• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ذرا اس سوال کا جواب تو دو ! (اللہ کی رحمت کو موت نہیں ،لہذا نبی کریم زندہ ہیں )

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
اسکین آپ نے لگائے ہیں ۔ تحقیق مطلوب ہو تو تحقیق حدیث کے زمرے میں اہل علم کے سامنے رکهتے ۔ جہاں صرف اہل علم ہی جواب دے سکتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے اولا ہی تفصیل موجود ہو اس زمرے میں ۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
شیخ البانیؒ کا اس روایت کو حسن قرار دینا تعدد طرق کی بناء پر ہے ۔ جبکہ اسکے تمام تر طرق مل کر بھی یہ روایت اس قابل نہیں بنتی کہ اسے قبول کیا جائے کیونکہ اسکی مسند بزار ' فوائد رازی ' تاریخ دمشق ' الکامل لابن عدی ' اور حیاۃ الأنبیاء للبیہقی والی سند کا مرکزی راوی حسن بن قتیبہ المدائنی سخت ضعیف ہے ۔ بلکہ امام دارقطنی نے تو اسے متروک کہا ہے ۔

اس ضعیف راوی کی روایت کو بطور متابعت پیش کرکے امام البانیؒ نے فرمایا ہے " یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ازرق نے یہ حدیث یاد رکھی ہے اور کوئی انوکھا کام نہیں کیا " لیکن شیخ صاحبؒ کا یہ فرمان محل نظر ہے کیونکہ یہ سند متابعت کے قابل نہیں !

بشکریہ شیخ رفیق طاہر

جاری ہے۔۔۔
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
عدیل سلفی صاحب ہم نے مسند ابو یعلی والی حدیث کی بات کی تھی۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ آپ نہ مانیں آپ کی مرضی ہے۔آئندہ لکھنا فضول ھے۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
اس روایت کی مکمل تحقیق ملاحظہ ہو:

یہ روایت الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ
عنوان الكتاب: مسند أبي يعلى الموصلي (ط. المأمون)
المؤلف: أبو يعلى الموصلي
المحقق: حسين سليم أسد


عنوان الكتاب: حياة الأنبياء صلوات الله عليهم بعد وفاتهم (ت: الغامدي)
المؤلف: أحمد الحسين البيهقي أبو بكر
المحقق: أحمد بن عطية الغامدي


میں درج ذیل سند کے ساتھ موجود ہے۔
يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ , ثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ , عَنِ الْحَجَّاجِ , عَنْ ثَابِتٍ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ,

اس سند میں حجاج راوی غیر منسوب ہے، اس کی ولدیت یا نسب معلوم اور حافظ ذہبیؒ نے فرمایا:
ما روى عنه فيما أعلم سوى مستلم بن سعيد، فأتى بخبر منكر، عنه
مجہول ہے میرے علم کے مطابق مسلم بن سعید کے علاوہ کسی نے اس سے روایت نہیں کی، پس وہ (مسلم) اس سے منکر خبر لایا ہے۔
عنوان الكتاب: ميزان الاعتدال فى نقد الرجال (ت: البجاوي)
المؤلف: محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي شمس الدين أبو عبد الله
المحقق: علي محمد البجاوي


اگر کوئی آدمی حافظ ابن حجرؒ کے حوالے سے کہے کہ حجاج سے مراد حجاج بن ابی زیاد الاسود البصری ہے تو عرض ہے کہ یہ تعین کئی وجہ سے غلط ہے۔

حافظ ذہبیؒ جو کہ بقول ابن حجرؒ مِن أهل الاستقراء التَّام فِي نقد الرِّجَال تھے۔
شرح نخبة الفكر للقاري

وہ حجاج بن ابی زیاد الاسود القسملی کو اچھی طرح پہچانتے تھے جیسا کہ انھوں نے خود فرمایا:
بَصْرِيٌّ، صَدُوْقٌ وَكَانَ مِنَ الصُّلَحَاءِ وَثَّقَهُ ابْنُ مَعِيْنٍ


