• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سالگرہ منانا بدعت کیسے؟؟؟

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
آج ایک فتوی پڑھنے کا اتفاق ہوا. اسمیں لکھا تھا کہ سالگرہ منانا بدعت ہے۔ میں سمجھنا چاہتا ہوں کہ یہ بدعت کیسے ہے؟؟؟
فتوی لنک
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
شمولیت
فروری 04، 2016
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
27
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ¡ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي* وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي* وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي * يَفْقَهُوا قَوْلِي

بدعت کا لفظی معنی نیا کام ہوتا ہے لیکن دین میں میں بدعت کا مطلب دین میں کوئی نیا کام نکالنے کا ہے۔ یہ حرام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علی والہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں لے کر جائے گی۔
جہاں تک سال گرہ کا معاملہ ہے تو اِس کا دین سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں اور نہ ہی کوئی یہ سمجھ کر سال گرہ مناتا ہے کہ اُس کو سال گرہ منانے کے ثواب ملے گا۔
لیکن سال گرہ بدعت نہیں ہے تو اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اِس کو منایا جائے۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ سال گرہ خالص یہود و نصارہ کا فعل ہے اور اُن کی تہذیب کا حصہ ہے اور یہ کبھی بھی مسلمانوں کی تہذیب کا حصہ نہیں رہی۔
اللہ تعالٰی نے قران مجید میں فرمایا ہے
﴿یَآ أیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾(آل عمران: ۱۵۶)
اے ایمان والوتم نہ ہو (جاوٴ)ان کی طرح جو کافر ہوئے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے۔
جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا“․ (سنن ابو داوٴد، کتاب اللباس، رقم الحدیث: ۴۰۳۰)
اِس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ یہود و نصارہ کے اِس فعل یعنی سال گرہ سے دور رہا جائے۔

اور صحابہؓ کا عمل بھی ایسا ہی تھا کہ وہ مشرکین یہود و نصارہ کے طریقے کی مخالفت کرتے تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں جب سلطنتِ اسلامیہ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیاتو حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو اس بات کی فکر دامن گیر ہوئی کہ مسلمانوں کے عجمیوں کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے اسلامی امتیازات میں کوئی فرق نہ آ جائے ، اس خطرے کے پیش ِ نظر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک طرف مسلمانوں کو اس سے بچنے کی تلقین کی، تو دوسری طرف غیرمسلمین کے لیے بھی دستور قائم کیا۔

جیسا کہ حضرت ابو عثمان النہدی رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ ہم عتبة بن فرقد کے ساتھ آذربائیجان میں تھے کہ ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک خط بھیجا (جس میں بہت سارے احکامات و ہدایات تھیں، منجملہ ان کے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ ) ”تم اپنے آپ کو اہلِ شرک اور اہلِ کفر کے لباس اور ہیئت سے دور رکھنا“
ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا کہ

”اے مسلمانوں! ازار اور چادر کا استعمال رکھو اور جوتے پہنو․․․․ اور اپنے جدِ امجد اسماعیل علیہ السلام کے لباس (لنگی اور چادر)کو لازم پکڑو اور اپنے آپ کو عیش پرستی اور عجمیوں کے لباس اور ان کی وضع قطع اور ہیئت سے دور رکھو،( مبادا کہ تم لباس اور وضع قطع میں عجمیوں کے مشابہہ بن جاوٴ )․․․․اور موٹے ، کھردرے اور پرانے لباس پہنو“(شعب الایمان، رقم الحدیث ۵۷۷۶، ج۸، ص۲۵۳)
اور دوسری طرف اہلِ نصاریٰ اور یہود کو دارالاسلام میں رہنے کی صورت میں بہت سے اُمور کا پابند کیا، جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہت ہی مظبوط انداز میں اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی اَقدار کی حفاظت کی گئی ہے۔

چنانچہ! فتح شام کے موقع پر نصاریٰ شام کے عہدِ صلح کے بعد جو شرائط طے کی گئیں وہ یہ تھیں:

