خصیفہ کے ضعف حفظ کی دوسری دلیل:
محمدبن یوسف کی کئی ایک محدث نے اعلی توثیق کی ہے: ملاحظہ ہو:
٭(١) : امام يحيى بن سعيد رحمه الله (المتوفى 198) نے آپ کو ثبت قراردیاہے۔
كان يحيى بن سعيد يثبته [تهذيب التهذيب لابن حجر: 31/ 35]۔
٭(٢)امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234) نے بھی اسے برضاء ورغب نقل کیاہے۔
امام ابن أبی خیثمة رحمہ اللہ نے کہا:
رَأَيْتُ في كتاب علي بن الْمَدِيْنِيّ : سمعت يَحْيَى يقول : مُحَمَّد بن يُوسُف أثبت من عَبْد الرَّحْمَن بن حُمَيْد ، وعَبْد الرَّحْمَن بن عَمَّار. قال : قلت : أيما أثبت عَبْد الرَّحْمَن بن حُمَيْد أو عَبْد الرَّحْمَن بن عَمَّار ؟ فقال : ما أقربهما.
وسألته عن عمر بن نبيه ؟ قال : لم يكن به بأس. قال : وكان مُحَمَّد بن يُوسُف أعرج ، وكان ثبتًا وكان يقول : سمعت السائب بن يزيد وهو جدي من قِبَلِ أُمِّي. [تاريخ ابن أبي خيثمة 4/ 282]۔
٭ (٣) امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے اسے برضاء ورغبت نقل کیا ہے۔
كَانَ يحيى يُثَبِّتُهُ [التاريخ الكبير للبخاري: 2/ 42]۔
٭(٤) حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ناقدین کے اقوال کاخلاصہ بیان کرتے ہوئے یزید بن خصیفہ کو صرف ثقہ کہا ہے (تقریب: رقم 7738) جبکہ محمدبن یوسف کو ثقہ ثبت کہا ہے (تقریب: رقم6414)۔
ایک عجیب غلط فہمی :
بعض لوگوں نے دھاندلی میں یہ دعوی کرلیا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو محمدبن یوسف کو ثقہ کے ساتھ ’’ثبت‘‘ قرار دیا ہے تو اس سلسلے میں انہوں نے ’’أحمد بن صالح المصری ‘‘ کے قول پر اعتماد ہے ، کیونکہ انہوں نے یہ قول تہذیب میں اسی راوی کے ترجمہ میں پیش کیا ہے ، لیکن اس قول کا تعلق محمدبن یوسف سے نہیں بلکہ اسی نام کے دوسرے راوی سے ہے اورحافظ موصوف کو وھم ہوا ہے ، لہٰذا جب یہ قول ہی ثابت نہیں تو حافظ ابن حجر کے ’’ثبت‘‘ کہنے کی بنیاد بھی گئی ۔
عرض ہے کہ گرچہ محمدبن یوسف سے متعلق ’’أحمد بن صالح المصری ‘‘ قول ثابت نہیں لیکن جرح وتعدیل کے مشہور امام یحیی بن سعد رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف کو ’’ثبت‘‘ قرار دیا ہے اور اسے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بخاری کے حوالہ سے نقل کیا ہے چنانچہ حافظ ابن حجرلکھتے ہیں:
قال البخاري: كان يحيى بن سعيد يثبته [تهذيب التهذيب لابن حجر: 31/ 35]۔
امام بخاری کی رویات ان کی کتاب تاریخ میں یوں موجود ہے:
كَانَ يحيى يُثَبِّتُهُ [التاريخ الكبير للبخاري: 2/ 42]۔
اس کے ساتھ ساتھ حافظ حجررحمہ اللہ نے امام یحیی بن سعید رحمہ اللہ سے یہ بھی نقل کیا:
قال بن معين قال لي يحيى لم أر شيخا يشبهه في الثقة[تهذيب التهذيب لابن حجر: 31/ 35]۔
یہ اقوال تھذیب الکمال میں بھی منقول ہیں لہٰذا حافظ ابن حجر کی بنیاد یہی اقوال ہیں جن کے بیان میں انہیں کوئی وہم نہیں ہوا ہے ، لہٰذا حافظ موصوف کا محمدبن یوسف کو ثقہ کے ساتھ ثبت قرر دینا بالکل مبنی برصواب ہے۔
الغرض یہ کہ محمدبن یوسف کو دو عظیم محدث نے ثقہ وثبت کہا ہے :
ایک جرح وتعدیل کے امام یحیی بن سعید القطان اوردوسرے خاتمۃ الحفاظ حافظ ابن حجررحمھما اللہ ، جبکہ یزیدبن خصیفہ کے بارے میں صرف اور صرف ایک محدث ابن سعد ہی سے اعلی توثیق منقول ہے ، چنانچہ :
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
وَكَانَ عَابِدًا نَاسِكًا ثِقَةً كَثِيرَ الْحَدِيثِ ثَبَتًا.[الطبقات الكبرى لابن سعد: 9/ 274]۔
لہٰذا یحیی بن سعید جیسے جرح وتعدیل کے امام اور حافظ ابن حجرجیسے ماہر رجال کے بالمقابل ابن سعد کی اعلی توثیق کی کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔
ابن خصیفہ کے ضعف حفظ کی تیسری دلیل :
محمدبن یوسف نے کسی بھی رویات میں اپنے حافظہ پرتردد کا اظہار نہیں کیا ہے جبکہ یزید بن خصیفہ نے اپنے حافظ پر تردد کا اظہار کیا ہے ، جیساکہ فوائد ابی بکرالنیسابوری کے حوالہ سے وضاحت گذرچکی ہے۔
یزیدبن خصیفہ کے ضعف حفظ سے متعلق بعض شبہات کا ازالہ:
بعض لوگ یہ بے بنیاد دعوی کرتے پھرتے ہیں کہ یزیدبن خصیفہ ، محمدبن یوسف کے بالمقابل زیادہ ثقہ ہے ، ان حضرات کے شبہات کا ازالہ پیش خدمت ہے:
پہلا شبہ:
امام اثرم نے احمدبن حنبل سے یزیدبن خصیفہ کے بارے میں نقل کیا :
ثقة ثقة [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 9/ 274]۔
عرض ہے کہ یہ مکرر توثیق امام احمد رحمہ اللہ سے ثابت نہیں اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
- (١) یہ مکررتوثیق صرف ایک مخطوطہ میں ہے دیگرمخطوطوں میں ایسا نہیں۔
- (٢) احمدبن حنبل کے کسی بھی دوسرے شاگرنے ان سے یہ بات نقل نہیں کی ہے۔
- (٣) امام احمدبن حنبل کے بیٹے نے بھی ایسا نہیں نقل کیا۔