معلوم ہوا کہ حافظ ذہبیؒ کے نزدیک دو حجاج ہیں:
اول: ابن ابی زیاد الاسود زق العسل (صدوق)
دوم: نامعلوم مجہول

مسلم بن سعید سے اس روایت کی کسی صحیح سند میں حجاج کے بعد (بن الاسود) کی صراحت ثابت نہیں اور حسن بن قتیبہ المدائنی (متروک مجروح، ضعفہ الجمہور) کی جس روایت میں یہ صراحت آئی ہے، وہ مردود باطل ہے۔

حسن بن قتیبہ متروک ھالک کی روایت مسند البزار، الفوائد التمام الرازی،الکامل لابن عدی، حیاۃ الانبیاء البہیقی اور تاریخ دمشق لابن عساکر میں موجود ہے۔

اگر کوئی کہے کہ تہذیب الکمال میں مسلم بن سعید کے شیوخ میں حجاج بن ابی زیاد الاسود کا ذکر کیا گیا ہے، تو عرض ہے کہ ذہبیؒ کے اختلاف مذکور کے بعد یہ ذکر ناقابل حجت ہے۔ جو لوگ حجاج (مجہول) کو ضرور بالضرور ابن الاسود ثابت کرنے پر بضد ہیں، انھیں چاہیے کہ اس کا ثبوت صحیح سند سے پیش کریں۔

فائدہ:
الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، والی روایت أخبار أصبهان لأبي نعيم میں موجود ہے، لیکن اس کی سند ضعیف ہے اور الفاظ درج ذیل ہیں:
الأَنْبِيَاءُ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ یعنی اس میں أَحْيَاءٌ کا لفظ ہی نہیں ہے۔

ASBAHAAN00_0000.jpg

ASBAHAAN02_0083.jpg

لنک

اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ مذکورہ عجیب و غریب روایت بلحاظ سند صحیح نہیں ہے۔
 