”ہم (نصاریٰ شام) مسلمانوں کی تعظیم و توقیر کریں گے، اور اگر مسلمان ہماری مجالس میں بیٹھنا چاہیں گے توہم ان کے لیے مجلس چھوڑ دیں گے، اور ہم کسی امر میں مسلمانوں کے ساتھ تشبہ اور مشابہت اختیار نہیں کریں گے، نہ لباس میں ، نہ عمامہ میں ، نہ جوتے پہننے میں ، اور نہ سر کی مانگ نکالنے میں ، ہم اُن جیسا کلام نہیں کریں گے، اور نہ مسلمانوں جیسا نام اور کنیت رکھیں گے، اور نہ زین کی سواری کریں گے، نہ تلوار لٹکائیں گے، نہ کسی قسم کا ہتھیار بنائیں گے، اور نہ اُٹھائیں گے، اور نہ اپنی مہروں پر عربی نقش کندہ کروائیں گے، اور سر کے اگلے حصے کے بال کٹوائیں گے، اور ہم جہاں بھی رہیں گے، اپنی ہی وضع پررہیں گے، اور گلوں میں زنار لٹکائیں گے، اور اپنے گرجاوٴں پر صلیب کو بلند نہ کریں گے، اور مسلمانوں کے کسی راستہ اور بازار میں اپنی مذہبی کتاب شائع نہیں کریں گے، اور ہم گرجاوٴں میں ناقوس نہایت آہستہ آواز میں بجائیں گے، اور ہم اپنے مُردوں کے ساتھ آگ لے کر نہیں جائیں گے(یہ آخری شرط مجوسیوں سے متعلق ہے)۔

حضرت عبد الرحمن بن غنم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ شرائط نامہ لکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے ملاحظہ کرنے کے لیے رکھا، تو انہوں نے اس شرائط نامہ میں کچھ مزید اضافہ کروایا جو یہ تھا:

” ہم کسی مسلمان کو ماریں گے نہیں ، یعنی تکلیف نہیں پہنچائیں گے، ہم نے انہی شرائط پر اپنے لیے اور اپنے اہلِ مذہب کے لیے امان حاصل کیا ہے، پس اگر ہم نے شرائط مذکورہ بالا میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی تو ہمارا عہد اور امان ختم ہو جائے گا اور جو معاملہ اہلِ اسلام کے دشمنوں اور مخالفوں کے ساتھ کیا جاتا ہے وہی معاملہ ان کے ساتھ کیا جائے گا“(تفسیر ابن کثیر، سورہ توبة:۲۹)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ویسے قدرتی طور پر سال گزرنے اور عمر ایک سال بڑھنے کی خوشی ہوتی ہے۔ چاہے اسے منایا جائے یا نہ منایا جائے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
وقالت اللجنة في موضع آخر جوابا على سؤال عن الاحتفالات:
أما ما لم يقصد به التبرك ولا المثوبة: كالاحتفال بميلاد الأولاد، وأول السنة الهجرية، أو الميلادية، وبيوم تولي الزعماء لمناصبهم - فهو وإن كان من بدع العادات، إلا أن فيه مضاهات للكفار في أعيادهم، وذريعة إلى أنواع أخرى من الاحتفالات المحرمة، التي ظهر فيها معنى التعظيم والتقرب لغير الله، فكانت ممنوعة؛ سدًّا للذريعة، وبعدًا عن مشابهة الكفار في أعيادهم واحتفالاتهم، وقد قال صلى الله عليه وسلم: ( من تشبه بقوم فهو منهم)
.http://www.alifta.net/Search/ResultD...stKeyWordFound
دین صرف عقائد و عبادات ہی کا نام نہیں ، بلکہ دین طرز زندگی ،تمدن و تہذیب کے امتیاز کا مطالبہ بھی کرتا ہے ،
اس موضوع پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ’’ اقتضاء الصراط المستقیم ‘‘ میں تفصیل سے لکھا ہے
سرور و شرور کےمخصوص ایام منانا قوموں کے امتیازی نشان ہوا کرتے ہیں ،
اور مادی و سیاسی طور پر غالب اقوام کے اجتماعی اعمال اور تمدنی رنگ بھی مغلوب قوموں میں ’’ غالب ‘‘ ہوا کرتے ہیں،
جب ہم غالب تھے تو ہماری سادگی بھی غیروں کے ہاں ترجیحی طور پر مثالی حیثیت رکھتی تھی ،
جب غیر ہم پر غالب آئے تو ان کی عادات و رسوم ہمارے لئے ’’ مثالی ‘‘ حیثیت ٹھہرے ،
ان سطور سے ۔محض عادات ۔ کی اہمیت عیاں ہے ،
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بعض چیزیں معاشرتی ہوتی ہیں جن کا دین نے کہیں ذکر نہیں کیا ہوتا، نہ نفیا نہ اثباتا۔ وہ اتفاقا کسی ایک قوم سے چلتی ہیں اور دنیا میں پھیل جاتی ہیں۔ اس میں غالب و مغلوب ہونا ضرروری نہیں ہوتا اور میرا خیال ہے کہ اس میں مشابہت کفار بھی ثابت نہیں ہوتی کیوں کہ اس چیز میں ان کی کوئی خصوصیت نہیں ہوتی۔
مشابہت کفار کے مسئلے میں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ چیز کفار کے ساتھ خاص ہے یا نہیں؟ اور اگر نہیں ہے تو ان کی مشابہت کی نیت سےکی جا رہی ہے یا نہیں۔ ورنہ پھر بہت سی استعمال کی چیزیں بھی کفار کی ہی بنائی ہوئی ہیں اور انہوں نے ہی اولا استعمال کی ہیں۔ ان سب پر ہم یہ حکم کیوں نہیں لگاتے؟
سالگرہ میں اس کے علاوہ بھی بہت سی قباحتیں ہیں۔ مثلا وقت کا اور پیسے کا ضیاع، میوزک، مخلوط محافل، انعامات لانے کے لیے دباؤ وغیرہ۔
اگر یہ سب نہ ہو اور صرف مبارک باد دے دی جائے یا کوئی خوشی میں اپنے اعزاء و اقارب کو کچھ کھلا دے تو اس کی گنجائش ہونی چاہیے۔
و اللہ اعلم

