اسلام علیکم،
جنگ صفین و جنگ جمل کے بارے میں جاننا چھتا ھوں،
01-اس جنگ کے وجوھات اور اسباب کیا تھے؟
02-کیا اس جنگ میں صحابہ کرام نے ایک دوسرے کا قتل عام کیا تھا ؟
03-کیا واقعی تیس ہزار صحابہ شھید ہوے تھے ؟
شکریہ
جنگ جمل کے بعد دوسری بڑی جنگ صفین کے مقام پر ہوئی۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جنگ حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کی افواج کے درمیان لڑی گئی لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ حضرت علی کی فوج کا بڑا حصہ اب باغی تحریک کے کارکنوں پر مشتمل تھا اور انہوں نے اپنی پوری قوت میدان میں جھونک دی تھی۔ ان کے عزائم کی راہ میں حضرت معاویہ آخری چٹان بن کر کھڑے تھے۔ باغی ان کی قوت کا خاتمہ کر کے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شام پر لشکر کشی کر دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان باغیوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ساتھ تشریف لے گئے اور انہیں جنگ سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ تاہم جنگ ہو کر رہی اور اس جنگ میں باغیوں کی قوت کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا۔
جنگ صفین کی روایتیں کس حد تک قابل اعتماد ہیں؟
اگر طبری اور بلاذری میں جنگ صفین سے متعلق روایتوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کی سب ابو مخنف کی روایت کردہ ہیں جو صحابہ کرام سے خاص بغض رکھتے تھے۔ یہ وہ صاحب تھے جنہوں نے جنگ صفین پر پہلی کتاب لکھی۔ ان کے پڑدادا مخنف بن سلیم ازدی اس جنگ میں شریک تھے۔ ابو مخنف اور ان کی قبیل کے دیگر مورخین کی کوشش یہ رہی ہے کہ ان روایتوں میں صحابہ کرام کی ایسی تصویر پیش کی جائے کہ یہ ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ اسی طرح حضرت علی، عمار بن یاسر اور عدی بن حاتم رضی اللہ عنہم کی ایسی تصویر پیش کی جائے، جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ حضرات باغیوں کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے اور دیگر مخلص صحابہ کے لیے اپنے دل میں بغض رکھتے تھے۔ ایسے تمام جملے ابو مخنف کی ایجاد ہیں اور ان سے ہٹ کر کسی بھی قابل اعتماد راوی نے ایسی کوئی بات روایت نہیں کی ہے۔
چونکہ جنگ صفین سے متعلق تمام روایتیں ابو مخنف ہی کے توسط سے ہم تک پہنچی ہیں، اس وجہ سے صحیح صورتحال کا اندازہ لگانا ہمارے لیے ناممکن ہے۔ پھر بھی ہم کوشش کرتے ہیں کہ درایت کے اصولوں کے تحت بعض سوالات کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
جنگ جمل اور صفین کے درمیانی عرصے میں کیا اہم واقعات پیش آئے؟
جنگ جمل سے فارغ ہونے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ملکی انتظام پر توجہ دی۔ اب آپ نے کوفہ میں قیام فرمایا۔ اب آپ کی خلافت کو بالعموم تسلیم کر لیا گیا اور لوگوں نے آپ کی بیعت کرنا شروع کر دی۔ صرف ایک شام کا صوبہ ایسا تھا جس نے حضرت علی کی بیعت نہیں کی تھی۔ صحابہ کرام کا ایک گروہ، جس میں حضرت سعد بن ابی وقاص، محمد بن مسلمہ، عبداللہ بن عمر اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم جیسے لوگ تھے، غیر جانبدار ہو کر مدینہ میں مقیم تھا۔ حضرت علی نے حضرت معاویہ کے ساتھ خط و کتابت شروع کی اور اتحاد کی کوششیں شروع کیں لیکن باغیوں نے ایسی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ ان حضرات کے درمیان بعض سفراء کا بھی تبادلہ ہوا۔ ایسے ہر موقع پر باغیوں نے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ حضرت علی سے جو مخلص مسلمان آ کر ملتے، یہ انہیں بھی بدظن کر کے دور کر دیتے۔