- (٤) امام احمدسے ان کے بارے میں منکرالحدیث بھی منقول ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الاجماع کے مضمون نگار صاحب نے ان نکات کا کوئی جواب دینے کے بجائے الزاما یہ کہا ہے ،کہ ناچیز نے ایک مقام پر امام بخاری کے حوالے سے ایک جملہ کو درست قراردیا ہے ،جبکہ وہ جملہ ان کی کتاب التاريخ الأوسط کے اس نسخہ میں تھا جس سے امام ابن کثیر نے نقل کیا۔ اور التاريخ الأوسط کے دوسرے نسخہ میں یہ جملہ نہیں ہے (ماحصل از مجلہ الاجماع شمارہ 1 ص 26 ، 27)
عرض ہے کہ التاریخ الاوسط والی عبارت سے متعلق جو بات ہم نے کہی ہے وہ نقص وکمی سے متعلق ہے ، جبکہ یہاں معاملہ نقص وکمی کا نہیں بلکہ تصحیف ونکارت کا ہے ۔
امام بخاری کا جو کلام ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ، اس میں تصحیف کا کوئی امکان ہی نہیں، کیونکہ ناسخ اس طرح کی غلطی نہیں کرسکتا کہ پورا ایک نیا جملہ اپنی طرف سے اضافہ کردے ، مزید یہ کہ امام بخاری کا وہ کلام ان کے کسی بھی موجود دوسرے کلام سے نہ تو مختلف ہے ،اورنہ ہی ان کے کسی اور کلام کے معارض ہے ۔
جبکہ یہاں معاملہ یہ ہے کہ صرف ایک نسخہ میں لفظ ثقہ دوبار لکھ دیا گیا ،جبکہ دوسرے نسخوں میں ایسا نہیں ہے ، یہ صاف دلیل ہے کہ یہاں ناسخ کا قلم سبقت کرگیا ہے اور اس نے ایک ہی لفظ کو مکررلکھ دیا ہے۔ناسخین اور کاتبین سے اس طرح کی غلطیاں عام سی بات ہیں ، آج بھی لکھنے والے اس طرح کی غلطی کرتے رہتے ہیں ، اور پروف ریڈنگ والے ان کی اصلاح کرتے ہیں ۔
مزید یہ کہ یہی قول امام اثرم ہی کے حوالے سے امام مزی رحمہ اللہ نے بھی تہذیب الکمال میں نقل کیا ہے اور صرف ایک ہی بار لفظ ثقہ نقل کیا ہے ۔[تهذيب الكمال للمزي: 32/ 173]
اور امام مزی رحمہ اللہ براہ راست ابوبکر الاثرم کی کتاب سے نقل کرتے ہیں ، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابوبکر الاثرم نے یہ لفظ مکرر روایت ہی نہیں کیا بلکہ ان کے واسطے جب یہ لفظ الجرح والتعدیل میں درج ہوا تو اسی کے کسی ناسخ نے سہوا یہ لفظ مکرر لکھ دیا ۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ امام احمد رحمہ اللہ ہی سے اس کے معارض بات ثابت ہے چنانچہ پہلے گذرچکا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے ابن خصیفہ کو منکر الحدیث کہا ہے ، ظاہرہے کہ ایسے راوی کو امام احمد رحمہ اللہ اعلی درجے کا ثقہ کہہ ہی نہیں سکتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا شبہہ:
..............
بعض حضرات کہتے ہیں کہ ابن معین نے انہیں
’’ثقة حجة‘‘ کہا ہے ۔
عرض ہے کہ ابن معین سے یہ قول ثابت ہی نہیں یہ قول الکمال للقدسی (ج 9ص405) میں بے سند وبے حوالہ مذکور ہے اور وہی سے دیگر کتب والوں نے بھی نقل کیا مثلا (تهذيب الكمال للمزي: 32/ 173) وغیرہ ۔
ایک صاحب نے لکھا کہ ابن معین کا کوئی قول یزید بن خصیفہ کی تضعیف میں نہیں ہے تو پھر اہل حدیث مسلک کے اصول کی روشنی میں ہی کفایت اللہ صاحب کو یہ اعتراض کرنے کا حق ہی نہیں ہے(مجلہ الاجماع شمارہ 1 ص32)
یہ صاحب شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ابن معین رحمہ اللہ نے یزید بن خصیفہ کی توثیق ثابت ہے اور یہ بھی توثیق ہی ہے اس لئے اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے ۔
عرض ہے کہ ابن معین رحمہ اللہ سے جو توثیق ثابت ہے وہ محض لفظ ”ثقة“ سے ثابت ہے ، چنانچہ :
امام ابن بن طهمان البادي رحمه الله (المتوفى284) نے ابن معین سے نقل کیا
ثقة ، یہ ثقہ ہیں [سؤالات البادي عن ابن معين: ص: 97]
امام اسحاق بن منصور رحمه الله(المتوفى251) نے کہا:
ثقة ، یہ ثقہ ہیں [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 9/ 274 واسنادہ صحیح]
امام ابن معین کے یہ دو تلامذہ متفق اللسان ہو کر ابن خصیفہ کے بارے میں ابن معین سے صرف لفظ ”ثقة“ نقل کررہے ہیں ، لیکن ان دونوں کے برعکس أحمد بن سعد بن أبي مريم رحمه الله (المتوفى253) تنہا ہی ہیں جو الگ الفاظ میں”ثقة، حجة“ نقل کررہے ہیں ۔
ظاہر ہے جب ایک صیغہ صحیح سند سے ثابت ہے تو اس سے مختلف ایسا صیغہ کیسے قبول کرلیا جائے جس کی کوئی سند ہی نہ ہو۔
بلکہ اگر أحمد بن سعد بن أبي مريم کی یہ روایت صحیح سند سے ثابت بھی ہوتی توبھی مردود ہوتی ،کیونکہ ابن معین سے توثیق نقل کرتے ہوئے ان کی یہ عادت ہے کہ وہ ابن معین سے عموما ”ثقة، حجة“ ہی کے الفاظ میں توثیق نقل کرتے ہیں ، یعنی ”حجة“ کا لفظ امام ابن معین کا نہیں ہوتا ہے، بلکہ یہ خود روایت بالمعنی کرتے ہوئے اپنی طرف سے یہ لفظ بڑھا دیتے ہیں ۔
اس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ ابن معین رحمہ اللہ کبھی کبھی ثقہ کا لفظ بول کو محض دیانت داری مراد لیتے تھے ، جیساکہ علامہ معلمی رحمہ اللہ ابن معین رحمہ اللہ کے اقوال کا استقراء کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وهذا يشعر بأن ابن معين كان ربما يطلق كلمة ثقة لا يريد بها أكثر من أن الراوي لا يتعمد الكذب .
