• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَىٰ بَعْضُكُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا ﴿٢١﴾
حالانکہ تم ایک دوسرے کو مل چکے ہو (١) اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد و پیمان لے رکھا ہے۔ (٢)
٢١۔١ "ایک دوسرے سے مل چکے ہو" کا مطلب ہم بستری ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے کنایۃً بیان فرمایا ہے۔
٢١۔٢ "مضبوط عہد پیماں" سے مراد وہ عہد مراد ہے جو نکاح کے وقت مرد سے لیا جاتا ہے کہ تم "اسے اچھے طریقے سے آباد کرنا یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا"
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۚ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا ﴿٢٢﴾
اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے (١) مگر جو گزر چکا ہے، یہ بے حیائی کا کام اور بغض کا سبب ہے اور بڑی بری راہ ہے۔
٢٢۔١ زمانۂ جاہلیت میں سوتیلے بیٹے اپنے باپ کی بیوی سے (یعنی سوتیلی ماں سے) نکاح کر لیتے تھے، اس سے روکا جا رہا ہے، کہ یہ بہت ہی بے حیائی کا کام ہے ﴿وَلا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ﴾ کا عموم ایسی عورت سے نکاح کو ممنوع قرار دیتا ہے جس سے اس کے باپ نے نکاح کیا لیکن دخول سے قبل ہی طلاق دے دی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی یہ بات مروی ہے اور علماء اسی کے قائل ہیں۔ (تفسیر طبری)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
حُرِّ‌مَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْ‌ضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّ‌ضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَ‌بَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِ‌كُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿٢٣﴾
حرام کی گئیں ہیں (١) تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری لڑکیاں اور تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھائی کی لڑکیاں اور بہن کی لڑکیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کر چکے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں اور تمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا، یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
٢٣۔١ جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے، ان کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ ان میں سات محرمات نسب، سات رضاعی اور چار سسرالی بھی ہیں۔ ان کے علاوہ حدیث رسول سے ثابت ہے کہ بھتیجی اور پھوپھی اور بھانجی اور خالہ کو ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ سات نسبی محرمات میں مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجی اور بھانجی ہیں اور سات رضاعی محرمات میں رضاعی مائیں، رضاعی بیٹیاں، رضاعی بہنیں، رضاعی پھوپھیاں، رضاعی خالائیں، رضاعی بھتیجیاں اور رضاعی بھانجیاں اور سسرالی محرمات میں ساس، ربائب (مدخولہ بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکیاں) بہو اور دو سگی بہنوں کا جمع کرنا ہے۔ ان کے علاوہ باپ کی منکوحہ (جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہے) اور حدیث کے مطابق بیوی جب تک عقد نکاح میں ہے اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ اور اس کی بھتیجی اور اس کی بھانجی سے بھی نکاح حرام ہے۔ محرمات نسبی کی تفصیل! أُمَّهَاتٌ (مائیں) میں ماؤں کی مائیں (نانیاں) ان کی دادیاں اور باپ کی مائیں (دادیاں، پردادیاں اور ان سے آگے تک) شامل ہیں۔ بَنَاتٌ (بیٹیاں) میں پوتیاں، نواسیاں اور پوتیوں، نواسیوں کی بیٹیاں (نیچے تک) شامل ہیں۔ زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی، بیٹی میں شامل ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔ ائمہ ثلاثہ اسے بیٹی میں شامل کرتے ہیں اور اس سے نکاح کو حرام سمجھتے ہیں۔ البتہ امام شافعی کہتے ہیں کہ بنت شرعی نہیں ہے۔ پس جس طرح ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ﴾ (اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد میں مال متروکہ تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے) میں داخل نہیں اور بالا جماع وہ وارث نہیں۔ اسی طرح وہ اس آیت میں بھی داخل نہیں۔ واللہ اعلم (ابن کثیر)۔ أَخَوَاتٌ (بہنیں) عینی ہوں یا اخیافی وعلاتی۔ عَمَّاتٌ (پھوپھیاں) اس میں باپ کی سب مذکر اصول یعنی نانا، دادا کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ خالاتٌ (خالائیں) اس میں ماں کی سب مونث اصول (یعنی نانی دادی) کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ بھتیجیاں، اس میں تینوں قسم کی بھائیوں کی اولاد بواسطہ اور بلاواسطہ (یا صلبی و فرعی) شامل ہیں۔ بھانجیاں، اس میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد بواسطہ و بلا واسطہ یا صلبی و فرعی شامل ہیں۔
قسم دوم، محرمات رضاعیہ: رضاعی ماں، جس کا دودھ تم نے مدت رضاعت (یعنی دو سال) کے اندر پیا ہو۔ رضاعی بہن، وہ عورت جس کو تمہاری حقیقی یا رضاعی ماں نے دودھ پلایا، تمہارے ساتھ پلایا تم سے پہلے یا بعد تمہارے اور بہن بھائیوں کے ساتھ پلایا۔ یا جس عورت کی حقیقی یا رضاعی ماں نے تمہیں دودھ پلایا، چاہے مختلف اوقات میں پلایا ہو۔ رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جائیں گے جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رضاعی ماں بننے والی عورت کی نسبی و رضاعی اولاد دودھ پینے والے بچے کی بہن بھائی، اس عورت کا شوہر اس کا باپ اور اس مرد کی بہنیں، اور اس کی پھوپھیاں اس عورت کی بہنیں خالائیں اور اس عورت کے جیٹھ، دیور اس کے رضاعی چچا تایا بن جائیں گے اس دودھ پینے والے بچے کی نسبی بہن بھائی وغیرہ اس گھرانہ پر رضاعت کی بنا پر حرام نہ ہوں گے۔
قسم سوم سسرالی محرمات: بیوی کی ماں یعنی ساس (اس میں بیوی کی نانی دادی بھی داخل ہے) اگر کسی عورت سے نکاح کر کے بغیر ہم بستری کے ہی طلاق دے دی ہو، تب بھی اس کی ماں (ساس) سے نکاح حرام ہو گا، البتہ کسی عورت سے نکاح کر کے اسے بغیر مباشرت کے طلاق دے دی ہو تو اس کی لڑکی سے اس کا نکاح جائز ہو گا۔ (فتح القدیر) رَبِيبَةٌ بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکی۔ اس کی حرمت مشروط ہے یعنی اس کی ماں سے اگر مباشرت کر لی گئی ہو گی تو ربیبہ سے نکاح حرام، بصورت دیگر حلال ہو گا۔ فِي حُجُورِكُمْ (وہ ربیبہ جو تمہاری گود میں پرورش پائیں) یہ قید غالب احوال کے اعتبار سے ہے، بطور شرط کے نہیں ہے۔ اگر یہ لڑکی کسی اور جگہ بھی زیر پرورش یا مقیم ہو گی۔ تب بھی اس سے نکاح حرام ہو گا۔ حلائل یہ حَلِيلَةٌ کی جمع ہے یہ حل یحل (اترنا) سے فَعِيلَةٌ کے وزن پر بمعنی فَاعِلَةٍ ہے۔ بیوی کو حلیلہ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کا محل (جائے قیام) خاوند کے ساتھ ہی ہوتا ہے یعنی جہاں خاوند اترتا یا قیام کرتا ہے یہ بھی وہیں اترتی یا قیام کرتی ہے۔ بیٹوں میں پوتے نواسے بھی داخل ہیں یعنی ان کی بیویوں سے بھی نکاح حرام ہو گا۔ اسی طرح رضاعی اولاد کے جوڑے بھی حرام ہوں گے مِنْ أَصْلابِكُمْ (تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویوں) کی قید سے یہ واضح ہو گیا کہ لے پالک بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام نہیں ہے۔ دو بہنیں (رضاعی ہوں یا نسبی) ان سے بیک وقت نکاح حرام ہے۔ البتہ ایک کی وفات کے بعد یا طلاق کی صورت میں عدت گزرنے کے بعد دوسری بہن سے نکاح جائز ہے۔ اسی طرح چار بیویوں میں سے ایک کو طلاق دینے سے پانچویں نکاح کی اجازت نہیں جب تک طلاق یافتہ عورت عدت سے فارغ نہ ہو جائے۔
ملحوظة: زنا سے حرمت ثابت ہو گی یا نہیں؟ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے بدکاری کی تو اس بدکاری کی وجہ سے وہ عورت اس پر حرام نہیں ہو گی اسی طرح اگر اپنی بیوی کی ماں (ساس) سے یا اس کی بیٹی سے (جو دوسرے خاوند سے ہو) زنا کر لے گا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہو گی (دلائل کے لیے دیکھئے، فتح القدیر) احناف اور دیگر بعض علماء کی رائے میں زنا کاری سے بھی حرمت ثابت ہو جائے گی۔ اول الذکر مسلک کی تائید بعض احادیث سے ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پارہ 05
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَ‌اءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ‌ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَ‌هُنَّ فَرِ‌يضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَ‌اضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِ‌يضَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿٢٤﴾
اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں، (١) اللہ تعالیٰ نے یہ احکام تم پر فرض کر دیئے ہیں، ان عورتوں کے سواء اور عورتیں تمہارے لیے حلال کی گئیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لیے نہ کہ شہوت رانی کے لیے، (٢) اس لیے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو، (٣) اور مہر مقرر ہو جانے کے بعد تم آپس کی رضا مندی سے جو طے کر لو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں، (٤) بے شک اللہ تعالیٰ علم والا حکمت والا ہے۔
٢٤۔١ قرآن کریم میں ”إِحْصَانٌ“ چار معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ 1۔ شادی 2۔ آزادی 3۔ پاک دامنی 4۔ اور اسلام۔ اس اعتبار سے محصنات کے چار مطلب ہیں 1۔ شادی شدہ عورتیں 2۔ آزاد عورتیں 3۔ پاک دامن عورتیں 4۔ اور مسلمان عورتیں۔ یہاں پہلا معنی مراد ہے۔ اس کی شان نزول میں آتا ہے کہ جب بعض جنگوں میں کافروں کی عورتیں بھی مسلمانوں کی قید میں آ گئیں تو مسلمانوں نے ان سے ہم بستری کرنے میں کراہت محسوس کی کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) جس سے یہ معلوم ہوا کہ جنگ میں حاصل ہونے والی کافر عورتیں، جب مسلمانوں کی لونڈیاں بن جائیں تو شادی شدہ ہونے کے باوجود ان سے مباشرت کرنا جائز ہے۔ البتہ استبرائے رحم ضروری ہے۔ یعنی ایک حیض آنے کے بعد یا حاملہ ہیں تو وضع حمل کے بعد ان سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔
لونڈی کا مسئلہ: نزول قرآن کے وقت غلام اور لونڈی کا سلسلہ عام تھا جسے قرآن نے بند نہیں کیا، البتہ ان کے بارے میں ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ جس سے غلاموں اور لونڈیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں حاصل ہوں تاکہ غلامی کی حوصلہ شکنی ہو۔ اس کے دو ذریعے تھے۔ ایک تو بعض خاندان صدیوں سے ایسے چلے آ رہے تھے کہ ان کے مرد اور عورت فروخت کر دیئے جاتے تھے۔ یہی خریدے ہوئے مرد و عورت غلام اور لونڈی کہلاتے تھے۔ مالک کو ان سے ہر طرح کے استمتاع (فائدہ اٹھانے) کا حق حاصل ہوتا تھا۔ دوسرا ذریعہ جنگ میں قیدیوں والا تھا، کہ کافروں کی قیدی عورتوں کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا اور وہ ان کی لونڈیاں بن کر ان کے پاس رہتی تھیں۔ قیدیوں کے لیے یہ بہترین حل تھا۔ کیونکہ اگر انہیں معاشرے میں یوں ہی آزاد چھوڑ دیا جاتا تو معاشرے میں ان کے ذریعے سے فساد پیدا ہوتا (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب الرق فی الاسلام، اسلام میں غلامی کی حقیقت از مولانا سعید احمد اکبر آبادی) بہر حاصل مسلمان شادی شدہ عورتیں تو ویسے ہی حرام ہیں تاہم کافر عورتیں بھی حرام ہی ہیں الاّ یہ کہ وہ مسلمانوں کی ملکیت میں آ جائیں۔ اس صورت میں استبرائے رحم کے بعد وہ ان کے لیے حلال ہیں۔
۲٤۔۲ یعنی مذکورہ محرمات قرآنی اور حدیثی کے علاوہ دیگر عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ چار چیزیں اس میں ہوں، اول یہ کہ طلب کرو ”أَنْ تَبْتَغُوا“ یعنی دونوں طرف سے ایجاب و قبول ہو۔ دوسری یہ کہ مال یعنی مہر ادا کرنا قبول کرو، تیسری یہ کہ ان کو شادی کی قید (دائمی قبضے) میں لانا مقصود ہو۔ صرف شہوت رانی غرض نہ ہو (جیسے زنا میں یا اس متعہ میں ہوتا ہے جو شیعوں میں رائج ہے یعنی جنسی خواہش کی تسکین کے لیے چند روز یا چند گھنٹوں کا نکاح)۔ چوتھی یہ کہ چھپی یاری دوستی نہ ہو بلکہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو۔ یہ چاروں شرطیں اس آیت سے مستفاد ہیں۔ اس سے جہاں شیعوں کے متعہ کا بطلان ہوتا ہے وہیں مروجہ حلالہ کا بھی ناجائز ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس کا مقصد بھی عورت کو نکاح کی دائمی قید میں لانا نہیں ہوتا، بلکہ عرفاً یہ صرف ایک رات کے لیے مقرر اور معہود ذہنی ہے۔
٢٤۔٣ یہ اس امرکی تاکید ہے کہ جن عورتوں سے تم نکاح شرعی کے ذریعے سے استمتاع اور تلذذ کرو۔ انہیں ان کا مقرر کردہ مہر ضرور ادا کرو۔
٢٤۔٤ اس میں آپس کی رضا مندی سے مہر میں کمی بیشی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