یہ باغی جعل سازی کے فن میں ید طولی رکھتے تھے اور اس سے پہلے بھی حضرت عثمان، علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے نام سے جعلی خطوط لکھ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر چکے تھے۔ اس بات کا غالب امکان موجود ہے کہ انہوں نے حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے نام سے خود یہ خطوط لکھ لیے ہوں۔ ابو مخنف اور سید شریف رضی نے ان میں سے بعض خطوط اپنی کتب میں درج کیے ہیں لیکن ان میں جو زبان استعمال ہوئی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان خطوط میں بھی بہت کچھ داخل کر دیا گیا ہے۔ ان جملوں سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں جلیل القدر صحابہ ایک دوسرے سے بدظن تھے۔ ایک طرف معاویہ ، علی کو حضرت عثمان کا قاتل سمجھتے تھے اور دوسری طرف علی، ان پر بغاوت کا الزام عائد کرتے تھے۔ یہ خطوط باغیوں کی دسیسہ کاریوں کے سوا کچھ نہیں ہیں جو انہوں نے ان دونوں صحابہ کو بدنام کرنے کے لیے کی ہیں۔ چونکہ باغی پارٹی سے تعلق رکھنے والے راوی اپنی تحریک کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام سے چلا رہے تھے، اس وجہ سے انہوں نے خاص کر ایسی روایات وضع کرنے کی کوشش کی ہے جن کے مطابق وہ یہ ظاہر کریں کہ حضرت علی دل و جان سے انہی کے ساتھ تھے۔ جن صحابہ نے ان کی تحریک کی راہ میں روڑے اٹکائے، وہ ان کی دل کھول کر کردار کشی کرتے ہیں۔
ان خطوط کے جعلی پن کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ ان کی سند میں ابو مخنف، ہشام کلبی، سیف بن عمر اور واقدی جیسے راوی موجود ہیں، جنہیں محدثین نے "کذاب" کے درجے میں رکھا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر ان حضرات میں اس درجے کی بدگمانی موجود ہوتی تو پھر حضرت علی، مختلف شہروں کو بھیجے گئے اپنے خط میں حضرت معاویہ کی جانب سے صفائی پیش کیوں کرتے؛ حضرت معاویہ، حضرت علی کی شہادت کی خبر سن کر کیوں روتے اور ان کے لیے دعا کیوں کرتے اور حضرت حسن، معاویہ سے صلح کر کے اقتدار ان کے سپرد کیوں کرتے؟ رضی اللہ عنہم۔ یہ سب تفصیلات آگے آ رہی ہیں۔
حضرت علی نے اپنا دار الحکومت کوفہ کیوں منتقل کیا؟
یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدینہ سے نکلنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مجبوری تھی۔ لیکن جنگ جمل کے بعد انہوں نے واپس مدینہ کا رخ کیوں نہیں کیا اور کوفہ کو اپنا دار الحکومت کیوں بنا لیا؟ ہمیں اس سوال کے جواب میں یہ امور سمجھ میں آتے ہیں:
1۔ کوفہ چونکہ ایک بہت بڑی چھاؤنی تھا اور مشرق کے تمام ممالک کے معاملات کوفہ ہی سے کنٹرول ہوتے تھے، اس وجہ سے ضرورت اس امر کی تھی کہ اسے کنٹرول میں لایا جائے۔