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابن معین رحمہ اللہ کبھی کبھی ثقہ بول کر صرف یہ مراد لیتے تھے کہ یہ راوی جھوٹ نہیں بولتا ہے [التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل 1/ 164]۔
یعنی ضبط کے لحاظ سے توثیق مراد نہیں ہوتی تھی ۔
امام ابن معین رحمہ اللہ کے اس طرزعمل سے بعض لوگ دھوکہ کھاسکتے ہیں اور دیانت والی توثیق کو ضبط والی توثیق بھی سمجھ سکتے ہیں یا اس کے برعکس ضبط والی توثیق کو صرف دیانت پر بھی محمول کرسکتے ہیں ، ابن معین رحمہ اللہ کے اقوال توثیق میں اس اشتباہ کو دور کرنے کے لئے ان کے شاگرد أحمد بن سعد بن أبي مريم نے یہ طریقہ اپنایا کہ ہر وہ توثیق جو محض دیانت داری بتلانے کے لئے نہیں ہوتی تھی ، بلکہ عام اصطلاحی توثیق ہوتی تھی، اسے نقل کرتے ہوئے لفظ ”ثقة“کے ساتھ اپنی طرف سے ”حجة“ کا بھی اضافہ فرماتے گئے ۔
اب رہا یہ سوال کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ أحمد بن سعد بن أبي مريم اپنی طرف سے ہی لفظ ”حجة“ کا اضافہ کرتے تھے ؟ تو اس کی دلیل یہ ہے کہ ابن معین کے کسی بھی شاگرد نے ابن معین رحمہ اللہ کی کوئی ایک توثیق بھی ”ثقة، حجة“ کے الفاظ میں نقل نہیں کی ہے ۔ہماری معلومات کی حدتک أحمد بن سعد بن أبي مريم کے علاوہ ابن معین رحمہ اللہ سے ان کے جن تلامذہ نے بکثرت سؤالات کئے ہیں یا ان کے اقوال نقل کئے ہیں وہ درج ذیل ہیں :
المفضل الغلابي رحمه الله (المتوفى246):
اسحاق بن منصور رحمه الله (المتوفى251)
امام ابن الجنيد رحمه الله(المتوفى260 تقريباً)
جعفر بن محمد الباهلي رحمه الله (المتوفى264):
عباس الدورى رحمه الله (المتوفى271)
هاشم بن مرثد رحمه الله (المتوفى278)
ابن طہمان البادي رحمه الله (المتوفى284)
عثمان الدارمي رحمه الله (المتوفى280):
أحمد بن محمد بن قاسم بن مُحْرِز(وفات نامعلوم)
المفضل الغلابي کے سؤالات تاریخ بغداد میں ہیں ، اسحاق بن منصور کے سوالات الجرح والتعدیل وغیرہ میں ہیں ، جعفر بن محمد الباهلي کے سؤالات المجروحین لابن حبان ، تاریخ دمشق لابن عساکر وغیرہ میں ہیں ، باقی سب کے سؤلات مطبوع ہیں ۔
کوئی شخص ابن معین کے ان تمام شاگردوں کے سارے سؤالات چھان مارے ، حتی کہ مذکورہ تلامذہ کے علاوہ بعض دیگرتلامذہ جنہوں ابن معین سے بکثرت تو نہیں مگر کچھ اقوال ضرور نقل کئے ہیں ، ان سب میں کسی ایک شاگرد کے یہاں بھی ابن معین سے ”ثقة، حجة“ کے الفاظ میں کوئی توثیق نہیں ملے گی۔
لیکن آپ أحمد بن سعد بن أبي مريم کے سؤالات دیکھیں تو ان کے یہاں ابن معین سے نقل کردہ توثیقات میں ننوانے فیصد توثیقات”ثقة، حجة“ کے الفاظ میں ہی پائیں گے ۔
آسانی کے لئے ”موسوعة أقوال يحيى بن معين في الجرح والتعديل“ ہی دیکھ لیں اس میں کم از کم بیس(20) راویوں سے متعلق أحمد بن سعد بن أبي مريم نے امام ابن معین سے ”ثقة، حجة“ کے الفاظ نقل کئے ہیں ، لیکن ان میں سے کسی بھی راوی سے متعلق ابن معین سے دنیا کے کسی بھی راوی نے یہ الفاظ نقل نہیں کئے ۔
یہ صورت حال دیکھ کر ایک معمولی طالب علم بھی پکار اٹھے گا کہ أحمد بن سعد بن أبي مريم کی نقل کردہ توثیقات میں ”حجة“ کا لفظ شاگرد کا اپنا لفظ ہے، نہ کہ ابن معین کا ۔اور اس کی توجیہ کی جاچکی ہے کہ اس لفظ کے اضافہ کا مقصد توثیق میں تاکید یا وزن پیدا کرنا نہیں ہے ، بلکہ محض لفظ ”ثقة“ کی تشریح کرنا مقصود ہے کہ یہ عام اصطلاحی معنی میں توثیق ہے ۔
واضح رہے کہ ابن خصیفہ سے متعلق ابن معین سے أحمد بن سعد بن أبي مريم کی نقل کردہ توثیق ثابت بھی نہیں ہے ، جن صاحب کی تردید میں ہم یہ تفصیل لکھ رہے ہیں انہوں نے بہت توانائی صرف کی لیکن اس قول کی کوئی صحیح سند تو درکنار سرے سے سند ہی تلاش نہیں کرسکے ، اور اپنی اس بے بسی پر پر دہ ڈالنے کے لئے یہ مضحکہ خیزی کی کہ تہذیب الکمال کے مخطوطہ کا عکس پیش کیا ،اور فرمایا کہ یہ توثیق مخطوطہ میں بھی موجود ہے (مجلہ الاجماع شمارہ 1 ص 24)
سبحان اللہ ! سمجھ میں نہیں آتا کہ اس شاہکار تحقیق پر ہم اپنا سر پیٹیں یا کسی دیوار سے ٹکرا جائیں کیونکہ ہم نے تو تہذیب الکمال میں اس توثیق کے وجود کا انکار ہی نہیں کیا ، پھر مخطوطہ بینی چہ معنی دارد ؟
ان مضحکہ خیزیوں کے بعد طرۃ دیکھیں فرماتے ہیں:
معلوم ہوا اس قول کی کوئی نہ کوئی سند موجود ہے (مجلہ الاجماع شمارہ 1 ص 24)
مؤدبانہ گذارش ہے کہ جب ”کوئی نہ کوئی“ کاقیاسی گھوڑا ہی دوڑانا ہے، تو اپنے ادارہ کا نام ”اجماع فاؤنڈیشن “کے بجائے ”قیاس فاؤنڈیشن“ رکھ لیں !