ملحوظة: استمتاع کے لفظ سے شیعہ حضرات نکاح متعہ کا اثبات کرتے ہیں۔ حالانکہ اس سے مراد نکاح کے بعد صحبت و مباشرت کا استمتاع ہے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ البتہ متعہ ابتدائے اسلام میں جائز رہا ہے اور اس کا جواز اس آیت کی بنیاد پر نہیں تھا، بلکہ اس رواج کی بنیاد پر تھا جو اسلام سے قبل چلا آ رہا تھا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت واضح الفاظ میں اسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُم ۚ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۚ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَ‌هُنَّ بِالْمَعْرُ‌وفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ‌ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ۚ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنكُمْ ۚ وَأَن تَصْبِرُ‌وا خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٢٥﴾
اور تم میں سے جس کسی کو آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی پوری وسعت و طاقت نہ ہو وہ مسلمان لونڈیوں سے جن کے تم مالک ہو (اپنا نکاح کر لے) اللہ تمہارے اعمال کو بخوبی جاننے والا ہے، تم سب آپس میں ایک ہی تو ہو، اس لیے ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کر لو، (١) اور قاعدہ کے مطابق ان کے مہر ان کو دے دو، وہ پاک دامن ہوں نہ کہ اعلانیہ بدکاری کرنے والیاں، نہ خفیہ آشنائی کرنے والیاں، پس جب یہ لونڈیاں نکاح میں آ جائیں پھر اگر وہ بے حیائی کا کام کریں تو انہیں آدھی سزا ہے اس سزا سے جو آزاد عورتوں کی ہے۔ (٢) کنیزوں سے نکاح کا یہ حکم تم میں سے ان لوگوں کے لیے ہے جنہیں گناہ اور تکلیف کا اندیشہ ہو اور تمہارا ضبط کرنا بہت بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور بڑی رحمت والا ہے۔ (٣)
٢٥۔١ اس سے معلوم ہوا کہ لونڈیوں کا مالک ہی لونڈیوں کا ولی ہے، لونڈی کا کسی جگہ نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح غلام بھی اپنے مالک کی اجازت کے بغیر کسی جگہ نکاح نہیں کر سکتا۔
٢٥۔٢ یعنی لونڈیوں کو سو کے بجائے (نصف یعنی) پچاس کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ گویا ان کے لیے سزائے رجم نہیں ہے کیونکہ وہ نصف نہیں ہو سکتی اور غیر شادی شدہ لونڈی کی تعزیری سزا ہو گی۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر ابن کثیر)
٢٥۔٣ یعنی لونڈیوں سے شادی کی اجازت ایسے لوگوں کے لیے ہے جو جوانی کے جذبات پر کنٹرول رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور بدکاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو، اگر ایسا اندیشہ نہ ہو تو اس وقت تک صبر کرنا بہتر ہے جب تک کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کے قابل نہ ہو جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٢٦﴾
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہارے واسطے خوب کھول کر بیان کرے اور تمہیں تم سے پہلے کے (نیک) لوگوں کی راہ پر چلائے اور تمہاری توبہ قبول کرے اور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے۔

وَاللَّـهُ يُرِ‌يدُ أَن يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِ‌يدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَن تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا ﴿٢٧﴾
اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرے، اور جو لوگ خواہشات کے پیرو ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم اس سے بہت دور ہٹ جاؤ۔ (۱)
٢٧۔١ اَنْ تمیلوا یعنی حق سے باطل کی طرف جھک جاؤ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يُرِ‌يدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ﴿٢٨﴾
اللہ چاہتا ہے کہ تم سے تخفیف کر دے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ (١)
٢٨۔١ اس کمزوری کی وجہ سے اس کے گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ممکن آسانیاں اسے فراہم کی ہیں۔ انہی میں سے لونڈیوں سے شادی کی اجازت ہے۔ بعض نے اس ضعف کا تعلق عورتوں سے بتلایا ہے یعنی عورت کے بارے میں کمزور ہے، اسی لیے عورتیں بھی باوجود نقصان عقل کے، اس کو آسانی سے اپنے دام میں پھنسا لیتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَ‌ةً عَن تَرَ‌اضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَ‌حِيمًا ﴿٢٩﴾
اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ، (١) مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضا مندی سے ہو خرید و فروخت، (٢) اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو (٣) یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے۔
٢٩۔١ بِالْبَاطِلِ میں دھوکہ، فریب، جعل سازی، ملاوٹ کے علاوہ وہ تمام کاروبار بھی شامل ہیں جن سے شریعت نے منع کیا ہے، جیسے قمار، ربا، وغیرہ۔ اسی طرح ممنوع اور حرام چیزوں کا کاروبار کرنا بھی باطل میں شامل ہے۔ مثلاً بلا ضرورت فوٹو گرافی، ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں اور فحش کیسٹیں وغیرہ۔ ان کا بنانا، بیچنا، مرمت کرنا سب ناجائز ہے۔
٢٩۔٢ اس کے لیے بھی شرط یہ ہے کہ یہ لین دین حلال اشیا کا ہو، حرام اشیاء کا کاروبار باہمی رضا مندی کے باوجود ناجائز ہی رہے گا۔ علاوہ ازیں رضا مندی میں خیارمجلس کا مسئلہ بھی آ جاتا ہے یعنی جب تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں سودا فسخ کرنے کا اختیار رہے گا جیسا کہ حدیث میں ہے الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا (صحيح بخاری و مسلم كتاب البيوع) دونوں باہم سودا کرنے والوں کو، جب تک جدا نہ ہوں، اختیار ہے۔
٢٩۔٣ اس سے مراد خودکشی بھی ہو سکتی ہے جو کبیرہ گناہ ہے اور ارتکاب معصیت بھی جو ہلاکت کا باعث ہے اور کسی مسلمان کو قتل کرنا بھی کیونکہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ اس لیے اس کا قتل بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو قتل کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارً‌ا ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرً‌ا ﴿٣٠﴾
اور جو شخص یہ (نافرمانیاں) سرکشی اور ظلم سے کرے گا (١) تو عنقریب ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے۔ اور یہ اللہ پر آسان ہے۔
٣٠۔١ یعنی منہیات کا ارتکاب، جانتے بوجھتے، ظلم و تعدی سے کرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ‌ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ‌ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِ‌يمًا ﴿٣١﴾
اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جن سے تم کو منع کیا جاتا (١) ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کر دیں گے اور عزت و بزرگی کی جگہ داخل کریں گے۔
٣١۔١ کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک وہ گناہ ہیں جن پر حد مقرر ہے، بعض کے نزدیک وہ گناہ جس پر قرآن میں یا حدیث میں سخت وعید یا لعنت آئی ہے، بعض کہتے ہیں کہ ہر وہ کام جس سے اللہ نے یا اس کے رسول نے بطور تحریم کے روکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی کسی گناہ میں پائی جائے تو وہ کبیرہ ہے۔ احادیث میں مختلف کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے جنہیں بعض علماء نے ایک کتاب میں جمع بھی کیا ہے۔ جیسے الكبائر للذهبی، الزواجر عن اقتراف الكبائر للهيتمی وغیرہ۔ یہاں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو مسلمان کبیرہ گناہوں مثلاً شرک، عقوق والدین، جھوٹ وغیرہ سے اجتناب کرے گا تو ہم اس کے صغیرہ گناہ معاف کر دیں گے۔ سورۂ نجم میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے، البتہ وہاں کبائر کے ساتھ فواحش (بے حیائی کے کاموں) سے اجتناب کو بھی صغیرہ گناہوں کی معافی کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں صغیرہ گناہوں پر اصرار و مداومت بھی صغیرہ گناہوں کو کبائر بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح اجتناب کبائر کے ساتھ احکام و فرائض اسلام کی پابندی اور اعمال صالحہ کا اہتمام بھی نہایت ضروری ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شریعت کے اس مزاج کو سمجھ لیا تھا، اس لیے انہوں نے صرف وعدۂ مغفرت پر ہی تکیہ نہیں کیا، بلکہ مغفرت و رحمت الٰہی کے یقینی حصول کے لیے مذکورہ تمام ہی باتوں کا اہتمام کیا۔ جب کہ ہمارا دامن عمل سے تو خالی ہے لیکن ہمارے قلب امیدوں اور آرزؤں سے معمور ہیں۔
 
Top