شمولیت
مارچ 08، 2018
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
12
سوال کا جواب کیا دیں؟ یہ تو جمہور کا عقیدہ ہے کہ نبی صلی الله تعالی عليه وآله وسلم زندہ ہیں.
رہے وہابیہ تو نبی سے بغض رکھنا اور نبی ﷺ کی فضیلت کی احادیث کو ضعیف و موضوع کہنا اس کے علاوہ انہیں کچھ نہیں آتا.
اللهﷻ رحم فرمائے امام بخاری و مسلم پر اگر وہ صحیحین نہ لکھتے اور فضائل نبوی میں صحیح احادیث جمع نہ کرتے تو یہ ٹولہ تمام کو ضعیف کہہ دیتا اور دور نہیں کہ فرقہء نجدیہ خارجیہ کے لوگ نبی ﷺ کے فضائل بیان کرنے کو بھی شرک کہنا شروع کر دیتے.
آپ نہیں پاؤ گے کوئی نجدی وہابی ایسا کہ وہ نبی ﷺ کی فضائل میں وارد احادیث کو ضعیف یا موضوع نہ کہتا ہو یہ تو اب ان کی انفرادی علامت ہے.
اللهﷻ وہابیوں نجدیوں اور ان کے مثل دیگر خارجیوں کے دلوں سے نبی صلی الله تعالی عليه وآله وسلم کے متعلق بغض اور کینہ دور فرما دے. ظاہری طور پر ہی سہی. آمین یارب العالمین وبجاہ سیدالمرسلین
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اللهﷻ رحم فرمائے امام بخاری و مسلم پر اگر وہ صحیحین نہ لکھتے اور فضائل نبوی میں صحیح احادیث جمع نہ کرتے تو یہ ٹولہ تمام کو ضعیف کہہ دیتا اور دور نہیں کہ فرقہء نجدیہ خارجیہ کے لوگ نبی ﷺ کے فضائل بیان کرنے کو بھی شرک کہنا شروع کر دیتے.
اسی صحیح بخاری میں ہے، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد خطبہ دیا تھا اس میں فرمایا تھا:
فمن كان منكم يعبد محمدا صلى الله عليه وسلم فإن محمدا صلى الله عليه وسلم قد مات
اگر کوئی شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی
(بخاری: 1241)
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
آپ نہیں پاؤ گے کوئی نجدی وہابی ایسا کہ وہ نبی ﷺ کی فضائل میں وارد احادیث کو ضعیف یا موضوع نہ کہتا ہو یہ تو اب ان کی انفرادی علامت ہے.
نبی ﷺ کے فضائل میں صحیح روایات موجود ہیں لہذا ضعیف و موضوع روایات کی ضرورت نہیں۔ ضعیف و موضوع روایات کو ضعیف و موضوع ہی کہا جائے گا۔
اللهﷻ وہابیوں نجدیوں اور ان کے مثل دیگر خارجیوں کے دلوں سے نبی صلی الله تعالی عليه وآله وسلم کے متعلق بغض اور کینہ دور فرما دے. ظاہری طور پر ہی سہی. آمین یارب العالمین وبجاہ سیدالمرسلین
اللہ ﷻ قرآن و حدیث سے بغض رکھنے والوں کو عقل سلیم عطا فرمائے اور انھیں اپنا عقیدہ قرآن و حدیث کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 
شمولیت
مارچ 08، 2018
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
12
اس سند میں حجاج راوی غیر منسوب ہے، اس کی ولدیت یا نسب معلوم اور حافظ ذہبیؒ نے فرمایا:
ما روى عنه فيما أعلم سوى مستلم بن سعيد، فأتى بخبر منكر، عنه
امام ذہبی معصوم نہیں تھے. ہم کہہ سکتے ہیں اپنے استاد ابن تیمیہ کی موافقت میں ایسا کہہ گئے.
اس قول میں امام ذہبی کے خلاف دو لوگ ہیں. لہذا ذہبی کی بات چھوڑ دی جائے گی اور امام بوصیری نے اتحاف الخیرة (136/7) میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ الحجاج الصواف ہے جو کہ بصری ثقہ ہے اور جس حجاج نے ثابت البنانی سے یہ حدیث روایت کی وہ بھی بصری ثقہ ہے. (لسان المیزان) ولله ورسوله اعلم.
روایت أخبار أصبهان لأبي نعيم میں موجود ہے، لیکن اس کی سند ضعیف ہے اور الفاظ درج ذیل ہیں:
یہ متابعت کے لئے بہت ہے.
"تمہارا، نبی ﷺ سے اتنا زیادہ بغض ظاہر کرنا مردود ہے
 
شمولیت
مارچ 08، 2018
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
12
ضعیف و موضوع روایات کو ضعیف و موضوع ہی کہا جائے گا۔
نہیں، بلکہ جو تمہارے قبیح عقائد کے مطابق ہو تم اسے ضعیف اور موضوع کہتے ہو، جیسے مذکور حدیث یعنی اپنے نفس کی متابعت میں تمہاری تضعیف ہے. اور یہ جدید بدمذہبوں کا کوئی نیا شعار نہیں.
 
شمولیت
مارچ 08، 2018
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
12
فمن كان منكم يعبد محمدا صلى الله عليه وسلم فإن محمدا صلى الله عليه وسلم قد مات
وفات کا انکار کوئی نہیں کرتا. لیکن وفات کے بعد زندگی جو کہ ثابت ہے اس کا تم انکار کرتے ہو ہم نہیں. مسند ابی یعلی کی صحیح حدیث اوپر موجود ہے جس سے حیات ہونا ثابت ہے. اب اگر کوئی انکار کرے تو وہ متواتر دلیل لائے. بخاری کی اس حدیث میں تمہارے لئے کوئی دلیل نہیں.
 
Top