امام ابن معین کا ایک اور غیر ثابت وغیر متعلق قول:
ابن معین سے ایک اور قول منقول ہے چنانچہ:
ابن محرز نے کہا:
سَمِعتُ يَحيَى، وقيل له: أيما أَحبُّ إليكَ، يَزيد بن عَبد الله بن خُصَيفَة، أَو مُحَمّد بن عَمرو بن عَلقَمَة؟ فقال: يَزيد، ويَزيد أعلاهما.[معرفة الرجال لابن معين روایۃ ابن محرز: 1/ 116]۔
اول یہ اعلی درجہ کی توثیق نہیں ہے ، دوم یہ قول ثابت نہیں کیونکہ ابن محرز نا معلوم التوثیق ہے۔
ہم نے یہ قول خود اپنی کتاب میں ذکر کیا تھا ، اور اس کی تردید کی تھی لیکن اجماع کے مضمون نگار نے اسی کو بطور تائید پیش کردیا ۔حالانکہ ہم بتاچکے تھے کہ یہ قول نہ تو ثابت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی اعلی درجہ کی توثیق ہے ۔ لیکن مجلہ اجماع کے مضمون نگار ابن معین سے منقول یہی قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
یہ صاف بتلارہا ہے کہ یزید بن خصیفہ ثقہ ہی نہیں بلکہ حجت اور مضبوط ہیں، کیونکہ محمدبن عمرو بن علقمہ (المتوفی 145) صحیحین کے راوی ہیں اور خود امام الجرح والتعدیل یحیی بن معین فرماتے ہیں کہ آپ ثقہ ہیں (مجلہ الاجماع ، شمارہ 1 ص 24)
عرض ہے کہ موصوف کی بات میں کسی حد تک وزن تب ہوتا جب محمد بن عمرو بن علقمة مطلقا ثقہ ہوتے اوران پرکوئی جرح نہیں ہوتی لیکن ائمہ فن کے اقوال دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی ائمہ نے ان پر جرح کی ہے اس لئے اسی لئے حافظ بن حجر رحمہ اللہ نے ان سے متعلق ائمہ کے اقوال کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا:
صدوق له أوهام ، یہ صدوق ہیں ان سے اوہام صادر ہوتے تھے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم6188]
اور فتح الباری میں کے مقدمہ میں کہتے ہیں :
صدوق تكلم فيه بعضهم من قبل حفظه، یہ صدوق ہیں بعض نے حافظ کے لحاظ سے ان پر جرح کی ہے [مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 441]
اورجہاں تک یہ بات ہے کہ یہ صحیحین کے راوی ہیں تو صحیحین میں ان کی روایت کس حیثیت سے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأخرج له الشيخان أما البخاري فمقرونا بغيره وتعليقا وأما مسلم فمتابعة
شیخین (بخاری ومسلم) نے ان کی حدیث روایت کی ہے ، جہاں تک امام بخاری کی بات ہے کو انہیں دوسرے کے ساتھ ملا کر روایت کیا ہے یا تعلیقات میں ان کی حدیث روایت کی ہے ، اور رہے امام مسلم تو انہوں نے متابعات میں ان کی حدیث روایت کی ہے [مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 441]
معلوم ہوا کہ صحیحین میں اس راوی سے کوئی بھی ایسی حدیث نہیں ہے جس کا دارو مدار صرف اسی پر ہو ، نیز ائمہ فن نے اس کے حافظہ پر جرح کی ہے اس لئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب اور مقدمہ فتح الباری دونوں کتابوں میں اسے صرف صدوق ہی کہا ہے ، اور ساتھ ہی اس کے حفظ کی کمزوری بیان کی ہے ۔
جہاں تک امام ابن معین رحمہ اللہ کی بات ہے تو انہیں بھی متعدد موقع سے اس راوی پر جرح کی ہے چنانچہ :
عباس الدورى رحمه الله (المتوفى271) نے ابن معین سے نقل کیا :
لم يكونوا يكتبون حديث محمد بن عمرو حتى اشتهاها أصحاب الإسناد فكتبوها
محدثین محمدبن عمرو کی حدیث لکھتے ہی نہیں تھے ، یہاں تک کہ اسناد سے شوق رکھنے والوں نے اس کی طرف مائل ہوئے تو لوگوں نے محدثین نے لکھنا شروع کیا [تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 225]
امام ابن أبي خيثمة رحمه الله (المتوفى279) نے کہا:
سئل يحيى بن معين عن محمد بن عمرو؟ فقال: ما زال الناس يتقون حديثه، قيل له: وما علة ذلك؟ قال: كان محمد بن عمرو يحدث مرة عن أبي سلمة بالشيء من رأيه, ثم يحدث به مرة أخرى عن أبي سلمة , عن أبي هريرة
امام ابن معین سے محمدبن عمرو کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: محدثین اس کی حدیث سےاجتناب کرتے تھے ، کہا گیا اس کی وجہ کیا ہے ؟ تو ابن معین رحمہ اللہ نے جواب دیا: محمدبن عمرو ابوسلمہ سے کبھی ان کے رائے نقل کرتے اور پھر دوسری دفعہ اسی رائے کو ابو سلمہ کے واسطے ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے لگتے [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 8/ 30]
