اس روایت کی مکمل تحقیق ملاحظہ ہو:
یہ روایت
الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ
عنوان الكتاب: مسند أبي يعلى الموصلي (ط. المأمون)
المؤلف: أبو يعلى الموصلي
المحقق: حسين سليم أسد
عنوان الكتاب: حياة الأنبياء صلوات الله عليهم بعد وفاتهم (ت: الغامدي)
المؤلف: أحمد الحسين البيهقي أبو بكر
المحقق: أحمد بن عطية الغامدي
میں درج ذیل سند کے ساتھ موجود ہے۔
يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ , ثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ , عَنِ الْحَجَّاجِ , عَنْ ثَابِتٍ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ,
اس سند میں
حجاج راوی غیر منسوب ہے، اس کی ولدیت یا نسب معلوم اور حافظ ذہبیؒ نے فرمایا:
ما روى عنه فيما أعلم سوى مستلم بن سعيد، فأتى بخبر منكر، عنه
مجہول ہے میرے علم کے مطابق مسلم بن سعید کے علاوہ کسی نے اس سے روایت نہیں کی، پس وہ (مسلم) اس سے منکر خبر لایا ہے۔
عنوان الكتاب: ميزان الاعتدال فى نقد الرجال (ت: البجاوي)
المؤلف: محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي شمس الدين أبو عبد الله
المحقق: علي محمد البجاوي
اگر کوئی آدمی حافظ ابن حجرؒ کے حوالے سے کہے کہ حجاج سے مراد حجاج بن ابی زیاد الاسود البصری ہے تو عرض ہے کہ یہ تعین کئی وجہ سے غلط ہے۔
حافظ ذہبیؒ جو کہ بقول ابن حجرؒ
مِن أهل الاستقراء التَّام فِي نقد الرِّجَال تھے۔
شرح نخبة الفكر للقاري
وہ حجاج بن ابی زیاد الاسود القسملی کو اچھی طرح پہچانتے تھے جیسا کہ انھوں نے خود فرمایا:
بَصْرِيٌّ، صَدُوْقٌ وَكَانَ مِنَ الصُّلَحَاءِ وَثَّقَهُ ابْنُ مَعِيْنٍ
معلوم ہوا کہ حافظ ذہبیؒ کے نزدیک دو حجاج ہیں:
اول: ابن ابی زیاد الاسود زق العسل (صدوق)
دوم: نامعلوم مجہول
مسلم بن سعید سے اس روایت کی کسی صحیح سند میں حجاج کے بعد (بن الاسود) کی صراحت ثابت نہیں اور حسن بن قتیبہ المدائنی (متروک مجروح، ضعفہ الجمہور) کی جس روایت میں یہ صراحت آئی ہے، وہ مردود باطل ہے۔
حسن بن قتیبہ متروک ھالک کی روایت مسند البزار، الفوائد التمام الرازی،الکامل لابن عدی، حیاۃ الانبیاء البہیقی اور تاریخ دمشق لابن عساکر میں موجود ہے۔
اگر کوئی کہے کہ تہذیب الکمال میں مسلم بن سعید کے شیوخ میں حجاج بن ابی زیاد الاسود کا ذکر کیا گیا ہے، تو عرض ہے کہ ذہبیؒ کے اختلاف مذکور کے بعد یہ ذکر ناقابل حجت ہے۔ جو لوگ حجاج (مجہول) کو ضرور بالضرور ابن الاسود ثابت کرنے پر بضد ہیں، انھیں چاہیے کہ اس کا ثبوت صحیح سند سے پیش کریں۔
فائدہ:
الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، والی روایت
أخبار أصبهان لأبي نعيم میں موجود ہے، لیکن اس کی سند ضعیف ہے اور الفاظ درج ذیل ہیں:
الأَنْبِيَاءُ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ یعنی اس میں
أَحْيَاءٌ کا لفظ ہی نہیں ہے۔
لنک
اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ مذکورہ عجیب و غریب روایت بلحاظ سند صحیح نہیں ہے۔