2۔ باغی تحریک کا مرکز بھی اب کوفہ ہی بن چکا تھا، اس وجہ سے ان پر نظر رکھنے کے لیے کوفہ میں موجودگی ضروری تھی۔
3۔ مدینہ منورہ عالم اسلام کے وسط میں تھا اور فوجی چھاؤنیوں سے دور علاقہ تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے تجربے سے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ دار الحکومت ایسے مقام پر ہونا چاہیے جہاں فوج کی بڑی تعداد موجود ہو۔
باغیوں کے نقطہ نظر سے صوبہ شام کی اہمیت کیا تھی؟
شام کے صوبے پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری دور میں شام کا صوبہ شمال مشرق میں دریائے فرات سے لے کر مغرب میں دریائے نیل تک پھیلا ہواتھا۔ موجودہ شام، لبنان، فلسطین اور اردن کے پورے پورے ممالک صوبہ شام کا حصہ تھے جبکہ عراق اور ترکی کے بعض حصے بھی اسی صوبے میں شامل تھے۔ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ شام ایک غیر معمولی صوبہ تھا کیونکہ اس کی سرحدیں رومن ایمپائر کے ساتھ لگتی تھیں جس کا سربراہ قیصر روم تھا۔ قیصر کی کوشش تھی کہ کسی طرح اپنے مقبوضات واپس لے لے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ شام پر کسی غیر معمولی صلاحیتوں والے گورنر کو مقرر کیا جاتا ۔ چنانچہ حضرت عمر نے ایسا ہی کیا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کو 20/642 میں یہاں کا گورنر مقرر کیا۔ آپ نے اپنے حسن انتظام سے حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما کو متاثر کیا اور مزید علاقے آپ کے صوبے میں شامل کر دیے گئے۔
جب عبداللہ بن سبا نے مختلف شہروں میں اپنی باغی تحریک کو منظم کرنا شروع کیا تو وہ شام بھی آیا مگر حضرت معاویہ کی بیدار مغزی سے اسے ناکامی ہوئی۔ اس کے بعد ان باغیوں کا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ دوسری مرتبہ سامنا اس وقت ہوا جب مالک الاشتر اور اس کے ساتھیوں نے کوفہ میں بلوہ کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے انہیں حضرت معاویہ کے پاس بھیجا گیا جہاں آپ نے نہایت نرمی سے ان کی اصلاح کی کوشش کی۔ اس واقعے کی تفصیل آپ پڑھ چکے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مالک الاشتر اور اس کے ساتھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طاقت سے خاصے مرعوب ہوئے۔ روایتوں میں آتا ہے کہ جب باغی صعصعہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکڑ کر کھینچی تو آپ نے فرمایا: "ٹھہر جاؤ! اگر اہل شام کو علم ہو جائے کہ تم نے ان کے حاکم کے ساتھ یہ کیا ہے، تو میں انہیں تمہیں قتل کرنے سے نہیں روک سکوں گا۔"[1
] اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہل شام حضرت معاویہ سے کتنی محبت کرتے تھے۔
عراق اور مصر کی نسبت شام میں باغیوں کو ذرا سی بھی پذیرائی نہ ملی اور یہاں وہ اپنی شاخ قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئے کیونکہ شام میں حضرت معاویہ کی حکومت مستحکم تھی۔ ان وجوہات کی بنیاد پر باغی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنے منصوبے کی تکمیل میں سب سے بڑی سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بنتے ہی ان باغیوں نے شام پر حملے کا منصوبہ بنایا اور حضرت علی کا نام لے کر اہل مدینہ کو تیار کرنے کی کوشش کی لیکن سب مسلمانوں نے سرد مہری دکھائی اور باغیوں کا یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ جنگ جمل کے بعد انہوں نے اس رکاوٹ کو دور کرنے کا پلان بنایا۔