معلوم ہوا کہ دیگر محدثین کے علاوہ خود ابن معین رحمہ اللہ نے بھی محمدبن عمرو پر کے حافظے پر جرح کررکھی ہے ، لہٰذا ایسے کمزور حافظہ والے کے مقابل میں ابن معین یزید بن خصیفہ کو بہتر بتائیں تو یہ نہ فی نفسہ اعلی درجہ کے توثیق نہیں ہے نہ کسی مطلق ثقہ کے مقابلے میں اعلی توثیق ہے بلکہ ایک کمزور حفظ والے راوی کے مقابلے میں ان کا رتبہ بڑا بتلانا مقصود ہے اور اس سے کس کو انکار ہے ؟
تنکے کا سہارا :
ایک روایت کے مطابق ابن معین رحمہ اللہ نے محمدبن عمرو کو محمدبن اسحاق کو زیادہ پسندیدہ قراردیا تو اس کا حوالہ دینے کے بعد الاجماع کے مضمون نے یہ کہا کہ ابن معین نے محمدبن اسحاق کو ثبت فی الحدیث کہا ہے ، پھر اس سے یہ نتیجہ نکالا جب ابن معین کے یہاں ابن اسحاق ثبت فی الحدیث ہیں ، اور ابن معین ہی نے محمدبن عمر و کو ان سے زیادہ پسندیدہ بتلایا ہے ، پھر ابن خصیفہ کو محمدبن عمرو پر بھی فوقت دی ہے تو اس سے بھی پتہ چلا کہ ابن خصیفہ بھی ابن معین کے یہاں حجت اور مضبوط ہیں (ماحصل از الاجماع شمارہ 1 ص 25)
عرض ہے کہ ابن معین نے ابن اسحاق کے بارے میں صرف ثبت ہی نہیں کہا ہے بلکہ انہوں نے ابن اسحاق پر متعدد دفعہ جرح بھی کی ہے بلکہ بعض اقوال میں اسے ضعیف کہا ہے ۔اور خود احناف بھی ابن معین کی طرف سے ابن اسحاق کی تضعیف کو اس وقت مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں جب ابن اسحاق فاتحہ خلاف الامام والی روایت بیان کرتے ہیں ، بلکہ امام مالک کے حوالے سے ابن اسحاق کو دجال تک کہہ جاتے ہیں ۔
اور یہاں معصومیت دیکھیں کہ ابن اسحاق کو صرف ثقہ ہی نہیں بلکہ ثبت فی الحدیث بھی ماننے کے لئے مجبور ہیں، سبحان اللہ !
جوابا عرض ہے کہ جس موانہ پر مضمون نگار نے اپنے استدلال کی پوری بنیاد رکھی ہے اس کی نوعیت مضمون نگار کے نزدیک ثقہ راوی ابن محرنے یوں نقل کیا ہے:
محمد بن عمرو أحب إلي منه، وأهل المدينة لا يرون أن يحدثوا عن ابن إسحاق، وذلك أنه كان قدريا
محمدبن عمرو میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے ، اور اہل مدینہ ابن اسحاق سے روایت بیان کرنا پسند نہیں کرتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قدری تھے [معرفة الرجال، رواية ابن محرز ت الأزهري: ص: 173]
ملاحظہ فرمائیں کہ یہاں موازنہ حفظ و دضبط کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ قدری ہونے کے لحاظ سے ، لہٰذا محمدبن عمرو پر قدری ہونے کا الزام نہیں ہے تو یہ چیز ان کے حفظ و ضبط میں کوئی اضافہ نہیں کرتی ۔
تاہم اس سے ہم نظر انداز بھی کردیں اور یہ تسلیم کرلیں کہ حفظ کے لحاظ سے یہ موازنہ تھا تو عرض ہے کہ:
ابن معین رحمہ اللہ نے خود محمدبن عمرو کے بارے میں جو جروح کررکھی ہیں انہیں ماقبل میں پیش کیا جاچکا ہے ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے ابن اسحاق سے انہیں زیادہ پسندیدہ قرار دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن معین نے ابن اسحاق پر محمدبن عمرو سے بھی زیادہ جرح کررکھی ہے ، حتی کہ بعض اقوال میں انہیں ضعیف تک کہا ہے ۔ ملاحظہ ہو:
أبو الحسن الميموني رحمه الله (المتوفى274) ابن معین سے نقل کیا :
محمد بن إسحاق ضعيف، محمدبن اسحاق ضعیف ہے [العلل للأحمد رواية الميموني، ت الأزهري: ص: 175]
امام ابن أبي خيثمة رحمه الله (المتوفى279) نے ابن معین سے نقل کیا :
ليس بذاك ، ضَعِيْف، یہ لیس بذاک اور ضعیف ہے[تاريخ ابن أبي خيثمة 4/ 324]
اب توثیق کے اقوال دیکھیں :
عباس الدورى رحمه الله (المتوفى271) نے ابن معین سے نقل کیا :
محمد بن إسحاق صدوق ولكنه ليس بحجة، محمدبن اسحاق صدوق ہیں لیکن حجت نہیں ہیں [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 7/ 192]
یہ بھی نقل کیا:
ليس هو بقوي في الحديث، یہ حدیث میں قوی نہیں ہیں [تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 247]
امام أبو زرعة الدمشقي رحمه الله (المتوفى:281) کہتے ہیں کہ میں نے ابن معین سے ابن اسحاق کے حجت ہونے کے بارے میں سوال کیا تو ابن معین نے جواب دیا:
كان ثقة، إِنما الحجة عُبيد الله بن عمر۔۔۔۔ ، یہ ثقہ تھے ، لیکن حجت عبیداللہ بن عمر اورفلاں فلاں ہیں [تاريخ أبي زرعة الدمشقي، ط مجمع: 1/ 460]
