تیسری روایت:
(٣) ترجمہ صحیح حدیث: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا خود بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا :’’ اوراہل عرب کے لئے اس شرکے سبب سے ہلاکت ہوگی جو ٦٠ والے سال سے شروع ہوگا۔اس وقت امانت کو مال غنیمت اورصدقہ اورزکوۃ کو تاوان سمجھا جائے گا اورخواہشات نفسانی کاحکم مانا جائے گا‘‘۔[المستدرک للحاکم: حدیث نمبر 8489 , 4/ 530]۔
سب سے پہلے یہ روایت مع سند ومتن ملاحظہ ہو:
امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ الصَّنْعَانِيُّ، بِمَكَّةَ حَرَسَهَا اللَّهُ تَعَالَى، ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَ مَعْمَرٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَرْوِيهِ، قَالَ: «وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ عَلَى رَأْسِ السِّتِّينَ تَصِيرُ الْأَمَانَةُ غَنِيمَةً، وَالصَّدَقَةُ غَرَامَةً، وَالشَّهَادَةُ بِالْمَعْرِفَةِ وَالْحُكْمُ بِالْهَوَى» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ بِهَذِهِ الزِّيَادَاتِ "[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 4/ 530]۔
یہ روایت درج ذیل تین علتوں کی بناپرضعیف ہے:
پہلی علت:
امام عبدالرزاق آخرعمر میں مختلط ہوگئے تھے، اس لئے آخری دور میں انہوں نے جو روایات بیان کی ہیں وہ منکر ہیں:
امام احمد رحمہ اللہ (المتوفی241) نے کہا:
لا يعبأ بحديث من سمع منه وقد ذهب بصره، كان يلقن أحاديث باطلة [سوالات ابن ھانی رقم 2285 ، موسوعة أقوال المام أحمد فی الجرح والتعدیل 4/ 322]۔
امام أبو زرعة الدمشقی رحمہ اللہ (المتوفی281)نے کہا:
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ قَالَ: أَتَيْنَا عَبْدَ الرَّزَّاقِ قَبْلَ الْمِائَتَيْنِ، وَهُوَ صَحِيحُ الْبَصَرِ وَمَنْ سَمِعَ مِنْهُ بعدما ذهب بصرهن فَهُوَ ضَعِيفُ السَّمَاعِ[تاریخ أبی زرعة الدمشقی:ص 457]۔
امام نسائی رحمہ اللہ (المتوفی303)نے کہا:
عبد الرَّزَّاق بن همام فِيهِ نظر لمن كتب عَنهُ بِأخرَة[الضعفاء والمتروکون للنسائی: ص 69]۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ (المتوفی365)نے کہا:
لا بأس به إلاَّ أنه قد سبق منه أحاديث فِي فضائل أهل البيت ومثالب آخرين مناكير[الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی: 6/ 545]۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی385)نے کہا:
يخطىء على معمر في أحاديث لم تكن في الكتاب [سؤالات ابن بکیر للدارقطنی: ص 2]۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی852)نے کہا:
ثقة حافظ مصنف شهير عمي في آخر عمره فتغير وكان يتشيع[تقریب التہذیب لابن حجر2/ 354]۔
معلوم کہ امام عبدالرزاق اخیر میں مختلف ہوگئے تھے لہٰذا ان سے جن لوگوں نے اختلاط کے بعد روایت کی ہے وہ حجت نہیں اور زیرتحقیق روایت کو ان اسحاق الدبری نے روایت کیا اورانہوں امام عبدالرزاق کے اختلاط کے بعد ان سے روایت کی ہے۔
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
استصغره عَبد الرَّزَّاق أحضره أبوه عنده، وَهو صغير جدا فكان يقول: قرأنا على عَبد الرَّزَّاق أي قرأ غيره، وحضر صغيرا وحدث عنه باحادیث منکرۃ .[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 560]۔
امام ابن الصلاح رحمه الله (المتوفى643)نے کہا:
قَدْ وَجَدْتُ فِيمَا رُوِيَ عَنِ الطَّبَرَانِيِّ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الدَّبَرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ أَحَادِيثَ اسْتَنْكَرْتُهَا جِدًّا، فَأَحَلْتُ أَمْرَهَا عَلَى ذَلِكَ، فَإِنَّ سَمَاعَ الدَّبَرِيِّ مِنْهُ مُتَأَخِّرٌ جِدًّا[مقدمة ابن الصلاح: ص: 396]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ما كان الرجل صاحب حديث، وإنما أسمعه أبوه واعتنى به، سمع من عبد الرزاق تصانيفه، وهو ابن سبع سنين أو نحوها، لكن روى عن عبد الرزاق أحاديث منكرة[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 181]۔
علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قلت : ورجاله ثقات ؛ لولا أن الصنعاني - وهو الدبري - سمع من عبد الرزاق في حالة الاختلاط كما قال ابن الصلاح [سلسلة الأحاديث الضعيفة : 9/ 327]۔
ایک اورمقام پرفرماتے ہیں:
أن الإسناد الذي ساقه لا تقوم به حجة ؛ لأنه من رواية الدبري عن عبد الرزاق ؛ فإن الدبري - مع أنه قد تكلم بعضهم فيه ؛ فإنه - ممن سمع من عبد الرزاق بعد اختلاطه ؛ قال ابن الصلاح : "وجدت فيما روى الطبراني عن الدبري عنه أحاديث استنكرتها جداً ، فأحلت أمرها على ذلك" [سلسلة الأحاديث الضعيفة :11/ 521]۔
دوسری علت:
عبدالرزاق سے نقل کرے والے
’’اسحاق بن ابراہیم الدبری ‘‘ یہ خود بھی متکلم فیہ ہیں۔
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
حدث عنه بحديث منكر[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 560]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ما كان الرجل صاحب حديث، وإنما أسمعه أبوه واعتنى به، سمع من عبد الرزاق تصانيفه، وهو ابن سبع سنين أو نحوها، لكن روى عن عبد الرزاق أحاديث منكرة[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 181]
علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فیہ کلام معروف [الضعیفة:ج ٧ ص١٠٤ رقم (٣١٠٣)أیضاً الضعیفةتحت الرقم(٥٧٨٢)]۔
حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
مصنف کا راوی الدبری ضعیف ومصحف ہے جیساکہ سمیع صاحب نے اپنے خط میں اشارۃ لکھاہے ، مزیدتفصیل کے لئے لسان المیزان(1/ 531 ,532 ت 1098) اورمقدمہ ابن الصلاح بحث المختلطین کا مطالعہ کریں۔[قیام رمضان: ص 47]۔
تیسری علت:
یہ روایت منکربھی ہے کیونکہ کی روایت دیگرصحیح طرق سے مروی ہے لیکن اس میں ساٹھ ہجری سے متعلق کوئی بات نہیں ہے بلکہ قرب قیامت کی علامات کاذکر ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ یہ روایت متعددعلتوں کی بناپرضعیف ہے اسی وہ تمام روایت ضعیف ہیں وغیرثابت شدہ ہیں جن میں یہ ملتاہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سن ساٹھ ہجری سے پناہ مانگی اوریزید رحمہ اللہ کے دورکی خاص برائیوں کو بیان کیا ۔
نوٹ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سن ٦٠ ہجری ےسے پہلے ہی وفات پاگئے جبکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ٦٠ ہجری میں وفات پائی اوریوں یزید حکمران بن گیا [تمام کتب اسماء الرجال]۔
اول تو یہ روایت ضعیف ہے جیساکہ گذشتہ سطور میں تفصیلات پیش کی گئیں ۔
دوم سن ٦٠ میں یزید کے حکمران بن جانے سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ سن ساٹھ کے فتنہ کا ذمہ دار یہی حکمراں ہے !!
بعض روایات میں علی رضی اللہ عنہ کے دور میں رونما ہونے والے فتنوں کی طرف بھی اشارہ ہے اوران اشاروں کے عین مطابق فتنے رونماہوئے چنانچہ علی رضی اللہ عنہ کے پورے دورمیں صرف مسلمان آپس میں ہی لڑتے رہے صحابہ کرام کی بہت بڑی تعداد شہید ہوئی ،تو کیا ان تمام فتنوں کی ذمہ داری علی رضی اللہ عنہ پر ہے کیونکہ ان دور میں یہی حکمراں تھے؟؟؟؟
صاف صاف بات یہ ہے کہ مذکورہ روایت کو صحیح بھی مان لین تب بھی اس سے یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ کی مذمت قطعا ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اس حدیث میں ایک خاص دور کے فتنوں سے متعلق پیشین گوئی ہے لیکن یہ فتنہ کن کی طرف سے ہوگا اس بارے میں یہ حدیث خاموش ہے اس لئے حدیث کے مصداق وہی لوگ ہوسکتے ہیں جن سے حدیث میں مذکور بداعمالیوں کے صدور ہوگا اوروہ سبائی کوفی اورعراقی لوگ ہی ہوسکتے ہیں ۔
جہاں تک یزید کی بات ہے تو ان سے حدیث میں مذکور بداعمالیوں کا صدور ہی نہیں ہوا تو وہ کیونکر اس حدیث کے مصداق ہوسکتے ہیں۔