باغی تحریک ایک آئس برگ کی طرح تھی۔ جو لوگ اب تک سامنے آئے تھے، ان کی حیثیت آئس برگ کی اوپری سطح کی سی تھی جو نظر آتی ہے لیکن اس کا دسیوں گنا بڑا حصہ سمندر میں چھپا ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ باغی تحریک کا تھا۔ اب تک اس کے جو لوگ سامنے آئے تھے، وہ اس آئس برگ کا محض اوپری حصہ تھے۔ان کی بڑی طاقت چونکہ پہلے بصرہ کی جنگ اور پھر جنگ جمل میں ختم ہو چکی تھی، اس وجہ سے انہوں نے اب آخری داؤ لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ مالک الاشتر اور دیگر باغی لیڈروں اپنے خاموش ساتھیوں (Dormant Sections) کو حرکت میں لائے اور اب باغیوں کی پوری قوت سامنے آ گئی اور انہوں نے اہل شام پر فیصلہ کن ضرب لگانے کا فیصلہ کر لیا۔
جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ جنگ صفین کے بارے میں یہ بات غلط مشہور ہے کہ یہ حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی افواج کے درمیان لڑی گئی۔ یہ بات انہی باغیوں کے ساتھی ابو مخنف نے مشہور کی ہے اور یہ انہی کی بیان کردہ تفصیلات ہیں جن سے طبری اور بلاذری کی تواریخ بھری پڑی ہیں۔ یہ جنگ دراصل حضرت معاویہ اور باغی تحریک کے لیڈروں کے درمیان لڑی گئی۔ حضرت علی اور آپ کے مخلص ساتھیوں کی پوری کوشش تھی کہ جنگ نہ ہو اور آپ نے مسلسل سفارت کاری کے ذریعے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی۔
حضرت معاویہ نے حضرت علی کی بیعت کیوں نہ کی؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت معاویہ یہ بات جانتے تھے کہ قاتلین عثمان نے حضرت علی رضی اللہ عنہم کو گھیر رکھا ہے اور ان کی راہ میں آخری رکاوٹ اب حضرت معاویہ ہی ہیں۔ اگر آپ بھی بیعت کر لیتے تو اگلے دن ہی یہ باغی آپ کو معزول کروا دیتے اور پھر ان کی راہ بالکل ہی صاف ہو جاتی۔ باغیوں نے دیگر گورنروں کے ساتھ یہی کیا تھا اور ان کا مقصد یہی تھا کہ کمزور گورنر مقرر کروا کر ان کے پردے میں خود حکومت کی جائے۔ اسی خطرے کے پیش نظر حضرت معاویہ نے حضرت علی کی بیعت نہ کی۔ لیکن ان کی خلافت کا انکار بھی نہ کیا اور صرف یہی مطالبہ رکھا کہ اگر حضرت علی، ان باغیوں کو اپنے سے الگ کر دیں اور انہیں سز ادیں تو وہ ان کی بیعت کے لیے تیار ہیں۔
ابو مخنف وغیرہ نے حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین سفارت کاری کا حال لکھا ہے اور اس ضمن میں اپنی صحابہ دشمنی کے پیش نظر ایسی باتیں درج کی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان دونوں حضرات کے دل میں ایک دوسرے کے بارے میں بغض تھا۔ یہ بات خلاف حقیقت ہے۔ اگر ان کے دلوں میں بغض اور دشمنی ہوتی تو حضرت علی و معاویہ دو ماہ تک جنگ و جدال سے کیوں پرہیز کرتے؟ ایسے ہی ایک واقعے کو بیان کرتے ہوئے اس نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کچھ جملے لکھے ہیں، جن سے آپ کا اصل مقصد ظاہر ہوتا ہے:
آپ کے صاحب (حضرت علی) کا یہ خیال کہ انہوں نے عثمان کو شہید نہیں کیا، ہم اس کی تردید نہیں کرتے۔ لیکن کیا آپ لوگ قاتلین عثمان سے واقف نہیں ہیں؟ کیا آپ یہ نہیں جانتے کہ قاتلین عثمان ہی آپ کے صاحب (علی) کے ساتھی (بنے ہوئے ) ہیں؟ وہ ان قاتلین کو ہمارے حوالے کر دیں تاکہ ہم انہیں عثمان کے قصاص میں قتل کر دیں۔ اس کے بعد ہم آپ کے امیر کی اطاعت کرنے اور اتحاد جماعت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ [2]
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہما کی ذات سے کوئی مسئلہ نہ تھا بلکہ ان کا مطالبہ صرف ان باغیوں کو الگ کر کے سزا دینے کا تھا۔ دوسری طرف باغی پارٹی کا پورا آئس برگ اب ظاہر ہو چکا تھا اور یہ اب اکٹھے ہو کر کوفہ میں جمع تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ کے اس مطالبے کو کوفہ کی جامع مسجد میں پیش کیا تو کئی ہزار آدمیوں نے اٹھ کر کہا کہ ہم قاتل عثمان ہیں۔
حضرت عمرو بن عاص، حضرت معاویہ سے کیسے جا ملے؟
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی ہیں۔ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مصر فتح کیا اور پھر یہاں کے گورنر رہے۔ آپ نہایت ہی اعلی پائے کے سیاستدان تھے اور دور جاہلیت میں سفارت کا منصب آپ کے سپرد تھا۔ واقدی، ہشام کلبی اور ابو مخنف وغیرہ نے اپنی روایتوں میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی خاص طور پر کردار کشی کی کوشش کی ہے کیونکہ آپ نے نہایت اعلی تدابیر کے ذریعے باغیوں کی سازشوں کو ناکام بنایا اور پھر ان کی مصری شاخ کا قلع قمع کیا۔ انہوں نے آپ پر یہ بہتان لگایا ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کو معزول کیا تھا تو آپ ان کے خلاف ہو گئے، ان کی بہن آپ کے نکاح میں تھیں، جنہیں حضرت عمرو نے طلاق دے دی اور پھر لوگوں کو خلیفہ کے خلاف بھڑکانے لگے۔ یہ بے اصل روایات ہیں اور ان کا وضع کرنے والا آپ کے خلاف دل میں بغض رکھتا ہے۔ اگر فی الواقع ایسا ہی ہوتا تو حضرت معاویہ اور حضرت عثمان کے رشتے دار انہیں کس طرح اپنا قریبی ساتھی بلکہ کمانڈر انچیف بنا لیتے؟
جب باغیوں نے مدینہ کا محاصرہ کیا تو حضرت عمرو رضی اللہ عنہ مدینہ سے نکل کر فلسطین چلے گئے۔ یہاں جب آپ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی تو آپ نے بری طرح روئے اور اسی حالت میں دمشق چلے گئے۔ انہیں اپنے تن من کا بھی ہوش نہ تھا۔ اس سے حضرت عمرو اور عثمان رضی اللہ عنہما کی باہمی محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ [3]
واقدی وغیرہ نے ایسی جھوٹی روایتیں نقل کردی ہیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حضرت عمرو، دولت اور مصر کی گورنری کے لالچ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے جا ملے تھے۔ اس ضمن میں وہ ایک قصہ پیش کرتے ہیں جس میں آپ نے اپنے بیٹوں عبداللہ اور محمد سے مشورہ کیا۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما جو قدیم الاسلام اور نہایت ہی عابد و زاہد صحابی ہیں، نے اپنے والد کو مشورہ دیا کہ آپ گھر بیٹھ رہیں۔ محمد نے مشورہ دیا کہ آپ ملکی سیاست میں حصہ لیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ عبداللہ نے جو مشورہ دیا، وہ میری آخرت کے لیے اچھا ہے جبکہ محمد نے جو مشورہ دیا، وہ میری دنیا کے لیے اچھا ہے۔ یہ محض گھڑی ہوئی بے اصل روایت ہے جسے کی سند میں واقدی جیسے راوی موجود ہیں جنہیں محدثین نے کذاب قرار دیا ہے۔ [4]