یاد رہے کہ ہمارے علماء بھی اسے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ اس لیے یہ کوئی فتوی نہیں ہے بلکہ میری رائے ہے فقط۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
میوزک تو نعت اور مقدس قوالیوں میں بهی موجود ہے ، تو سالگرہ کی محفل میں جسکا انعقاد ہی بغرض تفریح و ضیافت ہوتا ہے ، ممانعت کیوں ؟ یا اعتراض کیوں !
ایک چیز ہم میں نہیں تهی ، اس چیز کو ہم نے امپورٹ کیا غیر ادیان سے اور اب اس پر مختلف باتوں سے اس معاملہ کو ہلکا پهلکا ثابت کرنا کیا معنی ؟
ہر بدعت کو پوری شدت سے روک دیا جانا ہی بهتر ہے ۔
والسلام
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
میوزک تو نعت اور مقدس قوالیوں میں بهی موجود ہے ، تو سالگرہ کی محفل میں جسکا انعقاد ہی بغرض تفریح و ضیافت ہوتا ہے ، ممانعت کیوں ؟ یا اعتراض کیوں !
ایک چیز ہم میں نہیں تهی ، اس چیز کو ہم نے امپورٹ کیا غیر ادیان سے اور اب اس پر مختلف باتوں سے اس معاملہ کو ہلکا پهلکا ثابت کرنا کیا معنی ؟
ہر بدعت کو پوری شدت سے روک دیا جانا ہی بهتر ہے ۔
والسلام
غیر ادیان سے امپورٹ کرنا تب کہا جاتا جب یہ ان ادیان کا حصہ ہوتی۔ عمر بڑھنے کی خوشی تو انسان کو روز اول سے رہی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت انس رض کو عمر میں برکت کی دعا دی تھی۔ اس سے کم از کم یہ تو پتا چلتا ہے کہ عمر میں برکت ہونا یا عمر زیادہ ہونا ایک اچھی چیز ہے۔
معاملہ صرف یہ ہے کہ ہم میں یہ ایک خاص طریقے سے منائی نہیں جاتی تھی اور ایک قوم نے دین نہ سمجھتے ہوئے منانا شروع کر دیا۔ پھر ہم نے بھی منانا شروع کر دیاانہیں دیکھ کر۔
لیکن میں عرض کر رہا ہوں کہ اس قوم نے جو خرافات اس میں پیدا کی تھیں انہیں بھی اختیار نہ کیا جائے بلکہ صرف خوشی منانا ہو جائز حدود میں رہ کر تو اس میں کیا حرج ہے؟
کیک کاٹنا، تالیاں پیٹنا، ہیپی برتھ ڈے کے نعرے لگانا چلو ان کی خرافات سہی تو ہم وہ نہیں کر لیتے۔
ہر بدعت کو شدت سے روک دیا جانا چاہیے لیکن پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ بدعت دین میں نئے کام ایجاد کرنے کا نام ہے اور سالگرہ کو کون ثواب سمجھ کر کرتا ہے جو اس کا تعلق دین سے ہو۔
 
Top