توثیق کے یہ اقوال دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ابن معین رحمہ اللہ ابن اسحاق کو اعلی درجہ کا ثقہ نہیں مان رہے ، بالخصوص جبکہ دوسری طرف انہوں نے اس کی تضعیف بھی کی ہے ، سارے اقوال کو دیکھنے کے بعد یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ابن معین رحمہ اللہ کی نظر میں ابن اسحاق نہ تو ایسے ضعیف ہیں کہ ان کی روایت بالکل ہی رد کردی جائے نہ ایسے ثقہ ہیں کہ ان کی روایت کو اعلی درجہ پر فائز کردیا جائے بالفاظ دیگر یہ کہہ لیں کہ ابن معین کی نظر میں یہ حسن الحدیث ہیں ۔
اب رہی بات یہ کہ المفضل الغلابي رحمه الله نے ان کے بارے میں ”ثبت في الحديث“کے الفاظ نقل کئے ہیں ، توعرض ہے کہ ان کے کلام میں یہ الفاظ حسن الحدیث ہی کے معنی میں ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ خود انہوں نے ہے دوسرے موقع سے یہی الفاظ نقل کئے ہیں چنانچہ:
المفضل الغلابي رحمه الله (المتوفى246) ہی ابن اسحاق کے بارے میں دوسری جگہ ابن معین سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
كان ثقة، وكان حسن الحديث
ابن اسحاق ثقہ اور حسن الحدیث تھے [تاريخ مدينة السلام للخطيب البغدادي: 2/ 11]
ملاحظہ فرمائیں امام الغلابی ہی کی دوسری روایت سے سارے بادل چھٹ گئے اور یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ ان کی روایت میں ”ثبت في الحديث“ حسن الحدیث ہی کے معنی ہیں ۔
اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ ابن معین رحمہ اللہ کی نظر میں ابن اسحاق اوسط درجے کے ثقہ یعنی حسن الحدیث ہیں ، لہٰذا ان کے مقابلے میں اگر ابن معین نے محمدبن عمرو کو زیادہ پسندیدہ کہا ہے تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ محمدبن عمرو ، یہ ابن اسحاق کے مقابلے میں فوقیت رکھتے ہیں ، اور اس فوقیت کا مفہوم اسی دائرے میں ہے جو خود محمدبن عمرو سے متعلق ابن معین کے دیگر اقوال سے طے ہوتا ہے جس کی وضاحت ماقبل میں ہوچکی ہے ،یعنی یہ بھی صدوق و حسن الحدیث ہی کے مقام پر ہیں لیکن ابن اسحاق کی بنسبت ان کی حالت قدرے بہترہے۔
اور پھر محمدبن عمرو کے مقابلے میں یزیدبن خصیفہ کو اعلی بتلانے کا مقصود یہ ہے کہ یزید بن خصیفہ کو صدوق و حسن الحدیث کے درجے سے اوپر ثقہ کے درجہ پر فائز ہیں لیکن اعلی درجے کے ثقہ ہر گز نہیں ہیں ۔
یہ پورا جواب یہ فرض کرلینے کی صورت میں ہے کہ ابن معین سے محمدبن عمرو اور ابن خصیفہ کے مابین مذکورہ موازنہ ثابت ہو لیکن ہم عرض کرچکے ہیں ابن محرز کے سبب سرے سے یہ موازنہ ہی ثابت نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرا شبہہ:
ابن سعد نے یزید بن خصیفہ کو تابعین میں ذکرکیا ہے لیکن محمدبن یوسف کو ذکر نہیں کیا۔
عرض ہے کہ اول تو طبقات کے کئی صفحات مفقود ہیں اس لئے محمدبن یوسف کے عدم ذکر کا دعوی محل نظر ہے ، دوم عدم ذکر سے یہ کہاں لازم آیا کہ ابن سعد کی نظر میں وہ کم حفظ والے تھا ، ایسا اسی صورت میں کہا جاسکتا ہے کہ جب ابن سعد نے ان کا بھی تذکرہ کیا ہوتا اوردونوں کے تعارف میں تفریق کی ہوتی ، لیکن ایسا نہیں ہے لہٰذا دعوی ثابت نہیں ہوا۔
نیز الزاما ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ جرح و تعدیل کے ماہر امام یحیی بن سعد رحمہ اللہ نے یزیدبن خصیفہ کو اپنی کسی مجلس میں تو نہ ثقہ کہا اور نہ ہی ان کا تذکرہ کیا ، جبکہ اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والے محمدبن یوسف کو اعلی درجہ کا ثقہ قرار دیا بلکہ ایک روایت کے مطابق یہاں تک کہا:
لم أر شيخا يشبهه في الثقة[تهذيب الكمال للمزي: 27/ 50 ، تهذيب التهذيب لابن حجر: 31/ 35]۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ محمدبن یوسف جرح و تعدیل کے امام یحی بن سعد کی نظر میں یزیدبن خصیفہ کے زیادہ ثقہ تھے ، یادرہے کہ ابن سعد کے بالمقابل امام یحیی بن سعید رجال کی بابت زیادہ ماہر ہیں۔
چوتھا شبہہ:
امام ذہبی رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف کے بارے میں کہا:
صدوق مقل[الكاشف للذهبي: 2/ 232]۔
عرض ہے کہ:
(١) :
امام ذھبی رحمہ اللہ نے
صدوق کے ساتھ
مقل بھی کہا ہے جس سے اشارہ ملتاہے کہ موصوف نے
مقل کے اعتبار سے انہیں
صدوق کہہ دیا ہے ، یعنی امام ذہبی رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ ان کی مرویات کی تعداد کم ہے ، اسی طرح جن کی مروایات زیادہ ہوں انہیں امام ذہبی رحمہ اللہ حافظ سے تعبیرکرتے ہیں اس پر ان کی کتاب تذکرۃ الحفاظ شاہد ہے ۔
نیز امام ذہبی رحمہ اللہ نے تو قلت روایت کی وجہ سے صرف صدوق کہا ہے لیکن امام ابن معین کا طرزعمل تو یہ تھا کہ وہ قلیل الحدیث رواۃ کو