حقیقت یہ ہے کہ اگر حضرت عمرو رضی اللہ عنہ میدان عمل میں نہ آتے تو باغیوں کا سامنا کرنے میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کافی مشکلات پیش آتیں کیونکہ باغی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام استعمال کر کے لوگوں کو حضرت معاویہ کے خلاف بھڑکا رہے تھے۔ چونکہ باغیوں کے منصوبوں کو حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنی بے مثال تدابیر سے خاک میں ملا دیا، اس وجہ سے ان کے راویوں نے آپ کو خاص کر نشانہ بنایا ہے۔
اکابر صحابہ کا رجحان کیا تھا؟
جو اکابر صحابہ، اس وقت موجود تھے، ان کا رجحان تین قسم کا تھا:
1۔ اکابر صحابہ کا ایک مختصر گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ باغیوں کی یہ کوشش رہی تھی کہ جب کوئی مخلص ساتھی حضرت علی کے ساتھ آ ملتا تو وہ اسے ہر ممکن طریقے سے بدظن کر کے علیحدہ کرنے کی کوشش کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم الاسلام صحابہ کی بہت کم تعداد تھی جو حضرت علی کے ساتھ موجود تھی۔ ان میں حضرت عمار بن یاسر، قیس بن سعد بن عبادہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم جیسے صحابہ شامل تھے۔
2۔ صحابہ کا ایک گروہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جن میں حضرت نعمان بن بشیر، عمرو بن عاص، معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہم جیسے لوگ شامل تھے۔
3۔ ایک گروہ غیر جانبدار تھا جس میں حضرت سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید، محمد بن مسلمہ، عبداللہ بن عمر، ابو موسی اشعری، اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم جیسے بزرگ صحابہ تھے۔
بدری صحابہ میں سے بہت کم تھے، جو جنگ صفین میں شریک ہوئے۔ مشہور تابعی محمد بن سیرین بیان کرتے ہیں:
عبد الرزاق عن معمر عن أيوب عن ابن سيرين: جب فتنہ کی آگ بھڑکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی تعداد 10,000 تھی۔ ان میں سے صرف 40 کے علاوہ باقی جنگ کے لیے نہ نکلے۔ معمر کہتے ہیں: یعنی حضرت علی کے ساتھ نہ نکلے۔ اس وقت اہل بدر میں سے 240 سے زائد صحابہ زندہ تھے جن میں سے صرف ابو ایوب انصاری، سہل بن حنیف اور عمار بن یاسر ہی حضرت علی (رضی اللہ عنہم)کے ساتھ تھے۔ [5]
عبد الرزاق عن معمر عن أيوب عن ابن سيرين: ابن سیرین کہتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص سے پوچھا گیا: ''آپ جنگ کیوں نہیں کرتے کیونکہ آپ تو اہل شوری میں سے ہیں اور اس معاملے میں بقیہ سب کی نسبت زیادہ حق دار ہیں؟'' فرمایا: ''میں اس وقت تک جنگ نہیں کروں گا جب تک کہ آپ لوگ مجھے ایسی تلوار نہ لا دیں جس کی دو آنکھیں، زبان اور ہونٹ ہوں اور وہ کافر اور مومن میں فرق کر سکے۔ میں نے جہاد کیا ہے اور میں جہاد کو سمجھتا ہوں۔ اگر کوئی شخص مجھ سے بہتر ہو تو میں اپنی جان کو روکنے والا نہیں ہوں۔ [6]
باغیوں نے اہل شام کے خلاف کیا منصوبہ بندی کی؟
اہل شام کے خلاف باغیوں کا منصوبہ اب یہ تھا:
1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گرد گھیرا ڈال دیا جائےاور ان کے مخلص ساتھیوں کو ان سے دور کر دیا جائے تاکہ وہ آزادانہ اپنی پالیسیوں کو نافذ نہ کر سکیں۔
2۔ اپنی پوری قوت اکٹھی کر کے اہل شام پر فیصلہ کن ضرب لگائی جائے تاکہ ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق نہ رہے۔
اس کے برعکس حضرت علی یہ چاہتے تھے کہ جیسے حضرات طلحہ و زبیر کے ساتھ سفارت کاری کے ذریعے معاملہ طے ہو گیا تھا، بالکل اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی معاملہ طے کر لیا جائے چنانچہ آپ نے حضرت معاویہ کو خطوط لکھے اور انہوں نے جوابی خطوط لکھے۔ افسوس کہ ان خطوط میں غالی راویوں نے بہت کچھ ملا دیا ہے۔
جنگ جمل کے بعد باغیوں نے بھی اپنی پوری طاقت کو بل سے باہر نکال لیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گرد گھیرا ڈال دیا۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ کسی طرح بھی آپ کو آزادانہ فیصلے نہ کرنے دیے جائیں ورنہ آپ اپنی حکمت و دانش سے ان کی تحریک کا خاتمہ کر دیں گے۔ چنانچہ ان باغیوں نے کوششیں شروع کیں کہ مخلص ساتھیوں کو کسی نہ کسی طریقے سے حضرت علی سے دور کیا جائے۔ ان کی اس کوشش کا اندازہ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے واقعے سے ہوتا ہے۔ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہمدان کے گورنر تھے۔ جب انہیں حضرت علی کی جانب سے بیعت کی دعوت ملی تو ان کے پاس آئے اور بیعت کر لی۔ اس کے بعد ان کے درمیان یہ مکالمہ ہوا:
جریر: آپ مجھے معاویہ کے پاس قاصد بنا کر بھیجیے کیونکہ میری ان سے دوستی ہے۔ میں انہیں آپ کی اطاعت کے لیے قائل کر لوں گا۔
مالک اشتر: آپ انہیں ہرگز معاویہ کے پاس نہ بھیجیے کیونکہ میرے خیال میں یہ دل سے معاویہ کے ساتھ ہیں۔
علی: انہیں جانے دیجیے تاکہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ یہ وہاں سے کیا خبر لاتے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ ایک خط بھی بھیجا جس میں حضرت علی نے حضرت معاویہ کو اپنی بیعت کی دعوت دی تھی اور یہ لکھا تھا کہ مہاجرین و انصار نے ان کی بیعت کر لی ہے۔ جب جریر شام پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ اہل شام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پر روتے ہیں اور انہوں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک قاتلین عثمان کو قتل نہ کریں گے، وہ اپنی بیویوں سے تعلق نہ کریں گے۔ جریر نے واپس آ کر حضرت علی کو ساری بات سنائی تو اشتر کہنے لگا:
اشتر: میں نے آپ کو پہلے ہی منع کیا تھا کہ جریر کو قاصد بنا کر نہ بھیجیں۔ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ اس کے دل میں آپ کی جانب سے عداوت اور کینہ بھرا ہوا ہے۔ اس کے بھیجنے سے بہتر تھا کہ آپ مجھے قاصد بنا کر روانہ کر دیتے۔ یہ مزے سے معاویہ کے پاس رہا اور جو دروازہ اپنے لیے کھلوانا چاہا، اسے کھلوا لیا ہو گا اور جسے بند کروانا چاہا، اسے بند کروا دیا۔
جریر: اگر تم شام جاتے تو وہ تمہیں تو ضرور ہی قتل کر دیتے کیونکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ تم حضرت عثمان کے قاتلوں میں سے ہو۔