لیس بشی کہا دیا کرتے تھے ، چاہے وہ ثقہ وثبت ہی کیوں نہ ہو ، اور
لیس بشی سے مراد متعلقہ راوی کے حفظ کی کمزوری نہیں بلکہ اس کی مرویات کی قلت ہوتی تھی[التعريف برجال المؤطا:٣/٨١٢،فتح المغيث:٢/١٢٣،التنکيل بمافي تانيب لکوثري من الاباطيل:ص٥٤]۔
لہٰذا اگرقلیل الحدیث کی وجہ سے کسی کو
لیس بشی کہنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تو پھر قلیل الحدیث کے سبب کسی کو
صدوق کہنے سے کیا فرق پڑسکتاہے۔
لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کے اس صیغہ سے حافظہ کی کمزوری قطعا مراد نہیں ، اور اس بات کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ اگرامام ذہبی رحمہ اللہ کی نظر میں اس کا حافظہ کمزور ہوتا تو موصوف اس کا تذکرہ میزان الاعتدال میں ضرور کرتے ہیں، کیونکہ اس کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے تو ان لوگوں کا بھی تذکرہ کیا جو ثقہ وثبت ہیں اور ان پر بلاوجہ کلام کیا گیا ہے ، ایسی صورت میں محمدبن یوسف کا تذکرہ تو میزان میں ضرور ہونا چاہئے کیونکہ یہ توخود امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک کمزورحافظہ والے تھے ۔
(٢) :
امام ذہبی نے اسی کتاب میں یزید بن خصیفہ کو ثقہ کہنے کے ساتھ ساتھ ان کے بارے میں امام احمدکی جرح ’’منکرالحدیث‘‘ بھی نقل کی ہے اورکوئی دفاع نہیں کیا ہے ، نیز اس کا تذکوہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے میزان میں بھی کیا ہے اوروہاں بھی کوئی دفاع نہیں کیا ہے ، جبکہ محمدبن یوسف سے متعلق امام ذھبی رحمہ اللہ نے کوئی جرح نہیں نقل نہیں کی اوراس کا تذکرہ بھی میزان میں نہیں کیا ہے ۔
قارئیں غور کریں کہ ایک راوی جسے امام ذھبی ضعفاء میں ذکرکریں اورکوئی دفاع نہ کریں ، ایسا روای حفظ واتقان میں اس راوی سے بڑھ کرکیسے ہوسکتا ہے جس کا تذکرہ امام ذہبی ضعفاء کی کسی بھی کتاب نہ کریں ، اور اس کے بارے میں کوئی جرح نقل نہ کریں۔
(٣) :
متقدمین محدثین نے متفقہ طور پر محمدبن یوسف کو ثقہ کہا بلکہ جرح وتعدیل کے امام یحیی بن سعید القطان نے انہیں ثبت قراردیا ہے ، لہٰذا متقدمین اورجرح وتعدیل کے امام یحیی بن سعد کے بالمقابل امام ذھبی کے فیصلہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچواں شبہ :
ایک صاحب نے لکھا:
حافظ المغرب امام ابوعمربن عبدالبر (المتوفی 463) فرماتے ہیں : وكان ثقة مأمونا (ابن خصیفہ ثقہ ومامون ہیں[التمهيد لابن عبد البر: 23/ 25]
عرض ہے کہ یہاں موازنہ حفظ و ضبط کے لحاظ سے ہے اس میں کون اعلی اور ادنی ہے ، اور مأمون کے لفظ سے دیانت وغیرہ کی گواہی دی جاتی ہے نہ کہ ضبط کی چنانچہ :
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حدثنا نصر بن علي الجهضمي حدثنا الأصمعي عن ابن أبي الزناد عن أبيه قال أدركت بالمدينة مائة كلهم مأمون ما يؤخذ عنهم الحديث يقال ليس من أهله[صحيح مسلم، مقدمہ: 1/ 12واسنادہ صحیح]۔
یعنی امام ابوالزناد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے مدینہ میں سیکڑوں لوگوں کو پایا جو ’’مأمون‘‘ تھے لیکن ان سے حدیث کی روایت نہیں کی جاتی تھی کیونکہ بقول اہل علم وہ اس کے قابل نہ تھے۔
اب اگر امام ابن عبدالبر نے ثقہ کے ساتھ انہیں مامؤن کہہ دیا تو یہ صرف دیانت کی بیان ہے بھلا اس سے حفظ وضبط میں کا پلڑا کیسے بھاری کیا جاسکتاہے ۔
رہا اردو میں لکھی گئی ایک معاصر کی کتاب کا حوالہ تو اول یہ نہ ہمارے کوئی دلیل ہے نہ آپ کے لئے ، دوسرے یہ کہ خود موصوف نے جس صفحہ کا اسکین پیش کیا ہے اس میں مؤلف یوں رقمطراز ہیں:
وہ الفاظ جو بغیر تاکید ثقاہت پردلالت کریں ، جیسے ثقہ مامؤن ، ثبت ، حجہ اور صاحب حدیث وغیرہ (مجلہ الاجماع شمارہ 1 ص 22)
یہاں مؤلف تاکید کے لحاظ سے صیغوں کی درجہ بندی کررہے ہیں اور ان صیغوں میں تاکید کی نفی کررکھی ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ مؤلف کی نظر میں ثقہ مامؤن سمیت ان میں سے کسی بھی صیغہ میں کوئی تاکیدی توثیق نہیں ہے ۔رہی بات ان غیر مؤکد صیغوں کی آپس میں اعلی و ادنی کے اعتبار سے درجہ بندی ، تومؤلف نے اس پر بات نہیں کی ہے ۔
غور کریں کہ مؤلف نے ثبت کے ساتھ صاحب حدیث کے صیغہ کا بھی ذکر کیا ہے ، اب کون عقلمند کہہ سکتاہے کہ یہ دونوں صیغے اپنے مدلول میں یکساں ہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شذوذ کی تیسری وجہ
یزید بن خصیفہ کی روایت اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت کے بھی خلاف ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ الیل کی تعداد گیارہ بتلائی گئی ہے ، یاد رہے کہ صلاۃ اللیل ہی کو رمضان میں تراویح کہا جاتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کسی راوی نے یزید بن خصیفہ کی متابعت کی ہے؟
الاجماع کے مضمون نگار لکھتے ہیں:
بیس رکعات تراویح کے سلسلے میں ابن خصیفہ منفرد ہی نہیں بلکہ ان کے چھ چھ متابعات بھی موجود ہیں (الاجماع شمارہ 1 ص 27)
عرض کہ چھ تو درکنار کوئی ایک ہی صحیح روایت پیش کردیں جس میں یزید بن خصیفہ کی جگہ کسی اور ثقہ راوی نے محمدبن سائب کی سند سے یہ بیس والی بات نقل کی ہو ۔
ہمارے علم کی حد تک صرف ایک راوی حارث بن عبدالرحمن کی متابعت ملتی ہے لیکن یہ سندا موضوع و من گھڑت ہے جیساکہ تفصیل گذرچکی ہے۔اس کے علاوہ کسی اور متابعت کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے صحیح ہونا تو بہت دور کی بات ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لطیفہ:
کچھ لوگ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے یزید رحمہ اللہ پرسب وشتم کرتے ہیں اوریہاں تک کہتے پھرتے ہیں کی یزید کے دور کے بعد اہل سنت نے اپنے لڑکوں کانام یزید رکھنا بندکردیا ۔
عرض ہے کہ اکیس رکعات کی تعدا ’’یزید‘‘ نامی روای ہی بیان کررہے ہیں جو یزیدبن معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورکے بعد کے تھے جبکہ گیارہ کی رکعات کی تعداد ”محمد‘‘ نامی راوی بیان کررہے ہیں۔
اگریزید کے مخالفین مذکورہ بات پریقین رکھتے ہیں تو پھر ان کے اصول کے مطابق یزید نامی روای کوئی اچھا راوی نہیں ہوگا اس لئے ان حضرات کو یزیدبن خصیفہ کے بجائے محمدبن یوسف کی روایت کو ترجیح دینی چاہئے ورنہ ایک طرف یزید نام سے بھی نفرت اوردوسری طرف محمدی سند کو نظر انداز کرکے یزیدی سند کو گلے لگالینا ، بہت حیرت انگیزہے۔
موطا میں ایک منقطع روایت کو بھی بیس رکعت والے پیش کرتے لیکن بدقسمتی سے اس میں بھی یزید نامی ایک راوی موجود ہے۔
تنبیہ:
کچھ لوگ محمدبن یوسف کی روایت کے بالمقابل ابن خصیفہ کی روایت کو اس لئے راجح قرار دیتے ہیں کہ ابن خصیفہ سے روایت کرنے والے شاگردوں نے رکعات کی تعداد میں اختلاف نہیں کیا ہے جبکہ محمدبن یوسف کے شاگردوں نے تعداد رکعات میں اختلاف کیا ہے لہٰذا محمدبن یوسف کی روایت مرجوح ہوگی:
عرض ہے کہ:
اول:
محمدبن یوسف کے پانچ شاگردوں نے متفقہ طور پر ایک ہی تعداد بیان کی ہے جن میں امام مالک ، یحیی بن سعید القطان جیسے جلیل القدر محدثین بھی ہیں لہٰذا ایک دو شاگردوں کے اختلاف کی کوئی حیثیت نہیں ۔
دوم:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمدبن یوسف کے شاگردوں میں بھی اختلاف ثابت نہیں ہے تفصیل آرہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک صاحب نے لکھا:
ہمارے علم کے مطابق عبدالرحمن مبارکپوری سے پہلے کسی ایک محدث نے بھی اس روایت کو ضعیف نہیں کہا ہے ، لیکن پھر بھی کفایت صاحب اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے پرتلے ہوئے ہیں (مجلہ الاجماع ، شمارہ 1 ص 16)
یہی صاحب ایک جگہ ناچیز سے مطالبہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ہمارا اہل حدیثوں سے عموما اور کفایت صاحب سےخصوصا سوال ہے کہ وہ کم سے کم امام نووی رحمہ اللہ سے پہلے کا کسی ایک محدث سے حوالہ پیش کریں جنہوں نے ابن خصیفہ کی 20 رکعات تراویح والی روایت کو ضعیف کہا ہو (مجلہ الاجماع ، شمارہ نمبر 1 ص 20)
عرض ہے کہ اس روایت پر سب سے کسی محدث کی طرف سے حکم لگا ہے تو وہ شذوذ ہی کا لگا ہے یعنی سب سے پہلے اس حدیث کی تضعیف ہی کی گئی ہے ۔اور یہ حکم اسی روایت کے راوی محمدبن یوسف نے لگا یا ہے چنانچہ ماقبل میں گذرچکا ہے کہ جب محمدبن یوسف کے شاگرد نے بیس رکعات کی تعداد کی بابت دریافت کیا تو محمدبن یوسف نے اس کا سختی سے انکار کیا اور اس کے لئے یزید بن خصیفہ کو ذمہ دار ٹہرایا جو صاف دلیل ہے محمدبن یوسف بیس کی تعداد روایت کرنے میں یزید بن خصیفہ کو خطا کا ٹہرا رہے ہیں ۔دیکھئے: اسی کتاب کا صفحہ
ہم نے محترم کے سوال کا جواب دے دیا ہے اب ہمارا سوال ہے :
امام نووی سے پہلے کس نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے حوالہ پیش کریں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