اشتر: واللہ جریر! اگر میں جاتا تو ان کے جواب کا انتظار نہ کرتا اور معاویہ پر ایسا حملہ کرتا کہ انہیں ہر فکر سے نجات دلا دیتا۔ اگر امیر المومنین (علی) میری تسلیم کریں تو میں تمہیں اور تم جیسے آدمیوں کو ایسے قید خانے میں بند کروں کہ جہاں سے اس وقت تک تم نہ نکل سکو، جب تک یہ معاملات طے نہ ہو جائیں۔
حضرت جریر رضی اللہ عنہ اس سے ناراض ہوئے اور معاملات سے الگ ہو کر قرقیسیا چلے گئے۔[7]
جریر کے ساتھ، حضرت حنظلہ اور حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم ایسے شہر میں نہیں رہیں گے جس میں حضرت عثمان کو گالیاں دی جاتی ہیں۔[8]
اس سے باغیوں کی اس تہمت کی بھی نفی ہوتی ہے جس کے مطابق یہ حضرت عدی بن حاتم کو اپنا ساتھی بتاتے ہیں۔ایسا ہی ایک اور واقعہ ابو مسلم خولانی کے ساتھ پیش آیا:
حضرت علی اور معاویہ کے اختلاف کے دوران ابو مسلم خولانی لوگوں کی ایک جماعت لے کر حضرت معاویہ کے پاس پہنچے تاکہ انہیں حضرت علی کی بیعت پر آمادہ کریں اور جا کر حضرت معاویہ سے کہا: "آپ علی سے اختلاف کر رہے ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں آپ علم و فضل میں ان جیسے ہیں؟" آپ نے فرمایا: "واللہ! میرا یہ خیال نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ علی مجھ سے بہتر ہیں، افضل ہیں اور خلافت کے بھی مجھ سے زیادہ مستحق ہیں۔ لیکن کیا آپ لوگ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ عثمان کو ظلماً شہید کیا گیا ہے۔ میں ان کا چچا زاد بھائی ہوں، اس لیے مجھے ان کے خون کا قصاص لینے کا حق زیادہ ہے۔آپ جا کر علی سے کہہ دیجیے کہ قاتلین عثمان کو میرے سپرد کردیں، میں خلافت کو ان کے سپرد کر دوں گا۔ "
یہ حضرت اب حضرت علی کے پاس آئے تو ان سے اس معاملہ پر بات کی۔ لیکن انہوں نے کسی ایک قاتل کو بھی ان کے حوالے نہ کیا (کیونکہ وہ ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔) جب اس بات کا علم اہل شام کو ہوا تو وہ حضرت معاویہ کے ہمراہ جنگ کے لیے تیار ہو گئے۔[9]
باغیوں نے اب شام پر فیصلہ کن حملے کی تیاری شروع کر دی۔ حضرت معاویہ نے ہرگز حضرت علی رضی اللہ عنہما کی خلافت کو چیلنج نہیں کیا تھا اور نہ ہی ان کے مقابلے میں خود کسی خلافت کے دعوے دار تھے۔ ان کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ ان باغیوں کو گرفتار کر کے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے، پھر وہ بیعت کر لیں گے۔ حضرت علی کو بھی یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار نہ تھے لیکن وہ اس پوزیشن میں نہ تھے کہ باغیوں کو گرفتارکر سکتے۔ اب باغی تحریک کا پورا آئس برگ ظاہر ہو چکا تھا اور یہ لوگ مخلصین کو حضرت علی کے قریب پھٹکنے نہ دے رہے تھے۔
باغیوں نے اب شام پر حملے کا منصوبہ بنایا جس کے سبب حضرت معاویہ کو بھی اپنے دفاع پر مجبور ہونا پڑا۔ مالک الاشتر اس معاملے میں پیش پیش تھا اور ادھر ادھر سے لوگوں کو اکٹھا کر رہا تھا۔ بنو فزارہ کے ایک شخص نے اشتر سے کہا: "کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم اپنے شامی بھائیوں کے قتل کے لیے جائیں جیسا کہ تم ہمیں اپنے بصری بھائیوں کے قتل کے لیے لے گئے تھے۔ واللہ ! ہم یہ ہرگز نہ کریں گے۔ " اشتر نے سن کر کہا کہ لو اس کی خبر۔ یہ سن کر لوگ اس پر پل پڑے اور اسے لاتوں اور گھونسوں سے مار دیا۔ [10]